مولانا ندیم الواجدی
16 جولائی 2021
یہودیوں کا منافقانہ
کردار
ایک مرتبہ کچھ علمائے
یہود جن میں رافع بن حارثہ، سلاّم بن مِشکَم، مالک بن الصَّف اور رافع بن حُمیلہ
شامل تھے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے:
یامحمد(ﷺ)! کیا آپؐ یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ آپؐ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین
پر ہیں اور ان کی ملت میں سے ہیں؟ آپؐ ہماری تورات پر بھی ایمان رکھتے ہیں اور
کہتے ہیں کہ یہ کتاب اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نے ارشاد فرمایا: ہاں، میں یہ سب باتیں کہتا ہوں، لیکن تم نے اس میں نئی
باتیں بڑھالی ہیں اور جو باتیں اس میں ہیں تم ان کا انکار کرتے ہو، ان باتوں
کو چھپاتے ہو اور اللہ تعالیٰ نے تم سے میری پیروی کا جو عہد لیا تھا اس کو بھلا
بیٹھے ہو، اس لئے میں تمہاری ان باتوں سے بَری ہوں۔ وہ کہنے لگے کہ ہم تو اسے
مانیں گے جو ہمارے پاس ہے، اس کی رو سے ہم حق پر ہیں اور ہدایت کے راستے پر گامزن
ہیں، ہم آپؐ کی اتباع نہیں کرسکتے اور نہ آپؐ پر ایمان لا سکتے ہیں۔
اس واقعے کے بعد یہ آیت
نازل ہوئی: ’’آپ فرمادیجئے کہ اے اہل کتاب! جب تک تم تورات اور انجیل پر اور جو
(کتاب) تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس بھیجی گئی ہے اس کی پوری پابندی نہیں
کرو گے تمہاری کوئی بنیاد نہیں ہوگی جس پر تم کھڑے ہوسکو اور (اے رسول) جو وحی
تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل کی گئی ہے وہ ان میں سے بہت سوں کی سرکشی
اور کفر میں مزید اضافہ کرکے رہے گی، لہٰذا تم ان کافر لوگوں پر افسوس مت کرنا۔
(المائدہ:۶۸) (تفسیر
ابن ابی حاتم، ۲۳؍۱۲۳، رقم الحدیث ۶۶۵۴)
جس قوم کے اخلاقی زوال کا
حال یہ ہو اس سے خیر کی امید ہی نہیں کی جاسکتی۔یہودیوں نے میثاقِ مدینہ پر دستخط
کردئیے مگر دل سے وہ یہ چاہتے رہے کہ مسلمان یہاں سے چلے جائیں، نقض عہد کے کھلے
واقعات تو جنگ بدر کے بعد پیش آئے اور وہ واقعات ہی مدینہ منورہ سے ان کے اخراج
کا سبب بھی بنے اور کئی غزوات و سرایا میں ان سے مقابلہ رہا لیکن ان کی متوقع عہد
شکنی کا اندازہ مسلمانوں کو پہلے ہی ہو گیاتھا اور وہ ان سے مطمئن نہیں تھے۔
منافقین کی روش
مسلمانوں کو بڑا خطرہ
منافقین سے تھا۔ یہ ایک گروہ تھا جس میں مختلف قبیلوں سے تعلق رکھنے و الے لوگ
عبداللہ ابن اُبی کی قیادت میں جمع ہوگئے تھے، منافقین کا یہ ٹولہ
بظاہر ایمان لا چکا تھا، دکھاوے کے لئے یہ لوگ مسجد میں بھی آتے تھے، نمازیں بھی
پڑھتے تھے، مشوروں میں بھی شرکت کرتے تھے، لیکن دل سے وہ بھی یہ چاہتے تھے کہ
مسلمان اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر یہاں سے چلے جائیں اور ہم اس شہر میں
پہلے کی طرح آزاد اور خودمختار ہو کر رہیں۔ ہم عبداللہ بن اُبی بن سلول کا ذکر
پہلے بھی کرچکے ہیں، یہ بدفطرت شخص اس گروہ کا سرغنہ تھا، تاریخ میں اس کے نام کے
ساتھ رئیس المنافقین کا لاحقہ اسی لئے لگایا جاتا ہے کہ اسی نے منافقت کو پھلنے
پھولنے کا موقع دیا اور اس شخص نے تمام منافقین کو اجتماعیت فراہم کی۔
اس کی ایک وجہ تھی کہ یہ
شخص اپنی قوم میں صاحب عقل و خرد سمجھا جاتا تھا۔ رسول
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے اوس و خزرج کے لوگ یہ طے کرچکے
تھے کہ اس شخص کو قوم کا بادشاہ بنا کر اس کی تاج پوشی کردی جائے گی، تمام تیاریاں
مکمل تھیں، ذہن سازی ہوچکی تھی، بس عمل کرنے کی دیر تھی کہ رسول اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم تشریف لے آئے، آپؐ کی تشریف آوری نے سیاست کا رخ ہی تبدیل کردیا، جو
لوگ کل تک عبداللہ بن اُبی کو اپنی قیادت و سیادت کا تاج سونپنا چاہتے تھے وہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دیوانے بن گئے، اس صورت حال نے عبداللہ بن ابی کے
خوابوں کا محل مسمار کردیا، وہ بادشاہ بنتے بنتے رہ گیا، زبان سے تو وہ کچھ کہہ
نہیں سکتا تھا کیوں کہ دونوں قبیلوں کا سواد اعظم محمد
صلی اللہ علیہ وسلم کا حلقہ بگوش ہوچکا تھا، ان حالات میں اس کے لئے اس کے سوا
کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ بھی مسلمان بننے کا ڈھونگ کرے، سو اس نے سوانگ رچایا،
مگر دل میں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف نفرت، حسد، کینہ اور دشمنی
پالتا رہا۔ یہ عجیب بات ہے کہ اس کا بیٹا عبداللہ اور بیٹی جمیلہ صدق دل سے مسلمان
ہوچکے تھے۔
یہاں ہم ایک واقعہ لکھتے
ہیں، اس واقعے سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ عبداللہ بن اُبی کو رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم سے کس قدر نفرت تھی۔ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنو الحارث کی طرف تشریف لے گئے، راستے میں کسی
جگہ کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے، ان میں زیادہ تعداد ان لوگوں کی تھی جو ابھی تک اسلام
سے محروم تھے،کچھ یہودی بھی تھے اور ایک دو مسلمان بھی اس مجلس میں موجود تھے۔
عبداللہ بن اُبی ان سب لوگوں کا چودھری بنا بیٹھا تھا، اتنے میں رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف لے آئے۔ سواری کے گزرنے سے کچھ دھول اڑی، عبداللہ بن
اُبی نے کبر و نخوت سے اپنا منہ ڈھانپ لیااور تیز و تند لہجے میں کہنے لگا کہ:
دھول مت اڑائو، اس کے سخت لہجے کو نظر انداز کرتے ہوئے آپؐ وہاں ٹھہر گئے، آپؐ
نے سب کو سلام کیا، قرآن کریم کی چند آیات تلاوت فرمائیں، عبداللہ بن اُبی جو
پہلے ہی خار کھائے بیٹھا تھا، کہنے لگا کہ: اگر آپؐ کی بات صحیح بھی ہو تب بھی یہ
طریقہ مجھے پسند نہیں، آپؐ ہماری مجلسوں میں آکر ہمیں تبلیغ نہ کیا کریں، جو لوگ
آپؐ کے پاس جائیں یہ باتیں ان کو سنادیا کریں۔ جو مسلمان اس مجلس میں موجود تھے
وہ عبداللہ ابن اُبی کی باتیں سن کر مشتعل ہوگئے اور اس پر ٹوٹ پڑے، ابن ابی کے
ساتھی بھی اس جھگڑے میں شامل ہوگئے، کچھ دیر تک یہ ہنگامہ چلتا رہا، آپؐ نے دونوں فریقوں کو سمجھا بجھا کر بڑی مشکل سے
ٹھنڈا کیا۔ (صحیح البخاری، ۱۴؍۴۵، رقم الحدیث ۴۲۰۰)۔ یہ صورتحال تھی مدینہ
منورہ کے یہودیوں اور منافقوں کی، ان دونوں طبقوں سے کچھ بھی بعید نہیں تھا، وہ
کسی بھی وقت اس نومولود اسلامی ریاست کے لئے خطرہ بن سکتے تھے، رسول اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم کی نظر ان پر تھی اور قرآن کریم بھی ان کے مخفی احوال سے پردہ اٹھا رہا
تھا۔
مشرکین مکہ کی سازشیں
دوسری طرف مشرکین مکہ
تھے، یہ لوگ وہ چوٹ بھولنا نہیں چاہتے تھے جو ان کو ہجرت کے واقعہ سے پہنچی تھی،
وہ خواب میں بھی یہ بات نہیں سوچ سکتے تھے کہ یہ حقیر اور کمزور مسلمان ہماری
آنکھوںمیں دھول جھونک کر مکہ سے نکل جائیں گے
اور ان کو یثرب جیسی مضبوط پناہ گاہ اور اوس و خزرج جیسے بڑے قبیلوں کی مدد
مل جائے گی۔ ایک طرح سے یہ مشرکینِ مکہ کی شکست تھی، وہ اپنی اس ذلت آمیز ہزیمت
پر تلملاتے رہتے تھے اور اپنی بے بسی پر کف افسوس بھی ملتے رہتے تھے۔ اس کے علاوہ
ان کے بس میں کچھ تھا بھی نہیں۔ اب جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ مدینے میں سب لوگ ہی
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حامی و مددگار نہیںہیں بلکہ ان میں کچھ لوگ ایسے بھی
ہیں جو ظاہراً تو مسلمان ہوگئے ہیں مگر دل سے
اب بھی بت پرست ہیں، دوسری طرف یہودیوں کے بارے میں انہیں یہ اطلاع ملی کہ
فی الحال انہوں نے کسی سیاسی مصلحت کی وجہ سے اس معاہدے پر دستخط کر دئیے ہیں جو
مدینے میں طے پایا ہے، لیکن دل سے وہ بھی
اس کی پابندی نہیں کر رہے ہیں۔ موقع ملتے ہی وہ اسے ختم
کر سکتے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف برسرپیکار ہوسکتے ہیں۔
منافقین اوریہود کی خاموش
بغاوت کی خبریں مشرکین تک پہنچیں تو ان کی بانچھیں کھل گئیں، وہ کب سے اس انتظار
میںتھے کہ مسلمانوں کو ان کے کئے کی سزا دیں اور انہیں بتلا دیں کہ وہ یثرب میں
بھی محفوظ نہیں ہیں اور یہ کہ مکہ کے لوگ اتنے بزدل اور کمزور نہیں ہیں کہ ان کو
اس طرح چھوڑ دیں اور ان کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی نہ کریں۔ فی الحال وہ خاموش
تھے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کا ایک بڑ اتجارتی قافلہ شام گیا ہوا تھا، مشرکین
چاہتے تھے کہ یہ قافلہ ساز و سامان لے کر بہ حفاظت مکہ مکرمہ واپس پہنچ جائے، اس
کے بعد منافقوں اوریہودیوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں پر حملہ کیا جائے اور ان کو چھٹی
کا دودھ یاد دلایا جائے۔
پیش بندی کے طور پر
مشرکین نے اپنی کارروائیوں کا آغاز بھی کردیا تھا، سب سے پہلے انہوں نے اپنے حلیف
قبائل سے رابطہ قائم کیا اور انہیں مسلمانوں کے خلاف بھڑکادیا، اور انہیں اس پر
آمادہ کرلیا کہ وہ مسلمانوں کو اپنے راستوں سے گزرنے نہ دیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا
کہ مسلمان یثرب میں محدود ہو کر رہ گئے، بہت دنوں تک ان لوگوں کی آمد بھی بند رہی
جو یمن کی طرف سے قبول اسلام کیلئے یا قبولِ اسلام کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم کی خدمت میں حاضر ہونا چاہتے تھے، کیونکہ مدینے میں داخل ہونے کے لئے ان
قبیلوں سے گزرنا پڑتا تھا جو مشرکین مکہ کے حلیف تھے۔
عبداللہ ابن اُبی سے
مشرکین مکہ کا رابطہ اس وقت سے تھا جب وہ ظاہری طور پر مسلمان نہیں ہوا تھا بلکہ
علی الاعلان مشرک تھا۔ ایک مرتبہ مشرکین مکہ نے اس کو خط لکھا کہ تم لوگوں نے
ہمارے مفرور لوگوں کو پناہ دے رکھی ہے، ان لوگوں کو
فوراً یثرب سے باہر نکالو، ورنہ ہم تم سے جنگ کرنے پر مجبور ہوں گے، تمہارے
نوجوانوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری عورتوںکو اٹھا لائیں
گے۔ یہ خط پڑھ کر عبداللہ ابن اُبی نے اپنے مشرک ساتھیوں سے مشورہ کیا، تمام لوگ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یثرب سے نکالنے پر متفق ہوگئے اور اس ارادے سے
اکٹھے بھی ہوگئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر ملی تو آپؐ وہاں
پہنچے اور انہیں مخاطب کرکے فرمایا کہ قریش کی دھمکی نے تم پر گہر ا اثر ڈالا ہے،
وہ لوگ تمہارے خلاف سازشیں نہیں کر رہے ہیں بلکہ تم خود اپنے خلاف سازش کر رہے ہو،
تم ان کے بہکاوے میں آکر اپنے بیٹوں اور بھائیوں سے جنگ کرنا چاہتے ہو۔ عبداللہ
ابن اُبی اور اس کے ساتھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات سن کر منتشر
ہوگئے۔ (صحیح البخاری)
ایک اور واقعہ
اس سے بھی قریش کے غم و
غصے کا اور مستقبل میں ان کے عزائم کا اندازہ ہوتا ہے۔ سعد بن معاذ، یثرب کی اہم
شخصیت تھے، ایک مرتبہ وہ عمرہ کرنے کیلئے مکہ مکرمہ گئے، وہاں پہنچ کر وہ امیہ بن
خلف کے مہمان ہوئے، انہوں نے اپنے میزبان سے کہا کہ میں بیت اللہ کا طواف کرنا
چاہتا ہوں، کوئی وقت بھیڑ بھاڑ کا نہ ہو تو مجھے بتلانا۔ امیہ بن خلف دوپہر کے وقت
ان کو طواف کیلئے لے کر نکلا، راستے میں ابوجہل سے ملاقات ہوئی۔ ایک اجنبی شخص کو
اس کے ساتھ دیکھ کر اس نے پوچھا: اے ابوصفوان! تمہارے ساتھ یہ شخص کون ہے؟ اس نے
جواب دیا سعد ہیں۔ یہ سنتے ہی ابوجہل مشتعل ہوگیا۔ کہنے لگا کہ تم یہاں آکر طواف
کرنا چاہتے ہو اور بہ حفاظت یہاں سے نکلنے کا ارادہ رکھتے ہو، حالاں کہ
تم نے ہمارے بے دینوں کو اپنے یہاں پناہ دے رکھی ہے، خدا کی قسم اے سعد اگر تیرے
ساتھ یہ ابوصفوان نہ ہوتا تو تیرا یہاں سے بچ کر اپنے اہل و عیال کے پاس واپس جانا
ممکن نہ تھا۔ سعد بھی کم نہ تھے، انہوں نے چیخ کر کہا کہ کسی غلط فہمی میں نہ
رہنا، خدا کی قسم اگر تم لوگوں نے مجھے طواف سے روکنے کی کوشش کی تو میں تمہیں
اس سے زیادہ اہم چیز سے روک دوں گا، میں مدینے سے گزرنے والے تمہارے راستے بند
کردوں گا۔ (صحیح البخاری، ۱۱؍۴۶۱، رقم الحدیث ۳۳۶۰)
اس طرح کے واقعات پیش
آتے رہتے تھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرکین مکہ کی سرگرمیوں کی
اطلاعات ملتی رہتی تھیں، اس لئے آپؐ ہمہ
وقت چوکنا اور مستعد رہتے تھے۔ یہ خطرہ بہرحال موجود تھا کہ قریش اکٹھے ہو کر کہیں
مدینے پر حملہ نہ کردیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچا
دیں۔ ایک مرتبہ مکہ کے ایک رئیس کُرز بن جابر فہدی نے مدینے کی چراگاہوں پر حملہ
کردیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹ ہانک کر لے گیا جو وہاں چر رہے
تھے۔(الاستیعاب ابن عبدالبر، ۳؍۱۳۱۰)
اس قسم کے واقعات تشویش
کا باعث تھے اور قریش کی اس طرح کی سرگرمیوں سے ہر لحظہ یہ خطرہ رہتا تھا کہ وہ
رات میں کسی وقت حملہ نہ کردیں، ان حالات میں مسلمان ہر وقت حالت جنگ میں رہتے
تھے، حد یہ ہے کہ وہ لوگ ہتھیار لگا کر سویا کرتے تھے۔ رسولؐ اللہ بھی راتوں کو
جاگ کر مدینے کی حفاظت فرمایا کرتے تھے۔
ایک مرتبہ آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ کو جمع کیا اور ان سے کہا کہ وہ رات کے وقت رسول اللہ ﷺ
کی حفاظت کے لئے پہرہ دیا کریں، صحابہ کرامؓ خود بھی بے حد محتاط رہتے تھے اور آپﷺ کی حفاظت ان کی ترجیحات میں سرفہرست
تھی۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک رات آپ ؐ(حفاظتی نقطۂ نظر سے) بیدار رہے اور
فرمایا کاش میرے صحابہ میں سے کوئی شخص میری نگرانی کرتا، اتنے میں ہتھیار کی
سرسراہٹ سنی، آپ ﷺ نے پوچھا کون ہے؟ آواز آئی، سعد بن ابی وقاصؓ، فرمایا: کس
لئے آئے ہو؟ عرض کیا: یارسول اللہ مجھے آپؐ کے بارے میں ڈر ہوا، اس لئے آپؐ کی
نگرانی کے لئے آگیا ہوں، آپؐ نے ان کیلئے دعا فرمائی، پھر آپؐ سو گئے۔ (صحیح
البخاری، ۱۰؍۱۰، رقم الحدیث ۲۶۷۲) (جاری)
16 جولائی 2021، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
---------------
Related Article
Part:
7- Adjective of Worship مجھے صفت ِ عبدیت زیادہ پسند اور عبد کا لقب زیادہ محبوب ہے
Part: 22- Bani Awf, the Prophet Has Come اے بنی عوف وہ نبیؐ جن کا تمہیں انتظار تھا، تشریف لے آئے
Part:
23- Moon of the Fourteenth Night ہمارے اوپر ثنیات الوداع کی اوٹ سے چودہویں رات کا چاند طلوع
ہوا ہے
Part: 24- Madina: Last Prophet's Abode یثرب آخری نبیؐ کا مسکن ہوگا، اس کو تباہ کرنے کا خیال دل
سے نکال دیں
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism