مولانا ندیم الواجدی
10 ستمبر ، 2021
لشکروں کی صف بندی
جب تمام صفیں درست ہوگئیں
تو آپ اپنے رفیق و صدیق حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ہمراہ اس چھپر میں تشریف لے گئے جو
ایک اونچے ٹیلے پر آپؐ کے لئے بنا دیا گیا تھا، وہاں جاکر آپؐ نے دعا کے لئے
ہاتھ اٹھادئیے اور یہ دعا فرمائی:’’ اے اللہ تو نے مجھ سے فتح و نصرت کا جو وعدہ
کیا ہے اسے پورا فرما، اے اللہ! اگر مسلمانوں کی یہ جماعت ہلاک ہوگئی تو روئے زمین
پر قیامت تک کوئی تیری عبادت کرنے والا نہیں ہوگا۔‘‘ (صحیح مسلم، ۹؍۲۰۴، رقم الحدیث ۳۳۰۹)
جنگ کا میدان گرم ہوگیا،
دونوں طرف سے تیر و تفنگ کی بارش ہونے لگی، فضا میں تلواریں چمکنے لگیں، گھوڑوں کی
ہنہناہٹ سے فضائے بدر گونجنے لگی، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ
بارگاہِ الٰہی میں اٹھے ہی رہے، آپؐ رو رہے تھے، گڑگڑا رہے تھے، آپؐ پر بے خودی
کی سی کیفیت طاری تھی، یہاں تک کہ جو چادر آپؐ نے زیب تن فرمارکھی تھی وہ بار بار
شانوں سے سرک رہی تھی، حضرت ابوبکر صدیقؓ جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہی
کھڑے ہوئے تھے بار بار آپؐ کے شانے ڈھانپ رہے تھے اور یہ کہتے جارہے تھے: بس
کیجئے حضورؐ! آپؐ کے رب نے آپؐ کی بات سن لی ہے، اس نے آپؐ سے جو وعدہ کیا ہے
وہ ضرور پورا کرے گا۔ اسی حالت میں آپؐ پر ہلکی سی نیند طاری ہوگئی، صحابہؓ کو
بھی کچھ لمحوں کے لئے اونگھ آگئی، پھر آپؐ نے اپنا سر اٹھاکر ارشاد فرمایا: اے
ابوبکرؓ! خوش ہوجائو، یہ جبریلؑ اپنے گھوڑے کی باگ تھامے آچکے ہیں، اس کے سامنے
والے دانتوں پر دھول لگی ہوئی ہے، ایک روایت میں حضرت عبداللہ ابن عباسؓ سے یہ
الفاظ مروی ہیں کہ ان کے گھوڑے پر جنگی ساز و سامان لدا ہوا ہے۔ (صحیح البخاری،۱۲؍۳۸۹، رقم الحدیث ۳۶۹۴، سیرت ابن ہشام، ۱؍۶۲۶)
اس سے پہلے بھی اونگھ کا
ذکر آیا ہے، ہم نے ایک آیت کا بھی حوالہ دیا ہے،جس میں نُعاس (اونگھ) اور بارانِ
رحمت دونوں کا ایک ساتھ ذکر ہے، اس سے ایسا لگتا ہے کہ میدان جنگ میں اترنے سے قبل
بارش بھی ہوئی جس سے ریتیلی زمین سخت ہوگئی اور پائوں جمنے لگے اور کچھ نیند بھی طاری ہوئی
جس سے دلوں کی وحشت اور خوف دور ہوگیا، بہ ظاہر یہ واقعہ جنگ سے پہلے کا ہے، اس کی
تائید حضرت علیؓ کی روایت سے بھی ہوتی ہے کہ تمام لوگ سکون کی نیند سوئے۔ بخاری کی
روایت میں عین حالت جنگ میں بھی اونگھ کا ذکر ہے، ہو سکتا ہے دو مرتبہ اونگھ طاری
ہوئی ہو، اور یہ بھی ممکن ہے کہ بارش جنگ سے پہلے ہوئی ہو اور اونگھ جنگ کے دوران
آئی ہو۔
قریش کو جنگ سے روکنے کی
ایک اور کوشش
جب دونوں طرف کی فوجیں
میدانِ بدر میں ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوگئیں تو ابوجہل نے عمیر بن الوہب
الجہنی سے کہا کہ وہ میدان کا ایک چکر لگائے اور دیکھے کہ مسلمانوں کی تعداد کتنی
ہے؟ وہ شخص اپنے گھوڑے پر بیٹھ کر مسلمانوں کی طرف آیا اور ایک چکر لگا کر واپس
چلا گیا، اپنے لشکر میں واپس جا کر اس نے بتلایا کہ ان کی تعداد تین سو کے آس پاس
ہے۔ ان کے پاس ستر اونٹ اور دو گھوڑے ہیں، میں دور تک دیکھ کر آرہا ہوں، پیچھے
بھی کوئی نہیں ہے، نہ کوئی چھپا ہوا ہے اور نہ کوئی گھات لگائے بیٹھا ہے۔ بس جو
کچھ ہیں یہی ہیں، مگر اے قریش! میں ایک بات کہنا چاہتا ہوں کہ یثرب کی اونٹنیاں
موت کو ڈھوئے پھر رہی ہیں، اُن کے پاس ان کی تلواروں کے سوا کچھ نہیں ہے اور نہ ان
کے پاس کوئی جائے پناہ ہے، کیا تم نہیں دیکھ رہے ہو کہ وہ خاموشی کے ساتھ جنگ کے
منتظر ہیں، وہ بول نہیں رہے ہیں، خدا کی
قسم ان میں سے کوئی شخص اس وقت تک قتل نہیں ہوگا جب تک وہ ہمارے کسی آدمی کو ہلاک
نہیں کردے گا، اگر تم اتنے ہلاک ہوجائو جتنے وہ لوگ ہیں تو پھر اس کے بعد تمہاری زندگی
کا کیا حال ہوگا۔ (البدایہ والنہایہ،۳؍۳۲۹، تہذیب سیرۃ بن ہشام، ۱؍۱۹۵)
جنگ کا آغاز
کہاں تو عتبہ ابن ربیعہ
کا یہ حال تھا کہ وہ ابوجہل کو جنگ سے باز رہنے کی نصیحت کر رہا تھا اور ایک سرخ
اونٹ پر سوار ہو کر مشرکین کے لشکر میں تقریر کرتا پھر رہا تھا اور کہاں یہ حال کہ
وہ مشرکین کی پہلی صف میں تھا اور سب سے پہلے وہی مقابلے کے لئے نکلا۔ دراصل
ابوجہل نے اسے اس قدر عار دلائی کہ وہ جنگ میں خود کو شرکت سے باز نہ رکھ سکا،
حالاں
کہ وہ یہ جانتا تھا کہ جو کچھ ہورہا ہے غلط ہورہا ہے
اور یہ جنگ قریش کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہونے والی ہے۔
بہرحال دونوں طرف کی
فوجیں کچھ فاصلے سے صفیں بنا کر کھڑی ہیں، اتنے میں عتبہ ابن ربیعہ اپنے بھائی
شیبہ ابن ربیعہ اور بیٹے ولید بن عتبہ کو لے کر لشکر کفار سے نکل کر مسلمانوں کے
سامنے آیا اور للکار کر کہنے لگا کہ پہلے ہم سے مقابلہ کرو، اگر کوئی ہے تو سامنے
آئے، اس کے جواب میں تین انصاری نوجوان عبداللہ ابن رواحہ، عوف بن عفراء اور
معوّذ بن عفراء اہل اسلام کی صفوں سے نکل کر ان کے سامنے آگئے۔ عتبہ نے پوچھا تم
کون ہو؟ عبداللہ اور دیگر نے جواب دیا ہم انصار سے تعلق رکھتے ہیں، کہنے لگا ہمیں
اپنے برابر کے لوگ چاہئیں، ہمارے بھائی بھتیجوں کو بھیجو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم ٹیلے سے یہ منظر دیکھ رہے تھے، آپؐ نے ان تینوں کو واپسی کا حکم دیا اور
آواز لگائی اے عبیدہ بن الحارثؓ اٹھو، اے حمزہؓ اٹھو، اے علیؓ اٹھو، آپؐ کی
آواز سنتے ہی یہ تینوں حضرات صحابہؓ عتبہ وغیرہ کے سامنے آکر کھڑے ہوگئے، اب
مقابلہ برابری کا تھا، یہ بھی قریش سے تعلق رکھتے تھے اور وہ بھی قریش کے تھے،
عمروں میں بھی برابری تھی، عتبہ بوڑھا تھا، اس کے مقابلے میں عبیدہ بن الحارثؓ
آئے جن کی عمر اس وقت پینسٹھ برس کی تھی، حضرت حمزہ ستاون سال کے تھے، شیبہ ان کے
ہم عمر رہا ہوگا۔ حضرت علی پچیس برس کے جوان تھے۔ عتبہ کا بیٹا ولید بھی جوان
العمر تھا، ان تینوں حضرات نے اپنے چہرے اور سر ڈھانپ رکھے تھے، عتبہ نے پوچھا تم
کون ہو؟ انہوں نے اپنے نام بتلائے، کہنے لگا ہاں اب ٹھیک ہے، تم ہماری ٹکر کے ہو۔اس
کے بعدمقابلہ شروع ہوا، حضرت عبیدہ بن الحارثؓ نے عتبہ پر حملہ کردیا، حضرت حمزہؓ
شیبہ پر پل پڑے اور حضرت علیؓ ولید کو لپٹ گئے، تینوں حضرات نے اپنے اپنے حریف پر
جلدی ہی قابو پالیا، شیبہ کا تو ایک ہی وار میں کام تمام ہوگیا، ولید کو بھی
سنبھلنے کا موقع نہ ملا، وہ بھی حضرت علیؓ کے حملوں کی تاب نہ لا کر ڈھیر ہوگیا۔
حضرت عبیدہ کا حملہ بھی زبردست تھا، مگر عتبہ بن ربیعہ بھی کم نہ تھا، اس کی شمشیر
زنی مشہور تھی، ان دونوں میں دیر تک مقابلہ جاری رہا، دونوں کے بدن لہو لہان
ہوگئے، آخر حضرت عبیدہؓ زخموں سے چور ہو کر گر گئے۔ حضرت حمزہؓ اور حضرت علیؓ نے
انہیں گرتے ہوئے دیکھا، تیزی کے ساتھ عتبہ کی طرف لپکے اور چشم زدن میں اس کا کام
تمام کردیا۔ لوگ حضرت عبیدہؓ کو اٹھا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے
گئے، ان کا پورا جسم زخموں سے چھلنی تھا، انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا میں شہید ہوں؟ آپؐ
نے فرمایا: ہاں تم شہید ہو۔ یہ سن کر وہ مطمئن ہوگئے اور انہوں نے ہمیشہ ہمیش کے
لئے اپنی آنکھیں بند کرلیں۔ (مسند احمد بن حنبل، ۲؍۴۱۰، رقم الحدیث ۹۰۴، الکامل فی التاریخ، ۱؍۲۸۴)
جنگ زور پکڑ گئی
اس انفرادی مقابلے کے بعد
گھمسان کا رن پڑنے لگا، تلواریں چمکنے لگیں، تیر برسنے لگے، پہلا تیر جو دشمن کی
طرف سے چلایا گیا وہ حضرت عمر بن الخطابؓ کے آزاد کردہ غلام حضرت مِھْجَعْ کے
لگا، وہ شہید ہوگئے۔ حضرت حارثہ بن سراقہ انصاریؓ حوض سے پانی پی رہے تھے ایک تیر
ان کے لگا، وہ بھی شہید ہوگئے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بہادر جوانوں کو
جوش دلا رہے تھے اور فرما رہے تھے: اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے جو
شخص آج کے دن ان مشرکوں کا مقابلہ کرے گا، حوصلے اور صبر کے ساتھ لڑے گا اور پیٹھ
نہیں پھیرے گا، اللہ تعالیٰ اسے جنت عطا فرمائیں گے۔ ایک صحابی جن کا نام حضرت
عمیربن ہمامؓ تھا، مجاہدین کی آخری صف میں تھے، وہ اس وقت اپنے تھیلے سے کھجوریں
نکال نکال کر کھا رہے تھے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنی تو
عرض کیا: یارسولؐ اللہ! کیا میں آگے بڑھ کر لڑنے والوں میں شامل ہو سکتا ہوں اور
جنت کا حق دار بن سکتا ہوں؟ آپ نے ارشاد فرمایا: ہاں تم جنت کے مستحق ہوسکتے ہو۔
یہ سن کر انہوں نے اپنے شانے سے تھیلا اتار کر پھینکا اور یہ کہتے ہوئے دشمن
کی طرف بڑھے کہ میرے اور جنت کے درمیان اتنا فاصلہ ہے کہ میںشہید ہوجائوں، وہ
دشمنوں کی صف میں گھس گئے اور کئی لوگوں کو ڈھیر کرنے کے بعد شہید ہوگئے۔ (مصنف
ابن ابی شیبہ، ۸؍۳۲۹، صحیح البخاری، ۹؍۳۸۱، رقم الحدیث ۲۵۹۸، صحیح مسلم، ۹؍۵۰۰، رقم الحدیث ۳۵۲۰)
ابوجہل مارا گیا
جنگ اپنے شباب پر تھی،
ادھر دو کم عمر نوجوان ابوجہل کی تلاش میں سرگرداں تھے، وہ چاہتے تھے کہ یہ بدبخت
انسان ان کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچے۔صحابیٔ رسول حضرت عبدالرحمٰنؐ بن عوفؓ
کہتے ہیں کہ بدر کے دن مَیں جنگ کے میدان میں تھا، میں نے
دو نوجوانوں کو دیکھا، ان میں سے ایک میرے بائیں جانب اور دوسرا دائیں جانب تھا،
ایک کا نام مُعاذ اور دوسرے کا نام مُعَوِّذ تھا، دونوں عفراء کے بیٹے تھے، ان میں
سے ایک مجھ سے کہنے لگا: چچان جان! کیا آپ ابوجہل کو پہچانتے ہیں، میں نے کہا:
ہاں! میں اسے اچھی طرح پہچانتا ہوں، مگر تمہیں اس سے کیا کام ہے؟ کہنے لگا: میں نے
سنا ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کو برا کہتا ہے، اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان
ہے اگر وہ مجھے مل جائے تو اس سے پہلے کہ وہ میری نظروں سے اوجھل ہو میں اس کا قصہ
تمام کردوں، ان کا یہ شوقِ شہادت اور جذبۂ جہاد دیکھ کر میری تمنا ہوئی کاش یہ
دونوں میرے قریب ہی رہیں، اتنے میں مجھے ابوجہل نظر آیا جو لوگوںمیں گھومتا پھر
رہا تھا، میں نے ان دونوں سے کہا: لو دیکھو، تمہارا شکار۔ اتنا سنتے ہی دونوں تیر
کی طرح نکلے اور تلوار سے اس پر ایسی کاری ضرب لگائی کہ وہ وہیں ڈھیر ہوگیا۔ (صحیح
البخاری، ۱۰؍۳۹۳، رقم الحدیث ۲۹۰۸)(جاری)
10 ستمبر ، 2021 ،
بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
Related Article
Part:
7- Adjective of Worship مجھے صفت ِ عبدیت زیادہ پسند اور عبد کا لقب زیادہ محبوب ہے
Part: 22- Bani Awf, the Prophet Has Come اے بنی عوف وہ نبیؐ جن کا تمہیں انتظار تھا، تشریف لے آئے
Part:
23- Moon of the Fourteenth Night ہمارے اوپر ثنیات الوداع کی اوٹ سے چودہویں رات کا چاند طلوع
ہوا ہے
Part: 24- Madina: Last Prophet's Abode یثرب آخری نبیؐ کا مسکن ہوگا، اس کو تباہ کرنے کا خیال دل
سے نکال دیں
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/allah-fulfill-promise-victory-part-49/d/125347
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism