مولانا ندیم الواجدی
29 اکتوبر،2021
حضرت فاطمہ ؓ اور حضرت
علیؓ کا نکاح:
غزوۂ بدر کے بعد رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سب سے چھوٹی اور سب سے لاڈلی بیٹی حضرت فاطمہؓ کا
نکاح اپنے چچا زاد بھائی حضرت علیؓ بن أبی طالب سے کیا۔ اس مبارک نکاح کا ایک
طویل قصہ ہے جسے اختصار کے ساتھ بیان کیا جارہا ہے، اس کے راوی خو د حضرت علی کرم
اللہ وجہہ ہیں۔ فرماتے ہیں:
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فاطمہؓ کے لئے پیغامات
آنے لگے، میری ایک آزاد کردہ باندی نے مجھ سے کہا کہ آپ فاطمہؓ کے لئے پیغام
کیوں نہیں دیتے، میں نے جواب دیا، بھلا میرے پاس کیا رکھا ہے، میں شادی کس طرح
کرسکتا ہوں، کہنے لگی آپ ضرور جائیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فاطمہؓ
کے لئے درخواست کریں، مجھے یقین ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی
درخواست ضرور منظور کرلیں گے۔ میں پس وپیش میں رہا، وہ میری ہمت بڑھاتی رہی اور مجھے
اکساتی رہی، اس کے بے حد اصرار پر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں
حاضر ہوگیا، مگر آپ کی شخصیت کا رعب اور ہیبت اس قدر تھی کہ میں کچھ نہ بول سکا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے خاموش دیکھ کر پوچھا: اے علی کیسے آنا ہوا،
کیا تمہیں کوئی کام ہے؟ میں چُپ بیٹھا رہا، آپؐ نے پھر پوچھا، میں تب بھی خاموش
رہا، پھر آپؐ نے فرمایا: کیا تم فاطمہؓ کے لئے آئے ہو؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں
یا رسول اللہ! آپؐ نے فرمایا کیا تمہارے پاس کچھ ہے، میں نے عرض کیا: میرے پاس تو
کچھ بھی نہیں، فرمایا: وہ زرہ کیا ہوئی جو تمہیں بدر کی غنیمت میں ملی تھی، میں نے
عرض کیا: وہ تو میرے پاس ہے، فرمایا ٹھیک ہے۔
پھر میں نے اپنی وہ زرہ حضرت عثمانؓ کو چار سو درہم
میں فروخت کردی، اور تمام درہم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش
کردیئے، آپؐ نے ان میں سے کچھ درہم اٹھا کر دیئے اور فرمایا کہ ان سے فاطمہؓ کے
لئے خوشبو اور کپڑے خرید لو، کیوں کہ عورتوں کو ان چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے اور
فاطمہؓ بھی عورتوں میں سے ہیں۔‘‘ (التاریخ الکبیر امام بخاری: ۲/۶۱، البدایہ والنہایہ: ۳/۳۴۶، شرح المواھب: ۲/۳)
حضرت علیؓ کے پاس کوئی
ایسا مکان نہیں تھا جس میں وہ اپنی زوجۂ محترمہ کو لے جاکر رکھ سکیں، رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے فرمایا کہ کسی مکان کا انتظام کرلو، مکان کی تلاش
شروع ہوئی، کسی نے مشورہ دیا کہ حارثہ بن النعمانؓ سے ان کا مکان مانگ لو، حضرت
علیؓ نے فرمایا مجھے تو ان سے کہتے ہوئے شرم آتی ہے، حضرت حارثہؓ کو پتہ چلا تو
وہ خود دوڑے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنا
مکان عروسین کے لئے پیش کردیا۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا فاطمہؓ کے لیے کمرہ تیار کیا جائے، حضرت عائشہؓ
فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق ہم نے کمرہ تیار کرنا
شروع کیا، اس کام میں ام سلمہؓ بھی میری معاون تھیں، ہم نے بہترین قسم کی مٹی
منگوائی اس سے کمرے کی دیواروں کی اور فرش کی لپائی پتائی کی، کھجور کی چھال سے دو
گدے تیار کئے، خرما اور منقی کا حلوہ بنایا، پینے کے لیے میٹھا پانی مہیا کیا اور
اس کمرے کے ایک کونے میں لکڑی گاڑ دی تاکہ اس پر کپڑے اور مشکیزہ لٹکایا جاسکے۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ہم نے فاطمہؓ کی شادی سے بہتر کوئی شادی نہیں دیکھی۔
(سنن ابن ماجہ : ۱/۶۱۶،
رقم الحدیث: ۱۹۱۱)
حضرت فاطمہؓ کا مہر پانچ
سو درہم مقرر کیا گیا، رخصتی کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی لخت جگر
کو یہ چیزیں عطا فرمائیں، ایک بڑی چادر، چمڑے کا ایک تکیہ جس میں کھجور کی چھال یا
اذخر( خوشبو دار گھاس) بھرا ہوا تھا، آٹا پیسنے کی ایک چکی، ایک مشکیزہ، اور دو
گھڑے۔ (مسند احمد بن حنبل: ۲/۱۹۱،رقم
الحدیث: ۸۱۸)
یہ جہیز نہیں تھا، جسے
بنیاد بنا کر جہیز دینے کی رسم چل پڑی ہے، بلکہ ضرورت کی چند چیزیں تھیں، جو اس
لئے دی گئیں کہ حضرت علیؓ نہ صرف یہ کہ آپؐ کے چچا زاد بھائی تھے، بلکہ حضرت
ابوطالب کی وفات کے بعد آپ ہی ان کے سرپرست اور مربی ّ تھے۔ ایک عرصے تک حضرت
علیؓ آپؐ ہی کے گھر میں اولاد کی طرح رہے ہیں، آپؐ نے ضرورت کی ان چیزوں کا
انتظام دلہا دلہن کے سرپرست اور مربی ہونے کی حیثیت سے کیا تھا بلکہ بعض روایات
میں تو یہ بھی ہے کہ یہ تمام چیزیں حضرت علیؓ کے پیسوں سے خریدی گئی تھیں۔ (فتاویٰ
دارالعلوم دیوبند آن لائن، فتویٰ نمبر ۱۷۳۴۴۷) ۔ حضرت فاطمہؓ کی رخصتی بھی نہایت سادگی سے
ہوئی۔ آپ کے لئے نہ کوئی ڈولی منگوائی گئی، نہ کسی دوسری سواری کا انتظام کیا
گیا، بلکہ وہ حضرت ام ایمنؓ کے ساتھ پیدل چل کر اس مکان میں پہنچ گئیں جو دلہا
دلہن کے لئے حاصل کیا گیا تھا اور جس کا ذکر بالائی سطور میں کیا گیا۔
غزوۃ الکُدْر:
غزوہ بدر سے واپس ہوئے
ہفتہ بھر ہی ہوا تھا کہ یہ خبر پہنچی کہ بنو سُلَیْم جنگ پر آمادہ ہیں، اور اس
مقصد کے لئے وہ کسی ایک مقام پر اکٹھے ہورہے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
مدینے میں حضرت عُرفَطَۃ الغفاریؓ یا عبد اللہ ابن ام مکتومؓ کو حاکم مقرر فرمایا
اور خود ایک لشکر کی قیادت کرتے ہوئے بنو سُلَیم کی طرف بڑھے، ابھی کُدْر نامی
چشمے کے قریب ہی پہنچے تھے کہ دشمنوں کو یہ خبر مل گئی کہ افواج اسلام ان کی طرف
بڑھ رہی ہیں، یہ سنتے ہی دشمن میں خوف و ہراس پھیل گیا، جس کا جدھر سینگ سمایا
اُدھر چلا گیا، اکثر لوگ پہاڑوں میں روپوش ہوگئے۔ ان میں مسلمانوں کا اس قدر خوف
تھا کہ وہ اپنے اونٹ بھی ساتھ نہ لے جاسکے، تقریباً پانچ سو اونٹ تھے، ایک چرواہا
ان کی دیکھ بھال پر مقرر تھا، مسلمانوں نے اونٹ اپنے قبضے میں لئے اور چرواہے کو
گرفتار کرلیا۔ مدینے سے تین میل پہلے ایک جگہ صَرار کے نام سے ہے، وہاں پہنچ کر
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا پانچواں حصہ الگ کرکے تمام اونٹ صحابہ میں
تقسیم کردیئے۔ چرواہے کو جو بطور قیدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حصے میں
آیا تھا، رہا کردیا گیا۔ رہا ہونے کے بعد
وہ شخص مسلمان ہوگیا، اس غزوے کا نام قَرْقَرَۃُ الْکُدْر بھی ہے، بعض کتابوں میں
قَرارَۃُ الکُدْر بھی لکھا ہوا ہے۔
اس غزوے سے فارغ ہوکر آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے شوال اور ذوالقعدہ کے دو مہینے مدینہ منورہ میں ہی گزارے ،
اس عرصے میں آپ نے بدر کے قیدیوں کو فدیہ لے کر رہائی کے احکامات دیئے۔ (سیرت ابن
ہشام: ۳/۵،
الطبقات الکبریٰ: ۲/۳۱،
المغازی للواقدی: ۱/۱۹۶)
بنو قَیْنقَاع کی
عہدشکنی:
مدینہ منورہ میں اس وقت
یہودیوں کے تین بڑے قبیلے آباد تھے، ان میں سے ایک قبیلہ بنو قَیْنقَاع تھا، جو
خَزْرَج کا حلیف سمجھا جاتا تھا، دو قبیلے بنو النَّضِیْر اور بنُو قُرَیْظَہ تھے،
یہ دونوں قبیلے اَوْس کے حلیف تھے۔(تفسیر ابن کثیر: ۱/۱۷۶) آپ صلی اللہ علیہ وسلم
نے اپنی تشریف آوری کے بعد ان تینوں قبیلوں سے مصالحت کرنے میں پہل فرمائی، ان کے
ساتھ امن کا معاہدہ کیا، جس میں یہ عہد بھی شامل تھا کہ دونوں فریق ایک دوسرے کے
دشمنوں کا ساتھ نہیں دیں گے، اور بیرونی حملہ آوروں کے خلاف دونوں مل کر لڑیں گے۔
اسی دوران غزوۂ بدر پیش آیا، مسلمانوں کی غیر متوقع اور شان دار فتح سے یہودی بوکھلا
گئے، ابھی تک تو وہ مصلحتاً خاموش تھے اور اپنے طرز عمل سے یہ ظاہر کررہے تھے کہ
وہ معاہدۂ امن کی خلوصِ دل کے ساتھ پاسداری کررہے ہیں، لیکن فی الحقیقت وہ اپنے
دل میں نفرت، حسد، کینہ اور عداوت کی آگ سلگائے بیٹھے تھے۔ جنگ بدر میں بے مثال
کامیابی کے بعد مسلمانوں کو جو قوت اور شوکت حاصل ہوئی اس نے اس آگ کو مزید بھڑکا
دیا، دن بہ دن ان کی خباثتیں ظاہر ہونے لگیں، پہلے وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف
در پردہ سازشیں کرتے تھے، اب کُھل کر کرنے لگے، انہوں نے معاہدۂ امن سے نکلنے کا
اعلان تو نہیں کیا لیکن ان کی ایک ایک حرکت اور عمل سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ وہ عہد شکنی اور بد
عہدی پر آمادہ ہیں۔
جب صورت حال زیادہ سنگین
ہوگئی یا یہ کہئے کہ پانی سر سے اونچا ہوگیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
انہیں جمع فرمایا اور نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ وہ بغاوت سے باز آجائیں، معاہدہ کی پابندی کریں، خود بھی امن سے رہیں اور ہمیں
بھی سکون سے رہنے دیں۔
بنو قینقاع مدینے کے
مضافات میں کسی جگہ رہتے تھے، اس علاقے کا نام ہی ان کے نام سے معروف ہوگیا تھا،
عام طور پر ان کا پیشہ سونے چاندی کے زیورات بنانا تھا، کچھ لوگ لوہے وغیرہ سے
گھریلو سازو سامان اور آلات حرب بھی تیار کیا کرتے تھے، بہادر اور جری تھے، خود
ان کی اپنی فوج تھی، جو ۷۰۰؍
جوانوں پر مشتمل تھی، بنو قینقاع کو اپنے جوانوں پر بڑا ناز تھا، غالباً اسی لئے
انھوں نے سرکشی اور بغاوت کی طرف قدم بڑھایا تھا، اس طرح بنو قینقاع کے یہودی نقض عہد
کے اوّلین علم بردار بن گئے، اور اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ کے حالات پیدا
کرنے میں سبقت کرنے والے بھی یہی لوگ قرار پائے۔ (دلائل البیہقی: ۳/۱۷۴، عیون الاثر: ۲/۴۴)
روایات میں ہے کہ آپ صلی
اللہ علیہ وسلم بہ نفس نفیس خود ان کے محلّے میں تشریف لے گئے، انہیں جمع کیا اور
ان کو رشد وہدایت کی تلقین فرمائی، آپؐ نے ارشاد فرمایا: اے قوم یہود! اللہ سے
ڈرو، ایسا نہ ہو کہ تم پر بھی ایسا عذاب نازل ہوجائے جیسا عذاب، بدر والے دن قریش
پر آیا تھا، اسلام قبول کرلو، تم جانتے ہو اور تمہاری کتابوں میں بھی لکھا ہوا ہے
کہ میں اللہ کا نبی اور اس کا رسول ہوں، اللہ تعالیٰ نے تمہاری قوم سے یہ عہد لے
رکھا ہے کہ تم مجھ پر ایمان لاؤگے اور میری نبوت ورسالت کا اعتراف کروگے۔ یہود
آپ کا وعظ سن کر غصّے سے تلملا اٹھے، اور کہنے لگے: اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)
آپؐ اس مغالطے میں نہ رہیں کہ ہم قریش جیسے بزدل او ر ناتجربہ کار ہیں، آپؐ ان
کی ناتجربہ کاری سے فائدہ اٹھا کر ان پر غالب آگئے، ہم سے سابقہ پڑا تو آپ یہ بات جان لیں گے کہ ہم بزدل
نہیں ہیں بلکہ شیر دل مرد ہیں۔ (سنن أبی داؤد: ۳، ۱۵۴، رقم الحدیث: ۳۰۰۱، تفسیر الطبری: ۳/۱۲۸، سیرۃ ابن ہشام: ۳/۱۰)۔
مسلم عورت سے بدسلوکی
اس دوران ایک انتہائی
قابل مذمت واقعہ یہ پیش آیا کہ یہودیوں نے اپنے محلّے میں ایک مسلمان خاتون کے
ساتھ بدتہذیبی کا مظاہرہ کیا اور اس کی بے حرمتی کی۔
ہوا یوں کہ مدینے کی ایک
مسلمان خاتون اپنے زیورات بنوانے یا لینے کے لیے کسی یہودی سُنار کی دکان پر گئی،
اور دکان مالک سے بات چیت کرنے لگی، اتنے میں ایک دوسرا یہودی چپکے سے آیا، اور
ایک کانٹا اس عورت کی پشت کے لباس سے اٹکا دیا، جب وہ عورت واپس جانے کے لئے کھڑی
ہوئی تو کانٹے کی وجہ سے اس کا لباس سرک کر نیچے کی طرف آگیا، یہ دیکھ کر دکان
دار اور آس پاس کے یہودی ہنسنے لگے، عورت اپنی بے پردگی پر غصے سے تلملا اٹھی اور
چیخنے چلانے لگی، اس کی چیخ پُکار سن کر ایک مسلمان جو پہلے سے بازار میں موجود
تھا وہاں آگیا، اس نے دکان دار کو قتل کردیا، یہودیوں نے انتقاماً اس مسلمان کو
قتل کرڈالا، مقتول مسلمان کے ورثاء اور اہل خاندان یہ معاملہ لے کر مسلمانوں کے
پاس پہنچے، اہل اسلام میں اس بدترین واقعے سے غصہ اور ناراضگی پھیل گئی، دوسری طرف
بنو قینقاع کے یہودیوں نے یہ اعلان کردیا کہ وہ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کے ساتھ کئے گئے معاہدے کے پابند نہیں رہے۔ (سیرت ابن ہشام: ۳/۸) (جاری)
29 اکتوبر،2021، بشکریہ: انقلاب،
نئی دہلی
Related Article
Part:
7- Adjective of Worship مجھے صفت ِ عبدیت زیادہ پسند اور عبد کا لقب زیادہ محبوب ہے
Part: 22- Bani Awf, the Prophet Has Come اے بنی عوف وہ نبیؐ جن کا تمہیں انتظار تھا، تشریف لے آئے
Part:
23- Moon of the Fourteenth Night ہمارے اوپر ثنیات الوداع کی اوٹ سے چودہویں رات کا چاند طلوع
ہوا ہے
Part: 24- Madina: Last Prophet's Abode یثرب آخری نبیؐ کا مسکن ہوگا، اس کو تباہ کرنے کا خیال دل
سے نکال دیں
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism