مولانا ندیم الواجدی
5 نومبر 2021
مدینہ سے بنی قینقاع کا
اخراج:
بنو قینقاع کے یہود کا یہ
متکبرانہ لب ولہجہ نظر انداز نہیں کیا جاسکتا تھا، ان کی سرزنش ضروری تھی، اور
سرزنش بھی ایسی جس سے یہودیوں کے دوسرے قبیلوں کو سبق ملتا، چنانچہ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابولبابہ ابن عبد المنذر انصاریؓ کو مدینہ منورہ کی ذمہ
داریاں تفویض کرکے بنوقینقاع کے علاقے کی طرف کوچ فرمایا۔ مسلمانوں کو دیکھ کر یہ
بد باطن اور عہد شکن یہودی قلعے کے اندر چلے گئے اور اس کا دروازہ بند کرکے بیٹھ
گئے۔ یہ ۱۵؍
شوال کا واقعہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے افواج اسلام کو حکم دیا کہ وہ
اس وقت تک قلعے کا محاصرہ جاری رکھیں جب تک یہودی قلعے سے باہر نہ نکلیں،حالات سے
مجبور اور پریشان ہوکر سولہویں دن ذی القعدہ کی پہلی تاریخ کو یہودی دروازہ کھول
کر باہر آگئے جس کے بعد رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے ان کے ہاتھ پیر باندھنے کا حکم دیا۔
عبد اللہ بن أبی بن سلول
کی درخواست
جس وقت یہودیوں کی مشکیں
کسی جارہی تھیں، رئیس المنافقین عبد اللہ بن أبی بن سلول نے یہ درخواست کی کہ ان
کے (یہودیوں کے) ساتھ رحم وکرم کا معاملہ
کیا جائے، کیوں کہ یہ میرے حلیف ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی
درخواست پر توجہ نہیں دی، اس نے پھر درخواست کی، آپؐ نے پھر اعراض فرمایا، عبد
اللہ بن أبی طیش میں آگیا، اور انتہائی گستاخانہ انداز میں اس نے اپنا ہاتھ آپؐ
کے گریبان پر ڈال دیا۔ اس کی اس حرکت سے آپؐ غضب ناک ہوگئے، یہاں تک کہ غصّے سے
آپؐ کا چہرۂ مبارک سُرخ ہوگیا۔ آپؐ نے
فرمایا: اے عبد اللہ! تیرا ناس ہو، میرا گریبان چھوڑ دے۔ اس نے ہٹ دھرمی دکھلائی
اور کہا : میں آپؐ کا گریبان اس وقت تک
نہیں چھوڑوں گا جب تک آپؐ مجھ سے ان کو رہا کرنے کا وعدہ نہیں کریں گے۔ خدا کی
قسم اس قوم کے چار سو ننگے سر والوں اور تین سو زرہ پوشوں نے میرا دفاع کیا ہے،
آپؐ ایک دن میں انہیں ہلاک کردینا چاہتے ہیں۔ ابن أبی منافق کے حد درجہ اصرار کے
بعد آپؐ نے بربنائے مصلحت ان کی مشکیں کھلوا دیں
مگر اس کے ساتھ ہی یہ حکم بھی دیا کہ اب سرکشوں اور باغیوں کو مدینے میں رہنے کی اجازت نہیں دی
جائے گی، انہیں یہاں سے جانا ہوگا، عبد اللہ بن أبی نے یہ بات مان لی۔ اس طرح
تمام یہودی اپنے اہل وعیال کے ساتھ مدینے سے چلے گئے۔ (تاریخ الطبری: ۲/۴۹، الطبقات الکبری: ۲/۲۹، عیون الاثر: ۲/۴۴۴)
بنو قینقاع کے یہودیوں سے
جان بخشی کی یہ شرط لگائی گئی تھی کہ وہ اپنا مال واسباب چھوڑ کر یہاں سے جائیں،
ان کے جانے کے بعد مسلمانوں نے ان کے غنائم اکٹھے کئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے محمد بن مسلمہؓ کو غنائم کا نگراں
مقرر کیا اور واپس مدینے تشریف لے گئے۔
عبد اللہ بن أبی جلا
وطنی اور اخراج کے آخری لمحے تک ان کا ہمنوا اور ہمدرد بنا رہا، اس کی کوشش تھی
کہ یہودیوں کو جلا وطنی کی جو سزا دی گئی ہے وہ معاف کردی جائے، اور اگر انہیں جلا
وطن ہی کرنا ضروری ہے تو کم از کم انہیں اپنا مال ومتاع ساتھ لے کر جانے کی اجازت
دی جائے، یہ درخواست لے کر وہ آپؐ کے در دولت پر حاضر ہوا، ایک انصاری صحابی عویم
بن مساعدہؓ وہاں موجود تھے، انھوں نے اسے روک دیا، اور کہا جب تک رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم اجازت نہیں دیں گے میں اس وقت تک تمہیں اندر جانے نہیں دوں گا، یہ
سن کر ابن أبی نے حضرت عویمؓ کو دھکا دیا۔ انہوں نے بھی اس پر سختی کی، اور اس
قدر زور سے اس کو دھکا دیا کہ اس کا چہرہ دیوار سے ٹکراکر زخمی ہوگیا، منافقوں کے
سردار کی یہ درگت دیکھ کر اس کے حلیف یہود کہنے لگے: اے ابو الحباب بس کرو، رہنے
دو، ہم ایسے گھر میں رہنا نہیں چاہتے، جس میں آپ کا یہ حال کردیا گیا ہو۔ اس
واقعے کے بعد یہودیوں نے مدینے میں رہنے کی امید چھوڑ دی اور شام کی طرف روانہ
ہوگئے۔ (الطبقات الکبری: ۲/۲۸)
دوسری طرف حضرت عبادہ بن
الصامتؓ بھی بنو قینقاع کے حلیف تھے، لیکن انھوں نے یہودیوں سے علی الاعلان برأت
اور بے زاری کا اظہار کیا، حالاں کہ عبد اللہ بن أبی نے انہیں یاد بھی دلایا کہ
تم یہود کے حلیف ہو، تمہیں ان کا ساتھ دینا چاہئے، مگر انھوں نے کسی بھی طرح کی
مدد کرنے سے صاف انکار کردیا۔ اس کے بعد وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت
میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسولؐ اللہ! میں آپؐ کے دشمنوں سے بری اور بے زار
ہوں، اور اللہ اور اس کے رسولؐ اور اہل ایمان کی طرف آتا ہوں اور انہی کو اپنا
حلیف بناتا ہوں، اور کفار کی دوستی سے مکمل طور پر اپنی برأت کا اظہا ر کرتا ہوں۔
(البدایہ والنہایہ: ۴/۵)
غزوۂ سَوِیْق
یکم ذوالحجہ کو یہ واقعہ
پیش آیا، اور ۵؍ذی
الحجہ کو آپؐ ایک اور غزوے کے لئے روانہ ہوگئے۔ اس غزوے کی تفصیل یہ ہے کہ بدر میں
زندہ بچ جانے والے مشرکین جب مکّہ پہنچے اور وہاں پہنچ کر انھوں نے بدر کے واقعات
سنا کر رونا پیٹنا شروع کیا تو ابوسفیان نے قسم کھائی کہ جب تک وہ مدینے پر حملہ
نہیں کرے گا اس وقت تک غسلِ جنابت نہیں کرے گا، چنانچہ اس نے دو سو ساتھیوں کو لے
کر مدینے کے لئے روانہ ہوا۔ مدینے پہنچ کر وہ اور اس کے تمام رفقاء بنی النضیر میں
پہنچے، سلَّام بن مشکم نے ان کا استقبال
کیا، اور رات میں ان کی ضیافت کی، صبح کو یہ لوگ اپنی منزل کے لئے روانہ ہوئے،
مدینہ منورہ سے باہر عُرَیْض نامی علاقے میں ایک انصاری صحابی اپنے نوکر کے ساتھ
باغ میں پانی دے رہے تھے، ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں نے ان دونوں کو قتل کردیا،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعے کی اطلاع ہوئی، آپ نے اپنے جاں نثار
صحابہؓ کے ساتھ ان کو پکڑنے کی کوشش کی، مگر وہ لوگ یہ بزدلانہ حرکت کرکے وہاں سے
جا چکے تھے، اس لئے ہاتھ نہ آسکے، اپنا بوجھ کم کرنے کے لئے ان لوگوں نے ستو کے
کٹّے اور تھیلے اسی باغ میں چھوڑ دئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا
کہ ستو کے یہ تھیلے جو بڑی تعداد میں تھے، اٹھا لئے جائیں گو یا یہ مال غنیمت تھا
جو اس غزوے میں ہاتھ آیا، پانچ روز کے بعد آپؐ مدینہ واپس تشریف لائے، اس غزوہ
کو غزوۃ السویق اس لئے کہا جاتا ہے کہ عربی میں ستّو کو سویق کہتے ہیں۔ (تاریخ
الطبری: ۲/۵۰،
الکامل فی التاریخ: ۲/۳۹،۴۰)
غزوۂ ذی أمْر
غزوہ سویق سے واپسی کے
بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذی الحجہ کا پورا مہینہ مدینے ہی میں گزارا، اس کے
اختتام پر یا محرم کے آغاز میں آپ کو یہ اطلاع ملی کہ بنو غطفان کے دو قبیلے بنو
ثعلبہ اور بنو محارب نجد میں جمع ہورہے ہیں، ان کا ارادہ مدینہ منورہ پر حملہ کرنے
کا ہے، اس اطلاع کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیاری کا حکم دیا اور حضرت عثمان
بن عفانؓ کو اپنا قائم مقام مقرر فرماکر نجد کی طرف کوچ فرمایا۔ اس سفر میں چار سو
پچاس صحابہ آپؐ کے ہمراہ تھے۔ کچھ پیدل اور کچھ سوار۔ مسلمانوں کے لشکر کی خبر
پاکر دشمن بھاگ کھڑے ہوئے، صرف ایک شخص ہاتھ آیا، اس کا نام جبار تھا اور وہ بنو
ثعلبہ سے تعلق رکھتا تھا۔ لوگوں نے اسے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کردیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
اس سے کچھ دیر تنہائی میں گفتگو کی، اور اس پر اسلام پیش کیا، جسے اس نے قبول
کرلیا۔ آپؐ نے اسے حضرت بلالؓ کے سپرد کیا کہ وہ اس کو دین کی تعلیم دیں۔ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو غطفان کے علاقے میں مہینہ بھر تک قیام فرمایا، اس
طویل عرصے میں کوئی ایک شخص بھی مقابلے کے لئے نکل کر نہیں آیا، طویل انتظار کے
بعد آپؐ واپس مدینہ تشریف لے آئے۔ غزوۂ ذی امر کو غزوۂ غَطْفَان بھی کہا جاتا
ہے، اور بعض مؤرخین نے اسے غزوۂ اَنْمَار بھی لکھا ہے، ذُوْ اَمْر مدینے سے کچھ
فاصلے پر ایک وادی ہے جو نخیل نامی بستی کے قریب واقع ہے۔ (تاریخ الطبری: ۲/۵۲، الطبقات الکبری: ۲/۳۴)
آپؐ پر قاتلانہ حملےکا
مذموم ارادہ
اس سفر میں ایک واقعہ یہ
پیش آیا کہ ایک دن بارش ہوگئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور صحابۂ کرامؓ کے
کپڑے بھیگ گئے، آپؐ نے اپنے کپڑے دھوپ
میں پھیلا دیئے اور صحابہ سے ذرا دور ہٹ کر ایک درخت کے نیچے آرام کرنے کے لئے
لیٹ گئے۔ گاؤں والے یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ وہ
یہ بھی دیکھ رہے تھے کہ آپؐ درخت کے نیچے تنہا لیٹے ہوئے ہیں اور سو رہے
ہیں، جب کہ آپؐ کے رفقاء دور ہیں اور بکھرے ہوئے ہیں۔ انھوں نے اپنے سردار دعثور
سے کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو نقصان پہنچانے کا یہ بہترین موقع ہے، تم
جاؤ اور ان کو قتل کردو۔ دعثور کی بہادری کا دور دور تک شہرہ تھا، لیکن اس کا یہ
اقدام انتہائی بزدلی کا غماز تھا۔ کیا کسی تنہا شخص پر حملہ کرنا جب کہ وہ غیر
مسلّح ہو اور سویا ہوا بھی ہو، بہادری اور شجاعت کی دلیل ہے؟
قوم کے اکسانے پر دعثور
بن حارث ایک تیز دھار والی تلوار لے کر اس جگہ جا پہنچا جہاں رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم محو استراحت تھے، آپؐ کی تلوار درخت پر لٹکی ہوئی تھی، آپؐ آنکھیں
بند کئے ہوئے لیٹے تھے، آپؐ کو احساس ہوا کہ کوئی شخص دبے پاؤں قریب آکر کھڑا
ہوگیا ہے۔ آپؐ نے آنکھیں کھول کر دیکھا کہ ایک شخص ہاتھ میں تلوار لئے کھڑا ہے،
اس نے للکارتے ہوئے کہا کہ اے محمد! بتاؤ، تمہیں اب کون بچائے گا۔ آپؐ نے لیٹے
لیٹے فرمایا: مجھے میرا اللہ بچائے گا، یہ سن کر دعثور کے ہاتھ کانپنے لگے، تلوار
اس کے ہاتھ سے چھو‘ٹ کر نیچے گر گئی جو
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اٹھا کر اسے پکڑا دی۔ اس واقعے کا اس پر اس قدر
اثر ہوا کہ وہ اسی وقت کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگیا۔
قبیلے میں واپس پہنچے تو لوگوں نے پوچھا: کیا ہوا، تم ناکام کیسے رہ گئے،
تم تو محمد کو (نعوذ باللہ) قتل کرنے کے ارادے سے گئے تھے، کہنے لگا: میں نے ایک
طویل القامت شخص کو دیکھا، میرا خیال ہے وہ فرشتہ تھا، اس نے میرے سینے پر اس زور
سے مکا مارا کہ میں پیٹھ کے بَل نیچے گر پڑا، لوگو! میں مسلمان ہوچکا ہوں اور یہ
گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، تم لوگ بھی ایمان لے
آؤ۔ قرآن کریم کی سورۂ المائدہ آیت گیارہ میں اسی واقعے کی طرف اشارہ کیا گیا
ہے (اسد الغابہ: ۲/۲۰۰،
البدایہ والنہایہ: ۴/۲)
بخاری اور مسلم میں بھی
اسی طرح کا ایک واقعہ مذکور ہے، مگر یہ واقعہ کسی دوسرے غزوہ میں پیش آیاتھا،
حضرت جابر بن عبد اللہ اس کے راوی ہیں، فرماتے ہیں کہ ہم لوگ غزوۂ ذات الرقاع میں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
آرام کی نیت سے درخت کے سائے میں لیٹ گئے، ہم ذرا دور تھے، آپؐ کی تلوار مبارک
بھی درخت سے لٹکی ہوئی تھی، اتنے میں ایک مشرک وہاں آیا، اور آپؐ کی تلوار ہاتھ
میں لے کر کہنے لگا کیا آپؐ کو مجھ سے ڈر لگ رہا ہے، آپ نے فرمایا: نہیں، کہنے لگا:
آپؐ کو مجھ سے کون بچائے گا، آپؐ نے
فرمایا: اللہ میری حفاظت کرنے والا ہے۔ (صحیح البخاری:۵/۱۱۵، رقم الحدیث: ۴۱۳۶، صحیح مسلم: ۱/۵۷۶، رقم الحدیث: ۸۴۳) حافظ ابن حجر ؒ فرماتے
ہیں کہ یہ دو قصے الگ الگ ہیں، پہلے قصے میں دعثور مسلمان ہوگئے تھے، یہ شخص
مسلمان نہیں ہوا۔ (فتح الباری: ۷/۴۲۷)
(جاری)
5 نومبر 2021، بشکریہ: انقلاب،
نئی دہلی
Related Article
Part:
7- Adjective of Worship مجھے صفت ِ عبدیت زیادہ پسند اور عبد کا لقب زیادہ محبوب ہے
Part: 22- Bani Awf, the Prophet Has Come اے بنی عوف وہ نبیؐ جن کا تمہیں انتظار تھا، تشریف لے آئے
Part:
23- Moon of the Fourteenth Night ہمارے اوپر ثنیات الوداع کی اوٹ سے چودہویں رات کا چاند طلوع
ہوا ہے
Part: 24- Madina: Last Prophet's Abode یثرب آخری نبیؐ کا مسکن ہوگا، اس کو تباہ کرنے کا خیال دل
سے نکال دیں
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism