مولانا ندیم الواجدی
25 جون 2021
احکام کی مشروعیت کا
آغاز
مکی زندگی میں صرف نماز
فرض کی گئی تھی اور تمام نمازوں میں صرف دو رکعتیں پڑھنے کا حکم تھا، ہجرت کے ایک
ماہ بعد ظہر، عصر اور عشاء کی نمازیں مقیم کے لئے چار رکعت کردی گئیں اور مسافر کے
لئے دو رکعت کا حکم ہوا، باقی احکام کی مشروعیت کا سلسلہ مدینہ منورہ میں پہنچنے
کے بعد شروع ہوا، مسجد کی تعمیر، تحویل قبلہ اور کلماتِ اذان کی تعیین کے بعد سن ۲ھ ماہ شعبان میں روزے فرض
کئے گئے۔ (درس ترمذی مع حاشیہ، ۲؍۵۱۱)
ام المؤمنین حضرت عائشہؓ
روایت کرتی ہیں کہ قریش ایام جاہلیت میں عاشورا کا روزہ رکھتے تھے۔ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے بھی اس روزے کو برقرار رکھا یہاںتک کہ رمضان کے روزے فرض ہوگئے۔
(صحیح البخاری ۶؍۴۵۵، رقم الحدیث ۱۷۴۰) دراصل دین ابراہیمی کے
کچھ اثرات تھے جو قریش میںباقی رہ گئے تھے، اسی لئے قریش حج و عمرہ بھی کیا کرتے
تھے۔ ان کے یہاں غسل جنابت بھی تھا۔ ہجرت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ
منورہ میں تشریف فرما تھے، ایک روز آپ نے یہود کو دیکھا کہ وہ عاشورہ کا روزہ رکھ
رہے ہیں، معلوم کیا یہ روزہ کس لئے ہے؟ یہودیوں
نے کہا کہ ہم یہ روزہ اس لئے رکھتے ہیں کہ آج کے دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ
علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو فرعون اور اس کی قوم سے نجات عطا فرمائی
تھی۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ میں اپنے بھائی موسیٰؑ پر تم سے زیادہ حق رکھتا ہوں۔
(صحیح البخاری ۷؍۱۲۷، رقم الحدیث ۱۸۶۵) اس موقع پر یہ بھی
فرمایا: تم لوگ روزہ رکھو، البتہ یہود کی اس طرح مخالفت کرو کہ اس کے ساتھ ایک
روزہ اور ملا لو، یعنی ایک دن پہلے یا ایک دن بعد ایک روزہ اور رکھ لیا کرو۔ (مصنف
عبدالرزاق ۴؍
۲۸۷) رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عاشورہ کا روزہ بڑے اہتمام کے ساتھ رکھا کرتے تھے اور
ارشاد فرماتے تھے کہ یہ روزہ گزرے ہوئے سال کے گناہوں کا کفارہ ہے۔ (سنن الترمذی۳؍۲۱۰، رقم الحدیث ۶۸۰)
حضرت سلمہؓ بن الاکوع سے
روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورہ کے دن ایک شخص کو یہ حکم دیا
کہ لوگوں میں جاکر اعلان کردے کہ جس نے
کچھ نہ کھایا ہو وہ روزہ رکھ لے اور جس نے کھا لیا ہو وہ بھی شام تک روزہ داروں کی
طرح رہے۔ (صحیح البخاری، ۷؍۵، رقم الحدیث ۱۷۹۰)
بہرحال جب قرآن کریم کی
یہ آیت نازل ہوئی تو عاشورہ کے روزے کی فرضیت ختم ہوگئی اور اسے اختیاری کردیا
گیا، البتہ ماہ رمضان کے روزے فرض قرار دے دئیے گئے: ’’تم میں سے جس کویہ مہینہ
ملے اس کو چاہئے کہ وہ اس مہینے میں روزے رکھے۔‘‘ (البقرہ:۱۸۵)
صدقۃ الفطر
ابھی رمضان کامہینہ ختم
نہیں ہوا تھا کہ صدقۃ الفطر کا حکم نازل ہوگیا، ہر مسلمان مرد و عورت پر خواہ وہ
بالغ ہو یا نابالغ چند مخصوص اشیاء میں سے ایک خاص مقدار نکال کر مستحقین تک
پہنچانا ضروری قرار دے دیا گیا۔ اگر وہ اشیاء نہ دی جاسکیں تو اس وقت کے بازار کی
قیمت کے حساب سے بھی ادائیگی کی جاسکتی ہے۔ صدقۃ الفطر کے وجوب میں کیا حکمت ہے؟
ہمیں حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی روایت سے اس کا علم ہوتا ہے۔ فرماتے ہیں: رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوٰۃ الفطر فرض
قرار دی، تاکہ یہ زکوٰۃ روزہ دار کے لئے لغو و عبث کاموںمیں مشغولیت کے اثرات کے
ازالہ کا ذریعہ بن جائے، نیز اس سے غریبوں
کو بھی کھانے کا سامان مل جاتا ہے۔
جو شخص عید کی نماز سے قبل
صدقۃ الفطر ادا کردیتا ہے اس کا یہ عمل مقبول ہے اور نماز کے بعد ادا کرتا ہے تویہ
صرف صدقہ واجبہ کی ادائیگی ہے۔ (سنن ابی دائود۴؍۴۱۳، رقم الحدیث ۱۳۷۱، سنن ابن ماجہ ۵؍۴۱۱، رقم الحدیث ۱۸۱۷)
نماز عید
اسی سال رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے نماز عید ادا فرمائی۔ آپ ﷺروزوں سے فارغ ہو کر شوال کی پہلی
تاریخ میںتکبیرات تشریق پڑھتے ہوئے مدینے سے باہر تشریف لے گئے اور آپؐ نے لوگوں
کے ساتھ دوگانہ نماز ادا کی۔ اس موقع پر یہ آیتیں نازل ہوئیں: ’’اس شخص نے فلاح
پائی جس نے باطنی نجاستوں اور کدورتوں سے پاکی حاصل کی اور جس نے اپنے رب کا نام
لیا اور عید کی نماز پڑھی۔‘‘ (الاعلیٰ:۱۴۔ ۱۵) ہجرت سے پہلے اہل مدینہ سال بھر میں دو دن
عید منایا کرتے تھے، ان دنوں میں لوگ کھیل کود اور تماشے کرتے، رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم تشریف لائے تو لوگوں کو عید مناتے ہوئے دیکھ کر پوچھا ان دودنوں کی کیا
حقیقت ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ ہم تو عہد جاہلیت سے یہ دو دن عید کے طورپر مناتے
ہیں، آپؐ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کے عوض تمہیں دو عیدیں عطا
کردی ہیں، عید الفطر اور عید الاضحی ۔
(السنن الکبریٰ للبیہقی ۴؍۱۸۹)
زکوٰۃ کی فرضیت
اہل علم کا اس میں اختلاف
ہے کہ زکوٰۃ کب فرض ہوئی، اکثر علماء کی رائے یہ ہے کہ زکوٰۃ ہجرت کے بعد فرض
ہوئی، کچھ لوگ ایک ہجری میں کہتے ہیں اور
کچھ کہتے ہیں کہ سن ۲
ھ میں فرض ہوئی۔ اس پر بھی جمہور علماء کا اتفاق ہے کہ پہلے روزہ فرض ہوا، پھر
صدقۃ الفطر، اس کے بعد اموال پر زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم نازل ہوا۔ امام احمد بن
حنبل، ابن خزیمہ ، نسائی، ابن ماجہ اور حاکم وغیرہ محدثین نے حضرت قیس بن سعد بن
عبادۃؓ کی روایت نقل کی ہے، فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں
زکوٰۃ کا حکم نازل ہونے سے قبل صدقۃ الفطر ادا کرنے کا حکم فرمایا تھا، پھر زکوٰۃ
کا حکم نازل ہوا، اس کے بعد آپ نے نہ ہمیں صدقۃ الفطر ادا کرنے سے منع فرمایا اور
نہ ادا کرنے کیلئے کہا، مگرہم (حسب سابق ) ادا کرتے رہے۔ (سنن النسائی ۸؍۲۵۲، رقم الحدیث ۲۴۵۹)
حضرت عائشہؓ شوہر کے گھر
میں
ہجرت کے پہلے سال جو اہم
ترین واقعات پیش آئے ان میں ایک اہم واقعہ ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کی رخصتی کا
بھی ہے، ہم پہلے بھی ذکر کرچکے ہیں کہ ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کے وصال
کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں رہتے ہوئے دو نکاح کئے، ایک نکاح
ام المؤمنین حضرت سودہ بنت زمعہؓ سے، جو مکے کی ایک بیوہ خاتون تھیں، اس وقت ان
کی عمر پچاس سال تھی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی قریب قریب پچاس برس کے تھے،
دوسرا نکاح آپ نے حضرت عائشہ بنت ابی بکر الصدیقؓ سے کیا، یہ واحد خاتون ہیںجو کم
سن اور غیرمنکوحہ تھیں، جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زوجیت میں لیا۔ حضرت عائشہؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی
نہایت چہیتی بیوی تھیں، وہ امت کی خواتین میں سب سے زیادہ علم رکھنے والی تھیں اور
بہت بڑی فقیہہ تھیں۔
حضرت عائشہؓ سے نکاح کا
فیصلہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا محض اپنا فیصلہ نہیں تھا بلکہ اس طرح کے منامی
(خواب کے) اشارے تھے کہ حضرت عائشہؓ آپ کے نکاح میں آئیں، بخاری شریف کی روایت
ہے کہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ
مجھے خواب میں دومرتبہ تم ریشم کے کپڑوںمیں لپیٹ کر دکھائی گئیں اور کہا گیا کہ یہ
آپ کی بیوی ہیں۔ (صحیح البخاری ۱۶؍۱۴، رقم الحدیث۴۶۸۸) انبیاء کرام کے خواب سچے
ہوتے ہیں اور بہت سے علماء کے نزدیک وہ ظاہر پر بھی محمول ہوتے ہیں۔ (فتح البخاری۹ ؍۱۸۱)
بعد کی زندگی سے یہ بات
پوری طرح ثابت ہوگئی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی گھریلو اور ازدواجی حیاتِ
طیبہ کے تمام پہلوئوں کو امت تک پہنچانے میں حضرت عائشہؓ جیسی خاتون کی ہی ضرورت
تھی، وہ کم عمر ضرور تھیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو جن خوبیوں سے نوازا تھا ان کی
بناء پر وہ اپنی ہم عمر ہی نہیں بلکہ بڑی عمر کی خواتین سے بھی افضل تھیں، کتاب و
سنت پر ان کی گہری نظر تھی، عقل و فہم میں یکتا تھیں، ان کا حافظہ بھی غیرمعمولی
تھا، ان سے دو ہزار دوسو روایات مروی ہیں۔
صحابہ ؓ کی تربیت کا
قرآنی اسلوب
ہجرت کے بعد رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اقدامات نے صحابہ کرامؓ کے اندر اخوت باہمی کا جذبہ
پیدا کردیا تھا اور وحدت کی روح پھونک دی تھی، مسجد نبویؐ کی تعمیر سے اس کی
ابتداء ہوئی، آگے چل کر یہی مسجد صحابہ کرامؓ کے مختلف گروہوں میں محبت، یگانگت
اور اتفاق و اتحاد کا استعارہ بن گئی، پھر مواخات کا سلسلہ قائم ہوا، جس کی وجہ سے
لوگوں میں قربت بڑھی، ہمدردی، مواخات، قربانی و ایثار جیسے الفاظ میں معنویت پیدا
ہوئی، یہ دونوں اقدامات دراصل ایک ایسی قوم کی تربیت کا نقطۂ آغاز تھے جس کی
ترجیحات اس سے مختلف تھیں، جن کی طرف انہیں لایا جارہا تھا، بات بات میں تلواریں
سونت لینا ان کا شیوہ تھا، کچھ اچھائیاں بھی تھیں تو ان پر جاہلیت کی گہری چھاپ
تھی، سخاوت تھی مگر ناموری کے لئے، بہادری تھی مگر اپنے قبیلے کی برتری ثابت کرنے
کے لئے، غیرت تھی مگر وہ اپنی ذات تک محدود تھی۔
اللہ تعالیٰ کو صحابہؓ کی
اس عظیم جماعت سے دین کی اشاعت کا عظیم الشان کام لینا تھا، اس کا تقاضا یہ تھا کہ
ان کی تربیت بھی خاص نہج پر ہو، ان کو آسمان رشد و ہدایت کے درخشندہ و تابندہ
ستارے بننا تھا، اس لئے ان کی تربیت اسی پہلو کو سامنے رکھ کر اسی عظیم مقصد کے لئے
کی جانی تھی۔
اگر مدنی زندگی کی ابتداء
میں نازل ہونے والی آیاتِ قرآنیہ پر نظر ڈالیں تو ان میں رب کائنات کی ذات و
صفات اور کائنات میں پھیلی ہوئی اس کی بے شمار نشانیوں کا بار بار ذکر ہے۔
مسلمانوں پر زور دیاگیا ہے کہ وہ ایک اللہ کی عبادت کریں، جس نے انہیں اوران سے
پہلے والے لوگوں کو پیدا کیا: ’’اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا
کیا اور ان لوگوں کو (بھی) جو تم سے پیشتر تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ، جس نے
تمہارے لئے زمین کو فرش اور آسمان کو عمارت بنایا اور آسمانوں کی طرف سے پانی
برسایا پھر اس کے ذریعے تمہارے کھانے کے لئے
پھل پیدا کئے، پس تم اللہ کیلئے شریک نہ ٹھہراؤ۔‘‘ (البقرہ، ۲۱، ۲۲) (جاری)
25 جون 2021 ، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
-------------------
Related Article
Part:
7- Adjective of Worship مجھے صفت ِ عبدیت زیادہ پسند اور عبد کا لقب زیادہ محبوب ہے
Part: 22- Bani Awf, the Prophet Has Come اے بنی عوف وہ نبیؐ جن کا تمہیں انتظار تھا، تشریف لے آئے
Part:
23- Moon of the Fourteenth Night ہمارے اوپر ثنیات الوداع کی اوٹ سے چودہویں رات کا چاند طلوع
ہوا ہے
Part: 24- Madina: Last Prophet's Abode یثرب آخری نبیؐ کا مسکن ہوگا، اس کو تباہ کرنے کا خیال دل
سے نکال دیں
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/namaz-meccan-holy-prophet-madinah-part-38/d/125026
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism