مولانا ندیم الواجدی
23اکتوبر،2020
معراج جسمانی کے دلائل
سورۂ بنی اسرائیل کی
پہلی آیت میں اسراء کا واقعہ بیان کیا گیاہے اور اس کا آغاز لفظ سُبْحَانَ سے
کیا گیا ہے، جس کے معنی ہیں ’’بہت پاک ہے وہ ذات ‘‘۔ یہ تسبیح کا لفظ ہے اور ایسے
امور کے بیان سے پہلے لایا جاتاہے جو اپنے آپ میں نہایت اہمیت کے حامل ہوں اور جن
سے خدا کی عظمت اور کبریائی کا اظہار ہوتاہو۔ اگریہ خواب کا معاملہ ہوتا تو اس میں
بڑائی اور عظمت کا کوئی قابلِ ذکر پہلو نہ ہوتا اور نہ اسے اس شان کے ساتھ ذکر کیا
جاتا کیوںکہ خواب تو دیکھے ہی جاتے ہیں۔ پھر یہاں اس سفر کے لئے اَسْریٰ کا لفظ
لایا گیا ہے، جس کے معنی ہیں رات کو لے جانا۔ اس لفظ کا اطلاق بیداری کی حالت پر
ہوتاہے، نیند کی حالت میں چلنے یا چلانے کو اسریٰ نہیں کہتے۔ قرآن کریم میں اس کی
متعدد مثالیں ہیں۔ مثال کے طور پر حضرت لوط علیہ السلام کے قصے میں مذکورہے کہ جب
انہیں اپنے اہل و عیال کے ساتھ بستی سے نکلنے کا حکم ہوا تو ان سے فرمایا گیا:
فَاَسْرِ بِاَھْلِکَ بِقِطْعٍ مِّنَ اللَّیْل (ہود:۸۱، الحجر:۶۵) ’’آپ اپنے گھر والوں کو
رات کے کسی حصے میں لے کر نکل جائیں۔‘‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جب یہ حکم ہوا
کہ اپنی قوم کو لے کر سمندری راستے سے رات کے وقت نکل جائیں، وہاں بھی اَسْرِ
فرمایا گیا، فَاَسْرِ بِعِبَادِیْ لَیْلاً اِنَّکُمْ مُّتَّبَعُوْن۔ (الدخان:۲۳) ’’راتوں رات میرے بندوں کو
لے کر نکل جائو، تمہارا پیچھا کیا جائے گا۔‘‘ سورہ ٔ طٰہٰ اور سورۂ شعراء میں بھی
یہی لفظ لایا گیا ہے۔ ان آیات کا یہ مفہوم ہے ہی نہیں کہ نیند کی حالت میں نکل
جائو، یا بندوں کے جسم وہیں پڑے رہنے دو اور روحوں کے ساتھ نکل جاو، بلکہ ان قصوں
کا سیاق یہ بتلاتاہے کہ بیداری کی حالت میں مادی جسموں کو لے کر نکل پڑو، یہی
مفہوم آیت اسراء کا بھی ہے۔ قاضی عیاضؒ فرماتے ہیں ’’لا یقال فی النوم اسریٰ‘‘
(الشفاء، ص:۱۹۱) ’’نیند
کی حالت میں اسریٰ نہیں کہا جاتا۔‘‘
اس آیت میں تیسرا لفظ
عَبْد ہے، عبد محض جسم کو نہیں کہتے، نہ صرف روح کو عبد کہتے ہیں بلکہ دونوں کے
مجموعے کو عبد کہا جاتاہے۔ (تفسیر ابن کثیر ۵؍۴۳) قرآن و حدیث میں جہاں
جہاں بھی عبد کا لفظ لایا گیا ہے وہاں وہاں اس سے مراد مکمل انسان ہے، کسی بھی جگہ
محض اس کی روح یا محض اس کا جسم مرادنہیں ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ آپ کو روح
اور جسم دونوں کے ساتھ لے جایا گیا تھا۔
یہ تفصیل سفر اسراء کی ہے
جو مکہ مکرمہ سے شروع ہو کر بیت المقدس پر اختتام کو پہنچا۔ دوسرا سفر معراج ہے جو
اسی سفر کا تتمہ ہے۔ اس کے متعلق قرآن کریم میں بعض آیات میں ارشاد فرمایا:
مَازَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰی (النجم:۱۷) ’’یعنی آنکھ نے جو کچھ دیکھا وہ پورے یقین
کے ساتھ دیکھا نہ نگاہ آڑی ترچھی ہو کر اپنے مقصود سے ہٹی اور نہ اس سے آگے بڑھی
بلکہ جو چیز ہم دکھلانا چاہتے تھے اس پر جمی رہی۔ یہاں لفظ بَصَر لایا گیا ہے، یہ
بھی اس بات کی دلیل ہے کہ واقعہ ٔ معراج بیداری کا ہے، کیوںکہ بیداری ہی میں آنکھ
دیکھتی ہے، نیند کی حالت میں تو صرف قلب کو احساس ہوتا ہے، آنکھ بند رہتی ہے۔
واقعۂ معراج کا اہم پہلو
یہ ہے کہ جس وقت مشرکین مکہ کو معلوم ہوا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہی
رات میں بیت المقدس جا کر واپس آنے کا دعویٰ کیا ہے تو وہ مذاق اڑانے لگے اور
جھٹلانے لگے کہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ اگر یہ واقعہ محض خواب کا ہوتا تو اس پر
اتنی ہنگامہ آرائی کی کوئی ضرورت نہ تھی، کیوں کہ خواب کی باتوں پر تو یقین اور
عدم یقین کا کوئی مسئلہ کھڑا ہی نہیں ہوتا، نہ وہ لوگ ثبوت کا مطالبہ کرتے، قافلے
والوں سے بھی کچھ نہ پوچھتے، نہ بیت المقدس کے متعلق سوال جواب کرتے، سب سے بڑھ کر
یہ کہ حضرت ابوبکرؓ کے پاس جانے اور ان کا موقف دریافت کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہ
تھی، کیوں کہ خواب کی باتوں پر کسی تصدیق یا تکذیب کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی، پھر
جب حضرت ابوبکرؓ نے واقعات کی تائید و تصدیق کی تو ان کو صدیق کے لقب سے نوازا گیا۔ یہ بات خود اپنی جگہ
اہم ہے، بھلا خواب کی باتوں کی تصدیق بھی کوئی تصدیق ہوتی ہے، اور اگر کوئی شخص ان
کی تصدیق کر بھی دے تو اس کو تصدیق (انتہائی سچا) کیسے کہا جاسکتاہے؟
واقعہ ٔ معراج پر ایک خارجی
شہادت بھی ہے جو اس کے وقوع پزیر ہونے کے کچھ دن بعد ہی مل گئی۔ حافظ ابن کثیرؒ نے
اپنی تفسیر میں حافظ ابونعیم اصبہانیؒ کی کتاب دلائل النبوۃ کے حوالے سے یہ واقعہ
نقل کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت دحیہ بن خلیفہؓ کو ہرقل کے پاس
اپنا نامۂ مبارک دے کر بھیجا جس میں اسے ایمان لانے اور اسلام قبول کرنے کی دعوت
دی گئی تھی۔ شاہِ روم نے خط پڑھنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال و
واقعات کی تحقیق کیلئے ان لوگوں کو بلا کر بھیجا جن کا تعلق بلاد عرب سے تھا، ان
دنوں سفیان بن حرب ایک تجارتی قافلے میں موجود تھے۔ ان کو رفقاء سمیت دربار شاہی
میں حاضر کیا گیا۔ ابوسفیان چاہتے تھے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے
متعلق کچھ ایسی باتیں شاہِ روم کو بتلائیں جن سے یہ واضح ہوجائے کہ آپ جھوٹے نبی
ہیں، وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ واقعات ایسے ہوں جن کی تردید نہ ہوسکے۔ انہوں نے بہت
سوچ سمجھ کر واقعہ ٔ معراج کا انتخاب کیا اور بادشاہ کو بتلایا کہ یہ مدعی ٔ نبوت
ایک ہی رات میں مکہ سے نکل کر بیت المقدس میں پہنچے اور آپ کی اس مسجد میں انہوں
نے نمازپڑھی اور صبح سے پہلے مکے بھی پہنچ گئے۔
جس وقت ابوسفیان یہ واقعہ
بیان کررہے تھے، بیت المقدس کا سب سے بڑا عالم بادشاہ کی خدمت میں حاضر تھا، اس نے
کہا میں روز رات کو بیت المقدس کے تمام دروازے بند کرتاہوں، اس رات بھی دروازے بند
کرتا پھر رہا تھا، میں نے تمام دروازے بند کردئیے۔ ایک دروازہ رہ گیا جو انتہائی
کوشش کے باوجود بند نہ ہوسکا۔ میں نے دوسرے لوگوں کو بلایا، ہم سب نے مل کر کوشش
کی، مگر ناکام رہے۔ دروازہ اپنی جگہ بالکل جام ہو گیا تھا۔ کئی لوگ مل کر بھی اسے
ہلا نہیں پا رہے تھے، ایسا لگتا تھا جیسے ہم کسی پہاڑ کو اپنی جگہ سے ہلانے کی
کوشش کر رہے ہوں، میں نے اسی وقت کاریگروں کو طلب کیا، انہوں نے کہا کہ کواڑوں پر
عمارت کا بوجھ پڑ گیا ہے، صبح سے پہلے اس کا درست ہونا ممکن نہیں ہے۔ میں مجبور ہو
کر لوٹ آیا اور وہ دروازہ تمام رات اسی طرح کھلا رہا۔ صبح ہوتے ہی میں پھر وہاں
پہنچا، میں نے دیکھا کہ مسجد کے دروازے کے پاس واقع ایک چٹان میں سوراخ ہو رہا ہے،
ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کسی نے وہاں کیلیں گاڑ کر اپنے جانور کو باندھا ہو، میں
نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ رات یہ دروازہ شاید اس لئے بند نہ ہوسکا کہ اللہ تعالیٰ
اپنا کوئی نبی یہاں بھیجنے والے تھے، یقیناً اس نبی نے ہماری مسجد میں میں نماز
پڑھی ہے۔‘‘ (تفسیر ابن کثیر۵؍۴۵)
مشرکینِ مکہ کسی طرح یہ
بات ماننے کے لئے تیار نہیں تھے کہ کوئی شخص اتنے کم وقت میںبیت المقدس جا کر واپس
بھی آسکتا ہے، حالاں کہ انہیں ثبوت بھی مہیا کئے گئے، مگر ان کے محدود اور متعصب
ذہن اسے تسلیم نہیں کرسکے۔
واقعۂ معراج پر سب سے
بڑا اعتراض
سفر معراج پر سب سے بڑا
اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ یہ سائنسی مسلمات کے خلاف ہے، ایسے کسی سفر کیلئے سب سے
بڑی رکاوٹ کشش ثقل یا گریوٹی Gravity ہے۔ یہ وہ قوت ہے جس
سے زمین تمام اجسام کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ اس سلسلے میں بے شمار نظریات متعارف
ہیں، جن میں نیوٹن کا قانون تجاذب زیادہ مشہور ہے۔ نیوٹن نے آج سے تین سوسال پہلے
سیب کو زمین پر گرتے ہوئے دیکھ کر یہ نظریہ قائم کیا تھا کہ زمین میں کشش ثقل ہے،
بعد میں اس نے اس نظرئیے پر کام کیا اور ضخیم کتابیں لکھیں، جن کا خلاصہ یہ ہے کہ
کشش ثقل کی بدولت کائنات کا نظام قائم ہے۔ زمین سورج کے گرد محو گردش ہے اور چاند
زمین کے گرد چکر لگا رہا ہے۔ تمام کواکب اور سیارے اپنے اپنے محور میں اس کشش ثقل
کی وجہ سے گھوم رہے ہیں۔ اگریہ کشش نہ ہو تو سب ایک دوسرے سے ٹکرا کر فنا ہوجائیں،
حالاں کہ نیوٹن کایہ نظریہ کوئی نیا نظریہ نہیں تھا۔ زمین کے اپنے محور میں اور
تمام سیاروں کا سورج کے گرد گھومنے کا تصور سب سے پہلے ایک مسلمان سائنس داں ابو
سعید احمد بن محمد بن عبدالجلیل سبحستانی (۹۵۱ء تا۱۰۲۴ء) نے پیش کیا تھا۔ اگرچہ
یہ نظریہ اُس وقت قبول نہ کیا جاسکا اور فلاسفہ کے زیر اثر ایک مدت تک لوگ یہی سمجھتے
رہے کہ زمین ساکن ہے اور تمام سیارے اسی کے گرد گھومتے ہیں۔ بہرحال اس نظریۂ کشش
ثقل کی وجہ سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ زمین کے مدار اور مرکز ثقل سے نکلنے کے لئے کم
از کم چالیس ہزار فی گھنٹہ رفتار کی ضرورت ہے، یہ عجیب بات ہے کہ قرآن کریم بھی
پہلے ہی اس حقیقت کا اظہار کرچکا ہے، اگرچہ اس نے رفتار کی بات نہیں کی بلکہ
غیرمعمولی قوت کا ذکر کیا ہے جسے استعمال کرکے انسان آسمانوں اور زمین کے محور سے
باہر نکل سکتاہے۔ ارشاد خداوندی ہے:’’اے گروہِ جن و اِنس! اگر تم اِس بات پر قدرت
رکھتے ہو کہ آسمانوں اور زمین کے کناروں سے باہر نکل سکو (اور تسخیرِ کائنات کرو)
تو تم نکل جاؤ، تم جس (کرّۂ سماوی کے) مقام پر بھی نکل کر جاؤ گے وہاں بھی اسی
کی سلطنت ہوگی۔‘‘ (الرحمٰن: ۳۳)
قرآن نے یہ نہیں کہا کہ
زمین و آسمان کی حدود سے باہر نکلنا ممکن نہیں ہے، ممکن ہے مگر اس کیلئے زبردست طاقت
و قوت یعنی غیرمعمولی وسائل کی ضرورت ہے، یہ وسائل ہی ہیں جن سے اس کشش ثقل پر
قابو پایا جاسکتا ہے۔ خلا نوردی کے اس دور میں کشش ثقل سے باہر نکلنا حیرت انگیز
واقعہ نہیں ہے، راکٹ داغے جارہے ہیں اور ان کو زمین کی حدود سے باہر دوسرے
سیاروںتک بھیجا جارہا ہے، راکٹوں اور خلائی گاڑیوں کی پرواز نے اس اعتراض کے تار و
پود بکھیر کر رکھ دئیے ہیں۔ کرۂ ارض سے ایک مخصوص فاصلے پر پہنچ کر راکٹ کشش ثقل
کے اثر سے آزاد ہوجاتا ہے۔ راکٹ کو زمین سے اوپر اٹھنے اور کشش ثقل کی حد سے باہر
نکلنے کے لئے بہت زیادہ ایندھن کی ضرورت ہوتی ہے، یہی وہ غیرمعمولی وسائل ہیں جن
کو قرآن کریم نے سلطان سے تعبیر کیا ہے، جب اللہ کا پیدا کردہ انسان غیر معمولی
وسائل استعمال کرکے اور خدا کی بخشی ہوئی بے انتہا قوت کے بل بوتے پر زمین کی کشش
ثقل سے باہر نکل سکتا ہے تو کیا اللہ کوئی ایسی سواری ایجاد نہیں کرسکتا جو زمین
کے مدار سے نکل کر آسمانوں تک پہنچ سکے؟
ہزاروں میل فی گھنٹہ کی
رفتار بھی کوئی اہمیت نہیں رکھتی، آج سے سو برس پہلے فضائے بسیط میں پرواز کا
تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ۱۹۰۳ء میں رائٹ برادران نے
ہوائی جہاز ایجاد کیا، پہلی پرواز صرف بارہ سیکنڈ کی تھی، دوسری اور تیسری پرواز
بھی زیادہ وقت کے لئے نہیں تھی، چوتھی پرواز ایک منٹ جاری رہی، اس میں آٹھ سو
باون فٹ کا فاصلہ طے کیا گیا اور اس کی رفتار اکیس میل فی گھنٹہ تھی، اس وقت یہ
تصور بھی نہیں تھا کہ ہوائی جہاز سیکڑوں میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چالیس ہزار فٹ
کی بلندی پر پرواز کریں گے، آج ایسے طیارے ایجاد ہوگئے ہیں جو تین ہزار پانچ سو
انتیس کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتارسے پرواز کرتے ہیں۔ پرواز کایہ دورانیہ لگاتار
بڑھنے پرہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ انسان تو ایسی محیرالعقول تیز رفتار سواریاں ایجاد
کرسکتا ہے مگر خالقِ کائنات سے اس طرح کی کسی تخلیق کو مستبعد اور ناممکن تصور کیا
جاتاہے۔معترضین یہ بھی کہتے ہیں کہ زمین کے باہر خلاء میں ہوا یا آکسیجن نہیں ہے،
اس کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا، پھر خلاء میں جس حصے پر سورج کی روشنی براہِ
رست پڑتی ہے وہ اس قدر جھلسادینے والی ہے کہ انسان اس کو برداشت ہی نہیں کرسکتا
اور جس حصے پر روشنی نہیں پڑتی وہاں اس قدر سردی ہوتی ہے جس کا تصور نہیں کیا
جاسکتا۔ ان دونوں جگہوں سے زندہ حالت میں گزرنا انسان کے لئے مشکل ہی نہیں ناممکن
ہے۔(جاری)
23اکتوبر،2020،بشکریہ:انقلاب،
نئی دہلی
Related Article
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/that-journey-total-awakening-part-4-/d/123261
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism