مولانا ندیم الواجدی
17 دسمبر،2021
پہلے ذکر کیاجاچکا ہے کہ
کفار کی فوجیں مدینہ منورہ کے قریب واقع جبل اُحد کے مقام عینین میں فروکش ہوچکی
تھیں،مناسب معلوم ہوتاہے کہ کچھ جبل اُحد کے بارے میں عرض کردیا جائے۔ اُحد ایک
بڑا پہاڑ ہے جو مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے شمال میں واقع ہے، مسجد نبوی صلی
اللہ علیہ وسلم سے اس کی دوری چھ کلومیٹر ہے۔ یہ پہاڑ حدود حرم میں داخل ہے،
کیونکہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرم مدینہ کو جبل ثور تک وسیع فرمایا
ہے جو اُحد کے پیچھے ہے، یاد رہے کہ ایک جبل ثور مکہ مکرمہ میں بھی ہے ۔ جبل اُحد
کا رنگ سرخی مائل ہے، دیکھنے میں بڑا اچھا لگتا ہے ، حالانکہ بالکل بے آب وگیاہ
پہاڑ ہے ، لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یہ بے حد عزیز تھا۔ اس
پہاڑ کے اندر جو رعنائی اور دل کشی ہے وہ جانبین کی اسی محبت کا حسین پر تو ہے
۔حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبل اُحد کی طرف اشارہ کرتے
ہوئے فرمایا : ھذا جبل یحبنا و نحبہ۔’’ یہ ایسا پہاڑ ہے جو ہم سے محبت کرتا ہے او
رہم اس سے محبت کرتے ہیں‘‘۔(صحیح البخاری :4؍35
، رقم الحدیث :2889 ، صحیح مسلم: 2؍1011
،رقم الحدیث :1393 ) شارحین حدیث نے لکھا ہے کہ یہ پہاڑ اس وقت بڑا خوش ہوتاجب آپ
صلی اللہ علیہ وسلم کسی سفر سے واپس تشریف لاتے ہوئے اس کے قریب سے گزرتے ۔ظاہر ہے
یہ خوشی اظہار محبت ہی کے لئے تھی، اور جب اسے محبت تھی تو رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم بھی اس کے ساتھ محبت کامعاملہ فرماتے۔
ایک مرتبہ آپ صلی اللہ
علیہ وسلم حضرت ابوبکرؓ ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کے ساتھ اس پہاڑ پر تشریف لے
گئے، پہاڑ خوشی سے جھومنے لگا، آپ نے ارشاد فرمایا : اسکن یا اُحد فلیس علیک الا
نبی وصدیق و شہدان ’’ اے احد پر سکون رہ، تیرے اوپر ایک نبی، ایک صدیق ، او ردو
شہید موجود ہیں‘‘( صحیح البخاری :5؍15
، رقم الحدیث :3699، المعجم الکبیر للطبرانی رقم الحدیث :3496 ) اُحد چار پہاڑوں
میں سے ایک ہے جنہیں زبان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے جنتی ہونے کی بشارت
ہے۔
ایک حدیث میں رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کیا گیا ہے کہ چار پہاڑ جنت کے پہاڑ ہیں،
صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کون سے پہاڑ ہیں، فرمایا
اُحد جنت کے پہاڑوں میں سے ہے، وہ ہم سے محبت کرتا ہے، ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔
باقی تین پہاڑ آپ نے یہ بیان فرمائے (1) جبل طور (2) جبل لبنان (3) جبل ورقان، یا
جبل رحمت (الجامع الکبیر للسیوطی ، رقم الحدیث: 3297 ، کنز العمال رقم الحدیث :
35121 )
جبل اُحد کا طول سات
کلومیٹر اور عرض دو اور تین کلومیٹر کے درمیان ہے، اس کی بلندی ایک ہزار سترمیٹر
ہے،اس میں بہت سے غار بھی ہیں، بعض غار وں کے دہانے کی بلندی ڈیڑھ میٹر کے قریب او
رگہرائی دس میٹر تک ہے، اس کی داخلی پرتوں میں لوہے اور تانبے کے ذخائر پائے جاتے
ہیں ۔
لشکر اسلام کی روانگی:
جبل اُحد کے ا س مختصر
تعارف کے بعد ہم پھر مدینہ منورہ چلتے ہیں ، جہاں اسلامی لشکر کوچ کرنے کے لئے
بالکل تیار کھڑا ہے، اس فیصلے کے بعد کہ جنگ کے لئے مدینے سے باہر جایا جائے گا
ایک ہزار افراد کا قافلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں جبل اُحد کی
طرف روانہ ہوا ۔ جمعہ کا دن تھا، شوال کی گیارہ تاریخ ؒ تھی، ہجرت کا تیسرا سال چل
رہا تھا ، عصر کے بعد روانگی عمل میں آئی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے پر سوار
تھے ، حضرت سعد بن معاذؓ اور حضرت سعد بن عبادہؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے
آگے چل رہے تھے ،باقی تمام مسلمان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں بائیں تھے، اس
موقع پر بھی حضرت عبداللہ بن ام مکتومؓ کو امام مقرر کیا گیا ۔( الدلائل للبیہقی
:3؍206 ،السنن الکبری
للبیہقی :7؍40،41)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کا خواب:
یہ جنگ سے قبل کا واقعہ
ہے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی مدینے ہی میں تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے
پاس لشکر کفار کی روانگی اور آمد کی خبریں برابر پہنچ رہی تھیں دریں اثنا آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے خواب میں دیکھا کہ ایک گائے ذبح کی جارہی ہے ، یہ بھی دیکھا کہ
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تلوار میں سوراخ ہوگیا ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم
نے اپنا ہاتھ ایک زرہ میں ڈالا ہے۔ یہ خواب بیان کرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے صحابہؓ سے ارشاد فرمایا کہ میں نے گائے ذبح ہونے سے یہ تعبیر اخذ کی ہے کہ
میرے صحابہ میں سے کچھ لوگ قتل کردیئے جائیں گے ، تلوار میں سوراخ کی تعبیر میں نے
یہ لی ہے کہ میرے اہل بیت میں سے کوئی فرد بھی اس جنگ میں قتل کیا جائے گا ، زرہ
سے میں نے مدینہ مراد لیا ہے۔ (صحیح البخاری:12؍7035/
، صحیح مسلم : رقم الحدیث :2270 ، سنن الترمذی : رقم الحدیث :1561 ، مسند احمد بن
حنبل : 3؍351
، زادالمعاد:3؍149)
عبداللہ بن أبی کی
واپسی:
مشورے کے دوران عبداللہ
بن أبی بن سلول نے یہ رائے دی تھی کہ مسلمانوں کو مدینے ہی میں رہ کر کفار کے
حملے کا انتظار کرناچاہئے، اس کا کہنا تھا کہ اہل مدینہ نے جب بھی شہر میں رہ کر
جنگ لڑی کامیاب رہے، باہر نکل کر لڑے تو انہیں ہزیمت اٹھانی پڑی ۔ اس نے عرض کیا
تھا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ! اگر وہ لوگ وہیں پڑے رہے تو یہ ایک
طرح کی خود اختیار ی قید ہوگی ، اور اگر مدینے میں لڑنے کیلئے آگئے تو ہمارے
نوجوان انہیں گھیر گھیر کر ماریں گے، یہاں تک کہ ہماری عورتیں او ربچے بھی ان پر
اینٹ پتھر برساکر انہیں پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیں گے، مجھے یقین ہے کہ وہ یہاں
آئے تو ناکام ونامراد واپس جائیں گے۔ مگر بعص حضرات صحابہ کرامؓ کے اصرار کی وجہ
سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن أبی کی بات نہیں مانی، حالانکہ آپ صلی
اللہ علیہ وسلم خود بھی مدینے میں رہ کر ہی کفار کا انتظار کرناچاہتے تھے ، اگر چہ
بعد میں ان صحابہ کرامؓ نے جن کو باہر نکل کر لڑنے کی تمنا اور شوق تھا اپنی رائے
واپس لے لی تھی، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک مسلح ہوچکے تھے، اس لئے آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے روانگی کا فیصلہ کیا۔ اس طرح ایک ہزار افراد کا یہ قافلہ
ادھر روانہ ہوا جہاں کفار کالشکر مقیم تھا۔
جبلِ اُحد او رمدینہ کے
درمیان ایک مقام شوط ہے، وہاں پہنچ کر عبداللہ بن أبی نے آگے بڑھنے سے انکار
کردیا۔ اس کا کہنا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری بات نہیں مانی،
دوسروں کا مشورہ قبول کرلیا، ہم کیوں ان کی وجہ سے ہلاکت میں ڈالیں، وہ اپنے تین
سو ساتھیوں سمیت جو سب کے سب منافق تھے وہیں سے واپس ہو گیا ، اس طرح ایک تہائی
فوج کم ہوگئی، اب صرف سات سو منافق واپس ہوئے جبل اُحد سے قریب تھی، کفار و مشرکین
ان کی واپسی کا منظر دیکھ رہے تھے اور خوش ہورہے تھے۔
حضرت جابربن عبداللہؓ کے
والد عبداللہ بن عمر و بن حرامؓ ! ابن أبی کے پیچھے پیچھے گئے تاکہ اس کو راہِ
فرار اختیار کرنے سے باز رکھ سکیں ، انہوں نے کہا کہ میں تمہیں اور تمہارے ساتھیوں
کو خدا کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ اپنی قوم او راپنے نبی کو چھوڑ کر واپس مت جاؤ
، دشمن سامنے ہے اس کا مقابلہ کرو۔ مگر وہ بزدل منافق کہنے لگا کہ یہ جنگ نہیں ہے،
خود کوہلاکت میں ڈالنا ہے، اگر جنگ ہوتی تو ہم واپس نہ جاتے، بلکہ تمہارے ساتھ
چلتے، عبداللہ بن عمروؓ یہ کہتے ہوئے لوٹ گئے کہ دفع ہو جاؤ خدا تمہیں ذلیل و
رسوا کرے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تم جیسے بزدل منافقوں کی ضرورت
نہیں ہے۔
قبیلۂ خزرج کے بنو سلمہ
اور قبیلہ اوس کے بنو حارثہ بھی اس موقع پر گومکو کا شکار ہوگئے ،مگر اللہ کی
توفیق ان کے شامل حال رہی، اللہ نے ان کے دلوں کو مضبوط کردیا، اور وہ لشکر اسلام
ہی میں رہے۔( زادالمعاد :3؍149)
بعض انصاری صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر آپ کی اجازت
ہو تو ہم اپنے یہودی حلیفوں کو لڑنے کے لئے بلالیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا: اس کی ضرورت نہیں ہے۔ (سیرۃ ابن ہشام: 3 ؍21)۔
منافقوں کے واپس جانے سے
مسلمانوں کا جوش بڑھا:
تین ہزار افارد پر مشتمل
فوج کا مقابلہ کرنے کیلئے محض ایک ہزار افراد مدینے سے نکلے تھے،ان میں سے بھی تین
سو منافق مدینے واپس چلے گئے، اب صرف سات سو افراد باقی رہ گئے ، بہ ظاہر یہ صورت
حال حوصلہ شکن تھی، ان حالات میں اچھے اچھوں کے پائے ثبات میں لغزش آسکتی تھی،
مگر وہ صحابہ کی جماعت تھی ، جن کا ایمان مضبوط اور یقین مستحکم تھا، ان کے دلوں
میں اللہ او راس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ،
منافقوں سے پاک ہوکر جو جماعت جبل اُحد کی طرف رواں دواں تھی اس کے دل میں صرف
جذبۂ شہادت موجزن تھا ، اسی لئے افراد کی کمی سے ان کا حوصلہ پست نہیں ہوا ، اور
نہ وہ کسی خوف اور ڈر میں مبتلا ہوئے۔ انہیں یقین تھا کہ اگر کفار سے جنگ کرتے
ہوئے موت آگئی تو نہیں غازی ہونے کا اجر و ثواب ملے گا۔ اللہ نے ان کی دست گیری کی
،ان کے دلوں سے ہر طرح کے وسوسے اور اندیشے نکال دیئے ، ان کا استقامت عطا کی اور
وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں دشمن کی طرف بڑھتے چلے گئے ، بلکہ
ابن أبی کی واپسی نے ان کے حوصلوں کو مہمیز کیا، ان کا جوش اور بڑھ گیا ، اور جب
وہ میدان جنگ میں اترے تو ایک نئے جذبے اور جوش سے اترے او رنہایت بے جگری او
ربہادری سے لڑے۔
ابن أبی اور اس کے تین
سو سابتھیوں کی واپسی کا نقد فائدہ یہ ہوا کہ منافقوں کے چہروں سے نقاب ہٹ گیا او
رکھلی کتاب کی طرح ظاہر ہوگئے، ہر شخص سمجھ گیا کہ یہ لوگ جو اسلام کا مکھوٹا پہن
کر ہمارے ساتھ تھے وہ ہمارے ساتھ ہی نہیں بلکہ وہ ہمیں دھوکا دے رہے تھے ، ایک طرح
سے یہ اچھا ہی ہوا کہ منافق راستے سے واپس ہوگئے ، او رمدینے کا اسلامی معاشرہ
منافقوں سے پاک ہوگیا، اگر وہ اپنے نفاق کے ساتھ لشکر اسلام کا حصہ بنے رہتے تو
عین حالت جنگ میں کچھ زیادہ نقصان بھی پہنچ سکتا تھا، ایک نسخے کے لئے مسلمان ان
کی واپسی سے حیران پریشان ضرور ہوئے،بلکہ وہ قبیلوں کے جوانوں نے تو واپسی کا
ارادہ بھی کرلیا تھا، لیکن اللہ کو ان کی سعادت منظور تھی، اس لئے ان کو بچا لیا
اور واپسی کے لئے ان کے اٹھتے قدم وہیں جم گئے جہاں وہ تھے ، یہ آیت کریمہ انہیں
حضرات کی شان میں نازل ہوئی :
’’ جب تمہی میں کے دو گروہوں نے یہ سوچا تھا کہ وہ ہمت ہار بیٹھیں
حالانکہ اللہ ان کا حامی و ناصر تھا او رمومنوں کو اللہ پر ہی بھروسہ کرناچاہئے
‘‘۔(آل عمران:122) (جاری)
17 دسمبر،2021 ، بشکریہ: انقلاب ، نئی دہلی
Related Article
Part:
7- Adjective of Worship مجھے صفت ِ عبدیت زیادہ پسند اور عبد کا لقب زیادہ محبوب ہے
Part: 22- Bani Awf, the Prophet Has Come اے بنی عوف وہ نبیؐ جن کا تمہیں انتظار تھا، تشریف لے آئے
Part:
23- Moon of the Fourteenth Night ہمارے اوپر ثنیات الوداع کی اوٹ سے چودہویں رات کا چاند طلوع
ہوا ہے
Part: 24- Madina: Last Prophet's Abode یثرب آخری نبیؐ کا مسکن ہوگا، اس کو تباہ کرنے کا خیال دل
سے نکال دیں
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/mount-uhud-holy-prophet-pbuh-part-62/d/126006
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism