مولانا ندیم الواجدی
9اکتوبر،2020
تین اور گراں قدر تحفے
پنج وقتہ نمازوں کا تحفہ
اس اعلان کے ساتھ دیا گیا کہ ان کا اجر و ثواب پچاس نمازوں کے برابرہے۔ امت کے حق
میں اس سے بڑا تحفہ اور کون سا ہوسکتا تھا؟یہ ایک تحفہ نہیں تھا بلکہ دو تھے۔ ایک تحفہ تو نماز کی
شکل میں تھا جو اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عمل ہے، پھر اس کا ثواب دس گنا
بڑھانے کا تحفہ بھی ہے اور نماز کی برکت سے یہ اضافہ صرف نماز کے اجر و ثواب میں
نہیں کیا گیا بلکہ ہر نیک عمل کا یہی ثواب رکھ دیا گیا۔ یہ خصوصیت صرف امت محمدیہ
کی قرار پائی کہ اسے ہر نیکی پر دس گنا اجر ملتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ نیکی کی نیت
اور ارادے پر بھی آدمی محروم نہیں رہتا۔ دس گنا تو نہیں مگر کسی عملی کاوش کے
بغیر ایک نیکی اس کے اعمال نامے میں رقم ہوجاتی ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ گناہ کے
ارادے اور نیت پر کوئی محاسبہ نہیں ہوتا۔ چاہئے تو یہ تھا کہ جس طرح نیکی کے ارادے
پر ثواب سے نوازا گیا ہے، گناہ کی نیت پر بھی ایک بدی اس کے نامۂ اعمال میں لکھ
دی جاتی لیکن اس رات دریائے رحمت جوش میں تھا اور اپنے محبوب مہمان کے اعزاز میں
حق تعالیٰ قیامت تک آنے والے تمام امتیوں کو انعام دینا چاہتے تھے، سو وہ انعام
دیا، پھر اسی پر بس نہیں کیا بلکہ دو تحفے اور بھی دئیے۔ ایک تحفہ سورۂ بقرہ کی
آخری آیات کی شکل میں اور دوسرا تمام کلمہ گو اور موحد مسلمانوں کی مغفرت کے
اذنِ عام کی صورت میں۔ روایات میں ہے کہ اس رات میں اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم کو پانچ نمازوں کے ساتھ ساتھ سورۂ بقرہ کی آخری آیات بھی عنایت
فرمائیں اور یہ (خوش خبری بھی دی کہ) آپؐ کے ہر امتی کو بخش دیا جائے گا ، خواہ
اس نے کبائر ہی کا ارتکاب کیوں نہ کیا ہو۔ بس شرط یہ ہے کہ اس نے شرک نہ کیا ہو۔
(صحیح مسلم ۱؍۴۰۵، رقم الحدیث ۲۵۲، سنن الترمذی ۱۱؍۸۲، رقم ۳۱۹۸)
کچھ سورۂ بقرہ کی آخری آیات
کے بارے میں
سورۂ بقرہ کی آخری دو
آیتوں کے بڑے فضائل ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ جس شخص نے رات کے وقت یہ دو آیتیں
پڑھ لیں تو یہ اس کے لئے کافی ہیں۔ (صحیح البخاری ۱۵؍۴۱۳، رقم الحدیث۴۶۲۴)
نعمان ابن بشیر رسول اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان پیدا کرنے سے
دو ہزار سال پہلے اپنی قدرت سے ایک کتاب لکھی، پھر اس میں سے دو آیتیں نازل کرکے
سورۂ بقرہ کو ختم کیا۔ اگر یہ آیتیں تین رات تک کسی گھرمیں پڑھی جائیں تو شیطان
اس کے قریب بھی نہیں پھٹکتا۔(سنن الترمذی ۱۰؍۱۱۳، رقم الحدیث ۲۸۰۷)
حضرت ابن عباسؓ کی روایت
میں یہ تفصیل بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ دو آیتیں جنت کے خزانوں میں سے نازل کی
ہیں، ان کو تمام کائنات کی تخلیق سے دو ہزار سال پہلے اللہ رب العزت نے لکھا تھا،
جو شخص ان کو عشاء کی نمازکے بعد پڑھ لے گا وہ اس کے لئے قیام اللیل (تہجد کی
نماز) کے قائم مقام ہوجائیں گی۔
(بحوالہ معارف القرآن)
ایک روایت میں رسول اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ بقرہ کو
ان دو آیتوں پر ختم فرمایا ہے، یہ دو آیتیں مجھے اس خزانۂ خاص سے عطا فرمائی
گئی ہیں جو عرش کے نیچے ہے، اس لئے تم بہ طور خاص ان آیتوں کو سیکھو اور اپنی
عورتوں اور بچوں کو سکھلاو۔ (المستدرک للحاکم ۵؍۱۳۲، رقم الحدیث ۲۰۲۳)
ان آخری دو آیتوں کی
معنوی خصوصیات بہت سی ہیں اور مفسرین نے ان کی بہت کچھ شرح و تفصیل بھی بیان کی
ہے، تاہم اس کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ بقرہ میں جو
قرآن کریم کی سب سے طویل سورہ ہے اور تقریباً ڈھائی پاروں پر مشتمل ہے، پورے
اسلام کو سمو دیا ہے۔ تمام احکام شرعیہ اس میں بیان کردئیے گئے ہیں۔ بعض اجمالاً
اور بعض تفصیلاً، اعتقادات، عبادات، معاملات، اخلاق اور معاشرت سے متعلق بہت سے
پہلو اس سورہ میں آئے ہیں۔ اور صحابہؓ کی جماعت میں کوئی ایسا نہ تھا جو ان احکام
کو دل و جان سے قبول نہ کرتا ہو اور ان پر عمل پیرا نہ ہو۔ اللہ رب العزت نے ان دو
میں سے پہلی آیت میں ایسے تمام مؤمنین کی مدح کی ہے جو ان تمام احکام پر خلوصِ
دل کے ساتھ عمل کرتے ہیں اور ہر وقت سمعنا و اطعنا کا ورد کرتے رہتے ہیں، حالاںکہ
وہ مکمل طور پر احکام شرعیہ کے پابند ہیں مگر دل ہی دل میں ڈرتے بھی رہتے ہیں کہ
کہیں کوئی لغزش نہ ہوجائے، کوئی چوک نہ ہوجائے اور کوئی ارادی یا غیرارادی خطا
سرزد نہ ہوجائے۔ ایسے لوگوں کی تالیف قلب کیلئے اگلی آیت میںایک دُعا بھی سکھلا
دی گئی کہ یہ دعا مانگتے رہا کرو، ساتھ ہی یہ بھی یقین دلا دیا کہ مواخذہ ان
خطائوں پر ہے جو ارادتاً سرزد ہوئی ہیں۔ غیرارادی اور غیراختیاری خطائوں پر کوئی
بازپرس نہ ہوگی۔
تمام امت کے لئے مغفرت کا
پروانہ
حدیث شریف کے الفاظ یہ
ہیں: غفر لمن لم یشرک باللّٰہ من امتہ شیئا المُقْحِمَاتُ۔’’آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کی امت میں سے ان لوگوں کے مقحمات معاف کردئیے جائیں گے جنہوں نے شرک نہ کیا
ہو۔‘‘
شارح مسلم امام نوویؒ نے
مقحمات کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ الذنوب العظام الکبائر ’’بڑے گناہ، کبیرہ
گناہ‘‘ حدیث کے الفاظ کا مفہوم بالکل واضح ہے کہ جو شخص امت محمدیہ میں سے حالت
ایمان پر مرے گا اس کی مغفرت کردی جائے گی خواہ وہ کبائر کا مرتکب ہی کیوں نہ رہا
ہو ۔ امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ بہ ظاہر یہ حدیث شرعی نصوص اور اجماعِ اہل سنت کے
معارض ہے، کیوں کہ بہت سی نصوص شرعیہ سے پتہ چلتا ہے
اور اسی پر علماء اہل سنت کا اتفاق بھی ہے کہ بعض مؤمن گناہگاروں کو بھی عذاب
ہوگا۔ معراج میں بھی ایسے گناہگاروں کی صورتِ مثالیہ دکھلائی گئی ہے جن پر عذاب
ہورہا تھا۔ رفعِ تعارض کیلئے بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ حدیث میں مغفرت سے مراد یہ
ہے کہ اہل ایمان کو دائمی عذاب نہیں ہوگا بلکہ ایک نہ ایک دن ان کو دوزخ سے نکال
کر جنت میں داخل کردیا جائے گا ۔ اس مضمون کی حدیث قدسی بھی موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ
فرماتے ہیں: مجھے میری عزت و جلالت، کبریائی اور عظمت کی قسم میں دوزخ سے ہر اس
شخص کو باہر نکال کر رہوں گا جس نے کلمہ ٔ لا الٰہ الا اللہ کہا ہوگا۔ (صحیح البخاری
۲۳؍۳۰، رقم الحدیث ۶۹۵۶، صحیح المسلم ۱؍۴۴۷، رقم الحدیث ۳۸۶)
لیکن یہ احتمال منشائے
حدیث کے خلاف ہے کیوںکہ حدیثِ معراج بالکل واضح ہے، یوں بھی ہر موحد کو بالآخر جنت میں جانا
ہے، اس میںامت محمدی کی خصوصیت کیا رہی، اسی لئے بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ مغفرت
مشیت الٰہی کے ساتھ مشروط ہوگی۔ اللہ تعالیٰ جس کو چاہے گا معاف کردے گا اور جس کو
چاہے گا سزا دے گا۔ قرآن کریم سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے: ’’بیشک اللہ اِس بات
کو نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اور اس سے کم تر (جو گناہ بھی ہو) جس
کیلئے چاہتا ہے بخش دیتا ہے۔‘‘ (النساء: ۴۸) گویا اللہ تعالیٰ جس کو چاہے گا بغیر توبہ
کے بھی معاف کردے گا۔ یہ اس امت کی خصوصیت ہے جو اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی
برکت سے عطا کی گئی ہے۔ (شرح النووی علی صحیح مسلم ۳؍۳، شرح الشفاء ۱؍۴۰۲)
آسمانی سفر سے واپسی
آسمانوں میں ربِ کریم کی
بڑی بڑی نشانیوں پر مشاہدے کے بعد زمین کی طرف واپسی کا سفر شروع ہوا، جس ترتیب سے
آپؐ تشریف لے گئے تھے اسی ترتیب کے ساتھ واپسی ہوئی۔ سدرۃ المنتہیٰ سے پہلے
ساتویں آسمان پر، پھر ساتویں سے چھٹے، اسی طرح تمام آسمانوں سے گزرتے ہوئے آپؐ
نے سرزمین بیت المقدس پر قدمِ مبارک رکھے۔ وہاں براق ایک کھونٹے سے بندھا ہوا اپنے
سوار کے انتظار میں کھڑا تھا، اس پر پابہ رکاب ہوئے اور رات ہی میں مکہ مکرمہ پہنچ
گئے۔ سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس مبارک اور حیرت انگیز سفر کی
تفصیلات اپنی چچا زاد بہن، حضرت ام ہانیؓ بنت ابوطالب کے گوش گزار کیں، وہ فرماتی
ہیں:
جب آپؐ کو معراج ہوئی آپؐ میرے گھرمیں سو رہے تھے۔آپؐ نے عشاء کی نماز
پڑھی، پھر سوگئے اور ہم بھی سو گئے۔ جب فجر سے پہلے کا وقت ہوا تو ہمیں رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے جگایا، آپؐ نے نماز پڑھی، ہم نے بھی آپؐ کے ساتھ نماز ادا
کی، اس کے بعد آپ نے مجھ سے فرمایا: ام ہانی! میں نے تم لوگوں کے ساتھ عشاء کی
نماز پڑھی جیسا کہ تم نے دیکھا، پھرمیں بیت المقدس پہنچا اور اس میں نماز
پڑھی، پھر اب صبح میں تم لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی جیسا کہ تم دیکھ رہی ہو۔ پھر
آپؐ باہر تشریف لے جانے لگے، میں نے آپؐ
کی چادر کا کونہ پکڑ لیا اور عرض کیا: یانبیؐ اللہ! آپؐ یہ بات لوگوںسے
بیان نہ کریں، وہ لوگ آپؐ کو جھٹلائیں گے اور آپؐ کو تکلیف پہنچائیں گے۔ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: واللہ! میں تو ان کو ضرور بتلائوں گا۔
میں نے ایک حبشی لونڈی کو
یہ کہہ کر آپؐ کے پیچھے پیچھے بھیجا کہ وہ یہ دیکھے کہ آپؐ لوگوں سے کیا فرماتے
ہیں اور لوگ آپؐ کے جواب میں کیا کہتے ہیں۔ (سیرت ابن ہشام ۱؍۲۹۰)
مشرکین کی تکذیب اور
استہزاء
بہرحال آپؐ صبح سویرے
خانۂ کعبہ میں تشریف لے گئے ، وہیں پر لوگ جمع رہتے تھے۔ حسب معمول محفلیں لگی
ہوئی تھیں اور لوگ خوش گپیوں میں مشغول تھے، آپؐ نے انہیں جا کر بتلایا کہ میں
رات بیت المقدس گیا تھا، وہاں میں نے نماز پڑھی اور دن نکلنے سے پہلے یہاں واپس
آگیا۔ لوگ یہ سن کر ہنسنے لگے۔ کسی نے اپنا سر پیٹ لیا، کوئی بہ طوراستہزاء تالی
بجانے لگا،غرضیکہ انہیں اس بات کا یقین ہی نہیں آیا کہ کوئی شخص بیت المقدس جا کر
راتوں رات واپس بھی آسکتا ہے کیونکہ مکہ مکرمہ سے بیت المقدس کا فاصلہ اچھا خاصا
ہے۔ کوئی شخص تیز رفتار اونٹنی کے ذریعے بھی یہ مسافت طے کرے تو ایک ہفتہ تو پہنچنے
میں لگے گا، اتنا ہی وقت واپسی میں بھی درکار ہے۔ وہ پہلے ہی اللہ کے رسول صلی
اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بدگمانی میں مبتلا تھے۔ یہ واقعہ سن کر انہیں یہ یقین
ہوگیا کہ محمد (نعوذ باللہ) جھوٹ بولتے ہیں۔ پھر بھی ان میں سے کسی نے یہ پوچھ ہی
لیا کہ آپؐ کے پاس اس کا کیا ثبوت ہے کہ آپؐ بیت المقدس گئے تھے؟
آپؐ نے ارشاد فرمایا:
میں فلاں
قبیلے کے قافلے کے پاس سے گزرا ہوں، جو فلاں وادی میں
مقیم ہے، میری سواری کی آہٹ سے اس قافلے کے اونٹ بدک گئے تھے، ان کا ایک اونٹ
بھاگ بھی گیا تھا، جس کی جانب میں نے رہنمائی کی۔ اس وقت میںشام کی طرف جا رہا
تھا،و اپسی کے سفر میں ضَجْنَانْ کے مقام پر میں فلاں قبیلے کے پاس سے گزرا۔ میں
نے دیکھا کہ قافلے کے لوگ سو رہے تھے، وہاں پانی کا ایک برتن ڈھکا ہوا رکھا تھا،
میں نے
اس کا ڈھکن کھولا اور اس میں سے پانی پی
کر اسے اسی طرح ڈھک دیا۔ اب وہ قافلہ مقامِ بَیْضَاء سے کوہ تَنْعِیْم سے اتر رہا
ہے۔ ایک بھورا اونٹ قافلے کے آگے آگے چل رہا ہے، اس پر دو تھیلے لٹکے ہوئے ہیں،
ایک سیاہ اور دوسرا مختلف رنگوں کا ہے۔ (سیرت ابن ہشام۱؍۲۹۵)(جاری)
nadimulwajidi@gmail.com
9اکتوبر،2020،بشکریہ:انقلاب، نئی دہلی
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/umm-hanipart-2--/d/123131
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism