مولانا ندیم الواجدی
30 جولائی 2021
جہاد کی اجازت کے ساتھ ہی
فوجی اور عسکری مہمات کا سلسلہ شروع ہوگیا، مدینہ منورہ میں تیراندازی اور گھڑ دوڑ
کے مسابقے ہونے لگے، سیاسی رابطے قائم کئے جانے لگے، اسی دوران خبر رسانی کا سلسلہ
بھی شروع ہوا، کیوں کہ اس کے بغیر دشمنوں کی نقل و حرکت
اور ان کی تیاریوں کا اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے۔ اُن دنوں مکہ مکرمہ کے تجارتی
قافلے شام کی طرف جانے کیلئے مدینہ منورہ کے قریب سے گزرا کرتے تھے۔ ایک ماہر فوجی
قائد اور سیاسی مدبر کی حیثیت سے آپ ان قافلوں پر نگاہ رکھتے، ان کی آمد و رفت
کے راستے اور وقت کے بارے میں، نیز ان قافلوںمیں شامل افراد کی تعدادکے بارے میں
اطلاع بہم پہنچانے والے اپنے معاونین کے ذریعہ معلومات حاصل کرتے، کبھی یہ معلومات
وحی کے ذریعے بھی حاصل ہوجاتی تھیں، اس کے بعد آپؐ مجاہدین کے دستے روانہ فرماتے،
کبھی ان دستوں میں صرف صحابہ کرامؓ ہوتے اور کبھی آپؐ بھی ان کے ساتھ تشریف لے
جاتے، اس طرح غزوات و سرایا کا آغاز ہوا۔
اس سے پہلے کہ ہم ابتدائی
مہمات کی تفصیل میں جائیں، یہ بتلادیں کہ محدثین اور سیرت نگاروں نے غزوات و سرایا
میں فرق کیا ہے۔ اگرچہ دونوں پر عسکری مہمات کا اطلاق ہوتا ہے، غزوات ’’غزوہ‘‘ کی
جمع ہے، اس سے مراد وہ سیاسی، عسکری یا تبلیغی اسفار ہیں جن میں رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے بہ نفسِ نفیس شرکت فرمائی۔ سرَایا ’’سرِیّہ‘‘ کی جمع ہے، اس کا
اطلاق اس مہم پر ہوتا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے عمل میںآئی
ہو، مگر اس میں خود عملی طور پر آپؐ نے حصہ نہ لیا ہو، یعنی آپؐ اس مہم میں بہ
ذاتِ خود تشریف نہ لے گئے ہوں۔
مدنی زندگی میں بہت
سے غزوات ہوئے، متعدد سرایا ترتیب دئیے گئے، ان کی تعداد میں کچھ اختلاف بھی ہے۔
حضرت زید بن ارقمؓ سے
مروی صحیح روایت کے مطابق غزوات کی تعداد اُنیس (۱۹) ہے، جب کہ حضرت جابر بن
عبداللہ ؓنے یہ تعداد اکیس (۲۱)
بیان کی ہے۔ بعض روایات میں یہ تعداد ستائیس (۲۷) تک بتائی گئی ہے۔ اسی طرح
سرایا کی تعداد بھی بعض کتابوں میں اڑتیس، بعض میں سینتالیس اور بعض میں چھپن
بتلائی جاتی ہے۔ اس اختلاف کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ بعض اوقات ایک ہی سفر یا
ایک ہی زمانے میں متعدد مقامات پر مہم جوئی کی گئی، کسی نے ایک سفر یا ایک زمانے
کی دو تین مہمات کو ایک ہی شمار کیا اور کسی نے ہر ایک کو الگ الگ۔ (تاریخ امت
مسلمہ، ۱؍۲۳۵)
ذیل کی تفصیلات سے ان
مہمات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے جن میں سے کچھ کو غزوہ اور کچھ کو سریہ کہا گیا
ہے۔
(۱) اپنے
دفاع یا دشمن کو مغلوب کرنے کے لئے کیا گیا سفر جس میں جنگ بھی ہوئی ہو، مثلاً
غزوۂ حُنین، غزوۂ خیبر۔ (۲) اپنے
دفاع یا دشمن کو مغلوب کرنے کیلئے سفر کیا گیا ہو مگر جنگ نہ ہوئی ہو، مثلاً غزوۂ تبوک۔(۳) سفر میں جنگ کا ارادہ نہ
ہو مگر جنگ سے سابقہ پڑ گیا ہو، مثلاً غزوۂ بدر۔ (۴) بغاوتوں کے استیصال کی
مہمات، مثلاً غزوۂ بنی قینقاع، غزوۂ بنی قُریظہ۔ (۵) سرحدوں کی حفاظت کے لئے
گشت کرنے والے دستے، اکثر سرایا اسی قسم کے تھے۔ (۶) تبلیغی اور تعلیمی وفود
جن کے ذمے دشمن کی خبر رسانی یا اپنے کسی حلیف کی مدد بھی ہو، مثلاً سریہ رجیع۔ (۷) تبلیغی اور تعلیمی سفر جس
میںکوئی معاہدہ ہوا ہو، مثلاً غزوۂ وُدّان، غزوۂ بُواط۔ (۸) وہ سفر جس میں دشمن سے
خطرہ یا نقصان لاحق ہوا ہو، مثلاً غزوۂ ذات الرِّقاع۔ (۱۰) دشمن کو مرعوب کرنے کیلئے
کیا گیا سفر، مثلاً غزوۂ بنی لحیان، غزوۂ حمراء الاسد، غزوۂ بدر الموعد۔ (۱۱) کسی ڈاکہ زنی یا جارحیت
کے ردّ عمل میں کی گئی کارروائی، مثلاً غزوۂ ذوقِرد، غزوۂ سَفوان۔(۱۲) دشمن کی مخبری کیلئے کئے
گئے اسفار، مثلاً سریہ عبداللہ بن جحش۔(۱۳) دشمن کی ناکہ بندی کے لئے کئے گئے اسفار،
مثلاً سریہ ابوعبیدہ بن الجراح، سریہ ذو قردہ۔ (۱۳) کسی قوم سے معاہدہ کیلئے
کیا گیا سفر، مثلاً غزوۂ ابواء، غزوۂ بُواط، غزوۂ عُشیرہ۔ (۱۴) عبادت کیلئے کیا گیا سفر
جس میں کسی قوم سے معاہدہ ہوا ہو، مثلاً صلح حدیبیہ۔ (صلح حدیبیہ کو بھی غزوہ شمار
کیا جاتاہے) اور (۱۵) دشمن
کے کسی خاص آدمی کا کام تمام کرنے کیلئے خصوصی مہم، مثلاً سریہ محمد بن مسلمہ،
سریہ عبداللہ بن عتیک۔ (رحمۃ للعالمین، ۲؍۴۵۴، ۴۵۶)
سرایا کا آغاز
کفر و اسلام کے درمیان
پہلی باقاعدہ جنگ میدان بدر میں لڑی گئی، اسے غزوۂ بدر الکبریٰ بھی کہاجاتا ہے،
لیکن اس سے پہلے اطراف کے قبائل میں مختلف مقاصد کے تحت سرایا بھیجے گئے، ذیل میں
ان سرایا کے متعلق مختصراً کچھ عرض ہے:
سریّہ حمزہ
جہاد کی اجازت و مشروعیت
کے بعد پہلا سریہ ہجرت کے سات ماہ بعد رمضان المبارک میں روانہ ہوا۔ رسول اللہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچاحضرت حمزہ بن عبدالطلبؓ کو تیس مہاجرین
قریش کا سپہ سالار بنایا اور ان کو سفید عَلَم عطا فرمایا، علم بردار حضرت ابومرثد
الغنویؓ تھے۔ اطلاع ملی تھی کہ تین سو افراد پر مشتمل مشرکین کا ایک تجارتی قافلہ
شام سے مکہ کی طرف واپس آرہا ہے، اس قافلے میں ابوجہل بن ہشام بھی شامل ہے۔ فوجی
دستے کو ہدایت دی گئی کہ وہ سیف البحر کے مقام پر پہنچ کر اس قافلے کا راستہ روکنے
کی کوشش کرے، فریقین کا آمنا سامنا ہوا، دونوں نے لڑائی کے لئے ہتھیار نکال لئے
اور صفیں قائم کرلیں، لیکن جنگ نہیں ہوئی، کیونکہ مجدی بن عمر و بن الجہنی بیچ میں
آگیا، یہ شخص دونوں فریقوں کا حلیف تھا، اس نے سمجھا بجھا کر دونوں فریقوں کو جنگ
نہ کرنے پر آمادہ کرلیا، جنگ تو نہیں ہوسکی لیکن مشرکین تک یہ پیغام ضرور چلا گیا
کہ اب مدینے کی طرف آنے جانے والے راستے ان کے لئے کچھ زیادہ محفوظ نہیں ہیں۔ دوسرا
پیغام یہ گیا کہ مخالفین کی کثرت تعداد سے مسلمان مرعوب ہونے والے نہیں ہیں۔تیس
مجاہد تین سو دشمنوں کے مقابلے میں تن کر کھڑے ہوگئے، اگر مجدی بن عمرو الجہنی نہ
ہوتا تو جنگ یقینی تھی۔ (سیرت ابن ہشام، ۱؍۵۹۵، طبقات بن سعد، ۲؍۶، البدایہ والنہایہ، ۲؍۲۳۸، تاریخ الطبری، ۲؍۲۵۹)
سریہ عبیدۃ بن الحارثؓ
اسی سال شوال کے مہینے
میں ایک اور فوجی دستہ رابغ بھیجا گیا، یہ علاقہ جُحفہ سے دس میل کے فاصلے پر
وادیٔ مُرّہ کے قریب واقع ہے۔ اطلاع ملی تھی کہ وہاں دو سو مشرکین مکہ ابوسفیان کی
قیادت میں جمع ہیں، حافظ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ عکرمہ بن ابی جہل مشرکین کی قیادت
کر رہا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساٹھ مہاجرین کو حضرت عبیدۃ بن
الحارثؓ کی سرکردگی میں ان کی سرکوبی کیلئے روانہ کیا۔ اس سریہ کا عَلَم سفید تھا
جو حضرت مسطح بن أثاثہ بن عبدالمطلب بن عبد مناف نے اٹھا رکھا تھا۔ دشمنوں سے
آمنا سامنا تو ہوا مگر جنگ کی نوبت نہیں آئی، البتہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے ان
کی طرف ایک تیر پھینکا، مسلمانوں کی جانب سے دشمن پر پھینکا جانے والا یہ پہلا تیر
تھا۔ (سیرت ابن ہشام، ۱؍۵۹۵، طبقات بن سعد، ۳؍۷)
سریہ سعد بن ابی وقاصؓ
اسی سال ذی قعدہ کے مہینے
میں حضرت سعد بن ابی وقاص کو بیس مہاجرین کا سپہ سالار بنا کر ضرار بھیجا گیا۔ یہ
ایک وادی ہے جو جحفہ کے قریب واقع ہے، وہاں قریش کا ایک قافلہ ٹھہرا ہوا تھا۔ حضرت
سعد بن ابی وقاصؓ کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ اس قافلے سے تعرض کریں، البتہ ضرار سے
آگے نہ جائیں، کئی دن کی مسافت کے بعد جب یہ فوجی دستہ متعینہ مقام پر پہنچا تو
معلوم ہوا کہ مشرکین کا قافلہ وہاں سے کوچ کرچکا ہے۔ مجاہدین کے لئے واپسی کے سوا
کوئی چارہ نہیں تھا، کیوںکہ انہیں ضرار سے آگے بڑھنے کی اجازت نہیں تھی، اس دستے
کا عَلَم بھی سفید رنگ کا تھا، اسے حضرت مقداد بن حربؓ اٹھائے ہوئے تھے۔ (سیرت بن ہشام، ۱؍۶۰۰، طبقات بن سعد، ۲؍۷)
غزوۂ اَبواء
یہ پہلا غزوہ ہے جس میں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہ نفس نفیس شرکت فرمائی، اسے غزوۂ ودّان بھی
کہا جاتا ہے۔ ابواء ایک بڑا قصبہ ہے جو مکہ اور مدینہ کے درمیان ودّان کے قریب
واقع ہے۔ مدینہ منورہ سے اس کا فاصلہ ایک سو ستر کلو میٹر اور مکہ مکرمہ سے اس کی
دوری دو سو کلو میٹر ہے۔ ابواء اس زمانے میں بڑی سبز و شاداب وادی جگہ تھی، نہروں
اور کنوئوں کی کثرت کی وجہ سے یہاں کی زمینیں سونا اگلتی تھیں، اس زمانے میں بنو
حمزہ اس وادی پر قابض تھے۔ اطلاع ملی تھی کہ قریش کا ایک قافلہ مقام ابواء سے گزرے
گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن عبادہؓکو مدینہ منورہ کا والی متعین
فرمایا اور خود ساٹھ مہاجرین کے ساتھ قریش کے قافلہ سے تعرض کرنے کیلئے ابواء کی
جانب روانہ ہوئے، وہاںدشمنوں سے آمنا سامنا ہوا، مگر لڑائی کی نوبت نہیں آئی،
البتہ بنوحمزہ کے سردار مخشی بن عمرو ضمریؓ سے اس طرح ایک معاہدہوا کہ مسلمان اور
بنوضمرہ ایک دوسرے پر حملہ نہیں کریں گے اور نہ ایک دوسرے کے دشمنوں کی مدد کریں
گے۔ اس غزوہ کا عَلم بھی سفید تھا، جسے حضرت حمزہ بن عبدالمطلبؓ اٹھائے ہوئے تھے۔
(سیرت بن ہشام، ۱؍۵۹۱، طبقات بن سعد، ۲؍۸، رتاریخ الطبری، ۲؍۲۵۹)
یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان
تمام غزوات و سرایا میں صرف مہاجرین نے حصہ لیا، انصار صحابہ میں سے کسی کی شرکت
کے ذکر سے تاریخ و سیرت کی کتابیں خالی ہیں، اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ انصاری
صحابہؓ پر اعتماد نہیں تھا، یا یہ کہ خدانخواستہ وہ کمزور اور بزدل تھے، بلکہ اس
کی وجہ یہ تھی کہ مہاجرین اپنے قریشی بھائیوں سے اچھی طرح واقف تھے اور وہ ان سے
ان کے انداز میں لڑ سکتے تھے، پھر یہ کہ انصار بھائی اپنے اپنے مشغلوں میں لگے
ہوئے تھے، ان پر مہاجرین کی ذمہ داری بھی آ پڑی تھی، فی الحال ان حالات میں ان کو
جنگی مہم میں شریک کرنے سے نقصان کا اندیشہ تھا، مہاجرین کے پاس بہ ظاہر کوئی ایسا
کام بھی نہیں تھا جس میں مصروف رہتے ہوں، اس کے علاوہ مہاجرین کی عدم موجودگی میں
مدینہ منورہ کی حفاظت جس طرح انصار کر سکتے تھے مہاجرین نہ کرپاتے، کیوںکہ بہ
ہرحال وہ اس شہر کے رہنے والے تھے اور یہاں کے حالات و مقامات سے ان کی گہری
واقفیت تھی، جب کہ مہاجرین ابھی نئے نئے یہاں وارد ہوئے تھے۔ ان تمام مصلحتوں کی
وجہ سے ہجرت کے پہلے سال جو جنگی مہمات ترتیب دی گئیں ان میں صرف مہاجرین کو شامل
کیا گیا، البتہ ہجرت کے دوسرے سال سے انصار کی شرکت کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔
(جاری)
30 جولائی 2021، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
----------------
Related Article
Part:
7- Adjective of Worship مجھے صفت ِ عبدیت زیادہ پسند اور عبد کا لقب زیادہ محبوب ہے
Part: 22- Bani Awf, the Prophet Has Come اے بنی عوف وہ نبیؐ جن کا تمہیں انتظار تھا، تشریف لے آئے
Part:
23- Moon of the Fourteenth Night ہمارے اوپر ثنیات الوداع کی اوٹ سے چودہویں رات کا چاند طلوع
ہوا ہے
Part: 24- Madina: Last Prophet's Abode یثرب آخری نبیؐ کا مسکن ہوگا، اس کو تباہ کرنے کا خیال دل
سے نکال دیں
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism