مولانا ندیم الواجدی
17 ستمبر،2021
ابوجہل کے قتل کے سلسلے
میں دو روایتیں او ربھی ہیں،ایک روایت میں یہ ہے کہ ابوجہل کو معاذبن عفراؓء او
رمعاذ بن عمر بن جموحؓ نے قتل کیا۔ معاذ بن عمر بن جموح نے اس کے قتل کی تفصیل بھی
بیان کی ہے کہ انہوں نے ابوجہل کی پنڈلی پر زور سے تلوار ماری،جس سے اس کی ٹانگ کٹ
گئی اور وہ زمین پر گر گیا، ابوجہل کے بیٹے عکرمہ نے یہ منظر دیکھا تو تیزی سے آیا
اور معاذ بن عمر بن جموحؓ کے کاندھے پر زور سے تلوار ماری، اس کی ضرب سے معاذ کا
بازو کٹ کر لٹک گیا، مگر وہ اسی حال میں لڑتے رہے، جب لٹکا ہوا بازو زیادہ تکلیف
دینے لگا تو انہوں نے ایک جھٹکے سے وہ بازو اپنے کاندھے سے الگ کر کے پھینک دیا
اور جب تک جنگ جاری رہی، وہ اسی طرح لڑتے رہے۔(سیرت ابن ہشام، 635/1) دوسری روایت
حضرت انس بن مالک ؓ کی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ بدر کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا: کوئی ہے جو جاکر دیکھے او رآکر بتلائے کہ ابوجہل کا کیا حال
ہوا ہے؟ یہ سن کر حضرت عبداللہ بن ابن مسعودؓ میدان میں گئے، دیکھا ابوجہل زمین پر
گرا پڑا ہے او رسسک رہا ہے، اس کو اس حال پر عفراء کے دونوں بیٹوں نے پہنچایا تھا۔
حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ فرماتے ہیں: میں نے ابوجہل کی داڑھی پکڑ کر کھینچی او راس
کے سینے پر پیر رکھ کر کہا: اے دشمن خدا! اللہ تجھے رسوا کرے اور ذلت سے ہم کنار
کرے۔ابوجہل نے آنکھیں کھولیں او رکہنے لگا کہ اے بکریوں کے چرانے والے، تو نہایت
بلند مقام (میرے سینے) پر بیٹھا ہوا ہے۔ میں نے کہا تمام تعریفیں اس ذات پاک کے
لئے ہیں جس نے مجھے تیرے سینے پر چڑھ کر بیٹھنے کی قدرت عطا کی۔ اس نے پوچھا: کون
غالب رہا؟ میں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم غالب رہے۔اس نے
کہا:اب تیرا کیا ارادہ ہے؟ میں نے کہا: تیرا سر قلم کروں گا۔کہنے لگا: یہ میری
تلوار لے، اس سے میرا سر دھڑ سے جدا کرنا،یہ بہت تیز ہے۔ اس سے تیرا مقصود بھی
پورا ہوگا اور میری سرشانوں کے پاس سے کاٹنا تاکہ دیکھنے والوں کی ہیبت ناک معلوم
نہ ہو او رمحمد سے کہنا کہ میرے دل میں گزشتہ دنوں کی بہ نسبت آج تمہارے لئے بغض
اور عداوت زیادہ ہے، اس کے بعد میں نے اس کاسرقلم کیا اور اسے لے کر رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ڈال
دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوجہل کا کٹا ہوا سر دیکھ کر پہلے اللہ تعالیٰ کی
حمدو ثنا بیان کی، پھر فرمایا: ”ھذا فرعون ھذہ الامۃ“ یہ اس امت کا فرعون
تھا۔(مسند امام احمد بن حنبل، 60/9، رقم الحدیث 4025، صحیح السیرۃ النبویہ، ص:
242)
اب سوال یہ پیدا ہوتاہے
کہ آخر نام نہاد ابوجہل کو قتل کرنے کا شرف کس نے حاصل کیا؟ اس سلسلے میں شارحین
حدیث نے مختلف روایات کے درمیان جمع و تطبیق سے کام لیا ہے، چنانچہ مشہور شارح
بخاری حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ معاذ بن عفراءؓ او رمعوّذ بن عفراءؓ نے
ابوجہل پر ایک ساتھ حملہ کیا او راسے شدید طور پر زخمی کردیا، پھر معوذ بن عمر و
بن جموحؓ ادھر سے گزرے، انہوں نے ابوجہل پر زبردست وار کیا او راسے ڈھیر کردیا، یہ
لوگ اسے مردہ سمجھ کر واپس ہوگئے،لیکن وہ زندہ تھا، حضرت عبداللہ بن مسعو دؓ اس کا
حال جاننے کے لئے قتل گاہ میں آئے تو اس وقت تک اس میں زندگی کی رمق باقی تھی۔
انہوں نے اس سے بات بھی کی، اس حالت میں بھی اس کی انانیت اور سرکشی برقرار تھی۔
عبداللہ بن مسعودؓ اس کا سر کاٹ کر لے گئے۔(فتح الباری،296/7) شارح مسلم امام
نوویؒ لکھتے ہیں کہ معاذبن عفراءؓ، معوذبن عفراءؓ اور معاذ بن عمرؓ و بن جموح
تینوں ابوجہل پر حملہ کرنے میں شریک تھے۔ زیادہ مہلک وار معاذ بن عمرؓو نے کیا، اس
لئے مقتول کی زرہ انہیں دی گئی۔عبداللہ بن مسعودؓ نے اس کا سر تن سے جدا کیا، اس
لئے ا س کی تلوار انہیں دی گئی۔ (شرح مسلم للنووی،63/12) حافظ ملا علی قاریؒ کی
بھی یہی رائے ہے کہ زیادہ کاری وار حضرت معاذ بن عمرؓو نے کئے۔ سرکار دو عالم صلی
اللہ علیہ وسلم نے ان کی تلوار پر لگے خون کی کیفیت دیکھ کر یہ اندازہ لگا لیا تھا
کہ ابوجہل معاذ بن عمروؓ کی ضرب سے اس حال کو پہنچا ہے، اسی لئے انہیں مقتول کی زرہ
انعام دی گئی، دوسرے بہت سے محدثین نے بھی ا س کی صراحت کی ہے۔ (عمدۃ القاری،
66/15، المستدرک للحا کم، 281/13، رقم الحدیث 5824، مسند احمد، 95/4، رقم الحدیث،
5824)
اُمیہ بن خلف او را س کے
بیٹے کا انجام
بدر کے دن مسلمان کفار
ومشرکین کو چن چن کر قتل کررہے تھے، یہ صورت حال دیکھ کر مکہ کے اشراف جو اپنے وطن
میں فرعون او رنمرود بنے رہتے تھے سراسیمگی کی حالت میں ادھر ادھر بھاگے پھررہے
تھے، انہی میں امیہ بن خلف او راس کا بیٹا علی بن امیہ بھی تھے، یہ دونوں بھی جان
بچا نے کے چکر میں پریشان پھر رہے تھے، اچانک حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ پر ان کی
نظر پڑ گئی، وہ اس وقت مقتولین کی زر ہیں نکال کر لے جارہے تھے، امیہ نے انہیں
آواز دے کر بلایا اورکا کہ اے ابن عوف، ان زرہوں کے چکر میں مت پڑو، ہم تمہارے لئے
ان زرہوں سے بہتر ہیں، اس کا مقصد یہ تھا کہ تم زرہیں پھینک دو او رہمیں قیدی بنا
کر لے چلو، اس طرح ہم قتل ہونے سے بچ جائینگے او رتمہیں فدیہ مل جائے گا، جو ان
زرہوں سے کہیں زیادہ بہتر ہوگا۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ مکہ مکرمہ میں امیہ کے
دوست تھے، وہ کہتے ہیں ہم دونوں نے کسی وقت میں یہ معاہدہ بھی کیا تھا کہ وہ مکہ
مکرمہ میں ان کی حفاظت کرے گا اور میں مدینہ منورہ میں اس کی جان بچاؤں گا۔ اس لئے
جب اس نے مجھ سے فریاد کی تو میں نے زرہیں پھینک دیں او ران دونوں کا ہاتھ پکڑ
لیا۔
حضرت بلالؓ بھی وہیں کہیں
موجود تھے، انہوں نے دیکھا کہ امیہ اور اس کا بیٹا علی: عبدالرحمٰن بن عوفؓ کے
ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر جارہے ہیں تو و ہ چیخ اٹھے، برادران انصار ادھر آؤ،یہ دیکھو
امیہ کو، اگر آج یہ بچ گیا تو میری خیر نہیں۔حضرت بلال ؓ کے اس قدر غضب ناک ہونے
کی وجہ یہ تھی کہ مکہ مکرمہ میں حضرت بلالؓ اسی کے غلام تھے، اسلام لانے کی پاداش
میں وہ ان پر ظلم ڈھاتا تھا یہاں تک کہ انہیں چلچلاتی دھوپ میں گرم ریت پر لٹا
دیتا تھا اور ان سے ترکِ اسلام کا مطالبہ کرتا رہتا تھا، مگر حضرت بلالؓ صبر و
استقامت کے ساتھ یہ ظلم سہتے او راحد احد کہتے رہتے، آج اسے اس حال میں دیکھا تو
اس وقت کے سارے مناظر ان کی نگاہوں کے سامنے آگئے جب امیہ ایک خون خوار اور وحشی
درندے کے طرح ان کو اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا کرتاتھا۔ عبدالرحمٰن بن عوف ؓ
کے ساتھ انہیں دیکھ کر وہ انصار کو مدد کیلئے پکار تے ہوئے آگے بڑھے، عبدالرحمٰن
بن عوفؓ نے دہائی دی کہ ان لوگوں پر حملہ نہ کرو، یہ اس وقت میری قیدی ہیں، مگر
انہوں نے ایک نہ سنی،یہی کہتے رہے کہ اگر آج یہ بچ گیا تو میری خیر نہیں۔ سب نے مل
کر دونوں باپ بیٹوں پر حملہ کردیا۔ اس طرح حضرت بلالؓ جو ایک کمزور غلام تھے اپنے
وقت کے مغرور متکبر او رانتہائی طاقتور انسان سے اپنا بدلہ لینے میں کامیاب
ہوگئے۔(صحیح البخاری، 8/87، رقم الحدیث 1237، البدایہ و النہایہ، 5/132)
عبیدۃ بن سعید العاص کا
قتل
اس شخص کو حضرت زبیر بن
العوامؓ نے کیفر کردار تک پہنچایا، یہ شخص بدر والے دن سر سے پاؤں تک لوہے میں
چھپا ہوا تھا، اس کی صرف آنکھیں نظر آرہی تھیں، اپنے اس لباس میں وہ پہچانا بھی
نہیں جارہا تھا، گھمنڈ میں آکر کہنے لگا میں ابوذات الکرش ہوں،یہ اس کی کنیت تھی،
حضرت زبیرؓ کہتے ہیں کہ میں نے تاک لگا کر اس کی آنکھ میں نیزہ مارا، میرا نیزہ اس
کی آنکھ میں گڑ گیا اور وہ مر گیا، پھر میں نے اپنا نیزہ نکالنا چاہا تو وہ اندر
تک گڑا ہوا تھا۔ میں نے پورا زور لگا کر اسے نکالا، نیزہ تو نکل گیا مگر طاقت
لگانے کی وجہ سے اس کے کنارے مڑگئے، بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ
سے وہ نیزہ بہ طور یادگار اپنے پاس رکھنے کیلئے طلب فرمایا، میں نے پیش کردیا۔ آپ
صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد وہ نیزہ حضرت ابوبکرؓ کے پاس
رہا، ان کے بعد حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، اور حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ نے
اپنے اپنے دور خلافت میں اس نیزے کو جنگ بندر کی یادگار کے طور پر اپنے پاس رکھا۔
(صیحح البخاری 12/392، رقم الحدیث 3697)
جنگ میں رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کی شرکت
جس وقت جنگ زوروں پر تھی
او راسلام کے شیر مشرکین پر تابڑ توڑ حملے کررہے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
حضرت ابوبکرؓ کو ساتھ لے کر میدان بدر میں تشریف لے آئے اور صف اعداء پر بڑھ بڑھ
کر حملے کرنے لگے، حضرت علی کرم اللہ وجہہؓ فرماتے ہیں کہ جنگ بدر کے شدید لمحات
میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اوٹ لے رہے تھے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ
وسلم اس قدر بے جگری سے لڑرہے تھے کہ بعض اوقات مشرکین کے حملوں سے بچنے کیلئے ہم
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چلے جاتے تھے۔ (مسند امام احمد بن حنبل،2/125،رقم
الحدیث 619)(جاری)
مٹھی بھر سنگ ریزے او
رمٹی
عین اس وقت جب جنگ پورے
شباب پر تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم دعا او رمناجات سے فارغ ہوکر میدان جنگ میں تشریف لائے اور وہاں سے
تھوڑی سی خاک او رکچھ سنگ ریزے اٹھا کر شاہت الوجوہ پڑھتے ہوئے دشمن کی طرف
پھینکے، اللہ تعالیٰ نے وہ کنکر یاں دشمنوں میں سے ہر ایک کی آنکھ میں ڈال دیں، جس
سے ان میں افراتفری مچ گئی۔ قرآن کریم میں اس واقعے کی طرف مندرجہ ذیل آیت کریمہ
کے ذریعے اشارہ کیا گیا ہے:”(اے پیغمبر) جب تم نے اس پر مٹی پھینکی تھی تو وہ آپ
نے نہیں بلکہ اللہ نے پھینکی تھی۔“ (الانفال:17) حقیقت یہ ہے کہ اللہ اگر چاہتا تو
خود بھی ان کی آنکھوں میں دھول مٹی اور کنکر ڈال کر انہیں ناکارہ بنا سکتا تھا،
لیکن ا س نے یہ کام خود نہیں کیا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک سے
کرایا، حالانکہ وہ چاہتا تو اپنے دشمنوں کو اپنی قدرت سے خود بھی ہلاک کرسکتا تھا
مگر اس کا دستور یہ ہے کہ وہ تکوینی امور بھی کی ظاہری سبب کے ذریعے انجام دلواتا
ہے او ریہاں مسلمانوں کو اس لئے ذریعے انجام دلواتا ہے او ریہاں مسلمانوں کو اس
لئے ذریعہ بنایا گیا کہ ان کو اجر و ثواب حاصل ہو، دوسرے وہ کافروں کو بھی یہ
دکھانا چاہتا تھا کہ جن سازشوں او روسائل پر انہیں ناز ہے وہ سب ان لوگوں کے
ہاتھوں خاک میں مل سکتے ہیں جنہیں تم کمزور سمجھتے ہو۔ آیت مذکورہ کے باقی حصے میں
پہلی وجہ بیان کی گئی ہے کہ اہل ایمان کو اجر و ثواب حاصل ہو او را س سے اگلی آیت
میں یہ بتلایا گیا ہے کہ کافروں کی ساری تدبیریں اور ساری سازشیں تارعنکبوت کی طرح
بکھر نے والی ہیں۔ (آسان ترجمہ و تفسیر توضیح القرآن، 1/527) (جاری)
17 ستمبر،2021، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
Related Article
Part:
7- Adjective of Worship مجھے صفت ِ عبدیت زیادہ پسند اور عبد کا لقب زیادہ محبوب ہے
Part: 22- Bani Awf, the Prophet Has Come اے بنی عوف وہ نبیؐ جن کا تمہیں انتظار تھا، تشریف لے آئے
Part:
23- Moon of the Fourteenth Night ہمارے اوپر ثنیات الوداع کی اوٹ سے چودہویں رات کا چاند طلوع
ہوا ہے
Part: 24- Madina: Last Prophet's Abode یثرب آخری نبیؐ کا مسکن ہوگا، اس کو تباہ کرنے کا خیال دل
سے نکال دیں
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/prophet-muhammad-handful-panic-part-50/d/125401
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism