مولانا ندیم الواجدی
10 دسمبر،2021
جنگ کی تیاری
اس فیصلے کے بعد تمام
ہزیمت خوردہ مشرکین ایک نئے جذبے کے ساتھ جنگ کی تیاری میں مصروف ہوگئے۔ پہلے
مرحلے میں انہوں نے مکہ مکرمہ کے ارد گرد رہنے والے قبائل کے ساتھ رابطہ کیا اور
انہیں اپنے عزم سے آگاہ کیا۔ کنانہ اورتہامہ کے قبائل قدم بہ قدمن مشرکین کے ساتھ
تھے،بہت سے لوگ جن میں سرفہرست عمر و بن العاص، طلحہ بن ابی طلحہ ، ہبیرہ بن ابی
وہب وغیرہ تھے ، وفود کی شکل میں اور انفرادی طور پر مختلف قبیلوں میں پہنچے اور
ان کے جاں بازوں کو اس فیصلہ کن جنگ میں شرکت کی دعوت دی۔ اس جنگ کی خاص بات یہ
تھی کہ اس میں شرکت کیلئے عورتوں کوبھی ساتھ لیا گیا، ان میں کئی خواتین وہ تھیں
جن کے باپ، بھائی یا بیٹے بدر میں مارے گئے تھے اور وہ انتقام کی آگ میں جل رہی
تھیں ، چنانچہ ابوسفیان اورجو لشکرکفار کا قائد تھا اور اپنی بیوی ہند بنت ابی
عتیہ کو لے کر گیا،عکرمہ بن ابی جہل کے ساتھ ام حکیم، حارث بن ہشام کے ساتھ فاطمہ
، بنت ولید ، صفوان ابن ابی امیہ کے ساتھ برزہ بنت مسعود تھیں، او ربھی کچھ خواتین
تھیں جن کاذکر تاریخ کی کتابوں میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔ عورتوں کو ساتھ لے
جانے کامقصد اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ وہ رجزیہ اشعار پڑھیں گی، لڑنے والوں کی ہمت
بڑھائیں گی اور بھاگنے والوں کو غیرت دلائیں گی۔ ویسے بھی عربوں کو اپنی بہو بیٹوں
،ماؤں بہنوں اور بیویوں کی حرمت کے سلسلے میں کچھ زیادہ ہی غیرت تھی، عورتوں کو
فوج کا حصہ اس لئے بھی بنایا گیا تاکہ ان کے بے حرمتی کے خیال سے لڑنے والے خم
ٹھونک کر میدان میں اتریں ،سینہ ٹھونک کر لڑیں اور میدان جنگ سے فرار ہونے کی کوشش
نہ کریں۔(سیرت بن ہشام ،3؍7)
ابوعزہ بن عبداللہ بھی
مشرکین کے ساتھ روانہ ہوا،حالانکہ یہ وہ شخص ہے جس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نے زبردست احسان فرمایا تھا ، یہ شخص بدر کی جنگ میں قید ہوا او راسے دوسرے قیدیوں
کے ساتھ مدینے لایا گیا، جب یہ تمام قیدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت
میں پیش ہوئے او رانہیں بتلایا گیا کہ اب تمہاری رہائی زر فدیہ دے کر ہی ہوسکتی ہے
تو اس نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک غریب آدمی ہوں ، اس پر
کثیرالعیال بھی ہوں، میری غربت اور محتاجگی کا حال آپ پر مخفی نہیں ہے، اس لئے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ پر احسان فرمائیں او رمجھے زر فدیہ لئے بغیر ہی آزاد
کردیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس وعدے پر رہا فرما دیا کہ وہ آئندہ
کبھی بھی کفار کے ساتھ مسلمانوں کے مقابلے میں نہیں آئے گا۔غزوہ احد کیلئے جب
لوگوں کی بھیڑ اکٹھی ہونے لگی توصفوان بن امیہ نے اس سے کہا کہ اے ابوعزہ تم ایک
بہترین شاعر ہو، اس موقع پر تمہیں بھی ہمارے ساتھ ہونا چاہئے، کچھ نہیں تو تم اپنی
شاعری ہی کے ذریعے ہماری مدد کردینا، اس نے جواب دیا کہ مجھ پر محمد صلی اللہ علیہ
وسلم نے احسان کررکھا ہے،میں ان کے سامنے خو د کو ظاہر نہیں کرناچاہتا ۔ انہوں نے
مجھے اس شرط پر چھوڑ دیا تھاکہ آج کے بعد میں ان کے خلاف کسی کو نہ ورغلاؤں گا
اور نہ بھڑکاؤں گا ۔مگر صفوان کے دیئے ہوئے لالچ کے سامنے اس کے قدم لڑکھڑا گئے ،
وہ اپنے وعدے پر قائم نہ رہ سکا ۔ صفوان نے اس کو یہ لالچ دیا کہ تم ہمارے ساتھ
چلو اور اپنی ذات سے اس جنگ میں حصہ لو، اگر خیریت کے ساتھ واپس آگئے تو میں
تمہیں مالامال کردوں گا اور اگر مارے گئے تو تمہاری بیٹیاں میری بیٹیوں کے ساتھ
رہیں گی، تنگی اور خوش حالی میں جو میری بیٹیوں کا حال ہوگا وہی حال تمہاری بیٹیوں
کاہوگا، اس لالچ کے آگے وہ ڈھیر ہوگیا اور جنگ میں حصہ لینے کیلئے آمادہ ہوگیا۔(
سیرت ابن ہشام ، 3؍20)
قریش نے اس جنگ میں حصہ
لینے کے لئے لوگوں کو کس کس طرح آمادہ کیا اور انہیں کیسے کیسے لالچ دیئے ، اس
کااندازہ وحشی کے واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے۔ یہ جبیربن مطعم کا غلام تھا، جب فوج
میں بھرتی کرنے کے لئے وفود نے قبائل کا دورہ شروع کیا تو نافع بن عبدمناف نے جبیر
سے رابطہ کیا، جبیر نے اپنے غلام وحشی کو سامنے کردیا، یہ بہترین تیر انداز تھا،
اس کانشانہ کم ہی خطا ہوتاتھا، جبیر نے اس سے کہا کہ تم بھی ہمارے ساتھ چلو،اگر تم
نے میرے چچا طعیمہ بن عدی کے بدلے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حمزہ رضی اللہ
عنہ بن عبدالمطلب کو قتل کردیا تو میں تمہیں آزاد کردو ں گا۔ جبیربن مطعم کی زبان
سے آزادی کا نام سن کر وحشی فوراً تیار
ہوگیا۔ (سیرت ابن ہشام ،3؍18)
دوسری طرف ہند بنت عتیہ
ابن ربیعہ بھی اپنے دو بھائیوں ابو حذیفہ بن عتیہ اور ولید بن عتیہ او راپنے باپ
عتیہ ابن ربیعہ کے قتل کاانتقام لینے کے لئے بے چین تھی، اسے جب یہ معلوم ہوا کہ
وحشی حمزہ کے قتل کے لئے خصوصی ہدایت ملی ہے تو اس نے بھی وحشی کو لالچ دیا او
رکہا کہ اگر تونے حمزہ کو قتل کرکے میرا کلیجہ ٹھنڈا کردیا تو میں تجھے خوش کردو ں
گی۔ (کتاب المغازی ، واقدی ، 1؍285)
قریش کی روانگی
قریش کا یہ فوجی قافلہ
پورے جاہ و حشم او رمکمل ساز وسامان کے ساتھ 5 ؍شوال
المکرم سن 3ھ کو مکہ مکرمہ سے روانہ ہوا، اس قافلے میں شامل لوگوں کی تعداد تین
ہزار تھی، سات سو لوگ زرہ پوش تھے ، دو سو گھوڑے اور تین ہزار اونٹ بھی ساتھ تھے،
لمبا سفر طے کر کے یہ قافلہ مدینے کے باہر جبل احد کے قریب مقام عینین میں خیمہ زن
ہوا، فوج کی قیادت ابوسفیان کررہاتھا، گھوڑ سواروں کا دستہ خالد بن ولید کی
سرکردگی میں تھا، پندرہ عورتیں بھی ان کے ساتھ تھیں جو تمام راستے رجزیہ اشعار پڑھ
کر مشرکین کالہو گرما تی رہیں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم کو قریش کی تیاری اور روانگی کی خبر مل چکی تھی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے
چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب اگرچہ جنگ بدر اسیروں میں شامل تھے، مگر
وہ دوبارہ مشرکین کے ساتھ لڑنے کیلئے نہیں آئے، بلکہ انہیں جیسے ہی یہ اطلاع ملی
کہ قریش ایک فیصلہ کن جنگ کرنے کے ارادے سے نکلنے کاعزم رکھتے ہیں، انہوں نے قبیلہ
غفار کے ایک ہوشیار آدمی کو اس شرط کے ساتھ مدینے بھیج دیا کہ وہ تیز رفتار سواری
کے ذریعے جلد از جلد مدینے پہنچے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں
حاضر ہوکر مشرکین کے عزائم کی اطلاح دے۔ (سیرت ابن کثیر،3؍20
، زادالمعاد،3؍150)
صحابہ سے مشورہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کو جیسے ہی یہ اطلاع ملی کہ قریش جنگ کے ارادے سے ایک بڑی تعداد کے ساتھ
مدینے آرہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ اور حضرت مونس
رضی اللہ عنہ کو مکہ کی طرف دوڑایا تاکہ وہ دونوں یہ دیکھ کر آئیں کہ قریش کا
قافلہ کہاں تک پہنچ چکا ہے۔ انہوں نے آکر خبردی کہ قریش مدینے کے قریب آکر فرد
کش ہوچکے ہیں ۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حباب بن منذر رضی اللہ
عنہ کو یہ دیکھنے کے لئے بھیجا کہ فوج میں کتنے لوگ شامل ہیں۔ انہوں نے واپس آکر
قریش کی تعداد سے آگاہ کیا۔ اس رات مدینے میں سب لوگ جاگتے رہے ، بہت سے صحابہ
رضی اللہ عنہ کو مدینے کے اطراف میں مناسب جگہوں پر بٹھا یا گیا تاکہ وہ دشمنوں کی
نقل و حرکت پرنظررکھیں او رکوئی غیر معمولی بات نظر آئے تو فوراً حاضر خدمت ہوکر
اس کی اطلاع دیں۔ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ، اسید بن حضیررضی اللہ عنہ اور
سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ مسجد نبوی کی نگرانی پر مامور کئے گئے، یہ جمعہ کی شب
تھی، جمعہ کی صبح کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام صحابہ رضی اللہ عنہ کو مشورے
کے لئے جمع فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا کہ اس صورت حال
میں ہمیں کیا کرناچاہئے ، کیاہم لوگ وہاں پہنچ کر ان کامقابلہ کریں جہاں وہ اس وقت
پڑاؤ ڈالے ہوئے ہیں یا مدینے میں ٹھہر کر ان کاانتظار کریں۔ خود آپ کی رائے یہ
تھی کہ مدینے سے باہر نہ نکلا جائے ،بلکہ یہیں رہ کر ان کا مقابلہ کیا جائے، جب وہ
مدینے پر حملہ آور ہوں گے تو ان کو یہیں گلی کوچوں میں گھیر گھیر کر ماراجائے گا،
عبداللہ بن ابی منافق کی بھی رائے یہی تھی۔ اس نے تو یہاں تک کہا کہ جو جنگیں ہم
نے مدینے میں رہ کر لڑی ہیں ان میں ہم نے کامیابی حاصل کی ہے اور جن جنگوں میں ہم
دشمنوں سے مقابلے کے لئے باہر نکلے ہیں ان میں ہمیں شکست کامنہ دیکھنا پڑا ہے۔
بعض پر جوش صحابہ رضی
اللہ عنہ کی رائے اس کے برعکس تھی، ان میں کچھ صحابہ رضی اللہ عنہ وہ بھی تھے جو
جنگ بدر میں شریک نہ ہوسکے تھے، ان کی دلی تمنا یہ تھی کہ باہر نکل کر دشمنوں سے
لڑا جائے۔ دراصل یہ شوق شہادت تھا جو انہیں کوئی لمحہ گنوائے بغیر دشمنوں سے دو
بدو ہونے پر اکسارہاتھا، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے اس کے
برعکس تھی۔ جہاں دیدہ اورتجربہ کار عبداللہ بن اُبی بھی باہر نکلنے کے مخالف تھا،
بہت سے اکابر صحابہ رضی اللہ عنہ بھی یہی چاہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کی رائے گرامی پر عمل کرنا ہی بہتر ہے، مگر پرُ جوش اورجوان العمر صحابہ
کااصرار جاری رہا۔
حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ ،
حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ اور حضرت نعمان بن مالک رضی اللہ عنہ اس سلسلے میں
پیش پیش تھے۔ حضرت نعمان رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہمیں جنت سے محروم
نہ فرمائیں، حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ
علیہ وسلم پر قرآن نازل کیا ہے میں اس وقت تک کھانانہیں کھاؤں گا جب تک مدینے سے
باہر نکل کر تلوار سے دشمن کا مقابلہ نہ کرلوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
اپنی رائے واپس لے لی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر کے اندر تشریف لے گئے او
رہتھیار لگا کر باہر تشریف لائے۔
بعض صحابہ نے اصرار کیا
اوربہت زیادہ اصرار کیا، مگر جلد ہی انہیں اپنی غلطی کااحساس بھی ہوگیا۔ آپ صلی
اللہ علیہ وسلم ہتھیار لگاکر باہر تشریف لائے تو اصرار کرنے والے صحابہ کرام رضی
اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر آپ مدینے میں ہی
رہنا پسند فرماتے ہیں تو ہمیں اپنی رائے پر اصرار نہیں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم
اپنی رائے عالی پر عمل فرمائیں ، اب تک ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں
جو معروضات پیش کیں وہ بربنائے شوقِ شہادت تھیں، اب ہمیں اپنی غلطی کا احساس ہوگیا
ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے کے سامنے ہماری رائے کی نہ کوئی اہمیت ہے نہ
قیمت ، ہماری التجا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی رائے کے مطابق ہی فیصلہ
فرمائیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا: کسی بنی کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ ہتھیار لگا کر اتار
دے، یہاں تک کہ اللہ اس کے اور دشمن کے درمیان کوئی فیصلہ نہ کردے۔ گویا آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے یہ اعلان فرما دیا کہ اب جنگ باہر نکل کر ہی ہوگی، یہ ہتھیار اب
جنگ کے بعد ہی اتارے جائیں گے۔ (زاد المعار، 3؍148،
مسند احمد، 3؍351
، سنن دارمی،2؍129)
(جاری)
10 دسمبر،2021 ، بشکریہ : انقلاب، نئی دہلی
Related Article
Part:
7- Adjective of Worship مجھے صفت ِ عبدیت زیادہ پسند اور عبد کا لقب زیادہ محبوب ہے
Part: 22- Bani Awf, the Prophet Has Come اے بنی عوف وہ نبیؐ جن کا تمہیں انتظار تھا، تشریف لے آئے
Part:
23- Moon of the Fourteenth Night ہمارے اوپر ثنیات الوداع کی اوٹ سے چودہویں رات کا چاند طلوع
ہوا ہے
Part: 24- Madina: Last Prophet's Abode یثرب آخری نبیؐ کا مسکن ہوگا، اس کو تباہ کرنے کا خیال دل
سے نکال دیں
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism