New Age Islam
Sat Sep 14 2024, 07:35 PM

Urdu Section ( 17 Dec 2020, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Prophet That the Jews Used To Frighten Us With Part-10 یہ وہی نبی ہیں جن کا ذکر کرکے یہودی ہمیں ڈراتے رہتے ہیں

 مولانا ندیم الواجدی

11 دسمبر 2020

مدینہ منورہ میں ظہور اسلام

اوس و خزرج کے لوگ یہودی عالموں کے پاس اٹھتے بیٹھتے تھے اور ان سے سنتے رہتے تھے کہ عن قریب پیغمبر آخر الزماں مبعوث ہونے والے ہیں، وہ یہاں تشریف لائیں گے، ہم ان کی اتباع کریں گے اور ان کے ساتھ مل کر قوم عاد اور قوم اِرم کی طرح تمہیں قتل کردیں گے اور اس سرزمین سے تمہارا صفایا کردیں گے۔ اوس و خزرج کے لوگ ہر سال حج کے لئے مکہ مکرمہ آیا کرتے تھے۔ یہ سن   ۱۱؍نبوی کی بات ہے کہ خزرج کے کچھ لوگ حج کے لئے آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبرہوئی، آپؐ ان کے پاس تشریف لے گئے، یہ کل چھ افراد تھے،جن کے اسماء گرامی یہ ہیں: (۱)ابوامامۃ اسعد بن زُرارہ (۲)عوف بن الحارث (۳)رافع بن مالک (۴)قطبۃ بن عامر (۵)جابر بن عبداللہ رِئاب (۶)عقبہ بن عامر۔ ان چھ افراد سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات عَقَبَہ میں ہوئی، دو پہاڑوں کے درمیانی جگہ عَقَبَہ کہلاتی ہے۔ منیٰ میں جمرات کے اختتام پر یہ گھاٹی واقع تھی جو اب سڑکوں میں تبدیل ہوچکی ہے۔ خفیہ ملاقات کے لئے یہ بہترین جگہ تھی، کیوں کہ ادھر حجاج کرام کی آمد وفت نہ ہونے کے برابر تھی، لوگ کنکریاں مارنے کے بعد واپس منیٰ چلے جاتے تھے،جمرات سے آگے جانے کی نہ کوئی ضرورت تھی اور نہ لوگ اُدھر جایا کرتے تھے، اس لئے عام طور پر یہ گھاٹی آنے جانے والوں سے خالی ہی رہتی تھی۔

ان چھ خزرجیوں سے ملاقات ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا: آپ لوگ کون ہیں؟ عرض کیا: ہم قبیلۂ خزرج سے تعلق رکھتے ہیں؟ فرمایا:کیا آپ یہودیوں کے موالی (دوست) ہیں؟ عرض کیا: جی ہاں، فرمایا: آئیے! کچھ دیر بیٹھتے ہیں، مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے، یہ سن کر وہ بیٹھ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے پہلے انہیں اللہ کی طرف آنے کی دعوت دی، ان کے سامنے اسلام کا تعارف رکھا، پھر قرآن کریم کی تلاوت فرمائی، یہ باتیں سن کر وہ لوگ ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ ہمارے خیال سے تو یہ وہی نبی ہیں جن کا ذکر کرکے یہودی ہمیں ڈراتے رہتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ وہ لوگ ان پر ایمان لائیں ہمیں ایمان لے آنا چاہئے۔ چنانچہ جیسے ہی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چھ افراد کے سامنے اسلام کی بات رکھی انہوں نے کسی تأمل کے بغیر آپؐ کے سامنے سر تسلیم خم کردیا، گویا ان کے دلوں کی مٹی نرم اورتیار تھی، بس اس میں ایمان کا پودا لگانا باقی تھا، جیسے ہی آپؐ نے ان کے دلوں کی زمین پر کلمۂ اسلام کا بیج ڈالا ، اگلے ہی لمحے اسلام کی فصل لہلہانے لگی۔ اسلام قبول کرنے کے بعد کہنے لگے کہ ہم اپنے پیچھے ایک ایسی قوم چھوڑ کر آئے ہیں جس میں باہمی دشمنی اور عداوت بہت زیادہ ہے اس قدر عداوت اور دشمنی شاید ہی کسی دوسری قوم میں ہو، ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ آپ کے ذریعے ان میں اتحاد اور اتفاق پیدا کردے۔ ہم واپس جا کر انہیں آپؐ کی بات بتلائیں گے اور ان سے بھی اس دین کو قبول کرنے کے لئے کہیں گے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے ہماری قوم کو آپؐ کی ذات پر جمع کردیا تو ہمارے لئے آپؐ سے بڑھ کر کوئی دوسرا عزیز نہ ہوگا۔ یہ لوگ مسلمان ہو کر یثرب واپس گئے۔ (تاریخ الطبری، ۱؍۵۸۸، عیون الاثر، ۱؍۲۶۲)

یثرب پہنچ کر انہوں نے اپنے وعدے کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر قوم کے سرکردہ لوگوں سے کیا اور آپؐ کی دعوت ان کے سامنے رکھی، ان کی محنتیں رائیگاں نہیں گئیں، لوگوں نے دل کے کانوں سے ان کی بات سنی اور قبول کی، بہت جلد یثرب کے ہر گھر میں اسلام کی کرنیں پھیل گئیں۔ ایک راوی کہتے ہیں کہ انصار کا کوئی گھر ایسا نہ تھا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر خیر نہ ہوتا ہو۔ (سیرت ابن ہشام، ۱؍۳۱۲)

پہلی بیعت عقبہ

اگلے سال ٹھیک حج کے اسی موسم میں قبیلۂ خزرج کے بارہ لوگوں نے مکہ مکرمہ کا قصد کیا، پانچ لوگ تو اس وفد میں وہی تھے جو پہلے آکر ملاقات کا شرف حاصل کرچکے تھے، سات نئے تھے، جن کے نام یہ ہیں: (۱)معاذ بن عبداللہ بن رفاعہ (۲)ذکوان بن عبدالقیس، بیعت کے بعد یہ مکہ ہی میں ٹھہر گئے تھے، بعد میں انہوں نے ہجرت کی، اس طرح یہ مہاجر بھی ہیں اور انصار بھی، (۳)عبادہ بن الصامت (۴)یزید بن ثعلبہ (۵)ابوالہیشم بن تیہان (۶)عویمر بن مالک (۷)عباس بن عبادہ بن نضلہ، اس سال جابر بن عبداللہ تشریف نہیں لاسکے تھے، ان بارہ حضرات نے اسی عقبہ میں ملاقات کی اور بیعت کی، اس ملاقات اور بیعت کی تفصیل بیان کرتے ہوئے حضرت عبادہ بن الصامتؓ فرماتے ہیں: ’’میں ان لوگوں میں شامل تھا جو بیعت اولیٰ میں موجود تھے، ہم بیس افراد تھے،ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر عورتوں والی بیعت کی، عورتوں والی بیعت سے قرآن کریم کی اس آیت کی طرف اشارہ ہے:  ’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! جب مؤمن عورتیں آپ کے پاس بیعت کے لئے آئیں۔‘‘ (الممتحنہ:۱۲) راوی کہنا چاہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے ان ہی باتوںپر بیعت لی، جن باتوں پر عورتوں سے بیعت لی تھی۔ حضرت عبادہؓ فرماتے ہیں کہ یہ واقعہ جنگ و جدال کی فرضیت سے پہلے کا ہے، آپؐ نے ہم سے ان امور پر بیعت کی کہ ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے۔ ہم چوری نہیں کریں گے، ہم زنا نہیں کریں گے، اپنے بچوں کو قتل نہیں کریں گے، نہ کسی پر بہتان تراشی کریں گے اور نہ کسی اچھی بات میں آپ کی نافرمانی کریں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا کہ اگر تم نے یہ تمام وعدے پورے کئے تو تمہارے لئے جنت ہے اور اگر تم نے ان میں سے کسی گناہ کا ارتکاب کرکے وعدہ خلافی کی تو پھر تمہارا معاملہ اللہ کے اختیار میں ہے، وہ چاہے تو تمہیں عذاب دے اور چاہے تو تمہاری مغفرت کردے۔ (صحیح البخاری، ۱؍۲۹، رقم۱۷،، صحیح مسلم ۹؍۳۲۲۴۰۹۰، المستدرک للحاکم، ۲؍۶۲۴) ان تمام حضرات نے بیعت کی اور وطن کی راہ لی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کے ساتھ حضرت مصعب بن عمیرؓ کو بھیجا تاکہ وہ ان کو قرآن پڑھائیں اور دین کی باتیں سکھلائیں۔ حضرت مصعبؓ نے اسعد بن زرارہ کے مکان پر قیام کیا اور مدینہ منورہ کے اولین قاری اور معلم ہونے کا شرف حاصل کیا، وہ مسلمانوں کے امام بھی بنے، کیوں کہ شروع شروع میں اوس و خزرج کے لوگ ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنا پسند نہیں کرتے تھے۔ (تاریخ الطبری، ۱؍۵۵۹، سیرت ابن ہشام، ۱؍۳۱۴)

مدینہ منورہ میں پہلا جمعہ

یہ وہی ابوامامہ اسعد بن زرارہؓ ہیں جنہوں نے مدینہ منورہ میں سب سے پہلے جمعہ قائم کیا اور نماز جمعہ کی امامت بھی کی۔ عبدالرحمٰن بن کعب بن مالکؓ کہتے ہیں کہ میں اپنے والد کعب بن مالکؓ کو جمعہ کی نماز پڑھوانے کے لئے لے کر جایا کرتا تھا، آخر عمر میں وہ نابینا ہوگئے تھے، جب بھی جمعہ کی اذان ہوتی میں اپنے والد کو دیکھتا کہ وہ ابوامامہ کے لئے رحمت و مغفرت کی دعا کیا کرتے ہیں، کچھ عرصے تک تو میں یہ سب کچھ دیکھتا رہا، ایک دن مجھ سے رہا نہیں گیا اور میں پوچھ ہی بیٹھا کہ اباجان آپ اذان جمعہ سن کر ابوامامہ اسعد ابن زرارہ کے لئے دعائے مغفرت کیوں کرتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: بیٹے! ابوامامہ وہ شخص ہیں جنہوں نے سب سے پہلے جمعہ کی نماز کے لئے ہم سب کو بنی بیاضہ کے پتھریلے مقام میں واقع نشیبی علاقے نقیع الخضمات میں اکٹھا کیا تھا، میں نے ان سے پوچھا اس وقت آپ لوگ تعداد میں کتنے تھے؟ انہوں نے کہا کہ ہم چالیس افراد تھے۔ (سنن ابی دائود، ۳؍۲۶۸، رقم الحدیث ۹۵۳، سنن ابن ماجہ ۳؍۳۸۲، رقم الحدیث ۱۰۷۲) اسعد ابن زرارہ نے نہ صرف یہ کہ مدینہ منورہ میں سب سے پہلے جمعہ قائم کیا بلکہ اسلام میں بھی سب سے پہلے جمعہ قائم کرنے والے یہی صحابی ہیں۔ قیام جمعہ کا اصل محرک یہ تھا کہ مدینہ منورہ کے یہود و نصاریٰ نے عبادت کے لئے ایک دن خاص کر رکھا تھا، یہود شنبہ کو عبادت کیا کرتے تھے اور نصاریٰ دو شنبہ کو، اسعد ابن زرارہؓ کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ ہم مسلمانوں کو بھی ایک دن متعین کرلینا چاہئے اور اس خاص دن میں کسی خاص وقت پر جمع ہو کر تمام مسلمانوں کو اللہ کا ذکر اور شکر ادا کرنا چاہئے اور نماز پڑھنی چاہئے۔ انہوں نے اس نیک کام کے لئے محض اپنے اجتہاد سے جمعہ کا دن متعین کیا۔ دورِ جاہلیت میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک جدامجد کعب بن لؤی نے جمعہ کا دن عبادتِ الٰہی کے لئے خاص کر رکھا تھا۔ اگرچہ اس وقت اس دن کو یوم عروبہ کہا جاتا تھا۔ حضرات صحابہؓ نے اسے یوم عروبہ کے بجائے یوم جمعہ قرار دیا۔ قرآن کریم نے جمعہ کے نام اور عبادت دونوں کی تصویب اور تائید کی۔ چنانچہ یہ آیت نازل ہوئی :’’اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز کے لئے پکارا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو۔‘‘(الجمعۃ) اس واقعہ کے کچھ دن بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مکتوب گرامی حضرت مصعب بن عمیر کے نام پہنچا، اس میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا تھا کہ سب مل کر زوالِ آفتاب کے بعد کسی جگہ جمع ہو کر دو رکعت نماز ادا کیا کریں۔

 ( الزرقانی، ۱؍۳۱۵)

اُسید بن حُضیر اور سعد بن معاذؓ

حضرت مصعب بنی عمیرؓ بنی عبدالاشہل کے أبو امامہ اسعد بن زرارہؓ کے گھر میں مقیم تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اہل مدینہ کا امام و خطیب، معلم اور مقریٔ بنا کر یہاں بھیجا تھا، وہ اپنے فرائض منصبی پوری ذمہ داری کے ساتھ ادا کر رہے تھے، ان کی محنت سے حلقہ بہ گوشانِ اسلام کا دائرہ بھی دن بدن وسیع ہوتا جارہا تھا، لوگ دین سیکھنے کے لئے حضرت ابوامامہؓ کے گھر پر جمع رہتے، بنی عبدالاشہل کے بڑوں کو جب اس صورت حال کا علم ہوا اور یہ پتہ چلا کہ ان کے گھرانے کا ایک شخص مکہ مکرمہ سے کسی اجنبی کو ساتھ لے کر آیا ہے اور وہ ان کو کچھ نئی باتیں سکھلا رہا ہے،  ان بڑوں میں اُسید بن حُضیر اور سعد بن معاذ بھی تھے۔ اول الذکر ہاتھ میں ننگی تلوار لے کر ٹھیک اس وقت ابوامامہ کے مکان پر پہنچے جب وہاں دین کی تعلیم ہو رہی تھی، یہ منظر دیکھ کر ان کا پارہ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا۔ انہوں نے چیختے ہوئے پوچھا: ابوامامہ! یہ کیا ہورہا ہے؟ اور یہ شخص کون ہے جو ہمارے بھائیوں کوگمراہ کر رہا ہے۔ ابوامامہ تو کچھ نہیں بولے، البتہ حضرت مصعب نے نہایت تحمل اور وقار کے ساتھ فرمایا: آپ کچھ کہنے سے پہلے ہمارے پاس تشریف رکھیں اور ہماری بات غور سے سنیں، اس کے بعد کوئی چیز قابل اعتراض ہو تو بے شک آپ اس پر ہماری گرفت کریں۔ اسید اس وقت غصے میں تو تھے مگر فطرتاً وہ متحمل مزاج، بردبار اور معاملہ فہم انسان بھی تھے۔ حضرت مصعبؓ کی بات سن کر کہنے لگے، یہ بات آپ نے انصاف اور سمجھ داری کی کی ہے، کہئے آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟ انہوں نے ہتھیار ایک طرف رکھے اور ان کے پاس بیٹھ گئے۔

حضرت مصعبؓ نے ان کو اسلام کے بارے میں بتلایا اور کچھ قرآن کریم پڑھ کر سنایا، اب ان کی کیفیت بدل گئی، کہاں تو اس قدر غصہ تھا کہ آپے سے باہر ہورہے تھے، کہاں اس قدر نرمی اور شفقت جیسے کوئی قابل اعتراض بات ہی نہ ہو۔ چشم دید راوی کہتے ہیں کہ قرآن سن کر ان کے چہرے پر جو نوارنی کیفیت طاری ہوئی اسے ہم سب نے محسوس کی، پھر کہنے لگے: خدا کی قسم! کتنا خوبصورت اور بہترین کلام ہے اس کے بعد پوچھا: اچھا اگر تم کسی کو اس دین میں داخل کرنا چاہو تو کیا کرتے ہو؟

حضرت مصعبؓ نے جواب دیا، پہلے آپ غسل کریں، پاک صاف لباس زیب تن کریں اور کلمۂ شہادت پڑھیں، پھر نماز ادا کریں۔ چنانچہ انہوں نے اسی وقت غسل کیا، کپڑے بدلے اور کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگئے، پھر دو رکعتیں پڑھیں، جس مجلس سے اٹھ کر گئے تھے وہاں واپس پہنچے تو حاضرین نے چال ڈھال سے ہی پہچان لیا کہ صورتِ حال بدل چکی ہے، جو اُسید گئے تھے وہ واپس نہیں آئے۔ (جاری)

nadimulwajidi@gmail.com

11 دسمبر 2020،بشکریہ:انقلاب، نئی دہلی

Related Article

Part: 1- I Was Taken to the Skies Where the Sound Of Writing with a Pen Was Coming (Part-1) مجھے اوپر لے جایا گیا یہاں تک کہ میں ایسی جگہ پہنچا جہاں قلم سے لکھنے کی آوازیں آرہی تھیں

Part: 2- Umm Hani! ام ہانی! میں نے تم لوگوں کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھی جیسا کہ تم نے دیکھا، پھرمیں بیت المقدس پہنچا اور اس میں نماز پڑھی، پھر اب صبح میں تم لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی جیسا کہ تم دیکھ رہی ہو

Part: 3 - Allah Brought Bait ul Muqaddas before Me and I Explained its Signs اللہ نے بیت المقدس کو میرے روبرو کردیااور میں نے اس کی نشانیاں بیان کیں

Part: 4- That Was A Journey Of Total Awakening وہ سراسر بیداری کا سفر تھا، جس میں آپؐ کو جسم اور روح کے ساتھ لے جایا گیا تھا

Part: 5- The infinite power of Allah Almighty and the rational proof of Mi'raj رب العالمین کی لامتناہی قدرت اور سفر معراج کی عقلی دلیل

Part: 6- The Reward of 'Meraj' Was Given by Allah Only to the Prophet معراج کا انعام رب العالمین کی طرف سے عطیۂ خاص تھا جو صرف آپؐ کو عطا کیا گیا

Part: 7- Adjective of Worship مجھے صفت ِ عبدیت زیادہ پسند اور عبد کا لقب زیادہ محبوب ہے

Part:-8- Prophet Used To Be More Active Than Ever In Preaching Islam During Hajj رسولؐ اللہ ہر موسمِ حج میں اسلام کی اشاعت اور تبلیغ کیلئے پہلے سے زیادہ متحرک ہوجاتے

Part: 9- You Will Soon See That Allah Will Make You Inheritors Of The Land And Property Of Arabia تم بہت جلد دیکھو گے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں کسریٰ اور عرب کی زمین اور اموال کا وارث بنا دیگا

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/the-prophet-that-jews-used-part-10/d/123779


New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..