مولانا ندیم الواجدی
16اکتوبر،2020
دونوں قافلوں کی آمد
رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کی زبان مبارک سے ان دونوں قافلوں کے متعلق یہ باتیں سن کر کچھ لوگ مکے سے
باہر تنعیم کی طرف بھاگے، انہیں بھورے رنگ کا اونٹ تو اس طرح نہیں ملا جس طرح آپ
نے فرمایا تھا، ہوسکتا ہے وہ قافلے میں کسی دوسری جگہ چلا گیا ہو، البتہ انہوں نے
قافلے کے لوگوں سے برتن کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے تصدیق کی کہ واقعی ایسا ہی ہوا
ہے، ہمیں برتن ڈھکا ہوا ملا، لیکن اس میں پانی موجود نہ تھا۔ دوسرا قافلہ پہنچا تو
اس نے بھی اپنے اونٹ بدکنے کی تصدیق کی اور یہ بھی تسلیم کیا کہ ہماراایک اونٹ
بھاگ گیا تھا، پھر ہم نے ایک آواز سنی جس نے ہمیں اونٹ کے بھاگنے کی سمت بتلائی،
ادھر چل کر ہم نے اونٹ کو پکڑ لیا۔ (سیرت ابن ہشام)
بیت المقدس کے متعلق
سوالات
صحنِ حرم میں مشرکین مکہ
کی محفلیں ہر روز لازماً لگتی تھیں، صبح کا وقت ان محفلوں کے لئے نہایت موزوں تصور
کیا جاتا تھا۔ مطعم بن عدی، عمرو بن ہشام، ولید بن مغیرہ جیسے شرپسند ان محفلوں کے
روح رواں ہوا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی چچازاد بہن حضرت ام
ہانیؓ بنت ابی طالب کے گھر سے سیدھے صحن حرم میں پہنچے اور ان میں سے کسی ایک محفل
میں جا کر بتلایا کہ رات مجھے بیت المقدس لے جایا گیا، وہاں میری ملاقات
ابوالانبیاء حضرت ابراہم خلیل اللہ سے ہوئی، حضرت موسیٰؑ اور حضرت عیسیٰؑ سے ہوئی۔
یہ سن کر ولید بن مغیرہ پہلے تو خوب ہنسا، پھر کہنے لگا اچھا ذرا ٹھہرو، میں اور
لوگوں کو بھی بلا لیتا ہوں، تم سب کے سامنے اپنے اس حیرت انگیز سفر کا قصہ سنانا۔
یہ کہہ کر اس نے قبیلوں کا نام لے لے کر آوازیں دینی شروع کیں، ولید کی آواز
سنتے ہی لوگ دوڑ پڑے، ذرا سی دیر میں وہاں لوگوں کا ایک بڑا ہجوم ہوگیا۔ ولید نے
کہا اے محمد! اب بتلاو تم ہمیں کیا سنارہے تھے؟ آپؐ نے پھر وہی باتیں
دہرائیں۔لوگوں نے ہنسنا شروع کردیا۔ کچھ لوگوں نے فقرے بھی کسے، ان ہی میں سے کسی
نے ثبوت مانگا، آپؐ نے ان دو قافلوں کا ذکر فرمایا کہ وہ مجھے راستے میں ملے تھے
اور ان کے ساتھ یہ واقعات پیش آئے تھے۔ وہ قافلے مکہ واپس پہنچے تو انہوں نے اپنے
ساتھ پیش آنے والے واقعات کی تصدیق بھی کی،ا س سلسلے کی بعض تفصیلات گزشتہ کالموں
میں گزر چکی ہیں۔
بیہقیؒ کی ایک روایت میں
ہے کہ اس ہجوم میں سے کسی نے پوچھا کہ فلاں تجارتی قافلہ جو شام سے واپس آرہا ہے
کب تک پہنچے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بدھ کے دن شام تک واپس آجائے
گا۔ اتفاق ایسا ہوا کہ بدھ کے دن شام تک قافلہ مکے میں داخل نہیں ہوا، آفتاب غروب
ہونے کے قریب ہوگیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی، اللہ
نے سورج کو غروب ہونے سے روک دیا، یہاں تک کہ قافلہ مکہ مکرمہ کے اندر داخل ہوگیا۔
یہ واقعہ معجزۂ حبس شمس سے موسوم ہے۔ مشرکین نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ
قافلہ آپ کے بتلائے ہوئے وقت کے مطابق پہنچ چکا ہے اور قافلے کی جو علامات آپ نے
بتلائی تھیں وہ حرف بہ حرف سچ نکلی ہیں، مگر ان کور چشموں کویہ صداقت اور حقانیت
ذرا متاثر نہ کرسکی، یہی کہتے رہے کہ محمد تو جادو گر ہیں۔ (صحیح البخاری ۸؍۲۹۷، صحیح مسلم، ص:۱۷۰)
اس ہجومِ مشرکین میں کچھ
لوگ ایسے بھی تھے جو بیت المقدس جا چکے تھے، وہ لوگ قبلۂ اول کی تعمیری ساخت سے
واقفیت رکھتے تھے، اس لئے انہوں نے پوچھا کہ اگر آپؐ سچے ہیں اور واقعی وہاں جا
کر آچکے ہیں تو یہ بتلائیں کہ بیت المقدس کیسا ہے؟ فلاں دروازہ کہاں ہے؟ اور فلاں
دیوار کس جانب ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت حطیم کے اندر تشریف فرما
تھے، جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المقدس کی منظر کشی شروع کی، بعض
مناظر آپ کے ذہن سے نکل گئے، کیوں کہ وہاں تشریف لے جانے کا یہ مقصد تھا ہی نہیں
کہ وہاں کے درودیوار اور منبر و محراب کے تمام مناظر اور تمام تفصیلات ذہن نشین
فرمائیں گے اور واپس تشریف لا کر بیان بھی فرمائیں گے۔ سوال اچانک تھا، اس لئے
آپؐ کچھ تذبذب میں پڑ گئے۔ دفعتاً اللہ تعالیٰ نے درمیان کے تمام حجابات ہٹا دئیے
اور بیت المقدس دارِ عقیل سے بھی زیادہ قریب کردیا۔ یہ گھر بیت اللہ کے بہت نزدیک
تھا۔ آپ بیت المقدس کو دیکھ رہے تھے اور اس کا ایک ایک وصف بیان فرما رہے تھے۔
لوگ کہنے لگے خدا کی قسم! بیت المقدس ایساہی ہے جیسا آپؐ نے بیان فرمایا۔(دلائل
البیقہی ۲؍۳۶۳)
حضرت جابر بن عبداللہ
ؓروایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب قریش مکہ نے
میری تکذیب کی، میں اس وقت حطیم میں تھا، اللہ نے بیت المقدس کو میرے روبرو کردیا۔
میں اسے دیکھ دیکھ کر اس کی نشانیاں بیان کرنے لگا۔ (بخاری۱۲؍۲۷۱، رقم الحدیث ۳۵۹۷، مسلم ۱؍۴۰۳، رقم الحدیث ۴۵۱)
حضرت ابوبکرؓ کی تصدیق
ان میں سے کچھ لوگ دوڑے
دوڑے حضرت ابوبکرؓ کے پاس گئے، کیوں کہ وہ پہلے ہی دن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم
کے ساتھ تھے، اور قدم قدم پر آپؐ کی اعانت و نصرت کیا کرتے تھے۔ بہت سے لوگ ان کی
کوشش اور محنت و دعوت سے ایمان بھی لا چکے تھے۔ انہوں نے سوچا کہ ان کو محمد رسول
اللہ سے دُور کرنے کا یہ بہترین موقع ہے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جو واقعہ
بیان کیا ہے وہ انتہائی ناقابل یقین ہے، ہوش مند انسان تو اسے تسلیم کر ہی نہیں
سکتا۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی شخص بیداری کی حالت میں عشاء کی نماز پڑھ کر
بیت المقدس جائے اور فجر سے پہلے واپس بھی آجائے، ان کا خیال تھا کہ جب ہم
ابوبکرؓ کو یہ بتلائیں گے کہ تمہارے دوست اس طرح کی باتیں کر رہے ہیں تووہ بھی
شرمندہ ہوں گے۔ عجب نہیں کہ وہ بھی سفر کی تفصیلات سن کر جھٹلا دیں یا کم از کم
محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کہیں کہ وہ اس طرح کے واقعات سنا کر اپنا اور ہمارا
تماشہ نہ بنوائیں۔ مگر ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ حضرت ابوبکرؓ کو جب یہ بتلایا گیا کہ
آپ کے دوست نے یہ عجیب و غریب داستان سنائی ہے تو انہوں نے پلٹ کر پوچھا کہ کیا
واقعی وہ ایسا کہہ رہے ہیں؟ لوگوں نے کہا جی، بالکل وہ یہ کہہ رہے ہیں۔ حضرت
ابوبکرؓ نے فرمایا اگر وہ ایسا کہہ رہے ہیں تو سچ کہہ رہے ہیں۔ لوگوں نے کہا کیا
آپ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ وہ رات میں بیت المقدس گئے تھے اور صبح سے پہلے
واپس بھی آگئے؟ آپؓنے جواب دیا: میں تو اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز باتوں کی
تصدیق کرتا ہوں۔ میں اس بات کا بھی یقین کرتا ہوں کہ ان کے پاس دن رات میں سے کسی
وقت آسمان سے وحی آتی ہے۔ اسی دن سے حضرت ابوبکرؓ کا نام صدیق پڑ گیا۔ (المستدرک
للحاکم ۱۰؍۱۹۸، رقم الحدیث۴۳۸۲)
بعض روایات میں ہے کہ یہ
لقب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرؓ کو واقعہ ٔ اسراء و معراج میں
ان کی تائید و تصدیق کے بعد خود عطا فرمایا۔ بعد میں یہ لقب ان کے نام کا جزو بن
گیا۔ امام نوویؒ تہذیب الاسماء میں فرماتے ہیں کہ امت مسلمہ ان کے صدیق ہونے پر
متفق ہے۔ حضرت علی بن ابی طالبؓ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے زبان رسالت صلی اللہ
علیہ وسلم کے ذریعے حضرت ابوبکرؓ کو صدیق لقب عطا فرمایا، کیونکہ انہوں نے سب سے
پہلے آپؐ کی تصدیق کی اور ہمیشہ کرتے رہے، ان کی زندگی کا کوئی ایک لمحہ بھی ایسا
نہیں ہے جس میں انہوں نے سرکار دو عالم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل
کی تصدیق و تائید میں تخلف (بدعہدی کرنا،
پھر جانا) یا تذبذب سے کام لیا ہو۔ (تہذیب الاسماء۳ ؍۵۳)۔ امام نوویؒ کے علاوہ
بھی دوسرے اہل علم نے اس پر اجماع نقل کیا ہے، مثلاً: سیوطیؒ نے تاریخ الخلفاء
میں، ابن حجر الہثیمیؒ نے الصواعق المحرقہ میں اور صالحیؒ نے سبیل الہدیٰ والرشاد
میں صاف لکھا ہے کہ امت میں سے کسی کا اس بات پر اختلاف نہیں کہ حضرت ابوبکرؓ اس
امت کے صدیق ہیں۔
حضرت انس بن مالکؓ روایت
کرتے ہیں کہ ایک روز سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم جبلِ احد پر تشریف لے گئے،
آپ کے ساتھ حضرت ابوبکرؓ، عمرؓ اور عثمانؓ بھی تھے، اسی وقت زلزلے کے جھٹکے محسوس
ہوئے، آپ نے ارشاد فرمایا: اے احد! ٹھہر جا، تیرے اوپر اس وقت ایک نبی، ایک صدیق
اور دو شہید بیٹھے ہوئے ہیں۔ (صحیح البخاری ۱۲؍۱۹، رقم الحدیث۳۴۱۰)
معراج جسمانی کے دلائل
تمام علماء امت کا یہ
اجماعی عقیدہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیداری کی حالت میں اپنے جسدِ
اطہر کے ساتھ معراج ہوئی، یعنی آپ اپنی روح اور جسم کے ساتھ اس سفر پر تشریف لے
گئے جیسا کہ ہم اور آپ بیداری کی حالت میں کہیں جاتے ہیں تو روح اور جسم کے ساتھ
جاتے ہیں، نہ تنہا روح کے ساتھ اور نہ محض جسم کے ساتھ، گویا معراج نہ نیند کی
حالت میں ہوئی جسے خواب کہتے ہیں اور نہ محض روح کو ہوئی جسے صوفیاء نے اختیار کیا
ہے۔
بعض لوگوں کو قرآن کریم
کی اس آیت: وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِیْ اَرَیْنٰکَ سے بھی اشتباہ ہوا
ہے، حالاں کہ یہاں مراد وہ رویاء نہیں ہے جسے ہم خواب کہتے ہیں۔جمہور مفسرین نے
یہاں رویاء سے مراد رویت لی ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عباسؓ ارشاد فرماتے ہیں کہ اس
آیت میں رویا سے مراد وہ چیزیں ہیں جو نبی اکرم ؓ کو معراج کی رات میں بہ حالت
بیداری دکھلائی گئیں۔ (مسند احمد بن حنبل ۵؍۴۵۰، رقم الحدیث ۳۵۰۰)
اس سے بھی واضح بخاری
شریف کی یہ روایت ہے جو حضرت ابن عباسؓ ہی سے مروی ہے، فرماتے ہیں کہ مذکورہ آیت
کریمہ میں رویاء سے مراد آنکھ سے دیکھنا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو
معراج کی رات آنکھ سے دکھلایا گیا تھا، جس میں آپ کو بیت المقدس تک لے جایا گیا
تھا۔ (صحیح البخاری ۱۴؍۳۳۰، رقم الحدیث ۴۳۴۷)
لغت کی مشہور کتاب لسان
العرب میں لکھا ہے کہ رویا کا اطلاق بیداری کی حالت میں مشاہدہ پر بھی ہوتاہے۔(لسان العرب ۱۴؍۲۹۷) متنبی نے بھی رویاء کو
دیدار کے معنی میں لیا ہے جو ظاہر ہے کھلی آنکھوں سے ہوتا ہے۔(دیوانِ متنبی، ص:۱۸۸)
حضرت علامہ شبیر احمد
عثمانیؒ تحریر فرماتے ہیں: ’’قرآن کریم نے جس قدر اہتمام اور ممتازو درخشاں عنوان
سے واقعہ ٔ اسراء کو ذکر فرمایا اور جس قدر جدوجہد و مستعدی سے مخالفین اس کے
انکار و تکذیب کے لئے تیار ہو کر میدان میں نکلے حتیٰ کہ بعض موافقین کے قدم بھی
لغزش کھانے لگے، یہ اس کی دلیل ہے کہ واقعے کی نوعیت محض ایک عجیب و غریب خواب یا
سیر روحانی کی نہ تھی۔‘‘ (حواشی بر ترجمہ شیخ الہند، ص:۳۷۳)
ا س سلسلے میں حضرت ابن
عباسؓ کا یہ بیان بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے جسے حدیث کی متعدد کتابوںمیں نقل کیا
گیا ہے ، فرماتے ہیں کہ ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو رات میں بیت المقدس لے
جایا گیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی رات واپس بھی تشریف لے آئے۔ آپؐ نے
قریش کو اپنے سفر کے بارے میں بتلایا اور بیت المقدس کی کچھ علامات بھی بتلائیں
اور ایک قافلے کی نشان دہی بھی فرمائی، کچھ لوگ یہ کہنے لگے کہ ہم محمد صلی اللہ
علیہ وسلم کی ان باتوں کو کیسے تسلیم کرسکتے ہیں؟ یہ کہہ کر وہ کفر کی طرف لوٹ
گئے۔ اس شب میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کو اپنی آنکھوں سے دیکھا
تھا نہ کہ خواب میں دیکھا تھا۔ (مسند احمد بن حنبل ۷؍۳۹۸، رقم ۳۳۶۵، سنن النسائی ۶؍۳۷۷،مسند ابی یعلی ۶؍۲۶۸، رقم ۲۶۵۹)
قرآن کریم کی جن آیات
سے اسراء و معراج کا ثبوت ملتاہے ان میں ذکر کئے گئے کلمات اور ان آیات کے اسلوب
بیان سے بھی یہ ثابت ہوتاہے کہ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا اور نہ اس کو صرف
خواب پر محمول کیا جاسکتا ہے، کیوں کہ خواب تو عموماً دیکھے جاتے ہیں، ان کو اس
قدر اہتمام کے ساتھ بیان کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ پھر یہ صرف روح کا بھی معاملہ نہیں
ہے، کیونکہ روحانی کیفیات پر مشرکین مکہ کو اس قدر چیں بہ جبیں ہونے کی ضرورت ہی
کیا تھی۔ معلوم ہوا کہ یہ بیداری کا واقعہ ہے اور روح و جسم دونوں کے ساتھ اس کا
تعلق ہے۔ (جاری)
nadimulwajidi@gmail.com
16اکتوبر،2020،بشکریہ:انقلاب، نئی دہلی
Related Article
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/allah-brought-bait-ul-muqaddas-part-3/d/123169
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism