سید امیر علی
(قسط 24 )
22 مئی 2021
اذا جآء نصرُاللہ
والفتح ورایت النّاس یدخلون فی دین اللہ
افواجا فسبّح بحمد ربّک واستغفرہ انّہ کان توّابا
10ھ اپریل 631ء تا 29 مارچ 632ء:۔ پچھلے سال کی طرح اس ۱؎ سال بھی عرب کے مختلف
حصوں سے قبیلوں او ران کے سرداروں کی اطاعت کا پیغام لے کر متعدد وفود بارگاہ
نبویؐ میں حاضر ہوئے۔ آپؐجن معلّمین کو مختلف علاقوں میں بھیجتے انہیں ہمیشہ ذیل
کی ہدایات دیتے:”لوگوں کے ساتھ نرمی سے پیش آنااو رکبھی ان پرسختی نہ کرنا، انہیں
بشارت دینا اور وحشت زدہ نہ کرنا۔تمہیں بہت سے ایسے ۲؎ اہل کتاب ملیں گے کہ
آسمان کی کلید کیا ہے انہیں یہی جواب دینا کہ آسمان کی کلید حق کی شہادت دینا او
رنیک کام کرنا ہے۳؎۔“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ 10ھ میں یمن او ر حجاز کے باقیماندہ قبائل نے
اسلام قبول کیا۔ اس کے بعد حضر مرت اور کندہ کے قبائل مشرف بہ اسلام ہوئے۔
۲؎ عیسائی،یہودی اور زرتشی۔
۳؎ ابن ہشام۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب آنحضرتؐ کی رسالت پایہ
تکمیل کو پہنچ چکی تھی۔ جاہلیت و بربریت میں ڈوبی ہوئی ایک قوم میں ایک بنی مبعوث
ہوا تھا”جو ان کو اللہ کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے،انہیں بُری باتوں سے پاک کرتا ہے
اور کتاب و حکمت کی باتیں سکھاتا ہے، ان لوگوں کوجو اس سے پہلے مکمل تاریکی میں
تھے۱؎“۔اس
نے انہیں ذلّت،خونخواری اور وہم پرستی میں غرق پایا اور ان کے سینوں میں ایک سچے
او رمحبت کرنے والے خدائے واحد پر ایمان پیدا کیا۔ اس نے انہیں متفرق و منتشر اور
ایک دوسرے کے خلاف جنگ وجدل میں مصروف پایا۔ او رانہیں اخوت و مرّوت کے رشتے میں
پرودیا۔ قدیم الایام سے جزیرہ نمائے عرب پر مکمل اخلاقی ظلمت طاری تھی روحانیت کا
شائیہ تک موجود نہ تھا۔ نہ یہودیت اور نہ عیسائیت عربوں کے دل و دماغ پر کوئی دیر
پا نقوش ثبت کرسکی تھی۔عرب تو ہم پرستی، جفا پیشگی اور بدکاری میں ڈوبے ہوئے تھے۔
محرکات سے نکاح او ربیٹیوں کو قتل کرنے کا شیطانی دستور عام تھا۔ سب سے بڑا بیٹا
باپ کی دوسری جائیداد کے ساتھ اس کی بیواؤں کو بھی ورثہ میں پاتا تھا۔ انسانیت سے
گرے ہوئے باپ اپنی نوزائیدہ بچیوں کو زندہ گاڑ دیتے تھے،اور یہ جرم، جو قبائل قریش
و کندہ میں خاص طور پر رائج تھا، اسی طرح مایہئ فخر سمجھا جاتا تھا جس طرح ہندو
راجپوتوں کے ہاں سمجھاجاتاتھا۔ حیات بعد المات او رنیکی و بدی کی جزا وسزا کا
تصّور انسانی عمل کے محرکات کی حیثیت سے مفقود تھا۔ یہ تھی عرب کی حالت چند سال
پیشتر۔ان چند سالوں میں کیسی زبردست تبدیلی ہوئی تھی۔ یقینا فرشتہئ سمادی اس زمین
کے اوپر سے گذر گیا تھا اور ان لوگوں کے دلوں میں، جو نیم بربریت کی کراہت انگیز رسموں میں مبتلا تھے، ہم
آہنگی او رمحبت کی روح پھونک گیا تھا۔ وہی سرزمین جو کسی زمانہ میں اخلاقی نقطہئ
نگاہ سے ایک لق دو ق بیانان تھی، جہاں خدا اور انسان کے تمام قوانین کی بے محا
باخلاف ورزی کی جاتی تھی، اب تمدن و شائستگی کاگلستان بن گئی تھی۔ بُت پرستی اب
اپنی بے شمار قباحتوں کے ساتھ نیست و نابود ہوچکی تھی۔ بڑے مذاہب میں اسلام واحد
مذہب ہے جس کی ابتدائی تبلیغ ایک ایسی قوم میں ہوئی اور جس نے زیادہ تر ایک ایسی
قوم پر حکومت کی جو ابھی تک بدو تہذیب کے جھٹپٹے میں بھٹک رہی تھی لیکن اس کے
باوجود اس نے مؤثر طور پر اپنے پیروؤں کو بُت پرستی سے روک دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
سورہ الجمعہ۔2
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بجا طور پر نادرالشہود
واقعے کو اسلام کی شاندار ترین کامیابی اور اس کے بانی کی حکمت وفطانت کا بیّن
ترین ثبوت تسلیم کیا گیا ہے۔ ایک مدت مدید سے یہودیت اورعیسائیت عرب قبائل کو ان
کے مکروہ توہمّات ان کی انسانیت سوز رسوم او ران کی بے لگام ہوس رانی سے باز رکھنے
کی کوششیں کررہی تھیں۔ لیکن جب تک انہوں نے اس معبوث من اللہ بنی کے ”روح میں
ہیجان پیدا کرنے والے نغمے“ نہ سنے اس وقت تک ان کے ذہنوں میں خدا ئے برحق کا شعور
پیدا نہ ہوا، جو ساری کائنات کواپنے حیطہئ قدرت و محبت میں لیے ہوئے ہے، اس دنیا
کی تمام چیزوں سے بلند تر،پاکیزہ اور مقّدس تر، جو انہیں عطا واحسان،نیکو کاری،
انصاف اور ہمہ گیر محبت کی طرف دعوت دے رہی ہے۔ خدا صرف امر وز وفردا کا خدا نہیں،
یعنی محبت کرنے والا اور رحیم و حمٰن آفرید گار ہے۔ آنحضرتؐ اس لئی بے داری کا
مصدر و منبع تھے، یعنی ان لوگوں کی حیات ابدی کی امیدوں کا سرچشمہ اوروہ اس سرچشمے
سے سیراب ہونے کے متمنی تھے۔ اب ان کی صرف ایک ہی آرزو تھی، وہ یہ کہ خلوص اور
پاکیزگی سے خدا کی بندگی کریں اور زندگی کے تمام معاملات میں اس کے احکام کو
بجالائیں۔ وہ حقائق، وہ نکات حکمت، وہ نصائح و احکام جن کے ذریعے گزشتہ بیس سالوں
میں آنحضرتؐ وقتاً فوقتاً اپنے پیروؤں کو ہدایت کرتے رہے تھے، سب ان کے دلوں پر
نقش کا لحجر ہوچکے تھے اور ان کا لائحہ عمل بن چکے تھے قانون او راخلاق متحد ہوچکے
تھے۔“ اس زمانے سے لے کر جب ابتدائی عیسائیت نے سوئی ہوئی دنیا کو یکدم بیدار
کردیا او رکُفر کے خلاف ایک ہلاکت آفریں لڑائی لڑیں، روحانی، زندگی کی ایسی بیداری
دیکھنے میں نہ آئی تھی، یعنی ایسا ایمان جو اُف کئے بغیر قربانیاں برداشت کرتاتھا
اور ضمیر کی خاطر دنیوی مال و متال کی بربادی قبول کرتا تھا۱؎۔“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ میور۔ اسلام کے ایک علانیہ دشمن کا یہ بیان بڑی
قدروقیمت رکھتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب آپ کا فریضہئ رسالت
تکمیل کو پہنچ چکا تھا۔ یہ امر کہ آپؐ کا تمام کام آپؐ کی زندگی ہی میں مکمل ہوگیا
آپؐ کو دوسرے زمانوں اور ملکوں کے پیغمبروں، حکیموں اور فلسفوں پر ایک امتیازی تفوق
بخشتا ہے۔ حضرت عیسیٰؑ، حضرت موسیٰؑ، زرتشت،ساکیہ منی او رافلاطون،ہر ایک کے خدا
کی حاکمیت او راپنی جمہوریتوں کے متعلق اپنے اپنے تصورات تھے، جن کے ذریعے و ہ
پستی میں گری ہوئی انسانیت کو اخلاقی زندگی کی ایک نئی بلندی پر لے جاکر دینا
چاہتے تھے،لیکن وہ سب کے سب اپنی آرزو میں پوری کئے بغیر اور اپنے درخشاں خوابوں
کی تعبیر دیکھے بغیر دنیا سے رخصت ہوگئے تھے یا اپنے ہم جنسوں کی اصلاح کا کام خون
آشام متبعین او رتاجدار شاگردوں پر چھوڑ گئے۱؎۔ یہ صرف حضرت محمد صلی
اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص طور پر مقدر تھا کہ آپؐ ہی کی قسمت میں تھا کہ نوع
انسانی کی اصلاح کا کاختم کرکے جائیں:کوئی تاجدار پیرو فرامین شاہی کے ذریعے آپؐ
کی تعلیمات کونافذ کرانے نہ آیا۔ کیا مسلمان یہ کہنے میں حق بجانب نہیں کہ یہ سب
کام خود خدانے انجام دیا۔؟
آپؐ کی زندگی ایک گراں
قدر کام کے بعنوان احسن انجام دینے کی بہترین سرگزشت ہے۔ آپؐ نے ایک مردہ وافسردہ
قوم میں زندگی کی روح پھونک دی۔ آپؐ نے باہم برسرپرخاموش قبیلوں کے مجموعہ متضرقات
کو وحدت بخش کر ایک ایسی قوم بنادیا جس کا محّرم عمل حیات ابدی کی امید تھی روشنی
کی جو منتشر شعائیں اس وقت ایک علیٰحدہ علیٰحدہ دل انسانی پر پڑی تھیں انہیں لے کر
آپؐ نے ایک نقطہئ ماسکہ پر مرکوز کردیا۔ یہ تھا آپؐ کا کارنامہ اور آپؐ نے اسے ایک
ایسے ذوق و شوق اور جوش و خر وش سے انجام دیا جو مخالف قوتوں سے کسی قسم کی مصالحت
قبول نہ کرتا تھا اور جس کے لیے کسی ایک مقام پر پہنچ کر ساکن ہوجانابعید از تصّور
تھا، ایک ایسی ہمّت مردانہ سے انجام دیا جو کسی قسم کی رکاوٹ کو خاطر میں نہ لاتی
تھی اور جو خوف تنائج سے بالکل بری تھی ایک ایسی وحدت مقصدسے انجام دیا جس میں
اپنی ذات کے خیال کی کوئی گنجائش نہ تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ بنی اسرائیل میں یسوع،بدھوں میں اشوک، زرتشتیوں
میں دارپوش اور عیسائیوں میں قسطنطین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وحدت الہٰی کا وہ دین جس
کی تعلیم گلیل کے کنارے دی گئی تھی مسخ ہوکر ایک ایسے خدا کی پرستش میں تبدیل
ہوچکا تھا جو گوشت و پوشت میں مجسّم تھا، اور جو لوگ معلّم ناصری کے دین کا اقرار
باللّسان کرتے تھے، ان کے یہاں ایک دیوی کی قدیم پوجا ازسر نو رائج ہوچکی
تھی۔معتکف حرا، وہ حکیم اُمّی جو ایک کٹرّ بُت پرستوں کی قوم میں پیدا ہوا ان
قوموں کے دلوں پر جنہوں نے اس کی آواز ایک بار بھی سنی خدا کی وحدانیت اورانسانی
مساوات کا ان مٹ نقش ثبت کر گیا۔ آوازہئ جمہور کی وہ گرج جو اس کے گلے سے نکلی
پروہتو ں اوربادشاہوں کے استبداد کے خلاف عقل انسانی کی بغاو ت کا نقّارہ تھی۔
متخاصم مذاہب اور مستبدانہ اداروں کے اس زمانے میں جب روح انسانی بعیداز فہم
اذعانی عقائد کے بوجھ تلے پس رہی تھی او رجسم انسانی اجارہ دارانہ مفادات کی
ایڑیوں تلے کچلا جارہاتھا،اس نے ذات پات او رامتیازی مراعات کی حدود فاصل کو توڑ
کر رکھ دیا۔ ذاتی مفادات نے خدا او رانسان کے درمیان جو مورچے باندھ رکھے تھے اس
نے انہیں ایک پھونک سے تارِ عنکبوت کی طرح اُڑ ادیا، او رعبد و معبود کے باہمی
تعلقات کے بارے میں تمام اجارہ داریاں ختم کردیں۔ اس اُمّی نبی نے،جو جمہور نوع
بشر کے نام پیغام لے کر آیا تھا، علم و دانش کی قدر ومنزلت کااعلان کیا۔ اس نے
اعلان کیا کہ قلم کے ذریعے انسان کے کارنامے محفوظ رکھے جاتے ہیں۔ قلم ہی کے ذریعے
اس کامحاکمہ کیا جاتا ہے اور قلم ہی خدا کی نگاہوں میں اعمال انسانی کا آخری منصف
ہے۔ اس نے انسان کی عقل او راس کی اخلاقی قوّت ممزہ سے کام لینے کی جو تاکید کی،اس
کا معجزو ں سے انکار اس کا حکومت الہٰی کے بارے میں کا ملاً جمہوری تصّور،اس کے
مذہبی مطمح نظر کی عالمگیری،اس کی انسانیت نواز شریعت،یہ سب چیزیں اسے اپنے
پیشروؤں سے ممتاز اور عبر جدید سے ملحق کرتی ہیں ۱؎۔اس کی زندگی اور اس کے
کام کسی پردہئ اسرار میں مکتوم نہیں۔ اس کی شخصیت کے گرد جِنّ پَری کی کہانیوں کا
کوئی جال نہیں بنا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ کتاب Oriental
Religions
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب عرب کے لوگ جوق درجوق
آکر داخل اسلام ہوگئے تو آنحضرتؐ نے محسوس کیا کہ آپؐکا کام پایہئ تکمیل کو پہنچ
چکا ہے ۱؎۔اور
اس خیال سے کہ آپؐ کی حیات دنیوی قریب الاختتام ہے آپؐ نے الوداعی زیارت کعبہ
کاارادہ فرمایا۔25 ذولقعدہ (23فروری 632ء) کے دن آنحضرتؐ مسلمانوں کی ایک کثیر
جماعت کے ساتھ۲؎
مدینہ سے روانہ ہوئے۔مکّے پہنچ کر مناسک حج ادا کرنے سے پہلے،آپؐ نے جبل العرفات
کی چوٹی پر سے ایک خطبہ ارشاد فرمایا(8ذولحجہ،7مارچ)جو ابدالآباد تک مسلمانوں کے
دل سے محو نہ ہوگا۔
”اے لوگو! میں جو کچھ کہو ں اسے غور سے سنو، شائد آئندہ سال اور اس
کے بعد پھر کبھی یہاں تم لوگوں سے میری ملاقات نہ ہوسکے۔“
”اے لوگو! تم پر ایک دوسرے کی جان ومال تابہ قیامت اسی طرح حرام ہے
جس طرح یہ دن اس مہینے میں او راس شہر میں حرام (قابل احترام) ہے، تمہیں عنقریب
خدا کے حضور حاضر ہونا ہے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کا حساب طلب کرے گا۔۔۔۔۔۔ اے
لوگو! تمہارے عورتوں پر او رعورتوں کے تم پر کچھ حقوق ہیں۔۔۔ ان کے ساتھ محبت
ومہربانی سے پیش آؤ کیونکہ تم نے انہیں خدا کی ضمانت پر بیوی بنایا ہے اور خدا کے
کلام سے ان کا جسم اپنے اوپر حلال کیا ہے۔“ ”اپنی امانتوں میں دیانت دار رہو اور
گناہ سے بچو!“
”آج سے ہر قسم کا سودختم کیا جاتا ہے۳؎۔ مقروض پر اصل کے سوا
کچھ واجب الادانہیں اور سب سے پہلے اپنے چچا عباس بن مطلب کا جو سود دوسری کے ذمہ
واجب الادا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
سورہ نصر۔
۲؎ ابن ہشام،ابن الاثیر، مذکور ہے کہ نوے ہزار اور
ایک لاکھ چالیس ہزار کے درمیان حاجی آپؐ کی معیت میں گئے۔ اس حج کو تین ناموں سے
یاد کیا جاتا ہے: حجۃ الاسلام، حجۃ الوداع۔
۳؎ رباء یعنی جنس کی صورت میں سود ممنوع قرار دیا
گیا۔ لیکن کاروباری یا تجارتی مقاصد کے لیے دیئے ہوئے قرضوں پر واجب نفع منع نہ
تھا۔ جو لوگ اس سے واقف ہیں کہ عرب کے اقتصادی حالات کیا تھے۔ وہ اس قاعدے کی حکمت
دوانائی کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ جن اسباب کے پیش نظر پیغمبرؐاسلام نے اپنے ملک
میں سود خوری کی ممانعت کی انہیں اسباب کی بناء پر عیسائی علمائے دینیات سترھویں
صدی کے آخر تک سود خواروں پر لعنتیں بھیجا کرتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے باطل کرتا ہوں ۱؎۔۔۔۔۔“ ”جاہلیت کے تمام
انتقام خون موقوف کردیئے گئے۔ سب سے پہلے میں اپنے خاندان کے ربیعہ۲؎ بن حارث بن عبدالمطلب
کا خون معاف کرتا ہوں۔۔۔۔“
”تمہارے غلام! تمہارے غلام! جو خود کھاؤ وہی ان کو کھلاؤ جو خود
پہنووہی ان کو پہناؤ، اور اگر ان سے کوئی ایسا قصور ہوجائے تو تم معاف نہ کرسکو تو
انہیں جدا کردو، کیونکہ وہ بھی اسی خدا کے بندے ہیں اور ان پر ظلم کرنا روا نہیں۔“
”اے لوگو! میری بات گوش ہوش سے سنو۔جان رکھو کہ ہر مسلمان دوسرے
مسلمان کا بھائی ہے اور اس رشتے کی وجہ سے کسی مسلمان کو دوسرے مسلمان بھائی کی
کسی شے پر اس کی اجازت کے بغیر تصرف جائز نہیں۔ورنہ یہ ایک دوسرے پر ظلم ہوگا۔“
”جو لوگ اس وقت یہاں موجود ہیں وہ یہ باتیں ان لوگوں کو سنادیں جو
یہاں موجود نہیں۔ ممکن ہے کہ وہ لوگ جنہیں یہ باتیں بتائی جائیں، ان لوگوں سے بہتر
انہیں یاد رکھیں جنہوں نے اپنے کانوں سنیں ۳؎“۔
اس خطبے میں تو اتنی
شاعری ہے نہ اتنا تصّوف جتنا حضرت عیسیٰؑ کے پہاڑی خطبے میں تھا، لیکن اس میں نہ
صرف ایسی عملی دانشمندی ہے جو اعلیٰ طبائع کو پسند آتی ہے بلکہ ادنیٰ اطبائع کی
صلاحیتو ں اور تقاضوں سے مطابقت بھی ہے،جنہیں اخلاقی رہنمائی کے لیے مثبت او رمکمل
ہدایات کی ضرورت ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت عباسؓ صاحب ثروت
تھے۔ رِبا او رخون کے بدلے خون کے خلاف قانون کا نفاذ کرتے وقت آنحضرتؐ نے اپنی
مغلوب الغصّب قوم کو اپنے افراد خاندان کے ایثار کی عملی مثال پیش کی۔
۲؎ ابن ربیعہ،آنحضرتؐ کے عم زاد بھائی بچپن ہی میں
غور و پرداخت کے لیے بنی لیث کے خاندان کو سونپ دیئے گئے تھے۔ انہیں بنی ہذیل کے
کچھ لوگوں نے بڑی بیدردی سے قتل کردیا تھا، لیکن اس قتل کابدلہ ابھی تک نہ لیا گیا
تھا۔
۳؎
ہر جملہ کے بعد آنحضرتؐ توقف فرماتے اور ربیعہ بن اُمیّہ بن خلف باواز بلند آپؐ کے
الفاظ کا اعادہ کرتے،تاکہ مجمع کے سب لوگ ساری باتیں پوری طرح سن لیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوگوں نے جس ذوق وشوق سے
آپؐ کے ارشادات کو سنا اس سے آپؐ اس قدر متاثر ہوئے کہ خطبے کے اختتام پر آپؐ نے
فرمایا:”یا خدا! میں نے اپناپیغام پہنچا دیا اوراپنا کام پوراکردیا! مجمع بیک آواز
پکاراٹھا ”ہاں“! آپؐ نے اپنا کام پورا کردیا۔“ اس پر آپؐ نے فرمایا، ”اے خدا!
توگواہ رہنا!“ ان الفاظ کے ساتھ آنحضرتؐ نے اپنا خطبہ ختم فرمایا، جو روایات کے
مطابق طوالت، فصاحت و بلاغت او رجوش وخروش میں آپ اپنی مثال تھا۔ مناسک حج ادا
کرنے کے بعد آپؐ اپنے متبعین کے ہمراہ مدینے واپس آگئے۱؎۔
11ھ۔29 مارچ 632ء تا 18مارچ 633ء:۔آنحضرتؐ کی زندگی کا آخری سال
مدینے میں گزرا۔ جو علاقے اور قبیلے اسلام قبول کر کے اسلامی مملکت کے حصے بن چکے
تھے آپؐ نے انہیں منظم کیا۔ اگرچہ شام و عراق کے زیادہ تر عرب ابھی تک عیسائی تھے،
لیکن تمام عرب داخل اسلام ہوچکا تھا۔مختلف صوبوں اور قبیلوں میں فرائض اسلام کی
تعلیم دینے، عدالت کرنے اور جزیہ وصول کرنے کے لیے حکام بھیجے گئے۔معاذ ابن جبل
یمن بھیجے گئے او رانہیں رخصت کرتے وقت آنحضرتؐ نے یہ ہدایت کی کہ نظم و نسق کے
معاملات میں اگر انہیں قرآن سے سندنہ ملے۲؎ تو اپنی ذاتی رائے پر اعتماد کریں۔ حضرت
علیؓ کو یمامہ بھیجتے ہوئے آپؐ نے فرمایا۔”جب لوگ کوئی معاملہ لے کر تمہارے پاس
آئیں تو فریقین کی بات سنے بغیر فیصلہ نہ کرنا۔“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ عبداللہ بن ابیّ سرغنہ منافقین نے ذوالقعدہ
(فروری 631ء) میں انتقال کی۔مرتے وقت اس نے آنحضرتؐ سے دعائے مغفرت کی درخواست کی۔
آنحضرتؐ کسی قریب یمرگ شخض کی درخواست روز کیا کرتے تھے۔ اگرچہ حضرت عمر ؓ نے آپ
کو عبداللہ کی مخالفت اور افترا طرازی یاددلائی۔پھر بھی آپ نے اس کے حق میں دعا
مانگی اور اپنے ہاتھوں سے اسے قبر میں اتارا۔
۲؎
حدیث معاذ میں قرآن کیساتھ سنت کا لفظ بھی ہے۔دیکھئے:ترمذی ابواداؤد اور
دارمی۔۔باب الاقضیہ۔(ادارہ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسامہ بن زیدؓ کی سرکردگی
میں اس مقصد سے باز نطینینوں کے خلاف ایک مہم بھیجنے کی تیاریاں کی گئیں کہ شام
میں مسلم سفیر کے قتل کا خون بہا جو ایک مدّت سے واجب الوصول چلا آرہا تھا،وصول
کیا جائے۔فوج شہر کے باہر خیمے میں کوچ کے لیے تیار کھڑی تھی۔ لیکن خیبر میں ایک
یہودن نے آنحضرتؐ کو جوزہر دیا تھا اور جو آہستہ آہستہ جسم میں سرایت کر گیا تھا، اس
کے اثرات اب ظاہر ہونے لگے اور یہ دکھائی دینے لگا کہ اب آپؐ کی زندگی کے زیادہ دن
باقی نہیں۔ اس لیے مہم کو روک دیا گیا۔ آپؐ کی علالت کی خبر سے دور افتادہ صوبوں
بدنظمی بھی پیدا ہوگئی۔نبوت کے تین جھوٹے دعویدار اُٹھ کھڑے ہوئے تاکہ نبوت کا
سوانگ رچا کر اور غارت کروں گا دور دورہ قائم کریں۔ انہوں نے اپنے قبیلوں کی حمایت
حاصل کرنے کے لئے طرح طرح کی جعلسازیوں سے کام لیا۔ ان میں سب سے زیادہ خطرناک
اَلاَسود بن کعب تھا، وہ یمن کا سردار تھا، امیر کبیر،چالاک ہوشیار اور شعبدہ بازی
میں طاق۔سادہ لوح قبائلیوں نے اس کے شعبدوں کو معجز سے سمجھا او راس کی اطاعت قبول
کرلی۔ چنانچہ وہ ان کی مدد سے گردونواح کے کئی شہر فتح کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ اس
نے شہر کو قتل کردیا جسے آنحضرتؐ نے اس کے باپ بازان کی جگہ، جس کی موت انہی دنوں
میں واقع ہوئی تھی۔ صنعا کاحاکم مقرر کیا تھا۔ بازان خسرو انِ ایران کے ماتحت میں
کاوائسرائے تھا اور قبول اسلام کے بعد آنحضرتؐ نے اسے اس عہدے پر قائم رہنے دیا
تھا۔اپنی زندگی میں اسے نہ صرف ان ایرانیوں پر جومین میں آباد تھے اور ابنا کہلاتے
تھے بلکہ وہاں کے عربوں پر بھی بہت اثر ورسوخ حاصل رہا تھا،چنانچہ اس کی مثال کی تقلید
میں یمن کے تمام ایرانی داخل اسلام ہوگئے تھے۔جعلساز سود نے شہر کو قتل کرکے اس کی
بیوہ مرزبانہ سے جبراًشادی کر لی تھی۔ ایک رات جب وہ رنگ رلیاں منانے کے بعد شراب
کے نشے میں دُھت پڑا تھا ابنا نے اسے مرزبانہ کی مدد سے قتل کردیا۔ باقی دو مدعیان
نبوت، طلیحہ بن خویلد اور ابوثمامہ حران بن حبیب معروف بہ مسیلمہ کی سرکوبی حضرت
ابوبکرؓ کے مسند نشین خلافت ہونے کے بعدہوئی۔ مسیلمہ نے آنحضرتؐ کو ذیل کاخط لکھنے
کی جسار ت کی:۔
”خداکے رسولؐ مسیلمہ کی طرف سے خدا کے رسول محمدؐ پرسلام! میں
تمہارا شریک کار ہوں اقتدار ہم دونوں میں تقسیم ہوجاناچاہئے۔آ دھی مملکت میری ہو
اور آدھی تمہاری۔ لیکن قریش خاصب لوگ ہیں اور انصاف کے عادی نہیں۔“ آنحضرتؐ نے جو
جواب دیا وہ آپؐ کے علوِ طبع نامظہر ہے۔
”خدائے رحمٰن ورحیم کے نام پر محمد رسول ؐاللہ کی طرف سے مسیلمہ کذاب کی طرف۔سلام
ہو ان پر جو سیدھا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ زمین خدا کی ہے، وہ اپنے بندوں میں سے
جسے چاہتا ہے اسے عطا کرتاہے۔ فلاحِ آخرت صرف اہل تقویٰ کے لیے ہے۔“
آنحض رتؐ نے اپنے آخری
ایّام ایک نمایاں سکون خاطر او راطمینان قلب سے گزارے،جس کی بدولت آپؐ ضعف و نقاہت
کے باوجود وفات سے تین دن قبل تک نماز کی امامت کرتے رہے۔ ایک روز آدھی رات کے وقت
آپؐ جنت البقیع میں،جو آپؐ کے بہت سے پُرانے رفقاء کی آخری آرام گاہ تھی،تشریف لے
گئے اور رورو کر ان کے لیے دعائے مغفرت مانگتے رہے۔علالت کے دوران قیام کے لیے آپؐ
نے حضرت عائشہؓ کا مکان انتخاب کیا،جو مسجد سے متصل تھا۔ اورجب تک آپؐ میں تاب و
تواں باقی رہی آپؐ جماعت کے ساتھ شریک نماز ہوتے رہے۔ جب آپؐ آخری مرتبہ مسجد میں
تشریف لے گئے تو آپؐ کے عم زاد بھائی حضرت علیؓ اور حضرت فضل بن عباس ؓ آپؐ کو
سہارا دیئے ہوئے تھے۔ جو لوگ آپؐ کے آس پاس تھے ان سب نے دیکھا کہ آپ کے چہرے پر
اایک پُرسکون تبسم ہے۔ حمد وثنائے الہٰی کے بعدآپؐ نے مجمع سے یوں خطاب کیا:۔
”مسلمانو! اگر میں نے تم میں سے کسی پر کوئی زیادتی کی ہے تو میں اس کے قصاص کے
لیے حاضر ہوں۔ اگر مجھے کسی کاکچھ دینا ہے تو میرا جو کچھ ہے وہ سب تمہارا ہے۔“
مجمع میں سے ایک شخص نے اٹھ کر تین درہموں کا مطالبہ کیا جو اس نے آنحضرتؐ کے
ارشاد پر کسی غریب شخص کو دیئے تھے۔آپؐ نے تین درہم فوراً ادا کردیئے اور
فرمایا۔”اس دنیا میں شرمسار ہونا آخرت میں شرمسار ہونے سے بہتر ہے“۔ پھر آپؐ نے
حاضرین کے حق میں اور ان مسلمانوں کے حق میں جو دشمنوں کے ہاتھوں شہید ہوئے تھے
دعائے خیر مانگی۔ سب کو فرائض دینی کی بجا آوری اور قیام صلح و امن کی ہدایت کی
اور قرآن کے ان الفاظ پرخاتمہ کلام کیا:”دارِآخرت ہم ان لوگوں کے لیے خاص کرتے ہیں
جو تکبر اور فساد نہیں کرتے۔ آخرت کی بھلائی متقیوں کے لئے ہے۱؎“(القصص 83)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ ابن الاثیر۔طبری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے بعد آپؐ کبھی مسجد
میں تشریف نہ لے جاسکے۔ آپؐ کی نقاہت سرعت سے بڑھتی چلی گئی۔دو شنبے کے دوپہر کے
وقت (12ربیع الاوّل 11ھ۔8 جون 632ء کے دن) خشوع و خضوع سے زیر لب دعاء مانگنے کے
عالم میں اس پیغمبر اعظمؐ کی روح عالم قدس میں ”الرفیق الاعلیٰ من النتۃ“کے پاس
پہنچ گئی۔
یوں ختم ہوئی ایک ایسی
زندگی جو شروع سے آخر تک خدا اور اس کی مخلوق کی خدمت کے لیے وقت تھی۔ کیا او
رکوئی زندگی ایسی نظر آتی ہے جو اتنی آزمائشوں اورتحریصوں سے گذر کراتنی بلندی تک
پہنچی ہو؟کیا اور کوئی زندگی ایسی ہے جو اتنے مخالفانہ حملوں کاہدف بنی ہو او رجسے
پھر بھی کوئی گزیذنہ پہنچا ہو؟ وہ جو ایک بے جاہ و حشم مبلّغ تھا عرب کا فرماں
روا، کسراؤں اور قیصروں کا ہمسر اور قوموں کی قسمتوں کا فیصلہ کرنے والا بن گیا۔
لیکن اس کی فطرت وسیرت کے امتیازی اوصاف وہی رہے۔۔ وہی انکسار فرونتی،وہی کریم
النفّی،وہی پاکیزہ دلی، وہی زہد ہ قناعت، وہی نفاست و لطافت احساس، ادائے فرض میں
وہی جان فشانی،یعنی تمام وہ خوبیاں او رمحبوبیاں جنہوں نے اسے ”الامین“ کالقب
دلوایا تھا۔ اپنی ابتدائی زندگی میں ایک مرتبہ،جب آپ مکّے کے ایک بار سوخ شہری سے
مذہبی گفتگو میں مصروف تھے تو آپ ایک نابینا طالب حق کی طرف متوجہ ہوئے تھے جو آپ
سے ہم کلامی کا آرزو مند تھا۔ آپ ہمیشہ تاسّف و پشیمانی کے ساتھ واقع کا ذکر کرتے
اور یہ اعلان کرتے رہے کہ خدا نے آپ کے عمل کو ناپسندفرمایا۱؎۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ اسی واقعہ کی طرف سورہ عبس میں اشارہ کیا گیا
ہے:۔
”پیغمبر چیں بچیں ہوگیا اور متوجہ ہوا، کیونکہ اس کے پاس اندھا
آیا(اے پیغمبر) تجھے کیا خبرکہ شاید وہ پاک ہوجاتایا نصیحت حاصل کرتا تو نصیحت اس
کو نفع پہنچاتی۔ جو شخص دین سے بے پروائی کرتاہے، اس کی طرف تو تُو خوب متوجہ ہوتاہے۔حالانکہ
تجھ پر کوئی الزام نہیں اگر وہ پاک و صاف نہ بن جائے اورجو شخص خد ا سے ڈر کر تیرے
پاس دوڑ تاہوا آتا ہے تو اس سے بے اعتنائی برتتا ہے۔آئند ہ ایسا ہر گز نہ
کیجیو۔۔۔“
اس سورہ کے نزول کے بعد
جب کبھی آنحضرتؐ اس نابینا (عبداللہ ابن ام مکتو م۔مترجم) کو دیکھتے تو اس کے ساتھ
بڑی عزّت سے پیش آتے اور فرماتے”اس شخص کا آنامیرے سر آنکھوں پر جس کی خاطر میرے
خدا نے مجھے تنبیہہ کی“۔ آپ نے اسے دو مرتبہ مدینے کاعامل مقرر کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک ایسی پاکیزہ، ایسی
رقیق وشفیق اور ساتھ ہی ساتھ ایسی عالی ہمت طبیعت کو دیکھ کر دل میں نہ صرف
عزّت،بلکہ محبت پیدا ہوتی ہے۔ قدرتی بات ہے کہ عرب مصنّفین بڑے فخر سے ابن عبداللہ
کے محاسن اخلاق اور فراست وکیاست کا تذکرہ کرتے ہیں۔ بڑوں کے ساتھ آپؐ کی تواضع
چھوٹوں کے ساتھ آپؐ کی نرمی و شفقت اور متکبّروں کے ساتھ آپؐ کا پرُ وقار طرز عمل
آپ ہر کسی سے تعظیم و تحسین کا خراج دلواتا۔آپؐ کاچہرہ آپؐ کی نیک ولی کا آئینہ
تھا۔ صحیفہ فطرت کا یہ عالم متبخر اُمّی ہونے کے باوجود، ایک وسیع قلب کا مالک
تھا،جسے روح کائنات کے ساتھ گہرے رابطے نے بلندی بخش دی تھی او رجسے عالم و اُمّی
دونوں پر یکساں اثر انداز ہونے کا ملکہ عطا ہوا تھا۔آپؐ کے چہرے پر ایک شاہانہ
تمکنت اور ذکات وذہانت برستی تھی جو ہر اس شخص کو جو آپؐ سے ملتا عزت و محبت سے
مملو کردیتی۱؎۔
آپؐ کی حیرت انگیز عالمی
طبعی،آپؐ کی لطافت احساس،آپؐ کی نفاست جذبات،آپؐ کی پاکیزگی دراست بازی احادیث کے
مستقل موضوع ہیں۔ آپؐ اپنے سے ادنیٰ کے ساتھ بڑی نرمی ودلجوئی کے ساتھ پیش آتے تھے
او رکبھی گوارانہ کرتے تھے کہ کوئی آپؐ کے ذاتی خدمت گار کو جھڑکے میں رہااور اس
کے تمام عرصے میں آپؐ نے مجھے اُف تک نہ کہی۲؎۔“ آپؐ کو اپنے کنبے
والوں سے بڑی محبت تھی۔آپؐ کے ایک بیٹے نے اپنی کھلائی کے دھوئیں سے بھرے ہوئے گھر
کے اندر آپؐ کی گود میں دم توڑا۔ آپؐ کو بچوں سے بہت پیار تھا۔ آپؐ اکثر راستہ
چلتے ہوئے انہیں روک لیتے او ران کے گالوں کو پیار سے تھپکتے۔آپؐ نے زندگی بھر
کبھی کسی پر ہاتھ نہ اٹھایا۔ سخت ترین کلمات جو آپؐ نے کبھی اثنائے گفتگو میں کسی
کی بابت کہے یہ تھے”اسے کیا ہوگیا ہے؟ اس کی پیشانی پر کیچڑ!۳؎“ جب آپؐ سے کسی پر لعنت
بھیجنے کوکہاجاتا تو آپؐ فرماتے ہمیں دنیاکے لیے لعنت نہیں بلکہ رحمت بناکر بھیجا
گیا ہوں۔“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ مشکوٰۃ
۲؎
مشکوٰۃ
۳؎ لین پول نے آنحضرتؐ کے شمائل وخضائل کاایسا
عمدہ اورصحیح نقشہ (باقی حاشیہ صفحہ 219پرملاحظہ فرمائیں)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٰآپؐ بیماریوں کی عیادت کو جاتے،ہرجنازے میں شریک ہوتے، غلاموں کی
دعوت بھی قبول کرتے، اپنا لباس اپنے ہاتھوں سے رفو کرتے،اپنی بکریاں خود دوہتے اور
اپنے سارے کام خود کرتے۔مصافحہ کرتے وقت آپؐ کبھی دوسرے کا ہاتھ نہ چھوڑتے جب تک
وہ خود چھڑاتا، اور اس وقت تک رخصت نہ ہوتے جب تک دوسرا رخصت نہ ہوتا۔آپؐ کاہاتھ
سب سے زیادہ سخی،آپؐ کا سینہ سب سے زیادہ پرُہمت اور آپؐ کی زبان سب سے زیادہ راست
گوتھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(بقیہ حاشیہ 218) پیش کیا ہے کہ میں اس کا اقتباس دیئے بغیر نہیں
رہ سکتا:۔ ”اس شخص میں ہمت و شجاعت کے ساتھ ساتھ کچھ ایسی ملامت ولطافت تھی کہ اس
کے بارے میں رائے قائم کرتے وقت ہمیشہ یہ خطرہ لاحق رہتاہے کہ اس قبیل کی طبیعت
انسان کے دل میں عزت بلکہ محبت کے جو جذبات پیدا کرتی ہے اس سے انسان کی قوت فیصلہ
کہیں غیر شعور ی طور پر متاثر نہ ہوجائے۔یہ شخص جس نے سالہاسال تک تن ِ تنہا اپنی
قوم کی مخالفت کا مقابلہ کیا وہی شخص ہے جس نے کبھی اپنا ہاتھ کسی کے دوستانہ
مصافحہ سے نہ ہٹایا، وہ شخص ہے جو بچوں کا محبوب تھا او رجس نے کبھی ایسا نہ کیا
کہ اگر راہ چلتے اسے بچوں کا کوئی چھوٹاساگرہ ملا تو اس نے ان کی طرف مسکرا کر نہ
دیکھا ہو اور ان سے شفقت و محبت کی دوباتیں نہ کی ہوں، جن میں اس کی شیریں آواز
لُطیف ومہربانی کی اور بھی زیادہ چاشنی ملادیتی تھی۔ اس کی بے لاگ دوستی، اس کی
کریمانہ فیاضی،اس کی بے خوف جرأت،اس کی عالی ہمت رجائیت،یہ سب اوصاف تنقید کو
تحسین میں تبدیل کردیتے۔ اس میں ایک والہانہ جوش و خروش تھا، ان مستحسن معنوں میں
جن میں جوش و خروش انسان کی ایک صفت حمیدہ ہوتی ہے، یعنی وہ واحد صفت جوانسانوں کو
اپنی زندگیاں نباتات و جمادات کی طرح بے مصرف گزاردینے سے بچاتی ہے۔ جوش و خروش کا
استعمال اکثر مفسدانہ طور پر کیا جاتا ہے۔ وہ اس وقت جب وہ ذمیم مقاصد سے وابستہ
ہویا کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ بنجر زمین میں ہل چلانے کے مترادف ہوتاہے
اور اس سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ محمدؐ کا جوش و خروش اس قسم کا نہ تھا۔ اس نے جوش و
خروش سے ایسے میں کام لیا۔ جب جوش و خروش دنیا میں انقلاب کی آگ لگادینے کا واحد
وسیلہ تھا اور اس کا جوش خروش ایک اعلیٰ مقصد کے حاصل کرنے کا ایک افضل طریقہ تھا۔
وہ ان معدود سے چند خوش اقبال لوگوں میں تھا جنہیں ایک عظیم صداقت کو اپنا سرچشمہ
حیات بنانے کی سعادت غیر مترقبہ نصیب ہوئی۔ وہ خدائے واحد کا پیغمبر تھا، اور اپنی
زندگی کے آخری لمحے تک اس نے اس امر کو فراموش نہ کیا او رنہ اس نے اس پیغام کو
فراموش کیا جو اس کامدارِ زندگی تھا۔ اس نے اپنی قوم کو جو بشارت دی وہ ایک ایسے
عظیم الشان وقار کے ساتھ دی جس کا سرچشمہ وہ احساس تھا جو اسے اپنے اونچے منصب کے
بارے میں تھا، او رساتھ ہی ساتھ ایک ایسے انکسار سے دی جس کی بنیاد اس کا ایک
انسان ضعیف النیبان ہونے کا شعور تھا۔“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپؐ جس کسی کی حمایت
کاوعدہ کرتے اس کی حمایت میں سب سے زیادہ استواررہتے۔آپؐ کی گفتگو سب سے زیادہ
شیریں او ردلنواز تھی۔ جوکوئی آپؐ سے ملتااس کادل جذبہئ احترام سے لبریز ہوجاتا۔
جو لوگ آپؐ کے قریب آتے وہ آپؐ کے والہ رشیدا ہوجاتے۔ جو لوگ آپؐ کا تذکرہ کرتے وہ
یہی کہتے،”میں نے اگلوں اورپچھلوں میں نہ ایسا کوئی اور شخص دیکھانہ اس کا حال سُنا۔“
آپؐ نہایت کم گوتھے او رجب آپؐ گفتگو کرتے تو اس طرح سوچ سوچ کر او ربات پر زور دے
دے کر کہ سننے والاکبھی آپؐ کی بات نہ بھولتا۔ ”تواضع ودلنوازی،صبر و تحمل،ایثار
اور سخاوت،یہ تھیں وہ صفات جو آپؐ کے کردار سے ٹپکتی تھیں او رجو ہر ایک کے دل کو
مسخّر کرلیتی تھیں۔ محروموں اور غمزدوں سے آپؐ بڑی دلجوئی او رہمدردی سے پیش
آتے۔۔۔۔ عسرت کے دنوں میں بھی آپؐ دوسروں کو اپنے کھانے میں شریک کرتے او راپنے
ارد گرد کے لوگوں کے آرام کا حددرجہ خیال رکھتے۔“ اگر کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ شخص بھی
آپؐ کو راستے میں روک کر اپنا دُکھڑا سنانا چاہتا تو آپؐ کھڑے ہوکر اس کی بات اوّل
سے آخر تک سنتے۔ آپؐ کم مایہ سے کم مایہ لوگوں کے بھی گھر جاکر غم و مصیبت کے وقت
انہیں تسلی دیتے۔ادنیٰ ترین غلام بھی آپؐ کاہاتھ پکڑ کر آپؐ کو لے جاتے تاکہ آپؐ
ان کے آقاؤں سے بدحوکی کی تلافی کرائیں یا غلامی سے رہائی دلوائیں ۱؎۔ آپؐ خدا سے دعا کئے
بغیر کبھی کھاناکھانے نہ بیٹھے اور خدا کا شکر ادا کئے بغیر کبھی دسترخوان سے نہ
اٹھے۔آپؐ نے اپنے اوقات کو بڑی باقاعدگی سے تقسیم کررکھا تھا۔ دن کے وقت،نماز کے
اوقات کے علاوہ، آپؐ لوگوں سے ملاقات کرتے اور حکومت کا کاروبار انجام دیتے۔ رات
کو آپؐ بہت تھوڑی دیر کے لیے آرام کرتے اور باقی رات عبادت میں گزار تے۔ آپؐ کو
غریبوں سے محبت تھی اور آپؐ ان کی عزت کرتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ حیات القلوب (شیعہ)روضہ الاحباب (سنّی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت سے بے خانماں لوگ رات
کو مسجد میں سوتے،جو آپؐ کے گھر سے ملحق تھی۔ ہر شام آپؐ کا معمول تھا کہ آپؐ ان
میں سے چند ایک کو بلا کر اپنے غریبانہ کھانے میں شریک کرتے۔ باقی لوگ آپؐ کے
سربرآدردہ صحابہؓ کے مہمان بنتے۱؎۔
آپؐ اپنے بدترین دشمنوں سے بھی عفو و درگزر اور رحم وکرم کاسلوک کرتے۔اگرچہ آپؐ
مملکت کے دشمنوں کا بڑی سختی سے محاسبہ کرتے لیکن جہاں تک آپؐ کی ذات کا تعلق تھا
آپؐ فتح و کامیابی کی گھڑیوں میں،جو دل انسانی کے لیے آزمائش کی گھڑیاں ہوتی
ہیں،لیکن استہزاء کیا توہین، کیا زیادتیاں،کیا ظلم وستم سب کچھ فراموش کردیتے او
ربدترین مجرموں کو بھی معافی بخش دیتے۔
آپؐ کی عادات میں انتہا
درجے کی سادگی وبے تکلّفی تھی۔ آپؐ کا طریق بودوباش،آپؐ کا لباس،آپؐ کے گھر کا
سامان سب میں اخیر تک ایک بدویانہ سادگی رہی۔ ابوہریرہؓ کا بیانہ ہے کہ کئی کئی
وقت آپؐ فاقے سے رہتے۔ اکثر آپؐ کاگزارہ صرف کھجوروں اور پانی پر ہوتاتھا۔ ایسابار
ہا ہواکہ مہینوں تک ناداری کی وجہ سے آپؐ کے گھر میں آگ نہ جلی۔ مسلمان مؤرخین
کہتے ہیں کہ خدا نے دنیا کے خزانوں کی کنجیاں آپؐ کے سامنے رکھ دی تھیں،لیکن آپؐ
نے انہیں قبول نہ کیا۔
اس حیرت انگیز معلّم کا
دماغ اپنی عقلیت نوازی اور ترقی پسندی کے اعتبار سے عہدجدید کے سانچے میں ڈھلا ہوا
تھا۔ اس کی تعلیم کے مطابق دائمی جدوجہد انسانی زندگی کا ایک لازمہ ہے۔ لیس
الانسان الاّماسعیٰ او رالسّعی منّی والاتمام من اللہ۲؎۔یہ تھے اس کے بنیادی
سبق۔ اس نے یہ تعلیم دی کہ دنیاایک قرینے سے ترتیب دی ہوئی تخلیق ہے جس کا انتظام
و اہتمام ایک عقل کل کررہی ہے جو ساری کائنات پر محیط ہے۔ اس نے اعلان کیا: کُل
امیرموھون باوقاتھا۔لیکن اس کے باوجود انسانی ارادہ اپنی نجات کی کوشش کرنے کے لیے
آزاد ہے۔ اس کی ہمدردی آفاق گیر تھی۔ اسے اسی لیے رحمۃاللّعالمین کالقب ملا کہ اس
نے ساری مخلوقات کے حق میں خدا سے رحمت کی دعا کی۔ وہی تھا جس نے یہ کہا تھا کہ
ایک زندگی کا بچانا ساری نوع انسانی کے بچانے کے برابر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ ابوالفدا۔الحلبی ”انسان العیون“۔
۲؎ یہ حدیث نہیں قول ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کا معاشرتی تصّور
تعمیری تھا، تخریبی نہ تھا۔انتہا درجے کی روحانی از خود رفتگی کی کیفیت میں بھی اس
نے کبھی عائلی زندگی کے تقدس کو نظرانداز نہیں کیا۔ اس کے نزدیک خدمت خلق فاضل
العبادات تھی۔ اس نے اپنے پیروؤں کو کبھی یہ تلقین نہ کی کہ جن کی طرف سے ان
پرفرائض عاید ہوتے تھے ان کا ساتھ چھوڑدیں،بلکہ اس نے ہمیشہ انہیں یہی تعلیم دی کہ
وہ ان فرائض کو ادا کرکے ثواب واجر کمائیں۔ بچے اس کی نگاہ میں خدا کی امانت تھے
اور ان کا محبت و شفقت سے پالنا پوسنا ایک خدائی فرض تھا۔ اسی طرح بچوں کا فرض
تھاکہ والدین سے عزت و محبت سے پیش آئیں۔ اس کے مقرر کئے ہوئے دائرہئ فرائض میں
رشتہ دار،ہمسائے اورغرباء و مساکین سبھی داخل تھے۔
اسے اپنا پیغام دیئے ہوئے
چودہ صدیاں گذر گئی ہیں، لیکن جو محبت و عقیدت اس نے لاتعداد انسانوں کے دلوں میں
پیدا کی مرورِ زمانہ سے اس میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ اور اس کے متبعین کے دلوں میں
اور ان کے زبانوں پر جس طرح اس وقت یہ الفاظ تھے اسی طرح اب بھی ہیں:
روحی فِدا کَ یَا رسّول
اللہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Related Article:
URL: https://www.newageislam.com/books-documents/urdu-ameer-ali-spirit-part-24/d/124862
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism