مولانا ندیم الواجدی
3 دسمبر،2021
ابورافع یہودی کا انجام
ابورافع یہودی کے قتل کا
واقعہ دلچسپ بھی ہے اور ولولہ انگیز بھی ۔اس واقعہ میں بھی حضرات صحابہ کرام ؓ کا
جذبہ جاں نثاری ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس سے ان کی والہانہ محبت
اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس سے ان کیا والہانہ محبت اور آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کی عزت و عظمت کے تحفظ کے لئے مرمٹنے کی خاطر ان حضرات کی خواہش او رشوق
نمایاں نظر آتا ہے۔
ابورافع یہودی جس کا اصل
نام عبداللہ بن ابی حقیق تھا، مدینے کے انتہائی مال دار لوگوں میں شمار کیا
جاتاتھا۔ اس کا قلعہ خیبر کی ایک وادی میں تھا، وہیں اس کا قیام بھی تھا۔ دوسرے
بہت سے یہودیوں کی طرح اس کا دل بھی اللہ او راس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی
عداوت اور دشمنی کی آماج گاہ بنا ہوا تھا ، اس کا مشغلہ بھی آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کی ایذا پہنچانا تھا، وہ کعب بن اشرف کا معین و مددگار بھی تھا۔
محمد بن مسلمہؓ او ران کے
ساتھی جنہوں نے کعب بن اشرف کو قتل کیا تھا قبیلہ اوس سے تعلق رکھتے تھے ۔ قبیلہ
خزرج سے تعلق رکھنے والے صحابہؓ ان حضرات کی قسمت پر رشک کرتے تھے کہ انہوں نے
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بدترین دشمن کو قتل کرکے دارین کا شرف اور
سعادت حاصل کرلی او رہم لوگ اس سعادت سے محروم رہ گئے ۔ ایک دن ان حضرات میں سے
کسی کو خیال آیا کہ ابورافع کو قتل کرکے ہمیں بھی یہ عظیم سعادت حاصل کرنی چاہئے
،مگر اس کے لئے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت ضروری تھی ۔ چنانچہ چند
خزرج صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ابورافع یہودی
کو قتل کرنے کی اجازت چاہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت مرحمت فرمادی۔
15جمادی الاخریٰ 3 ھ کو حضرت عبداللہ بن عتیک ، مسعود بن سنان، عبداللہ بن اُنیس ،
ابوقتا دہ حارث بن ربعی اور خزاعی بن اسود رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین خیبر کی
طرف روانہ ہوئے۔ غروب آفتا کے بعد یہ لوگ خیبر پہنچے ۔ ابورافع یہودی خیبر کے ایک
قلعے میں رہتا تھا، ابھی قلعہ کا دروازہ کھلا ہوا تھا ، چراگاہوں سے جانور واپس
آرہے تھے ، حضرت عبداللہ بن عتیکؓ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ تم لوگ ٹھہرو، میں
ذرا قلعے کے قریب جاکر اندر جانے کی کوئی تدبیر کرتاہوں۔ تمام ساتھی قلعے سے کچھ
فاصلے پر کھڑے ہوگئے، عبداللہ بن عتیکؓ چھپتے چھپاتے قلعے کے قریب پہنچے او رزمین
پر اس طرح بیٹھ گئے جیسے کوئی شخص قضائے حاجت کے لئے بیٹھتا ہو، دربان نے آواز دے
کر کہا: اے اللہ کے بندے جلدی سے اندر آجا ، مجھے گیٹ بند کرنا ہے، وہ یہ سمجھا
کہ قلعے کاکوئی نوکر باہر قضائے حاجت کے لئے بیٹھا ہوا ہے۔ عتیکؓ جلدی سے اٹھے او
رقلعے کے اندر داخل ہوگئے۔ دربان نے گیٹ بند کیا۔ جب اندھیرا چھا گیا تو بہت سے
لوگ قلعے میں آئے، یہ وہ لوگ تھے جو رات کو ابورافع کی مجلس میں بیٹھتے تھے، قصہ
گوئی اور شعر و شاعری ہوتی تھی، شراب و کباب کا دور چلتا تھا ، اس رات بھی یہ محفل
جمی، رات گئے مجلس برخاست ہوئی، تمام لوگ اپنے اپنے گھر وں کی طرف چلے گئے ، دربان
نے گیٹ میں تالا لگا کر کنجی ایک کھونٹی پر لٹکا دی اور خود پڑ کر سو گیا۔ عبداللہ
عتیکؓ کہتے ہیںکہ قلعے کے اندر ایک گوشے میں چھپا بیٹھا تھا، جب میں نے یہ دیکھا
کہ دربان گہری نیند سوچکا ہے ، میں آہستگی کے ساتھ اس طرف بڑھا جہاں کنجی لٹکی
ہوئی تھی، میں نے کنجی اٹھائی اور گیٹ کھول کر اپنے ساتھیوں کو اندر بلایا ، اس کے
بعد میں بالاخانے کی طرف بڑھا ،ابورافع سونے کیلئے لیٹ چکا تھا، میں اپنے پیچھے
تمام دروازے بندکرتا ہوا اس کے خاص کمرے میں داخل ہوگیا، کمرے میں اندھیرا تھا،
مگر مجھے یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ کہاں سو رہا ہے، میں نے یہ اندازہ کرنے کے لئے
کہ وہ کہاں ہے اسے آواز دی، ابورافع نے کہا کون ہے؟ میں نے آواز کی سمت کا
اندازہ کرکے تلوار چلائی، وار خالی گیا۔ ابورافع نے چیخ ماری، میں چند لمحے خاموش
کھڑا رہا، اس کے بعد آواز بدل کر بولا اے ابورافع کیا ہوا؟ کہنے لگا کہ ابھی مجھ
پر کسی نے حملہ کیا ہے۔ یہ سنتے ہی میں نے دوبارہ تلوار چلائی ، وہ زخمی ہوگیا او
رچلانے لگا، اب مجھے خوب اندازہ ہوچکا تھا کہ وہ کہاں ہے؟ میں نے زور زور سے تلوار
چلائی جس سے اس کا جسم چھلنی چھلنی ہوگیا۔ جب مجھے اس کے مرنے کا یقین ہوگیا تو
میں نے بالاخانے سے نیچے اتر آیا ، زمین پر پیر رکھتے ہوئے میری پنڈلی کی ہڈی ٹوٹ
گئی ، عمامہ کھول کر میں ٹوٹی ہوئی پنڈلی پر باندھا اور ساتھیوں سے آکر کہا کہ
ابورافع مرچکا ہے، اب تم لوگ یہاں سے چلے جاؤ او رراستے میں کہیں رُک کر میرا
انتظار کرو ، میں یہاں اس وقت تک رہوں گا جب تک اس کی موت کا اعلان نہیں ہوجاتا۔
صبح ہوئی تو قلعے کی فصیل
سے ابورافع کی موت کا اعلان کیا گیا، یہ اعلان سن کر مجھے اطمینان ہوا، اور میں
اپنے ساتھیوں کے پاس پہنچ گیا، جو راستے میں ٹھہر کر میرا انتظار کررہے تھے۔ ہم سب
ساتھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کو ابورافع کے قتل کی خوش خبری سنائی اور جو واقعات گزرے وہ سب آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: اپنی
ٹانگ پھیلاؤ میں نے ٹانگ پھیلا دی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر دست مبارک
پھیرا ،میری ٹانگ ایسی ہوگئی جیسے اس میں کوئی تکلیف ہی نہیں تھی۔ (صحیح بخاری 5؍91،
رقم الحدیث: 4039 ، تاریخ الطبری 2؍493
، البدایہ والنہایہ 4؍158)
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ
بنت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے نکاح
سن 3ھ کے واقعات میں سے
ایک اہم واقعہ حضرت حفصہؓ کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حرم مقدس میں میںآنے کا
ہے۔ حضرت حفصہؓ کے سابقہ شوہر حضرت خُنیس بن حذافہ غزوہ بدر میں شہید ہوگئے تھے،
اس وقت حضرت حفصہؓ صرف بیس سال کی تھیں، حضرت عمرؓ پر اس حادثے کا بڑا اثر تھا، وہ
چاہتے تھے کہ جلد از جلد ان کا نکاح کردیا جائے، اس سلسلے میں انہوں نے حضرت
عثمانؓ سے بھی بات کی ، حضرت کلثوم وفات پا چکی تھیں اور حضرت عثمانؓ کونکاح ثانی
کی ضرورت تھی، لیکن حضرت عثمانؓ نے یہ کہہ کر معذرت کردی کہ میں ابھی شادی نہیں
کرنا چاہتا۔ حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکرؓ سے بھی کہا کہ وہ حفصہ سے نکاح کرلیں لیکن
وہ خاموش رہے۔ حضرت عثمانؓ کے انکار اور حضرت ابوبکرؓ کی خاموشی سے حضرت عمرؓ کو
بڑا رنج ہوا،لیکن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہؓ سے اپنا پیغام
دیا تو ان کا تمام رنج دور ہوگیا بلکہ خوش ہوگیا، اس سے بڑھ کر کوئی دوسری خوشی
ہوبھی نہیں سکتی تھی کہ ان کی بیٹی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ہونے
کاشرف حاصل کریں، حضرت حفصہؓ سے آپ کانکاح رمضان سن3 ھ سے قبل ہوا، چار سو درہم مہر
مقرر ہوئے، حضرت حفصہؓ نے 45 ھ میں وفات پائی اور جنت البقیع میں مدفون ہوئیں۔
(فتح الباری ،تاریخ الطبری ،2؍232)
حضرت زینب بنت خزیمہ رضی
اللہ عنہ سے نکاح
حضرت حفصہؓ سے نکا ح کے
ایک ماہ بعد رمضان 3ھ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آئیں، ان کے پہلے
شوہر کا نام عبیدہ بن الحارثؓ بن عبدالمطلب تھا، غزوہ بدر میں شہید ہوئے، رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینبؓ کو براہ راست نکا ح کا پیغام دیا، انہوں نے
اس کا اختیار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
دوگواہوں کی موجودگی میں ان سے نکاح کرلیا، ان کامہر بھی چار سو درہم تھا، نکاح کے
بعد آٹھ ماہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں رہ کر ربیع الثانی 4ھ میں وفات
پاگئیں۔ ترتیب کے اعتبار سے حضرت زینبؓ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میں آنے
والی پانچویں خاتون ہیں اور وفات پانے والی امہات المومنین میں آپ کا نمبر
دوسراہے، اس پر تمام محدثین او رمورخین کا اتفاق ہے کہ ازواج مطہرات میں سب سے
پہلے مدینہ منورہ میں حضرت زینبؓ نے وفات پائی ، ان کی نماز جنازہ آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے خود پڑھائی او رانہیں جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔( الاستیعاب 4؍1853
، الاصابہ فی تمیز الصحابہ 8؍157)
غزوہ احد
عزوہ بدر کے بعد یہ بڑا
او رنہایت اہمیت کا حامل غزوہ ہے، بعد کی تاریخ پر اس کے بھی زبردست اثرات مرتب
ہوئے اور یہ غزوہ بھی حق و باطل کے درمیان فیصلہ کن ثابت ہوا، غزوہ احد کا پس منظر
یہ ہے کہ بدر کے میدان سے شکست کھاکر کفار ومشرکین مکے سے واپس ہوئے ان کا سینہ
جذبہ انتقام سے بھرا ہوا تھا، مسلمانوں نے ان کے اپنوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر
رکھ دیا تھا، شاید ہی مکے کاکوئی گھرانہ ایسا ہو جس کوئی عزیز قریب اس جنگ میں قتل
نہ ہوا ہو، بہت سے سردار ان قریش بھی ذلت کی موت مارے جاچکے تھے، جو بچ گئے تھے ان
کابھی کوئی نہ کوئی عزیز، رشتے دار اس جنگ میں کام آگیا تھا۔ چنانچہ ابوسفیان کا
بیٹا حنظلہ ،عکرمہ کاباب ابوجہل ، حارث بن ہشام کا بھائی ابوجہل بن ہشام اور صفوان
بن امیہ کا باپ امیہ قتل ہوچکے تھے ، ابوسفیان اگر چہ تجارتی قافلے کو اس کے ساز و
سامان سمیت بچا کر مکے لے کر آیا تھا، مگر یہ سب سامان دارالندوہ میں جمع تھا،
بدر میں گئے ہوئے لوگوں کی واپسی کا انتظار تھا، ان میں سے اکثر لوگوں کا سرمایہ
اس سامان کی خریدار ی میں لگا ہوا تھا۔
جب بدر سے شکست خوردہ
مشرکین کا آخری فرد بھی واپس آگیا تو یہ تصور کرلیا گیا کہ جو لوگ واپس نہیں
آئے یا تو وہ مرچکے ہیں یا مسلمانوں کی قید میں ہیں۔ پہلی کوشش تو ان قیدیوں کو
زر فدیہ دے کر چھڑانے کی تھی، جب یہ عمل بھی پورا ہوگیا اور جن کو رہا ہوکر آنا
تھا وہ آگئے تب ان لوگوں کو خیال آیا کہ ہم تو اپنی تاریخ کی نہایت ذلت آمیز
شکست سے دو چار ہوچکے ہیں، ہمارے بہت سے پیارے جن پر ہمیں فخر اور ناز تھا ہم سے
جدا ہوچکے ہیں، مسلمانوں کا حوصلہ اتنا بڑھ چکا ہے کہ وہ ہمیں پابہ جولاں مدینے لے
جائیں اور زرِ فدیہ لے کر رہا کریں۔ اس خیال نے ان کے دن کا سکون اور ارت کا چین
چھین لیا ، ہر شخص کے دل میں انتقام کی خواہش جاگ اٹھی، جو لمحہ بہ لمحہ آگ کی
طرح پھیلتی چلی گئی، بالآخر عبداللہ بن ابی ربیعہ ، عکرمہ بن ابی جہل ، صفوان بن
امیہ، قریش کے کچھ اورلوگوں کے ساتھ لے کر ابوسفیان کے پاس آئے او رکہنے لگے کہ
ہم نے اپنا سرمایہ تو بچا لیا ہے مگر اپنوں کو کھو دیا ہے ، اب ہم یہ چاہتے ہیں کہ
اس مال کے ذریعے ایک بڑی اور فیصلہ کن جنگ کی تیاری کریں اور پوری طاقت وقوت کے
ساتھ مدینے پر حملہ آور ہوں۔ ابوسفیان نے فوراً ہی یہ تجویز مان لی اور اسی مجلس
میں یہ طے ہوگیا کہ اصل سرمایہ مالکوں کو واپس کردیا جائے او راس کاتمام منافع جو
تقریباً پچاس ہزار دینار تھا جنگی ساز وسامان کی تیاری اور خریداری میں صرف کردیا
جائے۔ قرآن کریم کی یہ آیت اس پس منظر میں نازل ہوئی ’’ جن لوگوں نے کفر اپنا
لیا ہے او راپنے مال اس کام کے لئے خرچ کررہے ہیں کہ لوگوں کو اللہ کے راستے سے
روکیں ، نتیجہ یہ ہوگا کہ یہ لوگ خرچ تو کریں گے مگر پھر یہ سب کچھ ان کے لئے حسرت
کا سبب بن جائے گا اور آخر کار یہ لوگ مغلوب ہوجائیں گے ۔( اسباب النزول ، واحدی
، ص :195، تفسیر الطبری، 9؍159)
(جاری)
3 دسمبر،2021،بشکریہ : انقلاب ، نئی دہلی
Related Article
Part:
7- Adjective of Worship مجھے صفت ِ عبدیت زیادہ پسند اور عبد کا لقب زیادہ محبوب ہے
Part: 22- Bani Awf, the Prophet Has Come اے بنی عوف وہ نبیؐ جن کا تمہیں انتظار تھا، تشریف لے آئے
Part:
23- Moon of the Fourteenth Night ہمارے اوپر ثنیات الوداع کی اوٹ سے چودہویں رات کا چاند طلوع
ہوا ہے
Part: 24- Madina: Last Prophet's Abode یثرب آخری نبیؐ کا مسکن ہوگا، اس کو تباہ کرنے کا خیال دل
سے نکال دیں
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism