مولانا ندیم الواجدی
12 مارچ 2021
یثرب میں نبی کریم ﷺ کا بے مثال استقبال
سیرت طیبہ کا مطالعہ کرنے
والے حضرات جانتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ننہیال یثرب کے قبیلے
بنونجار سے ہے۔ جب آپ بچے تھے، آپ ﷺکی والدہ محترمہ حضرت آمنہ آپ ﷺکو لے کر
یہاں تشریف لا ئی تھیں، حضرت ام ایمن بھی آپ کے ساتھ تھیں، و اپسی میں مقام ابواء
میں حضرت آمنہ کا انتقال ہوگیا۔ آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے یثرب روانہ ہونے سے پہلے اپنے ننہیالی رشتہ داروں کو اس کی
اطلاع بھجوائی، وہ لوگ ہتھیارسجا کر آئے اور رسول اللہ ﷺکو اپنے حصار میں لے کر
یثرب میں داخل ہوئے، آپ ﷺاس وقت اپنی اونٹنی قصواء پر تشریف فرما تھے، حضرت
ابوبکرؓ آپ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے، بنونجار
کے علاوہ بھی دوسرے قبائل کے لوگ اس شاہانہ مگر سادہ و باوقار جلوس میں
شریک تھے، کوئی سوار، کوئی پیدل، کوئی دائیں، کوئی بائیں، کوئی آگے، کوئی پیچھے،
غرض یہ کہ آپ سب کے بیچوں بیچ تھے۔
جس وقت آپ یثرب میں د
اخل ہوئے ننھی منی بچیوں نے استقبالیہ گیت گائے، بچیوں کے گائے ہوئے یہ اشعار اب
تاریخ اسلام کا حصہ بن چکے ہیں۔ ا ٓج بھی مدینہ منورہ میں یہ ترانہ نہایت ذوق و
شوق سے پڑھا اور سنا جاتا ہے۔کم عمر بچیوں اور بچوں کی دل کش آواز میں اس ترانے
کی گونج اس شہر مقدس میں ہر سمت سے سنائی دیتی ہے۔ بلدیہ نے مسجد نبوی کے شمال
مشرق میں مختلف شاہ راہوں کو جوڑنے والے ایک چوراہے پر پارک تعمیر کرکے یہ نشان
دہی کی ہے کہ نبی کریمﷺ کی مدینہ منور
آمد پر یہاں کھڑے ہو کر بچیوں نے یہ گیت گایا تھا:
طَلَعَ الْبَدْرُ
عَلَیْنَا مِنْ ثَنَیَاتِ الْوِدَاعِ وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَیْنَا مَا دَعَا
لِلّٰہِ دَاعِ اَیُّھَا الْمَبْعُوْثُ فِیْنَا جِئْتَ بِالْاَمْرِ الْمُطَاعِ
’’ہمارے اوپر ثنیات ِالوداع کی اوٹ سے چودہویں رات کا چاند طلوع
ہوا ہے، ہم پر اللہ کا شکر واجب ہے، اس وقت تک جب تک پکارنے والا اللہ کو پکارتا
رہے گا، اے وہ ذات جنہیں اللہ نے ہم میں مبعوث کیا ہے، آپ ایسا دین لے کر آئے
ہیں جس کی اتباع کی جاتی ہے۔‘‘
مدینہ منورہ کے لوگ آپ
صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے بے حد خوش تھے۔ حضرت براءبن عازبؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے اہل مدینہ کو اس قدر خوش کبھی نہیں
دیکھا جس قدر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے ہوئے۔ ہر طرف بس
یہی ایک جملہ لوگوں کی زبانوںپر تھا : ’’جا ء نبی اللہ‘‘ اللہ کے نبی تشریف لے آئے، جاء نبی اللہ، اللہ
کے نبی آگئے۔ (صحیح البخاری، ۵؍۷۷رقم الحدیث، ۳۹۱۱) حبشی لوگوں نے آج کے دن
کی خوشی میں نیزوں اور خنجروں کے کرتب دکھلائے، گھروں میں رہنے والی عورتیں بھی
اپنے گھروں کی چھتوں پر چڑھ کر حبشیوں کے کھیل دیکھ رہی تھیں اور لطف اندوز ہو رہی
تھیں، بچے گلی کوچوں میں یامحمدؐ! یارسولؐ اللہ! کا نعرہ لگاتے پھر رہے تھے، لوگوں
نے نئے اور خوب صورت لباس زیب تن کئے تھے، لوگ عید کا دن سمجھ کر اس دن کو منارہے
تھے اور لطف اندوز ہو رہے تھے۔ ان کا اسے
عید کا دن سمجھنا بھی بجا تھا، کیوںکہ یہ وہ دن تھا جس دن اسلام جیسا آفاقی مذہب
مکہ مکرمہ کے تنگ نائے سے نکل کر مدینہ منورہ کی وسعتوں میں پھیلنے اور پھلنے
پھولنے کے لئے یہاں منتقل ہوا تھا۔ یہ شہر ایک نقطۂ انقلاب تھا، مستقبل میں اسی
مرکز سے دین اسلام کو دنیا کی وسعتوں میں پھیلنا اور فروغ پانا تھا، اہل مدینہ کے
لئے اس سے زیادہ فخر و مسرت کی کوئی بات ہو ہی نہیں سکتی تھی کہ اللہ نے ان کو
اپنے دین کی نصرت اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی میزبانی کے لئے منتخب
فرمایا ہے۔ تاریخ نے ثابت کردیا کہ ان کا یہ فخر اور ان کی یہ خوشی بے جا نہیں
تھی، انہیں حق تھا کہ وہ ہر طرح فخر و مسرت کا اظہار کریں اور خوشی سے پھولے نہ
سمائیں، کیوں کہ ان کی قسمت جاگ اٹھی تھی۔ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آسمانی ہدایت اور آخری وحی الٰہی کے ساتھ ان کے درمیان
تشریف لاچکے تھے، اور اب یہیں سے دین مبین کی کرنیں سارے عالم میں
پھیلنے اور چمکنے والی تھیں۔ حضرت امام مسلمؒ نے اپنی صحیح میں یہ روایت نقل کی ہے
کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینے میں تشریف لائے تو مرد اور خواتین آپؐ
کی آمد کا منظر دیکھنے کے لئے اپنی چھتوں پر چڑھ گئے، بچے اور گھروں میں کام کرنے
والے نوکر چاکر اور خدمت گزار یامحمدؐ، یارسول اللہ، یا محمدؐ، یارسول اللہ کا
نعرہ لگاتے ہوئے گلی کوچوں میں پھرنے لگے۔ (صحیح مسلم، رقم الحدیث ۲۰۰۹) حضرت انس بن مالکؓ فرماتے
ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ کی مدینہ میں تشریف
آوری کے دن سے زیادہ خوبصورت اور بارونق کوئی دوسرا دن نہیں دیکھا۔ (مسند احمد بن
حنبل، ۳؍۱۲۲)
مدینہ منورہ میں داخل ہونے
کے بعد یہ معاملہ بڑا اہم تھا کہ آپؐ کس کے گھر میں قیام فرمائیں، پہلے سے نہ
کوئی قیام گاہ متعین تھی اور نہ اس سلسلے میں کوئی مشورہ ہوا تھا۔ تمام انصار
صحابہؓ میں ہر ایک کی آرزو تھی کہ آپؐ اس کے گھر میں قیام فرمائیں، چنانچہ آپؐ
جدھر سے بھی گزرتے وہاں کے لوگ یہ پیشکش کرتے یارسولؐ اللہ! آپؐ ہمارے غریب خانے
پر تشریف لائیں، ہمارے گھر میں رونق افروز ہوں۔ ایک مشہور صحابی ہیں حضرت عتبان بن
مالکؓ، ان کا تعلق قبیلہ بنو سالم سے تھا، سب سے پہلے اسی قبیلے کے مکانات کے قریب
سے گزر ہوا، حضرت عتبانؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ آپ ہمارے
ساتھ قیام فرمائیں، ہماری عددی طاقت بھی زیادہ ہے اور ہم جنگی ساز و سامان کے لحاظ
سے بھی مضبوط ہیں۔ انہوں نے اونٹنی کی لگام پکڑ کر اپنے گھر کی طرف لے جانا چاہا،
آپؐ نے ارشاد فرمایا تم لوگ اونٹنی کا راستہ چھوڑ دو، یہ اللہ کی طرف سے مامور
ہے، وہ لوگ راستے سے ہٹ گئے، اونٹنی چلتی ہوئی دار بنی بیاضہ سے گزری۔ وہاں سے بھی
کچھ لوگ آگے آئے،انہوں نے بھی قیام کی درخواست کی اور یہ بھی عرض کیا کہ ہم
تعداد میں بھی زیادہ ہیں اور ہمارے پاس آلاتِ حرب بھی بہت ہیں، آنحضرت صلی اللہ
علیہ وسلم نے ان سے بھی یہی فرمایا کہ تم لوگ اونٹنی کو چلنے دو، یہ اللہ کی طرف
سے مامور ہے، جہاں اللہ چاہے گا وہاں بیٹھ جائے گی۔
راستے میں بنوساعدہ،
بنوحارث، بنو خزرج، اور بنو عدی بن نجار کے علاقوں سے بھی گزر ہوا، سب نے یہی
درخواست کی، حقیقت میں ہر قبیلہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا مہمان بنانے کی
سعادت حاصل کرنا چاہتا تھا۔ آپؐ نے کسی کی دل شکنی نہیں کی، بس یہی فرماتے رہے کہ
اونٹنی کو چلنے دو، اسے جہاں ٹھہرنا ہوگا اللہ کے حکم سے وہاں ٹھہر جائے گی۔ قبیلہ
بنونجار کے گھر شروع ہوگئے، اس قبیلے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ننھیالی رشتہ
تھا، اونٹنی وہاں پہنچ کر بیٹھ گئی، یہ وہ جگہ ہے جہاں اس وقت روضۂ مبارک کے قریب
مسجد نبویؐ کا دروازہ ہے، یہ جگہ اس قبیلے کے دو یتیم بچوں سہل اور سہیل کی ملکیت
تھی، اونٹنی چند لمحے وہاں بیٹھی رہی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نیچے نہیں اترے، اس
کے بعد وہ اونٹنی اٹھی اور حضرت ابوایوب انصاریؓ کے گھر کے سامنے جا کر بیٹھ گئی،
اور اس نے اپنی گردن زمین پر ڈال دی۔ بعض روایات میں ہے کہ پہلی مرتبہ بھی اونٹنی
یہیں بیٹھی تھی، پھر اٹھی، کچھ دور چلی، پیچھے مڑی اور وہیں آکر بیٹھ گئی جہاں سے
اٹھ کر چلی تھی۔ آپؐ اونٹنی سے اتر گئے۔ حضرت ابوایوب انصاریؓ جلدی سے آگے بڑھے
اور اونٹنی کا کجاوہ اتار کر جس پر سامانِ سفر تھا اپنے گھر میں لے گئے۔ آپؐ یہ
فرماتے ہوئے حضرت ابوایوبؓ کے مکان میں تشریف لے گئے کہ آدمی اپنے سامانِ سفر کے
ساتھ ہے۔ حضرت سعد بن زارہؓ نے اونٹنی کی لگام تھام لی، چنانچہ اونٹنی کو ان کے
سپرد کردیا گیا، وہ ان کے پاس مہمان بن کر رہی۔
(سیرت ابن ہشام، ۱؍۴۹۴، زاد المعاد، ۳؍۴۳، صحیح البخاری، ۷؍۱۹۴)
حضرت انس بن مالکؓ فرماتے
ہیں کہ اونٹنی سے اترنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یہاں سے
کس شخص کا گھر زیادہ قریب ہے؟ حضرت ابوایوب انصاریؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ!
میرا گھر زیادہ قریب ہے، یہ رہا سامنے، آپؐ نے فرمایا: جائو، ہمارے لئے آرام
کرنے کی جگہ تیار کرو۔ انہوں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! آپؐ دونوں اندر تشریف لائیں، اللہ برکت دے۔
(صحیح البخاری، ۵؍۷۹، رقم الحدیث ۳۹۱۱)
سیرت کی کتابوں میں لکھا
ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوایوب انصاریؓ کے مکان پر مقیم ہوگئے تو
بنونجار کی چھوٹی چھوٹی بچیاں دف بجاتی ہوئی اور گیت گاتی ہوئی نکلیں:
نحن جوار من بنی
النجار
یا حبذا محمد من جار
(ہم بنونجار کی لڑکیاں ہیں،
محمد صلی اللہ علیہ وسلم
ہمارے کتنے اچھے پڑوسی ہیں)
یہ نغماتِ مسرت سن کر
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی آرام گاہ سے باہر تشریف لائے اور ان بچیوں سے
فرمایا کہ کیا تم محمدؐ سے محبت کرتی ہو؟ انہوں نے عرض کیا: اللہ کی قسم، یارسولؐ
اللہ! آپ نے فرمایا: میں بھی اللہ کی قسم! تم سب سے محبت کرتا ہوں، آپ نے یہ
جملہ تین مرتبہ ارشاد فرمایا، آپ ﷺنے ان بچیوں کو دعائیں بھی دیں۔ (سنن ابن ماجہ،
رقم الحدیث، ۱۵۵۳،
مسند ابی یعلی، رقم ۳۴۰۹)
علامہ ابن القیمؒ نے لکھا
ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دلی خواہش یہ تھی کہ وہ اپنے ماموں نانا کے
گھروںمیں سے کسی گھر میں قیام فرمائیں، تاکہ ان کی عزت افزائی ہو، مگر آپؐ یہ بات
اپنی زبان پر لانا مناسب نہیں سمجھتے تھے، کیوںکہ اس سے باقی قبیلوں کی دل شکنی
ہوتی، اس لئے آپؐ ہر پیشکش کے جواب میں یہی فرماتے رہے کہ اونٹنی کو آگے جانے کا
راستہ دو، اسے من جانب اللہ حکم دے دیا گیا ہے، یہ وہیں رکے گی جہاں رکنے کا اسے
حکم ہے۔ اس طرح تمام لوگ اس بات سے آگاہ ہوگئے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم
اپنی نیت اور قصد و ارادے سے کہیں قیام نہیں فرمائیں گے بلکہ جہاں اللہ کو منظور
ہوگا وہیں ٹھہریں گے۔ حضرت ابوایوب انصاریؓ کے مکان کا انتخاب من جانب اللہ ہوا،
اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس آرزو کی تکمیل بھی ہوگئی کہ آپ ننھیال میں
ٹھہرنا چاہتے تھے اور کسی صحابی کی دل شکنی بھی نہیں ہوئی، اونٹنی کے بیٹھنے، اٹھ
کر چلنے اور دوبارہ آکر بیٹھنے سے انہوں نے یہ بات اچھی طرح سمجھ لی کہ حضرت
ابوایوب ؓ کے مکان میں قیام اللہ کے حکم سے ہوا ہے، اس میں آپ کی مرضی کو کوئی
دخل نہیں ہے۔ (زادالمعاد، ۳؍۴۳)(جاری)
nadimulwajidi@gmail.com
12
مارچ 2021،بشکریہ:انقلاب، نئی دہلی
Related Article
Part: 7- Adjective of Worship مجھے صفت ِ عبدیت زیادہ پسند اور عبد کا لقب زیادہ محبوب ہے
Part: 22- Bani Awf, the Prophet Has Come اے بنی عوف وہ نبیؐ جن کا تمہیں انتظار تھا، تشریف لے آئے
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/moon-fourteenth-night-part-23-/d/124528
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism