مولانا ندیم الواجدی
29 جنوری ، 2021
قریش کی ناکامی
رات کا وقت روانگی کیلئے
متعین ہوا، قریش کے لوگوںنے پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت مختلف قبیلوں کے منتخب
جوانوں کو ہتھیار دے کر آپ کے دولت کدے کے باہر کھڑا کردیا، ان کو یہ ہدایت کردی
گئی تھی کہ جیسے ہی آپ گھر سے باہر نکل کر کہیں جانے کی کوشش کریں تمام جوان بہ
یک وقت حملہ کرکے ان کو قتل کردیں (نعوذ
باللہ)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ کو اپنی سبز
حضرمی چادر اوڑھا کر اپنے بستر پر لٹا دیا اور خودیہ آیت پڑھتے ہوئے اور باہر
موجود مسلّح لوگوں کے سروں پر مٹی ڈالتے ہوئے باہر نکل گئے:
وَجَعَلْنَا مِنْ بَیْنِ
اَیْدِیْھِمْ سَدًّا وَّ مِنْ خَلْفِھِمْ سَدًّا فَاَغْشَیْنٰھُمْ فَھُمْ لاَ
یُبْصِرُوْنَ۔(یٰسین:۹)
’’اور ہم نے ایک آڑ ان کے سامنے کردی اور ایک آڑ ان کے پیچھے
کردی، جس سے ہم نے ان کو گھیر دیا، وہ دیکھ نہیں پا رہے تھے۔‘‘
آیت کریمہ کی تلاوت اور
مشت خاک کی برکت سے وہ لوگ وقتی طور پر اندھے ہوگئے۔ آپ باہر نکل کر تشریف بھی لے گئے، ان کم بختوں
کو احساس تک نہ ہوا کہ کوئی ان کے قریب سے گزر کر چلا بھی گیا ہے، ہوش تو اس وقت
آیا جب شیطان نے اجنبی شخص کا روپ دھار کر انہیں یہ خبر دی کہ محمد تو تمہاری
آنکھوں میں دھول جھونک کر جا بھی چکے ہیں، اب تم یہاں بیٹھے کیا کر رہے ہو؟ انہوں
نے کہا ایسا نہیں ہوسکتا، ہم تو پورے تیقظ اور تن دہی کے ساتھ پہرا دے رہے ہیں، یہ
کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ چلے جائیں اور ہمیں خبر بھی نہ ہو۔ اس نے کہا کہ وہ نہ صرف
چلے گئے ہیں بلکہ تمہارے سروں پر خاک بھی ڈال گئے ہیں، یقین نہ ہو تو اپنے سروں پر
ہاتھ پھیر کر دیکھ لو، انہوں نے اپنے سروں پر ہاتھ پھیرا تو واقعی مٹی موجود تھی،
مگر گھر کے اندر جھانک کر دیکھا تو بستر پر کوئی شخص سو رہا تھا۔ کہنے لگے تم جھوٹ
بول رہے ہو ، محمدؐ تو اپنے بستر پر سو
رہے ہیں، غرض یہ کہ وہ صبح تک منتظر رہے یہاں تک کہ صبح حضرت علیؓ باہر نکلے تو
انہیں احساس ہوا کہ وہ لوگ واقعی بے وقوف بن گئے ہیں، محمدؐ تو کبھی کے یہاں سے جا
چکے ہیں، ہم خواہ مخواہ رات بھر پہرا دیتے رہے۔
(السیرۃ النبویہ ابن ہشام ۱؍۳۵۲)
مؤرخ ابن اسحاقؒ کہتے
ہیں کہ قرآن کریم کی یہ آیت اسی دن نازل ہوئی:
’’اور اے پیغمبر! وہ وقت
یاد کرو جب کافر لوگ منصوبے بنا رہے تھے کہ تمہیں گرفتار کر لیں یا تمہیں قتل
کردیں یا تمہیں (وطن سے)نکال دیں، وہ اپنے منصوبے بنا رہے تھے اور اللہ اپنا
منصوبہ بنا رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر منصوبہ بنانے والا ہے۔‘‘ (الانفال:۳۰)
(السیرۃ النبویہ، ۱؍۳۵۲)
غار ثور کی طرف روانگی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم حضرت ابوبکرؓ کے ہمراہ رات ہی میں مکے سے نکل گئے۔ ان حضرات کا رخ جبل ثور کی
طرف تھا، جو مسجد حرام سے جنوب میں واقع ہے۔ حرم محترم سے اس پہاڑ کا فاصلہ
تقریباً چھ کلو میٹر ہے، اور اسے پیدل طے کرنے میں تین گھنٹے لگتے ہیں، یہ جہت اس
لئے اختیار کی گئی تاکہ مشرکین کو آپؐ کی روانگی کا علم ہو تو وہ تلاش میں مدینہ
منورہ کے اس راستے کی طرف دوڑ لگائیںجس راستے سے قافلے سفر کرتے ہیں، ان کے وہم و
گمان میں بھی یہ بات نہ ہوگی کہ اتنے بلند و بالا پہاڑ کے کسی تنگ و تاریک غار میں
بھی چھپا جا سکتا ہے، نہ وہ یہ سوچ سکتے تھے کہ یثرب جانے کے لئے عام راستہ چھوڑ
کر مشکل اور طویل راستہ اختیار کیا جائے گا، اس لئے وہ عام کاروانی راستہ کی طرف دوڑے۔
ادھر یہ دونوں حضرات رات ہی میں یہ فاصلہ طے کرکے دامن کوہ تک پہنچ گئے۔ جبل ثور
نہایت بلند ہے، چڑھائی بہت زیادہ اور سیدھی ہے، راستے پتھریلے اور پُرپیچ ہیں، سطح
زمین سے سات سو اٹھائیس میٹر اونچا پہاڑ شمالاً و جنوباً چار ہزار ایک سو تیئیس
میٹر اورمشرق سے مغرب میں چار ہزار میٹر تک پھیلا ہوا ہے۔ جبل ثور کبھی جبل حلحل
کے نام سے مشہور تھا، بعد میں کسی وقت ثور بن عبد مناف نے اس پہاڑ کے دامن میں
سکونت اختیار کی تو اسے جبل ثور کہا جانے لگا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جنوب کی طرف
سے یہ پہاڑ ثور (بیل) کی طرح نظر آتا ہے، اس لئے اسے جبل ثور کہتے ہیں، اس غار کا
دہانہ کافی کشادہ ہے اور اندر سے بھی اس میں اتنی گنجائش ہے کہ دو آدمی آرام سے
لیٹ سکتے ہیں، اس غار کا رخ خانۂ کعبہ کی طرف ہے۔
حضرت ابوبکرؓکی فدائیت
اور جذبۂ جاں نثاری
راستے میں حضرت ابوبکرؓ
کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چلتے اور کبھی آگے چلنے لگتے، کبھی دائیں
جانب آجاتے اور کبھی بائیںطرف، غرضیکہ عجیب طرح کی بے قراری تھی، جو انہیں
اِدھراُھر گھما رہی تھی۔ یہ دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت
فرمایا: ابوبکر! کیا بات ہے، تم کبھی دائیں طرف آجاتے ہو اور کبھی بائیں جانب،
کبھی آگے چلنے لگتے ہو اور کبھی پیچھے، حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا: میرے ماں باپ
آپؐ پر قربان ہوں، یارسولؐ اللہ جب مجھے یہ خیال آتاہے کہ دشمن سامنے سے حملہ
آور ہوسکتا ہے تو میںآپؐ کے سامنے آجاتا ہوں اور جب یہ خیال آتا ہے کہ دشمن پیچھے
سے گھات لگا کر حملہ کر سکتا ہے تو میں آپؐ کے پیچھے چلاجاتا ہوں، کبھی میںآپؐ
کی دائیں جانب چلنے لگتا ہوں اور کبھی بائیںجانب، دراصل مجھے ہر لمحہ یہ خوف دامن
گیر رہتا ہے کہ کہیں دشمن اِدھر سے آکر حملہ نہ کردے یا اُدھر سے نہ آجائے۔ یہ
سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوبکر! کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں
محفوظ رہوںاور تم قتل ہوجائو، حضرت ابوبکر نے عرض کیا: اس ذات کی قسم جس نے
آپؐ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے، میں یہی
چاہتا ہوں۔ (المستدرک للحاکم ۳؍۶)
راستے میں ایک جگہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پائوں مبارک زخمی ہوگیا تو حضرت ابوبکرؓنے آپؐ کو اپنے کاندھوں پر اٹھا لیا، بعض روایات میں
یہ ہے کہ آپؐ نے اپنے شانوں پر اس لئے اٹھایا تاکہ زمین پر آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کے پائوں کے نشانات باقی نہ رہ جائیں، عرب کے لوگ پائوں کے نشان دیکھ کر
گزرنے والوں کو پہچان لیا کرتے تھے۔
پہاڑ پر چڑھنے کے بعد جب
غار ثور کے قریب پہنچے تو حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا یارسول اللہ! آپؐ ابھی باہر ہی
رکیں، میں اندر جا کر دیکھتا ہوں۔ حضرت ابوبکرؓ اندر تشریف لے گئے، غار کو اچھی
طرح دیکھا بھالا، صاف کیا، غار کی دیواروں میں جو سوراخ وغیرہ تھے انہیں بند کیا
اور جب انہیںیہ اطمینان ہوگیا کہ غار میںایذا پہنچانے والی کوئی چیز موجود نہیں ہے
تو باہر آئے اور عرض کیا یارسولؐ اللہ! اب آپؐ اندر تشریف لے آئیں۔ اس سفر نے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پوری طرح تھکا ڈالا تھا، غار میں داخل ہونے کے
بعد آپؐ اپنے دوست کے زانو پر سر رکھ کر سو گئے، آپؐ کی آنکھ اس وقت کھلی جب
حضرت ابوبکرؓ کے آنسو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ انور پر گرے، آپؐ نے
دریافت فرمایا: ابوبکر کیا بات ہے، کیوں رو رہے ہو؟ عرض کیا: یارسولؐ اللہ! مجھے
سانپ نے ڈس لیا ہے، درد کی شدت سے آنسو نکل آئے، دراصل غار میں ایک بل بند ہونے
سے رہ گیا تھا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم آرام کرنے کے لئے لیٹ گئے تب حضرت
ابوبکرؓ کی نظر اس سوراخ پر پڑی، اس وقت بند کرنے کے لئے کوئی چیز نظر نہیں آئی
تو انہوں نے اس خیال سے اپنا پائوں رکھ کر اس سوراخ کو بند کردیا کہ کوئی سانپ
وغیرہ نکل کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نقصان نہ پہنچائے۔ اتفاق سے وہاں ایک سانپ
موجود تھا، اس نے حضرت ابوبکرؓ کے پائوں میں ڈس لیا، مگر آپ بے حس و حرکت بیٹھے
رہے، مبادا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ نہ کھل جائے، بہرحال انسان تھے،جب درد
حد سے بڑھ گیا تو بے اختیار آنسو نکل پڑے جو آپؐ کے چہرۂ مبارک پر گرے اور آپؐ
بیدار ہوگئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا لعاب دہن حضرت ابوبکر کے پائوں
پر لگایا جس سے ان کی تکلیف بالکل ختم ہوگئی۔ (البدایہ والنہایہ ۳؍۱۸۰، السیرۃ الحلبیہ ۱؍)
دونوں حضرات اس غار میں
تین دن تین رات ٹھہرے۔ شام کے وقت ملگجے اندھیرے میں حضرت عبداللہ ابن ابی بکرؓ دن
بھر کے حالات سنانے کے لئے حاضر ہوتے، ان کے جانے کے بعد عامر بن فہیرہؓ بکریاں لے
کر آجاتے اور دودھ نکال کر پیش کرتے، ان کے جانے کے بعد وہ بکریوں کو لے کر اس
راستے سے مکے واپس چلے جاتے، جس راستے سے حضرت عبداللہؓ گئے تھے تاکہ ان کے
نشاناتِ قدم مٹ جائیں۔ حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ رات میں کھانا لے کر حاضر ہوجاتیں۔
اُدھر قریش مکہ کو جب یہ
پتہ چلا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم رات میں کسی وقت ان کے نوجوانوں کی موجودگی
میںگھر سے نکل کر چلے گئے ہیں تو وہ تلملا کر رہ گئے، پہلے تو وہ حضرت علیؓ کو
زبردستی خانۂ کعبہ تک لے کر گئے اور وہاں ان کو کچھ دیر تک محبوس بھی رکھا، یہ
لوگ حضرت علیؓ سے بار بار یہی پوچھتے کہ بتلائو محمد کہاں ہیں؟ حضرت علیؓ ہر مرتبہ
یہی جواب دیتے کہ میں نہیں جانتا کہ وہ کہاں ہیں؟ ابوجہل بدبخت غصے سے بھرا ہوا
حضرت ابوبکرؓ کے گھر پہنچا، آواز لگائی، حضرت اسماء نکل کر آئیں، ابوجہل نے ان
سے پوچھا بتا تیرا باپ کہاں ہے؟ اسماءؓ نے جواب دیا: مجھے نہیں معلوم میرے والد
کہاں ہیں؟یہ جواب سن کر ابوجہل غصے سے بھنا اٹھا، کم بخت نے اس زور سے کم زور
اسماء کے گال پر طمانچہ مارا کہ ان کے کان کا نچلا حصہ پھٹ گیا اور اس میں سے بالی
نکل کر دور جا پڑی۔ (سیرت ابن ہشام۱؍۳۵۶) (جاری)
nadimulwajidi@gmail.com
29 جنوری ،2021،بشکریہ:انقلاب، نئی دہلی
Related Article
Part:
7- Adjective of Worship مجھے صفت ِ عبدیت زیادہ پسند اور عبد کا لقب زیادہ محبوب ہے
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/prophet-muhammad-saw-only-gone-part-17/d/124179
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism