مولانا ندیم الواجدی
4 جون 2021
حضرت سلمان فارسیؓ کا قصہ
حضرت سلمان فارسی کہتے ہیں
کہ میں نے عرض کیا: یارسول اللہؐ یہ سونا اتنا کہاں ہے کہ میرا قرض ادا ہوجائے،
آپ ﷺ نے فرمایا: اسے لے جاو، اللہ تعالیٰ اسی سے تمہارا قرض ادا کردے گا۔ میں نے
وہ سونا لیا، اس کا وزن کرایا، اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے وہ چالیس
اوقیہ کے برابر تھا نہ کم نہ زیادہ۔ میں نے یہودی کو وہ سونا دے کر آزادی حاصل
کرلی، پھر میں آپؐ کے ہمراہ غزوۂ خندق میں شریک ہوا، اس کے بعد جتنے بھی غزوات
ہوئے میں نے ان سب میں شرکت کی۔
(مسند الامام احمد، ۵؍۵۱۵، رقم ۲۳۷۹۹)
تلاش حق کی یہ داستان ہمت
اور عزیمت کی داستان بھی ہے۔ حضرت سلمان الفارسیؓ نے اپنی پوری زندگی حق کی جستجو
کے لئے وقف کردی، ان کی یہ ادا اللہ رب العزت کے یہاں بھی قابل تحسین قرار پائی۔
حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک دن ہم لوگ رسولؐ اکرم کی خدمت اقدس میں حاضر
تھے، اتنے میں آپؐ پر سورۂ جمعہ کا نزول ہوا، اس میں ایک آیت ہے: وَ آخَرِیْنَ
مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ (الجمعہ:۳) ’’اور (یہ رسول جن کی طرف
بھیجے گئے ہیں) ان میں کچھ اور بھی ہیں جو ابھی ان کے ساتھ آکر نہیں ملے۔‘‘
میں نے عرض کیا: یارسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! و آخرین منھم
سے کون لوگ مراد ہیں؟ آپؐ نے کوئی جواب نہیں دیا، میں نے یہ بات تین مرتبہ پوچھی۔
اس مجلس میں سلمان الفارسیؓ بھی تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست
مبارک ان کے اوپر رکھا اور فرمایا: ’’اگر ایمان ثریا میں بھی ہوتا تو ان میں سے
کچھ لوگ یا ایک آدمی اسے حاصل کر ہی لیتا۔‘‘ (صحیح البخاری۱۵؍۱۷۶، رقم الحدیث ۴۵۱۸، صحیح مسلم۱۲؍۳۸۲، رقم ۴۶۱۸) (راوی کو یہاں شبہ ہے کہ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگ فرمایا یا ایک آدمی فرمایا) ۔
بُوْذَخْشَان بن
مُوْرسَلا حضرت سلمان الفارسیؓ کا اصل نام
تھا۔ اسلام لانے کے بعد وہ سلمان الخیر کے نام سے مشہور ہوئے، کوئی ان سے
پوچھتا تمہارا نام و نسب کیا ہے؟ وہ فرماتے میں سلمان بن الاسلام ہوں۔ اسلام قبول
کرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دامانِ رحمت سے اس طرح وابستہ ہوئے
کہ آخری دم تک ساتھ نہیں چھوڑا۔ حدیث کی کتابوں میں ان سے ساٹھ روایتیں نقل کی
گئی ہیں، ان کا شمار ان صحابہؓ میں ہوتا ہے جو اپنے علم و فضل کے لئے
مشہور ہیں۔ حضرت معاذ بن جبلؓ فرمایا کرتے تھے کہ علم چار صحابہ سے حاصل کرو۔ ان
چار میں ایک نام حضرت سلمان الفارسیؓ کا بھی ہے۔ (سنن الترمذی ۱۲؍۲۸۳، رقم ۳۷۴۰) آپؓ نے ۳۵ھ
میں بہ عہد خلافت عثمانؓ مدائن میں وفات پائی اور وہیں مدفون ہیں۔
(تفصیلی حالات کے لئے
دیکھئے:
طبقات بن سعد ۴؍۳۶۲، سیر اعلام النبلاء، ۲؍۵۴۶، الاصابہ فی تمیز
الصحابہ ۲؍۶۳)
حضرت اسعدؓ بن زرارہ کی
وفات
ان کا ذکر پہلے بھی آچکا
ہے۔ یہ ان افراد میں سے ایک ہیں جو سب سے پہلے مکہ مکرمہ جا کر آپ صلی اللہ علیہ
وسلم سے ملے تھے اور جنہوں نے آپ ﷺکے دست حق پر سب سے پہلے اسلام قبول کرنے کا
شرف حاصل کیا تھا۔ یہ جلیل القدر انصاری صحابی اپنے نام کے بجائے اپنی کنیت
ابوامامہؓ سے زیادہ مشہور تھے۔ بنوخزرج کے قبیلہ ٔ بنونجار سے تعلق رکھتے تھے، اس
قبیلے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ننھیالی رشتہ تھا اور آپؐ کی والدۂ
مکرمہ اس وقت یہاں اپنے رشتے داروں سے ملنے کے لئے تشریف لائی تھیں جب آپؐ کمسن
تھے۔ واپسی پر مقام ابواء میں آپ انتقال کر گئی تھیں۔ حضرت ام ایمنؓ ننھے حضور
صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر مکے واپس پہنچی تھیں۔ بہرحال حضرت اسعد بن زرارہؓ
اپنے دوست حضرت ذکوان ؓکے ساتھ مکہ گئے۔ اس وقت مدینے کے مختلف قبیلوںمیں کشیدگی
کا ماحول تھا، جنگ کی تیاریاں چل رہی تھیں۔ ان دونوں کا مقصد سفر یہ تھا کہ وہ مکہ
کے ایک سردار عتبہ بن ربیعہ سے مل کر اپنے دشمنوں کے خلاف مدد طلب کریں۔ مکہ پہنچے
تو معلوم ہوا کہ ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے، یہ دونوں ملاقات کے لئے رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپؐ نے ان کو اسلام کی دعوت دی
اور قرآن کریم پڑھ کر سنایا۔ پہلی ہی ملاقات میں ان دونوں کے دل میں اسلام کی
حقانیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت گھر کر گئی۔ اسلام قبول کرکے
واپس مدینے پہنچے اور خاموشی کے ساتھ اسلام کی تبلیغ میں لگ گئے۔ ان کی محنت سے
کچھ لوگ کلمہ پڑھ کر مسلمان بھی ہوگئے، اگلے سال حج کے موقع پر چھ افراد کا ایک قافلہ
مکہ پہنچا، اس میں حضرت اسعد بن زرارہؓ بھی شامل تھے، حالاں کہ عمر کم تھی، مگر فہم و فراست میں
بہت بڑھے ہوئے تھے۔ اس ملاقات میں قبیلۂ بنونجار کے نقیب بنائے گئے، یہ گویا بعد
از اسلام اس قبیلے کے ذمے دار تھے۔ اس سفر سے واپسی کے بعد ان حضرات نے تبلیغ
اسلام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، یہاں تک کہ کافی لوگ اسلام میں داخل ہوگئے، پھر ان
حضرات کی دعوت پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رفقاء کے ساتھ ہجرت کرکے
مدینہ تشریف لے آئے، حضرت اسعد بن زرارہؓ ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے بعد آپ کی راحت و آرام کا پورا پورا
خیال رکھا اور اس سلسلے میں جسمانی اور مالی قربانیوں سے کبھی دریغ نہیں کیا۔مسجد
کی تعمیر کے لئے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر انتخاب اس قطعۂ زمین پر پڑی جس
کے مالک دو یتیم بچے سہلؓ اور سہیلؓ تھے، تب بھی حضرت اسعدؓ سامنے آئے اور انہوں
نے عرض کیا :یارسولؐ اللہ! آپؐ فکر نہ کیجئے، اس زمین کے سلسلے میں ان دونوں بچوں
کو میں راضی کرلوں گا، مگر آپؐ بلاقیمت زمین لینے پر تیار نہیں ہوئے، حالاںکہ وہ
سعادت مند بچے بھی بلامعاوضہ دینا چاہتے تھے۔ حضرت اسعد بن زرارہؓ نے اپنا باغ
فروخت کر کے وہ رقم رسول اللہ ﷺکی خدمت
میں پیش کردی جس سے تعمیر مسجد کیلئے زمین خرید لی گئی۔
اس موقع پر حضرت اسعدؓ بن
زرارہؓ کا ذکر خیر دوبارہ اس لئے آیا کہ ہجرت کے کچھ ہی مہینوں کے بعد یہ جاں
نثار اور وفاشعارصحابی نہایت کم عمری میں وفات پا گئے۔ ہجرت کے بعد یہ پہلے شخص
ہیں جن
کی وفات ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے بے حد تعلق تھا، بیمار ہوئے تو
آپؐ ان کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے، ان کو ایسی بیماری لاحق ہوگئی تھی جس سے
چہرے سمیت پورا جسم سرخ ہوجاتا ہے۔ اس
زمانے میں اس بیماری کا علاج داغنے سے کیا جاتا تھا، چنانچہ ان کا جسم داغا گیا،
مگر وہ جانبر نہ ہوئے اور جان جان آفریں کے سپرد کردی۔ یہود نے اس واقعہ ٔ وفات کو طعنہ زنی اور تبرابازی کا ایک ذریعہ
بنالیا، انہوں نے بڑی تیزی کے ساتھ یہ بات پھیلائی کہ محمد خود کو اللہ کا نبی
کہتے ہیں، مگر وہ اپنے ایک وفاشعار ساتھی کی جان نہ بچا سکے اور نہ اپنے اللہ سے
اس کی صحت مانگ سکے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات پہلے ہی واضح کردی
تھی کہ کسی کی جان بچانا میرے اختیار میں نہیں ہے، نہ میں اپنے لئے اس کی قدرت و
اختیار رکھتا ہوں اور نہ کسی دوسرے کے لئے، اگریہود ابوامامہؓ کی موت سے خوش ہیں اور مجھے
طعنے دے رہے ہیں تو مجھے اس کی پروا نہیں ہے۔ حضرت اسعدؓ تو وفات پاگئے، لیکن یہود
کا گھنائونا چہرا سامنے آگیا، وہ اس واقعے کو جس میں کسی انسان کے اختیار کو دخل
نہیں تھا اسلام کی شبیہ داغدار کرنے کیلئے استعمال کرنا نہ بھولے۔ اس سے معلوم ہوا
کہ اس قوم کو اسلام اور پیغمبر اسلام سے خدا واسطے کا بیر تھا، بعدمیں یہ نفرت
مختلف شکلوںمیں سامنے آتی رہی۔
حضرت اسعد بن زرارہؓ کی
وفات سے آپؐ کو سخت تکلیف پہنچی، آپؐ نے اپنے کمال محبت اور غایت تعلق کا اظہار
اس طرح فرمایا کہ ان کے غسل میں شریک ہوئے، انہیں تین کپڑوں کا کفن پہنایا، ان کی نماز
جنازہ خود پڑھائی، ان کے جنازے کی مشائعت
(کسی کو رخصت کرنے کے لئے تھوڑی دور تک جانا۔)فرمائی۔ یہ پہلے خوش نصیب
صحابی ہیں
جنہیں بقیع الغرقد میں دفن ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔
حضرت اسعد بن زرارہؓ کی
وفات سے قبیلہ بنی نجار کو بھی شدید صدمہ پہنچا کیوں کہ وہ اس قبیلے کے کرتا دھرتا تھے اور
جوان العمر ہونے کے باوجود صاحب فہم و فراست، دور اندیش اور بابصیرت انسان تھے۔
قبیلے والوں کو ان کی جدائی کا شدید قلق تھا۔ ایک روز قبیلے کے بہت سے لوگ رسول
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یارسولؐ اللہ! اسعدؓ
ہمارے نقیب تھے، اب وہ ہم میں نہیں رہے، آپؐ ان کی جگہ کسی کو نقیب بنادیں۔ آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی دل جوئی کرتے ہوئے فرمایا تم فکر مت کرو میں تمہارے
قبیلے کا نقیب ہوں۔
بنوالنجار کو اس پر ہمیشہ
فخر رہا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے قبیلے کے نقیب تھے جب کہ دوسرے
تمام قبیلوں کا نقیب خود انہی میں کا کوئی شخص تھا۔ وفات کے وقت حضرت اسعد بن
زرارہؓ نے اپنی تین چھوٹی چھوٹی بیٹیوں فریعہ، کبشہ اور حبیبہ کو رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کے سپرد کردیا تھا، یہ تینوں آپ کے ساتھ آپ ہی کے گھر میں رہیں۔
ایک مرتبہ کہیں سے کچھ زیورات آئے تو آپؐ نے ان میں سے کچھ زیورات ان تینوں
لڑکیوں کو پہننے کیلئے دئیے۔(سیر اعلام النبلاء، ۱؍۳۰۰، ۳۰۴)
یہاں ہم یہ وضاحت بھی
ضروری سمجھتے ہیں کہ جس وقت مکہ مکرمہ میں بیعت عقبہ ثانیہ ہوئی تھی اسی وقت نقباء
کا تقرر بھی ہوا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت کرنے والوں سے فرمایا
تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل میں سے بارہ نقیب منتخب کئے تھے، تم
بھی اپنی قوم میں سے بارہ نقیب منتخب کرکے مجھے بتلائو، آپؐ نے یہ بھی ارشاد
فرمایا تھا کہ تم اپنے دل میں کوئی خیال نہ لانا۔ مجھے جبریلؑ نے کہا ہے کہ میں
نقباء کا انتخاب کروں۔ (طبقات ابن سعد ۳؍۶۰۲)۔
نقیب کا منصب اس وقت کے
دینی، سیاسی اور معاشرتی حالات کے تناظر میں بڑا اہم تھا۔ علامہ ابن الجزریؒ نے
لکھا ہے کہ نقیب کے معنی میں ماتحت افراد کے احوال سے مکمل واقفیت ، کفالت، ضمانت،
شہادت اور امانت سب کچھ داخل ہے۔ اس کے
لفظ میں گہرائی اور اندر تک داخل ہونے کا مفہوم موجود ہے۔ نقیب اہم منصب تھا جو
اللہ کے حکم اور رضا سے حضرت اسعد بن زرارہؓ کو ملا ہوا تھا۔(جاری)
4 جون 2021 ، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
Related Article
Part:
7- Adjective of Worship مجھے صفت ِ عبدیت زیادہ پسند اور عبد کا لقب زیادہ محبوب ہے
Part: 22- Bani Awf, the Prophet Has Come اے بنی عوف وہ نبیؐ جن کا تمہیں انتظار تھا، تشریف لے آئے
Part:
23- Moon of the Fourteenth Night ہمارے اوپر ثنیات الوداع کی اوٹ سے چودہویں رات کا چاند طلوع
ہوا ہے
Part: 24- Madina: Last Prophet's Abode یثرب آخری نبیؐ کا مسکن ہوگا، اس کو تباہ کرنے کا خیال دل
سے نکال دیں
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/holy-prophet-banu-najjar-part-35-/d/124941
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism