مولانا ندیم الواجدی
24 ستمبر،2021
مسلمانوں کی مدد کے لئے فرشتوں
کا نزول
قرآن کریم کی آیات اور بدری
صحابہ کرامؓ کی مرویات سے ثابت ہوتا ہے کہ جنگ بدر کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں
کے ذریعے مسلمانوں کی مدد فرمائی۔ دراصل مسلمان اپنی تعداد کی کمی اور بے سرو سامانی
کی وجہ سے کچھ ڈرے ہوئے تھے اور یہ ایک فطری بات تھی، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم
کو بھی اس کا احساس تھا، بدر میں پہنچنے کے بعد آپؐ کا تمام وقت دعا میں گزرا، عریش
(چھپر) میں تشریف فرما ہونے کے بعد بھی آپؐ لگاتار دعا میں مشغول رہے، آپؐ اس وقت
اتنی محویت اور استغراق کے ساتھ دعا مانگ رہے تھے کہ بار بار چادر آپ کے مبارک شانوں
سے ڈھلک کر نیچے گرجاتی تھی، حضرت ابوبکرؓ جو قریب کھڑے ہوئے تھے بہ چشم تر یہ منظر
دیکھ رہے تھے، آپؐ کی چادر بھی بار بار آپؐ کے کاندھوں پر ڈال رہے تھے اور تسلی و
تشفی بھی دے رہے تھے، اسی وقت وحی نازل ہوئی اور آپؐ کو دعا کی قبولیت کا مژدہ سنایا گیا۔ فرمایا:’’یاد
کرو جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے تو اس نے تمہاری فریاد کا جواب دیا کہ میں تمہاری
مدد کے لئے ایک ہزار فرشتوں کی کمک بھیجنے والا ہوں، جو لگاتار آئیں گے۔‘‘ (الانفال:۹)
پھر فرشتے اتارے گئے اور ان
کو اللہ رب العزت کی طرف سے یہ حکم دیا گیا کہ ’’میں تمہارے ساتھ ہوں، اب تم مؤمنوں
کے قدم جمائو، میں کافروں کے دلوں پر رعب طاری کردوں گا، پھر تم گردنوں کے اوپر وار
کرو اور ان کی انگلیوں کے ہر ہر جوڑ پر ضرب لگائو۔‘‘(الانفال:۱۲)
آسمان سے ایک ہزار فرشتے
بدر کے میدان میں اترے اور انہوں نے صحابہ کرامؓ کے ساتھ مل کر جنگ میں حصہ لیا، لیکن
فرشتوں کی جنگ میں شرکت کی نوعیت وہی رہی جو انسانوں کی انسانوں کے ساتھ ہوتی ہے۔یہ
کسی مافوق الفطرت ہستی کی شرکت نہیں تھی، ورنہ ایک فرشتہ ہی کافروں کی پوری فوج کو
تہس نہس کردیتا۔ دراصل یہ جنگ ان تین سو تیرہ صحابہ کی تھی اور انہیں کو یہ جنگ لڑنا
تھی اور غلبہ حاصل کرنا تھا، البتہ چوں کہ اللہ کو ان کی فتح منظور تھی اس لئے ان کی
بے سروسامانی اور قلت تعداد کی بنا پر ایک ہزار فرشتے بھیجے گئے تاکہ وہ مسلمانوں کے
قدم جمائیں اور کہیں ضرورت ہو تو ان کی مدد بھی کریں۔ قرآن میں اس حقیقت کا اظہار
اس طرح فرمایا گیا ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے جنگ
بدر کے موقع پر ایسی حالت میںتمہاری مدد کی تھی جب تم بالکل بے سروسامان تھے۔ ‘‘(آل
عمران:۱۲۳) اردو
کے بعض مترجمین نے اذلۃ کا ترجمہ ’’کمزور‘‘ سے بھی کیا ہے یعنی اس وقت تمہاری مدد کی
جب تم کمزور تھے۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ کہتے
ہیں کہ بدر کے دن ایک انصاری صحابی کسی مشرک کا پیچھا کر رہے تھے کہ اچانک انہیں کوڑا
پڑنے کی آواز سنائی دی، اس کے ساتھ ہی انہوں نے کسی کویہ کہتے ہوئے بھی سنا کہ اے
حیزوم آگے بڑھ، اتنے میں کیا دیکھتے ہیں کہ جس مشرک کاوہ پیچھا کر رہے تھے، وہ منہ کے بل زمین پر گر پڑا
ہے، اس کی ناک ٹوٹ گئی ہے اور چہرا پھٹ گیا ہے، اُن صحابی نے اس حیرت انگیز واقعے کا
ذکر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا۔آپؐ نے فرمایا: تم سچ کہتے ہو، وہ تیسرے
آسمان کا فرشتہ تھا، حیزوم اس کے گھوڑے کا نام ہے۔ (صحیح مسلم، ۹؍۲۱۴، رقم الحدیث ۳۳۰۹)
اس روایت کے راوی بھی حضرت
عبداللہ ابن عباسؓ ہیں کہ جنگ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ سے ارشاد
فرمایا: یہ دیکھو! جبریل گھوڑے کی باگ تھامے ہوئے آرہے ہیں، اس کے اوپر جنگی ساز و
سامان لدا ہوا ہے۔ (صحیح البخاری، ۱۲؍۳۸۹، رقم الحدیث ۳۶۹۴)
اسیرانِ بدر میں حضورؐ کے
چچا حضرت عباس بھی گرفتار کرکے لائے گئے، انہیں ایک انصاری صحابی نے پکڑا تھا، جب انہیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت عالیہ میں پیش کیا گیا تو حضرت عباسؓ نے عرض
کیا: یارسولؐ اللہ! مجھے اس شخص نے گرفتار نہیں کیا، بلکہ ایک ایسے شخص نے پکڑا ہے
جس کے بال دونوں کنپٹیوں کی طرف سے گرے ہوئے تھے اور وہ ایک چتکبرے گھوڑے پر سوار تھا،
اتنا خوب صورت انسان مجھے لوگوں میں کہیں نظر نہیں آیا۔ انصاری صحابی کہنے لگے، یارسولؐ
اللہ! انہیں تو میں پکڑ کر لایا ہوں، آپؐ نے فرمایا: بس چپ کرو، اللہ تعالیٰ نے ایک
بلند مرتبہ فرشتے کے ذریعے تمہاری مدد کی ہے۔ (مسند احمد بن حنبل، ۲؍۴۱۰، رقم الحدیث ۹۰۴)
اسی طرح کا قصہ حضرت دائود
مازنیؓ صحابی کا ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں ایک مشرک کو مارنے کے لئے اس کے پیچھے دوڑ
رہا تھا کہ اچانک اس کا سر تن سے جدا ہو کر زمین پر گر پڑا، حالاںکہ میری تلوار اس
کی گردن تک پہنچی بھی نہیں تھی۔ (مسند احمد بن حنبل، ۴۸؍
۲۹۵، رقم الحدیث ۲۲۶۶۲)
اس طرح کے متعدد واقعات ہیں
جن سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی مدد کرنے اور ان کا حوصلہ بڑھانے کے لئے فرشتے زمین
پر اترے، البتہ انہوںنے جنگ میں براہِ راست شرکت نہیں کی، چند واقعات کو چھوڑ کر باقی
قتال اور قید کے جتنے بھی واقعات ہیں ان میں بنیادی کردار صحابہؓ ہی نے ادا کیا۔
مسجد العریش کا اندرونی حصہ۔
یہ مسجد اس جگہ تعمیر ہوئی ہے جہاں سے غزوہ بدر کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم میدان جنگ کا جائزہ فرمارہے تھے
-----
ابلیس بھی جنگ میں شریک ہوا
شیطان لعین اس فیصلہ کن جنگ
سے خود کو کیسے الگ رکھ سکتا تھا، سو وہ شریک ہوا، بلکہ اس نے تو مکہ مکرمہ سے مشرکین
کے لشکر کی روانگی سے پہلے انہیں خوب بھڑکایا، ان کی ہمت بڑھائی اور انہیں یہ یقین
دلایا کہ میں خود تمہارے شانہ بہ شانہ جنگ میں شرکت کروں گا۔ قرآن کریم نے جنگ میں
ابلیس کی شرکت کی تصدیق کی ہے۔ فرمایا: اور وہ وقت بھی قابل ذکر ہے کہ جب شیطان نے
ان (کافروں) کو یہ سمجھایا کہ ان کے اعمال بڑے خوش نما ہیں اور یہ کہا تھا کہ آج انسانوں
میں کوئی نہیں ہے جو تم پر غالب آسکے اورمیں تمہارا محافظ ہوں، پھر جب دونوں گروہ
آمنے سامنے آئے تو وہ ایڑیوں کے بل پیچھے ہٹا اور کہنے لگا ’’میں تمہاری کوئی ذمہ
داری نہیں لے سکتا، مجھے جو کچھ نظر آرہا ہے وہ تمہیں نظر نہیںآرہا ہے، مجھے اللہ
سے ڈر لگ رہا ہے اور اللہ کا عذاب بڑا سخت ہے۔‘‘
(الانفال:۴۸)
مفسرین لکھتے ہیں کہ جب مشرکین
جنگ کے ارادے سے روانہ ہونے لگے تو انہیں یہ خطرہ لاحق ہوا کہ ان کے پیچھے ان کے گھروں
پر قبیلہ بکر کے لوگ حملہ نہ کردیں، جن سے ان کی پرانی دشمنی چلی آرہی تھی، اس سلسلے
میں مشرکین کے مشورے جاری تھے کہ شیطان قبیلہ بکر کے سردار سراقہ بن مالک کی شکل اختیار
کرکے ان کی مجلس میںآیا اور ان کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے کہنے لگا کہ تم انتہائی طاقت
ور ہو، لڑنے بھڑنے میں ماہر ہو اور تعداد میں بھی بہت ہو، تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا،
اس لئے تم اطمینان سے جائو اور میرے قبیلے کی طرف سے بھی مطمئن رہو، ہمارا کوئی ارادہ
تمہیں نقصان پہنچانے کا نہیں ہے، میں خود تمہارا محافظ ہوں اور تمہارے ساتھ چلوں گا۔
مشرکین سراقہ کی اس بات سے مطمئن ہو گئے، وہ تمام راستے ساتھ رہا اور لوگوں کا حوصلہ
بڑھاتا رہا، جنگ کے دوران بھی اس نے اپنا کام جاری رکھا، لیکن جب جنگ کے میدان میں
اُسے فرشتے نظر آئے تو اس کی روح فنا ہوگئی اور وہ الٹے پیروں بھاگنے لگا، اس وقت
حارث بن ہشام اس سے چمٹا ہوا تھا، سراقہ نے اس کے سینے پر دو ہتڑ مار کر اس کو دھکیلا
اور میدان سے بھاگ کھڑا ہوا، حارث نے چیخ کر کہا: اے سراقہ تم کہاں بھاگے جارہے ہو،
تم تو یہ وعدہ کرکے آئے تھے کہ ہمارے ساتھ رہو گے اور ہمارا ساتھ دو گے، سراقہ (ابلیس)
نے بھاگتے بھاگتے کہا کہ میں وہ دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھ رہے ہو، روایات میں ہے
کہ ابلیس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا، وہ اتنا خوف زدہ تھا کہ فرشتوں کی مار سے بچنے
کے لئے سمندر میں کود گیا۔ بعد میں جب مشرکین میدانِ جنگ سے واپس لوٹے تو انہوں نے
سراقہ سے شکوہ کیا کہ تم نے ہمیں بڑا دھوکہ دیا، سراقہ نے اس پورے واقعے سے انکار کیا
اور کہا کہ نہ میںجنگ سے پہلے تمہاری مجلس میں گیا، نہ میں تمہارے لشکر میں تھا اور
نہ میں نے جنگ میں کوئی حصہ لیا، خدا کی قسم مجھے اس سلسلے میں کچھ بھی معلوم نہیں
ہے۔ (زاد المعاد، ۳؍۱۴۲، تفسیر طبری، ۱۳؍۷، تفسیر ابن کثیر، ۴؍۷۳)
عکاشہؓ کی تلوار اور رفاعہؓ
کا زخم
جنگ بدر کا ہر واقعہ رسول
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حقانیت کی روشن دلیل اور آپ کی پیغمبرانہ بصیرت و عزیمت
کا شاہ کار ہے، اس غزوے میں بہت سے حیرت انگیز واقعات بھی پیش آئے، کئی واقعات گزشتہ
صفحات میں آپ پڑھ بھی چکے ہیں، دو اور ایمان افروز واقعے نذر قارئین ہیں۔
ایک صحابی ہیں حضرت عکاشہ
بن محصنؓ۔ آپ غزوۂ بدر میں شریک تھے اور
لڑتے ہوئے ان کی تلوار ٹوٹ گئی، رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ منظر دیکھا تو انہیں درخت سے ایک شاخ توڑ کردی اور فرمایا
لو، اس سے لڑو۔ انہوں نے وہ شاخ اپنے ہاتھ میں لی اور اسے حرکت دی تو وہ ایک لمبی،
نہایت سفید، چمک دار تلوار بن گئی۔ اس تلوار کے ذریعے وہ غزوۂ بدر میں بھی لڑے اور
بعد میں بھی لڑتے رہے، یہاں تک کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے عہد خلافت میںاسی تلوار کے
ذریعے مرتدین سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔ (سیرت ابن ہشام، ۱؍۶۳۷)
ایک اور صحابی ہیں حضرت رفاعہ
بن رافعؓ، جنگ بدر میں لڑ رہے تھے، دشمن کی طرف سے ایک تیر آیا اور ان کی آنکھ چھوتا
ہوا نکل گیا۔ خود کہتے ہیں کہ میں اپنی آنکھ پکڑے ہوئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
کی خدمت میں حاضر ہوا، آپؐ نے اپنا لعاب دہن میرے زخم پر لگایا، میرے لئے دعا کی،
میری آنکھ کی تکلیف اسی وقت ختم ہوگئی اور بعد میں بھی کبھی تکلیف نہیں ہوئی۔ (البدایہ
والنہایہ، ۲؍۴۴۸)
مشرکین کو شکست فاش
وہی ہوا جو ہونا تھا، جس کی
دعا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی اور جس کا وعدہ اللہ نے کیا تھا، حالاںکہ
کفار و مشرکین کو اپنی تعداد اور قوت و شوکت پر بڑا گھمنڈ تھا، خاص طور پر ابوجہل تو
مسلسل ڈینگیں مارتا رہتا تھا اور یہ دعوے کرتا رہتا تھا کہ ان مٹھی بھر لوگوں کو تو
ہم چیونٹیوں کی طرح مسل کر رکھ دیں گے، لیکن معاملہ اس کے برعکس ہوا، وہ خود چیونٹیوں
کی طرح مسل کر رکھ دئیے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح دی اور دنیا نے دیکھ لیا
کہ فتح و شکست مادی قوت پر منحصر نہیں ہے، خدا چاہے تو کمزور اور نہتے لوگ بھی فاتح
بن سکتے ہیں۔ غزوۂ بدر میں یہی ہوا۔مسلمانوں کے محض چودہ مجاہدین شہید ہوئے،جب کہ
ستر مشرکین مارے گئے،ان میں گیارہ مکہ کے سرغنہ اور سرکردہ لوگ تھے اور یہ وہ لوگ تھے
جو دارالندوہ میں اس لئے جمع ہوئے تھے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے
کی منصوبہ سازی کریں، ابولہب جنگ میں شریک نہیں ہوا، وہ بھی بہت جلدمر گیا۔ اس کو جسم
کے گلنے اور سڑنے کی بیماری لگی، گھر والوں نے بھی اسے بے یار و مددگاراور تنہا مرنے
کے لئے چھوڑ دیا، مرنے کے بعد تین دن تک اس کی لاش یوں ہی پڑی سڑتی رہی، بالآخر کرائے
کے آدمیوں نے اس کو کسی گڑھے میں پھینک کر اس پر مٹی ڈالی، اس جنگ میں ستر افراد قید
ہوئے، باقی فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔
شہداء بدر
کے اسمائے گرامی
چودہ شہدائے بدر میں سے چھ
مہاجرین تھے اور آٹھ انصار، ان تمام حضرات کے اسماء گرامی یہ ہیں:
مہاجرین: (۱)عُبیدۃُ بن الحارِث (۲)عمیر بن ابی وقّاص (۳)ذو الشِّمالین بن عَبدْ عَمر
بن نَضْلۃ (۴)عَاقل
بن الکُبیر (۵)مِھْجَع
مولی عمرو بن الخطاب (۶)صَفوان
ابن بیضاء۔
انصار : (۱)سعد بن خَیْثَمہ (۲)مُبَشّر بن عبدالمُنْذِر بن
زَنْبر (۳)یزید
بن الحارث (۴)عمیرو
بن الحمام(۵)رافع
بن المُعلّی (۶)حارثہ
بن سُراقہ بن الحارث (۷)مُعَوِّذ
بن الحارث (۸)عَوف
بن الحارث رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین۔
ان سب حضراتِ شہداء کو مقامِ
بدر ہی میں ایک اونچی سی جگہ پر دفن کردیا گیا۔ فی الحال یہ ایک بڑا قبرستان ہے، اسے
قد آدم سے بھی زیادہ اونچی دیواروں سے گھیر دیا گیا ہے، زائرین میں سے کوئی اندر نہیں
جاسکتا، جھانکنے کی بھی کوئی صورت نہیں ہے۔ راقم کو اس مقام کی زیارت کا شرف حاصل ہوا
ہے، دیوار کے ایک کونے میںکسی نے چند اینٹیں اوپر نیچے کر کے رکھی تھیں، ان پر کھڑے
ہو کر میں نے پورے احاطے پر نظر ڈالی اور اپنی آنکھیںٹھنڈی کیں، کافی فاصلے پر مٹی
کا بڑا سا ڈھیر نظر آیا، اسی ڈھیر کے نیچے شہدائِ اسلام ابد تک کے لئے سوئے ہوئے ہیں،
پوری بستی میں ایک عجیب طرح کی سکینت اور عجیب طرح کا نور محسوس ہوتا ہے، خاص طور پر
اس جگہ کی نورانیت اور روحانیت کا کیا کہنا جہاں شہداء بدر مدفون ہیں۔ مدینہ منورہ
کے ایک بہت ہی معتبر شخص نے بتلایا کہ آج بھی بدرمیں کبھی کبھی راتوں کے سکوت میںگھوڑوں
کی ٹاپیں سنی جاتی ہیں۔ (جاری)
24 ستمبر،2021، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
Related Article
Part:
7- Adjective of Worship مجھے صفت ِ عبدیت زیادہ پسند اور عبد کا لقب زیادہ محبوب ہے
Part: 22- Bani Awf, the Prophet Has Come اے بنی عوف وہ نبیؐ جن کا تمہیں انتظار تھا، تشریف لے آئے
Part:
23- Moon of the Fourteenth Night ہمارے اوپر ثنیات الوداع کی اوٹ سے چودہویں رات کا چاند طلوع
ہوا ہے
Part: 24- Madina: Last Prophet's Abode یثرب آخری نبیؐ کا مسکن ہوگا، اس کو تباہ کرنے کا خیال دل
سے نکال دیں
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism