مولانا ندیم الواجدی
1 جنوری ، 2021
بیعت عقبہ کے بعد مکہ
مکرمہ کی صورت حال
انصارِ مدینہ تو بیعت
کرکے ایک نئے عزم و ارادے اور جذبے و حوصلے کے ساتھ مکہ مکرمہ سے رخصت ہو کر یثرب
چلے گئے، لیکن مشرکین کو ایک چیلنج دے گئے۔ اوس و خزرج اور مکہ کے مسلمانوں کے
درمیان جو تعلقات استوار ہورہے تھے اس کا کچھ کچھ احساس انہیں ہورہا تھا، لیکن
انہیں اس کا اندازہ نہیں تھا کہ اب بات میل ملاقات تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ
دوستی اور جاں نثاری کے عہد و پیمان تک جا پہنچی ہے۔ بیعت عقبہ کی تفصیلات سن کر
تو ان کے پائوں تلے سے زمین نکل گئی، انہیں یہ احساس ہوگیا کہ اگر اوس و خزرج کے
لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ مل گئے تو پھر ہماری خیر
نہیں، نہ یہ زمین باقی بچے گی جس پر ہم دندناتے پھرتے ہیں اور نہ یہ چودھراہٹ باقی
رہے گی جس کے دم پر ہم نے خدا کے بندوں کو مقہور و محکوم بنا رکھا ہے۔ مشرکین مکہ
اوس و خرج کی عسکری طاقت اور دفاعی قوت سے اچھی طرح واقف تھے، ادھر محمد صلی اللہ
علیہ وسلم اور ان کے رفقاء کے جذبۂ جاںنثاری اور اتحاد و یگانگت کا بھی انہیں علم
تھا۔ اگر یہ تینوں طاقتیں مل جائیں تو طوفان بلاخیز ثابت ہوں گی، ہم تو کیا چیز
ہیں پورا عرب ہی اس سیلاب کی تیز و تند موجوں میں خس و خاشاک کی طرح بہہ جائے گا،
یہ سب باتیں سوچ کر انہوں نے طے کیا کہ مسلمانوں پر سخت پہرہ بٹھا دیا جائے اور ان
کو مکہ مکرمہ کی حدود سے باہر نہ نکلنے دیا جائے۔ پہلے ہی کچھ مسلمان ہماری
آنکھوں میں دھول جھونک کر حبشہ جا بسے
ہیں، اگر ایک نئی طاقت کو وجود میں آنے سے روکنا ہے تو مسلمانوں کے لئے یثرب جانے
والے تمام راستے بند کرنے ہوں گے۔ ادھر مسلمان مشرکین مکہ کے مسلسل مظالم سے تنگ
آ کر کسی ایسی جگہ کی تلاش میں تھے جہاں رہ کر وہ سکون کے ساتھ اپنے رب کی عبادت کر سکیں اور اس دین کی
اشاعت میں اپنا کردار ادا کرسکیں، گویا ایک طرف مسلمان ہجرت کا ارادہ کرچکے تھے،
دوسری طرف مشرکین بھی یہ طے کرچکے تھے کہ مسلمانوں کو یہاں سے کسی بھی حالت میں
نکلنے نہیں دینا ہے۔
دعوت دین کے دوسرے مرحلے
کا آغاز ہجرت سے
ہجرت کا واقعہ اسلامی
دعوت کے دو مرحلوں کے درمیان حدّ فاصل کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک مرحلے کا آغاز اس
دن سے ہوا جس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم پر پہلی وحی نازل ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغمبر آخر الزماں کے
عظیم منصب پر فائز کیا گیا۔ دوسرا مرحلہ اس دن سے شروع ہوتا ہے جس دن پہلے مسلمان
نے اپنا گھر بار، مکان، جائیداد اور بیوی بچوں اور رشتے داروں کو خدا کے حوالے
کرکے مکہ چھوڑا اور یثرب کی زمین پر قدم رکھا۔ یہ اجتماعی ہجرت کی ابتداء تھی اور
اسی میں فتح و نصرت کے امکانات پوشیدہ تھے، جو اگر چہ ابھی نگاہوں سے اوجھل تھے
مگر اللہ نے مسلمانوں کے غلبے کی یہی صورت مقدر فرمائی تھی اور اب دعوت دین اسی
راستے پر قدم بڑھا رہی تھی۔
’’ھِجْرَتْ‘‘ عربی کا لفظ ہے جو ھَجَرَ سے مشتق ہے، جس کے معنی ہیں
چھوڑنا اور منہ پھیرنا۔ اسی سے ھَاجَرَ بھی ہے جس کے معنی ہیں ترک وطن کرنا، اپنے
وطن کو چھوڑ دینا۔ لغت کی کتابوں میں ہجرت کی تشریح اس طرح کی گئی ہے ’’الخروج من
أرض إلی اخری‘‘ ایک زمین سے دوسری زمین کی طرف نکلنا۔ (تاج العروس، ۱۴؍۳۹۷) مشہور ماہر لغت محمد بن
احمد المقری الفیومی کہتے ہیں کہ ہجرت ایک علاقے کو چھوڑ کر دوسرے علاقے کی طرف
جانا ہے اور اگر یہ ترکِ وطن قرب الٰہی کے حصول کی خاطر ہو تو اسے شرعی ہجرت کہا
جائے گا۔ (المصباح المنیر فی غریب شرح الکبیر،۲؍۶۳۴) اس دنیا میں لوگ رات دن
اپنا وطن چھوڑتے ہیں مگر ان کے اس عمل کو ہجرت نہیں کہا جاتا کیوںکہ اس میں وطن
چھوڑ کر جانے کے پیچھے اللہ کی رضاجوئی شامل نہیں ہوتی بلکہ تلاش معاش یا پرسکون
جائے قیام کی جستجو شامل ہوتی ہے۔ شریعت نے اُس ترک وطن کو ہجرت کہا ہے اور اسے
نیکی کے طور پر ذکر کیا ہے جو خدا کی رضا کے لئے کیا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں ہے:
’’اور جو شخص اپنے گھر سے اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کرنے کیلئے نکلے پھر
اسے موت آپکڑے تب اس کا اجر اللہ کے پاس طے ہوچکا۔‘‘ (النساء:۱۰۰)
اللہ اور اس کے رسول کی
طرف یا ان کیلئے اور ان کی خاطر ہجرت کرنے کا مفہوم اس کے سوا کوئی دوسرا نہیں
ہوسکتا کہ اگر تم کسی ایسی جگہ ہو جہاں تم اپنے دینی فرائض پر آزادی کے ساتھ عمل
نہیں کرسکتے تو اس جگہ کو چھوڑ دو، وطن کی محبت بلاشبہ فطری محبت ہے مگر اس کی
محبت اور اس میں میسر سہولتیں اور عیش و آرام دینی امور کی ادائیگی میں رکاوٹ
نہیں بننا چاہئے۔ اگر ایسی کوئی رکاوٹ پیش آئے تو دین کی خاطر اس کو دور کرنا
ضروری ہے۔ اللہ کی زمین بے حد وسیع ہے، اگر کسی ایک جگہ کے حالات سازگار نہیں ہیں
تو کسی دوسری جگہ جا کر رہو۔ اس سلسلے میں قرآن کریم کی واضح ہدایت ہے: ’’اورجو
شخص اللہ کے راستے میں ہجرت کرے گا وہ زمین میں بہت جگہ اور بہت بڑی گنجائش پائے
گا۔‘‘ (النساء: ۱۰۰)
ہجرت کے مفہوم میں یہ بھی
داخل ہے کہ جب حالات بے حد خراب ہوجائیں اور ان حالات سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ
باقی نہ بچے تب ہجرت کی جائے، یہ نہیں کہ ذراسی افتاد پڑے اور دشمن کے لئے میدان
کھلا چھوڑ کر راہِ فرار اختیار کرلی جائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’اور جن لوگوں
نے دوسروں کا ظلم سہنے کے بعد اپنا وطن چھوڑا ہے یقین رکھو کہ انہیں ہم دنیا میں
اچھی طرح بسائیں گے اور آخرت کا اجر تو یقیناً سب سے بڑا ہے، کاش کہ یہ لوگ جان
لیتے۔‘‘(النحل:۴۱)
اس مفہوم کے پس منظر میں
جایا جائے تو یہ ہجرت نہ ختم ہوئی ہے اور نہ اس پر کسی قسم کی کوئی پابندی لگائی
گئی ہے، بلکہ اس طرح کی ہجرت ان تمام مسلمانوں پر فرض ہے جنہیں اہل کفر ان کے
عقیدے پر عمل نہ کرنے دیتے ہوں اور ان کے راستے میں رکاوٹ بن کر کھڑے ہوئے ہوں۔
بہرحال ابتلاء و آزمائش کے بعد اگر کوئی سبیل نہ نکلے تو ہجرت ہی واحد راستہ بچتا
ہے جسے اختیارکرنا ہر اس مسلمان کیلئے ضروری ہے جو ان حالات سے گزر رہا ہو، اگر ان
حالات کے بعد بھی وہ اسی ماحول میں رہے گا تو اپنے آپ پر ظلم کرنے والا ہوگا اور
خود کو آخرت کی سخت سزا سے نہ بچا سکے گا۔ قرآن کریم میں ہے: ’’جن لوگوں نے اپنی
جانوں پر ظلم کیا تھا اور اسی حالت میں فرشتے ان کی روح قبض کرنے آئے تو بولے
’’تم کس حالت میں تھے؟‘‘ وہ کہنے لگے کہ ہم تو زمین میں بے بس بنا دئیے گئے تھے۔
فرشتوں نے کہا کیا اللہ کی زمین کشادہ نہ تھی کہ تم ہجرت کر جاتے۔ لہٰذا ایسے
لوگوں کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ نہایت برا انجام ہے۔‘‘ (النساء:۹۸)
ہجرت کے اس مفہوم کی
روشنی میں ہم اس ہجرت کا تصور کر سکتے ہیں جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور
آپ کے صحابہ کرامؓ نے مدینے کی طرف کی تھی۔ انہوں نے اپنے گھروں کو چھوڑا، اپنی
زمینوں اور باغوں کو چھوڑا، مال و دولت کو چھوڑا، عزیز و اقارب کو چھوڑا، اس جگہ
کو چھوڑا جہاں وہ صدیوں سے رہتے آرہے تھے اور جہاں ان کے آباء و اجداد کی ہڈیاں
دفن تھیں، حد تو یہ ہے کہ انہوں نے بیت اللہ کو بھی چھوڑ دیا، حالاںکہ وہ انہیں سب
سے زیادہ محبوب تھا، نہ صرف محبوب تھا بلکہ وجہ فخر بھی تھا مگر جب سوال دین کا
آیا تو تمام محبوب چیزوں کے ساتھ یہ محبوب ترین چیز بھی چھوڑکر مدینے کی طرف نکل
گئے، کیوںکہ اس وقت ان کے سامنے نہ صرف یہ کہ دین کو بچانا تھا بلکہ اس دین کو
غالب کرنے کیلئے نئے امکانات کو تلاش بھی کرنا تھا۔
اللہ اگر چاہتا تو اپنے
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ماننے والوں کیلئے مکہ مکرمہ کی سرزمین کو نزول
وحی کے پہلے ہی دن سے محفوظ و مامون بنا دیتا، کسی شخص کی یہ ہمت نہ ہوتی کہ وہ ان
کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھتا، چہ جائے کہ زبان یا ہاتھ سے ایذا پہنچاتا، لیکن
اس دنیا میں معجزات و خرقِ عادات واقعات کے استثناء کے ساتھ سنت اللہ یہی ہے کہ
پہلے وہ اپنے بندوں کو سخت آزمائش کے مرحلوں سے گزارتا ہے، پھر ان پر فتوحات کے دروازے
کھولتا ہے، تمام انبیاء سابقین آزمائش کے ان مرحلوں سے گزرے، انہوں نے دین کی
خاطر اپنی قوموں کے مظالم بھی برداشت کئے اور وطن بھی چھوڑا، اللہ تعالیٰ کی یہ
سنت یہاں بھی یہی رہی، انپے محبوب کو بھی آزمائش کے سخت ترین مرحلوں سے گزار کر
فتح و نصرت کے راستوں پر گامزن کیا، یہ سنت الٰہیہ بھی ہے اور حکمت الٰہیہ بھی۔ اس
کے ذریعے انسان کو صبر آزما حالات کا مقابلہ کرنے کی تربیت دی جاتی ہے، اسباب و
تدابیر اختیار کرنے کی تعلیم دی جاتی ہے اور توکل علی اللہ کی تلقین بھی کی جاتی
ہے۔ ہجرت کے واقعہ میں یہ تینوں چیزیں یک جاملتی ہیں اور قدم قدم پر ان کے مظاہر
دیکھنے میں آتے ہیں۔
ہجرت کی تیاری
ہجرت کوئی ایسا واقعہ
نہیں ہے جو حالات کے تقاضوں کے تحت ایک دم وجود میں آگیا ہو، بلکہ اس کے لئے ذہنی
تیاری اور تربیت کا سلسلہ ایک لمبے عرصے سے چل رہا تھا، یہ کوئی تفریحی ٹور نہیں
تھا اور نہ ذاتی اور تجارتی نوعیت کا کوئی ایسا سفر تھا جس کے بعد انسان تازہ دم
ہوجاتا ہے، یہ سفر وطن، اہل و عیال، عزیز
و اقارب اور دوست و احباب کو ہمیشہ کے لئے داغِ مفارقت دینے کا عمل تھا، اس کے
ساتھ ہی وسائل معاش کو بھی خیرباد کہنا تھا، جو انسان بڑی مشکل سے تلاش کرتا ہے
اور اس کے کنبے کا انحصار ان ہی وسائل پر ہوتاہے۔ اب ایسی سرزمین پر جا کر رہنا ہے
جہاں نئے سرے سے معاش کے اسباب ڈھونڈنے ہوں گے، جہاں نئے تعلقات بنانے ہوںگے، جہاں
جا کر زندگی گزارنے کے نئے پیمانے مقرر کرنے ہوں گے، یہ بڑا مشقت بھرا، انتہائی
صبر آزما اور نہایت تکلیف دہ سفر تھا، اس لئے ضرورت تھی کہ ہجرت کرنے والوں کی
تربیت کی جائے، انہیں ذہنی اور جسمانی ہر اعتبار سے اس سفر کے لئے مستعد کیا جائے۔
قرآن کریم نے تربیت کا یہ سلسلہ شروع کر رکھا تھا، پہلے وہ آیات نازل ہوئیں جن
میں ہجرت کی تعریف کی گئی ہے اور ہجرت کرنے والوں کو بے پناہ اجر و ثواب کا مژدہ
سنایا گیا ہے تاکہ ہجرت کے نتیجے میں پیش آنے والے مالی اور ذہنی نقصانات کی کچھ
تلافی ہوجائے۔ فرمایا: ’’کہہ دو کہ اے میرے ایمان والے بندو! اپنے پروردگار کا خوف
دل میں رکھو، بھلائی انہی کی ہے جنہوں نے اس دنیا میں بھلائی کی ہے اور اللہ کی
زمین بہت وسیع ہے، جو لوگ صبر سے کام لیتے ہیں ان کا ثواب ان کو بے حساب دیا جائے
گا۔‘‘ (الزمر:۱۰)
اس آیت کریمہ کی تفسیر
میں مفسرین نے لکھا ہے کہ اگر اپنے وطن میں دین پر عمل کرنا ممکن نہ ہو یا سخت
مشکل ہوجائے تو وہاں سے ہجرت کرکے ایسی جگہ چلے جائو جہاں دین پر عمل کرنا نسبتاً
آسان ہو اور اگر وطن چھوڑنے میں تکلیف ہو تو اس پر صبر کرو، کیوںکہ صبر کا ثواب
بے حساب ہے۔ پھر سورۂ کہف کا نزول ہوا، جس میںان چند نوجوانوں کا ذکر ہے جو اپنے
رب پر ایمان رکھتے تھے لیکن ان کی قوم کو یہ پسند نہیں تھا کہ وہ ان کے معبودوں کو
چھوڑ کر ایک رب کی عبادت کریں، سو وہ اس خوف سے کہ کہیں قوم کے لوگ ان کے در پے
آزار نہ ہوجائیں، شہر سے باہر جا کر ایک غار میں چھپ گئے۔ قرآن کریم نے ان
نوجوانوں کا قصہ کچھ ایسے دل نشیں پیرائے میں بیان کیا ہے کہ صحابہ کے دل ان
جوانوں کے ایمان و یقین کے تصور سے مہکتے رہتے تھے، اس لئے جب ان کے سامنے خود ان
کے ہجرت کرنے کی بات آتی تھی تو ان کی نگاہوں کے سامنے وہ نوجوان آکرکھڑے ہوجاتے
تھے۔ سورۂ کہف کے بعد متعدد آیات ہجرت کے تعلق سے نازل ہوئیں جن میں فرمایا گیا
کہ جو لوگ اپنے وطن میں ظلم و ستم سے عاجز آکر ہجرت کریں گے ہم ان کو دنیا میں
بھی اچھابدلہ دیں گے یعنی انہیں اچھی طرح بسائیں گے اور آخرت میں جو اجر ان کو
ملنے والا ہے وہ تو بہت ہی بڑا ہے۔ یہ سورۂ نمل کی درمیانی آیات ہیں، اسی سورہ
کی آخری آیات میں یہ ہے کہ جن لوگوں نے فتنے میں مبتلا ہونے کے بعد ہجرت کی، پھر
جہاد کیا، پھر صبر سے کام لیا تو ان باتوں کے بعد تمہارا رب یقیناً بہت بخشنے والا اور بڑا مہربان ہے۔ (جاری)
nadimulwajidi@gmail.com
1 جنوری ، 2021،بشکریہ:انقلاب، نئی دہلی
Related Article
Part: 7- Adjective of Worship مجھے صفت ِ عبدیت زیادہ پسند اور عبد کا لقب زیادہ محبوب ہے
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/the-event-migration-boundary-between-part-13/d/123976
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism