مولانا ندیم الواجدی
15 اکتوبر،2021
عمرو بن عبداللہ کی رہائی
پورا نام ابوعِزّۃ عمرو
بن عبداللہ الجہمی ہے۔ یہ ایک غریب آدمی تھا، کثیر العیال بھی تھا، رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا گیا، عرض کیا: یارسولؐ اللہ! آپ تو جانتے ہیں
کہ میں ایک غریب آدمی ہوں، میں کہاں سے مال پیش کروں، میں آپؐ کی نظر کرم کا
محتاج ہوں، مجھ پر احسان فرمائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو فدیہ لئے
بغیر رہا فرمادیا اور اسے یہ بھی ہدایت فرمائی کہ اس کا ذکر کسی سے نہ کرنا۔ رِہا
ہونے کے بعد اس نے آپ ؐ کی مدح میں ایک قصیدہ بھی لکھا، رہائی کے بعد وہ مکہ
پہنچا، مشرکین سے ملا اور ان کی باتوںمیں آگیا۔غزوۂ احد میں لڑنے کے لئے آیا،
گرفتار ہوا اور دوبارہ آپ ؐکی خدمت میں لایا گیا، آپؐ نے اس سے پوچھا کیا تجھ پر
پھر احسان کردیا جائے، اس نے عرض کیا :میں دوسری مرتبہ احسان کی درخواست کرکے
شرمندہ نہیں ہونا چاہتا۔ (البدایہ والنہایہ، ۳؍۱۱۳)
سہیل بن عمرو کا قصہ
بدر کے قیدیوں میں سہیل
بن عمرو بھی تھے، یہ قریش کے بہترین خطیب تھے، اپنی طلاقت لسانی اور فصاحت بیانی
سے لوگوں کے دل و دماغ پر چھا جاتے تھے اور ان کے خیال و فکر کو متاثر کردیتے تھے،
بدر میں گرفتار تو ہوگئے مگر روحاء کے مقام پر اپنے نگراں مالک بن دُخشم کوجُل دے
کر فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا کہ
انہیں تلاش کیا جائے ۔ آپؐ بھی ان کی
تلاش میں نکلے، یہ ان کی خوش قسمتی تھی کہ ان پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی
نظر پڑ گئی، کوئی اور دیکھتا تو حکم کی تعمیل میں گردن اڑا دیتا، مگر آپؐ نے
گرفتار کرنے کا حکم دیا، حضرت عمر بن الخطابؓ نے عرض کیا : اگر اجازت ہو تو ان کے
سامنے کے دانت توڑ دوں؟ تاکہ وہ آپ کے خلاف بکواس کرنے کے قابل ہی نہ رہے۔ آپؐ
نے فرمایا:نہیں، رہنے دو۔ ہوسکتا ہے اللہ
تعالیٰ اس سے کوئی ایسا کام لے جسے تم پسند کرو۔ آپؐ کی یہ پیشین گوئی حرف بہ حرف
سچ نکلی، سہیل مشرف بہ اسلام ہوئے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد جب رنج و غم کی
وجہ سے صحابہ کرامؓ کی عقلیں مائوف ہوچکی تھیں، حضرت ابوبکرؓ نے ایک بلیغ خطبہ
ارشاد فرمایا اور یہ آیت پڑھی: وَمَا مُحَمَّدٌ اِلاَّ رَسُوْلٌ … الخ۔تقریر سن کر تمام صحابہؓ ہوش میں آگئے
اور ایسا لگا کہ یہ آیت آج ہی نازل ہوئی ہے، اس وقت حضرت سہیل بن عمروؓ مکہ
مکرمہ میں تھے، وہاں بھی صحابہ کرامؓ کا یہی حال تھا۔ اس موقع پر حضرت سہیل بن
عمروؓ نے زبردست تقریر کی اور یہ کہہ کر ارتداد کے بڑھتے ہوئے سیلاب پر بند لگا
دیا کہ اے لوگو! تم نے ایمان لانے میں بڑی تاخیر کی تھی، ارتداد میں جلدی کرنے کی
غلطی نہ کرو، ہوش سے کام لو۔ اس تقریر سے
لوگوں کے لڑکھڑاتے ہوئے قدم رک گئے اور وہ دین حنیف پر جمے رہے، یہی وہ کام ہے جو
سہیلؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد مکے میں انجام دیا اور جس
کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ فرمایا تھا ۔ (البدایہ والنہایہ، ۳؍۳۱۱)
تعلیم کے بدلے رہائی
قیدیوں میں بعض لوگ ایسے
بھی تھے جن کے پاس دینے کے لئے کچھ بھی نہ تھا، ان میں سے بعض پڑھے لکھے بھی تھے
اور کچھ لوگ فدیہ دے کر رہا بھی ہوسکتے تھے مگر وہ پڑھے لکھے تھے، اس طرح کے تمام
قیدیوں کو مکلف کیا گیا کہ وہ انصار کے بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھائیں، ایک قیدی دس
بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا کر آزادی کا مستحق قرار پایا۔
عامر الشعبی کہتے ہیں کہ
ایک قیدی کا زر فدیہ کم و بیش چار ہزار درہم تھا۔ (طبقات ابن سعد، ۳؍۲۲) اتنی بڑی رقم کے عوض کچھ
بچوں کو پڑھا دینا بڑی سہولت اور مالی منفعت کا سبب تھا۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں تعلیم کی کس قدر اہمیت تھی، حالاں کہ اس
وقت مسلمانوں کو مال کی زیادہ ضرورت تھی، مگر آپؐ نے مال کے بجائے تعلیم کو مقدم
رکھا، حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے ہمیشہ تعلیم کو اولیت دی ہے اور جہالت کے خاتمے پر
زور دیا ہے۔ پہلی وحی کی ابتداء ہی اقرأ
سے ہوئی ہے، جو بہ جائے خود تعلیم کی اہمیت کو واضح کرتی ہے۔ اس سے یہ بھی پتہ
چلتا ہے کہ اس زمانے میں بھی عرب کے لوگ پڑھنا لکھنا جانتے تھے، اگرچہ اکثریت
تعلیم سے بے بہرہ تھی، مگر ان میں کچھ نہ کچھ لوگ ایسے ضرور تھے جو پڑھ بھی لیتے تھے
اور لکھ بھی سکتے تھے۔ مثال کے طور پر حضرت عمر ابن الخطابؓ دور جاہلیت میں قبائلی
سرداروں سے خط و کتابت کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے تھے، مدینہ منورہ میں بھی متعدد
اصحابِ رسول لکھنا جانتے تھے، ان حضرات سے قرآن کریم کی آیات لکھنے کا کام لیا
جاتا تھا۔
کچھ ایسے بھی تھے
مشرکین کے لشکر میں کچھ
لوگ ایسے بھی تھے جو مسلمان ہوچکے تھے، مگر انہوں نے ہجرت نہیں کی تھی، جیسے حارث
بن زمعہ بن الاسود، ابوالعیش بن الفاکہہ بن المغیرہ، ابوالقیس بن الولید بن
المغیرہ، علی بن اُمیہ بن خلف، عاص بن منَبّہ بن الججاج، یہ لوگ ہجرت کر سکتے تھے،
ان کے ساتھ کوئی مجبوری نہیں تھی، مگر انہوں نے ہجرت نہیں کی، اس کا خمیازہ انہیں
بھگتنا پڑا۔ یہ تمام لوگ سماجی مجبوریوں کی بنا پر مشرکین کی فوج کا حصہ بنے۔
میدان بدر میں مسلمانوں کے مقابل آئے، اور سب کے سب مارے گئے۔ ایسے لوگوں کے
متعلق سوال پیدا ہوا کہ ان کی مغفرت ہوگی یا نہیں؟ قرآن کریم نے صاف طور پر اعلان
کردیا کہ ہجرت کی استطاعت رکھنے کے باوجود ہجرت نہ کرنے والے مسلمان کہلائے جانے
کے مستحق نہیں ہیں، پھر اللہ و رسولؐ کے مقابلے پر جنگ میں حصہ لینا بھی ان کے
ایمان و اسلام پر سوالیہ نشان لگاتا ہے۔ سورۂ نساء میں ہے ’’جن لوگوں نے اپنی
جانوں پر ظلم کیا تھا اور اسی حالت میں فرشتے ان کی روح قبض کرنے آئے تو بولے تم
کس حالت میں تھے، وہ کہنے لگے ہم تو زمین میں بے بس بنا دئیے گئے تھے۔ فرشتوں نے
کہا کیا اللہ کی زمین کشادہ نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کر جاتے؟ لہٰذا ایسے لوگوں
کا ٹھکانہ جہنم ہے۔‘‘ (النساء:۹۷)
اگلی آیت میں ان لوگوں کا استثناء بھی ہے جو کسی حقیقی
عذر کی بنا پر ہجرت نہ کرسکے۔
ابتدائِ اسلام میں مکے سے
مدینے کی طرف ہجرت فرض تھی، فتح مکہ کے بعد یہ فرضیت منسوخ کردی گئی، اب قیامت تک
جو ہجرت کی جائے گی وہ مستحب ہوگی۔ (صحیح البخاری، ۹؍۳۴۵، رقم الحدیث ۲۵۷۵، صحیح مسلم، ۷؍۸۳، قم الحدیث، ۲۴۱۲)
مالِ غنیمت کی تقسیم
مشرکین قریش قتل بھی
ہوئے، گرفتار بھی کئے گئے اور اپنا قیمتی سامان چھوڑ کر بھی بھاگے ، مقتولین اور
گرفتار شدگان کی زرہیں، ان کا اسلحہ وغیرہ بھی مسلمانوں کو مالِ غنیمت کے طور پر
ہاتھ لگا، جنگ کے خاتمے کے بعد بہت سے صحابہ کو مال غنیمت سمیٹنے اور اسے ایک جگہ
لا کر جمع کرنے کا کام سونپا گیا، صحابہؓ کی ایک جماعت بھاگنے والوں کے تعاقب میں
رہی اور انہیں دور تک کھدیڑ کر واپس ہوئی۔ کچھ لوگ رسول اللہ ﷺ کی حفاظت پر مامور
کئے گئے، اس خیال سے کہ کوئی ہزیمت خوردہ اور مایوسی کا شکار مشرک رسولؐ اللہ کے
خیمے کی طرف نہ آ نکلے، اس طرح تین جماعتیں ہوگئیں، تینوں کی ذمہ داریاں مختلف
مگر اہم تھیں، جو لوگ میدانِ جنگ میں بکھرا ہوا یا کفار کے خیموں میں پڑا ہوا
سامان اکٹھا کر رہے تھے، انہیں یہ گمان ہوا کہ کیوں کہ ہم یہ سامان جمع کر رہے
ہیں، اس لئے اس پر ہمارا حق ہے، دوسری طرف دشمنوں کی تلاش میں نکلے ہوئے صحابہ کا
خیال تھا کہ ہمارا کام بھی اہم تھا، ہم دشمنوں کو دور تک بھگانے میں کامیاب رہے۔
رسول اکرم ؐ کی حفاظت پر مامور دستے کا کہنا یہ تھا کہ سب سے اہم کام تو یہ تھا کہ
آپ کی ذات گرامی کو کوئی گزند نہ پہنچے اور یہ اہم کام ہم نے انجام دیا ہے۔(مسند
احمد بن حنبل، ۵؍۳۲۴، رقم الحدیث ۲۲۷۶۲)یہ پہلی جنگ تھی، اور اس
وقت تک مالِ غنیمت کی تقسیم کے سلسلے میں کوئی حکم نازل نہیں ہوا تھا، ہوسکتا ہے قبائلی
جنگوں میں یہ صورتِ حال رہی ہو کہ جس کے جو ہاتھ لگے وہ اسی کا ہے، مالِ غنیمت کی
تقسیم کے سوال پر صحابہ کرامؓ میں جو بحث ہوئی وہ اس وقت کے ماحول کی مناسبت سے
بالکل صحیح تھی۔
اختلافِ رائے کے اس پس
منظر میں سورۂ انفال کی پہلی آیت نازل ہوئی، اس میں ایک طرف تو یہ واضح کردیا
گیا کہ جو مال غنیمت تم لوگوں کے ہاتھ لگا ہے، وہ سب اللہ اور اس کے رسول کا ہے،
لہٰذا تم لوگ اس معاملے سے خود کو الگ رکھو، جھگڑا کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اللہ
اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے رہو اور اللہ سے ڈرتے رہو، تمام صحابہ نے جو مال و اسباب
جمع کیا تھا وہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کردیا، آپ نے چند
صحابہؓ کو اس سامان کا محافظ، نگراں اور ذمہ دار بنا کر آگے روانہ کردیا۔
اس سفر میں اسی سورہ کی
ایک اور آیت نازل ہوئی، الحمد للہ تمام صحابہ اطاعت اور استغناء کے امتحان میں
کامیاب ہوچکے تھے، سب کے ذہن میں یہ بات بیٹھ چکی تھی کہ اس مال پر ہمارا کوئی حق
نہیں ہے کیوں کہ یہ تو اللہ اور اس کے رسول کا ہے، مگر صحابہؓ کی بہادری، جاں
نثاری اور جاں فشانی کا تقاضا یہ تھا کہ انہیں محروم نہ رکھا جائے، اس لئے مناسب
موقع پر یہ حکم نازل ہوا کہ اس مال کو اللہ کے بیان کردہ ضابطے کے مطابق تقسیم
کردیا جائے، وہ آیت جو مالِ غنیمت کی تقسیم کے سلسلے میں نازل ہوئی یہ ہے: ’’اور
(اے مسلمانو) یہ بات جان لو کہ تم جو کچھ مالِ غنیمت حاصل کرو، اس کا پانچواں حصہ،
اللہ اور رسول اور ان کے قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کا حق ہے۔‘‘(الانفال: ۴۱)
مقام صفراء میں پہنچ کر
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچواں حصہ رکھ کر باقی چار حصے صحابہ کرامؓ میں
تقسیم فرمادیئے۔
حضرت عبادہ بن الصامتؓ سے
جو ایک مشہور صحابی ہیں سورۂ انفال کے متعلق سوال کیا گیا کہ وہ کس پس منظر میں
نازل ہوئی، انہوں نے فرمایا ہم بدریین
(اہل بدر)میں مالِ غنیمت کو لے کر اختلاف ہو گیا تھا اور کچھ آوازیں بھی
بلند ہوگئی تھیں (عموماً بحث کے دوران ایسا ہوجاتا ہے) اس وقت اللہ رب العزت نے یہ
مال ہم سے واپس لے لیا اور یہ حکم نازل فرمایا کہ اب اس پر تمہارا کوئی حق نہیں
ہے، یہ اللہ اور اس کے رسول کا ہے (مگر بعد میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
یہ تمام مال مسلمانوں کے مابین برابر تقسیم کردیا۔ (مسند احمد بن حنبل، ۵؍۳۲۲، رقم الحدیث، ۲۲۷۴۷)
مال غنیمت میں غیر بدریین
کا حصہ
کچھ صحابہؓ ایسے بھی تھے
جو بدر کی جنگ میں شریک نہیں ہوئے مگر ان کو مالِ غنیمت میں سے حصہ دیا گیا، یہ وہ
لوگ تھے جو کسی مجبوری کے تحت جنگ میں شرکت نہ کرسکے تھے، مثال کے طور پر حضرت
عثمان بن عفانؓ، ان کی اہلیہ محترمہ حضرت رقیہؓ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
بہت بیمار تھیں، ان کی تیمار داری کے لئے مدینے میں حضرت عثمانؓ کا رہنا ضروری
تھا، اسی طرح حضرت اُسامہ بن زید بن حارثہؓ بھی جنگ میں شرکت کے متمنی تھے، وہ گھر
سے نکل بھی چکے تھے، ان کو راستے سے واپس کیا گیا،ایک تو اس لئے کہ وہ ابھی کم عمر
تھے اور دوسرے اس لئے کہ ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت رقیہؓ کی
دیکھ بھال کا حکم دیا تھا۔ (دلائل النبوۃ البیہقی، ۴۶۳۱۸، رقم الحدیث، ۳۲۷۹)
اسی طرح ایک اورصحابی
حضرت اُمامہؓ بھی جنگ میں شریک نہ ہوسکے کیوں کہ ان کی والدہ بیمار تھیں، جس وقت
مجاہدین کے نکلنے کا سلسلہ شروع ہوا تووہ بھی تیارہو گئے، ابوبردہؓ نے جو
ابوامامہؓ کے ماموں تھے، ان سے کہا کہ تم مت جاو، اپنی والدہ کے پاس رہو اور ان کی
خدمت کرو، ابوامامہؓ نے جواب دیا، آپ یہاں رکیں، آپ میری والدہ کے بھائی ہیں،
آپ کو ان کی دیکھ بھال کرنی چاہئے، دونوں کا معاملہ رسول اکرم ﷺکی عدالت عالیہ میں
پیش ہوا، آپ نے ابوامامہ کو حکم دیا کہ وہ رکیں اور اپنی والدہ کی تیمارداری
کریں۔ اس طرح ابوبردہ چلے گئے اور ابوامامہ مدینے میں رہ گئے۔ (مجمع الزوائد، ۳؍۳۱)
بعض صحابہؓ ان دنوں کچھ
اور طرح کی مہمات میں مصروف تھے، وہ بھی غزوۂ بدر میں شریک نہ ہوسکے، حضرت ابولبابہؓ
کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امامت کی ذمہ داری دے کر راستے سے واپس بھیج
دیا تھا، عاصم بن عدیؓ کو مدینے کے بالائی علاقے میں ذمہ دار بنایا گیا تھا، وہ
وہاں مصروف تھے، حارث بن حاطبؓ قبیلۂ بنی عمرو بن عوف میں دعوتی مہم پر تھے، حارث
بن الصِّمہؓراستے میں گر گئے تھے، ان کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی، انہیں بھی واپس بھیج دیا
گیا تھا۔ حضرت بن جبیر کے پائوں پر پتھر آپڑا تھا، ان کو بھی مقام صفرا سے واپس
کردیا گیا تھا۔ سعد بن مالکؓ راستے میں فوت ہوگئے تھے، صبیح کو بیماری کی وجہ سے
واپس ہونا پڑا تھا۔ ان تمام لوگوں کو مال غنیمت میں سے پورا پورا حصہ دیا گیا۔
جنگ کے دوران چودہ صحابہؓ
نے جام شہادت نوش کیا تھا، ان کے اہل و عیال کو بھی مالِ غنیمت دیا گیا، شہداء کی
تکریم اور ان کے پس ماندگان کی دل جوئی و دل بستگی کایہ پہلا نمونہ ہے جو رسول
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیائے انسانیت کے لئے پیش فرمایا۔ (السیرۃ النبویہ
لابی الشہبہ، ۲؍۱۷۶)(جاری)
15 اکتوبر،2021، بشکریہ: انقلاب،
نئی دہلی
Related Article
Part:
7- Adjective of Worship مجھے صفت ِ عبدیت زیادہ پسند اور عبد کا لقب زیادہ محبوب ہے
Part: 22- Bani Awf, the Prophet Has Come اے بنی عوف وہ نبیؐ جن کا تمہیں انتظار تھا، تشریف لے آئے
Part:
23- Moon of the Fourteenth Night ہمارے اوپر ثنیات الوداع کی اوٹ سے چودہویں رات کا چاند طلوع
ہوا ہے
Part: 24- Madina: Last Prophet's Abode یثرب آخری نبیؐ کا مسکن ہوگا، اس کو تباہ کرنے کا خیال دل
سے نکال دیں
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism