مولانا ندیم الواجدی
6اگست،2021
غزوۂ بواط
ہجرت کا دوسرا سال شروع
ہوا، ماہ ربیع الاول میں یہ خبر مدینہ منورہ پہنچی کہ قریشیوں کا ایک قافلہ جس میں
سو افراد شامل ہیںپچیس اونٹ لے کر بواط سے گزر نے والا ہے۔ یہ ایک گائوں کا نام ہے
جو مدینہ منورہ سے شام جانے والے راستے پر واقع ہے۔ اسی راستے پر تبوک بھی
ہے،مدینہ منورہ کے شمال مغرب میں بواط چالیس کلو میٹر دور ہے اور ینبع سے اس کا
فاصلہ ایک سو تیس کلو میٹر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن معاذؓ
کو مدینے کا والی مقرر فرمایا اور خود دو سو صحابہؓ کی جماعت کو ساتھ لے کر بواط
کی طرف کوچ کیا۔ سعد بن ابی وقاصؓ سفید رنگ کا پرچم اٹھائے ہوئے آگے چل رہے تھے،
بواط پہنچ کر معلوم ہوا کہ قافلہ اس جگہ سے گزر کر آگے بڑھ چکا ہے، مشرکین کی اس
جماعت میں مشہور دشمن اسلام امیہ بن خلف بھی موجود تھا۔ (سیرت ابن ہشام، ۱؍۶۰۰، طبقات بن سعد، ۲؍۹، تاریخ الطبری، ۲؍۲۶۰، البدایہ والنہایہ، ۲؍۳۶۱)
بواط سے واپسی پر دس روز
ہی گزرے تھے کہ ایک دن مکہ مکرمہ کا ایک سردار کُرز بن جابرفہری مدینہ منورہ کے
مضافات سے مسلمانوں کے اونٹ اور دیگر
جانور پکڑ کر لے گیا۔ آپ کو اطلاع ملی تو آپ نے مدینہ منورہ کا انتظام
حضرت زید بن حارثہؓ کے سپرد کیا اور خود صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ کرز بن جابر
کا تعاقب کرنے کے لئے بدر کی طرف جانے والے راستے پر تیزی کے ساتھ آگے بڑھے۔ اس
دن حضرت علیؓ نے سفید پرچم اٹھا رکھا تھا، مقام سفوان پر پہنچ کر آپ رک گئے، کرز
ہاتھ نہیں لگا، آپؐ واپس مدینے تشریف لے آئے۔ (طبقات بن سعد، ۲؍۹، سیرت بن ہشام، ۲؍۶۰۱) اس غزوے کو غزوۂ بدر
الاولی (بدر کا پہلا غزوہ) بھی کہا جاتاہے۔ بعض سیرت نگاروں نے غزوۂ عُشیرہ کو
بدر کا پہلا غزوہ قرار دیا ہے۔ اس کی تفصیل آگے آئے گی۔
غزوۂ عُشیرہ
اسی سال کے تیسرے مہینے
میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عُشَیرہ کی طرف سفر فرمایا، یہ جگہ ینبع کے
قریب واقع ہے، آپ کو اطلاع ملی تھی کہ مشرکین مکہ کا تجارتی قافلہ شام کی طرف
جانے والا ہے، آپ نے اس تجارتی قافلے کو روکنے اور اسے کھدیڑنے کا ارادہ فرمایا۔
حضرت ابوسلمہ بن
عبدالاسدؓ کو مدینہ منورہ کا حاکم اور والی مقرر فرما کر آپ عُشیرہ جانے والے
راستے پر روانہ ہوئے۔ مدینہ منورہ سے عُشیرہ کا فاصلہ اسی کلو میٹر ہے۔ حضرت حمزہ
بن عبد المطلب سفید رنگ کا پرچم اٹھائے ہوئے تھے۔ اس غزوے میں ایک سو پچاس اور بعض
روایات کے مطابق دو سو صحابہ نے حصہ لیا۔ پورے قافلے میں صرف تیس اونٹ تھے، صحابہ
کرام باری باری ان پر سوار ہوتے تھے، باقی حضرات پیدل چلا کرتے تھے۔ تمام صحابہ
کرامؓ اپنے جذبے اور شوق سے شریک سفر ہوئے، کیوںکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ
اعلان فرما دیا تھا کہ جس کا دل چاہے ساتھ جائے اور جس کا نہ چاہے وہ مدینے میں ہی
رہے۔ عشیرہ میں اس وقت بنومدلج کے خاندان آباد تھے، مسلمانوں کا قافلہ رسول اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں یہاں پہنچا تو معلوم ہوا کہ قریش کا تجارتی قافلہ
شام کی طرف جا چکا ہے، یہ وہی قافلہ ہے جس کو واپسی میں روکا گیا اور جس کے نتیجے
میں غزوۂ بدر پیش آیا، اسی لئے بعض مؤرخین نے غزوہ عُشیرہ کو غزوۂ بدر الاولیٰ
کہا ہے، اس سفر میں بنو مدلج سے باہمی تعاون اور نصرت کا تحریری معاہدہ ہوا، یہ
لوگ پہلے ہی سے بنو ضمرہ کے حلیف تھے۔ (سیرت ابن ہشام، ۱؍۵۹۸، طبقات بن سعد، ۱؍۱۰۰۹)
سریۃ عبداللہ بن جحشؓ
حضرت عبداللہ بن جحشؓ کی
قیادت میں بارہ مہاجر صحابہؓ پر مشتمل ایک دستہ ہجرت کے سترہویں مہینے میں رجب
المرجب کی پہلی تاریخ کو وادیٔ نخلہ کی جانب روانہ ہوا۔ ان لوگوں کے پاس کل چھ
اونٹ تھے، دو آدمیوں کے حصے میں ایک اونٹ آیا، جس پر یہ لوگ باری باری سوار ہوا
کرتے تھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دستے کے امیر حضرت عبداللہ بن جحش
کو ایک مکتوب سپرد فرمایا جو بند تھا اور حکم دیا کہ اس کو ابھی نہ پڑھا جائے بلکہ
دو دن کی مسافت طے کرنے کے بعد یہ خط کھولا جائے اور اس کے مضمون سے تمام ساتھیوں
کو مطلع کیا جائے اور انہیں واپس جانے یا ساتھ رہنے کا اختیار دیا جائے۔ چنانچہ دو
دن کا فاصلہ طے کرنے کے بعد یہ قافلہ کسی جگہ ٹھہرا، وہاںیہ مکتوب گرامی کھولا
گیا، اس میں یہ ہدایت درج تھی کہ جب تم اس تحریر کو پڑھو تو آگے بڑھتے چلے جائو،
یہاں تک کہ طائف اور مکہ کے درمیان مقام نخلہ پر پہنچ جائو، اس جگہ قیام کرو اور
قریشی قافلے کا انتظار کرو۔
خط پڑھنے کے بعد حضرت
عبداللہ بن جحشؓ نے ساتھیوں سے کہا کہ میں تو حکم بجا لائوں گا، البتہ میں تم پر
زبردستی نہیں کرتا، جو شوقِ شہادت رکھتا ہے وہ میرے ساتھ آگے چلے اور جو موت کو
ناپسند کرتا ہے وہ واپس چلا جائے۔ تمام رفقائِ قافلہ نے سمعنا و اطعنا کہا اور
آگے کی طرف روانہ ہوگئے۔ ابھی یہ لوگ راستے ہی میں تھے کہ فرع نامی علاقے میں کسی
جگہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ اور عتبہ بن غزوانؓ کا اونٹ گم ہوگیا، یہ دونوں اونٹ کی
تلاش میں پیچھے رہ گئے، باقی دس حضرات نے منزل کی طرف اپنا سفر جاری رکھا۔
یہ قافلہ وادیٔ نخلہ پہنچ
کر رک گیا اور حکم نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق قریشی قافلے کا انتظار کرنے
لگا۔کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ ایک قافلہ وہاں پہنچا، اس میں عمرو بن الحضرمی، عثمان
بن عبداللہ بن المغیرہ، اس کا بھائی نوفل بن عبداللہ بن المغیرہ، حکم بن کیسان
وغیرہ تھے۔ یہ ایک تجارتی قافلہ تھا، جو کشمش وغیرہ کھانے پینے کی اشیاء اور کچھ
دوسرا تجارتی سامان لے کر مکہ واپس ہورہا تھا، مسلمانوںنے مشورہ کیا کہ رجب کا
مہینہ چل رہا ہے، جو ان مہینوں میں سے ایک ہے جن میں جنگ و جدال ممنوع ہے۔ اگر اس
قافلے سے تعرض (سامنے آنا) کرتے ہیں تو یہ ان مہینوں کے احترام کے منافی ہے اور
جنگ نہیں کرتے ہیں تو قافلہ ہاتھ سے نکل جائے گا اور یہ لوگ حرم کی حدود میں داخل
ہو کر مامون و محفوظ ہوجائیں گے۔ یہاں یہ واضح کردیںکہ یوں تو سال کے بارہ مہینے
ہیں اور تمام مہینے اللہ کے بنائے ہوئے ہیں، مگر ان میں چار مہینے ایسے ہیں جو
اپنے اندر ایک خاص طرح کی فضیلت اور تقدس رکھتے ہیں، یہ چار مہینے ہیں: ذو القعدہ،
ذوالحجہ، محرم الحرام اور رجب المرجب۔ اسلام سے پہلے زمانۂ جاہلیت میں بھی ان چار
مہینوں کی تعظیم کی جاتی تھی اور ان میں قتال کو حرام سمجھا جاتا تھا۔ اسلام نے
بھی ان مہینوں کی حرمت باقی رکھی اور ان میں قتال کو حرام قرار دیا، اس کا ذکر
قرآن کریم میں اس طرح آیا ہے:
’’بیشک اللہ کے نزدیک مہینوں کی گنتی اللہ کی کتاب (یعنی نوشتۂ
قدرت) میں بارہ مہینے (لکھی) ہے جس دن سے اس نے آسمانوں اور زمین (کے نظام) کو
پیدا فرمایا تھا، ان میں سے چار مہینے
(رجب، ذو القعدہ، ذو الحجہ اور محرم) حرمت والے ہیں۔ یہی سیدھا دین ہے سو تم ان
مہینوں میں (ازخود جنگ و قتال میں ملوث ہو کر) اپنی جانوں پر ظلم نہ کرنا اور تم
(بھی) تمام مشرکین سے اسی طرح (جوابی) جنگ کیا کرو جس طرح وہ سب کے سب (اکٹھے ہو
کر) تم سے جنگ کرتے ہیں، اور جان لو کہ بیشک اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ
ہے۔‘‘(التوبہ:۳۶)
ان چاروں کو حرمت والا دو
لحاظ سے کہا گیا ہے۔ ایک تو اس لئے کہ ان مہینوں میں قتل و قتال حرام ہے۔ دوسرے یہ
کہ یہ مہینے متبرک اور واجب الاحترام ہیں، ان میں عبادات کا ثواب زیادہ ہے۔ بعد میں پہلا حکم یعنی قتل و قتال کا حرام
ہونا منسوخ ہوگیا، دوسرا باقی ہے۔ (تفسیر معارف القرآن، ۴؍۳۷۳)
جس وقت حضرت عبداللہ بن
جحشؓ اور ان کے ساتھیوں کو قریش کا قافلہ نظر آیا، رجب کی آخری تاریخ تھی اور وہ
لوگ حدودِ حرم سے انتہائی قریب تھے، مشکل یہ تھی کہ رجب ان مہینوں میں سے ایک ہے
جن میں اس وقت جنگ کرنے کی اجازت نہیں تھی، ایک دن گزرنے کے بعد یہ مشکل ختم
ہوسکتی تھی، مگر قریش کے قافلے کو ایک دن کی مہلت دینے کی گنجائش نہیں تھی، کیوںکہ
وہ کچھ آگے بڑھ کر حدودِ حرم میں داخل ہوجاتے اور حدودِ حرم میں داخل ہونے والوں
پر حملہ نہیں کیا جاتا۔ صورتِ حال پیچیدہ تھی، حضرت عبداللہ نے ساتھیوں سے مشاورت
کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ کفار کو جانے نہ دیا جائے، چنانچہ ان حضرات میں سے کسی نے
ایک تیر چلایا جو عمرو بن الحضرمی کے جا کر لگا اور وہ وہیں ڈھیر ہوگیا۔ اس کے
مرنے سے قافلے میںبھگدڑ مچ گئی، نوفل بھاگ نکلا، عثمان اور حکم قیدی بنالئے گئے،
جو ساز و سامان ان کے پاس تھا مسلمانوں نے اپنے قبضے میںلے لیا۔
ابوعمرو الحضرمی کا قتل
اسلام میںپہلا قتل تھا، عثمان اور حکم دو ایسے شخص ہیں جن کو مسلمانوں نے پہلی
مرتبہ قید کیا، اسی سال مالِ غنیمت کا حصول بھی پہلی مرتبہ ہوا۔مسلمانوں کا یہ چند
نفری قافلہ دونوں قیدیوں اور قافلے والوں کا سامان لے کر مدینہ منورہ پہنچا اور
قافلے والوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر تمام واقعات
بیان کئے، آپؐ نے یہ بات پسند نہیں فرمائی کہ یہ قتال رجب میں کیا گیا، چنانچہ
آپؐ نے مالِ غنیمت کو ہاتھ نہیں لگایا، دوسری طرف قریش مکہ نے بھی واویلا کرنا
شروع کردیا کہ محمدؐ اور ان کے ساتھی تو حرمت والے مہینوں میں بھی جنگ کرتے ہیں۔
اس صورت حال سے حضرت عبداللہ بن جحشؓ اور ان کے ساتھی سخت پریشان ہوئے۔ انہیں یہ ڈر ستانے لگا کہ کہیں اُن کا یہ اقدام
اللہ اور اس کے رسول کی ناراضگی کا سبب نہ بن جائے، اس وقت یہ آیت نازل ہوئی:
’’لوگ آپ سے حرمت والے
مہینوں کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ اس میں جنگ کرنا کیسا ہے؟ آپ کہہ دیجئے کہ اس
میںجنگ کرنا بڑا گناہ ہے، مگر لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکنا، اس کے خلاف کفر کی
روش اختیار کرنا، مسجد حرام میں بندش لگانا، اس کے باسیوں کو وہاں سے نکال کر باہر
کرنا اللہ کے نزدیک زیادہ بڑا گناہ ہے اور فتنہ قتل سے بھی زیادہ سنگین
ہے۔‘‘(البقرہ: ۲۱۷)
علامہ ابن القیم تحریر
فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں مشرکین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ جو
بات تم کہہ رہے ہو یعنی حرمت والے مہینے میں قتال کرنا گناہ ہے، واقعی یہ گناہ کی
بات ہے مگر جو تم لوگ کر رہے ہو، اللہ کا انکار، جو لوگ اس کے راستے پر چلنا چاہتے
ہیں ان کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنا، مسلمانوں کو ان کے گھروں سے نکالنا، بیت
اللہ کے طواف سے روکنا، یہ سب تو اور بھی بڑے گناہ ہیں، کیوںکہ یہ اعمال فتنہ ہیں
اور فتنہ قتل سے بھی زیادہ بڑا گناہ اور انتہائی قابل مذمت فعل ہے۔ (زاد المعاد، ۳؍۱۳۳)
قرآن کریم کی مذکورہ
بالا آیت کے نزول کے بعد مسلمان مطمئن ہوگئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
بھی مالِ غنیمت قبول فرمالیا، اس میں سے خُمس نکال کر جو از روئے قرآن کریم اللہ
اور اس کے رسول کا حصہ ہے، باقی تمام سامان ان مجاہدین میں تقسیم کردیا گیا
جنہوںنے معرکہ سرکیا تھا، دونوں قیدی مسلمانوں کی تحویل میں رہے۔ مشرکین کی طرف سے
فدیہ لے کر قیدیوں کی واپسی کا مطالبہ ہوا، آپؐ نے فرمایا ہمارے دو آدمی (سعد بن
ابی وقاص اور عتبہ بن غزوان) واپس نہیں آئے ہیں، ہو سکتا ہے کہ تم نے انہیں قتل
کردیا ہو یا وہ تمہارے قبضے میں ہوں۔ جب تک وہ دونوں واپس نہیں آئیںگے ہم تمہارے
دونوں قیدی واپس نہیں کریں گے، کچھ دنوں کے بعد سعد و عتبہ واپس آگئے، تب آپ ؐ
نے فدیہ لے کر دونوں قیدیوں کو رہا کردیا۔ عثمان مکہ چلا گیا اور کفر کی حالت میں
مر گیا۔ حکم مسلمان ہوگئے، مدینے میں رہے اور بئر معونہ کے دن شہید ہوگئے۔
(سیرت ابن ہشام، ۱؍۶۰۴، البدایہ والنہایہ، ۲؍۳۶۶، طبقات بن سعد، ۲؍۱۰)۔(جاری)
6اگست،2021، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
--------------------
Related Article
Part:
7- Adjective of Worship مجھے صفت ِ عبدیت زیادہ پسند اور عبد کا لقب زیادہ محبوب ہے
Part: 22- Bani Awf, the Prophet Has Come اے بنی عوف وہ نبیؐ جن کا تمہیں انتظار تھا، تشریف لے آئے
Part:
23- Moon of the Fourteenth Night ہمارے اوپر ثنیات الوداع کی اوٹ سے چودہویں رات کا چاند طلوع
ہوا ہے
Part: 24- Madina: Last Prophet's Abode یثرب آخری نبیؐ کا مسکن ہوگا، اس کو تباہ کرنے کا خیال دل
سے نکال دیں
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism