مولانا ندیم الواجدی
27اگست،2021
ذِفران سے بدر کی طرف
اب مسلمانوں کا یہ کارواں
جس میں نیا جوش اور نیا ولولہ پیدا ہوگیا تھا، ذفران سے بدر کی طرف گامزن ہوا، یہ
جگہ وادیٔ الصُّفراء سے کچھ پہلے اوپر کی جانب ہے، اس کاپانی وادیٔ صفراء میں گرتا
ہے، گویا آپؐ وادیٔ صفراء سے نکل کر وادیٔ ذِفران میں تشریف لے گئے اور وہاں سے
بدر کی طرف آگے بڑھے۔ (وفاء الوفاء، ۳؍۱۰۲۴) یہاں پہنچ کر آپؐ نے
مناسب سمجھا کہ قریش کے قافلے کے متعلق معلومات حاصل کرلی جائیں، اور یہ بھی معلوم
کرلیا جائے کہ یہاں کے لوگ بھی موجودہ صورتِ حال کے متعلق کچھ جانتے ہیں، یا بالکل
اندھیرے میں ہیں۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم نے حضرت ابوبکر الصدیقؓ کو اپنے ساتھ لیا اور آگے تشریف لے گئے، کسی جگہ ایک
بوڑھا شخص پھرتا ہوا نظر آیا، آپ نے اس سے قریش کے لشکر کے متعلق پوچھا کہ کیا
اسے اس کی کچھ خبر ہے کہ وہ کہاں تک پہنچ چکا ہے، پھر اپنے متعلق معلوم کیا کہ اسے
محمدؐ اور ان کے ساتھیوں کے متعلق کچھ معلوم ہے؟ بوڑھے نے کہا کہ جب تک آپ لوگ
مجھے اپنے متعلق کچھ نہیں بتلائیں گے میں کچھ نہیں بولوں گا، آپؐ نے اس سے فرمایا
تم بتلادو ہم بھی بتلا دیں گے۔ بوڑھے نے کہا کہ کیا یہ بدلہ ہوگا، آپؐ نے فرمایا:
ہاں۔ بوڑھے نے کہا مجھے پتہ چلا ہے کہ محمدؐ اور ان کے اصحاب فلاں دن مدینے سے چلے
ہیں، اگر یہ بات صحیح ہے تو وہ آج فلاں جگہ ہوں گے، یہ جگہ وہی تھی جہاں مسلمانوں
کا لشکر اس وقت ٹھہرا ہوا تھا، بوڑھے نے یہ بھی بتلایا کہ قریش فلاں دن مکہ سے
نکلے ہیں، اگر یہ بات صحیح ہے تو وہ لوگ آج فلاں جگہ ہوں گے، یہ جگہ بھی وہی تھی
جہاں آج مشرکین کا لشکر ٹھہرا ہوا تھا، گویا بڑے میاں کی معلومات صحیح تھیں اور
اس کا اندازہ بھی درست تھا۔ بوڑھے نے کہا میں نے تمہیں بتلا دیا، اب تم اپنے متعلق
بتلائو تم کون ہو؟ آپؐ نے فرمایا: ہم پانی سے ہیں (کیونکہ ہر شخص کی تخلیق ایک
خاص قسم کے پانی سے ہوئی ہے)، پھر آپ حضرت ابوبکرؓ کو لے کر واپس ہوگئے۔ (سیرۃ بن
ہشام، ۱؍۴۱۴)
اسی دن شام کو آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی بن ابی طالبؓ، حضرت زبیر بن العوامؓ، حضرت سعد بن ابی
وقاصؓ اور دوسرے چند نوجوان صحابہؓ کو بدر کے کنویں کے پاس بھیجا کہ وہاں جائیں
اور دشمن کے متعلق معلومات کرکے آئیں کہ بدر سے کتنی دور ہیں اور اس وقت کہاں
ہیں، ان کی تعداد کتنی ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ حضرات وہاں پہنچے، اتفاق سے قریش کے دو
غلام کنویں پر پانی بھرتے ہوئے ملے، یہ نوجوان صحابہؓ ان دونوں کو پکڑ کر لے آئے،
اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے، صحابہؓ نے ان سے پوچھا کہ
تم لوگ کون ہو اور وہاں کیا کر رہے تھے؟ انہوں نے کہا کہ ہم قریش کو پانی پلانے
والے ہیں، صحابہ کو یقین نہیں آیا، وہ سمجھے کہ یہ دونوں ابوسفیان کے آدمی ہیں
اور خود کو قریش کا آدمی ظاہر کر رہے ہیں، چنانچہ صحابہؓ نے ان پر سختی کی تو وہ
کہنے لگے کہ ہاں! ہم ابوسفیان کے آدمی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام
پھیر کر ارشاد فرمایا کہ جب یہ لوگ سچ بول رہے تھے تو تم نے ان کو مارا اور اب یہ
جھوٹ بول رہے ہیں تو تم نے ان کو چھوڑ دیا۔ خدا کی قسم انہوں نے سچ کہا تھا، یہ
واقعی قریش کے آدمی ہیں۔
ا س کے بعد آپ ﷺنے ان
دونوں سے پوچھا کہ تم مجھے قریش کے بارے میں بتلائو، انہوں نے کہا کہ وہ جو دور
اونچی پہاڑی نظر آرہی ہے قریش کا قافلہ اس کے پیچھے ٹھہرا ہوا ہے، اس پہاڑی کا
نام عقنقل ہے، آپؐ نے دریافت فرمایا وہ لوگ تعداد میں کتنے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ
بہت زیادہ ہیں، آپؐ نے پوچھا کتنی تعداد میں ہیں، کہنے لگے ہم نہیں جانتے۔ آپؐ
نے پوچھا: وہ لوگ روزانہ کتنے اونٹ ذبح کرتے ہیں؟ کہنے لگے کسی روز دس، کسی دن نو۔
آپؐ نے فرمایا: وہ ہزار نوسو کے درمیان ہیں (کیونکہ ایک اونٹ سو آدمیوں کو کفایت
کرجاتا ہے)۔
آپؐ نے ان سے قریش کے
سرداروں کے نام بھی دریافت فرمائے، انہوں نے جواب میں عرض کیا عتبہ بن ربیعہ، شیبہ
بن ربیعہ، ابوالبختری بن ہشام، حکیم بن حزام، نوفل بن خُوَیلد، حارث بن عامر بن
نوفل، نضر بن الحارث، زمعہ بن الاسود، ابوجہل بن ہشام، امیہ بن خلف، نبیہ بن
الحجاج، منبہ بن الحجاج، سہیل بن عمرو، عمرو بن عبد ودّ۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ھذہ مکۃ قد ألقت الیکم افلاذ اکبادھا۔‘‘ یعنی
مکہ نے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو تمہارے آگے ڈال دیا ہے۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی، ۳؍۲۲، رقم الحدیث۸۹۰، سیرت بن ہشام، ۱؍۴۱۹)
ابوسفیان کا خط
ابوسفیان بدر کے قریب
آیا لیکن جیسے ہی اسے یہ معلوم ہوا کہ مسلمان اس کے تعاقب میں ہیں وہ اپنے قافلے
کو لے کر ساحل سمندر کی طرف چلا گیا اور وہاں سے بہ حفاظت مکہ پہنچ گیا۔ جب اسے یہ
یقین ہوگیا کہ اب مسلمان اس کے قافلے تک پہنچ نہیں پائیں گے اس نے قریش کو خط لکھا
کہ قافلہ محفوظ ہے، مسلمان بہت دور رہ گئے ہیں، اب آپ لوگوں کو آنے کی ضرورت
نہیں ہے، مکہ واپس چلے جائیں، اس وقت قریش کا لشکر جُحفہ میں تھا، مکہ مکرمہ سے اس
وادی کا فاصلہ تقریباً ایک سو اسی کلو میٹر ہے، ابوجہل نے خط پڑھا، مگر واپسی کے
لئے تیار نہیں ہوا، کہنے لگا کہ ہم بدر ضرور جائیں گے، وہاں کچھ روز قیام کریں گے،
قرب و جوارکے جو لوگ ہمارے پاس آئیں گے ہم ان کی ضیافت کریں گے، اس طرح عربوں پر
ہماری دھاک بیٹھ جائے گی۔ اَخْنَس بن شُرَیق نے بھی واپسی کا مشورہ دیا، مگر
ابوجہل اور اس جیسے لوگوں نے یہ مشورہ بھی نہیں مانا، اخنس ناراض ہوگیا، وہ اور اس
کے قبیلے بنو زہرہ کے لوگ جُحفہ سے ہی واپس چلے گئے، کسی زہری نے بھی غزوۂ بدر
میں حصہ نہیں لیا، بعد میں وہ لوگ اپنے اس فیصلے پر فخر کیا کرتے تھے۔ بنو ہاشم
بھی واپس ہونا چاہتے تھے، مگر ابوجہل نے دبائو ڈال کر انہیں روک لیا، البتہ طالب
بن أبی طالب اور کچھ دوسرے لوگ مکہ چلے گئے۔ (سیرت ابن ہشام، ۱؍۴۲۰، البدایہ والنہایہ، ۳؍۱۶۷)
قریش کو مشورے
کچھ اور لوگوں نے بھی جو
لشکر میں شامل تھے قریش کو واپسی کا مشورہ دیا، مگر ابوجہل نہیں مانا، حضرت
عبداللہ ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ جب مسلمان اور مشرکین آمنے سامنے آگئے، تب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر عتبہ بن ربیعہ پر پڑی، وہ ایک سرخ اونٹ پر
سوار تھا، آپ نے ارشاد فرمایا : اگر قریش میں سے کوئی خیر پر ہوگا تو وہ اس سرخ
اونٹ والے کے پاس آجائے گا، اس کی بات مانے گا اور ہدایت پائے گا۔ عتبہ بن ربیعہ
اپنی قوم سے کہہ رہا تھا: اے لوگو! مسلمانوں کے بارے میں میری بات مان لو، اگر تم
نے ان سے جنگ کی اور یہ لوگ مارے گئے تو تمہیں باقی پوری زندگی ندامت کا احساس
ستائے گا، تم میں سے ہر شخص دوسرے شخص کو اپنے باپ یا اپنے بھائی کے قاتل کے روپ
میں دیکھے گا۔ میری بات مانو، واپس چلو۔ ابوجہل نے یہ بات سنی تو کہنے لگا اللہ تم
کو ہلاک کرے، یہ تو محمدؐ اور ان کے ساتھیوں کو دیکھ کر ڈر گیا، حالاںکہ وہ ہمارے
ہاتھوں ہلاک ہونے والے ہیں، ذرا جنگ تو ہونے دو۔
عتبہ نے جواب دیا کہ تجھے
بہت جلد پتہ چل جائے گا کہ کون بزدل ہے اور کون مفسد ہے، خدا کی قسم! میں ایسی قوم
کو دیکھ رہا ہوں جو مار مار کر تمہیں بے حال کردے گی، ان کے سر ایسے ہیں جیسے
اژدہوں کے سر ہوں، ان کے چہرے تلواروں کی طرح چمک رہے ہیں۔ (مجمع الزوائد، ۶؍۷۶)
حکیم بن حزام اس وقت تک
مسلمان نہیں ہوئے تھے، وہ بھی اس لشکر میں تھے، کہتے ہیں کہ جب جنگ کے حالات پیدا
ہوگئے اور دونوں فوجوں نے پڑائو ڈال لیا تو میں عتبہ بن ربیعہ کے پاس گیا اور اس
سے کہنے لگا کہ اے ربیعہ! کیا تم جنگ ٹلوا کر آج کے دن کو یادگار نہیں بنا سکتے،
تمام عمر تم اس دن کو یاد رکھو گے۔ عتبہ نے کہا: کہو کیا کہنا چاہتے ہو؟ میں نے
کہا: یہ جنگ تم صرف عمرو بن الحضرمی کے خون کا بدلہ لینے کے لئے لڑنا چاہتے ہو، یہ
قبیلہ تمہارا حلیف ہے، میری رائے میں تم اس کی دیت دے کر لوگوں کو واپس مکہ لے
جائو۔ عتبہ کہنے لگا کہ میں دیت دینے کے لئے تیار ہوں، تم ابوحنظلہ یعنی ابوجہل کو
اس پر راضی کرلو، میں اس کے پاس آیا مگر اس نے مجھے بھی برا بھلا کہا اور عتبہ کو
بھی، عمرو بن الحضرمی کا بھائی عامر بن الحضرمی اس وقت ابوجہل کے قریب ہی کھڑا ہوا
تھا، وہ اس سے کہنے لگا کہ کہ دیکھو تمہارا حلیف عتبہ خود دیت دے کر جنگ ٹالنا
چاہتا ہے، حالاں کہ تمہارا دشمن تمہارے سامنے موجود ہے اور تم خود اس سے اپنے
بھائی کے خون کا بدلہ لے سکتے ہو، اٹھو اور اپنے بھائی کا انتقام لو۔ ابوجہل کی
باتیں سن کر عامر بھی جوش میں آگیا اور عربوں کے دستور کے مطابق اپنے سرین کھول
کر اور انہیں پیٹ پیٹ کر واعمراہ، واعمراہ کرنے لگا، اس کی چیخ پکار سے لشکر میں
تازہ جوش پھیل گیا، اس طرح حکم بن حزام اور عتبہ بن ربیعہ کی تمام کوششیں رائیگاں
چلی گئیں۔ (سیرت بن ہشام،۱؍۴۲۰)
عاتکہ اور جُہیم کے خواب
مکہ مکرمہ میں جنگ کی
تیاری چل ہی رہی تھی کہ دو لوگوں نے خواب دیکھے، دونوں ہی خواب اہل مکہ کو مستقبل
کے خطرات سے آگاہ کرنے والے تھے، مگر اس وقت ابوجہل پر خون سوار تھا، اس نے ان
خوابوں کی ذرا پروا نہ کی، بلکہ وہ پوری قوم کے جذبات مشتعل کرکے انہیں ڈرا دھمکا
کر بدر کی طرف لے جانے میں کامیاب ہوگیا۔
عاتکہ بنت عبدالمطلب،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی ہیں، انہوں نے خواب دیکھا کہ ایک شخص آیا
اور اس نے قریش کو آگاہ کیا، پھر وہ جبل أبی قُبَیس پر چڑھا اور وہاں سے اس نے
ایک بڑی چٹان نیچے کی طرف گرائی، جو ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی، اس کے ذرات بکھر گئے اور
قریش کے تمام گھروں میں داخل ہوگئے۔ عاتکہ نے اپنا خواب اپنے بھائی عباس کو سنایا،
انہوں نے کسی اور کو بتایا۔ ایک دوسرے سے ہوتے ہوئے خواب کی یہ بات ابوجہل تک پہنچ
گئی۔ اس نے عباس کو بلا کر کہا کہ میں یہ کیا سن رہا ہوں، پہلے تمہارے مرد نبی ہو
رہے تھے، اب عورتیں بھی نبی بن رہی ہیں اور اس طرح کے خواب پھیلا رہی ہیں۔ (سیرت
ابن ہشام، ۱؍۴۲۱) اس وقت تک حضرت عاتکہ
اسلام نہیں لائی تھیں، بعض مؤرخین کہتے ہیں کہ حضرت صفیہؓ کے علاوہ آپ کی کوئی
پھوپھی مشرف بہ اسلام نہیں ہوئیں، لیکن اکثر مصنفین ان کے اسلام کا ذکر کرتے ہیں۔
حافظ ابن سعد، مؤرخ بلاذریؒ اور حافظ ذہبی، حافظ ابن عبدالبرؒ وغیرہ نے تسلیم کیا
ہے کہ وہ مسلمان ہوگئی تھیں، ہجرت کی اور
بقیع میں مدفون ہیں۔ حافظ ذہبی کہتے ہیں کہ انہوں نے اسلام قبول کیا، ہجرت بھی کی،
یہ وہی خاتون ہیں جنہوںنے جنگ بدر میں قریش کی ہلاکت کا خواب دیکھا تھا، اسی خواب
کی وجہ سے ان کا بھائی ابولہب جنگ بدر میں شریک نہیں ہوسکا۔ (سیر اعلام النبلاء، ۲؍۳۷۲)
اسی طرح کا خواب جُہیم بن
الصلت نے بھی دیکھا، یہ شخص لشکر میں شامل تھا، جب یہ لشکر مقام جُحفہ میں پہنچا
تو ایک رات جُہیم نے خواب دیکھا کہ ایک شخص گھوڑے پر سوار ہو کر آیا اور سامنے
آکر رک گیا، اس کے ساتھ ایک اونٹ بھی تھا، وہ شخص کہنے لگا کہ عتبہ بن ربیعہ ،
شیبہ بن ربیعہ، ابوالحکم بن ہشام، امیہ بن خلف اور فلاں فلاں شخص قتل کردیا گیا،
اس نے ان تمام لوگوں کے نام لئے جو جنگ بدرمیں قتل کئے گئے، پھر اس نے اپنے اونٹ
کو چابک مارا اور اسے فوج میں چھوڑ دیا، اس کے خون کے چھینٹے فوج کے ہر خیمے میں
پہنچے، ابوجہل کو اس خواب کا علم ہوا تو کہنے لگا کہ لو دیکھو، بنوالمطلب میں بھی
ایک نبی پیدا ہوگیا ہے، کل اسے معلوم ہوجائے گا کہ کون مقتول ہے اور کون زندہ ہے۔
(سیرت ابن ہشام، ۱؍۴۲۱)(جاری)
27اگست،2021، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
--------------
Related Article
Part:
7- Adjective of Worship مجھے صفت ِ عبدیت زیادہ پسند اور عبد کا لقب زیادہ محبوب ہے
Part: 22- Bani Awf, the Prophet Has Come اے بنی عوف وہ نبیؐ جن کا تمہیں انتظار تھا، تشریف لے آئے
Part:
23- Moon of the Fourteenth Night ہمارے اوپر ثنیات الوداع کی اوٹ سے چودہویں رات کا چاند طلوع
ہوا ہے
Part: 24- Madina: Last Prophet's Abode یثرب آخری نبیؐ کا مسکن ہوگا، اس کو تباہ کرنے کا خیال دل
سے نکال دیں
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism