مولانا ندیم الواجدی
21 مئی 2021
عبداللہ ؓ بن سلام کا
قبول اسلام
رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے انہیں اپنے حجروں میں سے ایک حجرے میں چھپا دیا، کچھ یہودی حاضر ہوئے۔ آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے گفتگو فرمائی وہ بھی کچھ پوچھتے رہے، اچانک آپؐ نے
ان سے دریافت فرمایا کیا آپ لوگ حصین بن سلام سے واقف ہیں، وہ کیسا شخص ہے؟ آپؐ
لوگوں کی اس کے متعلق کیا رائے ہے؟ یہودی کہنے لگے وہ تو ہمارے سردار ہیں اور
سردار کے بیٹے ہیں، ہماری قوم کے بڑے عالم ہیں۔ عبداللہ بن سلام کہتے ہیں جب ان کی
بات مکمل ہوگئی تو میں کمرے سے باہر نکل آیا اور ان سے کہا: اے یہودی بھائیو!
اللہ سے ڈرو، تم جانتے ہو کہ یہ وہی اللہ کے رسول ہیںجن کے نام اور اوصاف تمہاری
تورات میں مذکور ہیں، میں تو ایمان لاچکا ہوں اور یہ گواہی دے چکا ہوں کہ محمدؐ
اللہ کے رسول ہیں۔ یہ بات سن کر وہ یہودی جو کچھ دیر قبل میری تعریف میں رطب
اللسان تھے، مجھے برا بھلا کہنے لگے اور مجھے دروغ گو، کذاب اورمفتری قرار دینے
لگے۔ میں نے عرض کیا یارسولؐ اللہ! میں نے نہیں کہا تھا کہ یہودی بڑے جھوٹے ہوتے
ہیں، بے وفائی، کذب بیانی، افترا پردازی اور نافرمانی ان کی سرشت میں داخل ہے۔ بہر
حال میں مسلمان ہوچکا تھا، میرے گھر والے بھی مسلمان ہوچکے تھے، میری پھوپھی نے
بھی اسلام قبول کرلیا تھا۔ (دلائل البیہقی ۲؍۵۳۰، ۵۳۱)
بعض دوسری کتابوں میں یہ
روایت اس طرح ہے، فرماتے ہیں کہ جب مجھے رسولؐ
اللہ کی تشریف آوری کی اطلاع ہوئی تو میں آپ کو دیکھنے کے لئے حاضر ہوا، جب
میں نے
آپؐ کو دیکھا تومیرے دل نے کہا کہ یہ چہرا کسی جھوٹے شخص کا چہرا نہیں ہوسکتا، اس
کے بعد میں نے آپؐ کا کلام سنا، پہلی بات
جو آپؐ کی میرے کانوں میں پڑی وہ یہ تھی: ’’اے لوگو! آپس میں سلام کو پھیلائو
(بھوکوں کو) کھانا کھلائو، جب لوگ سو رہے ہوں تم نماز پڑھا کرو، (ان اعمال کی
بدولت) تم لوگ سلامتی کے ساتھ جنت میں جائوگے۔‘‘
(سنن الترمذی۹؍۲۵، رقم الحدیث۲۴۰۹)
کچھ اور یہودی علماء کا
اعترافِ حق
یہ حقیقت ہے کہ یہودی
علماء اور عوام کی اکثریت نے بربنائے حسد اور کینہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت
کا اعتراف نہیں کیا، حالاں کہ وہ کھلی آنکھوں سے علامات نبوت کا
مشاہدہ کر رہے تھے اور اپنی نجی مجلسوں میں اس کا اعتراف بھی کرتے تھے کہ یہ وہی
پیغمبر ہیںجن کی تشریف آوری کی پیش گوئی تورات میں ہے، مگر ان کی قسمت میں دین حق
نہیں تھا، سو وہ اس سے محروم رہے، جیسے حُیّ بن اخطب کے بھائی یاسر بن اخطب کا
معاملہ ہے۔ یہ شخص سب سے پہلے قبا پہنچا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات
کرے، آپؐ کو دیکھے اور آپ کی باتیں سن کر یہ اندازہ
لگائے کہ یہ واقعتاً اللہ کے رسول ہیں۔ وہ سورج نکلنے سے پہلے وہاں پہنچا اور سورج
چھپنے کے بعد واپس آیا۔ اس نے اپنی قوم سے کہا: ’’میری بات مانو، یہ وہی نبی ہیں
جن کا ہمیں انتظار تھا۔‘‘ اس اعلان و اعتراف کے باوجود وہ اپنے بڑے بھائی حُیّ کے
دبائو میں آگیا اور اسلام سے محروم رہ گیا، یہودیوں میں ایسے لوگوں کی تعداد
زیادہ تھی، لیکن ان میں کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے حق قبول کرنے میں پس و پیش نہیں
کیا۔
حضرت عبداللہ ابن عباسؓ
فرماتے ہیں کہ ایک یہودی عالم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں اس
وقت حاضر ہوا جب آپ سورۂ یوسف کی تلاوت فرما رہے تھے، اس نے پوچھا: اے محمدؐ! یہ
سورہ آپ نے کس سے سیکھی ہے؟ آپؐ نے فرمایا: مجھے اللہ تعالیٰ نے سکھائی ہے، وہ
شخص حیرت زدہ رہ گیا، واپس جا کر اس نے اپنے لوگوں سے کہا کہ محمدؐ جو کتاب پڑھتے
ہیں وہ ہماری تورات کی طرح ہے جو موسیٰ پر نازل ہوئی تھی۔ یہ سن کر وہ سب لوگ
اکٹھے ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انہوں نے سورۂ یوسف
غور سے سنی، آپؐ کا چہرۂ مبارک دیکھا
اور آپؐ کے دونوں شانوں کے درمیان جو مہر نبوت تھی اس کی بھی زیارت کی، کہنے لگے
آپ تو وہی نبی ہیں جن کی آمد کی خبر تورات میں دی گئی ہے۔ (فتح الباری ۱۱؍۲۷۳)
ایک اور یہودی عالم ابن
صوریا حاضر خدمت ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دریافت فرمایا کہ میں تجھ
سے اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا
تورات میںشادی شدہ زانی کے لئے رجم کی سزا نہیں ہے، اس نے عرض کیا: اللہ کی قسم!
اے ابوالقاسم! یہودی یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ آپ اللہ کے نبی ہیں مگر وہ آپ
سے حسد کرتے ہیں۔ (الخصائص الکبریٰ ۱؍۱۹۳)
مُخَیْرَقْ نامی ایک
یہودی اپنی قوم کا سربرآوردہ شخص تھا، بہت سے باغات کا مالک تھا، اس کے ساتھ ہی
وہ زبردست عالم بھی تھا، اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو فوراً
پہچان گیا کہ یہ تو وہی آخری نبی ہیں جن کا ذکر ہماری کتابوں میں ہے، اس کے دل
میں اسلام کی محبت پیدا ہوگئی جو روز بہ روز بڑھتی چلی گئی، یہاں تک کہ احد کا
معرکہ برپا ہوا، اس نے اپنی قوم سے کہا : تم خوب جانتے ہو کہ محمدؐ حق پر ہیں، ہمیں چاہئے کہ ہم آج کے دن ان کی
مدد کریں اور اس جنگ میں ان کا ساتھ دیں۔ اتفاق سے اس دن یوم السبت (شنبے کا دن)
تھا، قوم کے لوگ کہنے لگے آج تو یوم السبت ہے، ہم کیسے جاسکتے ہیں۔ یہودیوں کا
عقیدہ تھا کہ شنبے (سنیچر) کے دن کوئی کام کرنا جائز نہیں، مُخیرق نے کہا کوئی
شنبہ ونبہ نہیں، چلو آئو، مگر لوگ ٹس سے مس نہ ہوئے، وہ شخص تلوار لے کر نکلا اور
اُحد کے معرکے میں شامل ہوگیا۔ اس نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ جو کچھ
میری ملکیت میں زمینیں اور باغات وغیرہ ہیں وہ سب محمدؐ کی ہیں۔ اگر میں قتل کردیا
جائوں تومیری تمام املاک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے کردی جائیں۔ اتفاق سے
وہ جنگ میں شہید ہوگئے۔ ان کی وصیت پر عمل ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی
تمام زمینیں اپنی تحویل میں لے لیں، آپؐ اس کے باغات کی پیداور سے بہ کثرت صدقات
نکالا کرتے تھے۔ مُخیرق کے بار ے میں آپ کا ارشاد گرامی تھا: ’’مُخیْرَق خیر
یہود‘‘ مُخیرق بہترین یہودی تھا۔ (البدایہ والنہایہ ۳؍۲۳۷، طبقات بن سعد ۱؍۵۰۲)
حضرت سلمان فارسیؓ کا قصہ
حضرت سلمان الفارسیؓ ایک
جلیل القدر صحابی ہیں، انہوںنے مدینے میں اس وقت اسلام قبول کیا جب آپ صلی اللہ
علیہ وسلم ہجرت کے بعد قبا میں قبیلہ بنی عبد عوف کے یہاں قیام فرما تھے۔ ان کا
تعلق مدینے سے نہیں تھا، نہ یہ اوس و خزرج سے تعلق رکھتے تھے،نہ کسی یہودی قبیلے
سے تھے، بلکہ وہ اصلاً ایران کے شہر اصفہان کے رہنے والے تھے، مذہباً مجوسی تھے،
تلاش حق کے لئے گھر سے نکلے، قسمت نے یاوری کی، مدینے پہنچ گئے، ان کے زمانۂ قیام
میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ورود مسعود مدینے میں ہوا، انہیں خبر ہوئی تو دوڑتے ہوئے
قبا پہنچے اور مشرف بہ اسلام ہوگئے۔ علماء یہود کے واقعات کے ضمن میں ان کے قبول
اسلام کا واقعہ بھی ذکر کیا جانا چاہئے، یہ ایسے شخص کی داستان ہے جس نے تلاش حق
کے لئے عیش و آرام کی زندگی تج دی، غلام بننا قبول کیا مگر اپنے موقف سے ایک انچ
بھی پیچھے نہ ہٹے یہاں تک کہ جس چیز کی تلاش تھی اسے پانے میں کامیاب ہوگئے۔ آئیے ان کے تلاشِ حق کی داستان اور قبولِ
اسلام کا قصہ خود انہی سے سنتے ہیں، اس واقعے کے راوی حضرت عبداللہ ابن عباسؓ ہیں۔
حضرت سلمانؓ فرماتے ہیں:
میں اصفہان کی ایک بستی جیّ کا رہنے والا تھا، میرے والد اس بستی کے ذمّے دار تھے،
وہ مجھ سے بے پناہ محبت کرتے تھے اور میری اس طرح حفاظت کرتے تھے جس طرح کسی
کنواری لڑکی کی جاتی ہے، مجھے گھر سے باہر نکلنے نہیں دیتے تھے اور میری سخت
نگرانی کیا کرتے تھے۔ ہم لوگ مذہباً مجوسی تھے، میرے باپ نے مجھے اپنے آتش کدے کا
محافظ و نگراں بنا رکھا تھا، میرے ذمے یہ کام تھا کہ میں آتش کدے کی آگ بجھنے نہ
دوں، میرے باپ زمین جائیداد والے آدمی تھے، ایک دن وہ گھر میں کوئی تعمیری کام
کرا رہے تھے، اسی اثنا میں انہیں باہر کا کوئی کام آپڑا، مجبوراً مجھ سے کہا: میں
گھر میں مصروف ہوں، تم فلاں جگہ جائو اور یہ کام انجام دے کر فوراً واپس آئو۔ میں
گھر سے نکلا، راستے میں نصاریٰ کا ایک گرجا گھر پڑتا تھا، میں نے ان کی آوازیں
سنیں، وہ لوگ نماز پڑھ رہے تھے، گھر میں قید رہنے کی وجہ سے مجھے لوگوں کے بارے
میں کچھ بھی معلوم نہ تھا، میں گرجا گھر کے اندر داخل ہوگیا اور یہ دیکھنے لگا کہ
وہ لوگ کیا کر رہے ہیں، مجھے ان کی نماز اچھی لگی۔ میرے دل میں خیال
آیا کہ یہ مذہب ہمارے مذہب سے زیادہ اچھا
ہے، میں نے اپنے کام کو تو ایک طرف رکھا اور وہاں بیٹھ گیا، سورج چھپنے تک وہیں بیٹھارہا،
میں نے ان لوگوں سے پوچھا اس دین کی اصل اور بنیاد کہاں ہے؟ انہوں نے مجھے شام
جانے کا مشورہ دیا، اُدھر میرے والد نے پریشان ہو کر مجھے ڈھونڈنا شروع کردیا تھا،
رات کو جب میںگھر پہنچا تو انہوں نے مجھے ڈانٹتے ہوئے پوچھا: تم کہاں
تھے، میں نے تمہیں فلاں کام کے لئے نہیں بھیجا تھا؟ میں نے جواب دیا: ابا جان! میں
ایک گرجا گھر سے گزرا، میں نے اس میں کچھ لوگوں کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا، مجھے ان
کا طریقۂ عبادت اچھا لگا، اس لئے میں ان کے پاس ٹھہرا رہا، یہاں تک کہ سورج غروب
ہوگیا، والد نے کہا: بیٹے! اس دین میں کوئی خیر نہیں ہے، تیرے باپ دادا کا دین ہی بہتر
ہے۔ میں
نے کہا: ہرگز نہیں، مجھے تو انہی کا دین اچھا معلوم
ہوا، یہ سن کر میرے والد ڈر گئے۔ انہوں نے
مجھے زنجیروں سے باندھ کر گھر میں قید کردیا۔
میں نے نصاریٰ کو یہ پیغام بھجوایا کہ شام
سے اگر کوئی تجارتی قافلہ یہاں آئے تو مجھے ضرور بتلانا، اتفاق سے ایک قافلہ پہنچ
گیا، نصاریٰ نے مجھے اس کی خبر دی، میں نے قافلے والوں سے کہلوایا کہ جب آپ لوگ اپنے ملک
واپس جانے لگیں تو مجھے اس کی اطلاع ضرور دینا۔ چنانچہ جب قافلے والوں نے اپنا کام
پورا کر لیا اور ان کی واپسی کا وقت قریب آیا تو مجھے خبر دی گئی، میں نے کسی طرح
پاوں کی زنجیریں توڑیں اور گھر سے بھاگ کر ان کے ساتھ ہوگیا، شام پہنچ کر میں نے
لوگوں سے پوچھا کہ تمہارے دین میں سب سے افضل اور محترم شخصیت کون سی ہیں، لوگوں
نے بتلایا فلاں گرجا گھر کے فلاں پادری صاحب سب سے بڑے ہیں، میں ان سے ملا اور کہا
کہ مجھے آپ کا دین اچھا لگتاہے، میں گرجا گھر میں آپ کے ساتھ رہ کر آپ کی خدمت
کرنا چاہتا ہوں، آپ کے ساتھ آپ کے طریقے پر نماز پڑھنا چاہتا ہوں اور آپ سے کچھ
سیکھنا چاہتا ہوں۔ پادری نے کہا: گرجا گھر میں آجاو، میں ان کے ساتھ چلا گیا، وہ ایک برا آدمی
تھا۔(جاری)
Related Article
Part:
7- Adjective of Worship مجھے صفت ِ عبدیت زیادہ پسند اور عبد کا لقب زیادہ محبوب ہے
Part: 22- Bani Awf, the Prophet Has Come اے بنی عوف وہ نبیؐ جن کا تمہیں انتظار تھا، تشریف لے آئے
Part:
23- Moon of the Fourteenth Night ہمارے اوپر ثنیات الوداع کی اوٹ سے چودہویں رات کا چاند طلوع
ہوا ہے
Part: 24- Madina: Last Prophet's Abode یثرب آخری نبیؐ کا مسکن ہوگا، اس کو تباہ کرنے کا خیال دل
سے نکال دیں
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism