مولانا ندیم الواجدی
3 ستمبر ، 2021
میدانِ بدر میں قیام
جیسے ہی رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کو یہ اطلاع ملی کہ قریش کا لشکر بدر کے آخری سرے پر واقع
عُقُنْقُل پہاڑی کے پیچھے آکر ٹھہر گیا ہے، آپؐ نے بھی صحابہ کرامؓ کو کوچ کا
حکم دیا تاکہ مسلمان بھی میدانِ بدر کے قریب پہنچ جائیں، یہ اس لئے بھی ضروری تھا
کہ اس میدان میں پانی کے کئی کنویں تھے اور ایک کنواں تو کافی بڑا اور گہرا تھا، ا
س کا پانی بھی نہایت ٹھنڈا اور شیریں تھا۔ صحابہ کرامؓ کا قافلہ وہاں سے روانہ ہوا
اور بدر سے کچھ فاصلے پر پہنچ کر ٹھہر گیا، وہاں سے پانی کے کنویں کچھ دور تھے،
ابھی مشرکین وہاں نہیں تھے مگر یہ خطرہ بہر حال تھا کہ کہیں وہ لوگ عُقُنْقُلْ
ٹیلے سے اتر کر اس میدان پر قبضہ نہ کرلیں۔ ایک صحابی حباب بن المنذرؓ حاضر خدمت
ہوئے اور عرض کیا: یارسولؐ اللہ! اس جگہ پر ہمارا قیام محض اتفاقاً ہوا ہے، یا
اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہاں اترنے اور ٹھہرنے کا حکم دیا ہے۔ اس صورت میں تو ہم نہ
یہاں سے آگے بڑھ سکتے ہیں اور نہ پیچھے ہٹ سکتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: نہیں؛ یہ
میری رائے ہے اور جنگی تدبیر کے تحت میں نے یہاں قیام کا حکم دیا ہے۔ حضرت حبابؓ
نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میرے خیال سے یہ جگہ ہمارے لئے موزوں نہیں ہے۔ آپؐ
آگے تشریف لے چلیں اور قریش کے لشکر کے قریب جو کنواں ہے اس کے پاس ٹھہریں، ہم اس
کنویں پر قابض ہوجائیں گے اور باقی کنوؤں کو مٹی سے بھر کر انہیں ناقابل استعمال
بنادیں گے۔ اس طرح ہمیں پانی ملے گا اور وہ پانی سے محروم رہیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ رائے پسند
فرمائی اور صحابہ کرامؓ کو اس مقام کی طرف چلنے کا حکم دیا جس کی نشان دہی حبابؓ
نے کی تھی۔ رات کے وقت وہاں پہنچ کر صحابہ کرامؓ نے دشمن کے قریب واقع کنویں پر
قبضہ کرلیا اور اس کے پاس ایک بڑا حوض بنا کر اسے پانی سے لبریز کردیا، باقی
کنوئوں کو مٹی سے بھر کر ناقابل استعمال بنا دیا۔
یہ جگہ جہاں مسلمانوں نے
قیام کیا تھاپانی کے لحاظ سے تو مناسب بلکہ بہتر تھی، مگر وہاں کی زمین ریتیلی
تھی، چلتے ہوئے پائوں دھنستے تھے، خدا کی شان دیکھئے، اس رات اس قدر بارش ہوئی کہ
ریتیلی زمین سخت ہوگئی، اس پر چلنا پھرنا آسان ہوگیا، دوسری طرف جہاں مشرکین تھے
بارش کی وجہ سے وہاں پانی جمع ہوگیا، کیوں کہ وہ جگہ نشیب میں تھی، وہاں کی مٹی
نرم تھی، اس کی وجہ سے وہاں کیچڑ ہوگیا، چلنے پھرنے میں دشواری ہونے لگی۔
مسلمانوں نے پانی جمع
کرنے کے لئے جو حوض بنایا تھا اسے دیکھ کر مشرکین کے خیموں میں غصے اور تشویش کی
لہر پیدا ہوگئی، ایک مشرک نے جس کا نام اسود بن عبدالاسد تھا، اپنے قائدین ابوجہل
وغیرہ سے کہا کہ میں یہ حوض توڑ دوںگا۔ چنانچہ وہ شخص رات کے اندھیرے میں چھپتا
چھپاتا حوض کے قریب آگیا، مسلمانوں نے اسے پہچان لیا اور اس کو قتل کردیا، یہ
پہلا شخص تھا جو مسلمانوں کے ہاتھوں بدرمیں قتل ہوا۔ (سیرت ابن ہشام، ۱؍۶۲۰، البدایہ والنہایہ، ۳؍۱۶۷)
چھپر کی تعمیر
حضرت سعد بن معاذؓ اگرچہ
کم عمر تھے، مگر اپنے قبیلے کے اجتماعی کاموں میں پیش پیش رہتے تھے۔ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کو ان پر حد درجہ اعتماد تھا، اصابت رائے میں مشہور تھے۔ جب یہ
تمام امور انجام پا گئے اور یہ یقین ہوگیا کہ آنے والی صبح میں یہ میدان ایک
فیصلہ کن جنگ کا گواہ بنے گا تب جنگ کی تیاریوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ حضرت سعد بن
معاذ نے یہ تجویز پیش کی کہ میدان جنگ میں کسی اونچی جگہ پر رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم قیام فرمائیں اور وہاں سے جنگ پر نظر رکھیں۔ اس سلسلے میںانہوں نے یہ
بھی عرض کیا: یارسولؐ اللہ! وہاں اس ٹیلے پر ہم آپؐ کے لئے ایک چھپر کیوں نہ
بنادیں، جس میں آپؐ ٹھہر جائیں اور ہم
میں سے کچھ لوگ آپؐ کی حفاظت پر مامور ہوں، اگر ہم فتح سے ہم کنار ہوئے تب تو
کوئی بات ہی نہیں، اگر خدانخواستہ جنگ میں شکست سے دوچار ہوئے تو وہ حفاظتی دستہ
آپؐ کو لے کر روانہ ہوجائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تجویز کی
تحسین فرمائی اور حضرت سعد ؓ کو دعائے خیر سے نوازا، چنانچہ وہاں ایک پہاڑی پر
کھجور کی شاخوں اور پتّوں سے چھپر بنا دیا گیا، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
اپنے رفیق حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ساتھ قیام فرمایا، اس چھپر سے جنگ کا پورا میدان
نظر آتا تھا، آپؐ دونوں طرف کی فوجوں کو
دیکھ رہے تھے۔ حضرت سعد بن معاذؓ تلوار لے کر چھپر کے باہر کھڑے ہوگئے۔
(اسدالغابہ، ۲؍۱۴۳، تاریخ السلام للذہبی، ۱؍۱۷۹)
جس جگہ پر یہ چھپر بنایا
گیا تھا وہاں ترکوں نے اپنے دور حکومت میں ایک مسجد بنادی تھی، الحمد للہ وہ مسجد
آج تک موجود ہے بلکہ سعودی حکومت نے اس مسجد کو شہید کرکے نہایت خوبصورت اور
کشادہ مسجد تعمیر کردی ہے۔ لوگ بدرکی زیارت کے لئے جاتے ہیں، اس مسجد میں نماز
پڑھنا اپنی سعادت سمجھتے ہیں۔ راقم السطور کو بھی اس مسجد میں حاضری کا اور دو
رکعت تحیۃ المسجد ادا کرنے کا شرف حاصل ہوا ہے۔ اس مسجد سے آج بھی میدان بدر صاف
نظرآتا ہے اور وہ کنواں بھی نظر آتا ہے جس میں مشرکین کی لاشیں پھینک دی گئی
تھیں۔
میدانِ جنگ کا معائنہ
جس دن معرکۂ بدر ہونا
تھا اس کی شب میں آپؐ نے میدانِ بدر کا معائنہ فرمایا، حضرت عمر بن الخطابؓ
فرماتے ہیں کہ ہم لوگ رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ساتھ لے کر
میدانِ جنگ کی طرف چلے تاکہ مشرکین مکہ کی قتل گاہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔
چنانچہ آپؐ اپنی مبارک انگلی سے اشارہ کرکے فرماتے کہ یہاں فلاں شخص قتل ہوگا، یہ
فلاں شخص کے قتل ہونے کی جگہ ہے، وہاں فلاں شخص ہلاک ہو کر گرے گا، آپؐ نے ایک
ایک جگہ کی تعیین کی اور مقتولین کے نام بھی لئے۔ اس ذات کی قسم جس نے آپؐ کو حق
کے ساتھ مبعوث فرمایا ایسا ہی ہوا جیسا آپؐ نے فرمایا۔ اس میں ذرہ برابر بھی فرق
نہ آیا۔ (صحیح مسلم، ۱۴؍۳۶، رقم الحدیث، ۵۱۲۰)
مسلمانوں کا اطمینان اور
رسول اللہ کی شب بیداری
کفار کا لشکر بڑا تھا، وہ
لوگ زبردست مسلح تھے، مسلمان تعداد میں کم تھے اور تقریباً نہتے تھے، ان حالات میں
گھبراہٹ پیدا ہونا طبعی امر تھا، اس لئے جنگ سے مسلمانوں کے دلوں میں ایک طرح کی
تشویش اور پریشانی تھی، اللہ تعالیٰ نے اس کا علاج یہ فرمایا کہ ان پر غنودگی طاری
کردی، اس کا اثر یہ ہوا کہ ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور ہوگئی اور ہر طرح کا خوف
جاتا رہا۔ قرآن کریم نے جنگ سے پہلے کی اس تدبیر الٰہی کا بہ طور احسان ذکر کیا ہے:’’یاد کرو جب تم پر سے
گھبراہٹ دور کرنے کے لئے وہ اپنے حکم سے تم پر غنودگی طاری کر رہا تھا اور تم پر
آسمان سے پانی برسا رہا تھا، تاکہ اس کے ذریعے تمہیں پاک کرے، تم سے شیطان کی
گندگی دور کرے، تمہاری ڈھارس بندھائے اور اس کے ذریعے تمہارے پائوں اچھی طرح
جمادے۔‘‘(الانفال:۱۱)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ
نے بدر کی جنگ سے پہلے کے اپنے دو انعامات کا ذکر فرمایا ہے، ایک تو یہ کہ بارانِ
رحمت کا نزول ہوا، جس سے وہ ریتیلی زمین جس پر چلنا دشوار تھا سخت ہوگئی اور پائوں
جما کر چلنے میں آسانی ہوگئی، پانی وافر مقدار میں جمع ہوگیا جس سے وضو اور غسل
کی سہولت ہوگئی، شیطانی وسوسے بھی ختم ہوگئے۔ دوسرا انعام یہ ہوا کہ مسلمانوں پر
غنودگی کی سی کیفیت طاری ہوگئی، جب یہ کیفیت ختم ہوئی تو مسلمانوں کے دل پوری طرح
مطمئن تھے، کسی طرح کا کوئی خوف یا کسی قسم کی کوئی گھبراہٹ ان کے دلوں میں نہیں
تھی، جب یہ صورت حال پیدا ہوئی تو اس رات مسلمان اطمینان اور سکون کے ساتھ سوئے جس
کی صبح جنگ ہونے والی تھی، البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام رات جاگتے ر
ہے اور نماز اور دعا میں مشغول رہے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ
روایت فرماتے ہیں کہ بدر کی رات ہم میں سے کوئی شخص ایسا نہ تھا جو سویا نہ ہو،
صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام رات جاگتے رہے اور سپیدۂ سحر نمودار ہونے تک
دعاء و گریہ زاری میں مشغول رہے جیسے ہی فجر کا وقت ہوا آپؐ نے آوازی ’’الصلاۃ
عباد اللہ‘‘ اللہ کے بندونماز کے لئے اٹھ جائو، آپؐ کی آواز سنتے ہی تمام لوگ
بیدار ہوگئے، ایک درخت کی جڑ کے پاس کھڑے ہو کر آپؐ نے نماز پڑھائی، نماز سے فارغ
ہونے کے بعد آپ نے ایک بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا جس میں اللہ کے راستے میںجان کا
نذرانہ پیش کرنے کی ترغیب تھی۔ (کنز العمال، ۴؍۹۸، بہ حوالہ سیرۃ المصطفی ۲؍۷۴)
لشکروں کی صف بندی
جمعہ کا دن تھا، رمضان
المبارک کی سترہویں تاریخ تھی، دن چڑھے دونوں طرف کی فوجیں میدان میں پہنچ گئیں،
مشرکین کا لشکر پہاڑی کے پیچھے تھا، وہ لوگ پہاڑی کے پیچھے سے اتراتے ہوئے اکڑتے
ہوئے اوپر چڑھے، پھر نیچے اترے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دیکھا اور
یہ دعا فرمائی: اے اللہ! یہ قریش کے لوگ جو کبر و غرور اور اپنی شان و شوکت کا
مظاہرہ کرتے ہوئے یہاں آئے ہیں یہ تیرا مقابلہ کرنے کے لئے جمع ہوئے ہیں، یہ لوگ تیرے
رسول کی تکذیب کرتے ہیں، اے اللہ میں تجھ سے تیری اس مدد کا خواست گارہوں جس کا
تونے مجھ سے وعدہ کیا ہے، اے اللہ تو ان کو ہلاک کر۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی، ۳؍۴، رقم ۸۷۴)
اس کے بعد آپؐ میدان میں
تشریف لائے، تمام صحابہ صفیں بناکر کھڑے ہوئے تھے، آپؐ نے ایک فوجی کمانڈر کی طرح
ان کا معائنہ فرمایا، تیر آپ کے دست مبارک میں تھا، ایک صحابی تھے حضرت سواد بن
غزیرؓ، ان کا سینہ صف سے قدرے باہر کی طرف نکلا ہوا تھا، آپ نے تیر ان کے سینے پر
رکھ کر انہیں پیچھے ہٹایا، وہ صحابی درد سے کراہنے لگے اور کہنے لگے یارسول اللہ!
آپ نے مجھے تکلیف پہنچائی ہے، آپؐ کو اللہ نے حق و انصاف کے ساتھ مبعوث فرمایا
ہے، آپ مجھے اس کا بدلہ دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت شکم مبارک سے
کپڑا ہٹا کر فرمایا: اے سواد! اپنا بدلہ لے لو، وہ صف سے نکلے اور انہوں نے آپؐ
کے شکم مبارک پر بوسہ دے کر عرض کیا: یارسولؐ اللہ! آپؐ پر میرے ماں باپ قربان
ہوں، شاید یہ آخری ملاقات ہو، میں چاہتا ہوں کہ راہِ خدا میں جامِ شہادت نوش کرنے
سے پہلے میرے لب آپؐ کے جسم اطہر سے مس ہوجائیں، یہ سن کر آپؐ خوش ہوئے اور آگے
بڑھ گئے۔ (جاری)
3 ستمبر ، 2021، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
-------
Related Article
Part:
7- Adjective of Worship مجھے صفت ِ عبدیت زیادہ پسند اور عبد کا لقب زیادہ محبوب ہے
Part: 22- Bani Awf, the Prophet Has Come اے بنی عوف وہ نبیؐ جن کا تمہیں انتظار تھا، تشریف لے آئے
Part:
23- Moon of the Fourteenth Night ہمارے اوپر ثنیات الوداع کی اوٹ سے چودہویں رات کا چاند طلوع
ہوا ہے
Part: 24- Madina: Last Prophet's Abode یثرب آخری نبیؐ کا مسکن ہوگا، اس کو تباہ کرنے کا خیال دل
سے نکال دیں
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism