مولانا ندیم الواجدی
23 جولائی 2021
جہاد کی اجازت
یہ تھے وہ مشکل ترین
حالات جن سے نومولود ریاست مدینہ کے مسلمان نبرد آزما تھے، ان حالات سے نکلنے
کی بجز اس کے کوئی دوسری صورت نہ تھی کہ
مسلمان خود اپنی حفاظت کے لئے آگے آئیں، دشمنوں کو اپنی طاقت کا احساس کرائیں
اور ان کی ہر سازش کو ناکام کردیں۔ مشرکین
برابر اپنی چالیں چل رہے تھے، ان کی جرأت یہاں تک بڑھ چکی تھی کہ وہ یثرب کی چراگاہوں
سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹ ہنکاکر مکہ لے گئے تھے۔ ان کی سازشوں کا
سلسلہ لگاتار جاری تھا، مدینے کے منافقین کو مسلمانوں پر حملہ کرنے کی ترغیب دی
جارہی تھی، مدینہ منورہ کے راستوں میں پڑنے والے قبائل سے یہ عہد لیا جارہا تھا کہ
وہ مسلمانوں کو اپنے قریب سے گزرنے کی اجازت نہ دیں۔ ان حالات میں اگر خاموشی
اختیار کی جاتی تو مشرکین کے حوصلے بڑھ جاتے، وہ کسی بھی وقت مدینہ پر حملہ آور
ہوسکتے تھے، یہاں ان کے ہم نوا موجود تھے، منافق بھی اور یہودی بھی، یہ لوگ کسی
بھی وقت مسلمانوں کیلئے خطرہ بن سکتے تھے، اپنی بقاء اور سلامتی کیلئے ضروری تھا
کہ مسلمان دفاعی اور اقدامی جنگوں کیلئے تیاری کریں مگر یہ تیاری حکم الٰہی پر
موقوف تھی، مکی زندگی میں ان کو جو حکم دیا گیا، وہ تھا: فَاصْبِرْ صَبْرًا جَمِیْلاً (ترجمہ)
لہٰذا تم خوبصورتی کے ساتھ صبر سے کام لو۔‘‘(سورہ معارج:۵)
مشرکین کے ظلم و ستم سے
تنگ آکر اس وقت کے مٹھی بھر مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض
گزار ہوتے یارسول اللہ! ہمیں لڑنے کی اجازت دیجئے۔ آپ فرماتے: اصبرو فانی لم
أومر بالقتال (تفسیر آلوسی،۸؍۲۲۴، تفسیر البغوی، ۵؍۳۸۸) ’’صبر کرو، مجھے قتال کا
حکم نہیں دیا گیا۔‘‘ مدنی زندگی میں صورت حال بدلی ہوئی تھی، یہاں مسلمانوں کی
تعداد بڑھ گئی تھی، کچھ نہ کچھ جنگی ساز و سامان بھی ان کے پاس تھا، سب سے بڑھ کر
یہ کہ ان کے پاس ایک مضبوط ٹھکانہ تھا، مشرکین کی ریشہ دوانیوں سے نمٹنے کا واحد
حل یہی تھا کہ ان کو اُن کی اوقات یاد دلائی جائے اور ان پر یلغار کرکے ان کے غرور
کا بت پاش پاش کردیا جائے۔
بالآخر ایک روز جنگ کی
اجازت مل ہی گئی، جہاد کا حکم ان آیات کے ذریعے نازل ہوگیا: ’’جن لوگوں سے جنگ کی
جارہی ہے انہیں اجازت دی جاتی ہے کہ وہ اپنے دفاع میں لڑیں، کیوں کہ
ان پر ظلم کیا گیا ہے اور یقین رکھو کہ اللہ ان کو فتح دلانے پر پوری طرح قادر ہے،
یہ وہ لوگ ہیں جنہیں صرف اس بات پر اپنے گھروں سے ناحق نکالا گیا ہے کہ انہوں نے
یہ کہا تھا کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے اور اگر اللہ لوگوں کے ایک گروہ (کے شر) کو
دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہتا تو خانقاہیں، کلیسا اور عبادت گاہیں اور مسجدیں
جن میں اللہ کا کثرت سے ذکر کیا جاتا ہے سب مسمار کردی جاتیں اور اللہ ضرور ان
لوگوں کی مدد کرے گا جو اس (کے دین) کی مدد کریں، بلاشبہ اللہ بڑی قوت والا، بڑے
اقتدار والا ہے، یہ ایسے لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز
قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں اور لوگوں کو نیکی کی تاکید کریں اور برائی سے روکیں
اور تمام کاموں کا انجام اللہ ہی کے قبضے میں ہے۔ (الحج: ۳۹-۴۱)
جہاد کا مقصد
یہ غلبے کی جنگ نہیں ہے
بلکہ دفاع کی جنگ ہے، آیات میں واضح کردیا گیا ہے کہ یہ اجازت اس لئے دی جارہی ہے
کہ تم پر بہت کچھ ظلم ہوچکا ہے، تمہیں بغیر کسی وجہ کے تمہارے گھروں سے نکال دیا
گیا ہے، حالاں کہ تمہارا قصور کچھ بھی نہیں تھا، اس
کے بعد اللہ رب العزت نے اپنی ازلی سنت کا حوالہ دیا ہے کہ اگر ہم ایک گروہ کے شر
کو دوسرے گروہ کے ذریعے ختم نہ کریں تو اللہ کا نام لینا مشکل ہوجائے، تمام عبادت
گاہیں مسمار کردی جائیں، نہ گرجا گھر باقی بچیں، نہ معابد، مساجد، کلیسا اور
خانقاہیں باقی رہیں، یہ فسادی لوگ اس طرح کے تمام عبادت خانے گرادیں اور اللہ کا
نام لینے والوں کو بے گھر کردیں۔ ان آیات سے پتہ چلتا ہے کہ جنگ یا جہاد کی اجازت
اس لئے دی گئی ہے تاکہ روئے زمین پر اللہ کا نام آزادی سے لیا جاسکے۔ اللہ کے
باغی، اللہ کا نام لینے والوں کو، نماز اور زکوٰۃ کا نظام قائم کرنے والوں کو، امر
بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنے والوں کو ظلم و تشدد کا نشانہ نہ
بنائیں، ان کو اُن کے گھروں سے نہ نکالیں، اس سے صاف ظاہر ہے کہ جہاد کا مقصد یہ
نہیں ہے کہ لوگوں کو زبردستی اسلام میں داخل کیا جائے۔ جہاد کے سلسلے میں یہ غلط
پروپیگنڈہ ہے، آیات جہاد سے اس پروپیگنڈہ کی پورے طور پر تردید ہوتی ہے۔
جہاد کی
دو قسمیں
یوں تو جہاد اپنے مفہوم
میں بڑی وسعت رکھتا ہے اور مفسرین و محدثین و فقہاء نے اس وسعت کو پیش نظر رکھ کر
زبان و قلم کے ذریعہ طاغوتی قوتوں سے مقابلہ کرنے کو بھی جہاد قرار
دیاہے، مال کے ذریعے مدد کرنا بھی جہاد ہے، نفس کو سرکشی سے روکنا بھی جہاد ہے،
لیکن اصطلاحی معنی میں جہاد کی تعریف یہ ہے کہ اللہ رب العزت کے راستے میں قتال
کرنے میں اپنی جان، مال، زبان اور دوسری چیزوں سے بھرپور کوشش کرنے کو جہاد کہتے
ہیں۔ (البدائع والصنائع)
بنیادی طورپر جہاد کی
دوقسمیں
کی گئی ہیں (۱)دفاعی جہاد (۲) اقدامی جہاد۔
دفاعی جہاد یہ ہے کہ جو
طاقتیں مسلمانوں سے ٹکرائیں، ان کو نقصان پہنچائیں، دعوت کے کام میں رکاوٹیں
ڈالیں، اسلامی احکام پرعمل پیرا ہونے میں سدّراہ بنیں، ایسی تمام طاقتوں سے مقابلہ
کرنا اور لڑنا یہ دفاعی جہاد ہے، اور یہ فرض ہے۔ قرآن کریم میں ہے: ’’اے ایمان والو!
جب کافروں سے تمہارا آمنا سامنا ہو جائے جب کہ وہ چڑھائی کرکے آرہے ہوں تو ان کو
پیٹھ مت دکھائو۔‘‘(انفال:۱۵)
اقدامی جہاد کا تعلق
حالات کے تقاضوں سے ہے، اس میں پہلے اسلام کی دعوت دی جاتی ہے، پھر جزیہ کا مطالبہ
ہوتا ہے اس کے بعد اعلان جہاد کیا جاتا ہے۔
جہاد
اسلامی کے آداب
اسلام کے حکمِ جہاد کو
موجودہ دور کی جنگوں پرقیاس نہ کیا جائے، جو نہ کسی ضابطے کی پابند ہیں، نہ کسی
اصول کی، ان جنگوں کا حاصل محض تباہی اور بربادی ہے، انسانی جانوں کا ضیاع اور ان
کے اموال کا اتلاف ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو جنگیں لڑیں اور جو جنگیں
آپ کے عہد مبارک میں اور آپ کے بعد خلفائے راشدین کے دور مسعود میں لڑی
گئیں وہ اس لئے نہیں لڑی گئیں کہ بے قصور لوگوں کی جان و مال کو کوئی نقصان پہنچے،
کمزور اور نہتے لوگ جنگ کرنے والوں کا نشانہ بنیں، ہرے بھرے درخت کاٹے جائیں یا
کھیتیاں اجاڑی جائیں، بلکہ اعلا مقاصد کے لئے لڑی گئیں، اس لئے جہاد کو بھی اصولوں
اور ضابطوں کا پابند بنایا گیا اور اسے عبادت کا درجہ دیا گیا تاکہ کوئی افراط و
تفریط نہ ہو، کوئی ظلم و تعدی نہ ہو، حد سے تجاوز نہ ہو۔
یوں تو جہاد سے تعلق
رکھنے والے مضامین پر مشتمل بہت سی آیات قرآن کریم میں ہیں، مگر مستقل دو سورتیں
بھی اس سلسلے میں نازل کی گئیں، جن میں سے ایک سورۂ انفال ہے، یہ سورہ تقریباً سن
دو ہجری کے آس پاس مدینہ منورہ میں نازل ہوئی، اس کے بیشتر مضامین جنگ بدر سے
متعلق ہیں۔ ضمنی طور پر جہاد اور مال غنیمت کی تقسیم کے بہت سے احکام بھی بیان کئے
گئے ہیں، اگلی سورت التوبہ بھی اسی کا تتمہ یا تکملہ ہے، اسی لئے اس کے آغاز میں
نہ بسم اللہ نازل ہوئی اور نہ لکھی گئی۔ سورۂ انفال کی یہ چند آیات ملاحظہ
کیجئے، ان میں جنگ کے لئے جانے والوں کو کچھ ہدایات دی گئی ہیں۔ ترجمہ: ’’اے ایمان والو! جب تمہارا کسی گروہ سے مقابلہ
ہوجائے تو ثابت قدم رہو اور اللہ کا کثرت سے ذکر کرو تاکہ تمہیں کامیابی حاصل ہو
اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑا نہ کرو، ورنہ تم کم زور
پڑجائو گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر سے کام لو، یقین رکھو کہ اللہ صبر
کرنے والوں کے ساتھ ہے اور ان لوگوں کی طرح مت ہوجانا جو اپنے گھروں سے اکڑتے ہوئے
اور لوگوں کو اپنی شان دکھلاتے ہوئے نکلے تھے اور دوسروں کو اللہ کے راستے سے روک
رہے تھے۔ (۴۵-۵۷)۔ ان آیات میں حسبِ ذیل ہدایات موجود ہیں:
(۱) جب جہاد کے لئے نکلو تو
اللہ کا ذکر کرتے ہوئے نکلو۔(۲) اتراتے
ہوئے اور اکڑ دکھاتے ہوئے نہ چلو۔(۳) اللہ
اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔(۴) آپس میں جھگڑا مت
کرو۔ (۵) تکلیف
اور مصیبت میں صبر سے کام لو۔ اور (۶) ان
کافروں کی طرح مت ہوجانا جو اپنے گھروں سے اکڑتے ہوئے نکلتے ہیں۔
آپؐ کا طریقہ ٔ عمل
ایک حدیث میں ہے کہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی صحابی کو کسی فوجی دستے کا امیر بناتے تو اسے وصیت
فرماتے کہ وہ اپنے بارے میں اللہ سے ڈرتا رہے اور اپنے ساتھ جانے والے مسلمانوں کی
خیرخواہی کرتا رہے، پھر آپ فرماتے: تم لوگ اللہ کی راہ میں، اللہ کے نام سے جہاد
کرو، جہاد کرو اور خیانت نہ کرو، بد عہدی
نہ کرو، مثلہ نہ کرو، (یعنی لاش کا حلیہ نہ بگاڑو)، نہتے آدمی کو قتل نہ کرو اور جب تم مشرک دشمنوں سے ملو تو ان کے سامنے
تین باتیں رکھو، ان میں سے جس بات کو وہ مان لیں اسے تم قبول کرلو اور جنگ سے رک
جائو، تم انہیں اسلام کی دعوت دو، اگر وہ تمہاری دعوت قبول کرلیں تو ان سے جنگ نہ
کرو اور ان سے کہو کہ وہ یہاں سے دارالہجرت مدینہ منتقل ہوجائیں، انہیں بتلائو کہ
اگر وہ ایسا کریں گے تو ان کا حق مہاجرین جیسا ہوگا اور ان پر ذمہ داری مہاجرین جیسی
ہوگی اور اگر وہ وہاں سے منتقل ہونے سے انکار کردیں تو ان سے کہو کہ پھر ان کی
حیثیت عام دیہاتی مسلمانوں کی سی ہوگی، ان کا حکم عام اہل ایمان کا ہوگا، ان کو
مال غنیمت یا مال فئی سے کچھ نہیں ملے گا، مگر اس صورت میں ملے گا جب وہ مسلمانوں
کے ساتھ مل کر جہاد کریں گے، اگر وہ دعوت اسلام قبول کرنے سے انکار کردیں تو ان سے
جزیہ کا مطالبہ کرو، اگر وہ مان جائیں تو قبول کرلو اور جنگ نہ کرو اور اگر انکار
کردیں تو اللہ سے مدد مانگو اور جہاد کرو۔(سنن الترمذی، ۵؍۲۹۴، رقم الحدیث، ۱۳۲۸، صحیح مسلم، ۹؍۱۵۰، رقم الحدیث۳۲۶۱، سنن ابی دائود ۷؍۱۹۳، رقم الحدیث ۲۲۴۵، سنن ابن ماجہ ۸؍۳۹۱، رقم الحدیث ۲۸۴۹ )
وہ ہدایات جو جنگ پر جانے
والوں کودی جاتیں
جنگ پر جانے والوں کو اس
طرح کی ہدایات بھی دی جاتیں،مثلاً (۱) راہبوں
اور گوشہ نشینوں کو کچھ مت کہو۔ (۲) کھجور
یااور کوئی پھل درخت نہ کاٹو۔ (۳) عمارتوں
کو مت گرائو، یا (۴) عورتوں، بچوں، بوڑھوں،
بیماروں اور لڑائی سے دور رہنے و الوں کو کچھ نہ کہو۔(معرفۃ السنن والآثار
للبیہقی، ۱۴؍۳۰۱۵، رقم ۵۶۴۵)
یہ مختصر نمونے ہیں، ان
ہدایات کے جو مجاہدین کو دی جاتی تھیں، ان کے آئینے میں موجودہ دور کی متمدن
اقوام اور انسانیت کی ہمدردی کا نعرہ لگانے والی طاقتوں کی طرف سے مسلط کی جانے
والی جنگوں کو دیکھا جاسکتا ہے۔ وہ مہذب اور متمدن لوگ انسانی آبادیوں پر بم
برساتے ہیں، عمارتیں تباہ کردیتے ہیں، کارخانے، معابد، مساجد، اسکول، کالج، اسپتال
سب گرا دیتے ہیں، عام لوگوں کو، بچوں کو، بوڑھوں کو، عورتوں کو، بیماروں کو ، گویا کسی کو نہیں
بخشتے۔ ان کے دلوں میں نہ کسی کے لئے کوئی رحم ہوتا ہے،
نہ کسی طرح کی کوئی ہم دردی، نہ انہیں انسانیت کا خیال آتاہے، نہ اقوام متحدہ کے
منشور کا، نہ خود اپنے جنگی قوانین کا، بس بے دریغ بم برساتے ہیں اور لمحوں میں
ہنستے کھیلتے شہر برباد کرکے بغلیں بجاتے
ہیں اور اسلام کے نظام جہاد پر تنقید کرکے خوش ہوتے ہیں۔ (جاری)
23 جولائی 2021، بشکریہ: انقلاب،
نئی دہلی
----------------------
Related Article
Part:
7- Adjective of Worship مجھے صفت ِ
عبدیت زیادہ پسند اور عبد کا لقب زیادہ محبوب ہے
Part: 22- Bani Awf, the Prophet Has
Come اے بنی عوف وہ نبیؐ جن کا تمہیں انتظار تھا، تشریف لے آئے
Part:
23- Moon of the Fourteenth Night ہمارے اوپر
ثنیات الوداع کی اوٹ سے چودہویں رات کا چاند طلوع ہوا ہے
Part: 24- Madina: Last Prophet's Abode یثرب آخری
نبیؐ کا مسکن ہوگا، اس کو تباہ کرنے کا خیال دل سے نکال دیں
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism