مولانا ندیم الواجدی
1 اکتوبر،2021
مقتولین بدر کا انجام
بالآخر جنگ اختتام کو
پہنچ گئی، جن کو بھاگنا تھا وہ بھاگ گئے، جن کو گرفتار ہونا تھا وہ پا بہ جولاں
ایک طرف کو بٹھا دئیے گئے، مقتولین کی لاشیں جو پورے میدان میں بکھری پڑی تھیں
اکٹھی کی گئیں۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان تنہائے مردہ کے پاس تشریف لائے۔
آپؐ نے ان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: تم لوگ اپنے نبی کے بڑے ہی برے رشتے دار
تھے، تم نے مجھے جھٹلایا، دوسروں نے میری تصدیق کی، تم نے مجھے اکیلا چھوڑ دیا،
دوسروں نے میری مدد کی، تم نے مجھے وطن سے نکال دیا، دوسروں نے مجھے پناہ دی۔
(سیرت ابن ہشام، ۹؍۶۳۹)
اس کے بعد آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے ان کی لاشوں کو ایک کنویں میں پھینکنے کا حکم دیا، چنانچہ تعمیل حکم
میں مقتولین کی تمام لاشیں ایک کنویں میں پھینک دی گئیں۔ امیہ بن خلف کی لاش زرہ
میں پڑی پڑی پھول گئی تھی، جب اسے اٹھانے کی کوشش کی گئی تو وہ ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی،
اس لئے اس کی لاش وہیں چھوڑ دی گئی اور اس پر مٹی اور پتھر ڈال دئیے گئے۔اس کے بعد
آپؐ نے کنویں کے پاس کھڑے ہو کر فرمایا : اے عتبہ
ابن ربیعہ، اے شیبہ ابن ربیعہ، اے فلاں شخص، اے فلاں شخص: کیا تم نے اپنے رب کے
وعدے کو سچا پایا ہے، ہم نے تو اپنے رب کا وعدہ سچا پایا ہے۔ حضرت عمر ابن الخطابؓ
نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! آپ مرے ہوئے لوگوں سے کیوں خطاب فرما رہے ہیں؟ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان
ہے، تم میری بات ان سے زیادہ سننے والے نہیں ہو، فرق صرف یہ ہے کہ وہ جواب نہیں دے
سکتے۔ (صحیح مسلم، ۱۴؍۳۷، رقم الحدیث۵۱۲۱، سنن النسائی، ۷؍۲۱۵، رقم الحدیث ۲۰۴۸، صحیح البخاری، ۱۲؍۳۷۵، رقم الحدیث ۳۶۸۲)
مکہ پہنچی شکست کی خبر
مکہ مکرمہ کے مشرکین پر
شکست کی خبر بجلی بن کر گری، اوّل لحظہ میں تو انہیں یقین ہی نہیں آیا کہ ایسا
بھی ہوسکتا ہے کہ محمد(ﷺ) اور ان کے ساتھی جو انتہائی کمزور ہیں ہمارے بہادروں پر
غالب آجائیں، مگر جب شکست کی خبریں تواتر کے ساتھ پہنچیں تو انہیں یقین کرنا ہی
پڑا، سب سے پہلے یہ خبر حَیسُمَان بن عبداللہ الخزاعی کے ذریعے ملی، جیسے ہی وہ
مکہ پہنچا، لوگوں نے اسے گھیر لیا اور پوچھنے لگے: وہاں کی کیا خبر ہے؟ تم نے
ہمارے لوگوں کو کس حال میں چھوڑا ہے؟ اس نے کہا کہ تمام سردارنِ قریش اور زعمائِ
قوم قتل کردئیے گئے۔ لوگوں نے پوچھا: تم کن سرداروں کی بات کر
رہے ہو؟ اس نے نام لینے شروع کئے، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ابوالحکم بن
ہشام، امیہ بن خلف، زمعۃ بن الاسود، نبیہ بن الحجاج، منبہ بن الحجاج، ابوالبختری
بن ہشام، ابھی یہیں تک پہنچا تھا کہ صفوان بن امیہ نے اپنے قریب بیٹھے ہوئے لوگوں
سے کہا کہ میرے خیال سے تو اس کی عقل ماری گئی ہے، وہ ہوش میں نہیں ہے، اس سے میرا
نام لے کر پوچھو کہ اس کا انجام کیا ہوا، لوگوں نے پوچھا: اچھا صفوان ابن امیہ کے
بارے میں کچھ کہو، حَیسُمان نے کہا وہ تو زندہ حطیم میں بیٹھا ہوا ہے، البتہ اس کا
باپ بھی مارا گیا ہے اور بھائی بھی۔ (سیرت ابن ہشام، ۱؍۶۰۶)
حضرت ابورافع جو رسول
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آزادہ کردہ غلام ہیں، وہ ان دنوں مکہ مکرمہ ہی میں
تھے اور عباس بن عبدالمطلب کی خدمت میں رہتے تھے، کہتے ہیں کہ اسلام ہمارے
گھر میں داخل ہوچکا تھا، میں نے اسلام قبول کرلیا تھا، عباس بن عبدالمطلب کی اہلیہ
ام الفضل بھی مسلمان ہوگئی تھیں، عباس بھی مسلمان تھے، مگر انہوں نے اسلام چھپا
رکھا تھا، ایک تو اس وجہ سے کہ وہ قوم میں بڑی عزت اور حیثیت کے مالک تھے، اسلام
لانے کی خبر سے ان کی یہ حیثیت متاثر ہوسکتی تھی۔ دوسرے اس لئے کہ ان کا بڑا
سرمایہ لوگوں میں بطور قرض پھیلا ہوا تھا، اس کے ڈوبنے کا خطرہ بھی تھا، ابورافع
کہتے ہیں کہ ابولہب نے بدر کی جنگ میں شرکت نہیں کی تھی، بلکہ اپنی جگہ عاص بن
ہشام کوبھیجا تھا، جب جنگ ختم ہوگئی اور قریش کی شکست کی خبریں ہمارے کانوں تک
پہنچیں تو ہمیں بے حد خوشی ہوئی اور ہمارے چہرے فخر و
مسرت سے کھل اٹھے۔
وہ کہتے ہیں کہ میں ایک
کمزور انسان تھا، محنت مزدوری کرکے پیٹ پالتا تھا، عباس گھرانے کی خدمت میں لگا
رہتا تھا، ایک روز میں زمزم کے کنویں کے پاس بیٹھا ہوا پیالے بنا رہا تھا، ام
الفضل بھی وہاں بیٹھی ہوئی تھیں، ہم لوگ شکست کی خبروں پر تبصرہ کر رہے تھے اور بے
حد خوش تھے، اتنے میں ابولہب وہاں آیا اور زمزم کے اوپر جو خیمہ تنا
ہوا تھا اس کی طناب کے پاس آکے بیٹھ گیا، میری پشت اس کی پشت کی طرف تھی، لوگوں
نے اسے وہاں بیٹھا ہوا دیکھا تو اس سے کہنے لگے کہ یہ ابوسفیان بن الحارث بن
عبدالمطلب بدر سے آیا ہے، ابولہب نے اس سے کہا: یہاںمیرے پاس آکر بیٹھو، خدا کی
قسم تمہارے پاس وہاں کی کچھ خبریں ضرور ہیں، ابوسفیان نے کہا: خدا کی قسم جب جنگ
چھڑی تو انہوں نے (مسلمانوں) نے ہمیں جس طرح چاہا ہنکایا، جس طرح چاہا
مارا، جس طرح چاہا ہماری مشکیں کسیں، اللہ کی قسم ہم نے سفید چہرے والے لوگوں کو
دیکھا جو زمین و آسمان کے درمیان چتکبرے گھوڑوں پر سوار تھے، نہ وہ کسی کو چھوڑ
رہے تھے اور نہ کوئی ان کے سامنے ٹک رہا تھا، ابورافع کہتے ہیں کہ میں فرط مسرت سے
بول اٹھا کہ یہ عام انسان نہیں بلکہ فرشتے تھے۔ ابولہب میری بات سن کر آگ بگولہ
ہوگیا اور مار مار کر مجھے بے حال کردیا، میں ایک کمزور شخص تھا، ام الفضل میرے
دفاع میں اٹھیں اور ابولہب کو دھکا دے کر اُسے میرے اوپر سے اٹھایا اور اس کے سر
پر دونوں ہاتھ مار کر کہنے لگیں کہ اگر اس کا مالک (عباس)یہاں نہیں ہے تو تُو اسے
کمزور اور بے سہارا سمجھ کر پیٹ رہا ہے۔ ابورافع کہتے ہیں کہ اس واقعہ کے کچھ روز
بعد ابولہب طاعون میں مبتلا ہو کر کتے کی موت مر گیا۔ (سیرت ابن ہشام، ۱؍۶۰۶)
بہرحال شکست کی خبروں نے
تمام مشرکین مکہ کو غم و اندوہ اور مایوسی میں مبتلا کردیا، ہر گھر پر سوگ کی سی
کیفیت طاری ہوگئی، در و دیوار سے ماتم اور نوحوں کی آوازیں آنے لگیں۔ ابوسفیان
،جو اس تجارتی قافلے کا سر غنہ تھا اس خبر سے سکتے میں رہ گیا، اس نے قسم کھائی کہ
وہ اس شکست کا بدلہ ضرور لے گا۔ اس کی بیوی ہندہ بھی اپنے باپ، بھائی اور چچا کے
غم میں واویلا کرنے لگی اور کہنے لگی کہ میں حمزہؓ اور علیؓ سے ان تینوں کی موت کا
بدلہ ضرور لوں گی۔(سیرت ابن ہشام، ۱؍۶۰۷)
مدینے میں جشن کا سماں
جنگ کے خاتمے کے بعد رسول
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن رواحہؓ اور زید بن حارثہؓ کو مدینہ منورہ
روانہ کیا تاکہ وہ دونوں وہاں جا کر مسلمانوں کو جنگ میں فتح یابی کی خوش خبری سنا
دیں۔ مسلمانانِ مدینہ کو یہ خبر مل چکی تھی کہ اس وقت اہل اسلام اور کفار کے لشکر
آمنے سامنے ہیں اور جنگ برپا ہونے والی ہے، فتح و نصرت کی دعائیں ہورہی تھیں، مگر
تشویش بھی تھی کیوں کہ مسلمان تعدادمیں کم تھے اور وہ جنگ
کے ارادے سے نہیں نکلے تھے، ان کے کان کسی خبر کے منتظر تھے اور نگاہیں بدر سے
آنے والے راستے پر ٹکی ہوئی تھیں کہ یہ دونوں قاصد تیز رفتاری کے ساتھ مدینے پہنچ
گئے، عبداللہ ابن رواحہؓ نے مدینے کے بالائی علاقوں میں جا کر فتح کی خوش خبری
سنائی اور زید بن حارثہؓ نے نشیبی حصوںمیں یہ خبر پہنچائی کہ ہم جیت گئے ہیں۔
حضرت زید بن حارثہؓ کے
بیٹے حضرت اُسامہؓ مدینہ منورہ میں ہی تھے، حضرت عثمان غنیؓ کی اہلیہ بنت رسولؐ
حضرت رقیہؓ بیمار تھیں، حضرت عثمانؓ بھی اسی لئے غزوۂ بدر میں شریک نہ ہوسکے تھے۔
حضرت اسامہؓ جو چھوٹے بچے تھے وہ بھی حضرت رقیہؓ کی خدمت میں لگے ہوئے تھے، حضرت
اسامہؓ کہتے ہیں کہ جس وقت فتح کی خبر مدینے پہنچی ہم لوگ حضرت رقیہؓ کو جنت
البقیع میں دفن کرکے واپس آئے تھے، عجیب موقع تھا، ایک طرف تو رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کی عظیم المرتبت صاحب زادی کی وفات کا حادثہ تھا اور وہ بھی رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کی عدم موجودگی میں یقینی طور پر اس بات کا احساس ہر دل میں
رہا ہوگا۔
دوسری طرف ٹھیک ان کی
تدفین کے وقت مسرت انگیز خبر پہنچی کہ مسلمان کفار پر غالب آچکے ہیں، حضرت اسامہ
کہتے ہیں کہ جب میں اپنے والد زید بن حارثہؓ کے پاس پہنچا تو وہ مسجد نبویؐ میں
کھڑے ہوئے تھے اور ان کے چاروں طرف لوگوں کا ہجوم تھا، وہ کہہ رہے تھے لوگو! عتبہ
مارا گیا، شیبہ مارا گیا، ابوجہل مارا گیا، انہوں نے بہت سے مشرکوں کے نام لئے،
میں نے
کہا: اباجان! کیا یہ سچ ہے؟ انہوں نے کہا : ہاں: اے بیٹے: خدا کی قسم یہ سچ ہے۔
حضرت اسامہؓ سے ایک روایت
یہ بھی ہے کہ میں لوگوں کی آوازیں سن کر گھر سے باہر آیا تو دیکھا کہ
میرے والد زید بن حارثہؓ فتح و کامرانی کے واقعات بیان کر رہے تھے، خدا کی قسم!
مجھے ان کی بات کا یقین نہیں ہوا، جب تک ہم نے قیدیوں کو اپنی آنکھوں سے نہیں
دیکھ لیا، ہم یہی سمجھتے رہے کہ وہ شاید ہمیں تسلی دے رہے ہیں اور شکست کی خبریں
چھپا رہے ہیں۔ دوسری طرف عبداللہ ابن رواحہؓ ایک گھوڑے پر سوار یہ آواز لگا رہے
تھے، اے گروہِ انصار! خوش ہوجائو، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خیریت سے ہیں،
بہت سے مشرکین قتل کردئیے گئے ہیں اور بہت سے قیدی بنا لئے گئے ہیں۔
عاصم ابن عدی کہتے ہیں کہ
میں نے عبداللہ بن رواحہؓ سے پوچھا: کیا تم سچ کہہ رہے ہو؟ انہوں نے کہا: ہاں!
اللہ کی قسم، کل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیدیوں کو لے کر تشریف لائیں گے،
عبداللہ ابن رواحہؓ نے ایک ایک انصاری کے دروازے پر پہنچ کر یہ خوش خبری سنائی۔
بدر میں تین دن تک قیام
جنگ کے بعد رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم اپنے تمام رفقاء سمیت تین دن میدانِ بدر میں ٹھہرے رہے، جیسا کہ
حضرت انس بن مالکؓ کی روایت سے پتہ چلتا ہے۔
بہ ظاہر تین دن تک بدر
میںقیام کی حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ تمام رفقاء جنہوں نے جنگ میں جی جان سے محنت
کی اور مشقت برداشت کی تھوڑا سستا لیں اور آرام کرلیں، اس کے بعد لمبا سفر ہے، اس
دوران آرام کرنے کا زیادہ موقع نہیں ملے گا۔ دوسرے شہداء کی تدفین کے لئے بھی وقت
درکار تھا، کچھ صحابہ زخمی بھی تھے، ان کی مرہم پٹی بھی ضروری تھی، مالِ غنیمت بھی
اکٹھا کرنا تھا،مشرکین کی تلواریں، تیر، خَوْدْ اور دوسرے ہتھیار میدان میں بکھرے
پڑے تھے، ان کو سمیٹنا بھی تھا۔ پہاڑی کے پیچھے ان کے جانور اور سامانِ سفر وغیرہ
تھا، جسے وہ چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔ یہ سب اموالِ غنیمت تھے، چناںچہ آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے صحابہؓ کے ذریعے یہ تمام سامان جمع کرایا اور عبداللہ ابن کعب
الانصاریؓ کو اس کا ذمہ دار بنا کر یہ تمام مال ان کے سپرد کردیا۔ستر کے قریب قیدی
بھی تھے، ان کو دیکھنا بھی تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کس کے ساتھ کیا سلوک کرنا
ہے، ان کو ساتھ لے کر جانا بھی تھا، اس کا انتظام بھی کرنا تھا، ان تمام امور کی
انجام دہی کے لئے بدرمیں کچھ دنوں تک ٹھہرے رہنا وقت کا تقاضا تھا، اس لئے آپؐ نے
تین روز تک وہاں قیام فرمایا، اس کے بعد مدینے کی طرف روانہ ہوئے۔
تین دن کے بعد روانگی
ہوئی، تمام قیدی صحابہؓ کی تلواروں کے سائے میں ساتھ تھے۔ کئی شب و روز سفر کرتے
ہوئے اور مختلف وادیوں اور قبیلوں سے گزرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قافلہ
فتح و کامرانی کے جھنڈے گاڑتا ہوا مدینہ منورہ پہنچا، دشمنوںپر مسلمانوں کی دھاک
بیٹھ گئی، بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کیا، عبداللہ ابن اُبی منافق اور اس کے
ساتھی بھی جنگ بدر میں اس بے مثال کامیابی سے ڈر کر بہ ظاہر مسلمان ہوگئے۔ (زاد
المعاد، ۳؍۱۴۵)
قیدیوں کیساتھ سلوک پر
مشورہ
اس جنگ میں قریش کے ستر
افراد مارے گئے اور ستر ہی قید بھی ہوئے، ان قیدیوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کے چچا عباس بن عبدالمطلب، چچا زاد بھائی عقیل بن ابی طالب اور داماد
ابوالعاص بن الربیع بھی تھے۔ حضرت عبداللہ ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ بدر کے قیدیوں کے
بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ سے مشورہ کیا کہ ان کے ساتھ
کیا سلوک کیا جائے؟ مطلب یہ تھا کہ ان کو مار ڈالا جائے یاان کو زر فدیہ لے کررہا
کیا جائے؟
حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا:
یارسول اللہ! یہ سب لوگ آپ کے چچازاد بھائی اور خاندان کے لوگ ہیں، میری رائے ہے
ان کو فدیہ لے کر رہا کردیا جائے، ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت سے نواز دے
اور یہ لوگ کفار کے خلاف ہماری قوت اور طاقت بن جائیں۔ حضرت عمربن الخطابؓ نے عرض
کیا: یارسولؐ اللہ! یہ لوگ کفر و شرک کے سرغنہ اور گروہ مشرکین کے لیڈر اور پیشوا
ہیں، ان کو چھوڑنا صحیح نہ ہوگا، ہم میں سے جو جس کا رشتہ دار اور قریبی ہے وہ اسے
آخری انجام تک پہنچا دے۔ (صحیح مسلم، ۹؍۲۱۴، رقم الحدیث ۳۳۰۹) (جاری)
1 اکتوبر،2021، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
Related Article
Part:
7- Adjective of Worship مجھے صفت ِ عبدیت زیادہ پسند اور عبد کا لقب زیادہ محبوب ہے
Part: 22- Bani Awf, the Prophet Has Come اے بنی عوف وہ نبیؐ جن کا تمہیں انتظار تھا، تشریف لے آئے
Part:
23- Moon of the Fourteenth Night ہمارے اوپر ثنیات الوداع کی اوٹ سے چودہویں رات کا چاند طلوع
ہوا ہے
Part: 24- Madina: Last Prophet's Abode یثرب آخری نبیؐ کا مسکن ہوگا، اس کو تباہ کرنے کا خیال دل
سے نکال دیں
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism