مولانا ندیم الواجدی
6 نومبر 2020
واقعۂ معراج کے اسرار و
حکم
اسراء اور معراج کا واقعہ
سیرت مقدسہ کا انوکھا اور مہتم بالشان واقعہ ہے، اسی لئے ہم نے یہ واقعہ اس کی
تمام تفصیلات و جزئیات کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اس واقعے کی تاریخی عظمت اور معنوی
اہمیت کا مقتضی ٰ یہ ہے کہ اس میں پوشیدہ اسرار وحکم بھی ہم پر مخفی نہ رہیں۔
محدثین اور سیرت نگار حضرات نے معراج کی حکمتوں پر کافی کچھ لکھا ہے۔ ہم یہاں کچھ
حکمتیں اختصار کے ساتھ بیان کرتے ہیں، ان حکمتوں میں ہمارے لئے متاع علم و دانش
بھی ہے اور سامانِ عبرت و موعظت بھی ہے۔
1- قدرت
کا اصول ہے کہ ہر تنگی اور سختی کے بعد سہولت اور کشادگی ہے۔ ہر تکلیف کے بعد راحت
اور ہر آزمائش و امتحان کے بعد انعام ہے۔ قدرت کا یہ اصول واقعہ ٔ معراج میں اپنی
پوری تابانی کے ساتھ جلوہ گر نظر آتا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے
اپنی حیاتِ مبارکہ میں بڑی تکلیفیں اٹھائیں۔ ذاتی زندگی میں دیکھیں تو قبل از
پیدائش والد ماجد کی وفات، کم سنی میں والدہ محترمہ سے دائمی جدائی، نوعمری میں
دادا کی شفقت سے محرومی، یہ سب بھی آزمائش کی مختلف شکلیں ہیں۔ نبوت کے بعد بھی
ان آزمائشوں کا سلسلہ جاری رہا۔ شفیق چچا کے انتقال اور ان کے معاً بعد غم گسار
رفیقۂ حیات کا حادثۂ وفات، ان پے بہ پے حادثات پر مستزاد اہل مکہ کی بے
اعتنائیاں، ان کی اذیتیں جو کبھی کبھی حد سے بھی گزر جاتیں، خاص طور پر مشفق چچا
کے گزرجانے کے بعد تو یہ اذیتیں جو پہلے ذہنی تھیں جسمانی بھی بن گئیں۔ ہر چند
مصائب و مشکلات کا ایک کوہِ گراں تھا جو دعوت اسلامیہ کی راہ میں آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کیلئے سدراہ بنا ہوا تھا مگر آپۥؐ نہایت صبر و استقلال اور عزیمت کے ساتھ کسی
مخالفِ اسلام اور دشمنِ جاں کی پروا کئے بغیر اپنے کام میں مصروف رہے اور اپنی ذمہ
داریاں ادا فرما تے رہے، انعام تو ملنا ہی تھا، جب مشکلات اپنی انتہا کو پہنچ گئیں
اور آزمائش اپنے دورِ شباب میں داخل ہوگئی تو قدرت کو پیار آیا اور فیصلہ ہوا کہ
اس ذات پاکۥؐ
کو جس نے دعوتِ اسلام کو عام کرنے کے لئے اپنے سر دھڑ کی بازی لگادی کسی ایسے
انعام سے نوازا جائے جس سے بڑھ کر کوئی انعام نہ ہو، نہ وہ کسی کو ملا ہو اور نہ
آئندہ کسی کو ملے۔ وہ عظیم انعام معراج کی صورت میں عطا کیا گیا۔ معراج کا انعام
دراصل صبر و عزیمت اور جہد ِ مسلسل کی قدردانی کا اظہار تھا اور رب العالمین کی
طرف سے ایک عطیۂ خاص اور بے مثال صلہ تھا، جو مخلوقات میں صرف آپؐ ہی کو عطا کیا
گیا، اپنے رب سے کسی حجاب کے بغیر ملاقات اور گفتگو کا شرف، عوالم غیب پر اطلاع،
تمام انبیاء سے اس حیثیت کے ساتھ ملاقات کہ وہ ان سب کے قائد ہیں اگرچہ آخر میں تشریف
لائے ہیں اور آخر میں تشریف لانا بھی وجہ شرف ہے کہ جو مقدس سلسلہ اس کائنات رنگ
و بو میں ہزاروں سال سے جاری تھا وہ خدا کی حکمت کے تحت اب اپنی انتہا کو پہنچ
چکا، آپۥؐ
کے بعد اب کوئی نبی آنے والا نہیں ہے۔
2- معراج
کے عظیم الشان واقعے کے بعد بھی اگر چہ کفار و مشرکین کی روش میں کوئی تبدیلی نہیں
دیکھی گئی، نہ ان کے موقف میں کسی قسم کا کوئی تغیر ہوا، بلکہ وہ مذاق ہی اڑاتے
رہے اور اپنا سر اور منہ پیٹتے رہے، حالاں کہ ان کے مطالبے پر رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے وہ علامات بھی بتلادیں جن سے اس واقعے کی تصدیق ہورہی تھی یعنی بیت
المقدس کی منظر کشی اور روحاء میں مقیم تجارتی قافلے کی سرگرمیوں کی اطلاع، اسی
طرح ایک اور قافلے کی آمد کی خبر جوشام کے وقت مکہ میں داخل ہونے والا تھا، اگر
کفار کی فطرت میں سلامتی ہوتی اور اللہ نے ان کی قسمت میں ہدایت لکھ دی ہوتی تو وہ
یقیناً آپۥؐ
کے دستِ حق پر بیعت کر لیتے مگر وہ ان سچی علامتوں کے بعد بھی کٹ حجتی کرتے رہے،
مذاق اڑاتے رہے اور تالیاں پیٹتے رہے۔ ایسا نہیں تھا کہ انہیں اس واقعے کایقین
نہیں تھا، وہ جانتے تھے کہ واقعہ سچا ہے اور اس مخبر صادقۥؐ
نے آج تک جو بات بھی کہی ہے وہ صداقت کے پیمانے پر کھری اتری ہے، مگر تمرد و
سرکشی کی ان کی دیرینہ عادت اور قیادت و سیادت سلب ہوجانے کے اندیشہ ہائے دورو
دراز انہیں اس سچی خبر کو جھٹلانے پر اکسا رہے تھے، وہ جھٹلاتے رہے اور تیرہ بختی
کو اپنے لئے لازم بناتے رہے، بس یہ آخری موقع تھا ان کے لئے دعوت قبول کرنے کا،
ہدایت پانے کا، اللہ کی وحدانیت اور رسولۥؐ
اللہ کی رسالت پر ایمان لانے کا، کیونکہ اب اس دعوت کا دوسرا مرحلہ شروع ہونے والا
تھا اور وہ مرحلہ تھا ہجرت کا مرحلہ۔
3- اس
واقعے کا ایک اہم پہلو حضرت ابوبکر الصدیقؓکی شخصیت کا وہ پہلو بھی ہے جو تاریخِ
صدق و وفا میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ انہوں نے معاشرے کی روش اور مزاج پر کاری
ضرب لگاتے ہوئے یہ تصدیق کردی کہ محمدۥؐ
جو کچھ فرما رہے ہیں مجھے اس پر اتنا ہی یقین ہے جتنا یقین کسی چیز کے مشاہدہ کے
بعد اس شئے کی موجودگی پر ہوتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ تمہیں اس پر حیرت ہے
کہ محمدۥؐ
نے اتنا طویل سفر اتنے کم وقت میں کیسے کرلیا؟ مجھے تو اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز
واقعات پر کوئی تعجب نہیں ہوتا۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ تعالیٰ کی وحی
آتی ہے اور یہ وحی آسمان سے ایک فرشتہ لے کر آتا ہے،یہ کتنی تعجب خیز اور حیرت
انگیز بات ہے مگر مجھے اس کا پورا یقین ہے اور اس یقین میں ادنیٰ درجہ کے شبہ کی
بھی گنجائش نہیں ہے، ذاتِ نبوتۥؐ
پر اس کامل درجے کے ایمان، یقین، اور اعتماد کے بعد ابوبکرؓ جو پہلے ابوبکر بن
قحافہ کی حیثیت سے جانے پہچانے جاتے تھے یکایک ابوبکر الصدیقؓ بن گئے اور یہ لقب
ان کی ذات کا حصہ اور ان کی شخصیت کی پہچان بن گیا۔
4-اس
آسمانی سفر کے دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں شراب اور دودھ کے
دو پیالے پیش کئے گئے، آپۥؐ
نے ان دونوں میں سے دودھ کا پیالہ اٹھایا اور اس سے پیا، یہ دیکھ کر حضرت جبریل
علیہ السلام نے بشارت دی کہ آپۥؐ
فطرتِ سلیمہ کی طرف راہ یاب ہیں، اس سے پتہ چلتا ہے کہ درحقیقت اسلام دین فطرت ہے،
اور فی الحقیقت ہر انسان کی تخلیق فطرتِ سلیمہ پر ہوئی ہے لیکن ماحول سے متاثرہوکر
بہت سے لوگ اس راستے سے منحرف ہوجاتے ہیں۔ دین حق فطرت سلیمہ رکھنے والوں کے لئے
نازل کیا گیا ہے۔ یہی لوگ اس دین کے تقاضوں کی تکمیل کرتے ہیں، اس کی آواز پر
لبیک کہتے ہیں۔ قرآن کریم میں ارشاد فرمایا گیا:
’’لہٰذا تم یک سو ہو کر اپنا رخ اس دین کی طرف قائم رکھو، اللہ کی بنائی
ہوئی اس فطرت پر چلو جس میں اس نے تمام لوگوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی تخلیق میں
کوئی تبدیلی نہیں لائی جاسکتی۔‘‘ (الروم:۳۰)
5-بیت
المقدس میں تمام انبیاء کرام علیہم السلام جمع تھے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نے ان تمام حضرات کی امامت کا فریضہ انجام دیا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ تمام
انبیاء نے آپۥؐ
کی قیادت تسلیم کی، اس بات کی دلیل بھی ہے کہ اب ان کی شریعتیں منسوخ ہوچکی ہیں۔
اب قیادت و سیادت کا تاج آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک پر رکھ دیا گیا ہے۔
یہ قیامت تک اسی پاک سر کی زینت بنا رہے گا، اب تمام انسانوں کو اسی قیادت میں
چلنا ہے، حتیٰ کہ اگر کسی نبی کو دنیا میں بھیجا گیا تو وہ نبی کی حیثیت سے نہیں
بلکہ امت محمدی کے ایک فرد کی حیثیت سے دنیا میں آئے گا، جیسا کہ روایات میں ہے
کہ قیامت سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام دنیا میں تشریف لائیں گے، وہ دین اسلام
کی اتباع کریں گے اور اس دین کی نصرت و اعانت کے بعد طبعی طور پر وفات پائیں گے۔
مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ
تک کا سفر بھی حکمتوں سے خالی نہیں ہے، مثلاً اس سفر سے یہ بتلانا ہے کہ مسلمانوں
کے لئے مسجد اقصیٰ کی نسبت کچھ کم اہمیت نہیں رکھتی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
وہاں کا سفر فرمایا، انبیاء کرام کی امامت فرمائی، وہیں سے معراج پر تشریف لے گئے،
مکی زندگی میں وہ ہی مسلمانوں کی نماز کا قبلہ رہا، اس اہمیت کا تقاضا ہے کہ
مسلمان مسجد اقصیٰ کی حفاظت کیلئے مستعد رہیں، اس سے محبت کریں اور اس کے خلاف
سازشیں کرنے والوں سے برسرِ پیکار ہوں، جس
طرح مسجد حرام کی حفاظت، بتوں سے اس کی تطہیر مسلمانوں کی ذمہ داری تھی، اسی طرح
مسجد اقصیٰ کے تئیں بھی مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اسے استعماری طاقتوں کے
پنجۂ استبداد سے بچائیں اور اگر خدانہ کرے یہ مسجد کبھی ان کے دست تصرف میں چلی جائے
تو دنیا کے ہر مسلمان کا یہ فرض ہوگا کہ اس کی آزادی کیلئے کمر بستہ ہو۔
مسجد اقصیٰ کی اسی اہمیت
کے پیش نظر صحابۂ کرامؓ نے اپنی ذمہ داری محسوس کی اور حضرت عمر بن الخطابؓ کے
عہدِ خلافت میں فلسطین کا محاصرہ کرکے اسے رومیوں کے تسلط سے آزاد کرایا۔ پانچ صدیوں
تک مسلمان وہاں حکومت کرتے رہے، ملک میں ہر طرف امن و امان قائم رہا۔ پانچ صدیوں
کے بعد صلیبیوں نے اس پر قبضہ کرلیا۔ ایک صدی کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی نے
فوجی یلغار کی اور اسے صلیبیوں سے آزاد کرایا۔ اب سو سال سے پھر قبلۂ اوّل یہود
کے قبضے میں ہے اور مسلمانوں کو اپنی آزادی کا خاموش پیغام دے رہا ہے۔
8-سفر
معراج، نماز کی عظمت، فضیلت اور اہمیت کا نقطۂ معراج بھی ہے، احادیث نبویہ سے یہ
بات ثابت ہوچکی ہے کہ امت مسلمہ پر نماز کی فرضیت اس رات ہوئی جس رات آپۥؐ
آسمان پر تشریف لے گئے، ابتداء میں پچاس نمازیں فرض ہوئیں، آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کی استدعا پر ان میں تخفیف کی گئی اور پچاس کی جگہ پانچ نمازیں رہ گئیں،
ارکان اسلام میں تنہا نماز کی فرضیت کا یہ انداز اس کے شرف و عظمت پر روشن دلیل
ہے۔ (تفسیر ابن کثیر ۳؍۲۳) دعواۃ و واعظین اور امورِ
تربیت پر مامور افراد کو چاہئے کہ وہ اپنی تقریروں میں، اپنے مواعظ میں اور اپنے
تربیتی بیانات میں نماز کے اس پہلو کو بطور خاص بیان کریں کہ اس عبادت کی فرضیت شب
معراج میں ہوئی، نیز یہ وہ عبادت ہے جس کی ادائیگی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے سب سے زیادہ زور دیا ہے یہاں تک دنیا سے پردہ فرمانے سے کچھ پہلے بھی آپ
صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک پر یہ الفاظ تھے: ’’نماز، نماز اورتمہارے زیر
دست یعنی باندی، غلام‘‘ (سنن ابی دائود۱۳؍۳۷۰، رقم ۴۴۸۹) آپ صلی اللہ علیہ
وسلم بار باریہ کلمات دہراتے رہے، دہراتے،
دہراتے آپۥؐ
کی زبانِ مبارک بوجھل ہوگئی۔
9-معراج
کی رات جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد معاشرتی برائیوں کی تمثیلی
صورتوں اور ان پر دی جانے والی عقوبتوں کا مشاہدہ بھی فرمایا، اس مشاہدے سے یہ
فائدہ ہوا کہ آپۥؐ
مستقبل کی دعوتی زندگی میں لوگوں کو ان گناہوں کے خطرات اور ان پر دی جانے والی
سزائوں کی سنگینی سے آگاہ کرتے رہے اور انہیںیہ احساس دلاتے رہے کہ آخرت کی
آرام دہ زندگی کے لئے ان گناہوں کے ارتکاب سے بچنا بے حد ضروری ہے۔ اس سفر میں
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو دیکھا، ان کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ
لوگ ان ناخنوں سے اپنے چہرے اور سینے کا گوشت کھسوٹ رہے تھے، آپۥؐ
نے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ یہ غیبت کرنےوالے
اور دوسروں کی عزتوں سے کھیلنے والے لوگ
ہیں یعنی انہیں برا بھلا کہتے ہیں۔ یتیموں کا مال زبردستی ہڑپ کرجانے والوں
کا حشر دیکھا کہ ان کے ہونٹ اس قدر بڑے اور لمبے ہیں جیسے اونٹ کے کان ہوں، ان کے
ہاتھوں میں آگ کے گولے ہیں، ان کا حُجم پتھر جتنا ہے، وہ لوگ یہ آتشیں پتھر منہ
میں ڈالتے ہیں اور پاخانے کے راستے سے باہر نکال دیتے ہیں۔اس رات سود خور، زانی،
مانعین زکوٰۃ، فتنہ پرور خطیب اور بددیانت
لوگ بھی دکھلائے گئے اور ان کو ملنے والی سزائوں کا مشاہدہ بھی کرایا گیا۔ (جاری)
6 نومبر 2020،بشکریہ:انقلاب، نئی دہلی
nadimulwajidi@gmail.com
Related
Article
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/the-reward-meraj-given-allah-part-6/d/123397
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism