New Age Islam
Tue Jun 17 2025, 07:31 AM

Books and Documents ( 16 Jun 2021, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Vol. 2, Chapter 9, The Rational and Philosophical Spirit of Islam - Part 37 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، دوسرا حصہ، دسواں باب، اسلام کی عقلیاتی اور فلسفیانہ روح

سید امیر علی

(قسط 38)

دسواں باب

16 جون 2021

اسلام کی عقلیاتی اور فلسفیانہ روح

ان اللہ لایغیر مابقوم حتی یغیرو اما با نفسھم۔

ازمنہ قدیمہ کی اور تمام قوموں کی طرح زمانہ قبل اسلام کے عرب بھی بڑی سختی سے قسمت کے قائل تھے۔ ان کی قدی شاعری کا جو حصہ اب تک محفوظ ہے او رجو ان کے خیالات اور ادضاع و اطوار کی واحد تحریری یادگار ہے،اس سے پتہ چلتاہے کہ اشاعت اسلام سے پہلے جزیرہ نمائے عرب کے تمام باشندوں نے اس عقیدے کے آگے سپرڈال رکھی تھی کہ ایک اٹل اور اندھی قوت اس دنیا کا کارخانہ چلا رہی ہے او رانسان اس کے ہاتھوں میں محض ایک کھلونا ہے۔ اس عقیدے کا نتیجہ یہ تھا کہ ان کے دلوں میں نہ موت کاخوف تھا نہ زندگی کی کوئی وقعت۔اسلام کی تعلیمات نے عربوں کے خیالات میں ایک انقلاب برپا کردیا کائنات پر ایک افضل واعلیٰ عقل کی حکمرانی کے ساتھ ساتھ ان کے ذہنوں میں انسانی ادارے کی آزادی پر مبنی اعتماد نفس اور اخلاقی ذمہ داری کا ادراک بھی پیدا ہوا۔ قرآن کے نمایاں اوصاف میں ایک وصف وہ عجیب وغریب طریقہ ہے جس سے وہ دو ایسے تصورات کو جوبادی النظر میں باہم متضاد معلوم ہوتے ہیں یکجا کرتاہے۔ یعنی ایک طرف تو ایک ارادہ ربّی کا وجود،جو صرف تمام چیزوں کا بندوبست ہی نہیں کرتا بلکہ انسانوں پر بھی براہِ راست اثر انداز ہوتاہے اور ان کے خیالات کے سرچشموں پر اختیار رکھتاہے او ردوسری طرف انسان کی آزادی عمل اور آزادی عقل کا دعویٰ۔ یہ وصف کچھ قرآن ہی سے محفوظ نہیں بلکہ انجیل میں بھی پایا جاتاہے۔لیکن قرآن میں انسانی ذمہ داری پر اتنا زیادہ پیدا ہوتاہے۔یہ بات بادی النظر میں متناقض معلو م ہوتی ہے کہ جب انسان کے تمام اعمال ایک قادرِ کُل ارادے کے زیر فرماں ہیں تو اس کے باوجود اسے اعمال کی جزا وسزا دی جائے،جو کہ اسلامی اخلاقیات کا بنیادی اصول ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں ایک ہمیشہ زندہ رہنے والے اصول فعّال پر جو ایمان تھا او رانہیں انسان کی ترقی پر جو اعتماد تھا،یہ دونوں چیزیں مل کر اس پر اسرار معمے کا حل مہیا کرتی ہیں۔ میں اپنا مطلب قرآن سے دو طرح کی عبارتیں پیش کرکے واضح کروں گا، یعنی ایک تو ایسی عبارتیں جن میں ارادہ ربّی کی مطلقیت بیان کی گئی ہے اور دوسرے ایسی عبارتیں جو انسانی ارادے کی آزادی کا دعویٰ کرتی ہیں:۔ ”خدا کا انتظام ایک معینہ قاعدے کے مطابق ہے۔۔۔ سورج جو اپنی منزل کی طرف چلا جاتاہے تو یہ اس زبردست او رباخبر کا بنایا ہوا ایک معمول ہے۱؎۔۔۔۔ اور اس کی نشانیوں میں سے ایک آسمانوں اور زمین کا بنانا ہے اور ان جانوروں کا بنانا جو اس نے زمین پربکھیردیئے ہیں اور جنہیں وہ جب چاہے اکٹھا کرسکتا ہے۲؎۔۔۔۔ کیا و ہ نہیں دیکھتے کہ وہ اللہ جس نے زمین اور آسمان بنائے اور ان کے بنانے میں نہ تھکا وہ مرد وں کو جلانے کی قدرت رکھتا ہے۔کیوں نہیں؟ وہ ہر چیز پرقادر ہے۳؎۔۔۔۔اور ایک فتح او ربھی ہے جو تمہارے قابو میں نہیں آتی، اللہ تعالیٰ نے اس کو گھیر رکھا ہے او راللہ ہر چیز پر قادر ہے۴؎۔۔۔۔ کوئی ایسی چیز نہیں جس کے ہمارے پاس خزانے نہ ہوں اور جس چیز کو بھی ہم نازل کرتے ہیں ایک مقررہ مقدار میں نازل کرتے ہیں ۵؎۔۔۔ آسمان وزمین کے بھید اللہ کے پاس ہیں او روہ سب کچھ کرسکتا ہے ۶؎۔۔۔۔ انہیں دنیا کی زندگی کی حقیقت اس مثال سے سمجھاؤ کہ آج ہم نے آسمان سے پانی برسادیا تو زمین کے پودے خوب گھنے ہوگئے او رکل وہی پودے بھُس بن کر رہ گئے جنہیں ہوائیں اُڑائے لیے پھرتی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ یٰسین۔38۔ ۲؎،الشوریٰ۔28، ۳؎۔الاحقاف۔33، ۴؎۔الفتح۔21، ۵؎ الحجر۔21، ۶؎ النحل۔77۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۱؎۔۔۔ اللہ یقینا ان کی مدد پر قادر ہے۲؎۔۔۔ اللہ جو کچھ چاہتاہے پیداکرتاہے۳؎۔۔۔۔ وہی ہے جس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور پھر اس کی ایک تقدیر مقرر کی۴؎۔۔۔۔ تیرا رب بڑا ہی قدرت والاہے ۵؎۔۔ دیکھو اللہ کی رحمت کے اثرات کہ زمین کے مردہ ہوجانے کے بعد اسے کس طرح زندہ کردیتاہے۔ یقینا وہ مردوں کو زندگی بخشنے والا ہے اورہر چیز پر قادر ہے۶؎۔۔۔ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اللہ کا ہے اورجو کچھ تمہارے دل میں ہے چاہے تم اسے ظاہر کرو اورچاہے چھپاؤ اللہ بہر حال تم سے اس کاحساب لے گا۔پھر اسے اختیار ہے کہ جسے چاہے معاف کردے او رجسے چاہے سزا دے۔ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۷؎۔۔۔ کہو، اے اللہ،ملک کے مالک،تو جسے چاہے حکومت دے اورجس سے چاہے چھین لے، جسے چاہے عزت بخشے او رجسے چاہے ذلّت دے۔ ہر بھلائی تیرے اختیار میں ہے۔ بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۸؎۔۔ اللہ جسے چاہتاہے معاف کردیتاہے اور جسے چاہتاہے سزا دیتاہے ۹؎۔۔۔ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کی ہے جو کچھ ان میں ہے وہ اسی کا ہے، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۰۱؎۔۔ اللہ تعالیٰ اپنے کام کو پورا کرکے رہتا ہے۔اس نے ہر چیز کا ایک انداز ہ مقرر کر رکھا ہے۱۱؎۔۔۔۔اللہ رات اور دن کو ماپتا ہے۲۱؎۔۔۔ اپنے رب اعلیٰ کی تعریف کر جس نے ہر شے کو بنایا اور صورت بخشی او رپھر راہ دکھائی۳۱؎۔۔۔ اور جو لوگ منکر ہوئے ان کے لیے برابر ہے خواہ تم انہیں خبردار کردیا نہ کرو۔ وہ کبھی ماننے گے نہیں۔اللہ نے ان کے دلوں او ران کے کانوں پر مہر لگادی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے۴۱؎۔۔۔۔اگر اللہ چاہتا تو سارے انسانوں کو ہدایت دے دیتا۵۱؎۔۔۔۔۔ وہ کبھی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنے اوصاف کو نہ بدلے۶۱؎۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ الکہف۔45 ، ۲؎الحج۔40، ۳؎ النّور۔45، ۴؎ الفرقان۔2،۵؎ الفرقان۔54، ۶؎ الرّوم۔50، ۷؎ البقرۃ۔284، ۸؎ آل عمران۔26، ۹؎ المائدہ۔18، ۰۱؎ المائدہ۔130، ۱۱؎ الطلاق۔3، ۲۱؎ المزّمل۔20، ۳۱؎ الاعلیٰ 1تا 3، ۴۱؎ البقرۃ۔ 6اور 7، ۵۱؎ الرعد۔21، ۶۱؎ الرعد۔2

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ جسے چاہتاہے گمراہ کردیتاہے اور وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اسی کو دکھاتاہے جو اس کی طرف رجوع کرے۱؎۔

ملاحظہ کیا گیا ہوگاکہ مندرجہ ذیل بالا آیات میں سے اکثر میں تقدبر ربّی سے صراحتہً قانون فطرت مراد ہے۔ ہر ستارے کا مقام اور ہر سیارے کا مدار مقرر ہے۔ اسی طر ح کائنات کی ہر شے کا ایک لگا بندھا دستور ہے۔ اجرام فلکی کی گردش،فطرت کے مظاہر، زندگی و موت،ہر چیز ایک قانون کی تابع ہے۔دوسری عبارتیں بلاشک وشبہ انسانی ارادے پر خدب کے فاعلّیت کا طرف سے اشارہ کرتی ہیں، لیکن ان عبارتوں کی تشریح ایک تیسری قسم کی عبارتوں میں کی گئی ہے جن میں یہ بتایا گیا ہے کہ خدا کی فاعلّیت کا انحصار انسانی ارادے پر ہے۔ خدا صرف ان لوگوں کو مدد کرتاہے جو اس کی مدد کے طالب ہوں۔ وہ صرف ایسے لوگوں کو سعادت بخشتاہے جو اپنے دل کو ناپاک خواہشوں سے پاک کرلیں۔ معلّم عربی کے لیے،اسی طرح جس طرح اس کے پیش روؤں کے لئے ایک قادر مطلق،صورتگر کائنات،حاکم موجودات کا وجود عین الیقین کا درجہ رکھتاتھا۔ تمام زمانوں میں ایک حادیئ کُل،علیم وخبیر شخصیت پر ایمان واثق انسانوں کے لیے ایک قوی محرک رہا۔ دشت زندگی کے تھکے ہارے رہ نورد کے لیے اس ادراک سے بڑھ کر کوئی چیز ڈھارس بندھا نے والی اور اس کے سینے میں ایک بہتر وپاکیزہ تر دنیا کی جو شدید تمنا ہے اس کی تسکین کرنے والی نہیں کہ ایک ایسی قوت موجود ہے جو انسانوں سے برتر و بالا تر ہے اور جو مظلوموں کی دادرس،امیدواروں کی امیدی پوری کرنے والی او ربیکسوں کی یارومددگار ہے۔ ہمارے دل میں خدا پر جو ایمان ہے اس کا سرچشمہ ہی خدا کے تقدیری احکام ہیں۔ وہ اسی طرح صحیح معنوں میں قوانین ہیں جس طرح وہ قوانین جن کے مطابق اجرمِ فلکی کی گردش واقع ہوتی ہے۔لیکن خد ا کا ارادہ ایک من مانا اور بے قاعدہ و بے اصول ارادہ نہیں، وہ ایک تعلیمی و تلقینی ارادہ ہے جس کی اطاعت عالم کو اپنے علمی مشاغل میں اور عابد کو اپنے حجرہ عبادت میں کرنی پڑتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎الرّعد۔27

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بہر کیف قرآن کی جن آیات میں انسانی ذمہ داری اور انسانی ارادے کی آزادی پر زور دیا گیا ہے وہ خدا کی مطلقّیت کے تصّور کی تعریف و تحدید کرتی ہیں۔ ”اور جو کوئی گناہ کماتا ہے وہ خود اپنی ذمہ داری پر کماتا ہے۱؎۔۔۔۔ چھوڑ دو ایسے لوگوں کو جنہوں نے اپنے دین کوکھیل اور تماشا سمجھا او رجنہیں اس دنیا کی زندگی نے بہکا دیا۔مگر تنبیہہ کرتے رہو کہ کہیں کوئی شخص اپنے کرتوتوں کے وبال میں مبتلا نہ ہوجائے۲؎۔۔ جب یہ لوگ کوئی شرمناک کام کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی طریقے پر کاربند پایاہے او راللہ نے ہمیں ایسا ہی کرنے کا حکم دیا ہے۔ کہو ان سے کہ اللہ بے حیائی کا حکم کبھی نہیں دیتا۳؎۔۔۔۔ ان لوگوں نے آپ اپنے اوپر ظلم کیا۴؎۔۔۔ اس وقت ہر شخص اپنے کئے کا مزہ چکھ لے گا۶؎۔۔۔ جو کوئی گمراہ رہے اس کی گمراہی کی ذمہ داری خود اس پر ہے۶؎۔“

اپنے محدود دائرہ زندگی کے اندر انسان کا ملاً اپنے کردار کا مختار ہے۔وہ اپنے اعمال کے لیے اور جوقواء اسے دیئے گئے ہیں ان کے صحیح یا غلط استعمال کے لیے جوابدہ ہے۔ اس کا سیدھا راہ پر چلنا یا بھٹک جانا خود اس کے میلانات پر منحصر ہے۔ جو شخص خدا سے توفیق وہدایت مانگے خدا کی مدداس کے شامل حال ہوتی ہے۔ خدا نے س اعانت کا وعدہ فرمایا ہے کیا اس کا طلب کرنا بجائے خود تزکیہ نفس کا باعث نہیں؟کیا ربّ االاعلیٰ  سے تسکین و تقویت کی دعا مانگ کر کمزوروں کو قوّت او رمظلوموں کو سکون قلب حاصل نہیں ہوتا؟ یہ تھے ہادیئ اسلام کے خیالات اللہ کی حاکمیت اور انسانی ارادے کی آزادی کے بار ے میں۔ قضاوقدر یا جبر و اختیارکے بارے میں آپ کے جو تصّورات تھے ان کے سمجھنے میں ہمیں آپ کے منقول ارشادات سے مدد ملتی ہے جو ہم تک ایسے وسائل سے پہنچے ہیں جنہیں ہم قطعی الثّبوت قرار دے سکتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ النساء۔111،۲؎۔ الانعام۔70، ۳؎، الاعراف۔28، ۴؎، التوبہ۔70، ۵؎، یونس۔30، ۶؎ یونس۔108۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نہ صرف آپ کے ارشادات بلکہ آپ کے داماد روصیئ علم اور ان کے اوّلین جانشینوں کے ارشادات بھی، جنہوں نے اپنے خیالات براہ راست آپ سے اخذ کئے انسان کی آزادی عمل کے مسئلے کی کلید سمجھے جاسکتے ہیں جو صدیوں تک مختلف فرقوں کے درمیان مابہ النّزاع رہا ہے۔لیکن اس مسئلے سے بحث کرتے وقت ہمیں یہ نظر انداز کرناچاہئے کہ جن روایات کو قدامت پرستی او رملاّئیت نے عقل کی فضیلت کے خلاف حربوں کے طور پر استعمال کی ہے ان میں سے اکثر روائتیں قرآئن سے موضوع او رمن گھڑت معلوم ہوتی ہیں۔ روائتیں خود زبان حال سے بیان کرتی ہیں کہ وہ کیونکر وجود میں آئیں۔ ان میں سے بعض پر جن کی بابت یہ دعویٰ کیا جاتاہے کہ وہ ایسے لوگوں سے مروی ہیں جنہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سرسری ملاقات کا موقع ملا ہوتوسط راویوں کے ذہنوں اور حافظوں میں تبدیل و تحریف کے صریح نشان ثبت ہیں۔ بہر حال مستند روایات کافی بڑی تعداد میں ہیں۔ میں ان میں سے صرف چند ایک کا حوالہ دے کر اس امر کی جس کا میں پہلے ذکرکر چکا ہوں تشریح کروں گا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں پہلے جہاں خدائے علیم وحکیم کی شخصیت پربیّن اعتماد تھا،وہاں اس کے ساتھ ساتھ ارادہئ انسانی کی آزادی کاکامل یقین بھی تھا۔ آپ نے موروثی خباثت اور جبّلی معصیت کا شّد دمدّ سے انکار کیا”ہر انسان مسلم (یعنی سلیم الفطرت) پیداہوتاہے۔ بعد میں اس کے ماں باپ اسے یہودی یا عیسائی یا صابی بنادیتے ہیں جس طرح جانور کا بچہ پیدا ہوتا ہے۔ تو کیا جب تک تم اس کا کوئی عضو خود نہ کاٹو تو تمہیں اس کا کوئی عضو کٹا ہوا دکھائی دیتاہے۱؎؟“ نومود بچوں کی کوئی مثبت اخلاقی سیرت نہیں ہوتی۔جو لوگ عنفوان عمر ہی میں مرجاتے ہیں ”ان کے بابت خدا ہی سب سے بہتر جانتا ہے کہ ان کا کردار کیا ہوتا۔“ (اگر وہ سنِّ بلوغ تک زندہ رہتے) ”ہرانسان میں دو قسم کے میلانات ہوتے ہیں: ایک تو وہ جو اسے نیکی کی طرف لے جاتے ہیں او رنیکی کرنے پرمجبور کرتے ہیں،

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ومامن مولود الایولد علی الفطرۃ فابواہ یھّدد انہ وینضرانہ ویمجّسانہ،کما قنبح البھیمۃ بھیمۃ جمعاء ھل تری فیھا جدعاء۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوسرے وہ جو اسے بدی کی طرف لے جاتے ہیں او ربدی کرنیپر مجبور کرتے ہیں ۱؎۔ لیکن خدا کی نصرت ہر وقت قریب رہتی ہے اور جو کوئی اپنی نفسانی خواہشات پر غالب آنے کے لیے خدا کی مدد مانگے خدا اس کی مدد کرتاہے۔“ ”وہ تمہارے اپنے افعال ہیں جو تمہیں جنّت یا جہنم میں لے جائیں گے،یوں کہ جیسے ان میں سے ایک جگہ تمہارے لیے مقدر تھی۔“ کسی شخص کا کردار قسمت کا نتیجہ نہیں ہوتا او رکوئی اٹل حکم تقدیر اسے جنت یا جہنم میں نہیں لے جاتا۔اس کے برعکس اس کی عاقبت اس کے اعمال کا نتیجہ ہوتی ہے کیونکہ ہر شخص اپنے اعمال کا جوابدہ او راپنی عاقبت کا مختار ہے۔”ہراخلاقی فاعل کر عمل کے مواقع میّسر آجاتے ہیں“ یا جیسا کہ ایک اورروایت میں بیان کیا گیا ہے”ہر شخص کو خدا کی طرف سے اپنی سیرت کے مطابق وسائل مہیا ہوجاتے ہیں“۲؎۔ انسانی کردار کبھی صورت میں محض اتفاق نہیں ہوتا۔ایک عمل دوسرے عمل کا نتیجہ ہوتاہے۔ زندگی قسمت اور سیرت کے معنی ہیں ایسے واقعات و اعمال کا ایک مربوط سلسلہ جو ایک محکم قانون،یعنی مشّیت ربّی کے ذریعے ایک دوسرے سے علّت و معلول کے رشتے میں منسلک ہوتے ہیں۔ یہ مسئلہ حضرت علیؓ کے مواعظ میں زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ ”اس سے پیشتر کہ تمہارے اعمال کے جانچنے کا وقت آئے اپنے نفس کو جانچو، اس سے پیشتر کہ اس زندگی میں تم نے جو کام کئے ان کا حساب تم سے مانگا جائے آپ اپنا محاسبہ کرو، اس سے پیشتر کہ تمہاری روح کو اپنے نشیمن خاکی سے رخصت ہونا پڑے نیک وپاک کام کرنے کی کوشش کرو اور حق وراست بازی کے رستے پر ثابت قدم رہو۔سچ تو یہ ہے کہ اگر تم اپنی تنبیہہ او راپنی ہدایت آپ نہ کروگے تو کوئی دوسرا تمہیں راہ راست نہ دکھاسکے گا“۳؎۔ ”میں تمہیں تلقین کرتا ہوں کہ صدق وصفا کے ساتھ اللہ کی عبادت کرو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ بخاری۔باب عنوان۔۔۔ ماقبل فی اولاد المسلمین ”وہ محفوظ ہے جس کی اللہ مدد کرے“ مروی ازبوسعید الخدری۔

۲؎ اعملوانکّل میسر لما خلق لہ۔

۳؎ ”نہج البلاغۃ“ (حضرت علیؓ کے خطبات کا مجموعہ جو ان کے ایک جانشین شریف رضانے تالیف کیا۔ اور جس کاتذکرہ ابن خلّکان نے کیا ہے۔1299ھ میں تبریز یں شائع ہوا۔۳؎ ”نہج البلاغۃ“

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس نے تمہیں نجات کی راہ بھی دکھائی ہے اور اس دنیا کی آزمائشوں سے بھی آگاہ کیاہے۔ بُرائی سے بچو چاہے وہ تمہیں اچھی ہی کیوں نہ لگے۔ گناہ سے پرہیز کرو، خواہ وہ کتناہی خوش آئند کیوں نہ ہو“۲؎۔۔۔ ”اے بندگان خدا، جو فرائض تم پرعائد کئے گئے ہیں انہیں پورا کرو کیونکہ ان سے غفلت برتنے سے تمہیں ذلّت نصیب ہوگی۔ صرف تمہارے نیک کام موت کو تم پر آسان کریں ے۔یاد رکھو کہ ہرگناہ قرض کے اس بوجھ کو جو تمہارے سر پر ہے بڑھاتا ہے اور تمہاری زنجیر کو اوربھی بھاری بتاتا ہے۔رحمت کی خوشخبری تمہیں مل گئی ہے حق کا راستہ صاف ہے۔ تمہیں جو احکام دیئے گئے ہیں ان کی اطاعت کرو، پاک زندگیاں بسرکرو،تقوے سے کام لواور خدا سے دعا کرو کہ وہ تمہاری کوششوں میں تمہاری مدد کرے او رتمہاری خطاؤں سے درگزر کرے۔“

”اپنے اندر علم اور عاجزی پیدا کرو،پرہیزگاری اور راست بازی سے کام لو، آپ اپنے نفس کا محاسبہ کرو،کیونکہ جو کوئی ایسا کرتاہے اسے اجر عظیم ملتاہے او رجو ایسا نہیں کرتا بڑے گھاٹے میں رہتا ہے۔ جو کوئی تقوے پر عمل کرتاہے اپنی روح کو سکون بخشتا ہے،جو شخص تنبیہہ پر کان دھرتاہے وہ حق کو سمجھ لیتاہے جو شخص حق کو سمجھ لیتاہے اسے کمال علم حاصل ہوجاتاہے۔“۔

ان ارشادات میں قضا وقدر کا شائبہ بھی نہیں پایا جاتا۔ اس کے برعکس وہ ایک ایسے قلب کے آئینہ دار ہیں جس میں خدا پرایک جیتا جاگتا ایمان تھا اور ساتھ ہی ساتھ اس بات کا بھروسہ بھی تھاکہ انسان ذاتی اجتہاد کے ذریعے جس کا سرچشمہ اس کی اپنی قوت ارادی ہے،اصلاح و ترقی کے مدارج طے کرسکتاہے۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے عقل او رعلم،مقّید ومطلق،محدود وغیر محدود کی جو تعریف کی وہ ہمیں ارسطاطالیسی الفاظ و افکار کی یاددلاتی ہے اور حضرت علیؓ نے اپنے بیٹے کو مخاطف کرکے جو کچھ ارشاد فرمایا اس کا پڑھنا اخلاقیات ارسطو کے مدّاحوں کے لیے فائدہ بخش ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ ”نہج البلاغۃ“

۔۔۔۔۔۔۔۔

”احتجاج الطبّرسی“ ہمیں ایسا مزید موادمہیّا کرتی ہے جس کی مدد سے ہم اس بارے میں صحیح رائے قائم کرسکتے ہیں کہ اسلام میں تضاد وقدر کا مسئلہ کیا ہے۔ ایک دن کسی نے حضرت علیؓ سے قضاو قدر کامطلب دریافت کیا۔ انہوں نے جواب دیا ”قضاء کے معنی ہیں احکام الہٰی کی اطاعت اورگناہ سے پرہیز۔ قدر کے معنی ہیں تقوے کی زندگی بسر کرنے کی صلاحیت ایسے کام کرنے کی استعداد جو انسان کو قربِ الہٰی بخشتے ہیں او رایسے کاموں سے پرہیزکرنے کی قابلیت جو انسان کوکمال الہٰی سے دور لے جاتے ہیں“۔۔۔۔یہ نہ کہو کہ انسان مجبور ہے،کیونکہ ایسا کہنا خدا کی طرف ظلم کو منسوب کرنا ہے۔ یہ بھی نہ کہو کہ انسان کو اختیار کلّی۱؎ حاصل ہے بلکہ یہ کہو کہ خدا کافضل وکرم ہماری نیک کام کرنے کی کوششوں میں ہماری مدد کرتاہے اور ہم گناہ اس لیے کرتے ہیں کہ ہم اس کے احکام سے غفلت برتتے ہیں“۔ عتبہ ابن ربیعہ نے ایک دن حضرت علیؓ سے ”لاحول ولاقّوۃاِلاّباللہ“ کے معنی دریافت کئے۔آپؓ نے جواب دیا: ”اس کے معنی یہ ہیں کہ میں خدا کے عتاب سے نہیں بلکہ اس کی پاکی سے خائف ہوں۔مجھ میں اس کے احکام بجالانے کی طاقت نہیں،مجھ میں جتنی طاقت ہے وہ سب اس کی مدد سے ہے۲؎“۔

خدا نے دنیا میں اس لیے بھیجا ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کو اس نے جو توفیق بخشی ہے اس کے مطابق اس کا امتحان لے۔ اس کے بعد جو آئیتں تھیں ان کا اور قرآن کی دوسری عبارتوں کاحوالہ دے کر حضرت علیؓ نے مزید فرمایا:”خدا کہتاہے، ہم یہ دریافت کرنے کے لیے تمہارا امتحان لیں گے کہ تم میں سے کون مجاہدین او رکون صبر وتقویٰ والے ہیں اور ہم تبدریج تمہیں وہ کچھ حاصل کرنے میں مدددیں گے جس کا تمہیں حاصل نہیں ۳؎۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎یعنی نیکی یا بدی کرنے کا اختیار

۲؎ احتجاج الطبرسی (الاحتجاج علیٰ اہل اللّجاج ازابومنصور احمد ایشخ الطبرسی)

۳؎ ولنبلو نکم حتی نعلم المجاہدین منکم والصابرین ونبلواخبارکم وفی نولہ دنستد دجھم من حیث لاتعلمون۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان عبارتوں سے انسانی ارادے کی آزادی ثابت ہوتی ہے۱؎“۔ قرآن کی اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے کہ ”خدا جسے چاہتا ہے ہدایت دیتاہے او رجسے چاہتا ہے گمراہ کرتاہے“۔ حضرت علیؓ نے ارشاد کیا کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ خدا لوگوں کو نیکی یا بدی پر مجبور کرتاہے۔ نہ یہ کہ وہ کسی وجہ کے وبغیر ہدایت دیتاہے یا ہدایت سے انکار کردیتاہے۔ اگر ایسا ہوتا تو انسای ذمہ داری کاخاتمہ ہوجاتا۔ اس کے برعکس اس کامطلب یہ ہے کہ خدا حق کا راستہ دکھاتا ہے او راس کے بعدانسانوں کو اختیار بخش دیتاہے کہ اس راستے پر چلیں یا نہ چلیں ۲؎۔

فلسفہ عرب نے جس کی پرورش بعد دوسرے گہواروں میں ہوئی درس گاہ مدینہ میں جنم لیا۔ انسانی ارادے کی آزادی،جو اس نظریئے پر مبنی تھی کہ انسان کو اس کے مطابق جزایا سزا ملے گی کہ اس نے اپنی عقل کو کیونکر استعمال کیاہے،ہادیئ اسلام کی تعلیمات کا ایک اہم جود تھی،لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ راسخ عقیدہ بھی ان کی تعلیم میں شامل تھا کہ ایک افضل واعلیٰ قدرت کائنات پر حکمران ہے۔ اس خیال نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے شاگرد رشید کے ارشادات میں ایک زیادہ واضح او رمعین شکل اختیار کرکے ایک فلسفے کی حیثیت حاصل کرلی۔ مدینہ سے یہ فلسفہ دمشق،کوفہ، بصرہ اور بغداد پہنچا او روہاں پہنچ کر اس نے ان اخّاذ دبستان کو جنم دیا جنہوں نے ابتدائی عّباسی خلفاء کے ادوارِ حکومت کو آب وتاب بخشی۔

کربلا کے معرکہ قتال او رمدینے کی تاخت وتاراج کے ہاتھوں اماموں کی درسگاہ بند ہوگئی تھی لیکن جب امام جعفر صادقؒ اہل بیت کے سربراہ بنے تو انہوں نے اسے نئے سرے سے زندگی بخشی۔وہ عالم بھی تھے، شاعر بھی تھے، فلسفی بھی،غیر ملکی زبانوں پر بھی قادر تھے،خیالات میں بے حد وسیع المشرب اور عقلیت پسند تھے او رعموماً یہودی،عیسائی اور زرتشتی ارباب فضل سے تبادلہ آراء او رمابعد الطبیعیاتی سباحثوں میں مصروف رہتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے دبستان مدینہ کو فلسفیانہ رنگ میں رنگ دیا۔ قضاد لخدر کے بارے میں ان کے جو خیالات تھے“

۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ احتجان الطبرسی

۲؎ ایضاً

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان میں سے بعض اس قابل ہیں کہ ان کاذکر کیا جائے۔ مسئلہ جبر کی بابت جو اس وقت دمشق میں اٹھا،انہوں نے ذیل کی رائے ظاہر کی:۔جو لوگ جر کے معتقد ہیں وہ خدا کو اپنے گناہوں میں شریک کرتے ہیں اور اسے ایک حاکم جابر قرار دیتے ہیں جو انہیں ایسے گناہوں کی سزا دیتاہے جن کے کرنے پروہ فطرتاً مجبور ہیں:یہ کفر ہے۔“ پھر وہ ایک ایسے نوکر کی مثال دیتے ہیں جسے اس کے آقانے بازار سے کوئی چیز خریدلانے کے لیے بھیجا ہے لیکن اس چیز کی قیمت اداکرنے کے لیے پورے پیسے نہیں دئیے:جب نوکر خالی ہاتھبازار سے واپس آتا ہے تو آقا اسے سزا دیتا ہے۔ یہ مثال دے کر وہ کہتے ہیں:”مسئلہ جبر کی رو سے تو خدا ایک غیر منصف آقا ثابت ہوتاہے۱؎“۔ جہاں تک مسئلہ جبر کے مخالف مسئلہ تفویض کا تعلق ہے(جس کے معنی انسانی ارادے کی آزادی نہیں بلکہ خیروشرک کے انتخاب میں مکمل اختیار) انہوں نے فرمایا کہ اس قسم کا اصول اخلاق کی بنیادیں اُکھیڑ کر رکھ دے گا اور تمام انسانوں کو اذنِ عام دے دے گا کہ جی کھول کر اپنی نفسانی خواہشات پوری کریں،کیونکہ اگر ہر شخص کو یہ اجازت دے دی جائے کہ چاہے تو نیکی پر اور چاہے تو بدی پر کار بندہوتو کسی قسم کی تکلیف شرعی باقی ہی نہیں رہتی۲؎۔چنانچہ امام صاحب اختیار کو تفویض سے مختلف قرار دیتے ہیں۔”خدا نے ہر انسان میں یہ صلاحیت ودیعت کی ہے کہ اس کے احکام کو سمجھ سکے اور ان پرعمل کرسکے۔ جو لوگ صدق وصفا کی زندگی بسرکرنے کی کوشش کرتے ہیں اللہ ان کی مددکرتاہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو خدا کی مقبول ہیں۔جو لوگ اس کی حکم عدولی کرتے ہیں وہ گناہگار ہوتے ہیں۔“ آٹھویں امام علی رضا نے ان خیالات کو شّد ومّد سے دہرایا انہوں نے جبر وتشبیہہ کو کُفرِ مطلق کہا اور ان کے مدعیوں کو دشمنان دین گردانا،بلکہ علی الاعلان ان پر روایات گھڑنے کاالزام لگایا۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے اپنے پیروؤں کو تنبیہہ کی کہ مسئلہ تفویض کو تسلیم نہ کریں۔انہوں نے ایہ کھلے کھلے عام اصول وضع کئے:”خدا نے تمہیں دو راستے دکھائے ہیں:ایک تمہیں اس کی طرف او ردوسری تمہیں اس کے کمال سے دور کے جاتا ہے۔خوشی یا رنج جزایا سزا کا دارومدار تمہارے اعمال پر ہے، لیکن انسان میں یہ طاقت نہیں کہ بدی کو نیکی میں اور گناہ کو کارِ ثواب میں تبدیل کرسکے۔“

۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ احتجاج الطبّرسی

۲؎ ایضاً

۔۔۔۔۔۔۔

بنی اُمیّہ، جن میں سے بہت سے قبول اسلام کے بعد بھی دل سے مُشرک ہی رہے اپنے آباؤ اجداد کی طرف قسمت کے قائل تھے۔ان کے عہد حکومت میں ایک ایسا دبستان ظہور میں آیا جس کا دعویٰ یہ تھا کہ اس کے عقائد سلف یعنی قدمائے اسلام سے ماخوذ تھے۔ قدمائے اسلام سب کے سب دنیا سے رحلت منسوب کردینا آسان تھا۔ اس دبستان کا نام جبر یہ تھا اور اس کا بانی جہم بن صفوان تھا۔ کیلون (Calvin) کی طرح جبریہ۱؎ بھی اس امر سے منکر تھے کہ انسان آزاد ارادے کامالک ہے۔ان کا عقیدہ یہ تھا کہ ”انسان اپنے اعمال کا ذمہ دار نہیں،کیونکہ اس کے اعمال خدا کی طرف سے ہوتے ہیں، نہ اس میں عمل کرنے کی قوتِ فیصلہ ہوتی ہے اور نہ ارادہ کرنے کی قوت۔ وہ اپنے اعمال میں خدا کی حاکمیت علی الاطلاق کا محکوم ہے او رنہ قوت عمل رکھتا ہے،نہ قوت ارادی او رنہ قوت انتخاب۔۔ خدا اس کے اندر اسی طرح فعلیت پیداکرتا ہے جس طرح وہ غیر ذی روح چیزوں میں کرتاہے۔انسانی اعمال کی جزاوسزا کا دارومدار خدا کی حاکمیت مطلقہ پر ہے۔“ صفات الہٰی کے بارے میں بھی جبریہ کے چند نظریئے۔تھے جن کی کوئی اہمیت نہیں ۲؎۔ شہرستانی کے قول کے مطابق جبریہ کے تین گروہ تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ شہرستانی جبر یہ کو دو گروہوں میں تقسیم کرتاہے:۔ ایک تو خالص جبریہ اور دوسرے مقابلتہً معتدل جبریہ۔اوّلالذّکر کانظریہ یہ تھاکہ نہ توعمل انسان کا ہوتا ہے نہ اس میں کسی قسم کی صلاحیت عمل ہوتی ہے۔ مؤخرالذّکر کاعقیدہ یہ تھا کہ انسان عمل کی قدرت تو رکھتا ہے لیکن وہ مؤثر نہیں ہوتی۔

۲؎ شہرستانی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 جہمیہ نجاریہ اور ضراریہ جن میں چھوٹے چھوٹے جزئی اختلافات تھے لیکن جہاں تک مسئلہ قضا وقدر کا تعلق تھا تینوں ا س پر متفق تھے کہ انسان آزاد ارادے کامالک نہیں۔ نجّاریہ،جو تغّیر کے متعدد مراحل طے کر کے دو صدیوں کے بعد اشعریہ میں تبدیل ہوگئے یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ خدا اپنے بندوں کے اعمال کا خالق ہے عام اس سے کہ وہ اعمال نیک ہوں یا بد اور انسان ان اعمال کے مالک بن جاتے ہیں۔جبر یہ عقائد نے اُموی خلفاء کی مقبولیت حاصل کی او ربہت جلد عوام میں پھیل گئے۔

جبریہ کا تقدیر کے بارے میں جو اٹل عقیدہ تھا اس نے ارباب فکر کو بغاوت پر آمادہ کیا، اس بغاوت کے سربراہ معبدالجہنی،یونس الاسوار اورغیلان دمشقی تھے جنہوں نے اپنے بہت سے خیالات بداہتہً فاطمیوں سے اخذ کئے تھے۔ انہوں نے اُمویوں کے دارالحکومت میں،یعنی نظریہ ئ قضاء وقدر کے قلعے کی چاردیواری کے اندر،انسان کی مختاری کا اعلان کیا۱؎۔لیکن انسانی آزادی کا دعویٰ کرتے وقت وہ کبھی کبھی مسئلہ تفویض کی سرحدوں کے قریب پہنچ جاتے تھے۔ دمشق سے یہ ماحثہ بصرہ پہنچا اور وہاں دونوں فرقوں کے اختلافات زیادہ شدید ہوگئے۔ جبر یہ ایک نئے فرقے میں،جس کا نام صفاتیہ تھا، ضم ہوگئے،صفاتیہ مسئلہ تقدیر کے ساتھ ساتھ یہ دعویٰ بھی کرتے تھے کہ اللہ میں چند صفات ہیں جو اس کی ذات سے علٰیحدہ ہیں۔ جبریہ اس کے منکر تھے۔ جبر یہ اپنے آپ کو سلف کے بلاواسطہ جانشین کہتے تھے۔ شہرستانی کے قول کے مطابق یہ پیردان سلف یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ فدا میں چند دائمی صفات ہیں یعنی علم، قدرت،زندگی،ارادہ،سمع، بصر،کلام،جبروت،کریمی،فیّاضی،رحمت،کبریائی،عظمت،لیکن وہ صفاتِ ذاتیہ اور صفات عملیہ میں کوئی تمیزنہیں کرتے۔۔۔۔۔ وہ بغث صفات خبریہ کو بھی بیان کرتے ہیں۔ مثلاً ہاتھ او رمنہ اور وہ ان صفات کی کوئی تعبیر نہیں کرتے،سوائے اس کے کہ یہ خدا کی الہامی توصیف میں داخل ہیں اور اسی لیے انہوں نے ان کو صفات خبریہ کانام دیا ہے۔“ جبریہ کی طرح صفاتیہ بھی قضاء وقدر کے مردہ دلانہ نظریے پر شدت سے اڑے رہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   

۱؎ شہرستانی

۲؎ التشبیہہ بصفحات المحدثات۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 صفاتیہ سے مُشبیہ کی شِقّ نکلی جو صفات بادی کو مخلوقات کی صفات سے تشبیہہ دیتے تھے او رجنہوں نے خدا کو اپنی ذات کی تمثال بنادیا۱؎۔ اس زمانے میں جو علماء حامیان قضاد قدر کے مخالف تھے ان میں سب سے ممتاز امام حسن بصری تھے۔ امام صاحب مدینے میں پیدا ہوئے تھے او رانہوں نے حکمائے بیت النبی کے سامنے زانوئے شاگردی تہہ کیا تھا۔ ان سے انہوں نے وسیع النظری اور عقلیت پسندی اخذ کی تھی۔ بصرے میں اقامت اختیار کرنے کے بعد انہوں نے اپنی درسگاہ کھولی جس میں سارے عراق سے طلبہ جوق درجوق آنے لگے۔ اس درسگاہ میں وہ مابعد الطّبیعیات کے مسائل پر اپنے استادوں کی طرح آزادانہ اظہار خیال کرتے تھے۔

امام حسن بصری کے شاگردوں میں ایک ممتاز شاگردواصل ابن عطا ء الغّزال تھا۲؎ جوبڑی دماغی استعداد کا مالک او رعلوم عقلیہ ونقلیہ اور روایات کا جید عالم تھا۔ اس نے بھی ابتداء میں درسگاہ مدینہ سے استفادہ کیا تھا۔ ایک مسئلہ ایمانی پراختلاف کے باعث امام صاحب نے اسے اپنے درس سے نکال دیا۔ چنانچہ اس نے اپنی ایک علیٰحدہ درسگاہ کھولی۔ اس بناء پر اس کے متبعین کو معتزلہ یا اہل اعتزال یعنی اختلاف۳؎ کرے والے کہتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ شہرستانی صفاتیہ تشبیہوں کو بعد کے تشبیہوں سے ممتاز کرتاہے۔”جو لوگ عقیدہ سلف پر قائم تھے انہوں نے جو کچھ کہا بعد میں چند اشخاص اس سے بھی آگے نکل گئے اور انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ صفات باری کو بیان کرنے والے جنتے کلمات ہیں و ہ سب لغوی معنو ں میں استعمال کئے گئے ہیں اور ان کی تفسیر من وعن کی جانی چاہئے،یعنی کسی مجازی تاویل کے بغیر،لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بھی واجب نہیں کہ محض ان کے لغوی معانی پر اصرار کیا جائے، کیونکہ اس طرح تووہ خالص تشبیہہ (تشبیہہ الصرف) بن جاتے ہیں جو عقیدہ سلف کے منافی ہے۔“

۲؎ ابوحذیفہ واصل ابن عطا ء الغزال عبدالملک ولید اور ہشام کے ادوارخلافت میں ہوا۔83ھ میں پیدا ہوا اور 131ھ میں وفات پائی

۳؎ شہرستانی۔”گوہرمُراد“۔ ”غیاث اللغات“ اور ”فرہنگ“ (لکھنؤ 1889 ء) میں معتزلہ کا تلفظ کے اوپر فتحہ سے کیاگیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بہت جلد اس نے اپنے استاد کے برابر شہرت حاصل کرلی۔ بلکہ استاد کا مکتب اس کے مکتب میں مدغم ہوگیا۔اسے ذہنی آمریت سے جو دشمنی تھی اس کے باعث وہ متعدد مرتبہ حدِّاعتدال سے تجاوز کرگیا اور بالخصوص ان متنازعہ فیہ مسائل پرجو امیر معاویہ کی بدولت پیدا ہوئے تھے ایسے خیالات کا اظہار کرگیا جو درسگاہ مدینہ کے خیالات سے لگانہ کھاتے تھے۔بہرحال اس کے مکتب کی عمومی عقلیت پسندی نے اس زمانے کے آزاد خیال ارباب فکر ونظرکو اس کے علم کے نیچے جمع کردیا۔فاطمی فلاسفہ کے طریق استدلال کو اختیار کرکے ان کے بنائے ہوئے اصولوں پر عمل کرکے اور ان خیالات کو اپنا کر جو انہوں نے بسااوقات زور دار الفاظ میں بیان کئے تھے، اس نے ان مسائل کو جن میں اسے قائلین قضاوقدرے اور عمومآ تقلید پسندوں سے اختلافات تھا مستقل مباحث کی شکل دی۔ کئی صدیوں تک اس کا مکتب لوگوں کے ذہنوں پر مسلّط رہا اور اس زمانے میں جو روش دماغ حکمران برسرِ اقتدار تھے ان کی حمایت کی بدولت اس نے مسلمانوں کے عقلی وفکری ارتقاء کو ایک ایسا محّرک بہم پہنچا یا جیسا اس سے پہلے کبھی بہم نہ پہنچا تھا۔سربرآوردہ علماء طبیعیات دان،ماہرین ریاضیات،مؤرخین،عرض علم وفکر کی ساری دنیا جس میں خود خلفاء بھی شامل تھے مکتبہ معتزلہ سے وابستہ تھی۱؎۔

ابو الہذیل حمدان۲؎، ابراہیم ابن سّیار النّظام۳؎، احمد ابن حائط،فضل الحدثی اور ابوعلی محمد الجبانی۴؎ جیسے لوگوں نے جو یونانی فلسفہ ومنطق پرکامل عبور رکھتے تھے،بہت سے خیالات کو جو انہوں نے یونان سے اخذ کئے مدنی مکتب کے خیالات سے ملا دیا او را س طرح مسلمانو ں کے فلسفیانہ تفکّر کو ایک نئے سانچے میں ڈھال دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ ہم یہاں دوتین چوٹی کے معتزلہ کے نام لیتے ہیں جنہیں ابھی تک شہرت عام حاصل ہے۔امام زمخشری جن کی کتاب ”کشاف“ قرآن کی بہترین تفسیر تسلیم کی جاتی ہے امام مسعودی،فلسفی اور مؤرخ الحسن بن الہثیم ابوالوفاء او رمیر خونر

۲؎ اس نے متوکل کے عہد حکومت کے آغاز میں 235ھ (مطابق 50۔849ء) میں وفات پائی (غالباً صحیح نام ہے، محمد بن الہذیل العلاّف۔مترجم)

۳؎ ابوالہذیل کا بھتیجا یا بھانجا تھا۔

۴؎ متولد 861ھ،متوفی 933ھ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 ارسطو، پورفری (Porphyyr) اور دوسرے حکمائے یونان واسکندریہ کی تصنیفات سے استفادہ کرکے معتزلہ نے ایک نئے علم کی بنیاد رکھی جس کا نام علم الکلام ہے(یعنی عقل کا علم۔ کلام بمعنی نُطق یعنی (Logos) اس نئے علم کے حربے سے انہوں نے اسلام کے خارجی دشمنوں کا بھی اور داخلی دشمنوں کا بھی مقابلہ کیا، یعنی ان غیر مسلموں کا بھی جو اسلام کی تعلیمات پر اعتراض کرتے تھے اور ان مسلموں کا جو اندر سے ان کی بنیادیں کھوکھلی کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ جن سیاسی مسائل نے حضرت علیؓ کے عہد خلافت میں خلفشار پیدا کیا تھا ان کے بارے میں واصل کے جو انتہاپسندانہ خیالات تھے وہ بہت جلد ترک کردیئے گئے جس کا نتیجہ یہ ہواکہ مذہب اعتزال میں جو معتدل عناصر تھے وہ فاطمی مکتب کی عقل پسندی میں ضم ہوگئے جس سے ان کا خمیر اٹھا تھا۔یہ ایک معروف امر ہے کہ تمام بڑے بڑے فلاسفہ معتزلہ نے فاطمیوں کی درسگاہ میں تعلیم پائی تھی اور اس معاملے میں شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ اعتدال پسند اعتزال حضرت علیؓ اور ان کے سب سے وسیع المشرب ابتدائی جانشینوں، بلکہ خود رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم کے خیالات کی عکّاسی کرتاتھا۔ معتزلہ کے عقائد کا بامعان جائزہ لیا جائے تو ظاہر ہوجائے گاکہ وہ یا تو حرف بحرف وہی عقائد تھے جن کی تعلیم ابتدائی فاطمیوں نے دی تھی یا ان عقائد کی ترمیمیں تھے جو یا تو ایک ترقی یافتہ معاشرے کے تقاضے پورے کرنے کی خاطر کی گئیں یا فلسفہ یونان و اسکندریہ کے مطالعے کا نتیجہ تھیں۔

حضرت علیؓ نے پرُ زور الفاظ میں ذات باری کے تمام ایسے تصّورات کی مذّمت کی تھی جن میں انسان سے جسمانی یا جذباتی مشابہت کا پہلو پایا جائے۔ ”خدا کی کسی ایسی چیز سے مشابہ نہیں جس کا تصّور ذہن انسانی میں آسکتا ہے،اس کی طرف کوئی ایسی صفت منسوب نہیں کی جاسکتی جس کا ادراک انسانوں کو اشیائے مادّی کے علم کے ذریعے حاصل ہوا ہو۔ کمال تقویٰ عرفان ذات باری میں ہے۔کمال عرفان اس کی حقیقت کے اثبات میں ہے۔کمال حقیقت اس میں ہے کہ پورے خلوص سے اس کی وحدت کوتسلیم کیا جائے اور کمال خلوص اس میں ہے کہ اس کی طرف کوئی صفات منسوب نہ کی جائیں (کمال الخلاص لہ نفی الصفات عنہ) جو شخص خدا کی طرف کوئی صفت منسوب کرتاہے وہ اس صفت کو خدا سمجھتا ہے اور جو شخص اس طرح کسی صفت کو خدا سمجھتا ہے وہ خدا کو دویا کسی اکائی کا ایک حصہ خیال کرتا ہے۔۔۔۔ جو شخص یہ پوچھتا ہے کہ خدا کہاں ہے وہ خدا کو ایک چیز تصور کرتاہے۔ خدا خالق ہے تو اس لیے نہیں کہ وہ مخلوق ہے،خدا موجود ہے تو اس لیے نہیں کہ وہ کبھی غیر موجود تھا۔ وہ ہرچیز کے ساتھ ہے لیکن متشا بہت یا اتصّال کی وجہ سے نہیں وہ ہرچیز سے باہر ہے لیکن اس لیے نہیں کہ وہ اس سے جُدا ہے، وہ سبب اوّل ہے،لیکن حرکت یا عمل کے معنوں میں نہیں۔وہ بصیر ہے لیکن کسی کی بصارت اسے دیکھ نہیں سکتی۔ اسے مکان،زمان یا عددومقدار سے کوئی تعلق نہیں ۱؎۔۔۔۔۔ خدا کا علم کُل ہے کیونکہ علم اس کی ذات ہے،وہ قادر ہے کیونکہ قدرت اس کی صفت ہے او رمحُبّ ہے کیونکہ محبت اس کی ذات ہے۔۔۔۔ اس لیے نہیں کہ یہ صفات اس کی ذات سے جدا ہیں۔۔۔ زمان ومکان کی قیود کا اس پرکسی طرح اطلاق نہیں ہوسکتا ۲؎۔“ متبعین سلف تقدیر کی جو تشریح قضاء وقدر کے معنوں میں کرتے تھے اس کامطلب تھا، جانچنا“ ”امتحان لینا“،آزمائش کرنا“۔

آئیے اب ہم یہ دیکھیں کہ اعتزال کیا ہے۔ بہت سے غیر اہم اور ضمنی امور میں اکابر معتزلہ ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے تھے لیکن یہاں ان نظریات کا خلاصہ پیش کروں گا جن پر وہ متفق تھے۔ شہرستان کہتا ہے، ”معتزلہ ۳؎ یہ اعلان کرتے ہیں کہ قدم وجود باری کی امتیازی صفت ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ نہج البلاغۃ۔ اس پر ابن ابی الحدید معتزلی کا حاشیہ دیکھئے۔

۲؎ امام جعفر صادق۔”نہج البلاغۃ“

۳؎ شہرستانی کا قول ہے کہ ”معتزلہ اپنے آپ کو اصحاب العدل والتّوحید کہتے تھے او رکبھی کبھی قدریہ بھی“۔ لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے کبھی اپنے کو قدریہ کے لقب سے ملّقب نہیں کیا۔ یہ لقب ان کے مخالفوں نے ان انتہا پسند معتزلہ کو دیا جو مسئلہ تفویض کے قائل تھے،جسے ائمہ فاطمہ نے مذموم قرار دیا تھا۔ معتزلہ خود ہمیشہ قدریہ کے لقب کو ردّ کرتے تھے او راس کا اطلاق حامیان قضاو قدرپرکرتے تھے، جن کا دعویٰ یہ تھا کہ خدا ہر انسان عمل کا خالق ہے۔ شہرستانی یہ تسلیم کرتاہے اور یہ کہتا ہے، ”وقالو الفظ التدیۃیطلق علی من یقول بالقدر خیرہ وشرہ من اللہ تعالیٰ“۔لیکن وہ حامیان قضاد قدر پرلقب قدریہ کے اطلاق کی تردید کرتا ہے۔ ”اس کا اطلاق ایسے لوگوں پر کیونکر ہوسکتا ہے جو خدا پر ایمان رکھتے ہیں ”۔؟شہرستانی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خداقدیم ہے،کیونکہ قدم اس کی ذات کا ایک خاص وصف ہے۔ وہ بالاتّفاق صفات قدیمہ کے (ذات باری سے جُدا) وجود کے منکر ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اپنی ذات میں عالم کُل ہے،اپنی ذات میں حیّ وقیّوم ہے، اپنی ذات میں قادرمطلق ہے اس لئے نہیں کہ علم، حیات اور قدرت اس کی صفات قدیمہ کی حیثیت سے اس میں موجود ہیں،کیونکہ علم،حیات اور قدرت تو اس کی ذات کے اجزا ہیں۔اگر بصورت دیگر ان صفات کو وجود باری کی صفات قدیمہ خیال کیا جائے(یعنی اس کی ذات سے علٰیحدہ) تو یہ متعدد قدیم وجود وں کو تسلیم کرنے کے مترادف ہوگا۔ وہ یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ کلام اللہ مخلوق ہے او رمخلوق ہونے کی حیثیت سے الفاظ او راصوات کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔۔۔ اسی طرح وہ متفقہ طور پراس سے منکر ہیں کہ ارادہ کرنا،سننا او ردیکھتا ایسے خیالات ہیں جوفی نفسہم وجودباری میں موجود ہیں۔اگرچہ وجود اور مابعد الطبیعیاتی حیثیت کے اعتبار سے وہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں“۔۔۔ ”وہ بالاتّفاق اس سے منکر ہیں کہ خدا کو دارالقرار میں جسمانی آنکھوں سے دیکھا جاسکے گا۔ وہ اس کی ممنوع قرار دیتے ہیں کہ خدا کی توصیف اشیائے مادّی کی کسی صفت سے کی جائے چاہے وہ جہت ہویا مقام صورت یا جسم یا تغّیر یا اختتام عمل یا تحلیل۔ قرآن کی جب عبارتوں میں ایسے کلمات استعمال کئے گئے ہیں جو ان صفات پرمحمول کئے جاسکتے ہیں۔ ان کی تفسیر وہ یہ کہہ کرکرتے ہیں کہ یہ کلمات مجازاً استعمال کئے گئے ہیں نہ کہ لُغواً۔ اس نظریئے کو وہ توحید کہتے ہیں، یعنی وحدت اللہ کا اقرار۔۔۔۔ وہ اس پر بھی متفق ہیں کہ انسان اپنے اعمال نیک وبد کا فاعلِ خالق ہے(لافعالہ خیرھا وشرھا ان العبدقادرخالق) او رعقبیٰ میں اپنے اعمال کے مطابق جزا وسزا پائے گا او رکسی شر اخلاقی سوُئ عمل، نفیئ عقیدہ یا عدم اطاعت کو خدا کی طرف منسوب نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ اگروہ ظلم یعنی گمراہی کو وجود میں لائے تو وہ خود ظالم ثابت ہوتا ہے(لانہ لوخلق الظلم کان ظالماً)۔۔۔۔۔ وہ یہ بھی متفقہ طور پر کہتے ہیں کہ حکیم کل صرف ایسے کام کرتاہے جن میں صلاح وخیر ہو او راس لیے ازروئے حکمت اپنے بندوں کی بھلائی کا خیال رکھنا خدا پر واجب ہے۔اگرچہ وہ اس مسئلے پر مختلف الّرائے ہیں کہ آیا زیادہ سے زیادہ صلاح وخیر کا وجود میں لانا او ربندوں پر لُطف وکرم کرنا خدا کا فرمان ہے۔اس نظریئے کو وہ نظریہ عدل کہتے ہیں۔“

ان کا یہ عقیدہ بھی ہے کہ انسانی عمل کے بارے میں کوئی دائمی اور قدیم قانون موجود نہیں او رانسان کی ہدایت کے لئے جو خدائی احکام یعنی اوامرونواہی ہیں وہ تدریجی ترقی کے ذریعے وجود میں آئے۔لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جو شخص نیکی کرتاہے وہ ثواب کا مستحق ہوتاہے اور جو شخص بدی کرتاہے وہ عذاب کا مستحق ہوتاہے۔ اس دعوے کو وہ مطابق عقل قرار دیتے ہیں۔ معتزلہ کا یہ خیال بھی ہے کہ علم و عقل کے ذریعے حاصل ہوتاہے اور صرف عقل کے ذریعے حاصل ہوسکتاہے۔نیکی وبدی کاعرفان ان کے نزدیک عقل کا کام ہے۔ جب تک عقل ہمیں صواب وخطا کا فرق نہ بتائے ہم ان میں تمیز نہیں کرسکتے۔ احکام شریعت کے صادرہونے سے بھی پہلے عقل ہم پر دائرے میں داخل سمجھتے ہیں۔ ذات باری کے سوا ہر چیز کو وہ تغّیر پذیر او رفانی خیال کرتے ہیں۔ ”ان کا یہ ایمان بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء اس مقصد سے بھیجے کہ وہ انسان کو اس کے احکام سمجھائیں۔۔۔۔۔ امامت کے مسئلے پر ان میں اختلاف رائے ہے۔ بعضوں کا خیال ہے کہ وہ تقرر کے ذریعے ایک امام سے دوسرے امام کو ملی۔ بعض یہ کہتے ہیں کہ جمہور کو اپنا امام انتخاب کرنے کا حق ہے۔“ چنانچہ معتزلہ صفاتیہ کی عین ضد میں۔”کیونکہ وہ اور تمام دوسرے اہل سُنت اس کے قائل ہیں کہ خدا جو چاہتا ہے کرتا ہے کیونکہ اپنی قلمردکاحاکم مطلق ہے اور اپنی مرضی کے مطابق حکم دیتا ہے۔۔۔ ان کے نزدیک یہ عدل ہے۔ اہل الاعتزال کہتے ہیں کہ جو چیز مطابق عقل و حکمت ہو صرف وہ چیز عدل ہوتی ہے اور وہ صرف انسان کے لیے صواب و مصلحت کی حامل ہوتی ہے۔۔۔ اہل العدل کہتے ہیں کہ خدا نے مخلوق کلام کے ذریعے ادامرونواہی صادر کئے ہیں۔اہل السنّت (یعنی صفاتیہ) کہتے ہیں کہ تکالیف شرعی کا علم سمع وخبر کے ذریعے حاصل ہوتاہے۔عقل کی وساطت سے صرف دنیوی حاصل کیا جاسکتاہے۔ عقل ہمیں یہ نہیں بتاسکتی کہ کون سی چیز نیک ہے،کون سی بد اور کون سی واجب،(اس کے برعکس) اہل العدل کہتے ہیں کہ تمام علم و عقل کے ذریعے حاصل ہوتاہے۱؎۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ شہرستانی

۔۔۔۔۔۔

احادیث میں تقدیر کا جو لفظ آیا ہے اس سے وہ مراد لیتے ہیں امتحان اور نجات،ادبار واقبال،بیماری اور تندرستی،موت اور زندگی او رخدا کے دوسرے کام خیرو شر اور حسن و قبح کو وہ انسان کی ذمہ داری اور تقدیر کے دائرے سے خارج قرار دیتے ہیں۔“

ایک مکتب کی حیثیت سے معتزلہ کے جو خیالات تھے اب تک ہم نے انہیں مجموعی طور پر بیان کیاہے۔ لیکن اس مکتب کے ممتاز حکماء نے بعض انفرادی آراء کااظہار کیا جو اس کے باوجود کہ وہ ان کے خاص خاص شاگردوں کے حلقے تک محدود رہیں ملاحظے کی مستحق ہیں۔ مثلاً ابوہذیل حمدان کاعقیدہ تھا کہ خدا علم کی بدولت عالم ہے لیکن اس کا علم اس کی ذات ہے،وہ زندگی کی بدولت زندہ رہے لیکن اس کا علم اس کی ذات ہے،و ہ قدرت کی بدولت قادر ہے لیکن ان کی قدرت اس کی ذات ہے۔ وہ زندگی کی بدولت زندہ ہے لیکن اس کی زندگی اس کی ذات ہے۔شہرستانی کہتاہے کہ یہ رائے ابوالہذیل نے بظاہر فلاسفہ سے،لیکن دراصل درسگاہ مدینہ سے اخذ کی۔ ابوالہذیل نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ آزاد ارادہ یا اختیار (جسے وہ ”سلامات“کہتا ہے)ایک عرض ہے جو کمال ترقی اور ”صحت“ (یعنی صیحیح الفظرتی) پرمستنراد ہے۔ابراہیم ابن سیار ناظم جس نے فلاسفہ کی کتابوں کا مطالعہ بڑی محنت سے کیا،یہ رائے رکھتا تھا کہ الہامی کشف کے بغیر بھی انسان خوروفکرکی مدد سے خدا کو پہچان سکتاہے اور نیک وبد میں تمیز کرسکتاہے او رنیکوکاری میں بدی کرنے کی قوت ہی نہیں ہوتی۔”معمر ابن عباد السُلمی نے افلاطون کا نظریہ امثال پیش کیا۔ اس کا عقیدہ تھا کہ عوارض اشیاء کی جس نوع میں ہوتے ہیں اس میں دائمی طور پرموجود رہتے ہیں اور ہرعرض کسی جوہر میں ہوتاہے لیکن اس کے وجود کا دارومدار اس پر ہوتا ہے کہ ذہن انسانی میں اس خیال ہو۔ معمر او راس کے تابعین کو اس بنا پر اصحاب المعانی (Idealists) کا نام دیا گیا۔ابوعلی محمد ابن عبدالوہاب عرف ابوعلی الجّبائی کا یہ خیال تھا کہ عمل کا تعلق انسان سے یوں ہے کہ انسان اس کا موجدومبداء ہوتاہے، چنانچہ وہ اخلاقی خیر و شر اور اطاعت و نافرمانی کو انسان کا ایک خصو صی حق سمجھتا ہے۔اختیار کو (جسے وہ استقامت کے نام سے موسوم کرتاہے) وہ عمل کی ایک شرط پیشیں تصور کرتاہے اور اسے ایک ایسی قوت کہتاہے جو جسمانی صحت او رسلامتی اعضاء پر مستزاد ہے۔امام الحرمین ابوالمعالی الجُوینی اگرچہ اپنے آپ کو معتزلی نہیں کہتے تھے بلکہ معتزلہ کے مخالفوں نے انہیں اپنے زُمرے میں شمار کیا ہے،پھر بھی ان کا قول تھا کہ انسان کو استقامت اور اختیار سے خالی قرار دینا عقل و شعور کے منافی ہے اوریہ کہنا کہ انسان میں قابلیت تو ہے لیکن کسی قسم کی مؤثریت نہیں قابلیت کے مکمل انکار کے مترادف ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کوئی ناقابل فہم اثر عمل انسانی کا سبب محّرک بنتا ہے یہ کہنے کے برابر ہے کہ انسان پر کوئی خاص اثر کار فرماہی نہیں ہوتا۔چونکہ شرائط و حالات ان لوگوں کے اصول کے مطابق جو ان کا دعویٰ کرتے ہیں موجود یا غیر موجود نہیں کہے جاسکتے بلکہ اپنی اصل کے حوالے سے تشریح کے محتاج ہوتے ہیں، اس لیے انسان کاعمل (ایک حالت موجودہ کی حیثیت سے)فی الحقیقت اس کی قابلیت کا نتیجہ ہوتاہے۔ اگرچہ یہ بجا ہے کہ اس کی قابلیت ان کا مبداء وخالق نہیں ہوتی کیونکہ تخلیق کے معنی ہیں قدرت مطلقہ ک ذریعے کسی ایسی چیز کو وجود میں لانا جو پہلے موجود نہ تھی۔ عمل کے وجود کا دارومدار انسان کی قابلیت عمل پر ہے اور یہ قابلیت خود کسی او رسبب پر منحصر ہوتی ہے جس کے ساتھ اس کا وہی تعلق ہوتاہے جو انسان کے عمل کا تعلق انسان کی قابلیت کے ساتھ ہوتاہے چنانچہ اس طرح ہر سبب کا دارومدار کسی دوسرے سبب پر ہوتاہے تانکہ یہ سلسلہ سبب الاسباب پرجاکر ختم ہوتاہے،یعنی اسباب او ران کو مؤثر یت کے خالق پر جو مطلقاً قائم بالذّات او رمکتفی بالذّات ہے۔ شہر ستانی کہتاہے کہ ”ابوالمعالی نے یہ رائے موحدّین (The Theistic School) کے مکتب سے مستعار لی لیکن اسے کلام کا جامیہ پہنا دیا۱؎۔“

یہ ہے ایک اجمالی خاکہ معتزلہ کے خیالات کاچند ایسے معترکۃ الآرا ء مسائل پر جنہو ں نے ہرزمانے او رہر ملک میں ذہن انسانی کو مخمصے میں ڈالا ہے او رکیا مشرق او رکیا مغرب دونوں میں بسا اوقات خونریرہنگامے برپا کئے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ جوینی کے خیالات کا مقابلہ ابن رُشد کے خیالار سے کیجئے۔معلوم ہوتاہے کہ شہرستانی ائمہ فاطمی کے خیالات سے واقف نہ تھا۔ابولمعالی کے خیالات اس جیسے صحیح العقیدہ شخص کو پسند نہ آسکتے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔

چونکہ وہ خدا کے ایسے طور پر مدّعی تھے کہ اس میں انسان سے شباہت کا شائبہ نہ تھا او رچونکہ وہ انسان کی اخلاقی ذمہ داری کے بھی حامی تھے اس لیے انہوں نے قدرتی طور پر اپنے آپب کو اصحاب العدل والتوحید کہا او راپنے مخالفین کو مُشبیہوں کالقب دیا۔ ا ن کا طریق استدلال حسب ذیل تھا۔ اگر معصیت کا مبدا ء یا خالق خدا ہے او رانسان کا اس میں مبتلا ہونا مقدر ہے تو اسے اس کے لیے مستوجب سزاقرار دینا خدا کو غیر منصف گرداننا ہے او ریہ کفر ہے۔ لہٰذا عقل او روحی الہٰی دونوں ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ تقویٰ اور گناہگاری،نیکی اور بدی، خیرو شر انسانی ارادے کی پیداوار ہیں: اگر چہ انسان کو یہ بتادیا گیا ہے کہ کون سی چیز صحیح ہے اور کون سی چیز غلط پھر بھی وہ اپنے اعمال پرمکمل اختیر رکھتاہے۔خطا وسزا کا دارومدار عدل پر ہے کیونکہ خدا کی کائنات عدل کے زیر فرمان ہے۔ عقل او رعدل انسانی اعمال کے اصول رہنما ہیں: منفعت عمومی او ر جمہورنوع بشرکی راحت وسعادت کا پروان چڑھانا خطا و صواب ک سب سے بڑے معیار ہیں۔ کیا خدا نے خود نہیں کہا:”دونوں راستے انسان کی بھلائی کی خاطر اسے دکھادیئے گئے ہیں۔کیاخود اس نے انسان کو اپنی عقل سے کام لینے کی تلقین نہیں کی؟“ وہ چونکہ عقلیت پسنداور افادیت پسند تھے اس لیے انہوں نے قانون اخلاقی کی بنیاد عقل او رآیات الہٰی کی باہمی مطابقت پر رکھی۔معلم اسلام اور آپ کے ابتدائی جانشینیوں کے نقش قدم پر چلے۔ ہر ایسے قانون کو جو انسانوں کے باہمی تعلقات کو منضبط کرتاہے ترقی او رنشوو نما کے ایک مسلسل عمل کا نتیجہ کہہ کر انہوں نے مسئلہ ارتقاء کی حمایت کی انسان کے ایک طویل مدّت سے کرہئ ارض پرموجود ہونے کے بارے ۱؎ میں ان کے جو خیالات تھے ان کے اعتبار سے وہ دنیائے جدید کے طبیعی فلاسفہ کے مقابلے میں ایک مقام تفّوق رکھتے ہیں۔

معتزلی مذہب اسلامی سلطنت کے ہر گوشے کے صاحب فکر و فرہنگ طبقوں میں بڑی سرعت سے پھیلا اور ہسپانیہ میں داخل ہوکر اس نے اندلسی دارالعلموں اور درسگاہوں پرقبضہ جمالیا۔ منصور او راس کے ابتدائی جانشینوں نے عقلیت کی حوصلہ افزائی کی لیکن علانیہ طور پرمعتزلی عقائد کااقرار نہ کیا۔

مامون نے جو تمام ایشیائی حکمرانوں سے بڑھ کر ”اعظم“ کے لقب کامستحق ہے،مکتب معتزلہ سے وابستگی کااعتراف کیا۔اس نے اور اس کے بھائی متعصم اور بھتیجے واثق نے ساری دنیائے اسلام میں غفلت کی روح پھونکنے کی کوشش کی۔ ان کے ادوارِحکومت میں عقلیت کو ایک ایسا غلبہ حاصل ہوا جیسا غالباً اسے زمانہ حاضرہ کے یورپی ملکوں میں بھی نصیب نہیں۔ علمائے معقولات مسجدوں میں خطبے اور مدرسو ں میں درس دیتے تھے،ملّت کے نوجوانوں کی سیرت کی تشکیل ان کے ہاتھوں میں تھی،خلیفوں کے مشیروں میں وہ ایک اونچے مقام کے مالک تھے او راس سے انکا رنہیں کیا جاسکتا کہ انہوں نے اپنے اثر ونفوذ کا استعمال دانشمندی سے کیا۔ انہوں نے پروفیسروں،خطیبوں،سائنسدانوں،طبیبوں،وزیروں اور صوبائی حاکموں کی حیثیت سے اُمت مسلمہ کی نشوونما کو فروغ دیا۔ جب مذہب معتزلہ کی شان وشوکت ایشیا میں ختم ہوگئی مغربی افریقہ میں نبی ادریس کے عروج اور دولت فاطمیہ کے قیام نے اسے ایک نئی زندگی بخشی۔

اب یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ جب خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم او رحکمائے بیت النبی نے مسئلہ تقدیر کو قبول نہ کیا اورعقل کو اندھی تقلید کاغلام بنانے کو ناپسند فرمایا تو یہ عقائد اسلامی دنیا کے فکر و عمل پربالآخر کیونکر مسلّط ہوگئے؟ اس سوال کا جواب دینے سے پیشتر آئیے ہم مسلمانوں کی ذہنی سرگرمیوں کے ایک اور پہلو کی نشوونما کاسراغ لگائیں۔مذہب معتزلہ کو،بظاہر بڑی حد تک معقول طور پر،یورپ کی قرون متوسط کے فلسفہ مدرسیہ۱؎ سے تشبیہہ دی گئی ہے۔ مدرسیت کے بارے میں کہا جاتاہے کہ ”و ہ ایک ذہنی تحریک تھی جس کا مقصد عیسائیت کے مسائل ایمانیہ کا جواز عقل کی مدد سے پیش کرنا تھا۔“ معتزلہ مذہب نے بھی عقل اور مثبت الہام میں مطابقت قائم کرنے کی کوشش کی لیکن اس نقطے پر پہنچ کر اعتزال او رمدرسیت کی مماثلت ختم ہوجاتی ہے۔ عیسوی کلیسا میں جو ایمانیات تشریح اور جواز کے محتاج تھے ان کی تعداد بہت بڑی تھی ثبلیث کے اندر وحدت تین ”فطرتوں“ کا ایک فطرت میں جمع ہونا۔جبلّی معصیت،استحالہ عشائی،ان سب مسائل نے بہت سی ذہنی کش مکش پیدا کی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ Scholastic Philosophy

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لہٰذا اس سے پیشتر کہ سائنس اور فکر آزاد کو عیسائیت میں داخلہ ملتاکلیسا کے ایمانیات کے مدرسیت کی قسم کے کیمیائی محلل کی ضرورت تھی۔ اسلام کا معاملہ جُدا تھا۔ مسئلہ توحید کے سوا، جو دین اسلام کا اصل الاصول تھا، کسی مسئلہ ایمانی پر کسی ایسی صورت میں اصرار نہ کیا گیا تھا کہ عقل اسے قبول کرنے سے انکار کردیتی۔ مبداء معاد (یعنی خدا سے آنا اور خدا کے پاس لوٹ جانا) اور انسانی اختیار کا مسئلہ ایک سبب اوّل یعنی مبداء جملہ موجودات کے تصورات پر مبنی تھا۔ دانشمند او رجاہل دونوں کسی نہ کسی صورت میں یہ مانتے چلے آئے کہ انا Ego اپنے پیراہن جسمانی سے جُدا ہونے کے بعد بالکل نیست ونابود نہ ہوجائے گا بلکہ جسم کی تحلیل کے بعد ایک خود آشنا ہستی کی حیثیت سے قائم رہے گی۔ بعض لوگوں نے ایک آئندہ زندگی کا انکار کیا ہے لیکن بیشتر لوگوں نے اسے قبول کیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس آئندہ زندگی کی نوعیت کے بارے میں ان کے خیالات مختلف ہیں۔ اسی طرح جہاں تک انسانی ذمہ داری کا تعلق ہے، اس بارے میں بہت سا اختلاف آراء ہے کہ انسان اپنے اخلاقی فرائض سے کیونکر عہدہ برآ ہوسکتا ہے لیکن اس موضوع پرسب متفق ہیں کہ وہ اپنی قوتوں کے صحیح یا غلط استعمال کے لیے جوابدہ ہے۔ ان دونوں مسائل پر معلّم اسلامیہ کے ارشادات آزادی رائے کی بہت سے گنجائش چھوڑتے ہیں۔ اصلی تصورات کے قائم رکھنے پر اور قبول کرنے کی حدود کے اندر دین اسلام وسیع المشر بانہ سے وسیع المشربانہ اور عقلیت پسندانہ سے عقلیت پسندانہ خیالات کی اجازت دیتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کسی ایسے عبودی مرحلے سے گزرنے کے بغیر جس کی ضرورت عیسائیت کو پیش آئی دور قبول سے نکل کر دورِ عمل اور دورِ ایمان سے نکل کر دورِ عقل میں داخل ہوگیا۔

یہ درست ہے کہ دورِ رسالت میں اور اسی طرح خلافت راشدہ کے دور میں قدرتی طور پر غالباً بجا طور پر،بلاروک ٹوک استفسار کی ہمت افزائی نہ کی گئی۔ لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ارباب اقتدار کے خوف سے سوالات یا شبہات کی زبان بندی کردی ہو۔ اگر مدّرس کسی سوال کاجواب دینے سے معذور ہوتا تو وہ کمالِ انکسار کے ساتھ اپنی معذوری کا اقبال کرتا۱؎۔

۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ عموماً جواب یہ ہوتا تھا:۔ ”واللہ اعلم بالصّواب“

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مذہب اعتزال کواس لیے ذہن انسانی کی ترقی میں ایک امتیازی مقام حاصل ہے۔وہ یورپ کی مدرسیّت سے ملتا جلتا ہے لیکن درحقیقت طبعاً دور ِحاضر کی عقلیت سے قریب کا رشتہ رکھتا ہے۔مدرسیت نے کلیسا کے زیر سایہ کا م کیا۔ اعتزال دین اسلام کے پیشواؤں کا شریک کاررہا۔اسلام کی مدرسیت نے بعد میں ظہور کیا۔

علوم طبیعیہ کی نشوو نما نے مسلمانوں کی فطری طبّاعی کو ایک نئی جہت بخشی۔مفکّرین کی ایک کثیر التعداد جماعت پیداہوگئی۔ انہیں حکماء کا لقب دیا گیا(لفظ حکیم سائنسدان اور فلسفی دونوں کو محیط ہے) ان لوگوں کا طریق استدالال آج کل کی سائنس کے طریق استدلال کے مماثل تھا،ان میں سے اکثر معتزلی تھے لیکن بعضوں کے خیالات پر ارسطو اور اسکندریہ کی افلاطونیت جدیدہ کارنگ چڑھا ہوا تھا۔ اگر تعصّب اور جہالت نے انہیں کافر ہلحد اور زندیق کے ملامت آمیز لقب دے کر مطعون کیا لیکن تاریخی صداقت شعاری کو یہ تسلیم کرتے ہی بن آتی ہے کہ ان لوگوں نے کبھی اپنے آپ کو دائرہ اسلام نے خارج نہیں کیا۔ نہ انہوں نے کبھی کوئی ایسا نظریہ پیش کیا جس کی سند انہیں بانی اسلام یا آپ کے ابتدائی جانشینوں کے اقوال میں نہ ملی۔

ارتقا ء اور تدریجی نشوونما کے جس نظریے پر یہ فلاسفہ ثابت قدم سے جمے رہے وہ ان کے ایک ممتاز نمائندے الہثیم نے بڑی وضاحت سے بیان کیاہے۔اس موضوع پر اس کے جو فلسفیانہ خیالات ہیں ان کا اجمال یہ ہے:۔”مادّی موجودات کی اقلیم میں سب سے نیچے جمادات ہیں ان کے اوپر نباتات،ان کے اوپر حیوانات اور سب سے اوپر انسان جسمانی لحاظ سے وہ مادّی دنیا کا باشندہ ہے لیکن اپنی روح کی بدولت وہ غیر مادّی یا روحانی دنیا سے تعلق رکھتا ہے۔اس سے اوپر خالصتاً روحانی ہستیاں ہیں،یعنی ملائکہ۱؎۔ ان کے اوپر صرف خدا ہے اس طرح درجہ بدرجہ ترقی کے ایک سلسلے نے اسفل کو اعلیٰ سے مربوط کررکھا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

؎ ۱؎ مصنّف ”گوہر مُراد“(جس میں سے آگے چل کر تفصیلی بحث کروں گا) کہتا ہے کہ جنہیں الہٰیات کی زبان میں ملائکہ کہاجاتا ہے حکمت کی زبان میں وہ قوائے فطرت ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 لیکن انسانی روح وائماً مادے کی زنجیریں اتار پھینکنے کی کوشش کرتی ہے اور آزاد ہوکر وہ خدا کی طرف پرواز کرجاتی ہے جس سے وہ ابتداء آئی تھی۔”بعد میں یہی خیالات مولانا روم نے جن کی صحت عقیدہ پر کسی کو شک نہیں ہوسکتا،اپنی مثنوی میں بیان کیے:۔

از جمادی مُردم ونامی شُدم                            وز نُما مُردم بحیواں سرزوم

مُردم از حیوانی و آدم شُدم                            پس چہ ترسم کی زمردُم کم شوم

حملہ دیگر بمیرم ازبشر                                  آنچہ اندروہم نائد آں شوم

پس عدم گردم عدم چوں ارغنون  گویدم کا نا الیہ راجعون

بزرگ ترین فلاسفہ کندی،فارابی،ابن سینا، ابن باجہ،ابن طفیل اور ابن رُشد تھے۱؎۔

کندی (ابویوسف یعقوب اسحٰق) جسے حکیم الحکماء کا لقب دیا گیاہے۔ کندہ کے مشہور خاندان سے تھا اور اس کے آباواجداد میں عرب کے متعدد بادشاہ تھے اس کا باپ، اسحٰق بن الصّباح،مہدی،ہادی اور ہارون کے ادوارِ حکومت میں کُوفہ کا حاکم تھا۔ کندی نے بصرہ اور بغداد میں تعلیم پائی اور مامون ومعتصم کے زمانوں میں اپنی ہمہ دانی اور تعمق علمی کی بدولت شہرت پائی۔ اس فلسفہ،ریا ضیات،ہئیت،طب،سیاست، موسیقی اور دوسرے مضامین پر کتابیں لکھیں۔ وہ چونکہ یونانیوں،ایرانیوں او رہندوستانیوں کی زبانیں اچھی طرح جاتناتھا اور ان کے علوم وفلسفہ پر عبور رکھتا تھا،مامون نے اس ارسطو اور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ شہرستانی اور بہت سے فلاسفہ کے نام گنواناہے:مثلاً یحییٰ نحوی،ابولضرج مفّسر،ابوسلیمان سنجری،ابوبکر ثابت بن قّرہ،ابوسلیمان محمد مقّدسی،ابوتمام یوسف بن نیشاپوری،بوزید احمد بن سہل البلخی،ابو محارب الحسن بن سہیل بن محارب القمیٰ (Al-Kumi) احمد بن طیّب سرخسی،طلحہ بن محمد نفسی،ابوحامد احمد بن محمد الاسقراری،عیسیٰ بن علی الوزیر،ابوعلی حمد بن مسکویہ،ابوذکر یا یحییٰ بن عدی۔

غالباً ابوزکریا یحییٰ بن عدی التکر یتی المنطقی۔مترجم۔ابوالحسن عامری۔ وہ کسی اُندلسی فلسفی کا نام نہیں لیتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوسرے یونانی مصنّفین کی کتابیں عربی میں ترجمہ کرنے پر مامور کیا۔ منک (Munk) کے قول کے مطابق کارداں (Cardan) اسے چوٹی کے ان بارہ ارباب فعلنت میں شمار کرتاہے سولہویں صدی عیسوی  تک دنیا میں آئے“۔

ابو نصر فارابی (ابونصر محمد بن محمد ترخان الفاء ابی) جو ماوراء النّہر کے شہر فاراب میں پیدا ہوا ایک سربرآ وردہ طبیب طبیعیات دان،ماہر ریاضیات اور فلسفی تھا۔ وہ ارسطو کے شارحین میں سب سے صاحب فضیلت اور دقیقہ سنج شمار کیا جاتاہے۔ اسے حکمران حلب سیف الدولہ علی بن حمدان کی سرپرستی حاصل تھی۔ اس نے دمشق میں اور رجب 339ھ (مطابق دسمبر 950ء) میں وفات پائی۔ ہم اس کی متعدد تصنیفات میں سے چند ایک کا تذکرہ کرتے ہیں کہ یہ ظاہر کریں کہ اس زمانہ کثیر التصنیفی میں ذہن عربی کا رجحان کیا تھا۔ اس تصنیف کے ایک لاطینی خلاصے سے پتہ چلتاہے کہ اس کا دائرہ کتنا وسیع ہے۔ اس کے پانچ حصے ہیں جن میں علم کے مختلف شعبوں سے بحث کی گئی ہے یعنی زبان منطق،ریاضیات،طبیعی سائنس اور سیاسی و معاشرتی اقتصاد۔ فارابی کی ایک اور تصنیف ارسطو کی اور گنن Qrganon کی شرح تھی جس سے روجر بیکن (Roger Bacon) اور البرٹس میگنس (Albertus Magnus)نے بہت سا استفادہ کیا۔ اس کارسالہ ”الجمع بین رأس الحکیمین افلاطون الاٹھی وارسطو طالیس“۔اخلاقیات پر اس کی کتاب ”السیرۃ الفاضلہ“ سیاسیات پراس کی ”السّیاست الُمدنیہ“ جو ایک ضخیم تر اور جامع ترکتاب ”مبادی الموجودات“ کا ایک حصہ ہے۔یہ سب کتابیں اس کے دماغ کی ہمہ گیری کی شاہد ہیں۔ فلسفے اور طب کے علاوہ فارابی نے موسیقی کا بھی مطالعہ کیا اور اسے منضبط علم کی حیثیت بخشی۔ اس نے موسیقی کے نظریے اور فن دونوں پراور ساتھ ہی ساتھ آلات موسیقی کے بتانے پر بہت سے رسالے لکھے۔ ان میں سے ایک رسالے میں اس نے قدماء کے نظامہائے موسیقی کاموازنہ اپنے وقت کے نظام موسیقی سے کیا۔ ابوالقاسم،جو کوئی کم پایہ اہل الّرائے نہ تھا،فارابی کو ابن سینا کاہمسرکہتا ہے۱؎۔

ابن سینا کا ایک طبیب کی حیثیت سے میں پہلے ہی تذکرہ کرچکا ہوں۔ایک فلسفی کی حیثیت سے اس کا مرتبہ کسی طرح ارسطو کے مرتبے سے کم نہیں۔ وہ لاریب اپنے زمانے کا استاد اجل تھا او راس تعصب وخود غرضی نے اس کے خلاف جو ہنگامہ برپا کیا اس کے باوجود وہ بعد میں آنے والے زمانوں کے افکار پر اپنے غیر فانی نقوش چھوڑ گیا۔ اس کی ضخیم او رکثیر التّعداد کتابیں اس کے دماغ کی جامعیت کا ثبوت ہیں ۲؎۔ اس نے ارسطو کے فلسفے کو ایک نظام کی صورت میں مرتب کیا اور ارسطو کی نامکمل نفسیات میں خدا اور انسان کے درمیان جو خلا تھا اسے عقول افلاک کے نظریے سے جسے اس نے سائنسی قاعدے کے مطابق وضع کیا، پرُ کردیا۔ فلاسفہ عربی کا سب سے بڑا مقصد یہ تھا کہ دنیا کی وحدت کائنات کا ایک ایسا نظریہ عطا کریں جو نہ صرف ذہن کی بلکہ شعور دینی کی بھی تسکین کرسکے۔ چنانچہ انہوں نے سائنس کی اخلاقی وروحانی پہلو کو اس کے فلسفیانہ پہلو سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی۔ اسی کوشش کا نتیجہ تھا ان کا نظریہ عقلین۔۔۔۔ یعنی ایک تو عقل منفعل (یانفس مجّردہ) جو صُورِمادّی سے مس رکھتی ہے او راس مس کی بدولت تغّیر پذیر اور فنا پذیر ہے اور دوسری عقل فعّال،جس کا تعلق تغّیر نا پذیر چیزوں سے ہے او راس لیے خود بھی متغّیر نہیں ہوتی۔قلب وروح کی جفا کشانہ ریاضت سے انسان عقل اعلیٰ کا وصال حاصل کرسکتاہے لیکن یہ ریاضت صرف ذہنی ہی نہیں بلکہ روحانی واخلاقی بھی ہونی چاہئے۔ ابن سینا بدرجہ اتم ان خیالات کا نمائندہ تھا۔وہ اپنے زمانے کے فلسفیانہ ولولوں کا صادق ترین اور مخلص ترین ترجمان تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ ملاحظہ کیجئے اس کی ”عیون المسائل“ (ریت ری جی کا ایڈیشن،صفحہ 52) جہاں وہ استخراجی دلائل سے ثابت کرتاہے کہ تکوین ایک عقل کا ملہ کا کام ہے او راس کائنات میں کوئی چیز اتّفاق یا بے مقصد نہیں۔

۲؎ فلسفے اور سائنس پر اس کی جو دو سب سے بڑی تصانیف ہیں،یعنی ”شفا“ اور ”نجات“ وہ اب تک صحیح وسالم موجود ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 اخلاقی سنجیدگی کے معاملے میں ابن سینا کی تعلیمات سے زیادہ رُعب انگیز تحریر مشکل ہی سے دست یاب ہوگی۔ اس کی تمام تصنیفات کا امتیازی وصف یہ ہے کہ وہ جس موضوع پرقلم اٹھاتا ہے اس پر نہایت منطقیانہ طریقے سے بحث و استدالال کرتاہے۔ اس کی تمام کوششوں کا سب سے بڑا مقصد اس نظریے کو ثابت کرناتھا کہ روح انسانی اورسبب اوّل ومطلق کے درمیان ایک گہرا رشتہ ہے۔یہی نظریہ جلاالدین رومی کے ہر شعر سے مترشح ہوتاہے۔

ابن سینا نے اپنی مختلف تصنیفات میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے شہرستانی نے ان کا ایک اجمال لیکن جامع خاکہ پیش کیا ہے۔ یہ بیا ن کرنے کے بعد ابن سینا نے مختلف علوم، منطق اور متجانس مضامین سے کیونکر بحث کی ہے،شہرستانی کہتاہے کہ ابن سینا نے اپنے مابعد الطیبعیاتی نظام کو دس مقالوں میں پیش کیا۔پہلے پانچ مقالوں کے مباحث ہیں علم کی اصل تجربہ،استقراء اور استخراج،مادّہ اور قّوت،علّت ومعلول کا باہمی تعلق،مبادیات وحادثات،کُلیات او رجزئیات چھٹے اور ساتویں مقالے میں وہ یہ ثابت کرتاہے کہ سبب اوّل،یعنی وہ ہستی جس کا وجود اس کی ذات کے سبب سے واجب ہے واحد اورمطلق ہے۔آٹھویں اور نویں مقالے کے موضوع ہیں کائنات کی وحدت اور انسانی روح کا تعلق سبب اوّل سے اور عقل فعّال سے جو سب سے پہلے خلق کی گئی۔آخری مقالے میں وہ آئندہ زندگی یعنی معاد کے مسئلے سے بحث کرتا ہے۔ وہ انسانی روح کی انفرادی دائمیت کااعلان کرتاہے اور کہتاہے کہ جسم مادّی سے علٰیحدہ ہونے کے بعد بھی وہ اپنی انفرادیت کو قائم رکھے گی،لیکن زندگی معاد میں جو خوشی ہوگی یاغم ہوگا اس کی نوعیت روحانی ہوگی اور اس کا دارومدار اس پر ہوگا کہ انسان نے کمال حاصل کرنے کی دماغی،اخلاقی اور روحانی قوتوں کا صحیح یا غلط استعمال کیا ہے۔آخری موضوع کے  ضمن میں وہ اس امر پر استدالال کرتاہے کہ نوع انسانی کو نبوت کی حاجت ہے۔بنی انسانوں کو قوانین الہٰی سمجھاتا ہے اور ایسی تمثیلوں اور قصوں کی مدد سے جو عوام النّاس کی سمجھ میں آسکتے ہیں اور جو ان کے دل کو لگتے ہیں خدا کے اخلاقی احکام کو ان پر واضح کرتاہے۔ نبی لوگوں کو رشک وحسد بُغض و کدورت اور افعال شنیعہ سے باز رکھتا ہے او رمعاشرتی اور اخلاقی نشوونما کی بنیادیں ڈالتا ہے۔حاصل کلام یہ کہ وہ صحیح معنوں میں روئے زمین پرخدا کاپیامبر ہوتا ہے۔

ابوبکر محمد ابن یحییٰ ابن الصائغ،جو عام طور پر ابن باجہ کے نام سے مشہور ہے (جسے یورپی شارحین نے بگاڑ کر ایون پاچے (Aven Pacee) بنادیا اعراب اُندلس کے نامور ترین فلاسفہ میں شمار ہوتاہے۔وہ نہ صرف طبیعیات،ریاضیات اور ہندسہ میں ممتاز تھا بلکہ صفِ اوّل کاماہر موسیقی بھی تھا۔وہ گیارہویں صدی عیسوی کے لگ بھگ سرقسط میں پیدا ہوا۔تذکروں سے معلوم ہوتاہے کہ 1118 ء میں وہ اشبیلیہ میں مقیم تھا۔ بعد میں وہ افریقہ چلا گیا،جہاں وہ مرابطین کے دربار میں کسی اونچے عہدے پر فائز ہوا۔ اس کی رحلت فاس میں 1138ء میں ہوئی۔ اس کی بہت سی تصنیفات بالکل صحیح و سالم ہم تک پہنچی ہیں۔ ان سے معلوم ہوتاہے کہ مسلمانوں کی دماغی کا رروائیوں کا دائرہ کتنا وسیع تھا۔

ابن طفیل (ابوبکر محمد ابن عبدالملک ابن طفیل القیسی) بارہویں صدی عیسوی کے آغاز میں دادی آش میں پیدا ہوا،جو غرناطہ کے صوبے کا ایک چھوٹا سا شہر تھا۔ وہ ایک طبیب،ریاضیات دان، فلسفی اور شاعری کی حیثیت سے مشہور تھا اور الموحد خاندان کے پہلے دو حکمرانوں کے دربار میں ایک معزّز عہدے پر مامور تھا۔

اس نے 1185ء میں مراکش میں وفات پائی۔ وہ فلسفہ عربیہ کے استغراقی مکتب سے تعلق رکھتا ہے جسے اشراقیہ کہتے ہیں او رجو افلاطونیت جدیدہ کی ایک شاخ اور ذوق و شوق کے اعتبار سے متاخرین کے تصوف سے مشابہ ہے،لیکن اس کافلسفہ صوفیانہ وجد پرمبنی نہیں بلکہ ایک ایسے طریقے پر مبنی ہے جس میں وجدان او راستدالال کو یکجا کیا گیاہے اپنی مشہور کتاب”حیّ بن یقطان“ میں اس نے ایک قصے کی صورت میں انسانی عقل وفہم کی تدریحی نشوونما کو بیان کیاہے او ریہ دکھایا ہے کہ ایک انسان میں کس طرح دوسروں کی تعلیم وتربیت کے بغیر ادراک کی قوت خود بخود پیدا ہوجاتی ہے۱؎۔

ابن رُشد۲؎ (ابوالولید محمد ابن احمد،520ھ (مطابق 1126ء) میں قرطبہ میں پیدا ہوا،جہاں اس کا خاندان مدّتوں سے ممتاز چلا آرہا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ ضمیمہ سوم ملاحظہ کیجئے

 

۲؎ Averroes

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کا دادا مُرابطین کے عہد میں سارے اُندلس کا قاضی القضاۃ تھا۔ ابن رُشد اصول فقہ کا چوٹی کا عالم تھا لیکن اس نے زیادہ تر ریاضیات طب اور فلسفے پرتوجہ مبذول کی۔ اسے ابن طفیل کی وساطت سے ابویعقوب یوسف کے دربار میں رسائی حاصل ہوئی جہاں اس کی بہت سی قدردانی کی گئی۔70۔1169ء یں وہ اشبیلیہ کا اور 1182ء میں قرطبہ کا قاضی مقرر ہوا۔ جب یعقوم المنصور موحدّوں کے تخت پر بیٹھا تو چند سالوں تک ابن رُشد کی بہت قدر ومنزلت ہوتی رہی،لیکن اس کے بعد جب بربروں کے تعصب کا رُکا ہوا سیلاب پھوٹ پڑا تو فقیہوں اور ملاّ ؤں کا عتاب سب سے پہلے اس پر نازل ہوا، کیونکہ ایک تو وہ اس کی فلسفیانہ تصانیف کی بناء پر اس سے ناراض تھے اور دوسرے اس کی قابلیت وفضیلت کے باعث اس سے حسد کرتے تھے۔ ابن رُشد کا شمار عرب دنیا کے جلیل ترین علماء وفلاسفہ میں ہوتاہے اور مُنک (Munk) اسے ارسطو کے سب سے عمیق النظر شارحین کے زُمرے میں شامل کرتاہے۔ ابن رُشد کا عقیدہ یہ تھا کہ انسان کی بلندترین مساعی کا مقصد کمال یعنی عقل فعّال کُل کا وصال حاصل کرنا ہوناچاہئے اور یہ کمال صرف اس طرح حاصل ہوسکتاہے کہ انسان مطالعہ اور فکر وتامّل میں مستغرق رہے اور تمام ایسی خواہشات کو ترک کردے جو اس کی روح کی سفلی قوتوں سے اور بالخوص حواس سے تعلق رکھتی ہیں لیکن محض بے مقصد فکر و تامل کافی نہیں۔ اس کا یہ عقیدہ دونوں نے کیاہے ان حقائق کا تجّسس کیا جائے۔ دین ان حقائق کی تعلیم عام فہم زبان میں دیتاہے۔صرف فلسفہ تشریح وتعبیر کے ذریعے دین کی تعلیمات کے حقیقی معنی کو بے نقاب کرسکتا ہے۔ عوام النّاس صرف ان کے لُغوی اور ظاہری معانی کو سمجھ سکتے ہیں۔ جہاں تک مسئلہ تقدیر کا تعلق ہے ا س کا خیال تھا کہ انسان نہ تواپنے اعمال کا کُلّی طور پر مختار ہے اور نہ غیر متغّیر او راٹل احکام کا حلقہ بگوش لیکن وہ یہ کہتا ہے کہ سچائی وسط میں ہوتی ہے (الامربین الامرین) یہ وہی الفاظ ہیں جو ائمہ فاطمیہ نے استعمال کئے اور جن کی تصریح انہوں نے اسی طریقے پر کی۔ اس کے نزدیک ہمارے اعمال کسی حد تک ہمارے ارادے پر دارومدار رکھتے ہیں اور کسی حد تک خارجی اسباب پر۔ ہمیں ا کا اختیار ہے کہ ایک خاص طریقے سے عمل کرنے کی خواہش کریں اور اسی طریقے سے عمل کریں لیکن خارجی اسباب ہمارے ارادے پر حددو دقیودعائد کردیتے ہیں۔یہ اسباب عام قوانین فطری کی بدولت پیداہوتے ہیں اور ان کا تقدم وتاخّر صرف اللہ کو معلوم ہے۔ اسی کو ینیات کی اصطلاح میں قضاد قدر کہتے ہیں۔ ابن رُشد کے سیاسی نظریے ہر طرح کے انسانی جبرو استبداد کی مخالفت پر مبنی تھے۔اس کی رائے میں خلافت راشدہ ایک مثال حکومت او رافلاطون کے خواب کی تعبیر تھی۔ امیر معاویہ نے اُموی ملوکیت قائم کرکے اس خواب کو پریشان کردیا اور اُمت مسلمہ کو ہر قسم کی آفات کا آماجگاہ بنادیا۔ابن رُشد عورتوں کو ہرا عتبار سے مردوں کا ہمسر تصور کرتاتھا اور اس کادعویٰ تھاکہ جنگ،فلسفہ، علم غرض ہر قسم کی کارروائی میں وہ مردوں کا مقابلہ کرسکتی ہیں۔ اس ضمن میں وہ عرب،افریقہ او ریونان کی جنگجو عورتو ں کی مثال پیش کرتاہے۔بالخصوص موسیقی میں ان کے تفّوق کاذکرکرکے وہ نتیجہ نکالتا ہے کہ اگر عورتوں کو وہی حیثیت اور تعلیم وتربیت دی جائے جو مردوں کو حاصل ہوتی ہے تو وہ تمام علوم وفنون میں اپنے شوہروں اور بھائیوں کی برابری کرسکیں گے۔ ان کی پسماندگی کو وہ ان کے محدود دائرہ زندگی کی طرف منسوب کرتاہے۔ ابن رُشد کی تصنیفات میں فلسفہ عرب اپنی معراج کو پہنچ گیا۔ اس کے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان چھ صدیوں کا فاصلہ تھا۔ ان چھ صدیوں کے دوران عربوں کے ذہن نے ہر جہت میں ترقی کی تھی۔ ابن سینا اور ابن رشد جیسے لوگوں نے صدیوں کے جمع شدہ گنجینہ علم ودانش کو اپنے دامن میں سمیٹ کر ان تمام مہمّات مسائل پر غور وفکر کیا جو زمانہ حاضرہ میں انسانی توجہ کامرکز ہیں او رمنطقی صحت وصراحت کے ساتھ اپنے خیالات پیش کئے جو آج کل کے روشن دماغ سے روشن دماغ سائنس دانوں کے خیالات سے بہت تھوڑا اختلاف رکھتے ہیں۔ یہ سب مفکرین اپنے آپ کو مسلمان کہتے تھے او راس زمانے کے بہترین نفوس انہیں مسلمان تسلیم کرتے تھے۔ ابن سینا پر متعصب لوگوں نے یا حاسد دشمنوں نے کُفر کے جو فتوے صاد ر کئے اس نے غصے اور حقارت کے ساتھ ان کی تردید کی۔چنانچہ اسلام کے سب سے بڑے صوفی شعراء میں سے ایک،یعنی سنائی نے،جس میں صحیح العقیدگی اس کے ذاتی دشمنوں کو نگاہوں میں مشکوک تھی لیکن او رکسی کی نگاہوں میں مشکوک نہیں، ”بو علی سینا“ کو ایک مشہورقصیدے میں خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۱؎۔

ابن رُشد نے دین اور فلسفہ کی باہمی مطابقت کے موضوع پرقلم اٹھایا۔ اس کے عزیز دوستوں میں سے ایک یعنی عبدالکبیر،جو ایک انتہائی متّدین شخص تھا،کہتا ہے کہ اس کے دل میں دین فلسفہ کو ایک دوسرے سے ہم آہنگ ثابت کرنے کی زبردست خواہش تھی۲؎۔انصاری اور عبدالولید دونوں کہتے ہیں کہ ابن رُشد اسلام کاوالہ وشیدا تھا۔ اس کا جدید ترین سیرت نگار لکھتا ہے ”ہمیں کوئی چیز یہ تسلیم کرنے سے مانع نہیں کہ ابن رُشد خلوص دل سے اسلام کا معتقد تھا، خاص کر جب ہم اس امر پر غور کریں کہ اس مذہب کے بنیادی ایمانیات جو فوق العادۃ عنصر ہے اس میں کوئی چیز منافی عقل نہیں اور یہ مذہب خالص ترین خدا پرستی (Deism) سے بہت قریب کا تعلق رکھتا ہے۳؎۔“

 

دسویں صدی عیسوی کا آخری حصہ عقلیت اور سائنس کے حق میں نحوست کا زمانہ تھا۔ ابن سینا کا ستارہ ابھی طلوع نہ ہوا تھا کہ کندی وفارابی جیسے اساتذہ عربوں کے آسمان علم پر نمودار ہوچکے تھے اور اسے ہمیشہ کے لیے منور کرکے رخصت ہوچکے تھے۔ اسلامی دنیا کا جو حصہ بھی عبّاسی کے دینی یا دنیوی اقتدار کے زیر سایہ تھا اس میں قد ما پرستی کا دور دورہ تھا جن علمائے معقولات اور فلاسفہ نے مسلمانوں کا نام دنیا کی تاریخ میں روشن کیا تھا، ارباب فقہ نے ان پر کفر وبدعت کے فتوے عائد کردیئے تھے اہل دینیات پر ایک بے حسّانہ،تنگ نظرانہ اور جابرانہ ظاہر پرستی مستولی تھی۔ایک ریاکارانہ عیش پرستی نے امیروں پر اور ایک جاہلانہ تعصّب نے غریبوں پر قبضہ جما رکھا تھا۔ تاریکی روز بروز بڑھتی چلی جارہی تھی اوراسلام کے قدم ڈگمگاتے ہوئے اسی گڑھے کی طرف جارہے تھے جس میں کلیسا ئیت نے مذہب عیسوی کو گرایا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ ملاحظہ ہو ضمیمہ سوم

۲؎ اپنی کتاب ”فصل المقال“ میں ملّر کاایڈیشن،مطبوعہ سیونخ 1859 ء) جس کی بابت کہاجاتاہے کہ وہ الُموحد سلطان یوسف ابن تاشقین کی فرمائش پر لکھی گئی وہ اس ہم آہنگی کو ثابت کرتاہے۔

۳؎ ریناں Averroes-et Averroism-Renan

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شیدائیانِ حق کے لیے یہ مصیبت اور غم کا زمانہ تھا۔ ایسے میں مفکّرین کی ایک چھوٹی سی جماعت نے مسلمانوں کی شمع علم کو روشن رکھنے،عوام کے مزاج میں صحت پیدا کرنے مسلمانوں کو جہالت وتعصّب کے بیابان کی طرف رواں دواں جانے سے روکنے،القصّہ ملّت کے شیرازے کو درہم برہم ہونے سے بچانے کی خاطر ایک انجمن قائم کی۔ اس انجمن کا نام اخوان الصفا تھا۔ یہ انجمن بصرے میں قائم ہوئی، جو خلافت کی تیزی سے مٹتی ہوئی مملکت میں دوسرے درجے کا شہر اور عقلی وفکری سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ اخوان الصّفا میں صرف بے عیب سیرت اور اخلاق حمیدہ رکھنے والے لوگوں کو شمولیت کی اجازت تھی: اس حلقہ خواص میں داخلے کے لیے جو پروانہ راہداری درکار تھا وہ شیفتگی علم اور انسان دوستی تھا۔ اس میں کسی قسم کی علٰیحدگی پسندی یا رمزّیت نہ تھی۔ البتہ حالات وقت کے اقتصاء کے باعث اور اس زمانے میں جو مذہبی و سماجی آمریت کا دور دورہ تھا،اس کے خیال سے اسے اپنی نقل و حرکت کو کسی حد تک پردے میں رکھنا پڑتا تھا۔ اخوان الصفّا خاموشی سے اپنے سربراہ زیدین دفاعہ کے مکان پر جمع ہوتے تھے اور ہر طرح کے فلسفیانہ اور اخلاقی مسائل پر ایسے اے تکلفی اور وسیع المشربی سے تبادلہ خیال کرتے تھے کہ اس کے نظیر ہمارے زمانے میں بھی مشکل سے ملے گی۔ مملکت کے ہر شہر میں اورجہاں کہیں انہیں ایسے ارباب فکر جو ان کے سائنسی طریقے پر عمل کرنے کی خواہش اور قابلت رکھتے تھے انہو ں نے اپنی شاخیں قائم کیں۔ اس انسان دوست او رعلم نواز جماعت کے سرخیل زیدبن رفاعہ کے علاوہ پانچ اشخاص تھے جو اس کے روح رواں تھے۔ ان کا مسلک صحیح او ربہترین معنو ں میں خُذ ما صفا تھا۔ انہوں نے کسی میدان فکر کو رونہ کیا بلکہ ہر گلشن کی گلچینی کی۔ اگرچہ ان کے فلسفیانہ تصورات پر تصوف کاہلکا سا رنگ چڑھا ہوا،تاہم انہوں نے دنیا کو اس زمانے کی معلومات کا ایک خلاصہ متعّدد رسالوں کی صورت ۱؎ میں عطا کیا،جنہیں مجموعی طور پر رسائل اخوان الصفّا د خُلّان الوفا کا نام دیا گیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ ان رسائل کو حاجی نورالدین نے چار جلدوں میں ترتیب دے کر 1305 ھ میں بمبئی سے شائع کیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مخفّفاً ان کاذکر عام طور پر اخوان الصفا کے نام سے کیا جاتاہے۔یہ رسالے مطالعہ انسانی کے ہر موضوع کی محیط ہیں۔ مثلاً ریاضیات،ہئیت، طبیعی جغرافیہ،موسیقی،جرّثقبل،طبیعیات،کیمیائیات،موسمیات،ارضیات (طبقات الارض) حیاتیات،عضویات(علم الابدان)نباتیات،منطق،صرف ونحو،مابعدالطبیعیات،اخلاقیات او رمسئلہ معاد۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ رسالے اس زمانے کے فلسفے اور تمام علوم متدادلہ کی ایک قاموس ہیں۔ حیوانات کے جسم نامی کی قرن بہ قرن نشوونما کے بارے میں دسویں صدی عیسوی کے ان ارتقائیین (Evolutionists) کا جو نظریہ تھا اس کا مقابلہ آج کل کے مقبول عام نظریے سے کیا جائے تو وہ کسی طرح ادنیٰ نہ پایا جائے گا۔بہر حال مجھے ان کی تصنیفات کے سائنسی اورعقلی پہلوؤں سے اتنا سروکار نہیں جتنا ان کے اخلاقی پہلو سے ہے۔اخوان الصفّا کی اخلاقیات کی بنا مطالعہ نفس اور انسانی خیالات کے تزکیہ وتصفیہ پر تھی۔ انہو ں نے ملکہ اخلاقی کو ملکہئ دماغی سے اونچا درجہ دیا۔ جفا کشانہ ریاضت نفس اور ضبط نفس پر مبنی قوّت روحانی کو وہ افضل المحاسن شمار کرتے تھے۱؎۔”عمل کے بغیر عقیدہ، کرنے کے بغیر جاننا عبث ہے،صبر وتحمل،نرمی وشفقت،عدل،رحم،صداقت، فضیلت،ریاکاری، دوسروں کی خاطر ایثار نفس یہ ہیں وہ فضائل جن کی ہر سطر میں تعلیم دی گئی ہے۔منافقت،ریاکاری،دغابازی،رشک وحسد،کبروغرور،ظلم وستم، دروغ گوئی، یہ ہیں وہ رذائل جن کی ہر صفحے پر مذمت کی گئی ہے۔ جذبات کی پاکیزگی انسانوں سے گرمجوش محبت،انسانی ترقی پر راسخ ایمان،عالمگیر عطا واحسان جس نے بے زبان مخلوق کو بھی اپنے آغوش میں لے رکھا ہے، یہ ہیں وہ اوصاف جو تمام رسائل میں شروع سے لے کر اخیر تک رچے ہوئے ہیں ۲؎۔ انسانوں او رحیوانوں کے درمیان جو مناظرہ ہے اس سے بڑھ کر خوبصورت اور کریم النفسی سے مملو عبارت کونسی ہوسکتی ہے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ ملاحظہ ہو رسالہ سوم۔ جلد چہارم

۲؎۔ ملاحظہ ہو رسالہ چہارم۔جلد چہارم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان کافلسفہ اخلاق ان کے بعد کی تمام اخلاقیاتی تحریروں کی اساس ہے۱؎۔ ان کے مذہبی خیالات وہی تھے جو فارابی اور ابن سینا کے تھے، یعنی یہ کہ کائنات ذات باری سے صادر ہوئی لیکن براہ راست صادر نہیں ہوئی۔ سبب مطلق اوّل نے عقل یا ادراک عاملہ کو پیدا کیا، اس سے نفس نفوس پیدا ہوا،پھر اس سے مادّہ اُولیٰ وجود میں آیا جو تمام اشیائے مادّی کا نخزمایہ یا دّہ حیات ہے۔ادرک عاملہ نے اس مادّہ اوّلیٰ کوصورت پذیر کیا اور حرکت بخشی،جس سے افلاک اور سیارے ظہور میں آئے۔ اخوان الصفّان کا فلسفہ اخلاق اس مقّدمے پر مبنی ہے کہ سبب مطلق اوّل اپنی، سفل ترین مخلوق کے ساتھ ایک غیر منقطع سلسلے کے ذریعے مربوط ہے،کیونکہ نفس نفوس جس نے انسانوں کی صورت میں انفرادیت پائی،ہمیشہ اس جدّوجہد میں منہمک رہتاہے کہ پاکیزہ زندگی،ضبط نفس اور ذہبی سرگرمی کی بدولت کمال کی منزل مقصود کو پالے یعنی اپنے منبع ومصدر کی طرف مراجعت کرے۔ یہی وہ معاد ہے جس کی تعلیم ہادیئ اسلام نے دی، یہی وہ سکون اور قرار ہے جس کا وعدہ صحیفہ آسمانی نے کیا۔ یہ تھا اخوان الصفّا کا طریقہ تعلیم۔ ہم ان کی نفسیات کے بارے میں چاہے کوئی رائے قائم کریں، اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ انہوں نے جو اخلاقی تعلیم دی اس سے بلند ترتعلیم اور کسی نے نہیں دی۔ یہ تعلیم ان علمائے دینیات کی تعلیم سے بالکل مختلف تھی جنہوں نے متشدد مستنجد کو اس پر آمادہ کیا کہ اخوان الصفّا کی قامو س العلوم کو بغداد میں نذر آتش کردے۔ کچھ مدّت کے بعد بغداد خود منگولوں کے ہاتھوں نذرآتش ہوگیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ مثلاً ناصرالدین طوسی کی ”اخلاق ناصری“ اور حسین واعظ کا شفی کی ”اخلاق جلال“ اور ”اخلاق محسنی“

۔۔۔۔۔۔۔

Related Article:

The Spirit of Islam Authored by Sayed Ameer Ali: An Introduction- Part 1 سید امیر علی کی تصنیف ،روح اسلام: ایک تعارف

The Spirit Of Islam Authored By Sayed Ameer Ali: Preface – Pre Islamic Social And Religious Conditions Of The World- Part 2 سید امیر علی کی تصنیف ،روح اسلام: مقدمہ ، اسلام سے پہلے اقوام عالم کے مذہبی اور معاشرتی حالات

The Spirit Of Islam: Preface- Social And Religious Conditions Of the Aryans- Part 3 روح اسلام: بعثت اسلام کے وقت آریہ قوم کے مذہبی ومعاشرتی حالات

Sayed Ammer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Preface- Social And Religious Conditions Of Iran Before Islam- Part 4 روح اسلام: اسلام سے قبل ایران کے مذہبی ومعاشرتی حالات

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Preface- Social And Religious Conditions of the World Before Islam- Part 5 روح اسلام: اسلام سے قبل دنیا کے مذہبی ومعاشرتی حالات

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Preface- Social And Religious Conditions of the World Before Islam- Part 6 روح اسلام: اسلام سے قبل دنیا کے مذہبی ومعاشرتی حالات

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Preface- Pre-Islamic Conditions of the Christian World روح اسلام: اسلام سے قبل عیسائی دنیا کی مذہبی حالت

 Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit of Islam’: Preface- Pre-Islamic Conditions of the Christian World-Part 8 روح اسلام: اسلام سے قبل عیسائی دنیا کی مذہبی اور سماجی حالت

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Preface- Pre-Islamic Conditions of the Arabs-Part 9 روح اسلام: اسلام سے قبل عیسائی دنیا کی مذہبی اور سماجی حالت

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit of Islam’: Preface- Pre-Islamic Conditions of the Arabs-Part 10 روح اسلام: ماقبل اسلام عرب کی مذہبی اور سماجی حالت 

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 1- The Messenger of Allah -Part 11 روح اسلام: پہلا باب پیغمبر اسلام کی ابتدائی زندگی

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 1- The Prophet’s Life and Prophet-hood -Part 12 روح اسلام: رسول اللہ کی زندگی اور رسالت

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit of Islam’: Chapter 1- The Revelation of the Quran and Declaration of Prophethood -Part 13 روح اسلام:نزول وحی کی ابتدا اور اعلان نبوت

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 1- The Life of The Prophet and His Companions In Early Days of Islam -Part 14 روح اسلام: مکی دور میں رسول اللہ اور صحابہ کی زندگی

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 1- The Life of The Prophet and His Companions In Early Days of Islam -Part 15 روح اسلام: مکی دور میں رسول اللہ اور صحابہ کی زندگی

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 2- The Prophet’s Migration Towards Madina Part 16 روح اسلام : دوسرا باب: مدینہ کی طرف رسول اللہ کی ہجرت

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 3- The Prophet’s Life in Madina Part 17 روح اسلام : تیسرا باب: رسول اللہ کی زندگی مدینہ میں

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 4- Enmity Between Quraish and Jews-Part 18 روح اسلام : چوتھا باب ،قریش اور یہود کی دشمنی

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 5- The Attack of Quraish on Madina-Part 19 روح اسلام : پانچواں باب ، قریش کا مدینے پر حملہ

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 5- The Attack of Quraish on Madina-Part 20 روح اسلام : پانچواں باب ، قریش کا مدینے پر حملہ

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 6- Mercifulness and Kindness of the Prophet Muhammad pbuh-Part 21 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام : چھٹاباب، آنحضرتؐ کی رحم دلی

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 7, The Spread of Islam - Part 22 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، ساتواں باب ، اشاعت اسلام

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 8, The year of delegates - Part 23 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، آٹھواں باب ، عام الوفود

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 9, The Perfection of Muhammad’s Prophethood - Part 24 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، نواں باب ، رسالت محمدیؐ کی تکمیل

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Vol. 1, Final Chapter 10, The Subject of Caliphate - Part 25 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، دسواں باب، مسئلہ خلافت

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Vol. 2, Chapter 1, The ideal goal of Islam - Part 26 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، دوسرا حصہ، پہلا باب، اسلام کامثالی نصب العین

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Vol. 2, Chapter 2, The religious spirit of Islam - Part 27 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، دوسرا حصہ، دوسرا باب، اسلام کی مذہبی روح

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Vol. 2, Chapter 3, The concept of life after death in Islam - Part 28 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، دوسرا حصہ، تیسرا باب، اسلام میں حیات بعد الممات کاتصور

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Vol. 2, Chapter 4, The Preaching jihad of Islam- Part 29 سید امیرعلی کی کتاب روح اسلام، دوسرا حصہ،چوتھا باب، اسلام کا تبلیغی جہاد

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Vol. 2, Chapter 5, The status of women in Islam - Part 30 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، دوسرا حصہ، پانچوا ں باب ،اسلام میں عورتوں کی حیثیت

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Vol. 2, Chapter 6, The slavery - Part 31 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، دوسرا حصہ، چھٹا باب، غلامی

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Vol. 2, Chapter 7, The Political Spirit of Islam - Part 32 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، دوسرا حصہ، ساتواں باب، اسلام کی سیاسی روح

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Vol. 2, Chapter 8, The Political sectarianism - Part 33 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، دوسرا حصہ، آٹھوا باب، سیاسی فرقہ بندیاں

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Vol. 2, Chapter 8, The Political sectarianism - Part 34 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، دوسرا حصہ، آٹھوا باب، سیاسی فرقہ بندیاں

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Vol. 2, Chapter 9, The Literary and Scientific Spirit of Islam - Part 35 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، دوسرا حصہ، نواں باب ،اسلام کی ادبی وسائنسی روح

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Vol. 2, Chapter 9, The Literary and Scientific Spirit of Islam - Part 36 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، دوسرا حصہ، نواں باب ،اسلام کی ادبی وسائنسی روح

URL: https://www.newageislam.com/books-documents/syed-ameer-ali-spirit-islam-part-37/d/124978

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..