New Age Islam
Fri Nov 08 2024, 11:29 AM

Books and Documents ( 25 Jul 2020, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Sayed Ammer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Preface- Social And Religious Conditions Of Iran Before Islam- Part 4 روح اسلام: اسلام سے قبل ایران کے مذہبی ومعاشرتی حالات


سیّد امیر علی

مقدمہ (قسط ۳)

آئیے اب ہم ایران پر ایک نظر ڈالیں۔ ایران ہماری سنجیدہ توجہ کا مستحق ہے، ایک تو اس لیے کہ وہ اسلام کے مرزبوم سے اتنا قرب رکھتا ہے اور دوسرے اس لیے کہ اس نے نہ صرف دین موسوی اور دین عیسوی کے مزاج پر بلکہ فکر اسلامی پر بھی بہت گہرا اثر ڈالا ہے۔

مغربی آریہ ایک قوم کی صورت میں متحد ہوکر اور روحانی نشو و نما کے مدارج طے کر کے اپنے قدیم وطن کی حدود سے باہر نکل پڑے اور ان علاقوں میں جو آج کل ایران اور افغانستان کہلاتے ہیں پھیل گئے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان علاقوں میں حامی اور کوشی (kushlte) نسلوں کے باشندے تھے انہوں نے ان کو مسخر کرلیا یا تباہ کردیا اور رفتہ رفتہ بحیرہ خزر تک جا پہنچے جہا ں وہ حامیوں اور کوشیوں سے زیادہ مضبوط اورجفا کش تو رانیوں سے دو چار ہوئے جو ماہ اور سوسیانہ (Susiana) میں آباد تھے لیکن اس سے پیشتر کہ وہ تو رانیوں کومحکوم بناتے وہ خود ایک غیر ملکی حملہ آور کے حلقہ بگوش ہوگئے، جو یا کوشی تھا یا اشوری راغلب یہ ہے کہ اشوری تھا)اور بڑی مدت تک اس کے زیر فرمان رہے ۱؎۔ ان غیر ملکی فاتحین کے نکال دئیے جانے کے بعد ایرانیوں اور تورانیوں کی وہ جنگ شروع ہوئی جس میں کبھی ایک فریق غالب آجاتا تھا کبھی دوسرااور جوصدیوں تک جاری رہنے کے بعد اور سوسیانہ (Susiana) میں تو رانیوں کے محکوم بن جانے پر ختم ہوئی۲؎۔ افراسیاب اور کیکاؤس کے پیروؤں کو رزم وبزم میں ایک دوسرے سے  بسااوقات جو سابقہ پڑا اس نے ایرانیوں کے مذہب پر ایک دائمی اثر ڈالا۔ تو رانیوں کی انتہائی مادیت ان کے ایرانی حریفوں اور ہمسایوں کی ناپختہ تصوریت میں پستی پیداکئے بغیر نہ رہی۔ ایرانیوں نے ماد کے قدیم آبادکاروں پر غلبہ تو پا لیا۔ لیکن تورانیوں کے طریقہ ہائے پر ستش ان کے مذہب میں داخل ہوگئے۔ چنانچہ جہاں ایران میں صرف ہر مزد کی پر ستش کی جاتی تھی اور اہر من کو ملعون سمجھا جاتا تھا، وہاں ماد میں خیر وشر کے ان دونوں نمائندوں کی پوجا کی جاتی تھی۔ تورانی باشندوں کا ایرانی فاتحوں کے خدا کی بہ نسبت اپنے قومی دیوتا کی پرستش کی طرف زیادہ راغب ہونا ایک قدرتی امر تھا۔چنانچہ تورانی عوام اہرمن یا افراسیاب کو ہر مزد پر ترجیح دیتے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎  ایرانی روایات کے مطابق ضحاک نے ایک ہزار سے زیادہ سالوں تک ایران پر حکومت کی بہت سے محققوں نے اشودیوں کے اقتدار کی بھی یہی مدت بتائی ہے۔ اگر یہ خیال صحیح ہے تو فریدون کا خروج اور نینوا کا سقوط دونوں ایک ہی زمانے میں ہوئے۔

۲؎  Lenormant, Ancient History of the East, P. 54

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مادیوں اور بابلیوں کے ایک تعاونی معاہدے کی بدولت، جو تاریخ میں اپنی قسم کا پہلا معروف معاہدہ ہے، اشوری سلطنت کا تختہ اُلٹ گیا، لیکن اشوری مذہب بہت سے ایسے علاقوں پر جو آریوں نے فتح کئے اتنی مدت تک مسلّط رہ چکا تھا کہ زرتشتیوں کے تصورات پر اس کے نقوش کا ثبت رہنا ناگریز تھا۔ سماوی رابطہ بندیوں اور ایک قدسی سلسلہ مصراتب کا جو پیچیدہ تصورا شوریوں میں رائج تھا اس کاپیوندزرتشتی مذہب میں لگ گیا۔ اب ہر مزد کی ایک اشورثانی کے طور پر پرستش ہونے لگی، اور ایرانیوں نے روشنی کے خدائے مہربان کومجسم کرنے کے لئے جو علامتی نشان انتخاب کیا وہ اشوریوں کا ایک پروار سپاہی تھا، جو ہاتھ اوپر کواٹھائے اور ایک کمان تھامے سنسار چکّر میں محصور کھڑا تھا۔ ان کے یہاں جو جھاڑ نشو ونما کی علامت تھا پہلے اس کی اوپر کو اٹھی ہوئی شاخیں مل کر صنوبر کے پھل کی شکل بناتی تھیں، اب وہ سرد کے پھل کی شکل بنانے لگیں۔ اس سے قبل کہ کسریٰ نے آکر فتوحات کے ذریعے مملکت کو سالمیت بخشی،ابتدائی مہاجر وں اور آبادکاروں میں جو علامتی پرستش رائج تھی وہ عوام کے یہاں بگڑ کر آتش پرستی بن گئی یا اس نے کلدانیوں اور اشوریوں کے صابی مذہب کی صورت اختیار کرلی۔

آشور کا شہر جس نے تقریباً ایک ہزار سال سر حد ہندوستان تک سارے مغربی ایشیا پر حکومت کی تھی اور اس کے زیر فرمان آنے سے فراعنہ مصر کی سلطنت بال بال بچی تھی، طاقتور سارگون اور عظیم سنچاریب (Sennacherib) کا شہر بابلیوں اور مادیوں کے مجموعی لشکرو ں کے ہاتھوں زیر ہوچکا تھا۔ اور ایسے طور پر زیر ہوچکا تھا کہ پھر سے اقوام عالم میں سر اٹھانا نصیب نہ ہوا۔ بابل  جو شروع شروع میں غینوا کا حریف رہ کر اشوریہ کے زیر نگیں آگیا تھا پھر ایک بار ایشیائی تہذیب کا مرکز بن گیا۔اس نے ان تمام علوم وفنون کو ہر ایک ہزار سالوں کی نشوو نما کا حاصل اور ”قوموں، مذہبوں، مندروں اور پروہتوں کے اختلاط کانتیجہ تھے“ اپنے دامن میں سمیٹ لیا اور زمانہ سلف کے بے جان مذہبو اور جدید اعتقادات کے درمیان رابطے کی کڑی بن گیا۔اشوریہ نے اکاویوں سے نہ صرف ان کا تمدن اور ادب حاصل کیا تھا بلکہ ان کے مذہب سے بھی بہت کچھ اکتساب کیا تھا۔ بابل جس کی عظیم ترشان و شوکت نے نینوا کی خاکستر کے اندر سے جنم لیا تھا، ایک ایسے مذہب کا علمبردار تھا جو اشوری اور کلدانی مذہبوں کانچوڑ تھا بنو خذ نصر (بخت نصر) کے عہد حکومت میں بابل کی سلطنت اپنے اوج اقتدار کو پہنچ گئی۔ یہودیہ اس کی قلمرد میں آگیا اور اس کے چیدہ و برگزید ہ لوگ غلام بنا کر بابل میں منتقل کردیئے گئے۔تاکہ اس کے دریاکے کنارے بیٹھ کر یہودہ کی بادشاہی کا ماتم کریں۔ یہ طاقتور فاتح عرب میں بھی داخل ہوگیا اور وہاں اس نے بنی اسماعیل کو مسخّر کر کے قریب قریب تباہ کردیا۔ اس نے صوریوں کو بھی زبردست ضربیں لگائیں او ر فراعنہ مصر کی قوت کا بھی خاتمہ کر ڈالا۔ اگرچہ عبرانی وطن پرست دل کھول کر بابل پرلعنتیں بھیجتے ہیں، تاہم بابل نے یہودیوں پراتنی سختیاں نہ کیں جتنی مصر نے کیں۔ بنی اسرائیل خود اس فیاضانہ سلوک کی شہادت دیتے ہیں بوان سے کیا گیا۔جب تک نجات دہندہ نے ایک جری لشکر لے کر اس بدنصیب شہر پر چڑھائی نہ کی اس وقت تک بنی اسرائیل نے بابل کے خلاف کوئی آواز بلند نہ کی لیکن جب انہیں رہائی مل گئی تو انہوں نے سب و شتم، بددعاؤں او رملامت و نفرین کا وہ ہنگامہ برپا کیا جونسل عبرانی کے دور وحشت کا خاصہ تھا۔ ”بابل کے دریاؤں کے کنارے ہم بیٹھ گئے اور صہیون کو یاد کرکر کے روئے۔ اے دختر بابل!”خوش نصیب ہوگا وہ شخص جو نوزائیدہ بچوں کو پتھر وں پر پٹک دیگا ۱؎۔ بنوخذ نصر کے عہد حکومت میں بابل بلاشک و شبہ اس دور کی تمام تہذیبوں کا مرکز تھا اور اس کے پروہتوں کو جو اثر ولفوز حاصل تھا وہ بابلیہ کی سلطنت کے خاتمے کے ساتھ ختم نہ ہوگیا۔یہودی نظام پر بھی اور عیسوی نظام پر بھی بابلی تصورات کے نقوش نمایاں طور پر ثبت نظر آتے ہیں۔ یہودیوں نے کلدانی موبدوں کے درمیان غریب الوطنی کی جو طویل زندگی گزاری، بعض عبرانیوں کو شاہ بابل کے دربار میں جو رسوخ حاصل ہوا اور وہ دونوں قوموں میں ناگریز طور پر جو میل جول ہوا، دان سب نے یکجا ہوکر قرون اُخریٰ کی یہودیت کا مزاج بدل دیا۔ جب یہودی قیدی بناکر بابل لے جائے گئے تو وہ نیم وحشی تھے۔ جب وہ دیار غربت کی طویل آزمائشوں کے بعد صہیون لوٹے تو وہ ایک ایسی قوم بن چکے تھے جو نظریات و عقائد میں ترقی یافتہ، بڑھے ہوئے حوصلوں سے مملو اور ایک وسیع ترسیاسی بصیرت کی مالک تھی۔

فتح بابل سے مذہب کے ارتقاء کا ایک نیادور شروع ہوتا ہے۔ اب ایشیا پر مذہب ثنویت کی حکومت قائم ہوگئی۔ کسریٰ نے یہودیوں سے جو فیا ضانہ رواداری کی اس کے صلے میں انہوں نے قدرتی طور پراسے ”مسیحا“ ”نجات دہندہ“ اور ”شفیع عالم“ کے القاب دیئے۔ عبرانی قبیلوں کی اسیری،ایرانی اقتدار کے مرکز کے قریب ان کو مجبوراً آباد ہونا اور کسریٰ کے تحت ان کا ایرانیوں سے اختلاط، یہ چیزیں بھی غالباً زرنشتیوں کی اس مذہبی اصلاح کی محرک ہوئیں جو وار پوش ہستاسپ کے صحت ظہور میں آئی۔ فعل و انفعال کا دو طرفہ عمل جاری رہا۔ اسرائیلیوں نے تجدید یافتہ زرتشتی مذہب پر ایک محیط کل قدسی شخصیت کا گہرا اور پائیدار تصور مرتسم کردیا۔ اس کے بدلے میں انہوں نے ایرانیوں سے ایک سمادی سلسلہ مراتب اور خیر و شر کی تخلیق کے اصول دوگانہ کا خیال اکتساب کیا۔ اب اسرائیلی یہ نہ کہتے تھے کہ خدا خود گناہگار وں کے اند ر بدی کی روح داخل کر دیتا ہے۔ اہر من کی طرح شیطان نے عبرانیوں کی مذہبی واخلاقی تاریخ میں ایک نمایاں کردار ادا کرنا شروع کردیا۔

کسریٰ کاعہد حکومت ملک گیری کادور تھا، تنظیم کا دور نہ تھا۔ وار پوش کا عہد حکومت استحکام کا دور تھا۔ وہ ہر مزد کا پکّا پر ستار تھا۔ اپنی ساری فتوحات کو اس کا احساس کہتا تھا۔ چنانچہ اس نے یہ کوشش کی جہ زر تشتی مذہب کو ساری غیر ملکی آلائشوں سے پاک کردے، مادیوں کی مجوسیت کاقلعہ مسمار کردے اور آریہ ن ژاد ایرانیوں کو مہذب دنیا کی سب سے بڑی طاقت بنائے۔ لیکن انحطاط کاجو عمل شروع ہوچکا تھا وہ کسی کے روکے رُک نہ سکتا تھا۔ ایک سو سال: گزرنے پائے تھے کہ زرتشتی مذہب نے وہ ساری خرابیاں کوٹ کوٹ کر اپنے اندر بھرلیں جن کا اس نے اپنے عہد طفلی میں مقابلہ کیا تھا۔ جو لوگ بت پرستوں کے لیے عذاب کے فرشتے تھے اور جن کا جوش بت شکنی اس غضب کا تھا کہ انہوں نے مصریوں کے متبرک بیل ایپس (Apis) کو ذبح کر ڈالا تھا اور اس کے استھان کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی، انہوں نے بہت جلد ہر مزد کی پرستش میں اپنے محکوم ملکوں کے سامی خداؤں کو داخل کرلیا۔ پرانی مجوسی عناصر پرستی از سر نوتازہ ہوگئی، اور واریوش کے ایک قریبی جانشین اروشیر میمون (Artaxorxos Mnemon) نے زرتشیتں میں مخنث دیوتا متھرا کی پوجا رائج کرائی۔ یہ کلدانی دیوتا ملتا یا انائی تیس کا متنےٰ تھااور اس کے ساتھ لنگ پوجا بھی وابستہ تھی۔ اس متھرا پوجا کا نشو ونما پاکر خوبصورت سورج دیوتا کی پرستش میں تبدیل ہوجانا تاریخ کے عجائبات میں سے ہے۔ جگمگاتا ہوا سورج پہاڑوں کی درزوں کے اندر سے نکلتا ہو ا، بیل کو باڑے میں لے جاکر ہلاک کرتا ہوا اور اس کے خون سے انسانی گناہوں کا کفّارہ ادا کرتا ہوا، یہ ایک ایسا تصور ہے جو دنیا کے ایک عظیم مذہب پر اپنا ان مٹ نقش چھوڑ گیا ہے۔متھرا کی پوجا کو رومی لشکری وادیئ فراد سے یورپ کے دور ترین گوشوں میں لے گئے اور قیصر ڈائیوکلیشین (Diocletian) کے زمانے میں وہ روا کا سرکاری مذہب بن گئی۔

مجوسی زرتشتیوں کے تحت عورتوں کے جو حالات تھے اس سے بدتر اور کبھی نہ ہوئے تھے۔ وہ مردوں کے من کی موج کی باندیاں تھیں۔ منو کے قوانین نے ایک قسم کی عصمت عائد کی اور اپنی گوت کے باہر بیاہ کرنے کا جو سخت قاعدہ ابتدائی آریوں میں رائج تھا، اس نے کسی حد تک نفسیانی خواہشات پر لگام کا کام دیا۔ لیکن ایرانی جنسی تعلقات کے معاملات میں اپنی مرضی کے سوا کسی قانون کے تابع نہ تھے۔ وہ اپنے قریبی رشتہ داروں سے شادی کرسکتے تھے او راپنی خوشی سے بیویوں کو طلاق دے سکتے تھے۔ عورتوں کو پردے میں رکھنے کی رسم ایرانیوں ہی تک محدود نہ تھی۔ آیونیا (Ionia) کے یونانیوں کے یہاں عورتیں حرم سرا (gynaikonitis) میں بند رہتی تھیں۔ جس کے دروازے سے عموماً قفل بستہ ہوتے تھے، او رانہیں سرعام باہر آنے کی مطلق اجازت نہ تھی۔بہرحال ابتدائی زمانے میں یونانی حرم سراؤں کی رہنے والیوں کو مجروح کرکے بے بس نہ کردیا جاتا تھا۔ ایران میں عورتوں کی نگہبانی کے لیے خواجہ سراؤں کو ملازم رکھنے کا دستور قدیم ترین زمانوں سے چلاآرہاتھا۔ یونان کی طرح ایران میں بھی جاریہ بازی یعنی باندیوں کو داشتہ بناکر رکھنے کا دستور ایک معروف دستور تھا اور معاشرے کے رگ و پے میں ساری تھا۔ بہر حال ایرانیوں نے شہوت رانی کو اپنی قومی عبادت میں داخل نہیں ہونے دیا۔ ان کے یہاں کوئی الیفر و ڈائٹی پنیڈیموس (Aphrodite Pandemos)نہ تھی۔ زرتشتی معاشرہ اس اخلاقی وبا میں مبتلانہ تھا، ہو تمام بدکاریوں میں سب سے ذلیل بدکاری ہے اور جو یونان میں عام تھی اور پھر روم میں بھی پھیل گئی اور جس کا قلع قمع عیسائیت بھی نہ کر سکی ۱؎۔

جب ہخامنشی سلطنت کو زوال آیا تو اس کے بعدزرتشتیت دنیا کی ترقی میں ایک قوت محرکہ نہ رہی۔ فاتحوں کے اُن ٹڈی دل لشکروں نے جو ایران کی سرزمین پر جھکڑوں کی طرح آئے معاشرتی اوراخلاقی زندگی کا نظام تہ بالا کردیا۔ سکندریہ مقدونی کا ظفر مندانہ حملہ، وہ بھانت بھانت کے جتھے جو اس کے جلو میں آئے، ایشیائے کو پک کے وہ ذلیل ترین لوگ سلیشی، سوری، پمفیلی، فریزی اور لاتعداد دوسری قوموں کے لوگ  نیم یونانی، نیم ایشیائی، جوگار کی طرح اس طغیانی کے ساتھ آکر ایران کی سرزمین پر پھیل گئے اور جو کوئی اخلاقی قانون نہ مانتے تھے اور ان سب سے بڑھ چڑھ کر خود فاتح کا جلد باز اور بے دھڑک مزاج ان سب نے مل کر زرتشتی مذہب کو پستی میں دھکیل دیا۔ قومی زندگی کے نمائندے موبدفاتح کی چیرہ دستیوں کے تختہ مشق بنے کیونکہ اس کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد ایشیا کو یونانی رنگ میں رنگنا تھا۔

سکندر کی زندگی ایک شہاب ثاقب کی طرح تھی قصے کہانیو ں کاجوتانا بانا اس کی شخصیت کے گرد بنا گیا ہے اور جس نے اس کی زندگی کو ایک حماسہ بنا دیا ہے اسے ہٹا بھی دیاجائے تو اس صورت میں بھی وہ مہتم بالشّان تصورات او ربلند ہمت مقاصد کا ایک مجسمہ بن کر ہمارے سامنے آتا ہے جس میں اعلیٰ درجے کی ا ولوالعزمی تھی۔ ایک ایسی زبردست فطانت تھی جو ہر طرح کی مخالفت پر غالب آجاتی تھی ا ور ایک ایسی شخصی جاذبیت تھی جس کی بدولت وہ اپنے ارد گرد کے تمام لوگوں کے دل و دماغ کو اپنے ارادوں کے سانچے میں ڈھال دیتا تھا۔ اس کی طبیعت ایک اجتماع ضّدین تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ Dollinger, The Gentile and the Jea, Vol. ii, P. 239

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ تھا تو ارسطو کا ایک شاگرد جس کا نصب العین یہ تھا کہ ایشیا کو ایک یونانی بنادے اور خود ساری دنیا سے خراج عبودیت وصول کر ے اور دوسرے وہ فلاسفہ و حکماء کا ہم صحبت بھی رہ چکاتھا لیکن اس کے باوجود اس کی زندگی نفرت انگیز زیادتیوں سے مملو تھی۔ اس کا ایک مدّاح ذیل کے الفاظ میں اس امر کا اعتراف کرتا ہے: ”صور کی تاخت و تاج اور اس کے باشندوں کو طوق خلامی پہنانا، ہندوستان او رباختر میں اس نے جو ہنگامہ قتال برپا کیا، کلائٹس کا قتل فلوئس اور وفادار پارمینیو کی موت کے فرمان جو اس نے جاری کیے، طوائفوں کے کہنے پر تخت جمشید کا جلانااور اس کے کتب خانے کو راکھ کاڈھیر بنادینا،یہ سب ایسے کام تھے جن کی کوئی معذرت تاریخ پیش نہیں کرسکتی، سکندر کی فتح یابی اور ہخامنشی سلطنت کی بربادی کے بعد مذہب زرتشت کی جگہ یونانیت اور کلدانی تہذیب کی بدترین روایات نے لے لی۔اساطیر الصنّاوید کے اس ہیرو کے دل میں بابل کی جو محبت اور اسے ایک نئی،قومی تر اور مکمل تر تہذیب کا مرکز بنانے کی جو زبردست خواہش تھی اس کی وجہ سے اس نے تمام ایسے مذاہب وعقائد اور سیاسی یا مذہبی اداروں کو پروان چڑھنے سے روکا جو اس کے واحد مقصد کے منافی تھے۔ سیلوکی حکمرانوں کے تحت ایرانیو ں کی قومی خصوصیات کو تبدیل کرنے کا عمل ثابت قدمی سے جاری رہا، انیٹیو کس ایسپی فینیز کو، جس نے یہودہ کے پرستاروں پر انتہائی مظالم توڑے،یہودیوں نے بھی اور زرتشتیوں نے بھی اہرمن کا نفرت انگیز لقب دیا۔ پارتھیوں کے برسر اقتدار آنے کا بھی یہ اثر ہواکہ مذہب زرتشت کے زوال میں سرعت آگئی۔ سلیو کی فرماں روا وجلہ اور اوردنیٹز کے کناروں پر حکمران تھے۔ پارتھیوں نے ہخامنشی سلطنت کے وسط میں اپنی بادشاہی قائم کی، یونانی، باختری خاندان مشرقی علاقوں، یعنی باختر اور شمالی افغانستان پر قابض تھے۔ سلیو کیوں کا سرکاری مذہب کلدانی اوریونانی مذاہب کا مرکب تھا۔ یہودی اور زرتشتی جلاوطن اور معاشرتی حقوق سے محروم کردیئے گئے۔ پارتھیوں کے تحت مزوکیت اگرچہ بالکل ختم نہ ہوگئی، پھر بھی حکمرانوں کی نظر بچا کر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوگئی۔ جن علاقوں میں امن و امان تھا وہاں زرتشتیت مادیوں اور کلدانیوں کی پرانی صابیت سے مخلوط ہوگئی۔ اگر کسی جگہ وہ اپنی اصلی صورت میں قائم بھی رہی تو وہاں بھی اسے صرف چند ایسے موبدوں کے دلوں میں جگہ ملی جوملک کے دور و دراز حصول میں روپوش تھے، لیکن جب پاتھیا پھیل کر ایک سلطنت بن گیااور پارتھی حکمرانوں کے سینوں میں شہنشاہ کے لقب کا شوق پیدا ہوا تو انہوں نے جبرد تعدی کو چھوڑ کر رواداری کا شیوہ اختیار کیا۔چنانچہ مجوسی زرتشتیت نے از سر نو مذاہب عالم کی صف میں سر اٹھا یا۔ ساسانیوں کے عروج نے اسے مزید تقویت بخشی۔ نئی سلطنت کے بانی نے موبدوں کے اعیان مملکت کے منصب عطا کئے۔ ایک قریب مرگ مذہب کے یہ آخری نمائندے ان تمام امیدوں کا مرجع تھے جو زرتشتیوں کے دلوں میں ساسانی خاندان کے زیر سایہ نئی زندگی پانے سے متعلق پیدا ہوئیں۔ اس نئی سلطنت کے بانی اروشیر بابکان کی اولوالعزانہ اُمنگیں کہاں تک پوری ہوئیں،یہ ایران کی تاریخ کی ایک چیستان ہے۔ ایران کی سیاسی آزادی، یعنی اس کی قومی زندگی توبحال ہوگئی، لیکن معاشرتی اور مذہبی زندگی اس حد تک زوال پذیر ہوچکی تھی کہ اس کا احیاء حکمرانوں کے بس میں نہ تھا۔ قدیم تعلیمات کتابوں کے اوراق میں تو محفوظ تھیں، لیکن لوگوں کے سینوں میں وہ کشتاسب او ر رستم کی طرح مردہ ہوچکی تھی۔

Related Article:

Part: 1- The Spirit of Islam Authored by Sayed Ameer Ali: An Introduction- Part 1 سید امیر علی کی تصنیف ،روح اسلام: ایک تعارف

Part: 2 - The Spirit Of Islam Authored By Sayed Ameer Ali: Preface – Pre Islamic Social And Religious Conditions Of The World- Part 2 سید امیر علی کی تصنیف ،روح اسلام: مقدمہ ، اسلام سے پہلے اقوام عالم کے مذہبی اور معاشرتی حالات

Part: 3- The Spirit Of Islam: Preface- Social And Religious Conditions Of the Aryans- Part 3 روح اسلام: بعثت اسلام کے وقت آریہ قوم کے مذہبی ومعاشرتی حالات

URL: https://www.newageislam.com/books-documents/urdu-ameer-ali-spirit-part-4/d/122459


New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..