مولانا ندیم الواجدی
9 جولائی 2021
رسول اللہ ﷺ کا اندازِ
تربیت
بعض اوقات آپ شوق دلانے
کے لئے صحابہ کرامؓ سے پوچھتے کیا تم فلاں بات جانتے ہو؟ کیا تمہیں وہ بات معلوم
ہے؟ اگر جواب کا انحصار وحی پر ہوتا تو آپ خاموشی اختیار فرمات، پھر وحی نازل
ہوتی اور اس سائل کا جواب مرحمت فرماتے۔ عام طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
صحابہ کرامؓ کے ساتھ گھل مل کر رہتے، ان کے ساتھ ہلکی پھلکی مزاح بھی فرماتے، مجلس
میں ان کو بھی بولنے کا موقع دیتے لیکن اگر کبھی یہ دیکھتے کہ کوئی شخص دین و
شریعت کے خلاف کچھ کہہ رہا ہے یا کر رہا ہے تو آپؐ ناراض بھی ہوتے اور اس قدر
ناراض ہوتے کہ آپؐ کا چہرۂ مبارک غصے سے
سرخ ہوجاتا، ہاں اگر کوئی اچھا کام کرتا تو اس کی تعریف و تحسین بھی فرماتے۔ اس کی
ہمت بڑھاتے۔ ایک مرتبہ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ تلاوت کر رہے تھے، آپؐ نے ان کی
تلاوت سنی تو فرمایا: رات میں تمہاری تلاوت سن رہا تھا، اللہ نے تمہیں حضرت دائود
علیہ السلام جیسا لحن عطا فرمایا ہے۔ (صحیح البخاری ۱۵؍۴۷۰، رقم الحدیث ۴۶۶۰) اگر کسی سے کوئی غلطی
سرزد ہوجاتی تو اسے پیاراور نرمی سے سمجھاتے، غلطی پر قطعاً ناراض نہ ہوتے۔ حضرت
معاویہ بن الحکم السُّلمی ؓکہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا، اسی دوران ایک شخص کو چھینک آئی، میں نے الحمد
للہ کہہ دیا، اتنا کہنے پر لوگ مجھے گھورکر دیکھنے لگے۔ میں نے کہا: میری ماں مجھے
کھودے تم مجھے اس طرح سے کیوں دیکھ رہے ہو؟ یہ سن کر وہ سب لوگ اپنے ہاتھ اپنی
رانوں پر مارنے لگے، اس سے مجھے پتہ چلا کہ وہ مجھے چپ کرنا چاہتے ہیں۔ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز مکمل فرمائی، میں اور میرے ماں باپ آپؐ پر قربان ہوں،
میں نے آپؐ سے پہلے ایسا کوئی معلم اور مربی نہیں دیکھا اور نہ آپؐ کے بعد
دیکھا، آپؐ نے نہ مجھے مارا، نہ ڈانٹا ، نہ برا بھلا کہا: صرف اتنا فرمایا نماز
میں بات چیت نہ ہونی چاہئے، اس میں تو اللہ کی تسبیح و تحمید ہے اور قرآن کریم کی
تلاوت ہے۔ (صحیح مسلم ، ۳؍۱۴۰، رقم الحدیث۸۳۶)
تمام صحابہ کرامؓ کو مکلف
قرار دیا گیا کہ ان میں کی ایک جماعت ہمہ وقت درس گاہ نبوت میں حاضر رہے۔ قرآن
کریم میں ہے :’’اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ سارے کے سارے مسلمان (ایک ساتھ) نکل
کھڑے ہوں، تو ان میں سے ہر ایک گروہ (یا قبیلہ) کی ایک جماعت کیوں نہ نکلے کہ وہ
لوگ دین میں تفقہ (یعنی خوب فہم و بصیرت) حاصل کریں اور وہ اپنی قوم کو ڈرائیں جب
وہ ان کی طرف پلٹ کر آئیں تاکہ وہ (گناہوں اور نافرمانی کی زندگی سے)
بچیں۔‘‘(التوبہ:۱۲۲)
یہ حکم اس لئے دیا گیا
تاکہ وہ احکام محفوظ ہو کر صحابہ تک پہنچ جائیں جو وحی الٰہی کی صورت میں برابر
نازل ہوتے تھے۔ ان کے نزول کا کوئی وقت متعین بھی نہیں تھا۔ اسی طرح رسول اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے بہرہ ور ہونا بھی ان حضرات کے لئے نہایت ضروری تھا،
پھر ان صحابہ کرامؓ کو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے آیات
قرآنیہ سنتے تھے یا وہ آپؐ کے ارشاداتِ عالیہ سے مستفید ہوتے تھے، یہ حکم تھا کہ
’’جو حاضر ہیں وہ غائب تک پہنچا دیں۔‘‘ (صحیح البخاری۶؍۲۲۶، رقم الحدیث۱۶۲۳، صحیح مسلم ۹؍۳۳، رقم الحدیث ۳۱۸۰) یہ بھی حکم تھا کہ ’’مجھ
سے سن کرلوگوں تک پہنچا دو اگرچہ ایک آیت ہی کیوں نہ ہو۔‘‘ (بخاری ۱۱؍۲۷۷، رقم الحدیث ۳۲۰۲)اس بے مثال تربیتی نظام
سے بے مثال جماعت پیدا ہوئی، اس جماعت میں ایک لاکھ چوبیس ہزار افراد شامل ہیں جو
اپنے بعض امتیازات و خصوصیات کے لحاظ سے ایک دوسرے سے افضل تو ہوسکتے ہیں لیکن
بحیثیت مجموعی تمام صحابہ کرام لائق اتباع اور قابل احترام ہیں،ان میں سے ہر فرد
نے کتاب و سنت اور ان کے معانی و مفاہیم کو تابعین تک اور انہوں نے تبع تابعین تک
پہنچانے کا فریضہ انجام دیا۔ صحابہ کرامؓ کا جذبۂ تبلیغ و دعوت، جذبۂ جاں نثاری
اور فدائیت اسی تربیت کی دین ہے جو انہیں درسگاہ نبوت سے ملی، اس درسگاہ کا ہر
طالب علم، ہر شاگرد علم و عمل میں یکتا، یگانہ و منفرد ہے۔
یہودیوں کا منافقانہ
کردار
مدینہ منورہ کے یہودیوں
نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے میثاق پر دستخط تو کردئیے، لیکن انہوں نے اس
کو دل سے تسلیم نہیں کیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی
سے جو کدورت ان کے دلوں میں چھپی ہوئی تھی اس نے انہیں اس معاہدے کو تسلیم کرنے پر
آمادہ نہیں کیا، کچھ دنوں کے بعد دلوں کی وہ کدورت اور حقد و حسد ان کے عمل سے
بھی جھلکنے لگا۔
یہود اپنے کردارو عمل کے
اس دو رُخے پن میں ہمیشہ سے مشہور رہے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ انہوں
نے جو سلوک روا رکھا، قرآن کریم نے اس کو ایک جگہ نہیں بلکہ کئی مقامات پر واضح
کیا ہے اور ان کی بہت سی بری خصلتوں پر بھی روشنی ڈالی ہے، جیسے نفاق، اللہ و رسول
کے تئیں بے ادبی، مکر و فریب، چاپلوسی، علم رکھنے کے باوجود اس سے دوری، حسد،
کینہ، بخل، بے حیائی، بے شرمی، کبر و نخوت، حب جاہ و حب مال، احسان فراموشی،
انبیاء و صالحین کے ساتھ عداوت اور دشمنی، کتمانِ علم، حقائق کی پردہ پوشی،
محرّمات کے ارتکاب پر جرأت، تفرقہ بازی، رشوت، جھوٹ، کون سی برائی ایسی ہے جو اُن
میں نہیں تھی۔ قرآن کریم نے یہودیوں کی یہ تمام بری عادتیں اور خصلتیں کھول کھول
کر بیان کی ہیں۔
یہود بہ ظاہر عبادت کرتے
تھے لیکن ان کی عبادت میں شرک کی آمیزش تھی، کیوںکہ وہ اللہ رب العزت کے لئے بیٹے
کا تصور رکھتے تھے۔ (التوبہ:۳۰)
انہوں نے اپنے احبارو رہبان کو خدا کا درجہ دے رکھا
تھا۔ (التوبہ:۳۱) وہ
اپنے پیغمبروں اور نیک لوگوں کی پرستش کرتے تھے، ان کی قبروں کو سجدہ کیا کرتے
تھے، انہی سے مانگتے، انہی کے نام پر جانور ذبح کرتے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ
وسلم ارشاد فرمایا کرتے تھے ’’اللہ تعالیٰ یہود کو ہلاک کردے، انہوں نے اپنے
انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا رکھا ہے۔‘‘ (صحیح البخاری ۱۰؍۲۱۶، رقم الحدیث ۴۱۸) ان کا یہ سلوک مرحوم
انبیاء و صالحین کے ساتھ تھا، لیکن جب وہ زندہ ہوتے تو ان کو ایذا پہنچاتے، ان کا
مذاق اڑاتے، ان کی حکم عدولی کرتے، بعض اوقات انہیں قتل بھی کردیتے۔ (البقرہ:۶۱)
نفاق ان کی سرشت میں داخل
تھا۔ بعض یہود اس صفت میں رئیس المنافقین عبداللہ ابن اُبی سے بھی چند قدم آگے
تھے، بعض سردارانِ یہود مسلمانوں کی شوکت اور قوت دیکھ کر مسلمان تو ہوگئے تھے مگر
اپنی فطرت سے مجبور تھے اس لئے دل سے اسلام قبول نہ کرسکے۔ مسلمانوں کے پاس آتے
تو کہتے کہ ہم مسلمان ہیں اور اپنے قبیلوں میں جاتے تو کہتے ہم تو تمہارے ساتھ ہی
ہیں: ’’اور جب وہ (منافق) اہل ایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم (بھی) ایمان لے
آئے ہیں، اور جب اپنے شیطانوں سے تنہائی میں ملتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم یقیناً
تمہارے ساتھ ہیں، ہم (مسلمانوں کا تو) محض مذاق اڑاتے ہیں۔‘‘ (البقرہ:۱۴)
مدینہ منورہ کے اکثر
غیریہودی مسلمان ہوگئے، لیکن یہودیوں کی اکثریت ایمان سے محروم ہی رہی، اس کی وجہ
دراصل وہ حسد تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس سے ان کے دلوں میں
پیدا ہوگیا تھا، ان کا خیال تھا کہ آخری پیغمبر ہماری قوم میں تشریف لائیں گے،
لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مکہ میں ہوئی اور غیر یہود میں ہوئی، اس سے
ان کو شدید صدمہ پہنچا، اس صدمے نے ان کی عقل سلب کرلی، اس یقین کے باوجود کہ
محمدﷺ اللہ کے آخری رسول ہیں وہ ایمان کی دولت سے محروم رہے اور حسد کی آگ میں
جلتے رہے۔ (البقرہ:۹-۱۰)
یہودیوں کو اپنی تاریخ کے
روز اوّل سے یہ گمان رہا ہے کہ وہ دنیا کی سب سے زیادہ متمدن قوم ہیں، لوگوں میں
سب سے افضل ہیں، سب سے زیادہ محترم ہیں، اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام کی بعثت کے
لئے ان کی قوم کا انتخاب کیا ہے، جس راستے پر وہ چل رہے ہیں وہی ہدایت کا راستہ
ہے، باقی سب گمراہی اور ضلالت ہے، جنت انہی کے لئے بنائی گئی ہے، باقی سب لوگ جہنم
کا ایندھن بننے و الے ہیں۔(البقرہ:۱۱۱)
ان کو یہ گمان بھی تھا کہ وہ اللہ کے بیٹے اور اس کے
محبوب بندے ہیں۔ (المائدہ:۱۸)
حضرت
عبداللہ ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ قوم یہود کے نعمان بن أضاء،بُحیری بن
عمر اور شأس بن عدی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپﷺ نے
ان لوگوں کو اللہ کی طرف آنے کی دعوت دی اور اس کے عذاب سے ڈرایا، وہ کہنے لگے:
اے محمدؐ! آپ ہمیں عذابِ الٰہی سے ڈرا رہے ہیں، حالاںکہ ہم تو اللہ کے بیٹے اور
اس کے محبوب بندے ہیں۔ (تفسیر الطبری: ۱۰؍۱۵۰)۔ پھر یہ قوم دشمنی پر
کمر بستہ ہوتی ہے تو تمام حد پار کردیتی ہے، سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیوں سے محروم
ہوجاتی ہے، اس کے سامنے صرف اس کا مقصد رہتاہے، جس کو حاصل کرنے کیلئے وہ جائز
ناجائز ہر طرح کے ہتھکنڈے اختیار کرتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے
میں بھی ان کا یہی وطیرہ رہا، دشمنی پر آمادہ ہوئے تو اس طرح ہوئے کہ اچھے برے کی
تمیز کھو بیٹھے، اپنی کتابوں میں لکھی ہوئی باتوں کو خود ہی جھٹلانے لگے، نتیجہ یہ
نکلا کہ ایمان جیسی بیش بہا دولت سے محروم رہ گئے، ان کے بغض و عناد کا حال یہ تھا
کہ اللہ رب العزت نے اپنے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمادیا کہ اے محمد!
ان لوگوں کے لئے زمین و آسمان میں پھیلی ہوئی نشانیاں اور آگاہ کرنے والے پیغمبر
بھی کچھ کارآمد نہیں ہوں گے۔ (یونس:۱۰۱)
یہ بھی فرمایا: جن لوگوں کو کتاب دی گئی ہے اگر آپ ان
کے پاس ہر قسم کی نشانیاں بھی لے کر پہنچ جائیں تب بھی یہ آپ کے قبلے کی پیروی
نہیں کریں گے۔ (البقرہ:۱۴۵)
اللہ نے اپنے صحیفوں کے
ذریعے انہیں پہلے ہی آگاہ کردیا تھا کہ ہم ایک عالی مرتبت پیغمبر مبعوث کرنے والے
ہیں، ان پر سلسلۂ نبوت اپنی انتہاء کو پہنچ جائے گا۔ پیغمبر کی تمام علامتیں بھی
ان کو بتلادی گئی تھیں، وہ لوگ ان کی آمد کی خبر اپنے پیغمبروں کی زبانی سنتے تھے
اور کتابوں میں پڑھتے تھے، انہیں پیغمبر آخر الزماں کا انتظار بھی تھا، لیکن جب
وہ مبعوث ہوگئے تو انہوں نے صاف انکار کردیا، حالاں کہ جو علامتیں ان کو بتلائی
گئی تھیں وہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر صادق آرہی تھیں اور دل سے وہ بھی یہ
مان رہے تھے کہ محمد اللہ کے رسول ہیں، لیکن انہوں نے آپؐ کی ذات گرامی کو اپنے اقتدار
اور اپنی برتری کیلئے خطرہ محسوس کیا تو انجان بن گئے۔ علماء یہود اپنی قوم کے
لوگوں سے وہ باتیں چھپانے لگے، قرآن کریم نے اسے کتمانِ علم سے تعبیر کیا
ہے۔ (جاری)
9 جولائی 2021، بشکریہ: انقلاب،
نئی دہلی
---------
Related Article
Part:
7- Adjective of Worship مجھے صفت ِ عبدیت زیادہ پسند اور عبد کا لقب زیادہ محبوب ہے
Part: 22- Bani Awf, the Prophet Has Come اے بنی عوف وہ نبیؐ جن کا تمہیں انتظار تھا، تشریف لے آئے
Part:
23- Moon of the Fourteenth Night ہمارے اوپر ثنیات الوداع کی اوٹ سے چودہویں رات کا چاند طلوع
ہوا ہے
Part: 24- Madina: Last Prophet's Abode یثرب آخری نبیؐ کا مسکن ہوگا، اس کو تباہ کرنے کا خیال دل
سے نکال دیں
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism