New Age Islam
Tue Dec 10 2024, 04:55 AM

Books and Documents ( 4 Nov 2020, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 5- The Attack of Quraish on Madina-Part 20 روح اسلام : پانچواں باب ، قریش کا مدینے پر حملہ



سید امیر علی

(قسط 20 )

شوال 2 ھ (فروری 624 ء):۔ان دو غدّاروں کے حشر اور ان کے برادران بنی قینقاع کے مدینہ سے اخراج نے بنی نضیر کے سینوں میں پیغمبر اسلام کے خلاف شدید عداوت کے جذبات پیدا کر دیئے تھے۔بنی قینقاع کی جلاوطنی کے حالات مجمل سے بیان ددکے محتاج ہیں۔ جہاں دوسرے یہودی قبیلے زیادہ تر زراعت پیشہ تھے وہاں بنی قینقاع کا نہ کوئی کھیت تھا نہ نخلستان۔یہ لوگ زیادہ تر ودستکار تھے جو ہر طرح کی صنعت و حرفت میں مشغول تھے۱؎۔ یہ لوگ باغی فطرت اور شورش پسند تھے۔ اسکندر یہ کے یہودیوں کی طرح ہر وقت لڑائی جھگڑے کے لیے تیار رہتے تھے او راپنے پست اخلاق کے لیے بدنام تھے۔ ایک دن کا واقعہ ہے کہ دیہات کی ایک نوجوان لڑکی ان کے بازار میں دودھ بیچنے آئی۔ یہودی نوجوانوں نے اس کی سخت توہین کی۔ ایک مسلمان نے جو ادھر سے گزرہا تھا، لڑکی کی حمایت کی۔ اس پر بلوہ ہوگیا جس میں بے حرمتی کرنے والا لڑکا مارا گیا۔لڑکے کاقتل ہونا تھا کہ جتنے یہودی وہاں موجود تھے وہ تمام اٹھ کھڑے ہوئے اور مسلمان کو قتل کردیا۔ اس کے بعد ایک خوفناک ہنگامہ برپا ہوگیان۔ مسلمانوں نے اپنے بھائی کے قتل پر غضبناک ہوکر ہتھیار اٹھالئے۔خون کی ندیاں بہہ نکلیں اورطرفین کے بہت سے آدمی مارے گئے۔ اس ہنگامہ کی خبر پاتے ہی آنحضرتؐ موقع پرپہنچے۔آپؐ کی موجودگی نے آپؐ کے متبعین کے غصے کو حد سے تجاوز کرنے سے روکا۔ آپؐ پر فوراً واضح ہوگیا کہ اگر ان بغاوتوں اور شورشوں کی روک تھام نہ کی گئی تو ان کا نتیجہ کیا ہوگا۔ مدینہ کشت و خون کا اکھارا بن جائے گا جس میں مخالف گروہ کسی قانون گرفت کے بغیر ایک دوسرے کو قتل کردیں گے۔ یہودیوں نے کھلم کھلا اور دیدہ و دانستہ معاہدے کی شرائط کو توڑا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(بقیہ حاشیہ صفحہ 166) میں سے ایک کے ساتھ شامل ہوجائیں اور یوں حکومت کی طرف سے سزا دینے والے بن جائیں۔ وہ اس بات کو بھی بھول جاتے ہیں کہ اور تو اور عیسائی انگلستان کا قانون بھی ہر شخص کو اجازت دیتا ہے کہ وہ کسی راندہ قانون کا پیچھا کرے او راسے قتل کردے۔

۱؎  طبری

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  ضروری تھا کہ ان امن شکنیوں کو سختی سے روکا جائے ورنہ امن و سلامتی کی تمام امید وں کو الوداع کہنا پڑے گا۔چنانچہ آنحضرتؐ فوراً بنو قینقاع کے علاقے میں گئے اور ان سے مطالبہ کیا کہ اسلام قبول کر کے قطعی طور پر دولت عامہ اسلام میں داخل ہوجائیں،ورنہ مدینہ خالی کردیں۔ یہودیوں نے نہایت گستاخانہ الفاظ میں اس مطالبہ کا جواب دیا: اے محمدؐ! اپنی قوم (یعنی قریش) پر فتح حاصل کر کے آپے سے باہر نہ ہوجا۔ تجھے اب تک ایسے لوگوں سے معاملہ پڑا ہے جو فن جنگ سے ناواقف ہیں۔مگر تجھے ہمارا مقابلہ کرنے کی خواہش ہے تو ہم تجھے دکھادیں گے کہ ہم مرد ہیں ۱؎“۔یہ جواب دے کر یہودیوں نے اپنے قلعے کے دروازے بند کرلیے اور آنحضرتؐ کی حاکمیت تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ ان کا مطیع فرمان بنانا قطعی ضروری تھا۔ اس لیے فوراً ان کے قلعے کا محاصرہ کرلیا گیا۔ پندرہ دن کے بعد انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے۔پہلے تو انہیں سخت سزا دینے کا ارادہ تھا، لیکن آنحضرتؐ کی رحم دلی عدل کے سخت گیر تقاضے پر غالب آگئی، اور صرف جلاوطنی پر اکتفاکیا گیا۔

یہ تمام واقعات بنی نضیر کے سینوں میں کانٹوں کی طرح کھٹک رہے تھے۔ وہ آنحضرتؐ سے چھٹکارا پانے کے لیے کسی مناسب موقع کی تاک میں تھے۔آنحضرتؐ کو اپنے علاقے میں دیکھ کر ان کی مراد بر آئی۔ لیکن، جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں، ان کے ناپاک منصوبے آنحضرتؐ کی آنکھوں سے پوشیدہ نہ رہ سکے۔آپؐ یہودیوں کے دل میں شکوک پیدا کئے بغیر فی الفور واپس چلے گئے ورنہ آپؐ کی اور آپؐ کے متبعین کی ہلاکت یقینی تھی۲؎۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎  بن ہشام۔طبری قنیقاع کے جواب کو قدرے مختلف طور پر بیان کرتا ہے لیکن تمام مورخین متفق ہیں کہ گستاخانہ اور توہین آمیز تھا۔گبّن(Gibbon) نے یہودیوں کی طرف سے جو عاجزانہ جواب قلمبند کیا ہے، میری سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ اسے کہاں سے دستیاب ہوا۔

۲؎  اگر آنحضرتؐ یا آپؐ کے صحابی یہودیوں پر یہ ظاہر ہونے دیتے کہ آپؐ کے دل میں شک پیدا ہوگیا ہے تو یہودی فوراً کچھ گذرتے اس لیے آنحضرتؐ اکیلے وہاں سے تشریف لے گئے اور اپنے ساتھیوں کو پیچھے چھوڑ گئے۔ اس سے یہودیوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ آپؐ ابھی زیادہ دور نہیں گئے ہوں گے او رجلد ہی لوٹ آئیں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب بنی نضیر نے اپنے لیے بالکل وہی صورت حال پیداکرلی تھی جو ان سے پہلے بنی قینقاع اپنے لیے پیدا کر چکے تھے۔انہوں نے خود اپنے افعال کی بدولت اپنے آپ کو معاہدے کی حدود سے خارج کردیا تھا۔چنانچہ آنحضرتؐ نے مدینے میں آتے ہی بنی نضیر کو اسی مضمون کا پیغام بھیجا، جیسا بنی قینقاع کو بھیجا تھا۔ بنی نضیر نے منافقین اور عبداللہ ابن ابی کی حمایت کے بل بوتے پر گستاخانہ جواب دیا، لیکن عبداللہ نے اور ان کے برداران بنی قریظ نے امداد کاجو وعدہ کیا تھا جب وہ پورا نہ ہوا تو پندرہ۱؎ دن کے محاصرہ کے بعد انہوں نے صلح کی التجا کی جو شرائط بنی قنیقاع کو پیش کی گئی تھیں وہی ان کو پیش کی گئیں او رانہوں نے اپنے علاقے خالی کر دینے کا اقرار کیا۔ اسلحہ۲؎ جنگ کے سوا انہیں تمام اسباب منقولہ لے جانے کی اجازت دی گئی، لیکن جانے سے پہلے انہوں نے اپنے تمام مکان مسمار کردیئے تاکہ مسلمان ان میں نہ رہ سکیں ۳؎۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎  بقول طبری گیارہ دن

۲؎ ابن ہشام، ابن الاثیر، ابوالفداء

۳؎  سورہ حشرآیت 2

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ربیع الاوّل 4ھ۔مطابق جون تا جولائی 625ء:۔ ان کی زمینوں کے سامان جنگ وغیرہ کو جو وہ اٹھا کر اپنے ساتھ لے جاسکتے تھے، آنحضرتؐ نے انصار کی اجازت سے جو بخوشی تمام دی گئی، مہاجرین میں تقسیم کردیا، جو اب تک اہل مدینہ کی فیاضی کے محتاج تھے،مہاجرین اور انصار میں جو بر ادرانہ محبت تھی اس کے باوجود آنحضرتؐ کو معلوم تھاکہ مہاجرین کے لیے اہل مدینہ کی امداد پر مستقلاً انحصار کرنا ممکن نہیں۔ اس لیے آپؐ نے انصار کے اکابر کو جمع کیا اور ان سے دریافت کیا کہ اگر آپ ان کے غریب بھائیوں میں جو آپ کے جلوس میں مکّہ سے آئے تھے، یہودیوں کا چھوڑا ہوا مال تقسیم کردیں تو انہیں کچھ اعتراض تو نہ ہوا۔ انہوں نے ایک آواز ہوکر جواب دیا، ”یہودیوں کامال ہمارے بھائیوں میں تقسیم کردیجئے،بلکہ ہمارے مال کابھی کچھ حصہ انہیں دیجئے۔ہم بخوشی اجازت دیتے ہیں۔“چنانچہ آنحضرتؐ نے یہودیوں کی جائیداد مہاجرین میں اور دو انصاریوں میں جو نہایت غریب تھے تقسیم کردی۱؎۔

بنی نضیر کی جلاوطنی ربیع الاوّل 4؁ھ میں ہوئی ۲؎۔ اس سال کاباقی حصہ اور آئندہ سال کا ابتدائی حصہ خانہ بدوش قبائل کی وقتاً فو قتاً شورشوں اور مدینے پر چند خوں ریز حملوں کی سرکوبی میں صرف ہوا۳؎۔

اس اثنا ء میں دشمنان دین بھی بے کارنہ رہے تھے۔کفّارنے قبائل کومسلمانوں کے خلاف ابھارنے کے لیے دور و دراز علاقوں میں سفیر بھیجے تھے۔ ان کوششوں میں یہود سب سے زیادہ سرگرمی دکھا رہے تھے۔ بنی نضیر کے کچھ لوگوں نے اپنے بھائی بندوں کے ساتھ جو خیبر کے قریب آباد تھے بودوباش اختیار کرلی تھی۔ وہاں انتقام کی آگ سینہ میں بھڑکائے وہ لوگ مسلمانوں کی تباہی کے لیے ایک اور انجمن بنانے کی کوششوں میں مصروف تھے۴؎۔ ان کی کوششیں ان کی امیدوں سے بھی بڑھ کر بارآور ہوئیں۔ ایک زبردست اتحاد وجود میں آگیا، اور شقی القلب ابوسفیا ن کی قیادت میں دس ہزار سپاہیو کی ایک فوج،جو سازو سامان سے آراستہ تھی، مدینے پر حملہ کرنے کے لیے روانہ ہوئی۔ کاس کو رستہ میں کوئی مزاحمت پیش نہ آئی، چنانچہ اس نے مدینے سے چند میل کے فاصلے پررُک کر اُحد کی سمت، جو مدینے کا سب سے غیر محفوظ  پہلو تھا، پڑاؤ ڈالا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎  ابن ہشام، ابن الاثیر،طبری۔ اس کے بعد یہ اصول مقرر ہوگیا کہ جنگ کے مال غنیمت کے علاوہ اگر کوئی اموال و املاک ہاتھ آئیں تو نہیں مملکت یارئیس مملکت کی ملکیت سمجھاجائے اور ان کے استعمال کا اختیار صرف رئیس مملکت ہو۔Droit Musulman by M. Querrty, p. 337

سورہئ حشر میں جن واقعات کی طرف اشارہ ہے وہ تقریباً تمام تر بنی نضیر کی جلاوطنی سے تعلق رکھتے ہیں۔

۲؎  بقول ابن ہشام و ابوالعذاء۔طبری کہتا ہے کہ یہ صفر کا مہینہ تھا۔

۳؎  اسی قبیل کی ایک وہ مہم تھی جو دومَتہُ الجندل (جو بقول،ابوالعذاء دمشق کے جنوب کی طرف سات دن کی مسافت پر واقع تھا) کے عیسائی عربوں کے خلاف بھیجی گئی جنہوں نے مدینہ والوں کے لیے شام کا راستہ بند کردیا تھا، بلکہ مدینہ پر حملہ کرنے کی دھمکیاں بھی دیتے تھے۔لیکن یہ قزاق مسلمانوں کے آنے پر بھاگ نکلے، اور آنحضرتؐ ایک ہمسایہ سردار سے معاہدہ کرنے کے بعد مدینہ واپس آگئے۔ اس سردار کوآپؐ نے مدینے کی چراگاہوں میں ریوڑ چرانے کی اجازت دی۔ کوسین دی پرسیوال اور طبری۔

۴؎  ابن ہشام، ابن الاثیر، طبری۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شوال 5۔2 فروری 627ء:۔اس لشکر کا مقابلہ کرنے کے لیے مسلمان صرف تین ہزار آدمی جمع کرسکے۱؎۔ِاپنی تعداد کی قلّت او رمدینے کے اندر رہنے والے منافقین کی فتنہ پروازیوں کی وجہ سے، انہیں دشمنوں پر حملہ آورہونے کی بجائے دفاعی تدابیر اختیار کرنے پر اکتفا کرنا پڑا۲؎۔ چنانچہ انہو ں نے مدینے کے غیر محفوظ حصوں کے ارد گرد گہری خندق کھودی او راپنے بیوی بچوں کوحفاظت کی خاطر اپنے قلعہ بندمکانوں میں چھوڑ کر شہر کے باہر خندق کے پیچھے پڑاؤ ڈالا۔ جہاں تک شہر کے دوسرے پہلو کا تعلق تھا اس کی حفاظت کے لیے انہوں نے اس پر بھروسہ کیا کہ بنی قریظ اگر ان کی امداد نہ کریں گے تو کم از کم غیر جانبدار تورہیں گے۔ مدینہ سے تھوڑی دور جنوب مشرق میں بنی قریظ کے متعدد قلعے تھے اور معاہدے کی رو سے ان کا فرض تھا کہ وہ ہر حملہ آور کے خلاف مسلمانوں کی امداد کریں، لیکن کفّار کے ایماء پر انہوں نے عہد شکنی کی اور قریش کے ساتھ مل گئے۔جب آنحضرتؐ کو ان کی عہد شکنی کی خبر ملی تو آپؐ نے سعد بن،یعنی سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ کو ان کے فرائض کی یاددہانی کے لیے ان کے پاس بھیجا۔ انہوں نے سرکشی اور بد مزاجی سے جواب دیا۔”کون ہے یہ محمدؐ رسول اللہ کہ ہم اس کی اطاعت کریں؟ ہمارے اور ان کے درمیان کوئی عہد و پیمان نہیں ۳؎۔“

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎  ابن ہشام

۲؎  سورہ احزاب آیات 12,13اور 14

۳؎  ابن ہشام۔سرولیم میور۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چونکہ یہودی موقع و محل سے بخوبی واقف تھے اور محاصرہ کرنے والوں کو ایسے مقامات دکھا کر جو دفاع کے نقطہئ نظر سے کمزور تھے ان کی مدد کرسکتے تھے، مسلمانو ں میں بہت سراسیمگی پھیل گئی۔ اندرون شہر میں منافقین کی موجودگی نے خطرہ او ربھی بڑھا دیا۱؎۔

جب کفار او ریہود مسلمانوں کو کھلے میدان میں لانے یا یہودی مخبروں کی رہنمائی میں شہر پرناگہانی حملہ کی کوششوں میں ناکام رہے تو انہوں نے ایک باقاعدہ حملہ کا تہیہ کرلیا۔انہیں محاصرہ کئے بیس دن ہوچکے تھے۔ صحرا کے آتش زیر پا اورنچلے نہ بیٹھنے والے قبیلے،جنہوں نے مسلمانوں کو آسانی سے ہاتھ آنے والاشکار سمجھ کر قریش اور یہودسے قول و قرار کیا تھا،اس طویل محاصرہ سے اُگتا گئے تھے۔ اس نازک مرحلے پرمحاصرہ کرنے والی فوج کے سرداروں نے خندق عبور کرنے اور مسلمانوں کی چھوٹی سی جماعت پرٹوٹ پڑنے کی انتہائی کوششیں کیں لیکن مسلمانوں کی چوکسی نے ان کی ہر کوشش کو ناکام بنا دیا۔ اب ایسا معلوم ہونے لگا کہ موسم اور حالات نے مل کر محاصرہ کرنے والو ں کے خلاف محاذ قائم کرلیا ہے۔ ان کے گھوڑے یکے بعد دیگرے بھوک سے مررہے تھے او ران کا سامان رسد کم ہوتا چلا جارہاتھا۔ ان میں پھوٹ پڑرہی تھی، اور مسلمانوں کے دور اندیش سردار نے بے مثال زیر کی سے کام لے کر اس کو اور بھی بڑھا دیا۔ یکایک یہ ٹڈی دل، جس نے مسلمانوں کی ناگریز تباہی کے آثار پیدا کردیئے تھے، ہوا میں کافور ہوگیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎  اس تمام منظر کامرقع اس خوبصورتی سے قرآن کے سورہئ الاحزاب میں کھینچا گیا ہے کہ میں اس کی چند آیات کا اقتباس پیش کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ”جب ان لوگوں نے تم پر اوپر سے بھی اور نیچے سے بھی چڑھائی کی اور تمہاری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں اور تمہارے کلیجے منہ کو آنے لگے، اورتم لوگ اللہ کے بارے میں طرح طرح کے گمان کررہے تھے، اس وقت مومنوں کاامتحان کیا گیا، اور ان پوشیدلرزہ طاری تھا،اور جب منافقین او روہ لوگ جن کے دلوں میں (شک کا مرض ہے) یوں کہہ رہے تھے کہ ہم سے تو اللہ اور اس کے رسولؐ نے محض دھوکے ہی کا وعدہ کررکھا ہے۔“(الاحزاب 12,11,10)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات کے اندھیرے میں، جب طوفان بادوباراں برپا تھا، دشمنوں کے خیمے اُکھڑ اُکھڑ کر گررہے تھے اور ان کی روشنیاں گل ہو رہی تھیں، ابوسفیان اپنے ہیبت ناک لشکر کو لے کر بھاگا، او ر جوتھوڑے بہت لوگ بچ رہے انہوں نے قریظ کے یہاں پناہ لی۱؎۔ آنحضرتؐ نے رات ہی کو دشمنوں کے انتشار کی پیش گوئی کردی تھی۔صبح ہوتے ہی مسلمانوں نے اس پیش گوئی کو پورا ہوتے دیکھ لیا۔ اور خوش خوش شہر میں واپس آئے۲؎۔

5ھ 28فروری 626ء تا 24 مارچ 627ء:۔ لیکن جب تک بنی قریظ اس قدر قریب تھے کہ مدینے کو ان سے ہر وقت خطرہ تھا اس وقت تک مسلمان اپنی فتح کو مکمل نہ سمجھ سکتے تھے۔ بنی قریظ نے اپنے حلف و اقرار کے باوجود غدّار ی کی تھی بلکہ ایک دفعہ بے خبری میں حملہ بھی کرنے والے تھے۔اگروہ ایسا کر پاتے تو اس کا نتیجہ مسلمانوں کا قتل عام ہوتا۔ اس لیے مسلمانوں نے اس کی غدّاری کا جواب طلب کرنا فرض سمجھا۔یہود نے اپنی ہٹ پر قائم رہ کر جواب دینے سے انکار کردیا۔ نتجۃً یہودیوں کا محاصرہ کر لیا گیا او روہ ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوگئے۔ انہوں نے صرف ایک شرط پیش کی۔ وہ یہ کہ ان کے بارے میں فیصلہ بنی اوس کے سردار سعد ابن معاذ پر چھوڑ دیا جائے۔ سعد بن معاذ ایک تند مزاج سپاہی تھے۔ وہ حملہ کے درمیان زخمی ہوئے تھے (اور ان زخموں ہی کی وجہ سے انہوں نے کچھ مدّت بعد وفات پائی) یہودیوں کے غدّار انہ طرز عمل پر غضبناک ہوکر انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ان کے جنگ کے قابل آدمی قتل کردیئے جائیں او ران کی عورتوں او ربچو ں کو مسلمانوں کی غلامی میں لے لیا جائے۔چنانچہ اس فیصلہ پر عمل کیا گیا۳؎۔ لین پول (Lane Poole) لکھتا ہے۔”یہ ایک ایسا سخت اور خونین فیصلہ تھا جو البی پرحملہ کرنے والی کلیسائی افواج کے جرنیلوں کو زیب دیتا تھا،یا اس کی مثال آگسٹن دور کے پیوریٹنوں (Puritans) کے ہاں ملتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎  ابن ہشام،ابن الاثیر

۲؎  یہ جنگ غزوہئ خندق کہلاتی ہے۔

۳؎ ابن ہشام،ابن الاثیر،طبری

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لیکن یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ان لوگوں کا جرم مملکت سے غداری تھا اور وہ بھی ایک محاصرے کے دوران،اور جن لوگوں نے تاریخ میں یہ پڑھا ہے کہ ولینگٹن کی فوج جس راستے سے گزری اس کی نشاندہی مفرور سپاہیوں او رلوٹ مار کر نے والوں کی لاشیں کرتی تھیں جو درختوں پر لٹکی ہوئی تھیں، انہیں ایک غدّار قبیلے کے ایک سرسری فیصلہ کی رو سے قتل کئے جانے پر متعّجب نہ ہونا چاہئے۱؎۔

مختلف یہودی قبائل کو جو سزا دی گئی اس نے میو ر (Muir) اسپرنیگر(Sprenger) وائل (Well) اور اوزبرن (Osborn) جیسے آنحضرتؐ کے سوانح نگاروں کے لیے آپؐ پر حملے کرنے کا ایک موقع مہیا کردیا ہے۔ بنی قینقاع او ربنی نضیر کو جو سزا دی گئی وہ اس سزا سے بہت ہلکی تھی جس کے وہ مستحق تھے۔ صرف بنی قریظ کے ساتھ سختی برتی گئی۔

انسانی فطرت کی ساخت ہی کچھ ایسی ہے کہ کسی شخص کے افعال چاہے کتنے ہی مجرمانہ ہوں، اگر اس سے ایسابرتاؤ کیا جائے جو ہمیں درشت یا ظالمانہ معلوم ہوتا ہے تو ہماری طبیعت میں قدرتی طور پر اس برتاؤ کے خلاف ایک جذبہ بغاوت پیدا ہوجاتا ہے اوررحم انصاف پر غالب آجاتا ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ بنی قریظ کو جو سزا دی گئی وہ ہمارے نقطہ نگاہ سے سخت تھی، لیکن اس امر پر چاہے کتنا ہی افسوس کیوں نہ ہو کہ ان لوگوں کی قسمت کا فیصلہ (اگرچہ خود ان کی درخواست پر) ایک غضبناک سپاہی کے ہاتھوں میں چھوڑ دیا گیا۔ اور چاہے ہمیں اس امر پر بھی کتنا ہی افسوس کیو ں نہ ہو کہ اس شخض فیصلے پر فوراًعمل کیا گیا، پھر بھی ہمیں جذبات رحم سے متاثرہوکر جرم او راس کی منصفانہ سزا کے مسئلہ کو نظر اندازنہ کردیناچاہیے۔ہمیں ان لوگوں کے جرائم کو پیش نظر رکھناچاہئے۔۔ ان کی غدّاری،ان کی کھلم کھلا دشمنی اور ان کا ایک ایسے معاہدہ سے انحراف جس کی پابندی کا انہوں نے حلف اٹھایا تھا۔ ہمیں ان ترغیبات کو بھی نہ بھولناچاہئے جو پاک یہوہ کے یہ پرستار کفّار عرب کو بُت پرستی کی رسم جاری رکھنے کے لیے دیتے تھے۔ممکن ہے کہ بعض مسلمان عیسائی ناصح اخلاق کے ہمنوا ہوکر یہ کہنے پر مائل ہوں:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ Selections from the Koran, Intero, p. ixv

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں شامل ہونے کی ترغیب دیں ۱؎۔

”بُرے لوگوں کا ایک بار نہیں بلکہ سوبار تباہ کرنا اس سے بہتر ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو جو ابھی تک بے گناہ ہیں اپنی جماعت یہ مسلمان اس ناصح کے ہمنوا ہوکر، اور صرف ایک لفظ میں تصرف کر کے، یہ بھی کہہ سکتے۔”آئیے ہم ذرا اس پر غور کریں کہ ہمارا اور تمہارا دوسری اقوام کا جو اس وقت آسمان کے نیچے آباد ہیں کیا حشر ہوتااگر عربوں ۲؎۔ کی تلوار اپنا کام پوری طرح انجام نہ دیتی۔عربوں کی تلوار نے اپنے خونین سے خونین قتال میں بھی دنیا کے تمام ملکوں کے حق میں ایک ایسا کاررحمت انجام دیا جو ررہتی دنیا تک زندہ رہے گا۔“اگر عیسائی کا استدلال صحیح ہے اور خلاف انسانیت نہیں ہے تو یقینا مسلمان کا استدلال بھی صحیح ہے اور خلاف انسانیت نہیں ہے۔ بہر حال ممکن ہے کہ بنی قریظ کوجو خوفناک سزا دی گئی اسے دوسرے مسلمان اسی روشنی میں دیکھیں جس میں کارلائل (Carlyle) ڈروگیڈا (Drogheda) کے باشندوں ”ایک مسلح سپاہی اس ایقانی شعور کے ساتھ کہ وہ خدا کا سپاہی ہے (اور یہ ایک ایسا شعور ہے جو تمام سپاہیوں اور تمام انسانوں کو ہر وقت رکھنا چاہئے)‘ ایک مسلح سپاہی،فرشتہ ئ اجل کی طرح ہیبت ناک، تقدیر کی طرح بے رحم، خدا کے دشمنوں کوخدائی فیصلہ کے مطابق سزا دیتا ہوا۔“

لیکن ان یہودیوں کو جو سزا دی گئی ہم اسے ان ددنوں میں سے کسی ایک نقطہ نگاہ سے بھی نہ دیکھتے۔ ہم اسے خالصتاً ایک ایسا عمل سمجھتے ہیں جو ان قوانین جنگ کے مطابق کیا گیا جو اس وقت اقوام عالم میں رائج تھے: ”اس زمانہ کے مسلّمہ آداب جنگ کا پورا پورا اطلاق ۳؎۔“

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎  Arnold,Sermons, 4th sermon''Wars of the Israelites" pp. 35,36

۲؎  اصل عبادت میں ”اسرائیلیوں“ کالفظ ہے۔

۳؎ Grote, Hist. of Greece

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان لوگوں پر جو کچھ گزری وہ ان کے اپنے کئے کی سزا تھی۔ اگر انہیں سعد بن معاذ کے فیصلہ کے بغیر بھی قتل کردیا جاتا تویہ اس زمانے کے قوانین کے بالکل مطابق ہوتا۔ لیکن انہوں نے خود سعد بن معاذ کو اپنی قسمت کافیصلہ کرنے کے لیے انتخاب کیا تھا۔ انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ سعد کافیصلہ مسلّمہ قوانین کے منافی نہیں ہے۔ اسی لیے انہوں نے کوئی عذر پیش نہیں کیا۔ وہ جانتے تھے کہ اگر فتح ان کی ہوئی ہوتی تو وہ اپنے دشمنوں کو کسی تر و دیاتامّل کے بغیر ذبح کر ڈالتے۔لوگ حضرت داؤد ؑ کی خوں ریزیوں کو اس وقت کی ”روشنی میں“ دیکھتے ہیں ۱؎ عیسائیوں نے ابتدائی ایّام میں کشت وخون کابازار گرم کیا وہ بھی خاص ”روشنیوں“میں دیکھا جاتاہے۔ پھر ابتدائی مسلمانوں کی دفاعی لڑائیاں اسی نقطہ نگاہ سے کیوں نہ دیکھی جائیں؟ بہر حال نقطہ نظر چاہے کوئی بھی ہو، بے تعصّب طبائع ۲؎  تسلیم کریں گی کہ بنی قریظ کے قتل کے لیے پیغمبر اسلامؐ کو کسی طرح موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔

مقتولین کی تعداد زیادہ سے زیادہ دواڑھائی سو تھی۔

کہا جاتا ہے کہ بقیۃ السّیف کی تقسیم میں ریحانہ نام کی ایک نوجوان یہودن آنحضرتؐ کے حصہ میں آئی۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ تقسیم سے پہلے ہی آپؐ کے لیے الگ کرلی گئی تھی عیسائی مورخین جو ہر وقت آنحضرتؐ پر حملہ کرنے کا موقع کی تاک میں رہتے ہیں،اس افسانہ سے بھی ناجائز فائدہ اٹھانے سے نہیں چوکے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۲؎ سموئیل ب8۔3 ”اور اس نے ان لوگوں (یعنی ہارے ہوئے بنی عمّون) کو جو اس میں تھے، باہر نکال کر ان کو آروں اور لوہے کے سینگوں اور لوہے کے کلہاڑوں کے نیچے کردیا اور ان کو اینٹوں کے پزادے میں سے چلوایا۔۔۔۔“

۲؎  سموئیل ب12۔31۔نیز ملاحظہ ہو:

1 Maitland, Jewish Literature and Modren Education

2 Stranley's Lectures on the Jesish Church, vol. ii,p.99

۳؎  جویورپی مصنفین تعصّب کا شکار نہیں ہوئے، ان میں سے مجھے صرف تین کے نام یاد آتے ہیں:َ موسیوبار تھیلمی سنیٹ بلیر،مسٹر سٹانلی لین پول۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

غلامی کے موضوع سے ہم ایک آئندہ باب میں بحث کریں گے۔ یہاں ہم صرف اتنا بتادینے پر اکتفادہ کرتے ہیں کہ اگر ہم یہ مان لیں کہ ریحانہ آنحضرتؐ کے حصہ میں آئی تو پھر بھی ہمیں جدید خیالات کے نقطہئ نظر نگاہ سے اس پر نکتہ چینی کرنے کاکوئی حق نہیں، کیونکہ اس وقت جنگ کے جو مانے ہوئے دستور تھے یہ تقسیم بالکل ان کے مطابق تھی۔ ریحانہ کے آنحضرتؐ کی زوجیت میں آنے کی کہانی سراسر جھوٹ ہے،کیونکہ اس واقعہ کے بعد اس کا کوئی تذکرہ تاریخ کے اوراق میں نہیں ملتا، حالانکہ آپؐ ازواج مطہرات کے حالات پوری تفصیلی کے ساتھ مذکور ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Related Article:

Part: 1- The Spirit of Islam Authored by Sayed Ameer Ali: An Introduction- Part 1 سید امیر علی کی تصنیف ،روح اسلام: ایک تعارف

Part: 2 - The Spirit Of Islam Authored By Sayed Ameer Ali: Preface – Pre Islamic Social And Religious Conditions Of The World- Part 2 سید امیر علی کی تصنیف ،روح اسلام: مقدمہ ، اسلام سے پہلے اقوام عالم کے مذہبی اور معاشرتی حالات

Part: 3- The Spirit Of Islam: Preface- Social And Religious Conditions Of the Aryans- Part 3 روح اسلام: بعثت اسلام کے وقت آریہ قوم کے مذہبی ومعاشرتی حالات

Part: 4- Sayed Ammer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Preface- Social And Religious Conditions Of Iran Before Islam- Part 4 روح اسلام: اسلام سے قبل ایران کے مذہبی ومعاشرتی حالات

Part: 5- Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Preface- Social And Religious Conditions of the World Before Islam- Part 5 روح اسلام: اسلام سے قبل دنیا کے مذہبی ومعاشرتی حالات

Part: 6 - Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Preface- Social And Religious Conditions of the World Before Islam- Part 6 روح اسلام: اسلام سے قبل دنیا کے مذہبی ومعاشرتی حالات

 Part: 7- Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Preface- Pre-Islamic Conditions of the Christian World روح اسلام: اسلام سے قبل عیسائی دنیا کی مذہبی حالت

 Part: 8- Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit of Islam’: Preface- Pre-Islamic Conditions of the Christian World-Part 8 روح اسلام: اسلام سے قبل عیسائی دنیا کی مذہبی اور سماجی حالت

Part: 9-  Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Preface- Pre-Islamic Conditions of the Arabs-Part 9 روح اسلام: اسلام سے قبل عیسائی دنیا کی مذہبی اور سماجی حالت

Part: 10- Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit of Islam’: Preface- Pre-Islamic Conditions of the Arabs-Part 10 روح اسلام: ماقبل اسلام عرب کی مذہبی اور سماجی حالت 

Part: 11- Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 1- The Messenger of Allah -Part 11 روح اسلام: پہلا باب پیغمبر اسلام کی ابتدائی زندگی

Part: 12- Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 1- The Prophet’s Life and Prophet-hood -Part 12 روح اسلام: رسول اللہ کی زندگی اور رسالت

Part:-13 - Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit of Islam’: Chapter 1- The Revelation of the Quran and Declaration of Prophethood -Part 13 روح اسلام:نزول وحی کی ابتدا اور اعلان نبوت

Part: 14- Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 1- The Life of The Prophet and His Companions In Early Days of Islam -Part 14 روح اسلام: مکی دور میں رسول اللہ اور صحابہ کی زندگی

Part: 15- Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 1- The Life of The Prophet and His Companions In Early Days of Islam -Part 15 روح اسلام: مکی دور میں رسول اللہ اور صحابہ کی زندگی

Part: 16- Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 2- The Prophet’s Migration Towards Madina Part 16 روح اسلام : دوسرا باب: مدینہ کی طرف رسول اللہ کی ہجرت

Part: 17 -Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 3- The Prophet’s Life in Madina Part 17 روح اسلام : تیسرا باب: رسول اللہ کی زندگی مدینہ میں

Part: 18- Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 4- Enmity Between Quraish and Jews-Part 18 روح اسلام : چوتھا باب ،قریش اور یہود کی دشمنی

Part: 19 - Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 5- The Attack of Quraish on Madina-Part 19 روح اسلام : پانچواں باب ، قریش کا مدینے پر حملہ

URL:  https://www.newageislam.com/books-documents/urdu-ameer-ali-spirit-part-20/d/123361


New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..