مولانا ندیم الواجدی
12 فروری ، 2021
سفر کا آغاز
مورخین لکھتے ہیں کہ جب
قریش کے لوگ ٹھنڈے ہو کر بیٹھ گئے اور یہ سمجھ لیا گیا کہ تین دن گزر چکے ہیں، اس
عرصے میں یقیناً وہ دونوں یہاں سے نکل کر
بہت دور پہنچ چکے ہوں گے، تلاش کرنے والے بھی تیز رفتار سواریوں پر گئے اور ناکام
واپس آگئے، اس وقت یہ دونوں حضرات غار سے باہر تشریف لائے اور سفر کا آغاز ہوا۔
صبح سویرے عبداللہ بن اریقط دونوں اونٹنیاں جو اس کو سپرد کی گئیں تھیں لے کر پہاڑ
پر آگیا، حالاںکہ وہ ابھی مشرک تھا، مگر انتہائی معتبر آدمی تھا۔ حضرت ابوبکرؓ
کا دیکھا بھالا تھا، انہیں پورا یقین تھا کہ وہ شخص ہمارے سفر کا راز فاش نہیں کرے
گا۔ عبداللہ بن اریقط صرف راستہ بتلانے و الا تھا، وہ قائد یا راہنما نہیں تھا۔
حضرت ابوبکر نے اپنے پیچھے عامر بن فہیرہؓ کو بٹھلایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم
اپنی اونٹنی پر تنہا تشریف فرما تھے، راستہ بتلانے والا شخص اونٹنیوں سے آگے آگے
چل رہا تھا۔ (زاد المعاد ۳؍۴۱)
شاہ راہِ ہجرت
اس سے پہلے کہ ہم ہجرت کے
سفر پر آگے بڑھیں مناسب ہوگا کہ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ جانے والے اس راستے کو
دیکھ لیں جس پر ان دو مہاجرین نے سفر کیا تھا، اس وقت شام، فلسطین اور یمن وغیرہ
کی طرف جانے والے تجارتی قافلے یثرب سے ہو کر گزرتے تھے۔ مکہ مکرمہ سے یثرب کی طرف
جانے کے لئے جو راستہ متعارف اور معروف تھا وہ حدیبیہ فُلیص، اور بدر ہوتا ہوا
مدینے پہنچتا تھا۔ مشرکین کے شر سے بچنے کے لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے
اس سفر کے لئے جو انتہائی رازداری اور اخفاء کا متقاضی تھا اس راستے کا انتخاب
فرمایا جو متعارف راستے سے مختلف تھا، شاید ہی کوئی شخص جو مکے سے یثرب جا رہا ہو
اس راستے پر سفر کرتا ہو۔ آئیے دیکھیں کہ یہ راستہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کا انتخاب تھا کن کن علاقوں سے گزر کر یثرب پہنچتا ہے۔
مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ
کی مسافت تین سو اسی کلو میٹر ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سفر ہجرت ۱۲؍ربیع
الاول ۱۳؍نبوی
مطابق ۲۴؍ستمبر
۶۲۲ء کو جمعہ کے دن حضرت
خدیجۃ الکبریٰؓ کے مکان سے شروع ہوا اور حضرت ابوایوب الانصاریؓ کے مکان پر ختم
ہوا، اگر غارِ ثور اور قباء کے قیام کے دن نکال دئیے جائیں تو اس پورے سفر میں آٹھ
دن صرف ہوئے۔ سیرت ابن ہشام نے ان تمام مقامات کے نام ذکر کئے ہیں جن کے قریب سے
یا جن سے ہو کر یہ کاروانِ ہجرت گزرا، یہ تقریباً انتیس مقامات ہیں، بعد کے مصنفین
اور مؤرخین جیسے حافظ ابن سعد، علامہ طبری، ابن حبان، حاکم، ابن حزم، ابن
عبدالبر، ابن الاثیر، حموی، ابن منظور، ابن کثیر، علامہ ذہبی وغیرہ نے اپنی کتابوں
میں ان مقامات کی تفصیل بھی بیان کی ہے۔ ۲۰۱۱ء میں سعودی حکومت کی جغرافیائی پیمائش کی
وزارت نے ایک ٹیم تشکیل دی، اس کے ممبران نے ٹھیک ان ہی راستوں پر پیدل اور
کھینچنے والی گاڑیوں کے ذریعہ تجرباتی سفر کیا، اس ٹیم نے یہ مسافت گیارہ دن میں
طے کی۔
جیسا کہ ابھی عرض کیا گیا
کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ سفر حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کے مکان سے شرو ع
ہوا، پہلے آپ حضرت ابوبکرؓ کے مکان کی طرف تشریف لے گئے جو حضرت خدیجہؓ کے مکان
سے تین سو نو میٹر کے فاصلے پر اس جگہ واقع تھا جہاں آج کل باب فہد کے سامنے ہلٹن
ہوٹل کی بلڈنگ بنی ہوئی ہے۔راستے میں آپ اپنی چچازاد بہن حضرت ام ہانیؓ کے گھر کے
سامنے پڑے ہوئے میدان میں حَزْورَۃ نامی مقام پر رکے، اس میدان میں دورِ جاہلیت
اور دورِ نبوت میں مکے کا بازار لگا کرتا تھا، یہاں رک کر آپؐ نے ارضِ مکہ کو
مخاطب کرتے ہوئے اس سرزمین کی تعریف کی، اس میں رہنے کی تمنا ظاہر فرمائی اور اپنے
اس درد کا اظہار فرمایا کہ اہل وطن کے نکالنے کی وجہ سے میں یہاں سے جا رہا ہوں،
ورنہ اے ارضِ وطن میں تجھے کبھی نہ چھوڑتا، یہاں کھڑے ہو کر آپ نے دعا بھی
فرمائی، اس کے بعد آپ حضرت ابوبکرؓ کے مکان پر تشریف لے گئے اور ان کے ساتھ غارِ
ثور کی طرف روانہ ہوئے جو حضرت ابوبکرؓ کے مکان سے پانچ ہزار پانچ سو میٹر کی
مسافت پر ہے۔
جبلِ ثور سے مہاجرین کا
یہ قافلہ مکہ کے زیریں حصے کی طرف ساحل سمندر کی سمت سے عُسفان کی طرف بڑھا، پھر
یہ حضرات اَمَج کے نچلے حصے سے ہوتے ہوئے قُدَید کے قریب سے گزرے، راستے میں ضرار
اور ثنیۃ المرۃ نامی مقامات پڑے، اس کے بعد مدلجۂ حجاج، پھر دَحَجْ مَجَاحْ،
پھرمَرْجَحْ ذی العَضْوَین، پھر بَطْنْ ذِیْ کَثُرْ، پھرجَدْأجَدْ، پھرذوسُلم
نامی مقامات سے گزرنا ہوا، ان کے بعد مَدْلجہ تِعھَنْ، عَبَابِیْدْ، فَاجَّہْ،
عَرج،رَکُوْبَۃ ثَنِیَّۃ ُالعَائد، بَطْنِ رِئْم اور مَلَلْ سے ہوتے ہوئے قباء
پہنچ گئے۔
ہجرت کے کچھ ایمان
افروز واقعات
اس آٹھ روزہ سفر کے
دوران کچھ ایمان افروز واقعات بھی پیش آئے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ جو اس سفر میں روزِ
اوّل سے ساتھ تھے، بلکہ اس کی تیاریوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شریک، پورے
معاملے میں آپؐ کے رازد ار، قدم قدم پر آپؐ کے خیرخواہ، ہمدرد اور غم گسار تھے،
اس سفر کی روداد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ہم دونوں صبح نمودار ہونے سے کچھ
پہلے اندھیرے میں غار سے نکل کر مدینے کی طرف روانہ ہوگئے، ہم اس روز تمام دن چلے،
تمام رات چلے، اگلے دن بھی ہمارا سفر جاری رہا، یہاں تک کہ دوپہر کا وقت شروع
ہوگیا، اس وقت میں نے چاروں طرف دیکھا شاید کوئی مناسب جگہ مل جائے، جہاں تھوڑا
آرام کرسکیں، میری نگاہ ایک چٹان پر پڑی، میں اس کے قریب پہنچا، وہ چٹان کچھ سایہ
کئے ہوئے تھی، میں نے اس جگہ کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہموار
کردیا، آپؐ کے لئے چمڑے کا بنایا ہوا ایک فرش بچھا دیا اور عرض کیا: یارسولؐ
اللہ! آپؐ یہاں آرام فرمائیں، رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم وہاں لیٹ گئے، پھر میں تھوڑا الگ ہٹ کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگا کہ کوئی
ہماری تلاش میں تو نہیں ہے، اچانک میری نگاہ ایک شخص پرپڑی جو بکریاں چرا رہا تھا،
میں نے اس سے پوچھا اے غلام! تیرے مالک کا کیا نام ہے؟ اس نے ایک قریشی شخص کا نام
بتلایا میں اسے جانتا تھا، میں نے اس غلام سے پوچھا کہ کیا تمہارے پاس دودھ دینے
والی بکری ہے؟ اس نے کہا: ہاں! میں نے کہا کیا تم میرے لئے اس کا دودھ نکال سکتے
ہو؟ اس نے اثبات میں جواب دیا، پھر میں نے اس کی بکریوں میں سے ایک بکری کا پائوں
باندھ کر اس سے کہا کہ وہ اس کے تھنوں کو دھولے اور اپنے دونوں ہاتھ بھی پاک کرلے،
میرے پاس ایک برتن تھا جس کے منہ پر کپڑا بندھا ہوا تھا، غلام نے اس میں کچھ دودھ
دوہا، پھر میں نے برتن میں کچھ پانی بہایا یہاں تک کہ اس برتن کی تلی ٹھنڈی ہوگئی۔
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا آپؐ دودھ نوش فرمالیں۔ آپؐ نے
پی لیا۔ آپؐ کے دودھ پینے سے مجھے بڑی خوشی ہوئی، پھر ہم لوگ وہاں سے چل پڑے اور
قریش کے لوگ ہماری تلاش میںبھٹکتے رہے، سوائے سُراقہ بن مالک کے ہم تک کوئی نہ
پہنچ سکا، یہ شخص گھوڑی پر سوار آتے ہوئے نظر آیا، میں نے کہا: یارسول اللہ! وہ شخص ہم تک
پہنچ گیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لاَ تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ
مَعَنَا۔’’غم نہ کرو، بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘(صحیح البخاری ۱۱؍۴۷، رقم الحدیث ۳۳۴۶، صحیح مسلم ۱۴؍۲۹۷، رقم الحدیث ۵۳۲۹، السیرۃ النبویہ لابن
کثیر ۲؍۲۵۱)
سراقہ بن مالک کا قصہ
جب کفارِ مکہ کو یہ خبر
ملی کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اور ان کے ساتھ ابوبکر بن ابی قحافہؓ مکہ سے
نکل چکے ہیں اور ان کو یہاں سے نہ جانے دینے کے لئے ان کی تمام تدبیریں ناکام
ہوچکی ہیں تو وہ مارے غصے کے پاگل ہوگئے، چاروں طرف گھڑ سوار اور پیدل دستے روانہ
کئے گئے تاکہ ان دونوں کو پکڑ کر واپس مکہ لایا جاسکے، مگر محمد صلی اللہ علیہ
وسلم تو مکے ہی کے ایک پہاڑ میں تھے، تلاش کرنے والے وہاں پہنچے بھی، لیکن اللہ نے
ایسے حالات پیدا کردئیے کہ وہ جس کی تلاش میںتھے اس تک پہنچنے اور چند قدم دور رہ
جانے کے بعد بھی ناکام و نامراد واپس چلے گئے۔یہ واقعہ تین دن بعد کا ہے، قریش کے
تمام سرداروں کی نیند حرام ہے، دارالندوہ میں مشورے شروع ہوگئے ہیں، اب کیا کیا
جائے، محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اور ابوبکرؓ کو کسی طرح واپس لایا جائے، آخر
کار طے پایا کہ مکے میں منادی کرادی جائے کہ جو شخص محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )
اور ابوبکر بن ابی قحافہؓ کو زندہ یا مردہ گرفتار کرکے لائے گا اس کو ایک دیت کے
برابر رقم دی جائے گی، دیت کی رقم سو اونٹوں کی قیمت کے برابر ہوتی تھی۔
سراقہ بن مالک بن جعثم
کہتے ہیں کہ میں اپنی قوم بنو مدلج کی ایک مجلس میںبیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص آیا
اور ہمارے پاس آکر کھڑا ہوگیا، ہم اسی طرح بیٹھے رہے، کہنے لگا کہ اے سراقہ میں
نے ابھی تھوڑی دیر پہلے ساحل کے آس پاس کچھ انسانی سائے دیکھے ہیں، میرا خیال ہے
کہ وہ محمدؐ اور ان کے ساتھی ہیں، میں نے
دل میں تویہی سوچا کہ ہو نہ ہو وہ محمد ہی کا قافلہ ہے، مگر اس شخص سے یہ کہا کہ
وہ لوگ نہیں ہوسکتے، تجھے غلط فہمی ہوئی ہے، تو نے فلاںفلاں شخص کو دیکھا ہوگا جو
ابھی ادھر سے گئے ہیں، یہ بات کہہ کر میں کچھ دیر مجلس میں بیٹھا رہا، پھر میںاٹھ
کر گھر کی طرف روانہ ہوا، گھر پہنچ کر میں
نے اپنی باندی سے کہا کہ وہ میرا گھوڑا لے کر فلاں ٹیلے کے پیچھے چلی جائے اور وہاں
ٹھہر کر میرا انتظار کرے، میں اپنے ہتھیار لے کر گھر کی پشت سے نکلا اور اپنے نیزے
سے زمین پر نشان بناتا ہوا گھوڑے کے پاس پہنچا، اس پر سوار ہوا، اسے مہمیز کیا،
گھوڑا اونچے نیچے راستوں پر برق رفتاری کے ساتھ دوڑنے لگا۔(جاری)
nadimulwajidi@gmail.com
12 فروری ، 2021،بشکریہ:انقلاب، نئی دہلی
Related Article
Part:
7- Adjective of Worship مجھے صفت ِ عبدیت زیادہ پسند اور عبد کا لقب زیادہ محبوب ہے
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/the-journey-hijrat-started-house-part-19/d/124289
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism