مولانا ندیم الواجدی
28 جنوری،2022
حضور صلی اللہ علیہ وسلم
سلامت تھے:
حضرت علیؓ بھی یہ افواہ
سن چکے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہوچکے ہیں، دوسرے تمام مسلمانوں
کی طرح وہ بھی دل شکستہ اور مایوس تھے، جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کہیں نظر نہ
آئے تو انہوں نے لاشوں کے درمیان دیکھنا شروع کیا، جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم
وہاں بھی نہ ملے تو انہوں نے سوچا کہ یہ ممکن نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم
بقید حیات ہوں اور میدان چھوڑ جائیں ، اور وہ شہید وں میں بھی کہیں نظر نہ آئیں،
اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے ہم سے ناراض ہوکر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمان
پر اٹھا لیا ہے۔ اب اللہ کو خوش کرنے کا یہی راستہ باقی بچا ہے کہ دشمنوں سے لڑتے
لڑتے جان دے دی جائے۔یہ سوچ کر انہوں نے نیام پھینک دی اور تلوار لے کر دشمنوں پر
پل پڑے ، یہ حملہ اتنا زبردست تھا کہ دشمن کائی کی طرح چھٹ گئے ۔حضرت علیؓ نے
دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ دشمنوں نے گھیر رکھا ہے، رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ کو پکارا، علی انہیں روکو، حضرت علیؓ دشمنوں پر
جھپٹ پڑے اور انہیں مار بھگایا،کچھ ہی لمحوں کے بعد مشرکین کے ایک اور گروہ نے آپ
صلی اللہ علیہ وسلم کو نرغے میں لے لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر حضرت علیؓ
کو آواز دی، حضرت علیؓ نے انہیں بھی پسپا کردیا ۔(تاریخ دمشق:42؍76)
حضرت علیؓ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم و زندہ سلامت دیکھ کر اللہ کا شکرادا کیا ،
مگر دوسرے صحابہ اب بھی بے خبر تھے بلکہ زیادہ تر یہی سمجھ رہے تھے کہ حضور صلی
اللہ علیہ وسلم شہید ہوچکے ہیں۔ مدینہ منورہ تک یہ خبر پہنچ چکی تھی ، ہر گھر میں
کہرام مچا ہوا تھا ، عورتیں او ربچے روتے ہوئے اپنے گھروں سے باہر نکل آئے تھے ،
ہر شخص غم کی مجسم تصویر بنا ہوا تھا۔
حضرت علیؓ کے بعد کعب بن
مالکؓ پہلے شخص ہیں جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم
کی آنکھوں سے پہچان لیا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم از سرتاپازرہ پوش تھے، آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کا چہرہ بھی آہنتی خود سے ڈھکا ہوا تھا،صرف آنکھیں نظر آرہی
تھیں جو انتہائی روشن اورچمک دار تھیں۔ صحابہ کرامؓ ان آنکھوں کو اچھی طردیکھے
ہوئے تھے اور خوب پہچانتے تھے، جب کہ دشمن ناواقف تھے۔ اتفاق سے حضور صلی اللہ
علیہ وسلم ا س وقت کعب بن مالکؓ ہی کی زرہ زیب تن کئے ہوئے تھے ، انہوں نے حضور کو
دیکھا تو فوراً پہچان لیا ، وہ خوشی سے چیخ اٹھے ارے مسلمانو! خوش ہوجاؤ ، رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سلامت ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں چپ
رہنے کے لئے فرمایا: مگر کعب بن مالکؓ کی آواز بعض دوسرے صحابہؓ تک پہنچ چکی تھی
آناً فاناً یہ خبر پھیل گئی ، مسلمان خوش بھی ہو گئے ،او رپرجوش بھی، مگر اس عرصے
میں بڑا نقصان ہوچکا تھا ، کئی بڑے صحابہ شہید ہوچکے تھے، البتہ جو زندہ تھے ان کے
لئے اطمینان اور خوشی کی بات یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بقید حیات
ہیں۔(سیرت ابن ہشام :3؍39)
ذرا سی دیر میں یہ خبر
مدینے بھی پہنچ گئی، جو لوگ غم سے بے تاب تھے وہ خوشی سے چہک اٹھے۔ ایک انصار ی
خاتون تھیں، ان کے شوہر، والد، او ربھائی اس غزوہ میں شہید ہوچکے تھے،فطری طور پر
انہیں اپنے تین عزیزوں کی موت کا صدمہ تھا ، مگر وہ ضبط کئے ہوئے تھیں، لیکن جب ان
تک یہ افواہ پہنچی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہوچکے ہیں تو ان کی کیفیت
عجیب ہوگئی ، وہ میدان کی طرف بھاگنے لگیں او رکہنے لگیں کہ کوئی مجھے حضور صلی
اللہ علیہ وسلم کی خیریت کے بارے میں بتلائے ، لوگوں نے انہیں بتلایا کہ اماں!
حضور صلی اللہ علیہ وسلم خیرت سے ہیں۔ کہنے لگیں کہ مجھے اطمینان اس وقت ہوگا جب
میں اپنی آنکھوں سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لوں گی ۔ چنانچہ وہ جنگ کے
میدان میں پہنچیں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تب جاکر
مطمئن ہوئیں اور یہ کہتے ہوئے واپس ہوئیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خیرت کے
بعد تمام مصیبتیں ہلکی ہیں( الکامل فی التاریخ:2؍113)
میدان سے اُحد کی طرف:
اس کے بعد رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم جبل اُحد کی طرف بڑھے ،کیونکہ بظاہر جنگ ختم ہوچکی تھی، اگر چہ اکا
دکا جھڑپیں جاری تھیں۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ حضرت ابوبکرؓ ،
حضرت عمرؓ ، حضرت علیؓ، حضرت طلحہؓ اور حارث بن صمہؓ وغیرہ صحابہ کرامؓ تھے جو آپ
صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے حصار میں لے کر چل رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
پہاڑ پر چڑھنے کا ارادہ فرمایا، مگر چڑھ نہیں سکے، حضرت طلحہؓ نیچے بیٹھ گئے ، آپ
ان کے کاندھوں پر پاؤں مبارک رکھ کر اوپر چڑھے ، آپ صلی للہ علیہ وسلم نے خوش
ہوکر انہیں جنت کی بشارت دی۔( سنن الترمذی :4؍201
، رقم الحدیث: 1692 ، مسند احمد بن حنبل:3؍33
، رقم الحدیث:1417)آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت زخمی بھی تھے اور تھکے ہوئے بھی
تھے۔پہاڑ کی ایک وسیع گھاٹی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہوئے ،حضرت
علیؓ پانی لے کر آئے، چہرہ انور سے خون صاف کیا، سر بھی دھویا ،کیونکہ وہاں سے
بھی خون بہا تھا۔ روایات میں ہے کہ حضرت فاطمہؓ نے بھی چہرہ انور سے خون صاف کرنے
او ردھونے میں اپنے شوہر کی مدد کی، جب خون برابر بہتا رہا تو حضرت فاطمہؓ نے
چٹائی کا ایک ٹکڑا جلایا اور ا س کی راکھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زخم پر لگائی
تب خون رکا ۔کچھ دیر بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا او ربیٹھ کر ظہر کی
نماز پڑھائی ، صحابہ کرامؓ نے بھی بیٹھ کر اقتدا کی۔( صحیح البخاری:5؍101
، رقم الحدیث :4075)
أبی بن خلف کاعبرت ناک
انجام:
ابھی آپ صلی اللہ علیہ
وسلم گھاٹی میں تشریف فرما ہی تھے کہ أبی ابن خلف وہاں آ دھمکا ۔ اس نے دور سے
ہی یہ کہنا شروع کردیا تھا کہ کہاں ہیں محمد، محمد کدھر ہیں، اگر آج وہ میرے ہاتھ
سے بچ گئے تو میری خیر نہیں۔ صحابہؓ نے یہ بات سنی تو عرض کیا: یا رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم ! اگر اجازت ہوتو ہم میں سے کوئی اسے قتل کردے، آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا : اسے یہاں آنے دو، جب وہ قریب آیا تو رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے ابن الصمہؓ سے ان کانیزہ لیا
اور أبی بن خلف کی گردن کے اس حصے پر وار کیا جو زرہ اور خود کے درمیان کھلا ہوا
تھا۔ وہ زخم کھا کر پہلے تو زمین پر گرا، پھر چیختا چلاتا اپنے لوگوں کی طرف بھاگا
۔ وہ یہ کہتا ہوا بھاگ رہاتھا کہ لوگو! محمد نے مجھے قتل کر ڈالا، لوگوں نے اس کا
زخم دیکھا اور اسے تسلی دیتے ہوئے کہا کیوں چلاّ تے ہو، معمولی زخم ہے ، صحیح
ہوجائے گا ، کہنے لگا ، تم کیا جانو اس میں کس قدر تکلیف ہے، خدا کی قسم اگر اس
تکلیف کو تمام اہل حجاز پر تقسیم کردیا جائے تو وہ سب اس کی تاب نہ لاکر ہلاک
ہوجائیں، لات و عزیٰ کی قسم اگر وہ مجھ پر تھوک بھی دیتے تو میں قتل ہوجاتا، کیوں
کہ انہوں نے فرمایا تھا کہ وہ مجھے اپنے ہاتھوں سے قتل کریں گے۔
أبی بن خلف قریش کے
نمایاں افراد میں سے تھا، جنگ بدر میں قید ہوا،مگر اسے رہا کردیا گیا، اس احسان کا
صلہ اس نے یہ دیا کہ مکے واپس جاکر قسم کھائی کہ میں اپنے اس گھوڑے پر سوار ہوکر
محمد کو قتل کروں گا، اس گھوڑے کا نام العُود تھا۔ وہ اسے بڑے ناز و نعم سے پال
رہا تھا ،اسے روزانہ مکئی کے دانے کھلائے جاتے جو ا س زمانے میں بڑے قیمتی سمجھے
جاتے تھے ، اور جانوروں کے لئے صحت افزا بھی تھے۔ جب یہ بات رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے سنی تو ارشاد فرمایا : انشاء اللہ میں ہی اسے کیفر کردار تک پہنچاؤں
گا ۔ اُحد کے دن وہ اسی گھوڑے پر سوار ہوکر آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کے ہاتھوں زخم کھاکر بھاگا۔ جب تک وہ زندہ رہا اسی طرح درد سے بلبلا تا رہا یہاں
تک کہ مکہ مکرمہ سے چھ میل پہلے مقام سرف میں پہنچ کر واصل جہنم ہوگیا۔ ( الدالائل
للبیہقی :3 ؍259،
المستدرک للحا کم:2؍357،
رقم الحدیث :3263،البدایہ النہایہ:4؍32)
زخمیوں کی دیکھ بھال:
مسلمانوں کا جانی نقصان
بھی بہت ہوا اور وہ زخمی بھی بڑے تعداد میں ہوئے۔زخمیوں کی مرہم پٹی کے لئے مسلمان
خواتین میدان میں موجود تھیں، تمام مجاہدین دن بھر کے تھکے ہوئے تھے، بھوکے اور
پیاسے بھی تھے۔ حضرت ابوطلحہؓ کی بیوی حضرت ام سُلیمؓ او رام المومنین حضرت عائشہؓ
پانی کے مشکیزے بھر بھر کر لاتیں اور مجاہدین کو پلاتیں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم
کی لخت جگر حضرت فاطمہؓ بھی یہ خدمت انجام دے رہی تھیں ،بچوں میں حضرت انسؓ بھی دوڑ
دوڑ کر پانی لاتے اور زخمیوں کو پلاتے، ان کی عمر اس وقت صرف تیرہ برس تھی۔
مسلمانوں کو اس وقت راحت
و آرام کی سخت ضرورت تھی، اللہ نے اپنے ان بندو ں پر اونگھ طاری کردی، جو سکینہ
کا پیش خیمہ ثابت ہوئی ، حالانکہ یہ وہ وقت نہیں تھا کہ کوئی آنکھ جھپکتی ،کیوںکہ
دشمن سر پر کھڑا ہوا تھا ،مگر کچھ لمحوں کے لیے تمام مسلمانوں پر نیند طاری ہوگئی،
حال یہ ہوا کہ حضرت ابوطلحہؓ کے ہاتھوں سے بار بار تلوار نیچے گر جاتی تھی، جب اس
کیفیت سے باہر نکلے تو تمام مسلمان تازہ دم ہوچکے تھے، ان میں ایک طرح کانشاط پیدا
ہوچکا تھا، اور ساری تھکن دور ہوگئی تھی۔(البدایہ والنہایہ:5؍414،صحیح
البخاری: 5؍37،
رقم الحدیث :3811 ، تفسیر ابن کثیر :2؍144،آیت
154 آل عمران)
کتنے مسلمان شہید ہوئے ؟
غزوہ اُحد میں مشرکین کے
کل بائیس افراد مارے گئے ، جب کہ ستر مسلمانوں نے شہادت پائی۔ اس سلسلے میں حافظ
ابن حجر عسقلانیؒ نے ایک عجیب و غریب بات لکھی ہے کہ بدر کے قیدیوں کے سلسلے میں
مسلمانوں کواختیار دیا گیا تھا کہ اگر وہ چاہیں تو ان تمام قیدیوں کو قتل کردیں او
رچاہیں تو ان کا فدیہ لے کر انہیں آزاد کردیں، ساتھ ہی یہ بھی بتلادیا گیا تھا کہ
اگر تم نے دوسری صورت اختیار کی یعنی قیدیوں کو فدیہ لے کر آزاد کردیا تو آنے
والے سال کی جنگ میں تمہارے ستّر آدمی شہید ہوں گے ۔مسلمانوں نے فدیہ لیا، کیونکہ
اس وقت کے حالات او رمصلحت کا تقاضا یہی تھا، اس لئے غزوہ اُحد میں ستّر صحابہؓ کی
شہادت کا واقعہ پیش آیا،ان میں زیادہ تعداد انصار کی تھی۔( فتح الباری :7؍351)
ابوسفیان کی دھمکی:
رسول اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم پہاڑ پر تشریف فرما تھے، کچھ صحابہؓ بھی وہاں موجو د تھے ، اتنے میں قریش کا
سردار ابوسفیان وہاں آدھمکا او ربآواز بلند پوچھنے لگا: اے لوگو! کیا محمد زندہ
ہیں؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب خاموش رہیں، کوئی جواب نہ
دے۔ابوسفیان نے تین مرتبہ یہ سوال کیا،تینوں مرتبہ خاموشی رہی، اس نے پوچھا کیا تم
میں ابن أبی قحافہ(ابوبکرؓ) زندہ ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب
خاموش رہیں، کوئی جواب نہ دے، اس نے تین مرتبہ یہ بات پوچھی مگر کسی نے کوئی جواب
نہیں دیا ، اس نے پھر پوچھا کیا عمر بن الخطابؓ زندہ ہیں؟ یہ سوال بھی تین مرتبہ
کیا، جب اس کا بھی کوئی جواب نہیں آیا تو خوش ہوکر اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا کہ
یہ سب قتل ہوچکے ہیں، اگر زندہ ہوتے تو جواب دیتے ، اے لوگو! سن لو، لڑائی کا ڈول
اوپر نیچے ہوتا رہتا ہے ، آج کا دن بدر کے بدلے کا دن ہے، اس نے ہبل کا نعرہ بھی
لگایا ، اور کہا اے ہبل! تو بلند ہو، تیرا دین بلند ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کے حکم پر حضرت عمرؓ نے بآواز بلند کہا کہ اللہ ہی سب سے برترواعلیٰ ہے،
ابوسفیان کہنے لگا کہ ہماراعزی ہے ، تمہارا کوئی عزیٰ نہیں، حضرت عمرؓ نے جواب دیا
اللہ ہمارا آقا ، ہمارا معین و مددگار ہے
، تمہارا کوئی والی نہیں ہے، ایک روایت میں ہے کہ حضرت عمرؓ نے یہ بھی کہا کہ ہم
اور تم برابر نہیں ہوسکتے ، ہمارے مقتولین جنت میں ہیں او رتمہارے مقتولین جہنم
میں ہیں۔ اس کے بعد اس نے حضرت عمرؓ سے کہا: اے عمرؓ میرے پاس آؤ، رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عمر! جاؤ دیکھو وہ کیا کہنا چاہتا ہے ، جب حضرت
عمرؓ اس کے قریب گئے تو اس نے کہا: اے عمر! میں تمہیں قسم دیتا ہوں یہ بتلاؤ کیا
ہم نے محمد کو قتل کردیا ہے، حضرت عمرؓ نے فرمایا نہیں ! خدا کی قسم وہ زندہ ہیں
او راس وقت بھی وہ تیری باتیں سن رہے ہیں ، ابوسفیان نے مایوسی سے کہا اے عمر، ابن
قمیّہ کے مقابلے میں تم میرے نزدیک زیادہ سچے ہو۔(جاری)
28 جنوری،2022، بشکریہ: انقلاب،نئی دہلی
Related Article
Part:
7- Adjective of Worship مجھے صفت ِ عبدیت زیادہ پسند اور عبد کا لقب زیادہ محبوب ہے
Part: 22- Bani Awf, the Prophet Has Come اے بنی عوف وہ نبیؐ جن کا تمہیں انتظار تھا، تشریف لے آئے
Part:
23- Moon of the Fourteenth Night ہمارے اوپر ثنیات الوداع کی اوٹ سے چودہویں رات کا چاند طلوع
ہوا ہے
Part: 24- Madina: Last Prophet's Abode یثرب آخری نبیؐ کا مسکن ہوگا، اس کو تباہ کرنے کا خیال دل
سے نکال دیں
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism