سید امیر علی
(قسط 23 )
21 مئی 2021
فَاقَ النّبیین َ فِی خلقٍ
وفِی خَلُقٍ ولم ید ا نوہُ فی عِلمٍ
ولا کرم،
دع ماد عتہ النصاری فی نیھم
وَحکُم مَاشِئتَ مدحاً فیہ
واحتکم
(قصیدۃ البردہ)
اِنَّ الرَّسولَ لنوریستضأ
بِہٖ
وَصَارِمُ من سیُو فِ اللہ
مسلول
(بانت سعاد)
ہجرت کا نواں سال ان دفود
کی وجہ سے مشہور ہے جو پیغمبر اسلام کوخراج عقیدت پیش کرنے کے لیے جوق در جوق مدینہ
میں آئے۔ حَمّیتِ جاہلیت،خون کے بدلے خون اور کفر و شرک کی جو کالی گھٹا اس سرزمین
پر چھائی ہوئی تھی وہ ہمیشہ کے لیے کھل گئی۔ جاہلیت کا دور ختم ہو چکا تھا۔
9ھ۔20اپریل 630ء تا 9اپریل 631ء:۔ فتح مکّہ نے عرب میں صنم پرستی کی
قسمت کا فیصلہ کر دیا۔ جو لوگ اپنی خوبصورت چاند دیویوں،لات، مناۃ اور عُزّیٰ کی عزت
کی نگاہ سے دیکھتے تھے اوران کی پوجا کرتے تھے بُت پرستی کے اس حِصنِ حصین کے سقوط
نے ان کی آنکھیں کھول دیں۔اہل مکّہ پیش پیش تھے ان کی طرف سے اطاعت و وفاداری کا حلف
اٹھانے کے لیے اطراف و اکناف سے دفود آنے لگے۱؎۔ کبار ِ صحابہ او ر مدینے
کے ممتاز شہری ان سفیروں کو اپنے گھر وں میں اتارتے اور عربو ں کے قدیم دستور مہمان
نوازی کے مطابق ان کی خاطر و مدارات کرتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ ابن ہشام۔ابن الاثیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رخصت ہوتے و قت انہیں زادِ
راہ کے طور پر معقول رقمیں دی جاتیں او رہر ایک کے رتبے کے مطابق مزید تحائف بھی پیش
کئے جاتے۔اکثر قبائل کو ان کے حقوق و مراعات کے بارے میں تحریری عہد نامے عطا کئے جاتے
ا ورہر وفد کے ساتھ ایک معلّم بھیجا جاتا تاکہ وہ ان نو مسلموں کو ارکان اسلام کی تعلیم
دے او ران کے یہاں بُت پرستی کا کوئی نشان باقی نہ رہنے دے۔
جس اثناء میں یہ مدبرّاعظم
قبائل عرب کو اسلامی علم کے نیچے متحد کررہا تھا وہ ان خطرات سے بھی آگاہ تھا جو اس
نئی وفاقی مملکت کو بیرونی ممالک کی طرف سے درپیش تھے۔
اس زمانہ میں اہل باز نطین
از سر نو دہی خواب دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے اس سے قبل سلطنت روما کے بانی کو عرب میں
مہمیں بھیجنے پر آمادہ کیا تھا۱؎۔
ہرقل ایرانیوں کو شکست دے کر غرور ونخوت سے سرشار اپنے ملک واپس گیا تھا۔ عرب میں جو
عجیب و غریب واقعات رونما ہورہے تھے وہ اس کی سیاسی بصیرت سے چھپے نہ رہ سکتے تھے او
راس کے نائبین کے لشکر کثیر کو مٹھی بھر عربوں کے مقابلہ میں جو ناکامی ہوئی تھی وہ
غالباً اسے بھی نہ بھولا تھا۔ قیامِ شام کے دوران اس نے اپنے ناجگزاروں کو عرب پر حملہ
کرنے کے لیے ایک زبردست فوج جمع کرنے کا حکم دیا تھا۔ ان تیاریوں کی خبر مدینے میں
پہنچی اور مسلمانوں کے دل میں قدرے ہر اس پیدا ہوگیا۔اگریہ خبر صحیح تھی تو دولت حامہئ
اسلامیہ کے لیے ایک خطرہ ئعظیم پیدا ہوگیا تھا۔ حملہ کے سدِّباب کے لیے تمام اطراف
سے رضا کار طلب کئے گئے۔سوء اتفاق سے حجاز اور نجد کو خشک سالی نے نڈھال کررکھا تھا۔
کھجور وں کی فصل تباہ ہوگئی تھی اور بار برداری کے جانور بڑی تعداد میں مرگئے تھے۔دیہات
کے لوگ ایسے میں اپنے گھروں سے دور کسی مہم پر جانے کے لیے رضا مند نہ تھے۔ بعضوں نے
تو یہ عذر پیش کیا کہ موسم لڑائی کے لیے ناموزو ں تھا۔ جو لوگ لڑنے سے جی چڑاتے تھے
ان کے خوف کو گرمی کی شدت سفر کی صعوبتوں اور نازنطینی سلطنت کی قوت و شہامت کے بارے
میں لمبی چوڑی کہانیوں نے اور بھی بڑھا دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
میری مراد اطیس گیلس Aelius Gallus کے حملے سے ہے جو قیصر آگسٹس کے عہد حکومت میں ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت سوں نے جنگی خدمت سے مستثنیٰ
قرار دیئے جانے کی درخواست پیش کردی۔آنحضرتؐ نے ایسے لوگوں کی درخواست منظور کرلی جو
کمزوری کی وجہ سے ہتھیار نہ اٹھا سکتے تھے یا غریبی کی وجہ سے ہتھیار او رزادِ راہ
مہیا نہ کرسکتے تھے یا اپنے گھروں میں اکیلے مرد تھے اورگھروں کو چھوڑ کر نہ جاسکتے
تھے۱؎۔
بے دلوں کو نارضا مندی کو
منافقین کی سازشوں نے بڑھا دیا، جنہوں نے اس نارضامندی کو بے اطمینانی کی صورت میں
تبدیل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۲؎۔
بہر حال صحابہئ کبار اور دوسرے مخلص مسلمانوں کی مثال نے بزدلوں کا حوصلہ بڑھایا اور
رجی چرانے والوں کو شرمندہ کر کے ان میں جوش پیدا کردیا۔ یہ جوش جلد ہی تمام لوگوں
میں پھیل گیا۔ مصارف جنگ کے لئے ہر طرف چندے آنے لگے۔حضرت ابوبکرؓ نے اپنا پورا اثاث
البیت حاضر کردیا۔ حضرت عثمانؓ ایک بڑے دستے کے مصارف اور اسلحہ کے کفیل ہوگئے۔ دوسرے
ذی مرتبہ اور صاحب دولت مسلمانوں نے بھی ایسی ہی دریادلی سے کام لیا۔ عورتیں اپنے جواہرات
اور زیور لے کر آئیں اور آنحضرتؐ سے ملتجی ہوئیں انہیں مملکت کی ضروریات کے لیے قبول
کیا جائے۔ اس طرح کافی تعداد میں فوج فراہم ہوگئی ا و رمجاہدین نے آنحضرتؐ کی معیت
میں سرحد کی طرف کوچ کیا۳؎۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ ان لوگوں کو ’البکاؤن‘ کا لقب دیا گیا۔ اس بنا پر
کہ وہ ایک خطرناک دشمن کے خلاف جہاد میں شریک ہونے سے معذوررہنے پر گریہ وبکاء کرتے
تھے(ابن ہشام، الحلبی،انسان العیون۔
۲؎ منافقین کی سازشوں کی مذمت سورہ توبہ۔83 میں کی
گئی ہے۔ یہ سازشی سویلم نامی ایک یہودی کے گھر میں جمع ہوتے تھے۔ یہ گھر بعد میں تباہ
کر دیا گیا۔ انہی دنوں میں آنحضرتؐ نے یہ پیش گوئی کی کہ ملتِ اسلامیہ میں ہمیشہ منافقین
رہیں گے جو مؤمنین کی مخیرانہ کوششوں میں مزحم ہوا کریں گے۔
۳؎ اس فوج کے فراہم کرنے میں جو مشکلات پیش آئیں ان
کی مناسبت سے اسے”جیش العسرۃ“کا نام دیا گیا۔
آنحضرت نے اپنی غیر موجودگی
میں مدینے کا انتظام حضرت علیؓ کو سونپا۔عبداللہ بن ابیّ اور دوسرے منافقین ثنیۃ الوداع
تک فوج کے ساتھ گئے لیکن اس کے بعد وہ آنکھ بچا کر پیچھے رہ گئے او ر مدینہ واپس آگئے۔مدینہ
میں آکر انہوں نے یہ افواہ پھیلادی کہ آنحضرتؐ مہم کے خطرات کے خوف سے حضرت علیؓ کو
اپنے ساتھ نہ لے گئے تھے۔ اس شرارت آمیز افواہ سے حضرت علیؓ نے فوج کو جما لیا تو آنحضرت
ؐ کو معاملہ کہہ سنایا۔آنحضرتؐ نے اسے ایک کمینہ بہتان سے تعبیر کیا۔ ابن ہشام لکھتا
ہے:۔”فقال کذّبودلکنی خلَّفتک لماترکت وراء ی فارجع فاخلفنی فی اھلی واھلک افلاترضی
یا علی ان تکون ھنی بمنزلۃ ھارون من موسیٰ۱؎۔“ چنانچہ حضرت علیؓ مدینے واپس آگئے۔
مسلم مجاہدین نے گرمی اور
پیاس کی وجہ سے شدید تکلیفیں سہی۔ ایک لمبے او رکٹھن سفر کے بعد وہ تبوک۲؎ پہنچے، جو مدینہ او ردمشق
کے بیچوں بیچ واقع ہے۔ یہاں ان لوگوں نے آرام کیا۔ وہ یہ سن کر متعجب بھی ہوئے او رانہوں
نے اطمینان کا سانس بھی لیا کہ یونانی حملے کی خبر محض ایک ہوائی خبر تھی۔ شہنشاہ یونان
کو اپنے گھر ہی میں مسائل درپیش تھے۔ آنحضرتؐ نے دیکھاکہ مدینہ کی دولت عامہ کو کوئی
خطرہ نہ تھا،تو آپؐ نے مسلمانوں کو واپسی۳؎ کا حکم دیا۔مسلمانوں نے بتوک میں بیس دن تک
قیام کیا۔ وہاں انہیں اپنے استعمال کے لیے کافی پانی اور باربرداری کے جانوروں کے لیے
کافی چارہ میسر آیا۔ وہ رمضان کے مہینے میں مدینے لوٹے۴؎۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ اہل تشنیع ان ارشادات سے یہ نتیجہ مستبظ کرتے ہیں
کہ آنحضرتؐ نے حضرت علیؓ کو اپنا جانشین مقرر کیا۔
۲؎ کوسین دی پرسیوال
۳؎ ابن ہشام، ابن الاثیر،ابوالغداء
۴؎ کوسین دی پرسیوال کہتا ہے وسط دسمبر 630ء سورہ نسا
ء میں یہ واقعات بڑی صراحت سے بیان کئے گئے ہیں۔ تبوک میں بہت سے ہمسایہ سرداروں نے
آکر بیعت کی۔ ابن لاثیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنحضرتؐ کے مدینے واپس آتے
ہی طائف کے شوریدہ سر اور شقی القلب کفّار کا ایک وفدآپؐ کی خدمت مںو حاضرہوا۔ یہ وہی
لوگ تھے جنہوں نے آپؐ کو توہن۔ وتشدد کے ساتھ اپنے شہر سے نکال دیا تھا۔ طائفی سردار
عروہ جو واقعہ حدیہر کے بعد قریش کا سفرں بن
کر مکّے آیا تھا، آنحضرتؐ کی خدمت مںے حاضر ہوکر مسلمان ہوگاہ تھا۔ اسے اپنے شہر کے
متعصب لوگوں کی طرف سے جو خطرہ تھا آنحضرتؐ نے اسے اس متعدد مرتبہ متنبہ کا تھا، لکنں اس کے باوجود وہ جلدی ہم شہریوں کو اسلام
کی برکات سے بہرہ اندوز ہونے کی دعوت دے۔ وہ شام کے وقت شہر مںا پہنچا او رپہنچتے ہی
شہریوں کو جمع کر کے اپنی تبدییت مذہب کا اعلان کردیا اور انہںد شریک اسلام ہونے کی
دعوت دی۔ دوسرے دن صبح کے وقت اس نے پھر لوگوں سے خطاب کاہ۔لکنہ عُزّیٰ کے پروہت او
رپجاری اس قدر مشتعل ہوئے کہ انہوں نے اسے سنگسارکر کے ہلاک کردیا۔ اس نے مرتے دم کہا
کہ مں۔ اپنی قوم کی بھلائی کے لےپ اپنا خون اپنے آقا کی نذر کرتا ہوں او رخدا کا شکر
اداکرتا ہوں کہ اس نے مجھے شہادت کا درجہ عطا فرمایا۔اس نے یہ وصت بھی کی کہ اسے شہدائے حنین کے پہلو مںو دفن کا جائے۱؎۔ عروہ نے جتےا جی اہل طائف کو قبول اسلام
پر آمادہ کرنے کی جوکوششںک کی تھںی ان سے کہںٰ زیادہ اثر اس کے آخری الفاظ نے کاس۔
شہدخ کے خون نے اس کے قاتلوں کے دل مںد چراغ ایمان روشن کردیا۔ اہل طائف کو اس سے بہت
پیشمانی ہوئی اور بدوی قبائل کے ساتھ جو دشمنی چلی آرہی تھی غالباً وہ اس سے بھی تنگ
آگئے تھے۔ یہ اسی کا نتجہد تھا کہ انہوں نے وہ وفد بھجاا جس کا ہم نے ابھی ذکر کاا
ہے۔ یہ وفد معافی اور دائرہ اسلام مںی داخل ہونے کی اجازت مانگنے آیا تھا۔لکنم اہل
وفد نے اپنے بتوں کے لےو تھوڑی سی مہلت کی درخواست کی: پہلے دود سال کی مہلت،پھر ایک
سال کی،پھر چھ مہنے کی، لکنغ یہ درخواست منظور
نہ کی گیو۔اخرے مںا وہ صرف ایک مہنےا کی مہلت پر اُتر آئے، لکنپ آنحضرتؐ اپنے موقف
سے نہ ٹلے۔ اسلام اور بتوں کا ایک ساتھ موجودہونا ناممکن تھا۔ پھر انہوں نے نماز سے
بریت کی درخواست کی۔
۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
ابن ہشام،ابن الاثرے
۔۔۔۔۔۔۔۔
آنحضرتؐنے جواب دیا ”جس دین
مںر عبادت نہ ہو اس مںد اور کال بھلائی ہوسکتی ہے۱؎؟“ بالآخرانہوں نے طوعاًد
کرہا ًسارے مطالبات منظور کر لےح۔ بہر حال انہںب اپنے ہاتھوں بتوں کے توڑنے سے معذور
رکھا گاا،اور یہ کام ابوسفارن بن حرب اور عروہ کے قرابت دار مغرہہ کو تفویض کاا گاح۔
انہوں نے طائف کی عورتوں کے نالہ وشونن کے درماون یہ کام انجام دیا۲؎۔
اب قبلہہ طے نے اپنے پروہتوں
کے بھڑکانے پر سرتابی کی۔ انہںں بنانے اور بتوں کے توڑنے کے لےب ایک چھوٹی سی فوج حضرت
علیؓ کی سرکردگی مںح بھی ی گئی۔ اس قبلےک کا سردار عدی تھا۔ جو اس حاتم کا بٹاب تھا
جس کی فاّرضی اور دریادلی مشرقی ادب اور شاعری مں
ضرب المثل ہے۔ حضرت علیؓ کے آتے ہی شام کی طرف بھاگ نکلا، لکنا بنی طے کے چند
مقتدر افراد،جن مںح عدی کی بہن بھی تھی، مسلمانوں کے ہاتھ قدً ہوئے۔ ہر طرح کی عزت
و مراعات کے ساتھ مدینہ لایاگال۔ آنحضرتؐ نے حاتم کی بیرا اور اس کے ہم قوموں کو فوراً
آزاد کردیا اور پش بہا تحائف بھی عطا فرمائے۔
اس نے شام جاکر اپنے بھائی کو آنحضرتؐ کے قدموں مںا ڈالنے کے لےت عازم مدینہ ہوا،اور
بالآخر خود دائرہ اسلام مںآ داخل ہوگاو۔ پھر اس نے واپس جاکر اپنے قبلےن کے لوگوں کوبُت
پرستی ترک کردینے کی تلقنی کی۔ چنانچہ بنی طے،جو کسی زمانہ مںی بت پرستی کی لعنت مںر
بُری طرح مبتلا تھے، دین محمدیؐ کے مخلص پر وبن گئے۳؎۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ ابن الاثر
۲؎ ابن ہشام، طبری۔9ھ کو جو کثری التعدا وفد آنحضرتؐ
کی خدمت مں حاضر ہوئے۔ ان کی مناسبت سے اس
سال کا نام۔عام الوفود، پڑگای۔بنی ثقف۔ کے قبول اسلام کے بعد جو لوگ دائرہ اسلام مںا
داخل ہوئے ان مںی یمن،مہرہ،عمان او ربحرین کے حمرای شہزادے او ریمامہ کے نزدیک آباد
قبائل تھے۔
۳؎ ابن ہشام، ابن الاثرل،انسان العیون،۔ عدی کا قبول
اسلام ۹
ھ کے ربعہ الثانی(جولائی اگست 630ء) مںپ واقع ہوا، لہٰذا اس کا ذکر مہم تبوک سے پہلے
ہونا چاہئے لکنل مںت نے عرب مؤرخن۔ کی ترتبں واقعات کا متبع کال ہے۔ جب حاتم کی بی0
، جس کا نام سفانہ تھا، آنحضرتؐ کی خدمت (باقی حاشہی صفحہ 204پر ملاحظہ فرمائںی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی زمانہ مںی ایک اور نمایاں
شخصت نے اسلام قبول کاا اور یہ واقعہ ایسے
طریقے سے ہواجو تفصیرت بامن کامستحق ہے۔ قبلہی مزینہ کا ایک ممتازشاعر کعب ابن زہر۔
اپنے قبلےا کومسلمانوں کے خلاف بھڑکایا کرتا تھا اور اس لئے وہ واجب القتل قرار دیا
گا ۔کعب کے بھائی نے، جو مسلمان ہوچکا تھا، اسے بُت پرستی ترک کرنے اور اسلام قبول
کرنے کی تاکدھ کی۔ کعب اس تاکدئ پر عمل کر کے خفہا طور پر مدینے مں، آیا او رمسجد نبوی
مںو پہنچا۔ وہاں اس نے دیکھا کہ بہت سے عرب ایک شخص کے گرد بٹھےا انتہائی تعظمد تکریم
سے اس کی باتںی سن رہے ہںک۔ اس نے فوراً پہچان لاک کہ یین رسولؐخداہں اور صفوں کوچرتتا ہوا آنحضرتؐ کے قریب آگاا او ربولا،”یا
رسولؐاللہ!اگر مںک کعب کو مسلمان بنا کر آپؐ کی خدمت مں حاضر کردوں تو کاو آپؐ اسے معاف فرمادیں گے؟“ آنحضرتؐ
نے فرمایا”ہاں“۔ یہ سن کر کعب نے کہا’”مںک ہی کعب بن زہرپ ہوں۔“ مجمع مںر سے کئی لوگوں
نے اسے قتل کرنے کی اجازت چاہی۔ آنحضرتؐ نے فرمایا‘”ٹھہرو! مں اسے امان دے چکا ہوں“۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(بقہ۔ حاشہی صفحہ 203سے آگے) مںا لائی گئی تو اس نے آپ سے اس طرح خطا
کا۔!”مربا والد وفات پا چکا ہے، مرتا بھائی جو مرےا سر پرست ہے، مسلمانوں کے آنے پر
پہاڑوں مںی جاکر روپوش ہوگا ہے۔مںں اپنا فدیہ
ادا نہںت کرسکتی، اس لےک مںم اپنی آزادی کے لےج آپ سے رحم و کرم کی التجا کرتی ہوں۔
مرںا باپ ایک مشہور آدمی تھا،اپنے قبلےف کاسردار تھا، قدےیوں کو آزادکراتا تھا، عورتوں
کی عزت و ناموس کی حفاظت کرتا تھا، غریبوں کو کھاناکھلاتا تھا، مصبت زدوں کو تسکنی دیتا تھا او رکبھی کسی کی درخواست
رد نہ کرتا تھا۔ مںت حاتم کی بینا سفانہ ہوں۔“ آنحضرتؐ نے فرمایا:”تررے باپ مںو مسلمانوں
کے اوصاف تھے۔ اگر مجھے اس کی اجازت ہوتی کہ کسی ایسے شخص کے لےت خدا کے رحم کی دعا
مانگوں جس کی زندگی بت پرستی مںا گزری ہیتومںف حاتم کی روح کے لےا دعائںر مغفرت مانگتا۔“پھر
مسلمانوں کے مجمع سے مخاطب ہوکر آپؐ نے ارشاد کا،”حاتم کی بی ت آزاد ہے‘۔ صفانہ کے
ساتھ اس کی قوم کے سارے آدمی آزاد کردیئے گئے۔سعدی نے اس واقعہ کو بوستان مںپ بڑی خوبصورتی
سے باان کات ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے بعد کعب نے اجازت لے
کر ایک قصد ہ پڑھا جو ہمشہح عربی شاعری کا شاہکار سمجھا گاہ۱؎۔
اب کفّار کو کعبے مںا داخل
ہونے اور اپنی بُت پرستانہ رسوم ادا کرنے کی ممانعت نہ کی گئی تھی۔اب فصلہ کاو گاا اس انمل بے جوڑبات کو ختم کردیا جائے او
راس کا امکان سرے سے رفع کردیا جائے کہ جو لوگ ابھی پوری طرح اسلام کے رنگ مںی رنگے
گئے تھے وہ ازسر نو بُت پرستی کی طرف مائل ہوجائں ۔ چنانچہ اس سال کے آخری مہنےو یینم
ذوالحجہ مںک قربانی کے دن (یوم النحّر) آنحضرتؐ کے ارشاد پرحضرت علیؓ نے ایک بڑے مجمع
کے روبرو ایک اعلان پڑھ کر سنایا، جس کامقصد یہ تھاکہ بت پرستی او راس کی متعلقہ رسوم
قبحہ( کو یک قلم ختم کردیا جائے:۔ ”اس سال کے بعد کوئی بُت پرست کعبے کاحج نہ کرے گا،کسی
شخص کو برہنہ طواف کرنے کی اجازت نہ ہوگی۲؎۔
جن قبائل نے رسولؐاللہ سے
معاہدات کئے ہں وہ ان کے ختم ہونے تک ان پرقائم
رہںا گے۔ دوسروں کو چار ماہ کی مہلت دی جاتی ہے کہ اپنے اپنے علاقوں مںو واپس چلے جائںہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
یہ قصدسہ اپنے شروع کے الفاظ کی مناسبت سے قصدمہ بانت سعاد کہلاتا ہے۔تشبی مںح شاعر
اپنی محبت کا دردناک قصہ باںن کرتاہے۔ اس کی محبوبہ سعاد اسے چھوڑ کر چلی گئی ہے او
روہ بادل غمزدہ و پریشان اس کی تلاش مںہ ایک پابجولاں قد ی کی طرح اس کے پچھےر پچھے چلا جارہا ہے۔ وہ اس کے حسن و جمال۔اس کی نرم وملائم
آواز، اس کی شوخ ہنسی، اس کے دلربا تبسم کی تعریف کرتا ہے۔ گریز کے بعد قصد ہ مدح رسولؐ
مںے تبدیل ہوجاتا ہے۔ قصداے کے الفاظ مںآ شروع سے آخر تک ایک اییا شوکت وبلند آہنگی
ہے جو بعد کی عربی شاعری مںح نہںح پائی جاتی: الحان کے زیر وبم کوبڑی عمدگی سے قائم
رکھا گا ہے۔ جب کعب اس بتک پر پہنچا جواس باب
کا زیب عنوان ہے تو آنحضرتؐ نے اپنا خرقہ اتار کر اسے دے دیا جو بعد مںب کعب کے خاندان
نے چالسئ ہزار درہم مںہ اسرس معاویہؓ کے ہاتھ بچی دیااور بنی اُمہّا اور بنی عباس
ؓ کے قبضے مںا رہنے کے بعد اب سلطنت عثمانہب کے پاس محفوظ ہے۔
۲؎ یہ مذموم دستور کفّار عرب مںس عام تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے بعد ان لوگوں کے سوا
جن کے ساتھ معاہدے ہوچکے ہںد۔ کسی کے بارے مںا آنحضرتؐ پرکوئی ذمہ داری عائد نہ ہوگی۱؎۔“
یہ اعلان جو اعلان برأت کہلاتاہے
آنحضرتؐ کی داتائی و دور اندییے کا ایک بن
ثبوت تھا۔ معاشرے اوراخلاق عامہ کی اس وقت جو حالت تھی ناممکن تھا کہ اسے جاری
رہنے دیا جاتا۔اگر کفّار کو اجازت دی جاتی کہ بدستور حج کے موقعے پر آکر مسلمانوں سے
ملتے رہںر او ران کی آنکھوں کے سامنے اپنی فحش اور ذلل رسومات کو بجالاتے رہںر تو آنحضرتؐ نے اتنی محنت
و جانفشانی سے جو کچھ حاصل کات تھاوہ سب ضائع ہوجاتا۔تاریخ عربوں کی نسل کی ایک شاخ
کو جو انہںر کی طرح غرا متمدن او رانہںی کی طرح صاحبِ جوہر تھی،بت پرستوں مں آباد ہوتے دیکھ چکی تھی۔ اس کے پشوکاؤ ں نے یہودہ
کی پرستش کو برقرار رکھنے کے لےآ بعل کے پرستاروں کو گروہ در گروہ ذبح کا تھا، لکنہ پھر بھی اپنے قصد مںو ناکام رہے۔ بنی
اسرائلک نہ صرف اپنے ماحول کے مضراثرات کاشکار ہوگئے تھے، بلکہ جن لوگوں کو وہ شروع
شروع مںل مکروہات ومذمومات پر کار بند کی وجہ سے نظر حقارت دیکھتے تھے وہ ان مذموہات
ومکروہات پر عمل کرنے مںج ان سے بھی سبقت لے گئے آنحضرتؐ کو یہ احساس تھا کہ کفر و
شرک کے ساتھ کسی قسم کی مفاہمت و مصالحت آپؐ کے کئے کرائے کام کو یکسر تباہ کردے گی۔
اس لےض آپؐ نے ایک ایسا طریقہ کار اختاںر کا
جو بظاہر تو درشت معلوم ہوتا تھالکنم بلحاظِ نتائج منفعت بخش تھا۔ وہ کثرو التعداد
لوگ جنہوں نے حضرت علیؓ کا خطبہ سنا اپنے اپنے گھروں کو واپس چلے گئے، لکنت آئندہ سال
ابھی حج کے دن نہ آئے تھے کہ ان کی اکثریت مشرف بہ اسلام ہوگیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ ابن ہشام، ابن الاثرس، ابو لفداء۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Related
Article:
URL: https://www.newageislam.com/books-documents/urdu-ameer-ali-spirit-part-23/d/124855
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism