مولانا ندیم الواجدی
20اگست،2021
ابوسفیان کی حکمت عملی
ابھی بَسبَس بن عمرؓ اور
عدی بن ابی الرغباءؓ کنویں کے پاس سے چلے ہی تھے کہ ابوسفیان وہاں پہنچ گیا، اس
وقت مجدی بن عمرو الجہنی کنویں کے پاس موجود تھا، ابوسفیان نے اس سے پوچھا کہ تم
نے یہاں کسی اجنبی مسافر کو تو نہیں دیکھا، مجدی نے لاعلمی ظاہر کی، وہاں اونٹ کی
مینگنیاں پڑی ہوئی تھیں، ابوسفیان نے انہیں اٹھا کر دیکھا اور توڑا تو ان میں
کھجور کی گٹھلیاں تھیں، وہ سمجھ گیا کہ یثرب کی طرف سے یہاں کوئی آیا تھا، یقیناً
وہ شخص میرے قافلے کی ٹوہ لینے آیا ہوگا، ویسے بھی اسے کچھ دوسرے ذرائع سے یہ
اطلاعات مل رہی تھیں کہ مسلمان بڑی تعداد میں یثرب سے چل پڑے ہیں اور ان کا ارادہ
ہمارے قافلے کو لوٹنے کا ہے۔ ابوسفیان فوراً ہی اپنے پڑائو پر پہنچا، وہ تیزی کے
ساتھ یہاں سے نکل جانا چاہتا تھا، چنانچہ وہ اپنے قافلے کو لے کر ساحل کی طرف چلا
گیا اور وہاں سے مکہ پہنچ گیا، لیکن راستے سے اس نے ایک شخص کو جس کا نام ضمضم بن عمرو
غفاری تھا، اجرت دے کر مکہ مکرمہ روانہ کیا اور اس کے ذریعے قریش کے پاس یہ پیغام
بھیجا کہ وہ فوراً کوچ کریں اور اپنا قافلہ بچائیں، محمد اور ان کے ساتھی قافلے کو
لوٹنے کے ارادے سے نکل کھڑے ہوئے ہیں۔
ضمضم نے مکہ پہنچ کر اس
وقت کے طریقے کے مطابق اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے، اپنے دونوں کان زخمی کرلئے اور ایک
اونچی پہاڑی پر کھڑے ہو کر قریش کے لوگوں کو آواز لگانی شرع کی، اس کی چیخ پکار سن کر لوگ اپنے گھروں سے نکل آئے، وہ
چلاّ چلاّ کر کہہ رہا تھا: اے مکہ والو! تمہارا کارواں لٹنے کے قریب ہے، محمد وہاں
پہنچنے والے ہیں، اٹھو، نکلو، چلو۔ قریش میں بھگدڑ مچ گئی، جیسا کہ عرض کیا گیا کہ
اس قافلے میں ہر گھر کا سرمایہ لگا ہوا تھا، اس لئے ہر شخص نے اپنی ذمہ داری محسوس
کی، آناً فاناً تیاری کی گئی، بنوعدی کے علاوہ ہر قبیلے کے لوگ نکل کھڑے ہوئے،
اشرافِ مکہ میں سے کوئی ایسا شخص نہ تھا جو نکلا نہ ہو، صرف ابولہب رہ گیا، اس نے
اپنی جگہ عاصم بن ہشام کو بھیجا جس پرابولہب کے چار ہزار دینار قرض تھے، نوسو پچاس
سواروں کا یہ قافلہ اس شان کے ساتھ پا بہ رکاب ہوا کہ ان میں چھ سو سے زیادہ افراد
سر سے پائوں تک زرہ پہنے ہوئے تھے، ہر شخص مسلح تھا، تیر، کمان، نیزے اور تلواریں
بڑی تعداد میں تھیں، سات سو اونٹ بھی ساتھ تھے، ڈھول، تاشے بھی تھے، گانے والی
عورتیں بھی ہمراہ تھیں، سامانِ عیش و طرب بھی تھا، ایسا لگ رہا تھا جیسے محاذِ جنگ
پر نہ جارہے ہوں بلکہ تفریح کے لئے نکلے ہوں۔ قرآن کریم نے ان کے قافلے کی منظر
کشی کچھ اس طرح کی ہے: ’’اور ان لوگوں کی
طرح نہ ہوجانا جو اپنے گھروں سے اکڑتے ہوئے اور لوگوں کو اپنی شان دکھاتے ہوئے
نکلے تھے۔‘‘ (الانفال:۵۷)
(زاد المعاد، ۳؍۱۳۶)
امیہ بن خلف کی شمولیت
مکہ مکرمہ کا رئیس اور
اسلام کے دشمنوں میں سے ایک بڑا دشمن اُمیّہ بن خلف نہیں چاہتا تھا کہ وہ مسلمانوں
سے لڑنے کے لئے جائے، کیوں کہ اسے اپنے یثربی دوست سعد بن معاذؓ
کی پیش گوئی یاد تھی۔ یہ واقعہ پہلے بھی مختصر طور پر لکھا گیا ہے کہ امیہ بن خلف
اور سعد بن معاذؓ گہرے دوست تھے، امیہ شام کی طرف جاتا یا اس کا یثرب جانا ہوتا تو
وہ سعد بن معاذؓ کے گھر پر قیام کرتا، سعد عمرے یا حج کے لئے آتے تو وہ امیہ کے
یہاں ٹھہرتے۔ ایک مرتبہ وہ عمرے کے لئے آئے، حسب معمول امیہ بن خلف کے مہمان بنے۔
اس وقت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہاں سے ہجرت کرکے مدینے تشریف لے جاچکے تھے،
سعدنے اکیلے میں بیت اللہ کے طواف کی خواہش ظاہر کی توامیہ انہیں لے کر چلا، راستے
میں ابوجہل
مل گیا، اس نے کبر و نخوت سے پوچھا: اے ابوصفوان! تمہارے ساتھ یہ اجنبی کون ہے؟ اس
نے بتلایا کہ یہ میرے دوست سعدہیں، یثرب سے آئے ہیں، اتنا سن کر ابوجہل آگ بگولا
ہوگیا، کہنے لگا تم نے ہمارے بھگوڑوں کو اپنے یہاں پناہ دے رکھی ہے اور تم یہاں
طواف کرکے سلامت نکل جانا چاہتے ہو، وہ سعد کو طواف سے روکناچاہتا تھا، سعد نے نڈر
ہو کر جواب دیا اے ابوالحکم! زیادہ نہ اکڑ، اگر تو نے مجھے طواف سے روکنے کی کوشش
کی تو میں شام جانے کیلئے تیرا راستہ بند کردوں گا۔ حضرت سعد کو بلند آواز سے
بولتے دیکھ کر امیہ نے کہا کہ تم ابوالحکم سے اونچی آواز میں بات مت کرو، یہ یہاں
کے سردار ہیں۔ سعد نے کہا اے امیہ! بس کر، خدا کی قسم میں نے رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے خود یہ بات سنی ہے کہ تو حضورؐ کے اصحاب کے ہاتھوں
قتل کیا جائے گا۔
امیہ کو سعدؓ کی یہ بات
یاد تھی، اس لئے وہ قریش کے لشکر میں شریک ہو کر جانا نہیں چاہتا تھا، اسے ڈر تھا
کہ کہیں اس کی موت ہی اسے وہاں نہ لے کر
جارہی ہو، وہ جانتا تھا کہ محمدؐ کبھی جھوٹ نہیں بولتے، جس وقت سعد نے اسے یہ بات
بتلائی امیہ کا رنگ فق ہوگیا۔ روایت میں ہے کہ سعد کی بات سن کر امیہ ڈر گیا۔ (فتح
الباری، ۱۱؍۲۸۶،رقم الحدیث ۳۲۵۶) اس نے معذرت پیش کی،
بہانے تراشے، مگر ابوجہل جان کو آگیا، کہنے لگا کہ آپ قوم کے سردار ہیں، اگر آپ
نہ نکلے تو دوسرے بہت سے لوگ گھر بیٹھ جائیں گے، اس نے یہاں تک کہا کہ آپ پریشان
نہ ہوں، میں ایک تیز رفتار گھوڑے کا انتظام کئے دیتا ہوں،آپ جہاں بھی خطرہ محسوس
کریں اس گھوڑے پر بیٹھیں اور واپس آجائیں۔ ابوجہل کے اصرار، منت، خوشامد اور
دھمکی کے بعد امیہ کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہ بچا کہ وہ بھی ہتھیار لے کر
نکل پڑے، گھر پہنچا، بیوی سے کہا میرا سامانِ سفر تیار کرو، بیوی نے کہا کیاآپ کو
اپنے یثربی بھائی کی بات یاد نہیں رہی؟ کہنے لگا کہ میں کچھ دور تک ساتھ جائوں گا،
پھر واپس آجائوں گا، میرا ارادہ آگے تک جانے کا نہیں ہے۔ روایات میں ہے
کہ وہ ڈرا سہما نکلا، ہر منزل پر جہاں بھی ٹھہرنا ہوتا اپنا اونٹ قریب ہی رکھتا
تاکہ بھاگنے میں آسانی ہو، مگر موت کشاں کشاں اسے
میدان بدر کی طرف لے گئی اوروہ صحابہؓ کے
ہاتھوں کتے کی موت مارا گیا۔ (صحیح البخاری، ۱۱؍۴۶۱، رقم الحدیث ۳۳۶۰)
ابوسفیان کے بچ نکلنے اور
لشکر قریش کے آنے کی خبر
اسلام کے یہ تین سو تیرہ
مجاہدین اپنے قائد اور پیغمبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں وادیٔ
صفراء سے نکل کر شاہراہِ بدر پر آئے،
راستے میں ایک جگہ پڑتی ہے جس کا نام ہے ذِفران، جب یہ لشکر اس وادی میں خیمہ زن
ہوا تو مخبروں کے ذریعے یہ اطلاع ملی کہ ابوسفیان صاف بچ کر نکل گیا ہے، اس نے
راستہ بدل دیا تھا، اور اب اس کا قافلہ محفوظ ہے۔ دوسری طرف یہ خبر بھی ملی کہ
قریش کا ایک بڑا لشکر قافلے کی حفاظت کے ارادے سے روانہ ہوا ہے، مگر ان کی تیاریوں
سے نہیں لگتا کہ وہ صرف قافلے کی حفاظت کے لئے نکلے ہیں، ایسا لگتا ہے وہ جنگ کرنا
چاہتے ہیں، کیوں کہ مسلمان جنگ کی نیت سے نہیں نکلے
تھے، نہ زیادہ افراد تھے، نہ ان کے پاس اونٹ اور گھوڑے تھے اور نہ اسلحہ تھا، عجلت
میں جس کے جو ہاتھ لگا وہ لے کر نکل پڑا، نئی صورت حال میں مشورہ کرنا ضروری تھا،
آپؐ کا ارادہ واپسی کا نہیں تھا بلکہ آپ
چاہتے تھے کہ اس لشکر کا مقابلہ کیا جائے، اگر وہ لوگ اس ارادے سے آرہے ہیں تو ان
کا سامنا ہونا چاہئے، مگر آپؐ اپنے
ساتھیوں کی رائے بھی جاننا چاہتے تھے، پہلے آپؐ مہاجرین کی طرف متوجہ ہوئے، حضرت ابوبکرؓ
اور حضرت عمرؓ سمیت تمام مہاجرین نے جن کی تعداد ستتر تھی جنگ کا مشورہ دیا، آپؐ
نے دوبارہ پوچھا، انہوں نے دوبارہ بھی یہی عرض کیا کہ ہم جنگ کرنے کیلئے تیار ہیں،
آپؐ نے تیسری مرتبہ دریافت کیا، انصار صحابہؓ جن کی تعداد دو سو چھتیس تھی سمجھ
گئے کہ روئے سخن ہماری طرف ہے، آپ ﷺہماری رائے اور ہماری مرضی جاننا چاہتے ہیں۔
سب سے پہلے حضرت سعد بن
معاذؓ کھڑے ہوئے اور نہایت ادب سے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ہم آپ پر ایمان لائے
ہیں، ہم نے آپؐ کی تصدیق کی ہے اور اس بات کی شہادت دی ہے کہ آپؐ جو کچھ لے کر تشریف لائے ہیں وہی حق ہے، ہم نے
آپؐ سے سمع و طاعت کا عہد کیا ہے، وعدے کئے ہیں، میرے خیال سے یارسولؐ اللہ! آپ
مدینہ منورہ سے کسی اور مقصد کیلئے نکلے تھے، اب اللہ تعالیٰ نے دوسری صورت پیدا
فرمادی، اب جیسی آپ کی مرضی ہو ویسا کریں، جس سے تعلق رکھنا چاہیں اس سے تعلق
رکھیں، جس سے قطع تعلق کرنا چاہیں اس سے تعلق ختم کردیں، جس سے چاہیں صلح کریں اور
جس سے چاہیں دشمنی کریں، ہمارے پاس جو کچھ مال و دولت ہے اس میں سے جتنا چاہیں
آپؐ ہم سے لے لیں اور جس قدر چاہیں ہمارے پاس چھوڑ دیں، جو مال آپؐ ہم سے لیں گے
وہ اس مال سے زیادہ بہتر ہوگا جو آپ ہمارے پاس چھوڑیں گے۔ اگر آپ ہمیں بِرْکُ
الْغِمَادْ (یہ ایک علاقہ ہے جو مدینے سے کافی دوربحر احمر کے ساحل پر واقع ہے) لے
جانا چاہیں تو ہم آپؐ کے ساتھ چلیں گے، اس ذات برحق کی قسم جس نے آپؐ کو حق کے
ساتھ مبعوث فرمایا ہے، اگر آپؐ ہمیں یہ حکم
دیں گے کہ ہم اس سمندر میں کود پڑیں تو ہم کود پڑیں گے، ہم میں سے کوئی شخص بھی
پیچھے رہنے والا نہیں ہے، ہم دشمنوں سے لڑنے کو برا نہیں سمجھتے، ہم لڑائی کے وقت
صبر کرتے ہیں اور مقابلے میں سچے ہیں، ہم اللہ تعالیٰ سے یہ امید رکھتے ہیں کہ
اللہ تعالیٰ آپؐ کو ہم سے وہ چیز دکھلائے گا، جس سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی،
آپؐ ہمیں لے کر چلئے۔‘‘ (مسند احمد بن حنبل، ۱؍۳۸۹، رقم الحدیث، ۳۶۹۸، زاد المعاد، ۳؍۱۳۶)
اس کے بعد حضرت مقداد بن
الاسودؓ کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یارسولؐ اللہ! اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو جس کام کا حکم دیا ہے اسے انجام دیں، ہم
آپؐ کے ساتھ ہیں، خدا کی قسم ہم بنی اسرائیل جیسے نہیں ہیں، جنہوں نے حضرت موسیٰ
علیہ السلام سے کہا تھا کہ آپ اور آپ کا رب جا کر لڑیں، ہم تو یہاں بیٹھے ہیں،
ہم تو یہ کہیں گے کہ آپ اور آپ کا رب قتال کریں، ہم بھی آپ کے ساتھ قتال کریں
گے۔یہ الفاظ امام احمد بن حنبلؒ اور حافظ ابونعیم اصبہانیؒ کے ہیں جبکہ بخاری شریف
میں یہ الفاظ ہیں: ’’ہم تو آپ کے دائیں
بائیں اور آگے پیچھے ہو کر لڑیں گے۔‘‘ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ جو اس پورے قصے کے
راوی ہیں کہتے ہیں کہ حضرت مقدادؓ کی یہ بات سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا
چہرۂ مبارک خوشی سے گلنار ہوگیا، آپؐ نے صحابہ کرامؓ کو آگے بڑھنے کا حکم دیا
اور فرمایا کہ تمہارے لئے خوش خبری ہے،
اللہ تعالیٰ نے مجھ سے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ کافروں کی دو جماعتوں میں سے
ایک جماعت کو تمہیں سونپ دے گا، یہ بھی فرمایا کہ مجھے وہ جگہیں دکھلادی گئی ہیں،
جو قوم قریش کے (ہلاک ہو کر) گرنے کی جگہیں ہیں۔ (صحیح البخاری، ۱۲؍۳۴۸، رقم الحدیث ۳۶۵۸) (جاری)
20اگست،2021، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
------------
Related Article
Part:
7- Adjective of Worship مجھے صفت ِ عبدیت زیادہ پسند اور عبد کا لقب زیادہ محبوب ہے
Part: 22- Bani Awf, the Prophet Has Come اے بنی عوف وہ نبیؐ جن کا تمہیں انتظار تھا، تشریف لے آئے
Part:
23- Moon of the Fourteenth Night ہمارے اوپر ثنیات الوداع کی اوٹ سے چودہویں رات کا چاند طلوع
ہوا ہے
Part: 24- Madina: Last Prophet's Abode یثرب آخری نبیؐ کا مسکن ہوگا، اس کو تباہ کرنے کا خیال دل
سے نکال دیں
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism