مولانا ندیم الواجدی
30 اپریل،2021
مواخات
رمضان کی بارہ تاریخ تھی۔
مسجد کی تعمیر کے ایک دن بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انس بن مالکؓ
کے مکان میں مہاجرین اور انصار کو جمع کیا اور ان میں رشتۂ اخوت قائم فرمادیا،
حالانکہ وہ پہلے ہی دینی رشتے سے ایک دوسرے کے بھائی تھے، اور إنما المؤمنون إخوۃ
کی عملی تفسیر بھی تھے، مگر آپؐ نے اس رشتۂ اخوت کو مزید بال وپر عطا فرمائے،
اسے مزید وسعت دی اور ایک مہاجر اور ایک انصاری کو ایک دوسرے کا حقیقی بھائی
جیسا بھائی بنادیا۔ مہاجرین کی تعداد
پینتالیس تھی، انصار بھی معقول تعداد میں تھے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے
انصار کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ مہاجرین تمہارے بھائی ہیں، پھر ایک مہاجر
اور ایک انصاری کو بلاکر فرمایا کہ یہ اور
تم بھائی بھائی ہو، اس کے بعد یہ دونوں حضرات اس طرح ایک دوسرے کے بھائی بن گئے
گویا وہ ایک ماں باپ سے پیدا ہونے والے حقیقی بھائی ہوں۔
مواخات کے کچھ عملی
مظاہر:
یہ رشتۂ اخوت حقیقی رشتے
سے بھی بڑھ کر تھا، ہم اس کی مضبوطی اور گہرائی کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مواخات قائم کرکے
فارغ ہوئے، انصار اپنے مہاجر بھائیوں کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لے گئے، اور اپنے
اپنے گھر کی ایک ایک چیز ان کے سامنے لاکر رکھ دی۔ روپے پیسے، کپڑے، کھانے پینے کی
چیزیں؛ زمین، مکان اور دوسری تمام منقولہ اور غیر منقولہ املاک کی تفصیل ان کے
سامنے کھول کھول کر بیان کردی اور یہ بھی واضح کر دیا کہ اب آپ ہمارے بھائی ہیں،
جو چیز بھی ہمارے پاس ہے اس میں آپ کا حصہ ہے، وہ آدھی آپ کی ہے اور آدھی
ہماری۔
حضرت سعد بن ربیع انصاریؓ
نے اپنے نئے بھائی حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ سے کہا کہ آج سے میری ہر چیزمیں آپ
شریک ہیں، مکان بھی آدھا آپ کا ہے اور آدھا میرا، میرے گھر میں دو بیویاں ہیں
ان میں سے جو آپ کو پسند ہو میں اسے طلاق دیئے دیتا ہوں آپ اس سے نکاح کرلیں،
مگر حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ نے نرمی کے ساتھ ان کی یہ پیش کش قبول کرنے سے انکار
کردیا، کہنے لگے بھائی! آپ تکلف میں نہ پڑیں، یہ سب رہنے دیں مجھے تو بازار کا
راستہ بتلادیں، میں آپ پر بوجھ نہیں بننا
چاہتا۔
حضرت سعدؓ نے مدینے کے
مشہور بازار قینقاع کا راستہ بتلادیا، وہ بازار گئے، کچھ گھی اور کچھ پنیر خرید کر
بیٹھ گئے، شام تک بیچتے رہے، اصل اور نفع کے ساتھ واپس آئے، اگلے دن پھر گئے، اسی
طرح ہر روز جاتے اور دن ڈھلے واپس آتے، تھوڑے ہی عرصے میں انہوں نے اپنا گھر بھی
بسا لیا، نکاح کرکے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض
کیا یا رسول اللہ! میں نے نکاح کرلیا ہے۔ آپؐ نے دریافت فرمایا تم نے اپنی بیوی
کو کتنا سونا دیا، عرض کیا پانچ درہم کے برابر۔ ارشاد فرمایا اب ولیمہ کرو، اگرچہ
ایک بکری ہی ہو (صحیح البخاری: ۷/۲۴،
رقم الحدیث: ۵۱۶۷)
رفتہ رفتہ حضرت عبد
الرحمٰن بن عوفؓ کا شمار مدینہ منورہ کے متمول لوگوں میں ہونے لگا، فرماتے تھے کہ
اس وقت اگر میں مٹی کو بھی ہاتھ لگا دیتا تھا تو وہ سونا بن جاتی تھی۔ ان کے
واقعات میں لکھا ہے کہ ایک وقت وہ آیا کہ ان کا سامان تجارت سات سو اونٹوں پر لد
کر آیا کرتا تھا اور جس دن ان کے اونٹ مدینے پہنچتے تھے پورے شہر میں شور مچ جاتا
تھا۔ (اسد الغابہ: ۳/۳۱۶)۔
دوسرے مہاجرین نے بھی
تجارت کا مشغلہ اختیار کرلیا، حضرت ابوبکر الصدیقؓ نے کپڑے کی تجارت شروع کردی،
حضرت عثمان غنیؓ قینقاع کے بازار میں کھجوروں کی دکان کھول کر بیٹھ گئے، حضرت عمر
بن الخطابؓ اور دوسرے مہاجرین بھی چھوٹی موٹی تجارتوں میں لگ گئے، انہوں نے انصار
پر بوجھ بن کر رہنا پسند نہیں کیا، اگرچہ ابتداء میں وہ انصار کے گھروں میں مہمان بن کر رہے، مگر
جلدی ہی اس قابل ہوگئے کہ وہ ان کے گھروں کو خیر باد کہہ کر اپنے ذاتی گھروں میں
منتقل ہوجائیں۔
یہ مواخات اس قدر وسیع
تھی کہ انصار و مہاجرین میں سے جو لوگ اس رشتۂ اخوت سے منسلک ہوئے تھے، ان کو ایک
دوسرے کے مال میں حق وراثت بھی دیا گیا تھا۔ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے: ’’اور ہم نے ہر اس مال کے کچھ وارث مقرر
کئے ہیں جو والدین اور قریب ترین رشتے دار چھوڑ جائیں اور جن لوگوں سے تم نے کوئی
عہد باندھا ہو ان کا حصہ دو۔‘‘ (النساء: ۳۳) وراثت کا یہ سلسلہ ایک زمانے تک اسی طرح
چلتا رہا یہاں تک کہ مہاجرین مدینے سے پوری طرح مانوس ہوگئے، اور اس معاشرے کا ایک
حصہ بن گئے۔ آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ نے ان پر خیر کے دروازے کھول دیئے، تجارت
میں ترقی ہوئی، اموال غنیمت بھی حاصل ہوئے، اس کے بعد اللہ نے وراثت کا سلسلہ
موقوف فرماکر یہ حکم نازل کیا: ’’اور جنہوں نے بعد میں ایمان قبول کیا اور ہجرت کی
اور تمہارے ساتھ جہاد کیا تو وہ بھی تم میں شامل ہیں اور (ان میں سے) جو لوگ
(پرانے مہاجرین کے) رشتہ دار ہیں وہ اللہ کی کتاب میں ایک دوسرے (کی میراث کے
دوسروں سے) زیادہ حق دار ہیں، یقیناً اللہ ہر چیز کا پورا پورا علم رکھتا ہے۔‘‘
(الانفال: ۷۵)
جن مہاجرین و انصار
صحابہؓ کے درمیان مواخات قائم کی گئی ان میں سے بعض کے اسمائے گرامی یہ ہیں: حضرت
ابوبکرؓ، حضرت خارجہ بن زبیرؓ کے بھائی بنے، حضرت عمر بن الخطابؓ کو حضرت عتبان بن
مالکؓ کا بھائی بنایا گیا، حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ اور حضرت سعد بن معاذؓ، حضرت
زبیر بن العوامؓ اور حضرت سلامہ بن سلامۃؓ، حضرت طلحہ بن عبد اللہؓ اور حضرت کعب
بن مالکؓ، حضرت مصعب بن عمیرؓ اور حضرت ابو ایوب خالد بن زیدؓ کو ایک دوسرے کا
بھائی قرار دیا گیا۔ یہ تقریباً نوے نام ہیں۔ تاریخ و سیرت کی کتابوں میں یہ تمام
اسمائے گرامی موجود ہیں۔
مواخات میں نہ رنگ ونسل
کا فرق ملحوظ رکھا گیا، نہ غریب امیر کا، نہ کمزور اور طاقتور کا، نہ کالے گورے
کا، نہ آزاد اور غلام کا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صوابدید سے جس کو
چاہا اس کو دوسرے کا بھائی بنادیا، دونوں نے خوشی کے ساتھ اس رشتے کو قبول بھی کیا
اور اسے زندگی کی آخری سانس تک نبھایابھی۔
بعض انصار نے اپنے گھروں
کے بیچوں بیچ دیوار کرکے ایک حصہ اپنے لئے رکھ لیا اور دوسرا حصہ اپنے مہاجر بھائی
کو دے دیا۔ اس طرح کے ایثار کے واقعات اور بھی ہیں۔ کچھ انصار صحابہؓ نے اللہ کے
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر عرض کیا یا رسول اللہ! ہمارے
پاس چند زرعی زمینیں ہے، یا فلاں باغ ہماری ملکیت میں ہے، آپ یہ باغ اور زمین
ہمارے اور ہمارے بھائی کے درمیان تقسیم فرمادیں، مگر آپ نے یہ پیش کش قبول نہیں
فرمائی، بلکہ حکم دیا کہ وہ اپنی زمینیں اور باغات اپنے پاس رکھیں اور محنت کے عوض
اپنے بھائی کو اس کی پیداوار میں شریک کرلیں۔ تمام انصار صحابہؓ اپنے مہاجر
بھائیوں کے ساتھ ہمدردی کے ساتھ پیش آتے، ہر چیز میں ان کو ترجیح دیتے، اور ان کی
خدمت اور دل جوئی کے لئے ہمہ وقت تیار
رہتے۔
ایک مرتبہ مہاجرین نے عرض
کیا یارسول اللہ! ہمدردی اور ایثار میں انصار بھائیوں کا کوئی ثانی نہیں ہے، ہمیں
ڈر ہے کہ آخرت کا سارا اجر ثواب ہمارے یہ بھائی ہی نہ سمیٹ لیں۔ (مسند احمد بن
حنبل: ۲۰/۳۶۱،
رقم الحدیث:۱۳۰۷۶) آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر تم ان کے ممنون احسان رہوگے، اور ان کی
تعریف کرتے رہوگے، اور اللہ کی بارگاہ میں ان کیلئے دُعا کرتے رہوگے تو اللہ
تعالیٰ اس شکر گزاری، احسان شناسی اور دعا کی برکت سے تمہیں بھی اجر و ثواب سے
نوازے گا۔ (شعب الایمان للبیہقی: ۱۹/۱۰۸،
رقم الحدیث: ۸۸۱۱،
المعجم الاوسط للطبرانی: ۱۶/۷۸،
رقم الحدیث: ۷۵۰۲،
مسند احمد بن حنبل: ۲۶/۱۹۵،
رقم الحدیث: ۱۲۶۴۸)
مہاجرین اور انصار:
ہجرت اور نصرت، یہ دو لفظ
ہیں، اسلامی تاریخ میں ان دونوں کی بڑی اہمیت اور قیمت ہے، تاریخ اسلام پر ان
دونوں کے گہرے اور دور رس اثرات مرتب ہوئے ہیں، ہماری محدود عقلیں ان دونوں میں سے
کسی ایک کو فوقیت دینے سے عاجز نظر آتی ہیں، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ
وسلم نے مہاجرین کی بھی دل کھول کر تعریف کی ہے اور انصار کی قربانی اور ایثار کا
بھی شاندار لفظوں میں ذکر فرمایا ہے۔ مہاجرین کو لیجئے، اللہ رب العزت نے قرآن
کریم کی متعدد آیات میں ان کا ذکر خیر فرمایا ہے۔ کسی جگہ ان کو اخلاص اور صدق و
وفا سے متصف کیا ہے، کہیں ان کی صفت ِتوکل، صبر اور زہد وقناعت کا بیان ہے، کسی
آیت میں ان کا یہ وصف خاص ذکر فرمایا گیا کہ وہ تنگی اور عسرت میں بھی رسولؐ اللہ
کی اتباع دل وجان سے کرتے ہیں، مہاجرین کی بے مثال قربانیوں کے صلے میں جو انعامات
ِخداوندی ان کا نصیب بننے والے تھے قرآن کریم میں ان کا بھی ذکر ہے، مثلاً دنیا
میں خوش حالی اور کشادہ دستی، آخرت میں تکفیر سیئات، مغفرت، رفع درجات اور جنت کی
دائمی زندگی۔ (دیکھئے، سورہ الحشر:۸،
النحل آیت: ۱۲،
۴۲، التوبہ: ۲۰،
۱۱۷، الانفال: ۷۴، البقرۃ: ۲۱۸)
احادیث میں بھی مہاجرین
کی فضیلتوں کا بڑا ذکر ہے۔ مشہور صحابی حضرت قتادہؓ سورۂ الحشر کی آیت للفقراء
والمہاجرین کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں
کہ ان مہاجرین نے اپنا گھر، اپنا مال اور اپنا خاندان اللہ اور اس کے رسول صلی
اللہ علیہ وسلم کی محبت میں چھوڑکر اسلام قبول کیا، اور وہ تمام مصیبتیں، تکلیفیں
اور پریشانیاں برداشت کیں جو اسلام قبول کرنے کی وجہ سے انہیں پیش آئیں، ان کا
حال یہ تھا کہ بھوک کی شدت کے باعث پیٹ پر
پتھر باندھتے تھے، اور سردیوں میں کپڑے نہ ہونے کے باعث گڑھوں اور غاروں میں رہا
کرتے تھے۔ (تفسیر الطبری: ۲۳/۲۸۱)
حضرت عبد اللہ بن عمروؓ
رسولؐ اللہ کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ مہاجر فقراء مال داروں سے چالیس برس پہلے
جنت میں جائینگے، (صحیح مسلم: ۴/۲۲۸۵،
رقم الحدیث:۲۹۷۹)۔
ایک مرتبہ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اے غریب مہاجرو، تمہارے لئے
خوش خبری یہ ہے کہ تم قیامت کے دن مکمل نور کے ساتھ امیر لوگوں سے نصف دن پہلے جنت
میں داخل ہوگے اور یہ آدھا دن پانچ سو سال کے برابر ہوگا۔ (ابوداؤد :۳/۳۲۳، رقم الحدیث:۳۶۶۶) (جاری ہے)
30 اپریل،2021، بشکریہ: انقلاب،
نئی دہلی
Related Article
Part:
7- Adjective of Worship مجھے صفت ِ عبدیت زیادہ پسند اور عبد کا لقب زیادہ محبوب ہے
Part: 22- Bani Awf, the Prophet Has Come اے بنی عوف وہ نبیؐ جن کا تمہیں انتظار تھا، تشریف لے آئے
Part:
23- Moon of the Fourteenth Night ہمارے اوپر ثنیات الوداع کی اوٹ سے چودہویں رات کا چاند طلوع
ہوا ہے
Part: 24- Madina: Last Prophet's Abode یثرب آخری نبیؐ کا مسکن ہوگا، اس کو تباہ کرنے کا خیال دل
سے نکال دیں
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/exemplary-relationship-brotherhood-part-30-/d/124770
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism