سید
امیر علی
(قسط19 )
(2ہجری
مطابق 624عیسوی)
کالزھرنی ترف وّالبسدرنی
شرف
والبحر فی کرم وّالدھرفی
ھم
2ہجری۔ سچائی کی جو بہترین
کسوٹیاں ہیں ان میں ایک کامیابی ہے۔ عیسائیت کے ابتدائی ایّام میں بھی نیک فریسی
نے کہا تھا۔ ”ان لوگوں کو اپنے حال پر چھوڑ دو۔ اگر یہ جھوٹے ہیں تو خودبخود نیست
و نابود ہو جائیں گے، ورنہ تم خود فنا ہو جاؤگے۔“اگر قسطنطین کو آسمان پر صلیب نظر
نہ آئی ہوتی یا اسے یہ خیال نہ ہوا ہوتاکہ اسے صلیب نظر آئی ہے،اگروہ اس کے زیر
سایہ جادہئ کامرانی پر گامزن نہ ہوتا، اگر وہ اس کی ہمت بڑھاکر اسے فتح و نصرت اور
تخت و تاج نہ دلواتی، تو ہم تصّور نہیں کرسکتے کہ عیسائیت کاکیا حشر ہوتا۔فتح بدر
مسلمانوں کے لیے جو معنی رکھتی تھی وہی معنی عیسائیوں کے لیے طوین کے پُل کی فتح
رکھتی تھی۱؎۔
اس فتح کے بعد عیسائیت نے قیصروں کے تخت پر بیٹھ کر حکومت کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
عیسائی خود قسطنطین کے ہاتھ میکسنٹین کی شکست کو اپنے دین کی سب سے شاندار کامیابی
تصّور کرتے ہیں۔ اس بارے میں گبّن کاباب جو طنز اور تاریخ کا آمیزہ ہے،یہ ظاہر
کرتاہے کہ عیسائیت کی کامیابی کیونکر اس واقع سے شروع ہوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسلمانوں کے لیے فتح بدر
بہت مبارک ثابت ہوئی۔ اس لیے کوئی مقام تعجب نہیں کہ قدیم ؑاسرائیلیوں اور
عیسائیوں کی طرح انہیں بھی اپنی کامیابی میں تائید ایزدی کار فرما نظر آئی۔ اگر
مسلمان ناکام رہتے تو ہم قیاس کرسکتے ہیں کہ ان کا حشر کیا ہوتا۔۔ ایک قتل عام۔
جن دنوں آنحضرتؐ مہم بدر
میں مصروف تھے انہیں دنو ں میں آپ کی ایک چہیتی بیٹی رقّیہؓ جو حضرت عثمان ؓ سے
بیاہی ہوئی تھیں وفات پاگئیں۔(حضرت عثمان ؓ حال ہی میں ہجرت ہمشہ سے واپس آئے تھے)
لیکن کفار کے دل میں جو آتش انتقام بھرک رہی تھی اس نے آپ کو خانگی غموں میں حصہ
لینے کی فرصت نہ دی۔ قریشی قیدیوں کے گھر لوٹتے ہی ابوسفیان دو سو سوار لے کر مکّے
سے نکلا۔ اس نے قسم کھالی تھی کہ جب تک حضرت محمدؐ اور ان کے متبعین سے بدلہ نہ لے
لے گا اس وقت تک واپس نہ آئے گا۔مدینے کے قرب جوار کے علاقوں سے گذرتا ہوا وہ جلدی
جلدی بے خبر مسلمانوں پر ایک بلائے ناگہانی کی طرح نازل ہوا۔ وہ جدھر سے گذرا
لوگوں کو قتل کرتا گیااور کھجور کے نخلستانوں کو جن پر عربوں کا زیادہ تر گذارہ
تھا، تباہ کرتا چلا گیا۔اہل مکہ اس مہم کے لیے سویق (ستّو) کے تھیلے لائے تھے۱؎۔ لیکن مسلمانوں کااس
کشت و خون کا انتقام لینے کے لئے مدینہ سے نکلنا تھا کہ اہل مکّہ پیٹھ پھیر کر
بھاگے اور بھاگنے میں اپنے جانوروں کا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے سویق کے تھیلے پھینک
گئے۔ اسی وجہ سے مسلمانوں نے اس لڑائی نے اس لڑائی کا نام عزوۃ السّویق رکھا۲؎۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ عرب لوگ ہرے جو سبون کر اور کوٹ کر ان میں
کھجور کا سفوف یا شکر ملا دیا کرتے تھے۔ ان کا عربی نام سویق ہے۔ وہ لوگ دوران سفر
جب کھانا پکانا مشکل ہوتا تھا اسی کو پھانک کر گذر کرلیتے تھے۔
۲؎ جس جگہ یہ واقع ہوا، اسے آج کل سویقیہ کہتے
ہیں۔ وہ مدینے کے جنوب مغرب میں چند گھنٹوں کے مسافت پرواقع ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
5 ذی الحجّہ یکم اپریل 624ء۔۔ اس موقع پر آنحضرتؐ کو ایک واقعہ پیش
آیا جسے Irving نے بڑی عمدگی سے بیان کیا ہے۔ آنحضرتؐ ایک دن اپنے لشکر گاہ سے
کچھ دور ایک درخت کے نیچے آرام فرمارہے تھے کہ کسی آواز نے آپؐ کو جگادیا۔ آپؐ نے
آنکھ کھولی تو دیکھا کہ ایک دشمن سپاہی تلوار سونتے آپ ؐ کے سر پر کھڑا ہے۔ اس نے
کہا ”اے محمدؐ،اب تجھے بچانے والا کون ہے؟“ رسولؐاللہ نے جواب دیا ”اللہ!“ یہ سن
کر کروخشی بدوی پر کچھ ایسا خوف طاری ہوا کہ تلوار اس کے ہاتھ سے گر پڑی۔ آنحضرتؐ
نے جلدی سے تلوار اٹھائی او رہوا میں لہراکر بدوی سے پوچھا ”اے عثور! اب تجھے
بچانے والا کون ہے؟“ سپاہی نے جواب دیا’”افسوس! کوئی نہیں“۔آنحضرت نے فرمایا ”تو
پھر مجھ سے رحم کا سبق سیکھ“۔ یہ کہہ کر آپؐ نے تلوار اسے واپس کردی۔ اس برتاؤ سے
اعرابی کا دل اتنا متاثر ہوا کہ وہ فوراً مسلمان ہوگیا اور مستقبل میں آنحضرتؐ کے
جان نثار وں میں پیش پیش رہا۱؎۔
لیکن مسلمانوں اور کافروں
کے درمیان یہ جھڑپ او ربہت سی جھڑپوں کی طرح جو اس کے بعد ہوئیں اس عظیم الشان
ڈرامے کی محض ایک تمہید تھی جو بعد میں ہونے والا تھا۔
3ہجری (26اپریل 624ء سے لے کر 15اپریل 625ء تک:۔ انتقام کی آگ
کفّار کے سینوں میں سُلگ رہی تھی۔ انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ ایک اور جنگ کے لیے
زبردست تیاریاں کیں۔ ان کے سفیر قبائل کنانہ و تہامہ کی امداد حاصل کرنے میں
کامیاب ہوگئے اور ان کی متحدہ فوجوں کی تعداد بہت جلد تین ہزار تک پہنچ گئی۔ یہ
تین ہزار سپاہی ہر طرح کے سامان جنگ سے لیس تھے، او ران میں سات سو زرہ پوش جنگجو
بھی تھے۔ ان سب کے دلوں میں انتقام کا جذبہ بھڑک رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ اس سال کے آخری مہینہ میں دو اہم واقعات ہوئے۔
عثمان بن مظعونؓ کی وفات اور حضرت علیؓ کا حضرت فاطمہؓ سے نکاح۔ حضرت عثمان ؓ ان
لوگوں میں تھے جو سب سے پہلے ایمان لائے اور مہاجرین میں سب سے پہلے انہوں نے وفات
پائی۔انہیں نواح مدینہ کے ایک مقام ”بقیع“ میں دفن کیا گیا جہاں بہت سے شاہیر و
اکابردفن ہیں جن کے مزارو ں کا احترام مسلمان آج تک کرتے ہیں۔
۲؎ حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ کی نسبت مہم بدر سے
کچھ پہلے ہوچکی تھی لیکن نکاح 3مہینے کے بعد ہوا۔ اس وقت حضرت علیؓ 21ویں سال میں
تھے اور حضرت فاطمہؓ پندرھویں سال میں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عرب کے قبائل کے لیے یہ
فوج اتنی ہی خوفناک تھی جتنا ایرا ن کے خشایار شا کا لشکرِ جرّار یونانی ریاستوں
کے لیے تھا۔
یہ فوج سخت گیر ابوسفیا ن
کی قیادت میں کوچ کرتی ہوئی کسی قسم کی مزاحمت کے بغیر مدینے کے شمال مشرق میں ایک
مقام پر پہنچ گئی جہاں اس نے پڑاؤ ڈالا۔ اب اس کے اور مدینے کے درمیان صرف احد کی
پہاڑی اور ایک وادی حائل تھی۔ اس مقام برتری سے وہ اہل مدینہ کے کھیتوں اور
نخلستانوں کو تباہ کرنے لگی۔
اپنے مال واملاک کی یہ
تباہی دیکھ کر مسلمانوں کو بہت غصّہ آیا۔ ان کے جوش نے آنحضرتؐ کو مجبور کیا کہ
آپؐ مدینہ سے ایک ہزار مسلمانوں کی فوج لے کر نکلیں۔یہودیوں کی کھلم کھلا دشمنی کے
بل بوتے پر منافقوں کا سرغنہ عبداللہ بن اُبیّ اپنے دین سو پیروؤں کو لے کر واپس
مدینہ چلا گیا۔ اب مسلمانوں کی تعداد صرف سات سو رہ گئی اور اس پر ان کے پاس لے دے
کر صرف دو گھوڑے تھے۔ اس کے باوجود جاں بازوں کا یہ دستہ ثابت قدمی سے بڑھتا چلا
گیا اور درختوں کے جھنڈوں کی آڑ میں کوچ کرتا ہوا بہت جلد احد کی پہاڑی پر قابض
ہوگیا۔ ان لوگوں نے گھاٹی میں رات گذاری اور دوسرے دن نماز فجر ادا کرکے میدان میں
نکل پڑے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ برٹن(Burton) اس مقام کانقشہ یوں
کھنچتا ہے:۔یہ مقام جو اسلام کی تاریخ میں مشہور ہے، کوہِ احد کے جنوبی دامنہ کے
قریب ایک ڈھلوان قطعہ زمین ہے۔کفّار کی فوج اپنے جرنیل ابوسفیان اور اس کے بتول کو
قلب میں لیے ہوئے اور ایک ہلالی شکل بنا ئے ہوئے آگے بڑھی۔ یہ مقام مدینہ کے شمال
میں تقریباً 3میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔ جب کوئی شخص یہاں آئے تو اسے اپنے سامنے
صرف کنکریلی زمین دکھائی دیتی ہے جس پر رنگا رنگ کے سنگ خارا، سرخ رتیلے پتھروں
اور سنگ سماق کی چھوٹی چھوٹی ڈھیریاں پڑی ہیں۔ یہ ڈھیریاں شہداء کی قبروں کے نشان
ہیں۔ اس نقطہ سے اس مقدس پہاڑی پر نظر ڈالئے تو وہ بھیانک ہی معلوم ہوتی ہے۔ اس کے
جلے ہوئے اور دندانہ دار پہلولو ہے کے تودوں کی طرح میدان سے اٹھتے ہوئے دکھائی
دیتے ہیں۔ اس ڈراؤنی دیوار میں صرف (باقی حاشیہ 160پر ملاحظہ فرمائیں)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنحضرتؐ نے پہاڑی کے عین
نیچے صف آرائی کی۱؎۔
آپؐ نے فوج کے عقب میں ایک اونچی جگہ پر تیر اندازوں کا ایک دستہ متعین کیا اور
اسے تاکید ی حکم دیا کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے اپنے مقام سے نہ ہٹے، بلکہ دشمنوں کے
رسالے کو دق کرے اور مسلمانوں کے میمنہ ومیسرہ کو دشمنوں سے بچائے۔کفّار اپنی تعدا
د کے گھمنڈ میں اپنے بتوں کو فوج کے قلب میں لیے ہوئے میدان میں اترے۔ ان کے
سرداروں کی بیویاں رجزگاتی اور دف بجاتی ہوئی آگے آگے چلیں ۱؎۔ قریش کا پہلا شدیدحملہ
حضرت حمزہؓ کے ماتحت دستہ نے نہایت بہادری سے پسپا کردیا۔ دشمن کی ابتری سے فائدہ
اٹھا کر حضرت حمزہؓ ان کی صفوں میں گھس گئے اور و دوستی تلوار سے دشمنوں میں تہلکہ
مچاتے ہوئے بڑھتے چلے گئے۔ مسلمانو ں کی فتح کا نقارہ بجنے ہی والا تھا کہ ان کے
تیر انداز رسولؐخدا کی ہدایات کوبھول کر اور دشمنوں کو بھاگتے ہوئے دیکھ کر غنیمت
کی خاطر ادھر ادھر بکھر گئے ۲؎۔
چنانچہ بعد میں طور س۳؎
کے مقام پر جو کچھ ہوا وہی جنگ اُحد میں ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(بقیہ حاشیہ صفحہ159) ایک شگاف ہے۔ یہ وہ شگاف ہے جس میں مسلمانوں
نے اس وقت پناہ لی تھی جب ان کے تیرانداز وں نے حکم عدولی کرکے او رمال غنیمت کی
طرف لپک کر خالد بن ولید کو عقب سے عملہ کرنے کاموقع دیا تھا۔ اس کی سطح پر، جو ہر
وقت تپتی رہتی ہے، کوئی درخت یا جھاڑی یاگھاس نہیں۔ میں جتنی مدت وہاں رہا مجھے
کوئی چرندہ یا پرندہ دکھائی نہیں دیا۔ اس کی گنجی اور اداس پیشانی کو نیلا اور
شفاف آسمان گویااوپر سے گھور رہا تھا، اور اسے او ربھی گھناؤنا بنا رہا تھا۔
Burton's
Pilgrimage to Mecca, vol.il,pp.237
۱؎ ابن الاثیر نے ان رجزیہ اشعار کے کچھ ملخصّات
دیئے ہیں: ”ویھا بئی عبدالدار ویھا حماۃ الادبار اضوباً بکل بَتّار! (ہمت اسے
عبدالدّار کے بیٹو! ہمت! اسے عورتوں کے محافظوں! اور تلواروں سے ضرب کاری
لگاؤ)۔۔۔۔۔ نحن بنات طارق، نمشی علی النّمارق۔ ان تقبلوانعائق اوتد بروانفارق۔(ہم
آسمان کے تاروں کی بیٹیاں ہیں، ہم قالینوں پرچلنے والیاں ہیں۔اگر تم بڑھ کرلڑوگے
تو ہم تم سے گلے ملیں گے اور پیچھے قدم بڑھایا تو ہم تم سے الگ ہوجائیں گے)
۲؎ اس نافرمانی کی طرف سورہ آل عمران۔آیت 152 میں
اشارہ کیا گیا ہے۔
۳؎ فرانس کے ایک مقام کا نام جہاں 732ء میں
مسلمانوں کو کچھ ایسے ہی اسباب کی بناء پر فرنگیوں کے مقابلہ میں شکت ہوئی۔(مترج)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قریش کے ایک میر لشکر
خالد بن ولید نے فوراً مسلمانوں کی غلطی بھانپ لی اور اپنے سواروں کو جمع کر کے ان
کے عقب پرحملہ کردیا۔۱؎ ادھرکفّار کی پیاد ہ فوج بھی پلٹی۔چنانچہ
مسلمانوں کی فوج آگے اور پیچھے دونوں طرف سے گھر کرگئی او رمسلمانوں کو اس نرغہ میں
پھنس کر سرے سے لڑنا پڑا۔ ان کے بہت سے
بہادر سردار لڑتے ہوئے مارے گئے۔حضرت حمزہؓ او رکئی اور سردار شہید ہوئے۔حضرت علیٰؓ۲؎ جنہوں نے کفّار کی رجز کا سب سے پہلے اپنی
تلوار سے جواب دیا تھا اور حضرت عمرؓ اور حضرت ابوبکرؓ سخت زخمی ہوئے لیکن کفّار کی
کوششوں کا مرکز زیادہ تر خود آنحضرتؐ تھے، جو اپنی فوج سے الگ چندجاں نثاروں کے
حلقہ میں کھڑے تھے۔ کفّار ہر طرف آپؐ کی طرف جھپٹے۔ جو جاں نثار آپؐ کو حلقہ میں لیے
کھڑے تھے وہ کٹ کٹ کر گرنے لگے۔آپؐ بھی زخمی ہوئے۔ لیکن اس حالت میں بھی آپؐ اپنے
محبتوں کونہ بھولے او ران ہاتھوں کے لیے دعائے رحمت فرمائی جنہوں نے آپؐ کی پیشانی
سے خون بندکرنے کی کوشش کی۔بہر حال کمک نزدیک ہی تھی۔حضرت علیٰؓ او ران کے ساتھی
جو دشمن کے قلب میں جان توڑ کر لڑرہے تھے۔دشمن کے نرغہ سے نکل کر پہاڑی کے ایک
محفوظ مقام پر پہنچنے میں کامیاب ہوگئے جہاں دشمن تک نہ پہنچ سکتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ ابن الاثیر، الحلبی انسان العیون
۲؎ طبری لکھتا ہے کہ کفّار کاعلمبردار طلحہ جو ایک
بہادر جنگجو تھا، حضرت علیؓ کے سامنے آیا اورتلوار گھماکر ان سے یوں مبارز طلب
ہوا۔”تم مسلمان کہتے ہو کہ ہمارے مردے دوزخ میں جاتے ہیں اور تمہارے بہشت میں۔ آؤ
میں دیکھوں میں تمہیں بہشت میں بھیج سکتا ہوں یا نہیں۔“ حضرت علیؓ نے جواب دیا”بہت
اچھا!“ چنانچہ دونوں میں لڑائی ہوئی۔ طلحہ زمین پر گر پڑا اور پکارا۔”رحم کر اے میرے
ابن عم“۔ حضرت علیٰؓ نے فرمایا ”اچھا رحم سہی، تودوزخ کی آگ کے قابل نہیں۔“
۳؎
ابن الاثیر اور ابو القداء غزوہ احد کی تاریخ ساتویں،طبری آٹھویں،ابن ہشام پانچویں
او ربعض اورمرخین گیارھویں شوال بتاتے ہیں لیکن کوسین دی پرسیوال کے حساب کے مطابق
اس غزوہ کی اصل تاریخ گیارھویں شوال تھی، کیونکہ تمام مورخین کہتے ہیں کہ ہفتہ کا
دن تھا اور گیارھویں شوال (26جنوری)کو ہفتہ کا دن تھا۔Hist.
des- Arabes, vol.ill,p.96
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن دشمنوں نے آنحضرتؐ کی
شہادت کا جو جھوٹا اعلان کردیا تھا اس سے یہ سب لوگ سخت سراسیمہ تھے۔ بہر حال
مسلمانوں کی ایک اور جماعت کو میدان کے ایک اور حصہ میں لڑتے دیکھ کر وہ دشمنوں کی
صفوں میں گھس گئے۔ صفیں چیرتے ہوئے وہ اس جگہ پہنچے جہاں مسلمانوں کا ایک چھوٹا سا
گروہ آنحضرتؐ کو حلقہ میں لیے ہوئے تھا اور آپؐ کو زندہ پاکر جاں توڑ کوششوں کے
ساتھ آپؐ کو کوہِ احد کی بلندیوں پرلے گئے۔حضرت علیؓ اپنی ڈھال میں چٹان کے ایک
سوراخ سے پانی لائے او راس سے آنحضرتؐ کے چہرہ مبارک اور زخموں کو دھویا۔ اس کے
بعد سب مل کر بیٹھے بیٹھے ظہر کی نماز ادا کی۔
قریش میں اب اتنی سکت نہ
رہی تھی کہ مدینے پر حملہ کرتے یا مسلمانوں کو کوہِ احد کی بلندیوں سے ہٹاتے۔ اس لیے
وہ نہایت سفا کی سے مسلمان شہداء کی لاشوں کا مثلہ کرنے کے بعد،قرب وجوار مدینہ کے
ان علاقو ں سے نکل گئے جن پرانہوں نے قبضہ کررکھا تھا۔ابوسفیان کی بیوی ہندبنت
عتبہ نے قریش کی چند عورتوں کو ساتھ لے کر اس وحشیانہ انتقام میں سب سے زیادہ
گرمجوشی دکھائی۔ اس نے حضرت حمزہؓ کا سینہ چیر کر ان کا کلیجہ نکال لیا اور دوسرے
شہداء کے کانوں اور ناکوں کا ہار بناکر گلے میں پہن لیا۔
قریش نے شہداء کی لاشوں
سے جو سفا کا نہ سلوک کا اس سے مسلمانوں کے جذبات سخت بر انگیختہ ہوئے۔ خود
آنحضرتؐ کو ابتداً ء اس قدرغصہ آیا کہ آپؐ نے اعلان کردیا کہ آئندہ کفّار کے مردوں
کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کیا جائے ۱؎۔
لیکن آپؐ کی فطرت میں جو رحم و کرم ودیعت کیا گیاتھا وہ اس عارضی غصے پر غالب آگیا۔
آپؐ نے ہدایت کی۔”دشمن کی زیادتیوں کو صبر سے برداشت کرو،یقینا صبر و تحمل کرنے
والے سب سے زیادہ فلاح پائیں گے ۲؎۔“
اس دن سے مردوں کی برید اعضا ء کایہ نفرت انگیز دستور جو تمام قدی اقوام میں رائج
تھا، مسلمانوں کے لیے نہایت سختی سے ممنوع ہوگیا۳؎۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ ابن ہشام،ابن الاثیر،طبری۔الحبلی، انسان العیون
۲؎ سورہ بنی اسرائیل،ابن ہشام،زمحشری۔
۳؎ یہودی اپنے قیدیوں کو زندہ جلادیا کرتے تھے اور
مقتولوں (باقی حاشیہ صفحہ 163پر ملاحظہ فرمائیں)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مدینے میں واپس آکر
آنحضرتؐ نے مسلمانوں کا ایک چھوٹا سا دستہ بھاگتے ہوئے دشمنوں کے تعاقب میں روانہ
کیا تاکہ قریش پر واضح ہوجائے کہ جنگ میں شدید نقصان اٹھانے کے باوجود مسلمانوں کی
ہمت پست نہ ہوئی تھی اور وہ اتنے کمزور نہ تھے کہ اگر ان پر کوئی حملہ کرے تو بچ کر
چلا جائے۔ اس تعاقب کی خبر سن کر ابوسفیان جلدی جلدی مکّے واپس گیااور راستے میں
دو مسلمان شہیدکر گیا۔ اس نے آنحضرتؐ کو پیغام بھیجا کہ وہ آپؐ کو اور آپؐ کے متبعین
کو فنا کرنے کے لیے بہت جلد دوبارہ آئے گا۔ اسے جو جواب ملا وہ آگے کی طرح ایمان و
ایقان سے پرُ تھا: ”خدا ہمارے لیے کافی ہے اور وہ اچھا محافظ ہے۱؎“
اس المناک جنگ کے
مضراثرات ان تیاریوں سے ظاہر ہوئے جو ہمسایہ خانہ بدوش قبائل مدینہ پر چھاپے مارنے
کے لیے کررہے تھے۔ ان میں سے اکثر آنحضرتؐ کے اس مستعدانہ اقدام سے مرعوب ہوگئے۔ لیکن
بعض مخالف قبیلے اسلام قبول کرنے کے وعدے کرکے مسلمانوں کو دھوکے سے اپنے علاقوں میں
لے جاتے اور وہاں انہیں قتل کردیتے۔ ایسے ہی ایک موقع پر ستّر(70) مسلمان ایک چشمے
کے قریب،جس کا نام بیر معونہ تھا، دغابازی سے قتل کردیئے گئے، یہ چشمہ قبائل بنی
عامر و بنی سلیم کے علاقے میں تھا اور اس کارستانی میں موخرالذکّر کا خاص طور
پرہاتھ تھا۔ ان مسلمانوں میں سے دو آدمی بچے، جن میں سے ایک مدینے کی طرف بھاگ آیا۔راستے
میں اسے بنی عامر کے غیر مسلح آدمی ملے، جو آنحضرتؐ سے پروانہ پناہ لے کر سفر
کررہے تھے۔ اس نے انہیں دشمن سمجھا اور قتل کردیا۔ جب آنحضرتؐ کو اس واقعہ کی خبر
ہوئی تو آپؐ کو بہت رنج ہوا۔ آپؐ کے ایک پیرونے،لاعلمی ہی میں سہی، ایک زیادتی کی
تھی، اور جو دو آدمی اس کے ہاتھو ں مارے گئے تھے ان کے رشتہ دار خوں بہا کے مستحق
تھے۔ چنانچہ مسلمانوں اور دوسرے معاہد قبائل سے دیت جمع کرنے کاحکم دیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(بقیہ حاشیہ مسودہ صفحہ 162) کی لاشوں کو نہایت وحشیانہ طور پر
ٹکڑے ٹکڑے کر دیا کرتے تھے۔یونانیوں، رومیوں اور ایرانیوں کے ہاں بھی ایسی سفاکیاں
رائج تھیں۔ عیسائیت نے اس کی کوئی اصلاح نہ کی۔ سولھویں صدی تک ہمیں تاریخ کے
اوراق میں ان ا نسانیت سوز زیادتیوں کی روادیں ملتی ہیں۔
۱؎ ابن ہشام، سورہ آل عمران۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنی نضیر، بنی قریظ اور
دوسرے یہودی قبائل پر مسلمانوں کے برابر دیت اداکرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی تھی۱؎۔ آنحضرتؐ خود چند صحابیوں
کے ہمراہ بنی نضیر کے ہا ں گئے اور ان سے ان کاحصہ طلب کیا۔ انہوں نے بظاہر یہ
مطالبہ کر لیا اور آپؐ اسے قدرے توقف کرنے کو کہا۔لیکن جب آپؐ ایک مکان کی طرف پشت
کئے بیٹھے تھے تو مکینوں کی نقل و حرکت سے آپؐ کو علم ہوگیا کہ ان کی نیت آپؐ کو
قتل کردینے کی تھی۔
یہود کی دشمنی کے اسباب
واضح کرنے خاطر ہمیں گزشتہ واقعات کی طرف مراجعت کرنی پڑے گی۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ
آنحضرتؐ کے دردو مدینہ کے لمحے سے وہ کس طرح ہاتھ دھوکر آپؐ کے پیچھے پڑے ہوئے
تھے۔ انہوں نے مسلمانوں میں بدولی کابیج بونے کی کوشش کی، آپؐ پر اور آپؐ کے متبعین
پربہتان باندھے، قرآن کے الفاظ کو خراب معنیٰ پہنانے کی خاطر ان کے تلفظ کو بگاڑا۔
انہوں نے اسی پر بس نہ کی۔ یہودی اپنی نسبتہً اعلیٰ تعلیم اور بہتر ذہانت کی بدولت،منافقین
کے ساتھ گٹھ جوڑ کی بدولت اور اپنے اس اتفاق کی بدولت جو عربوں کی نااتفاقی سے اس
قدر مختلف تھا، اس دفاتی مملکت میں جو معلّم اسلام کے تحت وجود میں آئی تھی ایک
نہایت خطرناک عنصر تھے۔ اخبارات کو عصر جدید میں جو حیثیت اور اثر ونفوذ حاصل ہے غیر
ترقی یافتہ اقوام میں وہ شعراء کو حاصل ہوتا ۲؎۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
ابن الاثیر،طبری،میور اور اسپر نیگر نے معاملہ کے اس پہلو کو ایک عجیب طرح سے مسخ
کیا ہے موسیو کوسین دی پرسیو ال کے اس قول کے لیے کہ یہودی دیت ادا کرنے کے ذمہ
دار تھے سرولیم میور کو کوئی سند نہیں ملی۔ اگر وہ طبری کی ورق گردانی کرتے تو انہیں
ذیل کا بیان ملتا:”بعد میں حکم دیا کہ رقم جمع کی جائے یا مدینہ کے لوگوں سے وصول
کی جائے اور یہ حکم بھی دیا کہ اس میں یہودی قبائل، مثلاً بنی نضیر، بنی قریظ اور
وہ جو فدک میں رہتے تھے، جن سب پر معاہدہ کی رو سے ذمہ داری عائد ہوتی تھی، برابر
کا حصہ ادا کریں۔(ترجمہ از فرانسیسی۔مترجم)
۲؎ غیر ترقی یافتہ قوموں میں شاعروں اور جزخونوں
کو جو اثر ورسوخ حاصل ہوتا ہے اس کی مثال جنگ احد سے متعلق ایک واقعہ میں ملتی ہے۔
جب قریش اس اہم مہم کی تیاریاں کررہے تھے تو انہوں نے ابوعزّہ نامی ایک شاعر سے
فرمائش کی کہ وہ صحرا ء کے قبائل میں دو ر رہ کر کے انہیں اپنے اشعار (باقی حاشیہ
صفحہ 165 پر ملاحظہ فرمائیں)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہودی شعراء اپنی علمی و
ثقافتی فضیلت کی بناء ہر قدرتی طور پر اہل مدینہ میں بہت صاحب رسوخ تھے، اور اس
رسوخ سے وہ زیادہ تر مسلمانوں میں نفاق کا بیج بو نے اور ان کے اور ان کے مخالفوں
کے درمیان جو خلیج حائل تھی اسے وسیع تر بنانے کا کام لیتے تھے۔ جنگ بدر میں کفّار
کی شکست یہودیوں کو بھی اتنی ہی ناگوار گذری جتنی اہل مکّہ کو۔ جنگ کے فوراً بعد یہودی
قوم کے ایک معزّز فردکعب بن اشرف نے، جو قبیلہ نضیر سے تھا، برسرِ عام کفّار کی
شکست پر اظہار افسوس کیا اور عازم کفّار مکّہ ہوا۔ وہاں اس نے دیکھ کر کہ لوگ غم میں
ڈوبے ہوئے ہیں ان کے حوصلے بڑھانے میں کوئی دقیقہ فرر گزا شت نہ کیا۔ اس نے
آنحضرتؐ اور آپؐ کے متبعین کی ہجویں سنا سنا کر اور بدر میں جو اہل مکہ قتل ہوئے
تھے ان کے مرثیے گاگا کر قریش میں وہ جوش انتقام پیدا کیا جو میدان احد میں ظاہر
ہوا۔اپنے مقصد میں کامیاب ہوکر وہ اپنے گھر واپس آیا،جو مدینے کے قریب بنی نضیر کے
قلعے میں تھا، اور آنحضرتؐ اور مسلمانوں پر طنز یہ اورفحش اشعار میں حملے کرتا رہا،
یہاں تک کہ اس نے مسلمانوں کی عورتوں کا بھی پاس نہ کیا اور ان کی شان میں مغلظّات
بکتا رہا۔اس کے افعال کھّلم کھّلا اس دولت عامہ کے خلاف تھے جس کا وہ خود ایک فرد
تھا۔ اس کا قبیلہ ان قبیلوں میں تھا جنہوں نے مسلمانوں سے معاہدہ کیا تھا اور
مملکت اسلامیہ کے اندرونی اور بیرونی تحفظ کاحلف اٹھایا تھا۔بنو نضیر کا ایک اور یہودی
ابورافع سلام بن ابی الحقیق بھی مسلمانوں کا اتنا ہی جانی دشمن تھا۔ وہ اپنے قبیلے
کی ایک شاخ کے ساتھ خیبر کے علاقے میں رہتا تھا جو مدینے کے شمال مغرب کی طرف چار
پانچ دن کی مسافت پر واقع تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(بقیہ حاشیہ صفحہ164) اور رزمیہ گانوں سے مسلمانو ں کے برخلاف
اُبھارے اور انہیں اس میثاق میں شامل ہونے کی ترغیب دے جو آنح ضرتؐ او ران کے متبعین
کی تباہی کے لیے اہل مکہ کی سرپرستی پر مختلف قبائل کے درمیان ہوا تھا۔ یہ شخص جنگ
بدر میں مسلمانوں کے ہاتھوں قید ہوگیا تھا،لیکن آنحضرتؐ نے اسے فدیہ لیے بغیر اس
شرط پر رہا کردیا تھا کہ وہ آئندہ کبھی مسلمانوں کے خلاف ہتھیار نہ اٹھائے گا۔ اس
رحم دلی کے باوجود اس نے وعدہ خلافی کی اور قبائل میں دورہ کرکے انہیں اپنی شاعری
سے مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا۔کہا جاتاہے کہ اس کام میں اسے بڑی کامیابی حاصل ہوئی۔
جنگ اُحد کے بعد وہ پھر مسلمانوں کے ہاتھو ں قید ہوا اور قتل کردیا گیا۔ ابن ہشام۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے آنحضرتؐ اور مسلمانوں
سے اتنی نفرت تھی کہ اس نے ہمسایہ عرب قبائل مثلاً سلیم اورغطفان کو، مسلمانوں کے
خلاف بھڑکانے میں ہر طرح کے جتن کئے۔دولت عاّمہ اسلامیہ کے لیے نا ممکن تھا کہ ان
لوگوں کی دغابازیوں کے درگزر کرتی جن کے ساتھ ہر طرح کی پاسداری کی گئی تھی، اس
مقصد سے کہ اگر وہ مدد نہیں کرسکتے تو کم از کم غیر جانب دار ہی رہیں۔ اب امّت
اسلامیہ کی ہستی تک خطرے میں تھی اور تحفظ کا ہر اصول اس بات کا متقاضی تھا کہ ان
غدّار انہ سازشوں کو خاموش سے ناکام بنادیا جائے۔ اہل مدینہ نے خود انہیں بغاوت کی
سزا کا مستوجب قرار دیا۔ چنانچہ ایک کو تو وبنی اوس کے ایک فرد نے اور دوسرے کو بنی
خزرج کے ایک فرد نے قتل کردیا۔
عیسائی مناظرین نے اسے
دغا بازانہ قتل سے تعبیر کیا ہے۔ اور چونکہ اس سزا کی انجام دہی کے لیے دو مسلمان
خفیہ طور پر بھیجے گئے اس لیے وہ آنحضرتؐ نے تعصب کی بنا پر اس سزا کے مبنی بر عدل
ہونے اور اس کے عاجلانہ اور خفیہ طر زپر انجام دیئے جانے کی ضرورت کو نظر انداز
کردیتے ہیں۔ اس وقت انفرادی جرموں کی سزا دینے کے لئے کوئی پولیس کورٹ یا فوجداری
عدالت بلکہ فوجی عدالت بھی نہ تھی۔ چونکہ کوئی سرکاری جلّاد نہ تھا، اس لیے حکومت
کی طرف سے سزا دینے کا اختیار کسی فردکو دیا جاسکتا تھا۔ ان لوگوں نے ایک باضابطہ
معاہدے کی خلاف ورزی کی تھی۔ انہیں نہ برسر عام گرفتار کا جاسکتا تھا، نہ ان کے قبیلو
ں کے سامنے سزائے قتل دی جاسکتی تھی۔کیونکہ اگر ایسا کیا جاتا تو احتمال تھا کہ شدید
خوں ریزی ہوتی اور ثار، یا انتقام خون کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا۔ مملکت کی
مصلحتوں کا تقاضا تھا کہ ان لوگوں کے خلاف جنہیں رائے عامہ مستحق سزا قرار دے چکی
تھی جو کچھ بھی کرنا تھا وہ وی الفور اور خاموشی سے کیا جائے۱؎۔ مملکت کی بقاء اور شہر
کا امن و امان اس پر منحصر تھا کہ مجرموں کو فی الفور سزا دی جائے اس سے بیشتر کہ
وہ اپنے اہل قیبلہ کو اپنے گرد جمع کرلیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ ہمارے عیسائی مورخین اس بات کہ فراموش کردیتے ہیں
کہ خود دانشمند سولن (Solon) نے اپنے چھوٹے سے
شر کے تحفظ کے لیے انتھنز کے باشندوں کے لیے یہ لازمی قرار دیا تھا کہ وہ مفسدوں
کا تعاقب کریں اور یافساد یا شورش کی صورت میں دو مخالف گروہوں (باقی حاشیہ صفحہ
167 پرملاحظہ فرمائیں)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Related Article:
URL: https://www.newageislam.com/books-documents/urdu-ameer-ali-spirit-part-19/d/123278
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism