مولانا ندیم الواجدی
22 اکتوبر،2021
بدر کی فتح اور رومیوں کا
غلبہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم جب اپنے مجاہد رفقاء واصحابؓ کے ساتھ مدینے تشریف لائے تو ایک بڑی خوش خبری
آپ کی منتظر تھی اور وہ ایرانیوں پر رومیوں کے غلبے کی خبر تھی۔ اس خبر سے فتح
بدر کی خوشی دو چند ہوگئی۔ اس خبر کے پس منظر کو سمجھنے کے لئے ہمیں چھ سال قبل از
ہجرت کی طرف جانا ہوگا۔ ان دنوں دنیا کی
دو بڑی طاقتوں کے درمیان جنگ جاری تھی، یہ ۶۱۵ء کا زمانہ ہے اور شام کا علاقہ میدان جنگ
بنا ہوا ہے۔ ایک طرف ایرانی سلطنت تھی، دوسری طرف رومن امپائر تھا، اس کا
دارالحکومت موجودہ استنبول یا قدیم قسطنطنیہ تھا۔ شام، فلسطین اور ایشیائے کوچک کے
علاقے سب اسی میں شامل تھے، یہ دونوں ہی کفار تھے اور بظاہر ان میں سے کسی کی فتح
وشکست سے مسلمانوں کو کوئی دلچسپی نہیں ہونی چاہئے تھی، مگر ان میں اہلِ فارس یعنی
ایرانی آتش پرست مشرکین تھے۔ اس بنا پر مشرکین مکہ کا جھکاؤ ایرانیوں کی طرف تھا
اور وہ یہ چاہتے تھے کہ اس جنگ میں ایران کو فتح حاصل ہو۔ دوسری طرف رومی تھے جو
عیسائی مذہب کے پیروکار ہونے کی حیثیت سے اہل کتاب تھے، یہ لوگ نسبتاً مسلمانوں سے
قریب تھے، کیوں کہ بہت سے اصول دین جیسے رسالت، وحی، آخرت وغیرہ پریہ لوگ بھی
مسلمانوں کی طرح ایمان رکھتے تھے اس لئے مسلمان چاہتے تھے کہ اس جنگ میں رومی
ایرانیوں پر غالب آئیں۔ مگر ہوا یہ کہ رومی شکست کھاگئے، قیصر روم قسطنطنیہ میں
محصور ہوکر رہ گیا، باقی تمام علاقے ایرانیوں کے قبضے میں چلے گئے۔
اہل فارس کے غلبے کی خبر
سن کر مشرکین مکہ خوشی سے جھوم اٹھے۔ اس واقعے سے انھوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا یا یہ
نیک فال لی کہ ایک دن ہم بھی محمدؐ اور ان کے ساتھیوں پر غالب آئیں گے۔ دوسری طرف
مسلمانوں میں مایوسی پھیل گئی۔ اس وقت سورۂ روم کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں جن
میں یہ پیشین گوئی کی گئی تھی کہ چند سال بعد پھر رومی غالب آجائیں گے۔
اس میں شک نہیں کہ قرآن
ایک زندہ معجزہ ہے، حالانکہ اہل فارس رومی سلطنت پر غالب آچکے تھے، مگر ان حالات میں بھی وہ یہ پیش گوئی
کررہا ہے کہ ایرانیوں کی یہ فتح عارضی ہے بہت جلد اُن کی یہ فتح شکست میں تبدیل
ہوگی اور رومی ایرانیوں پر غلبہ حاصل کرلیں گے۔ قرآن کریم نے لفظ بِضْعَ سے اس کی
مدت بھی بیان فرمادی، اس کا اطلاق تین سے دس تک کی تعداد پر ہوتا ہے۔ گویا رومی
اگلے چند سالوں میں ایران کو شکست دے کر پھر غالب آجائیں گے۔ ایسا ہی ہوا۔ ۹؍
سال بعد یہ پیش گوئی ۶۲۴ء
میں پوری ہوگئی اور رومیوں کو ایرانیوں پر فتح حاصل ہوگئی۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ کے
یقین کا یہ حال تھا کہ جیسے ہی انھوں نے رومی غلبے کی پیش گوئی کرنے والی آیات
سنیں وہ کفار کے مجمع میں پہنچے اور وہاں جاکر
یہ اعلان کیا کہ اے اہل مکہ! تم اس عارضی فتح سے خوش مت ہونا! رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ خبر دی ہے کہ بہت جلد پانسہ پلٹے گا اور رومی
ایرانیوں پر غلبہ حاصل کرلیں گے۔ أبی ابن خلف بھی وہاں موجود تھا، اس نے حضرت
ابوبکرؓ سے سو سو اونٹ کی شرط لگائی کہ اگر نو سال کے اندر رومی غالب نہ آئے تو
تم سو اونٹ مجھے دینا، اور غالب آگئے تو سو اونٹ میں تمہیں دوں گا، اس دوران ہجرت
ہوگئی، جنگ بدر بھی واقع ہوگئی، أبی ابن خلف مارا گیا، نو سال سے پہلے ہی روم
وفارس میں پھر جنگ چھڑی اور رومی غالب آگئے۔ حضرت ابوبکرؓ نے شرط کے سو اونٹ أبی
ابن خلف کے بیٹو ں سے وصول کرلیے، اس وقت تک قمار کی حرمت نازل نہیں ہوئی تھی، اس
کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرؓ سے ارشاد فرمایا کہ ان
اونٹوں کو صدقہ کردو۔ (تفسیر خازن: ۳/۳۸۶،
تفسیر قرطبی:۱۴/۳)
حضرت رقیہؓ کی وفات کا
واقعہ
رسول اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم کی صاحب زادی حضرت رقیہؓ ، حضرت عثمان غنیؓ کی زوجیت میں تھیں۔ غزوۂ بدر سے
کچھ پہلے آپ اچانک بیمار پڑ گئیں۔ حضرت عثمانؓ بھی غزوۂ بدر کے سفر میں رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جانا چاہتے تھے، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
انہیں اس کی اجازت نہیں دی بلکہ ان سے فرمایا کہ وہ رقیہؓ کی تیمار داری کے لئے
مدینے میں رہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسامہ بن زیدؓ کو بھی مدینے میں
رکنے کے لئے فرمایا، تاکہ وہ حضرت رقیہؓ کی تیمار داری میں حضرت عثمانؓ کی مدد
کریں، حضرت عثمانؓ کی تسلّی اور دل جوئی کے لئے آپؐ نے ان سے فرمایا: ’’تمہارے
لئے بدر میں شرکت کرنے والوں کے برابر اجر ہے اور وہاں کے غنائم میں بھی تمہارا
حصہ ہوگا۔‘‘(صحیح البخاری:۴/۸۸،
رقم الحدیث:۳۱۳۰) جس
وقت حضرت زید بن حارثہؓ اور حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ جنگ بدر میں مسلمانوں کی فتح
اور کفار کی شکست کی خوش خبری لے کر مدینے پہنچے لوگ حضرت رقیہؓ کو جنت البقیع میں
دفن کرکے اپنے ہاتھوں سے مٹی جھاڑرہے تھے۔ (أسد الغابہ ذکر رقیہ بنت رسولؐ اللہ :
۶/۱۱۴، البدایہ والنہایہ: ۵/۱۸۲، ۱۸۳)
حضرت رقیہؓ کی وفات کے
چند روز بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ طیبہ تشریف لائے، آپ کو حضرت
رقیہؓ کی وفات کی اطلاع دی گئی، ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ آپؐ کو اس وقت کتنا دکھ ہوا ہوگا، جواں سال بیٹی کا
انتقال اور و ہ بھی باپ کی عدم موجودگی میں۔ مدینہ طیبہ واپسی کے بعد آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نہایت مغموم نظر آئے، آپؐ اس لئے
بھی زیادہ غمزدہ تھے کہ اپنی بیٹی کے آخری لمحات میں آپؐ اُن کے پاس نہیں تھے،
ان کی نماز جنازہ اور تدفین میں بھی شرکت نہیں فرما سکے تھے۔ آپؐ حضرت رقیہؓ کی
قبر پر تشریف لے گئے، چھوٹی بیٹی حضرت فاطمہؓ بھی آپ کے ساتھ تھیں۔ اس وقت تک
عورتوں کو قبرستان جانے سے منع نہیں کیا گیا تھا، حضرت فاطمہؓ اپنی بڑی بہن کی قبر
کے پاس بیٹھ گئیں، فرط غم سے ان کی آنکھیں اشک بار تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم
ان کے پاس کھڑے تھے اور اپنے رومال مبارک سے ان کے آنسو پونچھ رہے تھے، آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے حضرت رقیہؓ کے لئے دُعا کی اور فرمایا: اے رقیہ تم ہم سے آگے
جانے والے عثمان بن مظعونؓ کے ساتھ جاکر مل گئی ہو۔ (الاصابہ فی تمییز الصحابہ: ۴/۲۹۷) حضرت عثمان بن مظعونؓ
پہلے صحابی ہیں جو جنت البقیع میں مدفون ہوئے ان کے بعد حضرت رقیہؓ کی تدفین عمل
میں آئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد اسی کی طرف اشارہ ہے۔
حضرت ام کلثومؓ کا نکاح
حضرت عثمانؓ سے
یہ نکاح اگرچہ ۳
ھ میں ہوا، مگر موقع ومحل کی مناسبت سے اس واقعۂ نکاح کا ذکر یہاں کیا جاتا ہے،
روایات میں ہے کہ حضرت رقیہؓ کی وفات کے بعد حضرت عثمانؓ مغموم اور افسردہ رہنے
لگے، شریک حیات کی جدائی کا غم تو تھا ہی اس کا بھی غم تھا کہ اب رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دامادی کا رشتہ باقی نہیں رہا، وہ چاہتے تھے کہ یہ رشتہ
پھر قائم ہوجائے۔
ادھر حضرت عمر بن الخطابؓ
کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ اپنی بیوہ بیٹی حضرت حفصہؓ کا نکاح حضرت عثمانؓ سے
کردیا جائے، انھوں نے اپنی اس خواہش کا اظہار حضرت عثمانؓ سے کیا مگر انھوں نے
معذرت کردی، حضرت عمرؓ کو اس انکار کا بڑا افسوس ہوا، اپنے اس افسوس کا اظہار
انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر کیا۔ آپﷺ نے ارشاد
فرمایا کہ کیا میں تمہیں حفصہؓ کے لئے عثمانؓ سے بہتر شوہر نہ بتلادوں، اور کیا
عثمان کے لیے حفصہؓ سے بہتر بیوی نہ بتلادوں، حضرت عمرؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ!
ضرور بتلائیں، آپ نے فرمایا تم حفصہؓ کا نکاح مجھ سے کردو، میں عثمان کا نکاح
اپنی بیٹی ام کلثومؓ سے کردیتا ہوں، اس طرح حضرت حفصہؓ ام المؤمنین بن کر کاشانۂ
نبوت میں پہنچ گئیں، اور حضرت عثمانؓ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو
صاحبزادیوں کا شوہر بننے کا شرف حاصل ہوگیا۔ (الاصابہ: ۴/۲۶۴)
یاد رہے کہ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کی چاروں صاحب زادیوں کے نکاح کا فیصلہ آسمانوں پر ہوا، جیسا کہ
حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں اپنی
بیٹیوں کا نکاح کسی کے ساتھ اپنی مرضی سے نہیں کرتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان
کے نکاحوں کے فیصلے ہوتے ہیں۔ (المستدرک للحاکم: ۴/۴۹) حضرت ام کلثومؓ کا نکاح ربیع
الاول ۳ ھ میں ہوا، اور جمادی الاولیٰ ۳ھ
میں رخصتی عمل میں آئی، ان کا انتقال بھی حضرت عثمانؓ کی زندگی میں ہوگیا تھا،
حضرت عثمانؓ کو اس کا بے حد ملال تھا کہ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے
دامادی کا رشتہ قائم رکھنے کی بہ ظاہر کوئی صورت باقی نہیں بچی ہے، ان کو دل گرفتہ
دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر میری دس بیٹیاں
ہوتیں تو میں ان سب کو یکے بعد دیگرے عثمانؓ کے نکاح میں دے دیتا۔ (طبقات بن سعد: ۸/۲۵)
صدقۂ فطر ادا کرنے کا
حکم
جنگ بدر رمضان کے مہینے
میں ہوئی، اسی مہینے میں روزے رکھے گئے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ طیبہ
واپس تشریف لے آئے تو ۲۷/ رمضان
المبارک کو صحابۂ کرامؓ سے خطاب فرمایا اور انہیں حکم دیا کہ وہ نماز عید سے پہلے
کھجور، کشمش، یا جو میں سے ایک صاع یا گیہوں میں سے دو مُد تقریباً پونے دو کلو کی
مقدار صدقۂ فطر کے طور پر ادا کریں تاکہ فقراء مستغنی ہوجائیں۔ (البدایہ
والنہایہ: ۵/۳۱۲)
پہلی نماز عید الفطر اور
عیدالاضحی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم جب ہجرت کرکے مدینے تشریف لائے تو آپ نے دیکھا کہ اہل مدینہ دو تہوار مناتے
ہیں، اور ان تہواروں میں کھیل تماشے کرتے ہیں، آپؐ نے ان سے پوچھا کہ یہ کیسے تہوار ہیں اور ان دو
دنوں کی کیا حقیقت ہے، انھوں نے عرض کیا کہ عہد جاہلیت سے یہ تہوار ہم اسی طرح
مناتے چلے آئے ہیں، آپؐ نے فرمایا:
’’اللہ نے تمہارے ان دوتہواروں کے بدلے میں ان سے بہتر دو دن تمہارے لئے مقرر
کردیئے ہیں، عید الفطر کا دن اور عید الاضحی کا دن۔‘‘ (سنن ابی داؤد: ۱/۲۹۵، رقم الحدیث: ۱۱۳۴)
تمام مؤرخین اور سیرت
نگاروں کا اس پر اتفاق ہے کہ اسلام میں پہلی عید الفطر ۲ھ
میں بدر کی جنگ کے بعد منائی گئی، اور پہلی نماز عید اسی دن پڑھی گئی، عید کے دن
علی الصباح آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابۂ کرام کے ساتھ عیدگاہ تشریف لے گئے، آپؐ
نے عید کی نماز پڑھائی اور نماز کے بعد دو خطبے ارشاد فرمائے، دونوں خطبوں کے
درمیان آپؐ کچھ دیر بیٹھے۔ بعد کے برسوں میں بھی عید کی نماز کے لئے آپؐ عیدگاہ
تشریف لے جایا کرتے تھے، حضرت بلالؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے آگے ہوتے، ان
کے ہاتھ میں ایک نوک دار عصا ہوتا، جس کا نام عَنْزَہ تھا، یہ عصا اصحمہ نجاشی نے
حضرت زبیرؓ کو ہدیہ کیا تھا، حضرت زبیرؓ نے اسے آپ کی نذر کر کردیا تھا، عید گاہ
کے میدان میں عنزہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بہ طور سترہ گاڑ دیا جاتا تھا۔
(تاریخ الطبری: ۲/۴۱۸)
عید الاضحی کی نماز بھی
اسی سال واجب ہوئی، اور اسی سال پہلی مرتبہ ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو پڑھی گئی،
نماز کے بعد جانوروں کی قربانی کی گئی، آپ ؐغزوۃ السویق سے نو ذی الحجہ کو واپس
تشریف لائے، آپؐ نے اگلے دن دو رکعت نماز عید الاضحی پڑھائی اور اپنی طرف سے دو
مینڈھے قربان کئے، مسلمانوں کو بھی قربانی کرنے کا حکم فرمایا۔ اسلام میں یہ پہلی
عید الاضحی تھی اور اوّلین قربانی تھی۔ (شرح المواہب اللدنیہ: ۱/۴۵۸) (جاری)
22 اکتوبر،2021، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
Related Article
Part:
7- Adjective of Worship مجھے صفت ِ عبدیت زیادہ پسند اور عبد کا لقب زیادہ محبوب ہے
Part: 22- Bani Awf, the Prophet Has Come اے بنی عوف وہ نبیؐ جن کا تمہیں انتظار تھا، تشریف لے آئے
Part:
23- Moon of the Fourteenth Night ہمارے اوپر ثنیات الوداع کی اوٹ سے چودہویں رات کا چاند طلوع
ہوا ہے
Part: 24- Madina: Last Prophet's Abode یثرب آخری نبیؐ کا مسکن ہوگا، اس کو تباہ کرنے کا خیال دل
سے نکال دیں
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism