New Age Islam
Fri Dec 13 2024, 07:23 AM

Books and Documents ( 19 May 2021, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 6- Mercifulness and Kindness of the Prophet Muhammad pbuh-Part 21 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام : چھٹاباب، آنحضرتؐ کی رحم دلی

سید امیر علی

(قسط 21 )

19 مئی 2021

دَعَا اِلی اللہ فالُمشتمسکون بہٰ

مُشتمکونَ بحَبِل غیر مُنقصِم

6ھ 23اپریل 627ء تا 12اپریل 628ء:۔ مدینے کی نئی دولت عامّہ کی تباہی و بربادی کے لیے یہود و کفّار نے جو زبردست اتحاد قائم کیا تھا وہ یکسر ناکام ہوچکا تھا او ر ایسے طور پر کہ مسلمانوں کے لیے یہ ایک معجزہ تھا۱؎۔ لیکن قرب وجوار کے وحشی اور خونخوار قبائل حدودِ مدینہ کے اندر لُوٹ مار اور کُشت و خون کرتے رہتے تھے۔مملکت کی بقاء متقاضی تھی کہ ان کی سرکوبی کے لیے سخت اقدامات کئے جائیں۔ ان غارت گروں کے خلاف کئی مہمیّں بھیجی گئیں لیکن یہ گریز پا ابنائے صحراء مسلمانوں کی آمد کی خبرسنتے ہی غائب ہوجاتے تھے۔بنی لحیان، جنہوں نے آنحضرتؐ سے درخواست کر کے ارکان اسلام کی تعلیم کے لیے چند مبلّغ اپنے علاقے میں بلوائے تھے اور ان کے آتے ہی بعضوں کو توقتل کردیا تھا او ربعضوں کواہل مکّہ کے ہاتھ بیچ دیا تھا، انہیں ابھی تک کوئی سزا نہ دی گئی تھی۔ لیکن اب اس جرم کی سزا دینے کا وقت آگیا تھا۔ اس سال جمادی الاوّل میں فوج کا ایک دستہ آنحضرتؐ کے زیر قیادت بنی لحیان کے خلاف روانہ ہوا،لیکن ان قزاقوں کو آنحضرتؐ کے آنے کی بروقت اطلاع مل گئی اور وہ بھاگ کر پہاڑوں میں روپوش ہوگئے۔ چنانچہ فوجی دستہ اپنے مقصد کی تکمیل کئے بغیر مدینے واپس آگیا۲؎۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ سورہ الاحزاب9

۲؎ابن ہشام، ابن الاثیر طبری

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تھوڑے ہی دن گزرے تھے کہ خانہ بدوش بنی غطفان کی ایک شاخ بنی فزارہ نے مضافات شہر کے کھلے حصہ پر اچانک حملہ کردیا، مسلمانوں کے اونٹ ہانک کر لے گئے، جو آدمی ان کی خبرگیری کر رہا تھااسے قتل کردیا او راس کی بیوی کو اٹھا کر لے گئے۔مسلمانوں نے فوراً ان کا تعاقب کیا اور چند اونٹ واپس لے آئے، لیکن بدوی لُوٹے ہوئے مال کا باقی حصہ لے کر صحراء کی طرف بھاگ گئے۔

اسی زمانہ کے لگ بھگ آنحضرتؐ نے کو سنائی کے قریب واقع راہب حانہ سینٹ کیتھرین کے راہبوں کو، بلکہ سارے عیسائیوں کو ایک سند نامہ معقوق Charterعطا فرمایا جس کے بارے میں بجا طور پرکہا گیا ہے کہ دنیا کی تاریخ روشن خیالی اور رواداری کی جو اشرف ترین یادگار یں پیش کرسکتی ہے یہ ان میں سے ایک ہے۔یہ دستاویز جسے مؤرخین اسلام نے حرف بحرف قلم بند کیا ہے، وسعت نظر او رآزادی خیال کا ایک حیرت انگیز نمونہ ہے۔ اس دستاویز کی رو سے عیسائیوں کو چند ایسی استثنائی مراعات حاصل ہوئیں جو انہیں اپنے ہم مذہب حکمرانوں کے تحت بھی نصیب نہ ہوئی تھیں۔آنحضرتؐ نے اعلان کردیا کہ اس دستاویز میں جو احکام مندرج ہیں اگر کوئی مسلمان ان کی خلاف ورزی کرے گا یا ان سے ناجائز فائدہ اٹھائے گا تو اسے معاہدہئ الہٰی سے روگردانے والا،اس کے احکام کی خلاف ورزی کرنے والا اور اس کے دین کی تذیل کرنے والا تصور کیا جائے گا۔آپؐ نے عیسائیوں کی حفاظت، ان کے گرجاؤں اور ان کے پادریوں کے مکانوں کی پاسبانی او رانہیں ہر طرح کے گزر سے بچانے کی ذمہ داری اپنی ذات پر بھی او راپنے متبعین پر بھی عائد کی۔ عیسائیو ں سے یہ وعدہ کیا گیا کہ ان پر کوئی ناجائز ٹیکس نہ لگائے جائیں گے، ان کاکوئی پادری اپنے علاقے سے نہ نکلا جائے گا، کسی عیسائی کو خارج نہ کیا جائے گا او رکسی زائر کو سفر زیارت سے نہ روکا جائے گا۔ ان کو اس کی بھی ضمانت دی گئی کہ مسجدیں یا مسلمانوں کے رہنے کے مکان بنانے کے لئے کوئی گرجا مسمار نہ کیا جائے گا۔ جن عیسائی عورتوں نے مسلمانوں سے شادی کررکھی تھی ان کو یقین دلایا گیا کہ وہ اپنے مذہب پر قائم رہنے کی مجاز ہوں گی اور اس بارے میں ان پر کوئی جبر و اکراہ نہ کیا جائے گا۔اگرعیسائیوں کو اپنے گرجاؤں یا خانقاہوں کی مرمت کے لئے یا اپنے مذہب کے کسی اور امر کے بارے میں امداد کی ضرورت ہوگی تو انہیں امداد دیں گے۔ اس امداد کو ان کے مذہب میں شریک ہونے سے تعبیر نہ کیا جائے گا۔بلکہ اسے حاجت مند وں کی حاجت براری اور خدا اور رسولؐ کے ان احکام کی اطاعت سمجھا جائے گاجو عیسائیوں کے حق میں صادرکئے گئے تھے۔اگرمسلمان کسی بیرونی عیسائی طاقت سے برسر جنگ ہوں گے تو مسلمانوں کے حدود کے اندر رہنے والے کسی عیسائی سے اس کے مذہب کی بناء پرحقارت کابرتاؤ نہ کیا جائے گا۔ اگرکوئی مسلمان کسی عیسائی سے ایسا برتاؤ کرے گا تو وہ رسولؐ کی نافرمانی کا مرتکب تصّور ہوگا۔

جو شخص بدی کا بدلہ بدی سے دینے کی طاقت رکھتا ہو، لیکن اس کے باوجودعفو کے خدائی اصول کی نہ صرف تلقین کرے بلکہ اس پر عمل بھی کرے،اس کی سیرت سے متعلق انسانوں کے دل میں ہمیشہ عظمت وبزرگی کا خیال پیدا ہوتا ہے۔ جب آنحضرتؐ رئیس مملکت اور رعایا کی جان و آزادی کے محافظ کی حیثیت سے عدل کرتے تھے تو آپؐ ہر مجرم کو اس کے جرم کی پوری پوری سزادیتے تھے۔لیکن رسولؐخدا او رمعلّم اسلام کی حیثیت سے اپنے بدترین دشمنوں سے بھی نرمی اور رحم کا سلوک کرتے تھے۔ آپؐ کی ذات میں وہ افضل ترین صفات جن کا تصور انسان کرسکتا ہے،یعنی عدل اور رحم،مجتمع تھیں۔

مسلمانوں نے شورش پسند بدویوں کے خلاف جو مہمیں بھیجیں ان میں سے ایک میں قبیلہ حنیفہ کا ایک سردار ثمامہ بن اُثال گرفتار ہوا۔ وہ مدینہ میں لایا گیا جہاں آنحضرتؐ کے کریمانہ برتاؤ سے اتناکھانے پینے کی چیزیں مکے بھیجوانابندکردیا۔ اس سے مکے میں کھانے پینے کی چیزوں کی بڑی تنگی ہوگئی۔ بنی حنیفہ کو راضی کرنے سے عاجزآکر انہوں نے بالآخرآنحضرتؐ سے رجوع کیا او ران سے مداخلت کی درخواست کی۔آپؐ کو ان کی حالت پر رحم آگیا او رآپؐ نے ثمامہ سے سفارش کہ بنی حنیفہ کو ضرورت کی چیزیں بہم پہنچنے دیں۔ چنانچہ ثمامہ کے کہنے پر کاروانوں کو مکّے جانے کی از سر نواجازت مل گئی۔

آنحضرتؐ کی رحم دلی کی بے شمار مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں، لیکن ہم صرف دو مثالوں پر اکتفاکریں گے۔ آنحضرتؐ کی ایک صاحبزادی،جو آپؐ کوبہت عزیز تھیں، صلح حدیبیہ کے بعد مکّے سے ہجرت کررہی تھیں۔ وہ اس وقت حاملہ تھیں۔ جب وہ اونٹ پرسوار ہورہی تھیں تو ہبار نامی ایک قریش نے اپنے نیزے کا دستہ ان کے اس زور سے مارا کہ وہ گر کر زمین پر آگریں اور اس کے نتیجہ میں کچھ مدت کے بعد وفات پاگئیں۔ فتح مکہ کے بعد ہبار کو اشتہاری قاتل قرار دیا گیا۔ کچھ دنوں تک روپوش رہنے کے بعد وہ خود بخودآنحضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپؐ سے رحم کا ملتجی ہوا۔اس کا جرم نہایت سنگین تھا، لیکن آنحضرتؐ کو جو صدمہ پہنچا تھا وہ ذاتی تھا۔ ایسا معلوم ہوتاتھا کہ قاتل اپنے کئے پریشمان ہے اور سچے دل سے ایمان لایا ہے۔چنانچہ اسے غیر مشروط طور پر معانی دے دی گئی۔ اسی طرح ایک یہودن جس نے آنحضرتؐ کو خیبر میں زہر دیا اور عکرمہ بن ابوجہل جسے آنحضرتؐسے شدید ذاتی دشمنی تھی، دونوں معاف کردیئے گئے۔

عیسائی بددیوں کا ایک قبیلہ (بنی کلب)‘ جو دومۃ الجندل کے قریب رہتا تھا، لوٹ مار کرتا ہوا حدود مدینہ تک آپہنچا۔ ان لوگوں کو دعوت اسلام دینے او رانہیں قانون شکینوں سے منع کرنے کے لئے ایک مہم بھیجی گئی۔ اس مہم کے سربراہ کو ہدایات دیتے وقت آنحضرتؐ نے یہ قابل یادگار الفاظ ارشاد فرمائے’۔”کسی حالت میں بھی فریب یا دغابازی سے کام نہ لینا اور کسی بچے کو قتل نہ کرنا۱؎۔“

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎  ابن ہشام۔رسولؐعربی کی ان ہدایات اور حضرت ابوبکر ؓ کے وہ الفاظ جو آپؐ نے یزیدین ابوسفیان کومہم باز نطین پرروانہ کرتے وقت ارشاد فرمائے۔ ان دونوں کا مقابلہ اسرائیلی پیغمبر کے الفاظ ذیل سے کیجئے:۔

”رب الافواج یوں فرماتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔سو اب توجا اور عمالیق کو مار اور جو کچھ ان کا ہے سب کو بالکل نابود کردے اور ان پر رحم مت کر بلکہ مرد اور عورت، ننھے بچے اور شیرخوار،گائے بیل اور بھیڑ بکریاں، اونٹ اورگدھے سب کو قتل کرڈال۔“ اسمیوئیل ب 15۔3 ”تم بوڑھوں او رجوانوں اور لڑکیوں او رننھے بچوں اور عورتوں کو بالکل مار ڈالو۔۔۔۔۔۔“ (حزقی ایل ب9۔6

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جتنی مہمیں بھی غارت گر اور دشمن قبائل کے خلاف بھیجی جاتی تھیں ان کے سرداروں کو آپؐ ہمیشہ یہ تاکیدی حکم دیتے تھے کہ کمزوروں کو ہر گز نہ ستایا جائے۔آپؐ نے جو فوج باز نطینیوں کے خلاف روانہ کی اس سے مخاطب ہوکر آپؐ نے فرمایا:”ہمیں جو گزند پہنچائے گئے ہیں ان کا انتقام لیتے وقت ایسے بے ضر ر لوگوں کو تنگ نہ کرنا جو اپنے گھروں میں خلوت نشین ہیں۔ طبقہ اناث کی کمزوری کا لحاظ رکھنا، دودھ پیتے بچوں اور صاحب فراش بیماروں کو تکلیف نہ دینا۔ جو لو گ تمہارے مقابلہ پر نہ آئیں ان کے مکانوں کو مسمار نہ کرنا، ان کے ذریعہ معاش او ران کے پھلدار درختوں کو تباہ نہ کرنا او رکھجور کے درختوں کو ہاتھ نہ لگانا۔“ حضرت ابوبکرؓ نے اپنے آقا کے متبتع میں اپنے سردار فوج کو یہ ہدایت دیں:”اسے یزید! اپنے لوگوں پر ظلم و ستم نہ کرنا اور انہیں پریشان نہ کرنا،بلکہ اپنے تمام معاملات میں ان کا مشورہ لینا اور وہی کرنا جو حق اور مبنی بر انصاف ہو، کیونکہ جو لوگ ایسا نہیں کرتے ان کے کاموں میں کبھی برکت نہیں ہوتی۔ جب دشمن تمہارے سامنے آئے تو مردانہ وار اس کا مقابلہ کرنااوراسے پیٹھ نہ دکھانااو راگر تمہیں فتح نصیب ہو تو چھوٹے بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کو قتل نہ کرنا، کھجور کے درختوں کو تباہ نہ کرنا اور غلّے کے کھیتوں کو نہ جلانا، کوئی ثمردار درخت نہ کاٹنا او رمویشیوں کو ئی گزیر نہ پہنچا نا، الاّیہ کہ تم انہیں خوراک کے لئے ذبح کرو۔ جب تم کوئی معاہدہ پیمان کرو تو اس پر قائم رہو اور اپنا قول پورا کرو۔جب تم آگے بڑھوگے تو تمہیں کچھ ایسے دیندار لوگ ملیں گے جو راہب خانوں میں رہتے ہیں۔ انہوں نے خدا کی بندگی کا یہی طریقہ اختیار کیا ہے۔ ان سے تعرض نہ کرنا، نہ انہیں قتل کرنا او رنہ ان کے راہب خانوں کو مسمار کرنا۱؎۔“عیسائیوں نے، خواہ وہ کیتھولک تھے، یا پروٹسٹنٹ یایونانی کلیسا کے پیرو،سینٹ لکٹا نیٹس (St. Lactantius)کے زمانہ سے لے کر کوینانٹرون (Covenanters) کے زمانے تک اپنے دشمنوں پر جو خوفناک پھٹکاریں بھیجیں، ان میں او ران ہدایات میں کتنا عجیب تباین ہے۲؎۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ Mill's.History of Muhammedanism, pp. 45,46

۲؎  بیسوی صدی میں ایک عظیم عیسائی طاقت کی فوجوں نے مانچویا کے مقام (باقی حاشیہ 183پر ملاحظہ فرمائیں)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

”شیزادہ امن“ (the Prince of Peace) کے پیروزمانہ حال تک اور عورتوں کے بلاتمیز قتل میں مشغول رہے ہیں۔ روئے ارض پر ان کے نائب، کیا پوپ او رکیا بطریق،کیا بشپ او رکیا پادری،ان جرائم کو نگاہ استحسان سے دیکھتے رہے ہیں اور اکثر انتہا درجہ کے انسانیت سوز مظالم سے مکمل بریت کے فتوے دیتے رہے ہیں۔

اسی سال ماہ شعبان (نومبر دسمبر 627ء) میں بنی مصطلق کے خلاف ایک مہم روانہ کی گئی:۔ ان لوگوں کے اب تک مسلمانوں کے ساتھ و دستانہ تعلقات رہے تھے لیکن اپنے سردار حارث بن ابی ضرار۱؎۔ کی تحریک پرانہوں نے رشتہئ اتحاد توڑ دیا او رمضافات مدینہ پرچھاپے مارنے لگے۔ یہ مہم پورے طور پر کامیاب ہوئی اور بہت سے لوگ قید ہوئے جن میں جو یر یہ بنت حارث بھی تھیں۔

مہاجرین مکہ کو اپنے دین کی خاطر او راس ذات باری کی خاطر جس نے ان کے اندر ایک بالکل نیاشعور حلول کردیا تھااو راتحاد،محبت و اخوت کی روح بیدار کردی تھی اپنا وطن چھوڑے ہوئے اب چھ سال ہوگئے تھے۔عرب کے گوشے گوشے سے لوگ جوق در جوق اس حیرت انگیز انسان کی الفاظ سننے آتے تھے جس نے یہ سب کچھ کر دکھایا تھا او ر وہ آکر اس سے اپنی روزانہ زندگی کے معاملات کے بارے میں مشورہ لیتے تھے، بالکل اسی طرح جس طرح زمانہئ قدیم میں بنی اسرائیل سموئیل بنی سے مشورے لیا کرتے تھے۲؎۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(بقیہ حاشیہ صفحہ 182)بلاگو دیشنک (Blagovestachenk)پر پانچ ہزار چینی مردوں، عورتوں اوربچوں کا جو قتل عام کیا وہ محتاج بیان نہیں۔

۱؎  ابن ہشام، ابن الاثیر

۲؎Stanley's Lectures on the Jewish Church, vol,

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لیکن ان غریب الدّیاروں کے دل ابھی تک اپنے مولد کے لئے ترستے تھے، اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہوکر انہوں نے ایک اجنبی شہر میں پناہ لی تھی۔ وہ اس مقدس حرم کعبہ سے نکالے گئے تھے، جوان کی ہر طرح کی راہ ورسم کا شاندار مرکز او ران کی قومی تاریخ کا واحد محور تھا۔ چھ سال سے وہ اس مقدس معبد کی زیارت سے محروم تھے، جو ایک ایسا دستور تھا جس کے گرد مرورِ زمانہ نے اپنی عتیق روایات کے ساتھ تقد س کا ہالہ ڈال دیا تھا۔ خود پیغمبر اسلام کے دل میں اپنے وطن کو دیکھنے کی اتنی ہی آرزو تھی۔کعبہ کی عبادت گاہ تمام قوم کی ملکیت تھی۔ قریش اس عبادت گاہ کے صرف محافظ تھے اور ملک کا قانون انہیں اس امر کا کوئی اختیار نہ دیتا تھا کہ اگر کوئی دشمن بھی کسی معاندانہ نیت کے بغیر اور اپنے فرائض مذہبی ادا کرنے کی غرض سے کعبہ میں آئے تو اسے داخل ہونے سے روک دیں ۱؎۔

زیارت کعبہ کا موسم آگیا تھا، اس لیے آنحضرتؐ نے عمرہ کی نیت کی منادی کرادی فوراً ایک ہزار آوازوں نے لبیک کہا۔ جلدی جلدی تیاریاں کی گئیں اور آنحضرتؐ سات سو انصار و مہاجرین کو ہمراہ لیے،جو سب کے سب غیر مسلح تھے، عازم کعبہ ہوگئے۲؎۔لیکن قریش کی آتش عناد ابھی تک نہ بجھی تھی۔وہ زائرین کا راستہ روکنے کیلئے ایک فوج کثیر لے کر مکّے سے چندمیل باہر آکر کھڑے ہوگئے، لیکن تھوڑی دیر کے بعد شہر کی طرف پلٹ گئے،تاکہ شہر کے اندر جانے کے تمام راستے بند کردیں۔ انہوں نے حلف اٹھائے کہ آنحضرتؐ کے متبعین کو حرم کعبہ میں داخل نہ ہونے دیں گے او رمسلمانوں نے جو سفیر زیارت کعبہ کی اجازت لینے کے لیے ان کے پاس بھیجا تھا اس کے ساتھ بہت بدسلوکی کی۔ مکّیوں کا ایک گروہ مسلمانوں کے خیموں کے ارد گرد چکر لگانے لگا،اس ارادہ سے کہ اگر کوئی مسلمان خیمہ گاہ سے باہر نکلے تو اسے قتل کردیں۔ اور قوادر انہوں نے آنحضرتؐ پربھی پتھر او رتیر برسائے۳؎۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎  طبری،کوسین دی پرسیوال

۲؎ ابن ہشام، طبری،ابن الاثیر۔ابوالفداء کہتا ہے کہ آپؐ کے ہمراہیوں کی تعداد 1400تھی۔

۳؎  ان پتھر اورتیر برسانے والے لوگوں میں سے کچھ لوگ پکڑے گئے اور آنح ضرتؐ کے سامنے لائے گئے تو آپؐ انہیں معاف کردیا اور چھوڑ دیا (ابن ہشام) اس موقع پرمسلمانوں نے وہ بیعت کی جو بیعت الرّضوان یا بیعت الشجر کے نام سے مشہور ہے۔ حضرت عثمانؓ کو دوسرا قاصد بنا کر قریش (باقی حاشیہ صفحہ 185پر ملاحظہ فرمائیں)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب آنحضرتؐ نے دیکھا کہ کفّارٹس سے مس نہیں ہوتے تو آپؐ نے مسلمانوں اور قریش کی جنگ کو ختم کرنے لیے اہل مکّہ کی تمام شرائط مان لینے پر رضامندی ظاہر کی۔ بڑی ردّد کد کے بعدایک معاہدہ ہوا جس کی رو سے یہ طے پایا گیا کہ لڑائی دس سال کے لیے ملتو ی کردی جائے۔ اگر قریش میں سے کوئی شخص اپنے سردار یا مربی کی اجازت کے بغیر آنحضرتؐ کے پاس چلا آئے تو اسے واپس کردیا جائے گا۔اگر کوئی مسلمان اہل مکّہ کے پاس جائے تو اسے واپس نہ کیا جائے گا۔ اگرکوئی قبیلہ قریش یا مسلمانوں سے اتحاد کرناچاہے تو اسے بلا مزاحمت اس کی اجازت ہوگی۔ اس سال مسلمان وہیں سے واپس چلے جائیں گے اور آئندہ سال انہیں اجازت ہوگی کہ صرف اپنے سفری۱؎ ہتھیار (یعنی تلواریں نیام میں اور نیام جلبان میں) لیے ہوئے مکّے میں داخل ہوں اور تین دن تک مکّے میں قیام کریں۔

اس معاہدہ صلح میں آنحضرتؐ نے جس اعتدال اور عالی ظرفی سے کام لیا وہ آپؐ کے بعض جو شیلے متبعین کو، جن کے دلوں میں قریش کی زیادتیوں او ربے رحمیوں کی خلش ابھی باقی تھی، ناگوار گزری۔معاہدہ کی تیسری شرط کے تحت، جس کی رو سے مسلمان اس پر مجبور تھے کہ وہ ایسے تمام کفّار کو واپس کردیں جو اپنے مربیوں یا سرداروں کی اجازت کے بغیر ان کے پاس چلے آئے تھے۔قریش نے آنحضرتؐ کے متعدد صحابہ کی واپسی کامطالبہ کیا اور یہ مطالبہ فوراً پورا کیا گیا۔ اس کے باوجود کہ بعض صحابہؓ اس امر سے ناخوش نظر آتے تھے۳؎۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(بقیہ حاشیہ صفحہ 184) کے پاس بھیجا گیا تو قریش نے انہیں نرغے میں لے لیا۔ مسلمانوں کے دل میں خدشہ پیدا ہوا کہ مبادا حضرت عثمان قتل کردیئے جائیں۔ چنانچہ انہوں نے آنحضرتؐ کے گرد جمع ہوکر قتل ِعثمانؓ کا بدلہ لینے کی قسم کھائی(ابن ہشام) سورہ فتح18۔میورنے بھی اس کا تذکرہ کیا ہے۔

۱؎  ”سلاح الرّا۔۔۔ ابن ہشام، ابن الاثیر، مشکوٰۃ۔ اس صلح کے موقع پر قریش کا ایک سفیر جو مسلمانوں کی خیمہ گاہ میں بھیجا گیا، آنحضرتؐ کے متبعین کی آپؐ کے ساتھ حیرت انگیز عقیدت و محبت دیکھ کر اس قدر متاثر ہوا کہ قریش کے پاس واپس جاکر بولا۔”میں ے قیصرو کسریٰ او رنجاشی کے دربار دیکھے ہیں،جہاں ہر طرح کی شاہانہ شان و شوکت تھی لیکن محمدؐ کے پیرو جیسی اس کی عزت واطاعت گرتے ہیں اس کی مثال میں نے کسی بادشاہ کے دربار میں نہیں دیکھی۔ابن ہشام، ابن الاثیر،طبری،ابوالفداء

۲؎ چونکہ عورتیں اس شرط میں شامل نہ تھیں، اس لیے کفّار نے (باقی حاشیہ صفحہ 186پر ملاحظہ فرمائیں)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مدینہ واپس آکر آنحضرتؐ نے اپنی روح اس وسیع المشربانہ خواہش کی تکمیل کے لیے کہ آپؐ کا دین ساری نوع انسانی کو اپنی آغوش میں لے لے۱؎ ہمسایہ ملکوں کے بادشاہوں کے پاس اپنے سفیر بھیجے تاکہ انہیں اور ان کی رعایا کو آبِ حیات کا وہ پیالہ پیش کریں جس کا نام اسلام تھا۔ اس ضمن میں دو سفارتیں خاص طور پر قابل ذکر ہیں جو ہر قل شہنشاہ یونان اور خسرو پرویز شہنشاہ ایران کے دربار میں بھیجی گئیں۔شہنشاہ ایران مکے کے اس مہاجر کی اس جسارت پر حیران ہوا کہ وہ خسرو اعظم سے ایک ہمسر کی طرح خطاب کررہا تھا۔ اس نے غضبناک ہوکر آنحضرتؐکے خط کو پرزے پرزے کر ڈالا اور سفیر کو سخت سست کہہ کر دربار سے نکلوادیا۔ جب اس بدسلوکی کی خبر آنحضرتؐ کو دی گئی تو آپؐ نے آہستگی سے فرمایا،”اسی طرح کسریٰ کی سلطنت ایک دن پارہ پارہ ہوجائے گی۲؎۔“ اس پیشگوئی کی تکمیل تاریخ کے اوراق پر ثبت ہے۔ ہر قل، جو طبیعت کانسبتہً زیادہ متواضع تھا، سفیر سے بڑے احترام کے ساتھ پیش آیا اور شائشتگی اور خوش خلقی سے آنح  ضرتؐ کے پیغام کا جواب دیا۔ لیکن شام سے رخصت ہونے سے پہلے اس شخص نے اس کی سیرت وشخصیت سے متعارف ہونے کی کوشش کی جس نے اسے پیغام بھیجا تھا۔ اس مقصد سے اس نے چندعرب سوداگروں میں ابوسفیان بھی تھا، جو اب تک آنحضرتؐ کا سخت ترین دشمن تھا۔ معلوم ہوتاہے کہ یونانی شہنشاہ نے آنحضرتؐ کے متعلق ابوسفیان سے چندسوالات کئے۔ اس کے جواب تقریباً لفظ بلفظ اس خلاصے سے ملتے ہیں جو حضرت جعفر ؓ نے تعلیمات محمدیؐ کے بارے میں نجاشی کے سامنے پیش کیا۔ ہر قل نے پوچھا۔”محمدؐ کن عقائد کی تعلیم دیتا ہے؟“ ابوسفیان نے جواب دیا۔”وہ ہمیں اپنے قدیم بتوں کی پرستش ترک کرنے اور خدائے واحد کی عبادت اختیار کرنے کو کہتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(بقیہ حاشیہ صفحہ185) مسلمان عورتوں کی واپسی کا جو مطالبہ کیا وہ ردّ کردیا گیا۔

۱؎ سورہئ الاعراف۔157،158

۲؎ ابن الاثیر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ کہتا کہ خیرات دو،سچائی اور پاکی سے کام لو، زنا وبدکاری سے پرہیز کرو اور مکروہات سے دور رہو۔“ ہر قل نے پوچھا ”محمدؐ کے پیرو تعداد میں بڑھ رہے ہیں یا کم ہورہے ہیں۔“؟ابوسفیان نے جواب دیا،”اس کے پیروروز بروز بڑھ رہے ہیں اور ان میں ایک بھی ایسا نہیں جس نے اس کا ساتھ چھوڑا ہو۔“

ایک اور سفیر اس کے کچھ مدت بعد غّسانی شاہزادے کی طرف بھیجا گیا جو ہر قل کا باجگذارتھا اور دمشق کے قریب بصریٰ میں رہتا تھا۔ بجائے اس کے کہ سفیر کے ساتھ اس عزت و احترام کاسلوک کیا جاتا جو سفیروں کے شایان شان ہے،اسی خاندان کے ایک اور سردار نے، جو ایک عیسائی قبیلہ کاامیر اور بازنطین کا تابع فرمان تھا،اسے نہایت بے دردی سے قتل کردیا۔ بین الاقوامی واجبات کی یہ بے ہودہ خلاف ورزی بالآخر اس جنگ کا باعث بنی جس نے اسلام اور سارے عالم عیسائیت کو ایک دوسرے کے مقابلہ پر صف آرا کردیا۔بہر حال اس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔

Related Article:

The Spirit of Islam Authored by Sayed Ameer Ali: An Introduction- Part 1 سید امیر علی کی تصنیف ،روح اسلام: ایک تعارف

The Spirit Of Islam Authored By Sayed Ameer Ali: Preface – Pre Islamic Social And Religious Conditions Of The World- Part 2 سید امیر علی کی تصنیف ،روح اسلام: مقدمہ ، اسلام سے پہلے اقوام عالم کے مذہبی اور معاشرتی حالات

The Spirit Of Islam: Preface- Social And Religious Conditions Of the Aryans- Part 3 روح اسلام: بعثت اسلام کے وقت آریہ قوم کے مذہبی ومعاشرتی حالات

Sayed Ammer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Preface- Social And Religious Conditions Of Iran Before Islam- Part 4 روح اسلام: اسلام سے قبل ایران کے مذہبی ومعاشرتی حالات

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Preface- Social And Religious Conditions of the World Before Islam- Part 5 روح اسلام: اسلام سے قبل دنیا کے مذہبی ومعاشرتی حالات

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Preface- Social And Religious Conditions of the World Before Islam- Part 6 روح اسلام: اسلام سے قبل دنیا کے مذہبی ومعاشرتی حالات

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Preface- Pre-Islamic Conditions of the Christian World روح اسلام: اسلام سے قبل عیسائی دنیا کی مذہبی حالت

 Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit of Islam’: Preface- Pre-Islamic Conditions of the Christian World-Part 8 روح اسلام: اسلام سے قبل عیسائی دنیا کی مذہبی اور سماجی حالت

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Preface- Pre-Islamic Conditions of the Arabs-Part 9 روح اسلام: اسلام سے قبل عیسائی دنیا کی مذہبی اور سماجی حالت

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit of Islam’: Preface- Pre-Islamic Conditions of the Arabs-Part 10 روح اسلام: ماقبل اسلام عرب کی مذہبی اور سماجی حالت 

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 1- The Messenger of Allah -Part 11 روح اسلام: پہلا باب پیغمبر اسلام کی ابتدائی زندگی

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 1- The Prophet’s Life and Prophet-hood -Part 12 روح اسلام: رسول اللہ کی زندگی اور رسالت

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit of Islam’: Chapter 1- The Revelation of the Quran and Declaration of Prophethood -Part 13 روح اسلام:نزول وحی کی ابتدا اور اعلان نبوت

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 1- The Life of The Prophet and His Companions In Early Days of Islam -Part 14 روح اسلام: مکی دور میں رسول اللہ اور صحابہ کی زندگی

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 1- The Life of The Prophet and His Companions In Early Days of Islam -Part 15 روح اسلام: مکی دور میں رسول اللہ اور صحابہ کی زندگی

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 2- The Prophet’s Migration Towards Madina Part 16 روح اسلام : دوسرا باب: مدینہ کی طرف رسول اللہ کی ہجرت

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 3- The Prophet’s Life in Madina Part 17 روح اسلام : تیسرا باب: رسول اللہ کی زندگی مدینہ میں

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 4- Enmity Between Quraish and Jews-Part 18 روح اسلام : چوتھا باب ،قریش اور یہود کی دشمنی

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 5- The Attack of Quraish on Madina-Part 19 روح اسلام : پانچواں باب ، قریش کا مدینے پر حملہ

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 5- The Attack of Quraish on Madina-Part 20 روح اسلام : پانچواں باب ، قریش کا مدینے پر حملہ

URL: https://www.newageislam.com/books-documents/urdu-ameer-ali-spirit-part-21/d/124842

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..