مولانا ندیم الواجدی
15 جنوری ، 2021
حضرت عمرؓ کی ہجرت اور
عیاش بن ابی ربیعہؓ کا قصہ
حضرت عمرؓ بن الخطاب کی
شجاعت اور بہادری تاریخ اسلام میں ضرب المثل کی حیثیت رکھتی ہے۔ آپؓ نے جس طرح
علی الاعلان اسلام قبول کیا اور پھر تلوار لہراتے ہوئے مسلمانوں کے ساتھ خانۂ
کعبہ میں
پہنچے اس کی توقع ان ہی جیسے بہادروں سے کی جاسکتی تھی،
مگر ہجرت کے وقت مکہ مکرمہ کا ماحول اس قدر کشیدہ اور گرم تھا کہ دوسرے بہت سے
مسلمانوں کی طرح حضرت عمرؓ کو بھی چھپ کر ہجرت کرنی پڑی۔ خود فرماتے ہیں : میں نے
عیاش بن ابی ربیعہؓ اور ہشام بن العاصؓ سے یہ بات طے کی کہ ہم بنی غفار کے
تالاب کے پاس تناضب نامی جگہ پر جمع ہوں گے (یہ جگہ مقام سرف کے بالائی حصے میں
مکہ مکرمہ سے تیرہ کلو میٹر دوری پر واقع ہے) ہم لوگوں نے یہ بھی طے کیا کہ جو شخص
وقت معین پر وہاں نہ پہنچا اس کے بارے میں یہ تصور کیا جائے گا کہ اسے مشرکین نے
قید کرلیا ہے۔ اس صورت میں باقی دونوں ساتھیوں کو اختیار ہوگا کہ وہ آگے کا سفر
جاری رکھیں، چنانچہ میں اور عیاش وہاں پہنچ گئے، ہشام نہیں آئے، ہم سمجھ گئے کہ
وہ آزمائش میں ڈال دئیے گئے ہیں، ہم دونوں مدینے
پہنچ گئے، ابوجہل بن ہشام اور حارث بن ہشام ، عیاش بن ابی ربیعہؓ کا پیچھا کرتے
ہوئے مدینے آگئے،یہ دونوں عیاشؓ کے چچا زاد بھی تھے اور سو تیلے بھائی بھی تھے۔
ان دونوں نے عیاش سے کہا کہ تم مسلمان ہوگئے ہو اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم
والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیتے ہیں، جب کہ تمہارا حال یہ ہے کہ تم نے اپنی
ماں کو پریشانی میں ڈال دیا ہے، تمہارے آنے کے بعد سے نہ وہ کچھ کھاتی ہے، نہ
پیتی ہے، اس نے یہ قسم کھائی ہے کہ جب تک تم اس کے پاس واپس نہیں آوگے وہ اپنے
سرمیں کنگھی نہیں کرے گی اور نہ کچھ کھائے پئے گی، تمہاری ماں تم سے بہت زیادہ
محبت کرتی ہے اگر تم چاہتے ہو کہ وہ اچھی حالت میں زندہ رہے تو ہمارے ساتھ واپس چلو۔
عیاش کا دل یہ سن کر ماں کی محبت میں تڑپ اٹھا اور وہ واپس جانے کے لئے آمادہ ہوگئے۔
حضرت عمرؓ نے ان سے فرمایا کہ دیکھو عیاش! یہ دونوں تمہیں دھوکے سے مکے لے جانا
چاہتے ہیں، ایسا نہ ہو کہ وہ تمہیں تمہارے دین سے منحرف کردیں، تم اپنی ماں کی فکر
مت کرو، جب اس کے سر میں جوئیں پڑیں گی اور اسے مکے کی گرمی ستائے گی، وہ
خود ہی کنگھی کرلے گی اور جب وہ بھوک پیاس سے پریشان ہوگی خود ہی کھانا کھالے گی
اور پانی پی لے گی۔ عیاش نے کہا کہ میں جلد ہی واپس آجاوں گا، مکے میں میرا کچھ
مال ہے، میں چاہتا ہوں وہ بھی یہاں لے آوں، حضرت عمرؓ نے کہا: تم جانتے ہو کہ میں
قریش میں سب سے زیادہ پیسے والا ہوں، تم اپنے مال کی فکر مت کرو، میں اپنا آدھا
مال تمہیں
دیدوں گا، بس تم واپسی کا ارادہ نہ کرو، مگر عیاش نہیں
مانے۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ اچھا اگر تم جانا ہی چاہتے ہو تو میری یہ اونٹنی لے
جاو، یہ بہت مطیع اور فرماں بردار اونٹنی ہے، تم اسی پر سفر کرنا اور اس کی پیٹھ
سے چپکے رہنا۔ عیاش حضرت عمرؓ کی اونٹنی پر سوار ہو کر نکلے، جب یہ تینوں مقام
بیداء پر پہنچے تو ابوجہل نے کہا کہ میری اونٹنی سست پڑگئی ہے، تم مجھے اپنے ساتھ
بٹھا کر لے چلو۔ عیاشؓ نے ہامی بھرلی اور اونٹنی کو نیچے بٹھلا دیا تاکہ ابوجہل
بھی سوار ہوسکے۔ جیسے ہی تینوںزمین پر اترے ابوجہل اور ہشام نے عیاش کو گرایا اور
ان کے ہاتھ پیر باندھ دئیے اور اسی حال میں انہیں ان کی والدہ کے پاس لے کر پہنچے۔تاریخ
کی کتابوں میں ہے کہ ابوجہل اور ہشام دونوں اپنے بھائی عیاشؓ کو لے کر اس حال میں
مکے پہنچے کہ ان کی مشکیں کسی ہوئی تھیں اور ان دونوں کے ہونٹوں پر فاتحانہ
مسکراہٹ تھی، مکہ میں داخل ہونے کے بعد پہلا جملہ جو ان کی زبان سے نکلا وہ یہ تھا
کہ اے لوگو! تم بھی اپنے بے وقوفوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرو جیسا ہم نے اپنے بے
وقوف کے ساتھ کیا ہے۔
حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ
ہم لوگ یہ کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ا س شخص کا کوئی صدقہ و خیرات قبول نہیں
کرے گا جو اللہ کے دین میں آزمائش کی تاب نہ لاسکا اور مغلوب ہو کر دین سے پھر
گیا۔ اس کی توبہ بھی قبول نہیں ہوگی، جو اللہ پر ایمان لایا، پھر آزمائشوں سے
گھبرا کر کفر کی طرف واپس ہوگیا۔ حضرت عیاشؓ کے واقعات میں لکھا ہے کہ ان کی واپسی کا رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم پر بے حد اثر ہوا، آپؐ فجر کی نماز میںقنوتِ نازلہ پڑھتے تو
یہ دعا بھی فرماتے:
اَللّٰھم انج الولید بن
الولید و سلمہ بن ھشام و عیاش بن ابی ربیعہ۔
’’اے اللہ! ولید بن الولید، سلمہ بن ہشام اور عیاش بن ابی ربیعہ کو
(مشرکین کے ظلم و ستم سے) نجات عطا فرما۔
(رضی اللہ عنہم)‘‘
اس دعا کی برکت سے اللہ
نے ان تینوں حضرات کو نجات دی اور یہ لوگ مشرکین کی قید سے رہا ہوکر مدینہ منورہ
پہنچ گئے۔
حضرت عمرؓ یہ بھی فرماتے
ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ منورہ تشریف لانے کے بعد ایسے لوگوں
کے متعلق جو مشرکین کی طرف سے دی جانے والی ایذاوں کی تاب نہ لاسکے اور بظاہر اپنے
دین سے پھر گئے اور پھر مسلمانوں کے ساتھ آملے یہ آیات نازل ہوئیں:
’’کہہ دو کہ اے میرے وہ بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر
زیادتی کر رکھی ہے اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں۔ یقین جانو اللہ سارے کے سارے
گناہ معاف کردیتا ہے،یقیناً وہ بہت بخشنے والا بڑا مہربان ہے اور تم اپنے پروردگار
سے لو لگاو اور اس کے فرماں بردار بن جائو، قبل اس کے کہ تمہارے پاس عذاب آ
پہنچے، پھر تمہاری مدد نہیں کی جائے گی اور تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس
جو باتیں
نازل کی گئی ہیں ان کی پیروی کرو، قبل اس کے کہ تم پر
اچانک عذاب آجائے اور تمہیں پتہ بھی نہ چلے۔‘‘
(الزمر:۵۳؍
تا ۵۵)
حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ
میں نے
یہ آیات اپنے ہاتھ سے لکھیں اور ہشام بن العاصؓ کو بھیج دیں، ہشام جو مکہ مکرمہ
میں رہ گئے تھے کہتے ہیں کہ میں ذی طوی میں جا کر بیٹھ جایاکرتا تھا اور ان آیتوں
پر غور و فکر کرتا رہتا تھا، مگر میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اللہ کیا فرمانا
چاہتا ہے، پھر یہ دعا کرتا کہ یااللہ مجھے ان آیات کو سمجھنے کی توفیق عطا فرما، ایک
دن اللہ نے میرے دل میں یہ بات ڈال دی کہ قرآن کریم کی یہ آیتیں ہم جیسے ہی
لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہیں، اس کے بعد میں نے اپنی اونٹنی کھولی، اس پر
بیٹھا اور مدینہ منورہ پہنچ کر رسولؐ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوگیا۔ (طبقات ابن سعد
۲؍۳۵۲، مصنف بن ابی شیبہ ۱؍۳۰۲، ۳۰۳، السیرۃ النبویہ لابن
ہشام ۱؍۳۴۶، ۳۴۷، مسند البزار ۲؍۳۷۰، ۳۷۱، المستدرک للحاکم ۲؍۲۴۱)
عیاشؓ اور ہشامؓ کی رہائی
حضرت عیاش بن ابی ربیعہؓ
اور حضرت ہشام بن العاصؓ کے حالات سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بہت متفکر رہا
کرتے تھے۔ ایک مرتبہ آپؐ نے لوگوں سے فرمایا: تم میںایسا کون ہے جو ان دونوں کو
مکہ سے چھڑا کر یہاں لائے۔ ولید بن الولید بن المغیرہؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ!
میں یہ
کام کروں گا، چنانچہ وہ مکہ مکرمہ جانے کے ارادے سے نکلے اور چھپتے چھپاتے مکہ میں
داخل ہوئے، ایک عورت کو دیکھا کہ وہ کھانا لے کر جارہی ہے، ولیدؓ نے اس سے پوچھا:
اے خدا کی بندی! تو کہاں جارہی ہے؟ کہنے لگی کہ میں ان دونوں قیدیوں کے لئے کھانا
لے کر جا رہی ہوں۔ اس نے عیاش اور ہشام کا
نام لے کر بتلایا، ولید اس عورت کے پیچھے ہولئے، اس طرح انہیں اس جگہ کا پتہ چل
گیا جہاں ان دونوں کو قید کرکے رکھا گیا تھا۔
وہ جگہ کچھ اس طرح کی تھی
کہ صرف دیواریں ہی دیواریں تھیں،ان پر کوئی چھت نہیں تھی، رات ہوئی تو ولید دیوار
پھاند کر نیچے اتر گئے، ان دونوں کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور پائوں میں بیڑیاں
پڑی ہوئی تھیں، حضرت ولید نے ایک سفید پتھر جسے عربی میں ’’مروہ‘‘ کہتے ہیں بیڑیوں
کے نیچے رکھا اور تلوار سے انہیں کاٹ دیا۔ اسی لئے ان کی تلوار کو ’’ذوالمروہ‘‘
کہا جاتا تھا، آزاد کرانے کے بعد وہ ان دونوں کو نکال کر باہر لائے، اپنی اونٹنی
پر بٹھایا اور اسے ہانکتے ہوئے چلے۔ راستے میں ٹھوکر کھائی، جس سے پاوں کی انگلی
زخمی ہوگئی، اس پر انہوں نے برجستہ ایک شعر پڑھا جو تاریخ ادبیاتِ اسلام میں بڑی
شہرت رکھتاہے:۔
هَلْ أَنْتِ إِلَّا
إِصْبَعٌ دَمِيتِ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ مَا لَقِيتِ
(تو ایک انگلی ہی تو ہے جو ذرا سی خون آلود ہوگئی ہے اوریہ جو
تکلیف پہنچی ہے اللہ کی راہ میں پہنچی ہے)
اس طرح وہ اپنے مشن میں کامیاب
ہو کر ان دونوں کے ساتھ مدینہ منورہ پہنچے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی
خدمت میں حاضر ہو کر دعاوں سے سرفراز ہوئے۔(سیرت ابن ہشام ۱؍۳۴۷)
صہیب رومیؓ کی ہجرت
حضرت صہیب بن سنان
الرومیؓ بھی ان لوگوں میں سے ہیں جنہیں ہجرت کے موقع پر سخت آزمائش سے گزرنا پڑا،
وہ عرب نژاد نہیں تھے، مکہ میں اجنبی مسافر کی طرح آئے اور یہیں کے
ہو کر رہ گئے، تلوار بنانے کا فن جانتے تھے، تلواریںبنانے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے
تلوار کی صنعت اور تجارت میں انہیں خوب برکت دی اور مکہ کے مال داروں میں ان کا
شمار ہونے لگا۔ ان کی ہجرت کا قصہ یہ ہے کہ جب وہ سفر کے ارادے سے روانہ ہونے لگے
تو لوگوں نے ان کو پکڑلیا اور ان سے کہا کہ ہم تمہیں اس طرح نہیں جانے دیں گے، جب
تم یہاںآئے تھے مفلوک الحال تھے، اس سرزمین میں رہ کر تم یہاں کی برکت سے مال دار بن
گئے ہو، اب تم یہ سارا مال اور دولت لے کر یثرب جانا چاہتے ہو، ایسا نہیں ہوسکتا،
تم ہمارا مال لے کر یہاں سے نہیں جاسکتے۔
حضرت صہیبؓ اپنی ہجرت کا
قصہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب ہجرت کی اجازت مل گئی اور لوگوں نے یثرب کی
طرف کوچ کرنا شرع کردیا تو میں بھی ہجرت کے ارادے سے نکلا۔ اس وقت قریش کے کچھ
نوجوان میرے راستے میں کھڑے ہوگئے تاکہ مجھے مکے سے جانے نہ دیں، میں بھی
تمام رات اس انتظار میں کھڑا رہا کہ وہ سوجائیں یا غافل ہوں تو میں نکل جائوں، خدا
کا کرنا ایسا ہوا کہ وہ لوگ سو گئے، میں نکل پڑا، ابھی میں چند میل کی مسافت ہی طے کر پایا تھا
کہ وہ لوگ میرا پیچھا کرتے ہوئے آگئے اور مجھے پکڑ کر اپنے ساتھ لے جانے لگے، میں
نے ان سے کہا: اچھا اگر میں تمہیں سونا وغیرہ دےدوں تو کیا تم مجھے چھوڑدوگے اور
یثرب جانے دو گے، کہنے لگے ٹھیک ہے۔ میں انہیں مکہ لے کرآیا، اپنے گھر پہنچ کر
میں نے ان سے کہا کہ دہلیز کے نیچے کھودو، اس کے نیچے سونے کے سکے دبے ہوئے ہیں
اور فلاں جگہ جاو وہاں میرے دو جوڑے قیمتی کپڑے ہیں، انہیں بھی لے لو، انہوں نے
مال پر قبضہ کرلیا اور مجھے چھوڑ دیا۔ میں مکہ سے نکل کر مدینہ منورہ پہنچا۔ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا۔ آپؐ اس وقت قباء میں تشریف
فرما تھے، مجھے دیکھتے ہی آپؐ نے فرمایا: ’’ابویحییٰ! تم نے نفع کا سودا کیا
ہے۔‘‘
میں نے عرض کیا: یارسولؐ
اللہ! مجھ سے پہلے تو کوئی شخص آپؐ کی خدمت میں ایسا حاضر نہیں ہوا جو آپؐ کو اس
واقعہ کی خبر دیتا، یقیناً آپؐ کو اس کی اطلاع جبریل علیہ السلام نے دی ہے۔ (ابن
حبان، رقم الحدیث ۷۰۸۲،
دلائل النبوۃ للبیہقی ۲؍۵۲۲، ۵۲۳، البدایہ والنہایہ ۳؍۲۱۲، ۲۱۳)(جاری)
nadimulwajidi@gmail.com
15 جنوری ، 2021،بشکریہ:انقلاب، نئی دہلی
Related Article
Part: 7- Adjective of Worship مجھے صفت ِ عبدیت زیادہ
پسند اور عبد کا لقب زیادہ محبوب ہے
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/hazrat-umar-hijrat-story-abbas-part-15/d/124081
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism