مولانا ندیم الواجد
11 جون 2021
حضرت عثمان غنیؓ نے بئر
رومہ خرید کر وقف کیا
رسول اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم کے ساتھ بہت سے صحابہؓ ہجرت کرکے مدینے آئے تھے، کچھ حضرات جو حبشہ وغیرہ
میں مہاجر کی حیثیت سے مقیم تھے؛ وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کی خبر سن
کر مدینے آگئے تھے۔ آنے والوں کی تعداد
دن بہ دن بڑھتی جارہی تھی، یہاں تک کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد مدینہ منورہ میں
جمع ہوگئی۔ ان دنوں اس شہرکے اکثر کنوئوں کا پانی کھارا تھا، صرف ایک کنواں ایسا
تھا جس کا پانی شیریں تھا۔ اس کنویں کو ’’بئر رومہ‘‘ کہتے تھے۔ یہ ایک یہودی کی
ملکیت تھا، وہ اس کا پانی فروخت کیا کرتا تھا، مسلمان بے چارے اپنی جمع پونجی
لٹاکر آئے تھے، اس لئے وہ یہ میٹھا پانی خریدنے سے عاجز تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کو اس کا بڑا احساس تھا۔ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
کہ جو شخص بئر رومہ خرید کر ان نادار مسلمانوں کے لئے وقف کرے گا اور اس کے پانی
میں ان کے ڈول دلوائے گا اس کے لئے جنت ہے۔ حضرت عثمان غنیؓ نے یہ کنواں خرید کر
مسلمانوں کے لئے وقف کردیا۔ ابتداء میں انہوں نے نصف کنواں خریدا، کیوں کہ یہودی
پورا بیچنے کے لئے آمادہ نہیں تھا۔ آپؓ نے بارہ ہزار درہم میں آدھا کنواں خریدا
اور اس سے طے کرلیا کہ ایک دن کنویں پانی مَیں نکالوں گا اور ایک دن تجھے اس کا حق
ہوگا۔ یہودی اس پر تیار ہوگیا، حضرت عثمانؓ نے اپنی باری والے دن پانی مفت کردیا،
لوگ آتے اور دو دن کا پانی بھر کر لے جاتے، اگلے روز کوئی بھی نہ آتا، یہ دیکھ
کر یہودی نے کہا تم نے تو میرا دھندہ ہی چوپٹ کردیا، تم باقی نصف بھی خرید کر میری
چھٹی کرو، حضرت عثمانؓ نے بارہ ہزار دے کر اس کا حصہ بھی خرید لیا اور پورا کنواں
وقف کردیا۔ (سنن الترمذی، رقم الحدیث ۳۶۹۹،
سنن النسائی، رقم الحدیث ۳۸۰۳)
یہ کنواں مدینہ منورہ کے
شمال مغرب میں مسجد نبوی سے پانچ کلو میٹر کے فاصلے پر مجمع السیل کے قریب عقیق
الکبریٰ کے میدان میں آج بھی موجود ہے، اس محلے کا نام، جہاں یہ کنواں واقع ہے
’’الازہر‘‘ ہے، اس کی چوڑائی چار میٹر اور گہرائی بارہ میٹر ہے۔ کنویں کا پانی
چودہ سو سال سے اسی طرح جاری ہے، صاف اور شیریں بھی ہے۔
اُس وقت کی سیاسی صورتحال
تعمیر مسجد اور قیام
مواخات کے بعد ہجرت کے پانچویں مہینے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور
اہم قدم اٹھایا، ہم بتلا چکے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری
سے قبل یہاں بت پرست مشرکین اور اہل کتاب یہود رہتے تھے، مشرکین کے دو قبیلے تھے
اوس و خزرج، ان کو بنو قیلہ بھی کہا جاتا تھا۔ یہود کے تین بڑے قبائل تھے، بنو
النظیر، بنوقینقاع اور بنو قریظہ۔ ان کے علاوہ بھی چھ سات چھوٹے چھوٹے قبیلے تھے۔
اوس و خزرج حالاںکہ بت پرست تھے، یہود کے مقابلے میں ان کو متحد ہونا چاہئے تھا
مگر یہ ایک دوسرے کے ساتھ ہمہ وقت متحارب ہی رہا کرتے تھے۔ ان کے درمیان کئی بڑی
بڑی جنگیں بھی برپا ہوئیں، جنہوں نے ان کو مادّی اور عددی ہر اعتبار سے برباد کرکے
رکھ دیا۔ آخری جنگ بعاث نے تو بالکل ہی تباہ کردیا، تمام بڑے بڑے سردار اور
طاقتور جنگجو مارے گئے، معاشی اعتبار سے ان دونوں قبیلوں کی کمر ٹوٹ کر رہ گئی،
نتیجتاً وہ سیاسی اعتبار سے بھی کمزور پڑ
گئے اور معاشی طور پر بھی تباہ ہوگئے۔ یہود اپنے مکر و فریب سے ان دونوں قبیلوں کے
درمیان غلط فہمیاں پیدا کرتے تھے اور انہیں جنگوںمیں الجھا کر اپنا الوسیدھا کیا
کرتے تھے، ایک وقت وہ آیا کہ یہ دونوں قبیلے یہود کے محتاج، دست نگر اور ماتحت ہو
کر رہ گئے۔ اللہ نے ان کی قسمت اچھی کی، ان میں سے کچھ لوگ مکہ مکرمہ پہنچ کر مشرف
بہ اسلام ہوگئے اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رفاقت و نصرت کا
معاہدہ کرنے میں کامیاب بھی ہوگئے۔ اس کے نتیجے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے، بیعت عقبہ کے بعد ایک سال تک ان لوگوں کے درمیان حضرت
مصعب بن عمیرؓ موجود رہے جنہوں نے اس قوم کی دینی، اخلاقی اور معاشرتی تربیت کرنے
میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ ان کی محنت کے نتیجے میں دونوں قبیلوں کی بڑی تعداد نے
اسلام قبول کیا اور ہر گھر میں یہ دین اپنی شعاعیں بکھیر نے لگا۔ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے ان دونوں قبیلوں کے باہمی معاملات میں کافی
سدھار آیا، سب لوگ مل کر اسلام کے نام پر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی
محبت میں یکجا ہوگئے، پھر مہاجرین کے ساتھ رشتۂ اخوت قائم ہوا، اس نئے رشتے نے ان
کے اندر ایثار، ہمدردی اور مواسات جیسی اخلاقی قدروں کو پروان چڑھایا، اوس و خزرج
کے مزاج اور عمل میں یہ تبدیلیاں دیکھ کر یہود حیرت زدہ رہ گئے، انہیں اندازہ
ہوگیا کہ اب ان کی سیاسی اور مذہبی برتری کا وقت گزر چکا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے ان کو ایک وحدت بنا کر نئی طاقت بخش دی ہے۔
یہود کی تیرہ بختی
یہ عجیب بات ہے کہ نبی
آخر الزماں خاتم النبیین والمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے قبل وہ
ان کی آمد کی پیشین گوئیاں کیا کرتے تھے، تورات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے
متعلق جو بشارتیں آئی ہیں وہ تقریباً تمام یہودیوں کو ازبر تھیں اور اس حوالے سے
وہ بنی قیلہ کو ڈراتے دھمکاتے بھی رہتے تھے کہ جب وہ تشریف لائیں گے تو ہم ان کی
قیادت میں جمع ہو کر تمہارا حشر خراب کردیں گے، یثرب سے تمہیں نکال دیں گے ، وغیرہ
وغیرہ۔ لیکن جب وہ (آپؐ) تشریف لے آئے تو اس یقین کے باوجود کہ یہ وہی نبی ہیں
جن کا ہم اور ہماری گزشتہ نسلیں ایک مدت سے انتظار کر رہی تھیں، انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کیا
بلکہ معدودے چند خوش قسمت افراد کو چھوڑ کر تمام قبیلوں کے یہود آپ کی مخالفت
بلکہ مخالفت سے بڑھ کر دشمنی پر اتر آئے، اندر ہی اندر سازشیں کرنے لگے، منافقین
کے ساتھ مل گئے، مشرکین مکہ سے ربط ضبط بڑھانے لگے، افواہیں پھیلا کر لوگوں کو
اسلام قبول کرنے سے روکنے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر یہودیوں کی ان
تمام حرکتوں پر تھی، اوس و خزرج کے لوگ بھی ان کی حقیقت سمجھ چکے تھے، اللہ کے
رسول چاہتے تو وہ یہود کو ان کی اوقات یاد دلا دیتے مگر سیاسی حکمتِ عملی کا تقاضہ
یہ تھا کہ فی الحال ان کے ساتھ نرم رویہ رکھا جائے اور انہیں سدھرنے کا موقع دیا
جائے، اسی حکمت عملی کے پیش نظر آپؐ نے
مدینے کی تمام اکائیوں کو ایک مرکز کے تحت لانے کی کوشش کی اور ایک ایسا میثاق یا
معاہدہ مرتب فرمایا جس کے سب پابند ہوں اور اس کی روشنی میں زندگی گزاریں۔
میثاقِ مدینہ یا مملکت
اسلامیہ کا دستور اساسی
سیرت اور تاریخ کی کتابوں
میں اس معاہدے کو مختلف نام دئیے گئے ہیں، بہ ظاہر یہ ایک معاہدہ تھا لیکن درحقیقت
یہ اس مملکت اسلامیہ کا بنیادی دستور تھا جو خدا کے فیصلے کے مطابق وجود میں آنے
والی تھی۔ یہ معاہدہ اس لئے کیا گیا تاکہ مسلمانوں کو تحفظ ملے اور جو اسلامی
ریاست وجود میں آنے والی تھی وہ اندرونی و بیرونی خطرات سے محفوظ ہو اور اسلام کا کام کسی رکاوٹ کے بغیر آگے بڑھے۔ اس
میں یہودیوں کو اس لئے شامل کیا گیا کہ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف
آوری کواپنے وجود کیلئے خطرہ محسوس کر رہے تھے۔ اس معاہدے کے ذریعے ان کو یہ یقین
دلانا مقصود تھا کہ اگر آپ لوگ اس معاہدے پر خلوص دل سے عمل کریں گے تو آپ کیلئے
یہاں نہ کسی قسم کاکوئی خطرہ ہے اور نہ
کسی طرح کی کوئی پریشانی، آپ پر کوئی زیادتی بھی نہیں ہوگی،آپ اپنے مذہب کے
مطابق زندگی گزارنے میں آزاد ہوں گے۔
معاہدے کی دفعات
اس معاہدے میں ۵۳؍دفعات
شامل ہیں، جن کی تفصیل سیرت ابن ہشام، البدایہ والنہایہ اور قاضی عبید کی کتاب
الاموال میں موجود ہے، یہاں ہم اس کے کچھ اہم بنیادی نکات بیان کرتے ہیں:
(1) یہ تحریری دستاویز اللہ
کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہے، یہ ایک عہد نامہ ہے جس میں قریش اور
یثرب کے اہل ایمان اور وہ یہود شامل ہوں گے جو مسلمانوں کے تابع ہو کر ان کے ساتھ
الحاق چاہیں اور ان کے ساتھ جنگ میں حصہ لیں، یہ تمام لوگ امت واحدہ متصور ہوں گے
اور اس حیثیت سے وہ ان امور کے پابند ہوں گے۔
(2) مہاجرین
ِ قریش قصاص، خوں بہا اور دیت وغیرہ کے معاملات میں اپنے اپنے قبیلوں کے طے شدہ
اصولوں اور ضابطوں کی پیروی کریں گے اور عدل و انصاف سے کام لیں گے۔
(3) یثرب
کے تمام مسلمان قبیلے؛ بنو عوف، بنو ساعدہ، بنو حارث، بنو جشم، بنو نجار،بنو عمرو
بن عوف، بنو االنبیت اور بنو الاوس اپنی حالت پر قائم رہیں گے اور خوں بہا کا جو
طریقہ ان کے یہاں قائم ہے، اس پر عمل کریں گے، ہر قبیلہ عدل و انصاف کے تقاضوں کو
ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے قیدیوں کو زرفدیہ دے کر چھڑائے گا۔
(4) اہل
ایمان؛ فدیہ، دیت، زرتاوان اور قرض ادا کرنے میں ایک دوسرے کی مدد کریں گے اور کسی
کو بے یار و مددگار نہیں چھوڑیں گے۔
(5) ظلم و زیادتی اور برائی
کے مقابلے میں تمام مسلمان متحد ہوں گے اور
اس طرح کے حالات میں مل جل کر مقابلہ کریں گے۔ اس سلسلے میں کسی کے ساتھ
رعایت نہیں کی جائے گی خواہ وہ کسی کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔
(6) کوئی مسلمان کسی کافر کے
مقابلے میں اپنے مسلمان بھائی کو قتل نہیں کرے گا اور نہ وہ مسلمان کے خلاف کسی
کافر کی مدد کرے گا، اہل ایمان ایک دوسرے کے مقابلے میں بھائی اور مددگار ہیں۔
(7) ایک
ادنیٰ درجے کا مسلمان بھی کسی کافر کو پناہ دے سکتا ہے، اس سلسلے میں ادنیٰ و
اعلیٰ سب کا حق برابری کی بنیاد پر ہوگا۔
(8) جو
یہود مسلمانوں کے تابع ہو کر رہیں گے ان کی حفاظت کی جائے گی، ان کو برابر کے حقوق
حاصل ہوں گے، ان پر کسی طرح کا ظلم نہیں کیا جائے گا اور نہ ان کے دشمنوں کی مدد
کی جائے گی۔ (جاری)
11 جون 2021 ، بشکریہ: انقلاب،
نئی دہلی
Related Article
Part:
7- Adjective of Worship مجھے صفت ِ عبدیت زیادہ پسند اور عبد کا لقب زیادہ محبوب ہے
Part: 22- Bani Awf, the Prophet Has Come اے بنی عوف وہ نبیؐ جن کا تمہیں انتظار تھا، تشریف لے آئے
Part:
23- Moon of the Fourteenth Night ہمارے اوپر ثنیات الوداع کی اوٹ سے چودہویں رات کا چاند طلوع
ہوا ہے
Part: 24- Madina: Last Prophet's Abode یثرب آخری نبیؐ کا مسکن ہوگا، اس کو تباہ کرنے کا خیال دل
سے نکال دیں
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism