مولانا ندیم الواجدی
24 دسمبر،2021
لشکر اسلام کا معائنہ:
ابھی اُحد تک نہیں پہنچے تھے
کہ آفتاب غروب ہوگیا، آپ نے مغرب کی نماز پڑھائی، پھر عشاء کی امامت فرمائی، اس کے
بعد پچاس آدمیوں کاانتخاب کیا، اور فوج کی نگرانی کی ذمہ داری ان کے سپر د فرمائی
، ان کی قیادت محمد بن مسلمہؓ کررہے تھے، ذکوان بن عبد قیسؓ نے رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کی پہرے داری کی۔
اس سے پہلے اسلامی لشکر نے
سیخین کے مقام پر کچھ دیر قیام کیا، یہ دو ٹیلے ہیں جو مدینے اور جبل احد کے درمیان
واقع ہیں، وہاں ایک بوڑھا یہودی او رایک بوڑھی یہودن جو اندھی بھی تھی رہتے تھے ، ان
کی مناسبت سے اس مقام کو شیخان کہا جانے لگا۔ عربی میں شیخ عمر رسیدہ شخْص کے لئے بھی
بولا جاتا ہے، اس جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوج کامعائنہ فرمایا اور جنگ کی تیاری
کا جائزہ لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے چند کم سن بچے پیش کئے گئے جو جنگ کے
شوق سے نکل آئے تھے ، ان میں سے بعض بچوں کو واپس روانہ کردیا گیا ۔ ان کے اسمائے
گرامی یہ ہیں:
جبلِ اُحد
------
حضرات اُسامہ بن زید، زید
بن ثابت، ابو سعید الخُد ری، عبداللہ بن عمر، اُسید بن ظہیر ، اَوس بن عَرابہَ، بَرا
ء بن عازبؓ، زید بن اَرقم رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین۔ یہ سب حضرات اس وقت پندرہ
سال سے کم عمر کے تھے ، اس لئے ان کو جنگ میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی گئی۔ یوں بھی
جنگ بچوں کا کھیل نہیں ہوتا بلکہ بڑوں کے لئے بھی سخت آزمائش کا مرحلہ ہوتا ہے۔ صرف
دو بچے ایسے تھے جن کو خوش قسمتی سے اجازت مل گئی ان میں سے ایک حضرت رافع بن خَدیج
تھے، انہوں نے ہوشیاری کی کہ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوج کامعائنہ فرمارہے
تھے یہ پنجوں کے بل کھڑے ہوگئے تاکہ دراز قد نظر آئیں، وہ جسامت میں بھی نسبتاً بہتر
تھے ، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اجازت مرحمت فرمادی، اور یہ بھی فرمایا
کہ رافع بہترین تیر انداز ہیں، جن بچوں کو واپس کیا گیا ان میں ایک حضرت سمرہ بن جُنُدُبؓبھی
تھے ، یہ حضرت رافع کے ہم عمر تھے ، اجازت نہ ملنے کے باعث رنجیدہ ہوگئے، ان کے والد
حضرت مری بن سنانؓ نے حاضر خدمت ہوکر عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے رافع کو اجازت دے دی او رمیرے بیٹے کو واپس فرما دیا، حالانکہ
سمرہ رافع کو کشتی میں پچھاڑ سکتا ہے ۔ دونوں بچوں کی کشتی کرائی گئی، سمرہ نے رافع
کو پچھاڑ دیا، یہ دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہی کو اجازت عطا فرما دی۔(
سیرۃ ابن ہشام :3؍
22)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ
عنہ کا واقعہ:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے
صاحب زادے حضرت عبداللہؓ بھی اس وقت نو عمر بچے تھے، ان کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم
نے واپس فرما دیا تھا ، بعد میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے ایک شاگرد اور آزاد کردہ
غلام حضرت نافع سے کسی نے پوچھا کہ آپ کے استاذ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے کن کن غزوات
میں شرکت فرمائی تھی، آپ نے فرمایا کہ میرے استاذ بتلایا کرتے تھے کہ جب غزوہ بدر
ہوا تو میری عمر تیرہ سال کی تھی ، جب غزوہ احد ہوا تو میں چودہ سال کا تھا ، غزوہ
بدر میں تو میں نے شرکت کا ارادہ ہی نہیں کیا، البتہ جب غزوہ احد کی تیاری شروع ہوئی
تو میں بھی قافلے میں شامل ہوگیا ، لیکن میری کم عمری کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے مجھے واپس فرمادیا، البتہ مجھے غزوۂ خندق میں شرکت کی اجازت مل گئی،
اس وقت میں پندرہ برس کا ہوچکا تھا، بعض دوسرے کم سن صحابہ جیسے زید بن ثابتؓ ، اوس
بن عرابہؓ اور براء بن عازبؓ کو بھی پندرہ سال کی عمر کا ہونے کے باعث عزوۂ خندق میں
شرکت کی اجازت مل گئی تھی، (صحیح البخاری: 3؍177
، 2664 ، مسند احمد بن حنبل، 8؍287
، رقم الحدیث :4661)حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ کو یہ روایت پہنچی تو انہوں نے یہ قانون
بنا دیا کہ صرف ان بچوں کو مجاہدین او رمقاتلین کی فہرست میں شامل کرکے بیت المال سے
وظیفہ جاری کیا جائے گا جن کی عمر پندرہ سال یا اس سے زائد ہوگی، ان کے زمانہ خلافت
میں لوگ اپنے بیٹوں اور بھائیوں کے لئے وظیفہ جاری کئے جانے کی درخواست پیش کرتے تھے
اور فی الحقیقت وہ بہت چھوٹے ہوتے تھے، لہٰذا وظیفے کے لئے پندرہ سال کی عمر متعین
کر دی گئی ، وظیفہ جاری کرنے سے پہلے اس کا اطمینان کرلیا جاتاکہ درخواست دہندہ واقعی
اس عمر کا ہے۔( سیرۃ المصطفیٰ :2؍182)
علامہ ابن القیمؒ نے لکھا
ہے کہ جن نو عمر صحابہؓ کو واپس بھیجا گیا وہ اپنی کم عمری کی وجہ سے نہیں بلکہ ضعیف
اور ناطاقتی کی وجہ سے واپس کئے گئے او ریہ فیصلہ کیا گیا کہ ان کو جنگ میں حصہ نہیں
لینا ہے۔ ان کی دلیل حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی ایک روایت کے یہ الفاظ ہیں کہ جب آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے اندر طاقت دیکھی تو مجھے اجازت مرحمت فرمادی ، مگر یہ خیال
صحیح نہیں معلوم ہوتا کیونکہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے بدر، اْحد اور خندق کے موقعوں
پر اپنی عمر کا حال بیان کیا ہے،ناطاقتی یا ضعف کا کوئی ذکر ان کی روایت میں موجود
نہیں ہے۔
ایک اندھے کی اندھی دشمنی:
مقام شیخین سے روانہ ہونے
سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے ارشاد فرمایا: کون ہے جو ہمیں ایسے
قریبی راستے لے کر چلے جو دشمن کے پاس سے نہ گزرتا ہو، حضرت ابو خیثمہ نے کھڑے ہوکر
عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں لے کر چلتا ہوں، چنانچہ وہ قافلہ
کو آگے لے کر چلے ، پہلے بنو حارثہ کے محلّے سے گزرے ،پھر ان کے باغات سے ہوتے ہوئے
مَربَع بن قیظی کے باغ میں داخل ہوئے ، یہ شخص اندھا منافق تھا ، اسے جب یہ معلوم ہوا
کہ مسلمانوںکا قافلہ اس کے باغ سے گزررہا ہے تو اس نے اپنے دونوں ہاتھوں میں مٹی بھری
او رکہنے لگا کہ اگر تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہو تو میری طرف سے اس باغ میں
قدم رکھنے کی تمہیں اجازت نہیں ہے، خدا کی قسم اگر مجھے یہ معلوم ہوتا کہ یہ مٹی دوسرے
لوگوں تک نہیں پہنچے گی تو میں یہ خاک تمہارے چہرے پر ضرور ڈالتا ۔ اس کی یہ بکواس
سن کر صحابہؓ کو غصہ آگیا ، قریب تھا کہ وہ اس پر ٹوٹ پڑتے۔ یہ صورت حال دیکھ کر رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اسے مت مارنا یہ آنکھ کا اندھا ہی نہیں
ہے بلکہ دل کابھی اندھا ہے، ابھی آپ کا حکم لوگوں تک پہنچا بھی نہیں تھا کہ سعد بن
زیدؓ نے تیر مارکر اس اندھے کا سر زخمی کردیا۔( البدایہ والنہایہ :4؍14)
ابودُجانہ رضی اللہ عنہ کو
تلوار ملی:
ابھی منزل تک نہیں پہنچے تھے
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تلوار اپنے دست مبارک سے لے کر فرمایا کہ اس
تلوار کو اس کے حق کے ساتھ کون لینا چاہتا ہے ، بہت سے صحابہؓ نے تلوار لینے کے لئے
ہاتھ پھیلادئے ، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے کسی کو تلوار نہیں دی، یہاں
تک کہ ایک صحابی حضرت ابودجانہؓ کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم! اس کا حق کیا ہے؟ فرمایا: اس کا حق یہ ہے کہ دشمن پر ایسا وار کرے کہ اس کو دھول
چٹا دے، انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اس کا حق ادا کروں
گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ تلوار ان کو عطا فرمادی۔ حضرت ابودجانہؓ ایک بہادر
انسان تھے ، جنگ کے موقع پر شجاعت کے جو ہر تو دکھلاتے ہی تھے، دشمن کو اپنی چالوں
سے بھی حیران کردیتے تھے۔ ان کے پاس ایک سُرخ پٹی تھی، جب وہ اسے اپنی پیشانی پر باندھ
لیتے تو لوگ سمجھ جاتے کہ اب دشمن کی خیرنہیں۔ انہوں نے تلوار لی اور سُرخ پٹی جیب
سے نکال کر پیشانی پر باندھ لی، او رمجاہد ین کی صفوں میں اتراتے ہوئے چلنے لگے، رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس حال میں دیکھ کر فرمایا ایسے موقعوں کے علاوہ
اللہ تعالیٰ ایسی چال پسند نہیں فرماتا: ( صحیح مسلم: 4؍128
، رقم الحدیث :1917 ، مسند احمد بن حنبل: 3؍123
، مستدرک حاکم: 3؍230
، تاریخ الطبری:2؍64)
لشکر اسلام کی صف بندی:
صبح فجر کا وقت تھا جب مسلمانوں
کا قافلہ جبل احد کی پشت سے میدان کا ر زار میں پہنچا ، جنگی حکمت عملی کے تحت آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بہتر سمجھا کہ جبل اُحد کو پیچھے اور مدینے کو سامنے رکھ
کر جنگ لڑی جائے، کفار ومشرکین کا لشکر اُحد کے دامن میں پڑاؤ ڈالے ہوئے تھا، اس کا
رُخ مدینے کی طرف تھا ، کفار کی قیادت نے جب مسلمانوں کو جبل اُحد کے پیچھے سے آتے
ہوئے دیکھا تو وہ حیرت زدہ رہ گئی ، کفار و مشرکین کے گمان میں بھی یہ بات نہ تھی کہ
مسلمان اس طرح میدان میں آئیں گے ۔
فجر کی نماز کا وقت ہوچکا
تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلالؓ کو حکم دیا کہ وہ اذان دیں، انہوں نے آج
کچھ زیادہ ہی اونچی آواز میں اذان کے کلمات کہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی۔
نماز کے بعد صف بندی کا سلسلہ شروع ہوا۔
سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے پچاس تیر اندازوں کا انتخاب فرمایا او رانہیں حکم دیا کہ وہ جبل اُحد کے پیچھے
پہاڑی پر چلے جائیں اور وہیں رہ کر ہماری حفاظت کریں ، اگر کفار پیچھے کی طرف سے آکر
حملہ کرنا چاہیں تو ان کا مقابلہ کریں، ان تیر اندازوں کو تاکید کی گئی کہ ان کاکام
صرف جبل اُحد کے پیچھے ٹھہر کر حفاظت کرنا ہے، کسی بھی حال میں وہاں سے نہ ہٹیں ،اگر
ہم قتل بھی کئے جارہے ہوں او رپرندے ہماری لاشوں پر منڈلا رہے ہوں تب بھی اپنی جگہ
سے جنبش نہ کریں، اگر ہم غالب آجائیں، اورمال غنیمت جمع کیا جارہا ہو تب بھی وہیں
رہیں ، غرض یہ کہ فتح ہویا شکست ،ہم مغلوب ہوں یا غالب ہر حال میں تم لوگوں کو اسی
جگہ ڈٹے رہناہے جہاں تمہیں رہنے کے لئے کہا جارہا ہے، حضرت عبداللہ جن جبیرؓ کو اس
پچاس نفری ٹکڑی کا امیر مقرر کیا گیا، جس پہاڑی پر ان پچاس تیر انداز صحابہؓ کو متعین
کیا گیا تھا بعد میں اسے جبل الرماۃ (تیر اندازوں کی پہاڑی) کہا جانے لگا، آج بھی
یہ پہاڑی اسی نام سے مشہور ہے۔( صحیح البخاری:5؍93
، رقم الحدیث: 4043 ، فتح الباری :7؍350
، سیرۃ الحلبیہ:2؍496)۔
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فوج کو تین حصوں پر تقسیم کیا ، مقدمۃ الجیش، یعنی سامنے رہنے والا دستہ ا
س میں ماہر جنگ بازوں کو شامل کیا گیا، کیونکہ دفاعی یا اقدامی بہ ہر صورت اسی دستے
کو جنگ کا سامنا پہلے کرنا تھا، دوسرا حصہ میمنہ کا تھا یعنی کچھ لوگوں کو دائیں جانب
کھڑا کیا گیا، اس کی کمان منذر بن عمروؓ کے حوالے کی گئی، کچھ صحابہؓ میسرہ یعنی بائیں
جانب متعین کئے گئے ، ان کی ذمہ داری زبیر بن العوامؓ کو دی گئی، اور مقدار بن الاسودؓ
کوان کا معاون بنایا گیا، حضرت زبیرؓ کو بائیں جانب سے ہونے والے حملوں کو تو روکنا
تھا ہی ان کی ایک اضافی ذمہ داری یہ بھی تھی کہ وہ خالد بن ولید کی نقل و حرکت پر نظر
رکھیں ،اور گھڑ سواروں کو گھاٹی سے گزر کر مسلمانوں کی طرف نہ آنے دیں، اس طرح میدان
کا نقشہ مرتب ہوا، مسلمانوں کی تعداد کم تھی، مگر اللہ کی عطا کردہ بصیرت اور اس کی
طرف سے ملہم (الہام کی ہوئی) حکمت عملی کے تحت مسلمانوں کو چار حصوں میں تقسیم کر کے
کفار کو چیلنج دے دیا گیا کہ وہ جس طرف سے بھی بڑھیں گے انہیں مسلمانوں کی مضبوط فوج
کا سامنا کرنا پڑے گا۔( زاد المعار : 3؍150)
(جاری)
24 دسمبر،2021 ، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
Related Article
Part:
7- Adjective of Worship مجھے صفت ِ عبدیت زیادہ پسند اور عبد کا لقب زیادہ محبوب ہے
Part: 22- Bani Awf, the Prophet Has Come اے بنی عوف وہ نبیؐ جن کا تمہیں انتظار تھا، تشریف لے آئے
Part:
23- Moon of the Fourteenth Night ہمارے اوپر ثنیات الوداع کی اوٹ سے چودہویں رات کا چاند طلوع
ہوا ہے
Part: 24- Madina: Last Prophet's Abode یثرب آخری نبیؐ کا مسکن ہوگا، اس کو تباہ کرنے کا خیال دل
سے نکال دیں
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism