مقدمہ (قسط ۴)
روح اسلام سید امیر علی
ترجمہ
ساسانیوں کے عہد میں
زرتشیتوں کا اقتدار اپنے نقطہ عروج پر تھا۔ کئی صدیوں تک وہ ایشیا کی سلطنت کے لیے
رومیوں کے حریف رہے۔ بارہا انہوں نے روم کی فوجوں کو شکست دی۔ اس کے شہروں کو تاخت
و تاراج کیا،اس کے قیصروں کو قیدی بنایا۔او ر اس کی رعایا کی دولت لوٹی، لیکن ایک
اخلاقی عامل کی حیثیت سے زرتشتیث کی آگ ٹھنڈی پڑ چکی تھی۔ وہ آتشکدوں میں تو اب
بھی جل رہی تھی، لیکن لوگوں کے دلوں میں
بجھ چکی تھی،خدائے برحق کی پرستش کی جگہ کلدانی مجوسیت نے لے لی تھی۔ ارد
شیر نے جس سخت تعصّب سے کام لے کر حریف مذہبوں کو دبانے کی کوشش کی، اس سے بھی
زرتشیت کی حالت بہتر نہ ہوئی۔ آخری ساسانی بادشاہوں کے تحت ایرانی سلطنت میں فرقہ
بازی کاجو بازار گرم تھا، اس کے بادشاہ جس شہوت پرستی میں مبتلا تھے، اس کے اشراف
داعیان جس اخلاقی پستی میں گرے ہوئے تھے اور اس کے موبد اور کشیش جس تکبر کاشکار
تھے، ان سب چیزوں میں اس کی واحد نظیر باز نطینیوں کا سلطنت تھی۔ بادشاہ دیوتا
تصور کئے جاتے تھے، وہ رعایا کی جان و مال پر کلّی اختیار رکھتے تھے، اور رعایا
غلاموں کی طرح تمام حقوق سے محروم تھی۔ بدکاریوں اور خرابیوں کی انتہا اس وقت ہوئی
جب مزدک نے چھٹی صدی عیسوی کے آغاز میں اس اشتراکیت کا پرچار کیا جس سے یورپ حال
ہی میں آشناہوا ہے اور ”لوگوں کو یہ تعلیم دی کہ وہ آگ پانی اور گھاس کی طرح دولت
اور عورتوں کو اپنی مشترکہ ملکیت سمجھیں، نجی املاک کو ختم کردیں،اور دنیا کی اچھی
اور برُی چیزوں میں برابر کے شریک ہوں ۱؎ مجوسی زرتشت نے بہنوں اور خون کے رشتے کی
دوسری عورتوں کے ساتھ شادی پہلے ہی جائز قرار دے رکھی تھی۔ اس اشتراکیت کے پرچار
نے صحیح الخیال ایرانیوں کو برگشتہ خاطر کیا۔ چنانچہ مزوک جو اپنے آپ کو زرتشت کا
جانشین کہتا تھا، قتل کردیا گیا، لیکن اس کے خیالات ایران میں جڑ پکڑ چکے تھے،
وہاں سے وہ مغربی ایشیا میں بھی جا پہنچے۔
یہ خرابیاں اخلاقی زندگی
کے انتہائی انحطاط کی علامتیں اور قوم کے مستقبل کے حق میں ایک فال بدتھیں۔ امن
فال بدکو کسریٰ انوشیروان کی بلند سیرت نے کچھ مدت تک پورا ہونے سے روکے رکھا۔
لیکن اس کی موت کے بعد وہ پوری ہوکر رہی۔ بہر حال ایک معلّم عظیم کا ظہور ہو چکا
تھا جسے دنیا کے جسد مردہ میں نئی روح پھونکنی تھی۔
یہودیوں کو بابل کی قید
غلامی سے آزاد ہوئے گیارہ صدیاں گزر چکی تھیں اور ان کے حالات میں بڑے بڑے تغیر رو
نما ہوچکے تھے۔ جو قیامتیں ملت موسوی پر کے بعد دیگرے ٹوٹیں ان میں قیامت کبریٰ
قیصران ٹائی ٹس (Titus) اور ہیڈرین (Hadrian) کی جنگیں تھیں۔ روم
نے ان کے ہیکل کو مسمار کردیا اور تیغ و آتش سے ان کی بحیثیت ایک قوم کے خاتمہ کر
دیا تھا۔ عیسوی قسطنطنیہ نے بھی اتنی ہی بے رحمی سے ان کو مظالم کانشانہ بنایا،
لیکن انہوں نے ماضی کے تجربوں سے کوئی عبرت حاصل نہ کی۔ انہوں نے شقی القلب جابروں کے ہاتھوں جو اذیتیں اٹھائی تھیں ان سے
انہوں نے انسانیت او ر امن پسندی کا سبق نہ سیکھا،مصر، قبرص اور سیرینی (Cyrene) کے شہروں میں جہاں
وہ مقامی باشندوں سے دوستی کا ڈھونگ رچا کر بودوباش کررہے تھے، انہوں نے جو
انسانیت سوز مظالم کئے وہ ان کی حالت زار پررحم کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑ تے۔ قوم
اسرائیل کا گھر اُجڑ گیا، اس کے افراد روئے زمین پر آوارہ سرگرداں تھے او رانہیں
کہیں دور تک امان نصیب نہ ہوتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ ”دبستان مذاہب“ از محسن فانی۔ سر محمدی اقبال
کی کتاب Development of Metaphysics in Persia بھی ملاحظہ کیجئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ جہاں جاتے اپنا مستمرد
انہ غرور اوراپنی شقاوت قلبجس کی مذمت ان کے انبیاء یکے بعد دیگرے کرچکے تھے، اپنے
ساتھ لے جاتے۔ غیر ملک میں جہاں کہیں انہیں پناہ ملی انہوں نے اپنی تاریخ دہرائی
اور وہی پہلے سے کرتوت کئے۔ یہ قوم امیدوں پر زندہ تھی، لیکن امیدوں میں ایک طرف
تو ایک اکھڑ اور کٹّر تعصب اور دوسری طرف شہوت رانی اور عیش پرستی ملی ہوئی تھی
حضرت عیسیٰ آکر جاچکے تھے، لیکن وہ ان کی حالت کوبدل نہ سکے تھے۔ ایک مسیحا کے آنے
کے بارے میں اس وقت جو خیالا ت عام تھے حضرت عیسیٰ نے ان کی فضا میں آنکھیں کھولی
اور تربیت پائی۔ ناممکن تھاکہ اس معلّم کے دل پر جواپنی قوم کے ادبار پر آنسو بہا
رہا تھا، کتاب دانیال کا گہرا اثر نہ ہوتا۔ جو قوم کے سیاہ ترین ایام میں لکھی گئی
تھی اور جو اس کی آرزؤں کا اظہار او راس کے لیے امید کا ایک پیغام تھی۔ پہاڑوں میں
پناہ گزین زیٹوں (Zeaiots) کا شدید تعصب، صدّ دقیوں کی بے جان رسم پرستی، فریسیوں کی ظاہر
وارانہ آزاد منشی،اسینیوں کا ایک ہاتھ
اسکندریہ کی طرف اور دوسرا بد ھ مت کے پیرو ہندوستان کی طرف پھیلا ئے امیدوں پر
بھرے خواب دیکھنا، اس درویش پر خروش کے ملامت آمیز وعظ جس کی زندگی ہیرو ویس (Herod) کے دربار کی سیاہ
کاری پر بھینٹ چڑھی، ان سب چیزوں نے حضر ت عیسیٰ کو متاثر کیا۔ لیکن رومی عقاب نے
یہودیہ کے دل کو اپنے پنجوں میں دبوچ رکھا تھا اور رومہ کے لشکر کسی قسم کے انقلاب
کو سر اٹھاتے ہی کچل دیتے تھے۔ حضرت عیسیٰ نے ترک دنیا کی تعلیم دی اور براہ راست خدا کے ہاتھوں قائم کی جانے
والی آسمانی بادشاہی کا جو پرُ آرزو خواب انہوں نے دیکھا،دونوں ان کے وقت کی
پیدوار تھے۔ وہ کسی سے مصالحت نہ کرنے والے ہٹ دھرموں کی قوم میں عالمگیر اخوت اور
محبت کے پیغامبر بن کر آئے۔ ایک اکھّڑ اور کل کھُرمی قوم میں رہ کر انہوں نے فرد
تنی اور انکسار کو اپنا شیوہ بنایا۔ وہ اپنے حواریوں سے شفقت ومودّت کاسلوک کرتے
تھے اور اپنے تمام پیروؤں کی بہبودی کا خیال رکھتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے ایک عالمی
ظرفانہ ایثار نفس کی مثال اپنے پیچھے چھوڑی طاقتور دولت مند اور حکمران طبقوں کے
سینوں میں انہوں نے صرف نفرت، خوف اور دشمنی کے جذبات پیدا کئے تھے، لیکن غریبوں،
جاہلوں،ستم رسیدوں اور محروموں کے دلوں کو انہوں نے شکر گزار ی اور محبت کے جذبات
سے معمور کردیا تھا۔ ایک دن صبح کے وقت وہ دل میں یہ امید لے کر کہ وہ مسیحا ئے
موعود بن کر دنیا میں جو کام کرنے آئے تھے اس میں انہیں کامیابی حاصل ہونے ہی والی
تھی یہودی تعصّب کے قلعے میں رارد ہوئے تھے۔ دو ہفتے نہ گزرنے پائے تھے کہ وہ اپنے
وقت کی مفاد پرستی کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھ گئے۔
حضرت عیسیٰ کی شخصیت اور
زندگی پر انسانوں کاجو پردہ پڑا ہوا ہے اس کو ہٹا یا جائے تو چند واقعات واضح طور
پر آنکھوں کے سامنے آتے ہیں۔ وہ غریبوں میں پیدا ہوئے اوران کا پیغام بھی غریبوں
ہی کے لیے تھا۔ وہ ربانوی علوم میں بڑی دسترد رکھتے تھے، لیکن ان کی مختصر المیعاد
تبلیغ صرف دیہات کے مسکین لوگوں، یعنی غریب کسانوں اور گلیلی کے ماہی گیروں کے لیے
وقف رہی۔ ان کے حواری بھی غریب اور اَن پڑھ لوگ تھے۔اگر چہ یہ لوگ زور اعتقاد تھے
اور اس پر طرّہ یہ ہواکہ حضرت عیسیٰ کے پر اسرار طریقے سے غائب ہوجانے سے انہیں
حیرت میں ڈال دیا، پھر بھی ان لوگوں نے انہیں ہمیشہ ایک انسان ہی خیال کیا۔ ان کے
مجسم خدا یا فرشتہ ہونے کا تصور تو بعد میں خو بخود جلوہ گرہونے کا وعدہ ہوچکا
تھا، تاہم ”یہ ضروری سمجھا گیاکہ آسمانی پیغام کی حمایت کے لیے کوئی ایسا شخص ہو
جواتنی علمی فضیلت رکھتا ہو کہ یہودی علماء اور غیر اہل کتاب فلاسفہ کامقابلہ خود
ان کے ہتھیاروں سے کرسکے۔ چنانچہ حضرت عیسیٰ نے خود ایک آواز غیبی کی ہدایت پر ایک
تیرہواں شخص اپنے حواریوں کے حلقے میں شامل کیا
جس کانام سال تھا (بعدمیں بدل کر پال ہوگیا) اور جسے عبرانی اور یونانی
علوم سے کافی واقفیت تھی۱؎“
مجوسی زرتشتیوں کاعقیدہ
تھا کہ ایک نجات دہندہ فرشتہ یا سردش غیبی مشرق سے نمودار ہوگا۔ بدھ مت کے پیرو
ایک مجسم دیوتایا اوتار کے قائل تھے، جسے ایک کنواری کے بطن سے پیدا ہونا تھا،
اسکندریہ کے صوفیوں نے کلام یا ایک”نیم خدا“ کا نظریہ ایجاد کیا۔ اوسائرس (Osiris) کی پیدائش، موت اور
دوسری زندگی کے سّری تصورات آئی سس سیریز (Isis-Ceres) کا تصور یعنی اس
کنواری ماں کا تصور جو نوزائید ہ سورج دیوتا ہورس ۲؎
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ Mosheim, Ecclesiastical
History, Vol. ii,p,63
۲؎ ملاحظہ کیجئے سٹرارنسٹ ڈی بنسن (Mr.
Ernest de Bunsen)
کا (باقی حاشیہ 31پر ملاحظہ فرمائیں)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(Horus) کو گود میں لیے ہوئے ہے۔ یہ تصورات مصر میں بھی اور شام میں بھی
عام تھے۔ پال جو ایک صاحب علم فریسی تھا، ان نیم صوفیانہ اور نیم فلسفیانہ خیالات
سے بڑی حد تک مثاتر تھا۔ وہ ایک خیال پرست اور جوشیلی طبعیت کاآدمی تھا۔ سٹراس (Strauss) کے تول کے مطابق وہ
جسمانی عارضوں میں مبتلا تھا۔ اس پر طرہ یہ ہوا کہ اسے حضرت عیسیٰ سے کبھی قریب
کاتعلق نہ رہا تھا۔ چنانچہ اس کے لیے آسان تھاکہ حضرت عیسیٰ کی طرف الوہیت کی صفات
منسوب کردے یا انہیں ایک مجسم فرشتہ کہے۔ اس نے حضرت عیسیٰ کی سیدھی سادی تعلیمات
میں فیثا غورسیت جدید ہ کے پر اسرار نظریے داخل کردئیے،جن میں مشرق بعید سے مستعار
لیے ہوئے عقول سمادیہ اور تین واجب الوجود ہستیوں کے تصوّرات بھی شامل تھے۔
ملکی اور غیر ملکی یہودی
اور غیر یہودی تابعین میں جو رقابت تھی اس کامظاہرہ سب سے نمایاں طور پر حضرت
عیسیٰ کے دو شاگرد وں، پطرس اور پال کی مشہور باہمی مخالفت میں ہوا۲؎۔ ابیونی (Ebionites)غالباً بنٹی ناصری
کے اصلی شاگردوں کے خیالات کے نمائندے تھے۔ حضرت عیسیٰ نے ان کے ساتھ بالمشاذ
گفتگو کی تھی اور انہوں نے حضرت عیسیٰ کو ”عقلی اور حیوانی زندگی“ کے تمام اعمال
میں اپنا ہم جنس اور ہم فطرت پایا تھا۔ انہوں نے حضرت عیسیٰ کو بچپن، نوجوانی او
ربلوغ کے مرحلوں سے گزرتے ہوئے اور عقل و دانش میں ترقی کرتے ہوئے دیکھا تھا۔
چنانچہ ان لوگوں کا حضرت عیسیٰ کے بارے میں جو عقیدہ تھا وہ ان کی انسانی شخصیت سے
اس واقفیت پر مبنی تھا۔ یہ اصلی عقیدہ تبدیلیوں کے ایک سلسلے سے گزر کر بگڑا جس کی
قابل ذکر کڑیاں دوستی (the Docetes) مارشونیٰ(The Ma reionites) پتری باسی۲؎ (The
Patripassians)
اور ان سے اخیر میں نیس کی کونسل ہے جو 328ء میں منعقد ہوئی۔ اس زمانے میں جو
عقیدہ رائج تھا کہ ذات باری کا قرن بہ قرن صدور ہوتا ہے اس کی بدولت ہر طبقے کے
لوگوں نے، بالخصوص انہوں نے جنہو ں نے حضرت عیسیٰ کو دیکھا تھا نہ ان کی انسانی
شخصیت سے آشنا ہوئے تھے اور نہ ان کی آئے دن کی زندگی ملاحظہ کی تھی، ان کی الوہیت
کا نظریہ قیل وقال کے بغیر قبول کرلیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(بقیہ ناشیہ صفحہ 30، مضمون بہ عنوان محمدؐ کا مقام کلیسا میں Astatic
Quartcrly Review, April 1889
Milener, History of the
Church of Christ, vol,i, pp. 26, 27
۲؎ وسویتی حضرت عیسیٰ کو خالص خدا سمجھتے تھے۔مارسیونیوں
(باقی حاشیہ صفحہ 32پر ملاحظہ فرمائیں)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب حضرت عیسیٰ نے تبلیغ
شروع کی اس وقت رومہ کی سلطنت نصف سے زیادہ یورپ پر پھیلی ہوئی تھی اور تقریباً
سارا شمالی افریقہ اور مغربی ایشیا کابہت بڑاحصہ اس کے زیر نگیں تھا۔ تاریخ کے ایک
اتفاقی حادثے کے بدولت یہ وسیع اقلیم عیسائیت کی پود کیاری اور مخالف فروقوں کا
میدان کا زار بن گئی۔
فریزیوں کی دیوی سبلی (Cybele)
۱؎
کے روم لائے جانے سے ایک صدی پیشتر بطلیموس سوتر، جو اسکندر کے سب سے خوش قسمت اور
غالباً سب سے دور اندیش جونیلوں میں تھا، مصر پر قابض ہوچکا تھا۔ مصریوں اور
یونانیوں کو ایک مشترک مذہب کے رشتے میں مربوط کر کے ایک واحد قوم بنانے کی خاطر
اس نے یہ تدبیرسوچی کہ ایک ایسا طریق عبادت ایجاد کرے جس میں دونوں قومیں شامل
ہوسکیں،یہی خیال دوہزار سال بعد اکبر اعظم کر سوجھا تھا،لیکن جہاں اکبر ناکام رہا
وہاں بطلیموس کو کامیابی ہوئی، کیونکہ حالات سب کے سب اس کے مساعد تھے۔ یونانی،
زیوس، دمیتراور اپالو یا ڈایونیشیس کی پوجا کرتے تھے۔ مصری اوسائرس، آئی سس ہورس،
عقیدہ تثلیث دونوں میں مشترک تھا۔ مصری مذہب کامدار اوسائی فرس اور آئی سس کے بیٹے
ہورس کی اذیت کشی اور شخیز تھا اور یونانی مذہب کامدار ڈایونی سس کی اذیت کشی اور
رستیخیز، یونان کے شہر ایلیوسس (Elousis) میں بھی پرستش کے
پر اسرار طریقے رائج تھے، جن میں نوواردوں کے داخلے کی مخفی رسوم ادا کی جاتی
تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(بقیہ حاشیہ ۱؎
31؎) کا عقیدہ تھا کہ ”وہ سب سے زیادہ خدا سے مشابہ ہے، اس کا بیٹایسوع مسیح ہے،
اور جسم کی ایک سایہ نماسی شباہت کاجامہ پہنے ہوئے ہے تاکہ انسانی آنکھیں اسے دیکھ
سکیں“۔ پتری پاسی اس کے قائل ہیں کہ آسانی باپ نے اپنے بیٹے کے ساتھ صلیب پر اذیت
سہی (موشیم اور گبن (مزید ملاحظہ کیجئے نینیڈر)
۱؎ سبلی کی پوجا ہندوؤں کی مشہور دیوی درگا یاکالی
کی پوجا سے قریب کی مشابہت رکھتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مصر ی سرکشیش بھی آئی سس
کی پر اسرار پرستش کی پیشوائی اسی قسم کی مخفی رسوم کے ساتھ کرتے تھے۔ نہ یونانیوں
کے لیے اور نہ مصریوں کے لیے یہ بات کوئی اہمیت رکھتی تھی کہ جن دیوی دیوتا ؤں کی
پوجا کی جاتی تھی یا جن کے سامنے رسوم ادا کی جاتی تھیں ان کے نام کیا تھے۔ انہیں
صرف پوجا اور رسوم کے مطلب تھا، ناموں سے کوئی واسطہ نہ تھا۔یوں سیراپیوم۔۔۔۔(Serapoum) کامسلک وجود میں
آیا۔ سیراپس (Scrapis) نے یونانیوں کے یہاں زیوس (Zeus) کی اور مصریوں کے
یہاں اوسائی رس (Osiris) کی جگہ لے لی۔ آئی سس (Isis) نے اسکندریہ کے
مسلک کی”مادرِ غمخوار“ بن کر دیمیتر (Demeter) کوبرطرف کردیا اور
ڈایونیشیش کو اب تک جو خراج عبودیت پیش کیا جاتا تھا وہ اب ہورس بییو کریٹیزا (Hours
Happoeratos)
کو پیش کیا جانے لگا۔ بہر حال ڈایونیشیس نے ایشیائے کو چک کے ساحلی علاقوں میں
اپنا مرتبہ نہ کھویا، چنانچہ عام لوگوں میں جو عقیدہ رائج تھا کہ ایک دیوتا
انسانوں میں رہ چکا تھا اور اذیتیں اٹھاکر دنیا سے رخصت ہوچکا تھااور پھر قبر سے
اٹھ کھڑا ہوا تھا اس عقیدے نے بعد میں عیسائیت کو پھیلنے میں سہولت بہم پہنچائی۔
کہاجاتاہے کہ آئی سس (Isis) جس کی شان و شوکت
کے سامنے اس کے شوہر کی عظمت ماند پڑگئی تھی، حضرت عیسیٰ کی پیدائش سے اسّی سال
پہلے روم میں پوجی جانے لگی اس کی پوجا نے بہت جلد عوام کو بھی اور شائستہ طبقوں
کو بھی اپنا گرویدہ بنا لیا۔اس کی بھرکیلی رسومات، اس کے سرمنڈے صفا چٹ داڑھیوں
والے پروہت، اس کے سفید پوش نوعمرادنےٰ پروہت، جو مشعلیں اٹھائے چلتے تھے، اس کے
باوقار جلوس، جن میں اوسانی رس ہورس کی تکلیف اور موت پر غم وانددہ کے پرُ جوش
جذبات اور اس کے دوبارہ زندہ ہونے پر دیوانہ وار خوشی کے جذبات کے اُکسانے میں
کوئی وقیقہ اٹھا نہ رکھا جاتا تھا، اس کی صوفیاہ معافی سے مملو پراسرار عبادات اور
ان سب سے بڑھ کر حیات جادوانی کی بشارتیں ایک ایسی دنیا کے لیے جس کے پرانے دیوتا
پسپ ہوچکے تھے اور جو کائنات کے دائمی مسائل سے ایک قریب تر واسطے کی تمنّائی تھی
بڑی کشش رکھتی تھیں۔کوئی تعجب کی بات نہیں کہ آئی سس نے رومیوں کے دلوں پر مضبوطی
سے قبضہ جمالیا ۱؎۔
اگرچہ ”دکھاروں پر ایک
ماں کی مامتا نچھاور کرنے والی“ آئی سس کی پوجا لوگوں کے جذبات پر ہمیشہ مسلّط
رہی، لیکن حسین سورج دیوتا متھرا (Mythra) کے نسبتاً زیادہ
مردانہ وار مسلک نے، جس میں پر اسرار
رسومات کے ساتھ ساتھ کفارہ ئ گناہ کا نظریہ اور انسانوں کیساتھ دیوتا کے
براہ راست تعلق پر اصرار بھی تھا، رومی لشکریوں میں خاص ہر دلعزیز ی حاصل کرلی
جہاں کہیں یہ لشکری کئے وہیں وہ متھراپوجا کی یادگاریں چھوڑ آئے۔
Related Article:
URL: https://www.newageislam.com/books-documents/urdu-ameer-ali-spirit-part-5/d/122545
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia
in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism