سید
امیر علی
مقدمہ (قسط ۱۰)
کعبہ، جس کی تعمیر قدیم
الایام میں حضرت ابراہیم کے ہاتھوں ہوئی، ہمیشہ عرب قوم کا مقدس ترین معبد رہا ہے۔
اس میں تین سو ساٹھ بُت نصب تھے، گویا سال کے ہر دن کیلئے ایک بُت۔ان کے مرکز میں
ہُبل تھا، جو سرخ عقیق کابناہوا تھا۔ اس کے علاوہ غزالین تھے، ایک سونے کا اور ایک
چاندی کا۔ اور تو اور،حضرت ابراہیم اور ان
کے بیٹے حضرت اسمٰعیل کے بُت بھی تھے، یہاں سب قبیلوں کے لوگ ہر سال آتے تھے اور
آکر سنگ ِ اسود کو بوسہ دیتے تھے، جو حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے میں آسمان سے
گرا تھا اور سرتاپا برہنہ ہوکر سات بار کعبہ کا طواف کرتے تھے۔ ”چنانچہ مکّہ
ابتدائی ایام سے نہ صرف عربوں کی مذہبی عقیدت کا مرجع بلکہ ان کی تجارت کا سب سے
بڑا مرکز تھا۔ چونکہ وہ پرُانے زمانے کی تجارتی شاہراہ پر واقع تھا اس لیے ہمسایہ
ملکوں کی ساری دولت اور ثقافت اس کی طرف کھینچی چلی آتی تھی۔بابلی فاتح کو بھی اس
کی مقدرت نہ ہوئی کہ مکّے کی تجارتی خوشحالی کو کوئی نقصان پہنچا سکتا، کیونکہ
عربوں کو جو جغرافیائی حیثیت حاصل تھی اس کی بدولت اقوام عالم کے اموال تجارت کانقل
و حمل خاص طور پر ان کے حصے میں آیا تھا۔
مکہ اس تجارتی سرگرمی کا
مرکز تھا جس نے ہمیشہ عربوں کو دوسری ایشیائی اقوام سے ممتاز کیا ہے۔ مکّے سے وہ
قافلے روانہ ہوتے تھے جو یمن اور شہرہ آفاق ہندوستان کی پیداوار اور مصنوعات لے
جاکر بازنطینی ولایتوں او رایران میں پہنچاتے تھے اور شام سے ایرانی شہروں کے
ریشمی کپڑے لاتے تھے۔ لیکن وہ صرف تجارتی مال ہی نہیں لائے، ان کے جلو میں عیش و
عشرت کی وہ تمام عادتیں او ر وہ تمام خرابیاں بھی آئیں جنہوں نے ہمسایہ سلطنتوں کو
زنگ کی طرح کھا لیا تھا۔ یونانی اور ایرانی کنیزیں، جو شام اور عراق سے لائی جاتی
تھیں، نہ صرف رقص و سرور سے امیروں کے لیے مشغلہ بیکاری مہیاکرتی تھیں بلکہ ان کی
نفسیاتی تسکین کا ذریعہ بھی بنتی تھیں۔ وہ شاعر جس کا کلام عربوں کا مایہ افتخار
ہے صرف موجود ہ زندگی کی لذّتوں کے گیت گاتاتھا اور لوگوں کی اخلاقی خرابیوں کو شہ
دیتا تھا۔ فکر فرد ا کسی کونہ تھی۔
عرب او ربالخصوص اہل مکہ
شراب جوئے اور گانے کے والہ وشید ا تھے۔ دوسرے ایشیا ملکوں کی طرح عرب میں بھی ناچ
اور گانا ادنیٰ طبقے کی عورتوں کا پیشہ تھا۔ جنہیں قیان (Kiyan) صیغیہئ واحد میں
قیشہ (Kayna) کہتے تھے اور جن کی عصمت فروشی ضرب المثل تھی۔ اس کے باوجود ان
کی بڑی عزت کی جاتی تھی او ربڑے بڑے سرداران سے مفاخرانہ عشق بازی کرتے تھے۱؎ ہندوؤں کی طرح عربوں
میں بھی تعدّداز واج بے حدّوحساب تھا۔ ماں کے سوا ہر بیوہ متوفی کے وارثوں کی
ملکیت سمجھی جاتی تھی او رلڑکے کے استعمال میں لائی جاتی تھی۔نوزائیدہ بچیوں کو
دفن کردینے کا نفرت انگیز اور انسانیت سوز و ستور بھی عام تھا۔
یہودیوں کو جنہیں
اشوریوں، یونانیوں اور رومیوں نے یکے بعد دیگرے گھر سے بے گھر کیا تھا، عربوں کے
یہاں امان مل گئی تھی۔ لیکن وہ اپنے ساتھ اپنا مذہب ہی نہ لائے تھے،بلکہ عربدہ جوئی
کی وہ فطرت بھی جو ان کی مصیبتوں کاسب سے بڑاسرچشمہ تھی۔ بہر حال انہوں نے عربوں
میں سے بہت سے لوگوں کواپنے مذہب میں داخل کرلیا تھا، چنانچہ جب حضرت محمد صلی
اللہ علیہ وسلم نے منبلیع اسلام شروع کی تو اس وقت کُہلان کے دو بیٹوں حمیر او
رکندہ کے جانشینوں میں سے ایک مقتدر گروہ یمن میں اور دوقبیلے بنو قریظ اور بو
نظیر(Nazir)جو بنی اسمٰعیل میں سے تھے،لیکن قدیم الایاّم سے عرب میں بودوباش
کررہے تھے،خیبر اور یثرب میں یہودی مذہب کے پیرو تھے۔نسطوریوں اور جیکبی عیسائیوں
نے بھی بستیاں بسا رکھنی تھیں، ان دو حریف مذہبوں میں عرب پر تسلّط حاصل کرنے کی
خاطر جوکش مکش رہتی تھی، وہ جزیرہ نما کے سب سے زرخیز صوبوں میں خونر یز لڑائیوں
کا موجب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ لوگوں کی اخلاقی ذلّت کااندازہ اس سے کیا
جاسکتا ہے کہ یہ عورتیں اپنے گھروں میں ضیافتیں دیا کرتی تھیں جن میں شہر کے
رؤساواُمراء شامل تھے۔
شہری عرب قمار بازی کے
اتنے شوقین تھے کہ ٹیسی ٹس جن جرمنو ں کا تذکرہ کرتا ہے، ان کی طرح وہ اپنی آزادی
بھی بد دیا کرتے تھے۔ یہ ان برائیوں کی وجہ سے اور ان کے ساتھ جو اخلاقی خرابیاں
وابستہ تھیں ان کی وجہ سے تھا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیروؤں پر
جوئے ناچ اور شراب خوری کو حرام کردیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنتی رہتی تھی ۱؎۔ ربیعہ ابن نزار کی نسل
کے چند خاندان مثلاً بنی تغلب جوبین النہر ین میں او ربنی عبدالقیس جو بحرین میں
آباد تھے، عیسائیت قبول کرچکے تھے۔ بجران میں بنی حارث ابن کعب،عراق میں بنی عباد،
شام میں آل غسان اور خزاعہ،دومۃ الجندل میں اور بنی کلب اس کے پیروبن چکے تھے۔ جو
قبیلے فلسطین اور مصر کے درمیان کے ریگستانو ں اور بادیہ گروی کرتے رہتے تھے ان
میں سے بعض بھی اس کے دائرے میں داخل ہوچکے تھے۔ مجوسیت اور صابیت کے نام لیوا بھی
عربو ں اور بالخصوص آل حمیر میں موجود تھے۔ بنی اسد عطا روکے، بنی جرُہُم مشتری
کے، بنی طے سہیل کے اور قیس عیلان کے جانشین شعریٰ کے پجاری تھے۔ قریش کے چند گروہ
تین چاند دیولوں، لات، منات اورعزی کر پوجتے تھے اور انہیں بنات اللہ تصور کرتے
تھے۔ مکہ اس وقت دور دور تک پھیلی ہوئی بُت پرستی کا مرکز تھا، جس کی شاخیں جزیرہ
نمائے عرب کے ہر قبیلے میں پائی جاتی تھیں۔ کنانہ، جو قریش سے خون کا رشتہ بھی اور
سیاسی اتحاد بھی رکھتے تھے، ستارہئ الدبر ان کے علاوہ عزی کی پرستش کرتے تھے جو
مکّے سے ڈیڑھ دن کے مسافت پر ایک مقام نخلہ کے ایک درخت میں مجسم تصور کی جاتی
تھی۔ ہوازن جو مکے کے جنوب مشرق میں باویہ گردی کرتے پھرتے تھے، لات دیوی کی پوجا
کرتے تھے، جس کا بُت طائف میں نصب تھا، منات کو ایک چٹان میں مجّسم سمجھا جاتا
تھا، جو مکہ اور شام کے درمیان کی سڑک کے کنارے تھی۔ ان بتو ں کی پرستش میں زیادہ
ترلنگ پوجا کی رسومات پر عمل کیاجاتا تھا اور وہ قدیم سامیوں، فینتیبو اور بابلیوں
کی پوجا ہے بڑی مشابہت رکھتی تھی۔ لیکن بیشتر عرب بالخصوص آل مضر کے لوگ، ایک بہت
نہایت ذلیل قسم کی بُت پرستی کے عادی تھے۔ جانور، پودے، غزال، گھوڑا، اونٹ، کھجور
کا درخت، چٹانیں، پتھر، یہ سب چیزیں ان کی معبود تھیں، بہر حال وہ ایک خدائے بزرگ
و برتر کے تصور سے بھی ناآشنا تھے، لیکن یہ تصور معددوے چند لوگوں تک محدودتھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ ابن الاثیر۔جلد اوّل صفحہ 308۔
Gibbon Decline and Fall
of the Raman Empire, vol. vi, pp 114,115, Caussin de Perceval Hist des Arabs,
vol. i,pp.128-131
۔۔۔۔۔۔۔۔
جنہوں نے بُت پرستی کی
غلامی سے فرار کرکے ایک قسم کافسلفیانہ تشککّ اختیار کیا جس میں ان کے ہمسایوں،
صابیوں، یہودیو ں اور عیسائیوں کے قصے کہانیوں کے رنگ بھرے ہوئے تھے۔ اس محدود
طبقے لوگ ربّ الاعلیٰ کے صراحتہً قائل تھے اور اپنے زمانے کی فحاشیوں اور مادہ
پرستی سے متنفّر ہوکر کسی نجات دہندہ کے لیے چشم براہ تھے جس کے جلد آنے کا ان کے
دل میں یقین تھا۔
بعض قبیلوں میں یہ قاعد
تھا کہ جب کوئی شخص مرجاتا تو اس کی قبر پر ایک اونٹنی ذبح کی جاتی یابے آب و دانہ
باندھ دی جاتی تاکہ بھوک او ر پیاس کے مارے مرجائے۔ یہ اس عقیدے کی بناپر کیا جاتاکہ اونٹنی مرے ہوئے شخص کی آئندہ زندگی میں
اس کی سواری کا کام دی گی۔ بعض لوگوں کا یہ عقیدہ تھا کہ روح جسم سے جدا ہوکر ایک
پرندے کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ جسے وہ ہامتہ یا صدیٰ کہتے تھے۔اگر را ہوا شخص
کسی کے ہاتھوں قتل کیا گیا ہوتا تو جب تک قتل کا قصاص نہ لیاجاتا پرندہ مقتول کی
قبر کے اوپر،اسقونی، اسقونی کہتا ہوا منڈلاتا رہتا تھا۔ جنوں اور غولوں پر ایمان
اور بتوں کے ذریعے غیب کی اطاعت حاصل کرنے پر عقیدہ عام تھا۔ بتوں سے تیروں کے
ذریعے بشارت لی جاتی تھی۔ جنہیں ازلام اور قداح کہتے تھے۔ ہر قبیلے جُدا بت اور
جُدا بت خانہ تھا ان بُت خانوں میں جو پروہت ہوتے تھے انہیں بیش بہا ہدیے دیئے
جاتے تھے، اور مختلف بُت خانوں کے پرستاروں کے درمیان اکثر خونریزچپقلشیں ہوتی
رہتی تھیں ۱؎۔
لیکن حضرت ابراہیم اور
حضرت اسمٰعیل کا معبد، یعنی کعبہ، سب قبیلوں کے نزدیک سب سے زیادہ عظمت رکھتا تھا۔
یہودی اورصابی بھی کعبے پرنذریں چڑھاتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ سب سے مشہور بتکدے یہ تھے۔ یمن میں بنی خشعم کا
ذوالخلاصہ،نجدمیں بنی ربعیہ کا روضہ، عراق میں ذوسبات اور ساحل بحر کے قریب قدسیہ
کے مقا م پر منات کا مندر، جس میں اوس اور خزرج کے قبیلے قدید جو یثرب میں آباد
تھے، اپنے دیوتا کی پرستش کرتے تھے۔
۲؎ میور جلداوّل، مقدمہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس عبادت گاہ کی تولیت
قبائل میں بڑی رقابت کا موجب تھی، کیونکہ اس کے ساتھ بہت سے ایسے اعزازات اور
خصوصی حقوق وابستہ تھے جن کی عربوں کی نگاہوں میں بڑی قدر م منزلت تھی۔ پیغمبر
اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاخاندان کعبے
کامتولی تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا اس کی مملکت کی رئیس تھے۔ انسانی
قربانیوں کا دستور عام تھا۔ کعبے میں جو خاص خاص بت نصب تھے ان کے علاوہ ہر خاندان
کا ایک علیٰحدہ بت تھا جس کی عبادت کی رسوم سخت پابندی سے ادا کی جاتی تھیں۔
یہ تھی عربوں کی اخلاقی
اور مذہبی حالت نہ یہودیت اور نہ عیسائیت ان میں انسانی خوبیاں پیداکرنے میں کامیاب
ہوئی تھی۔ میور (Muir) کہتا ہے، ”اگر چہ عیسائیت کی تبلیغ پانچ صدیوں سے ہورہی تھی،
تاہم عیسائیوں کے صرف اکّا دکّا گروہ کہیں کہیں دکھائی دیتے تھے،یعنی بنی حارث
نجران میں،بنی حنیفہ یمامہ میں،بنی طے کے چند خا ندان تیماء میں، ادربس۔ یہودیت نے
بھی، جو عیسائیت سے کہیں زیادہ طاقتور تھی، دونوں اس کے تحت وقتاً فوقتاً لوگوں کو
اپنے دائرے میں داخل کرنے کی غیر مستقل سی کوششیں کی تھیں، لیکن اب اس کی تبلیغ
سرگرمیاں ختم ہوچکی تھیں۔مختصر یہ ہے کہ اگر اس کے مذہبی منظر کا جائزہ لیا جائے
تو ہم دیکھتے ہیں ہب عیسائیت کی ضعیف کوششوں نے عربی زندی کے سمندر کی سطح پر صرف
خفیف سے ہلکورے پیدا کئے تھے۔ یہودیت کے نسبتہً زیادہ مخوی اثرات ایک زیادہ گہرے
اور زیادہ ہیجانی دھارے کی صورت میں دکھائی دیتے ہیں، لیکن مقامی بت پرستی اور
اسمٰعیلی تو ہم پرستی کا سیلاب جو ہر سمت سے اٹھ کر لگاتار اُمڈ تا ہوا کعبے کی
طرف رواں دواں رہتا تھا اس امر کی و افر شہادت بہم پہنچا تا ہے کہ مکّے کے مذہب
اور طریق عبادت نے نفس عربی کو مضبوطی سے اورحتمی طور پر اپنی غلامی کے شکنجے میں
جکڑ رکھا تھا۱؎۔“
قبیلوں کے باہمی تفرقوں او ررقابتوں ۲؎
نے اور مذہبی اور نسلی اختلافات کے پیدا کئے ہوئے مخاصمانہ جذبات نے جو ایک قبیلے
کو دوسرے قبیلے کے خلاف آمادہئ پیکار رکھتے تھے“۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ میور۔ جلداوّل۔ مقدّمہ
۲؎ یہ قبائلی مخاصمے او ر خاندانی جھگڑے،جن کا
مفصل بیان آگے چل کر آئے گا، عرب شہنشاہ ہی کی بربادی کا باعث بنے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شوریوں، بابلیوں یونانیوں
اور ایرانیوں کو شمال، جنوب، مشرق اور جنوب مغرب میں مختلف اقطاع پر متصّرف ہونے
کا موقع بہم پہنچا یا تھا۔ حبشی تو یہاں تک آگے بڑھ آئے تھے کہ انہوں نے کعبے کو
مسمار کرنے کے ارادے سے حجاز پر حملہ بھی کردیا تھا۔ لیکن عبدالمطلب کی حبّ الوطنی
نے کعبے کے سامنے ان کی طاقت کو پاش پاش کردیا تھا۔ بیس سالو ں تک انہوں نے یمن
کواپنی ستم رانیوں کا تختہ مشق بنایا۔ کاس کے بعد ایک مقامی حکمران، یعنی نامور سیف
ذوالیزان کے بیٹے نے انہیں ایران سے امداد لے کر یمن سے نکالا۔ جب اس حکمران کو عیسائیوں
نے قتل کردیا تو اس کی ریاست،جس پر وہ انوشیردان ِ عادل کے زیر سایہ حکومت کررہا
تھا، ایرانیوں کے ہاتھ میں چلی گئی او ریمن شہنشاہ ایران کا باجگزار بن گیا۱؎۔
قسطنطنیہ اور ایران کی
سلطنتوں نے عرب کے مختلف خطّوں پرجو تسلّط قائم کررکھا تھا اس کے علاوہ وہ سب سے
بڑے عرب حکمران، یعنی غسان او رحیرہ کے بادشاہ، قیصروں اور خسردوں کے باجگزارتھے،
اور ان بے سود او ربے مقصد جنگوں میں جو ایرانیوں اور بازنطینینوں نے آپس میں لڑیں
اور جن کی خاطر انہوں نے اپنی رعایا کاخون زندگی چوس لیا اہل غساّن اور اہل خیرہ ایک
دوسرے کے مقابل صف آرا یا ایک دوسرے سے گتھم گتھّا ہوئے، اگر چہ بالعموم زرتشتی عیسائیوں
کی بہ نسبت زیادہ حق بجانب تھے۲؎۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ ابن الاثیر۔جلد اوّل Caussin
de perceval, vol.i. p. 138 طبری۔
۲؎
یمن،بحرین اور عراق کے شہری ایرانیوں کے تابع فرمان تھے۔ ان ملکوں کے بدو کسی حکم
نہ ماننے تھے۔ شام کے عرب رومیوں کے مطیع تھے۔ بین النہر ین کے عرب کبھی باز نطینیوں
کے او رکبھی ایرانیوں کے۔وسطی عرب اور حجاز کے بدو، جن پر حمیری بادشاہ مؤثر طور
پر حکومت کرتے رہے تھے، برائے نام ایرانیوں کے زیر اقتدار آگئے تھے، لیکن الواقعہ
وہ آزاد تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جزیرہ نمائے عرب کی آبادی
نے یوں جن مختلف النوّع عناصر سے ترکیب پائی تھی انہوں نے ملک کی لوک کہانیوں میں
بے انتہا تنّوع پیداکردیا ہے۔غیر متّمدن قوموں میں ہمیشہ رجحان ہوتا ہے کہ وہ
واقعات کو قصے کہانیو ں کاجامہ پہناتے ہیں ان کا تخّیل دور کی چیزوں کو نہ صرف خوشنما
رنگوں میں رنگ دیتا ہے بلکہ انہیں اصل سے بڑا بھی بنادیتا ہے اور اگر کسی قوم
کاتمدن بھانت بھانت کے تمّدنوں کا مرکّب ہوتو اس میں ایسی لاتعداد کہانیاں رائج
ہوجاتی ہے جو کم و بیش واقعات پرمبنی ہوتی ہیں۔ یمن اور جنوب مغربی خطّوں میں جو
حامی لوگ آکر آباد ہوئے،وہ خالص سامی جو ان کے عقب میں آئے جیسے آریہ لوگ مشرق میں
آئے تھے، یہودی،عیسائی سب اپنی اپنی روایات،اساطیر اور داستانیں ساتھ لے کر آئے۔
مرورِ زمانہ کے ساتھ ماضی کی ان باقیات میں ایک طرح کی مطابقت پیدا ہوگئی۔ لیکن وہ
بظاہر چاہے کتنی ہی بے بنیاد معلوم ہوں، اگر ان کا تجزیہ کیا جائے تو ان کی سطح کے
نیچے ہمیشہ واقعات کی ایک تہ دکھائی دیتی ہے۔ مثلاً شدّاد اور اس کے باغ ارم کی
بابت جو قصہ مشہور ہے اس کے دھندلے آئینے میں ہمیں ایک زبردست سلطنت کا عکس نظر
آتا ہے جس نے مصر کو بھی اپنی قلمر ومیں شامل کرلیا تھا۔“ یہ سلطنت ایک دولت مند
قوم کی سلطنت تھی جس نے شاندار عمارتیں بنائیں جس کی تہذیب کا فدیہ کی تہذیب سے
مشابہ اور ترقی یافتہ تھی اور جس کا مذہب بابل کے مذہب سے ملتا جلتا تھا۔ اس قوم کی
مادی ترقی کے پہلو بہ پہلو شدید قسم کی اخلاقی خرابیاں اور فحش رسوم تھیں ۱؎۔ اسی طرح قومِ عاد اور
قوم ثمود کی تباہی کے بارے میں جو نیم افسانوی اور نیم تاریخی روایات ہیں۔ ان میں
ہمیں اشوریو ں اور عربوں، یعنی سامیوں کے سیلاب کے ہاتھوں نسل حامی کی تباہی کا
نقشہ دکھائی دیتا ہے ۲؎۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ Lenormant, Ancient
History the East,vol, ii, p. 296
۲؎
ابن الاثیر۔جلد اوّل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آل یقوب جب اپنے بے پناہ
دشمنوں سے بھاگ کر جزیرہ نمائے عرب میں آئی تواپنے قصے اور روایات اپنے ساتھ لائی
جنہوں نے عربی لوگ کہانیوں میں ایک نئے عنصر کا اضافہ کیا۔ سامی مہاجرین سے جو لوگ
سب سے اخیر میں آئے وہ اپنے آپ کو اولاد ابراہیم کہتے تھے اور ان کے ہمسائے بھی اس
امر کو تسلیم کرتے تھے۔ یہ اعتقاد پشت بہ پشت رویہ چلا آرہا تھا اور اس نے ایک
مسلّمہ امر کی صورت اختیار کرلی تھی۔
جب مانوی مذہب کے پاؤ ں ایران
اور باز نطین سے اُکھڑ گئے تو اس نے بھی سرزمین عرب کا رخ کیا۱؎۔ اس آزاد ملک میں دو سیتیوں
(The Decetes) مارشوخیوں (The Marchionites) ولنینیوں (The
Valentinians)
سب کے نام لیوا موجود تھے۔ ان سب نے اپنے خیالات اور اپنی روایات کی اشاعت کی جو
رفتہ رفتہ مقامی خیالات و روایات کے ساتھ خلط ملط ہوگئیں۔ یہ عیسائی فرقے تقلید
پرستوں کے جبر و تشّدد کے باوجود اس عقیدے سے پر مضبوطی سے قائم تھے کہ حضرت عیسیٰ
خدائے مجسم یا کم از کم خدا کے بیٹے اور خدا کاکلام تھے، اس نے ابدیت کے بطن سے
جنم لیا اور جو نور عرش کا ایک صدور تھا اور جس کا صلیب پر مرجانا محالات میں سے
تھا۔ ان کا یہ بھی ایمان تھا کہ رنج وکرب کے وہ کلمات جو حضرت عیسیٰ کی طرف سے
منسوب کئے جاتے ہیں۔ ہر گز کے لب پر نہیں آسکتے تھے۔مختصر یہ کہ جس شخص نے صلیب پر
کھینچے جانے کی اذیت سہی وہ خداوندعیسیٰ نہ تھا اور حضرت عیسیٰ جلاّدوں کے ہاتھوں
سے بچ کر عرش بریں اور واپس چلے گئے ۲؎۔
یہ نظریہ بظاہر چاہے کتنا ہی مستبعد کیوں نہ لگتا ہو، پھر بھی حضرت عیسیٰ کے ابن
اللہ ہونے کے عقیدے سے نسبۃً زیادہ مطابقت رکھتا ہے اور چند مضبوط قیاسات پر مبنی
معلوم ہوتا ہے۔ فلوطس (Pilate) کی،جس کی بابت ٹرٹلین،(Tertullian) کہتا ہے کہ وہ در
پردہ عیسائی تھا، یہ زبردست خواہش کہ حضرت عیسیٰ کی جان کسی طرح بچالے ۳؎۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Beausobre, Uist. du,
Manicheisme, pt i.i ii. Chap.iv
۲؎
Mosheim
and Gibbon, in loco
۳؎
Blunt,
History of the Christian Church, p. 138
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہیرودیس (Herod) کا اس پر آمادہ نہ
ہونا کہنبیئ ناصری کے قتل سے اپنے خلاف نفرت عام کو اور بڑھائے، جب یہ عظیم محسن
انسانیت دن بھر کے ہولناک ہنگاموں کی تکمیل کی خاطر صلیب کی طر لایا گیا تو اس وقت
جوجھُٹ پٹا چھایا ہو ا تھا، وہ خارق عادت تاریکی جو اس ڈرامے کے سب سے دہشت ناک
منظر کے وقت روئے ارض پر طاری تھی۱؎۔
یہ سب حالات و واقعات اس عقیدے کو قرینِ قیاس بنا دیتے ہیں کہ معصوم بچ گیا اور
مجرم نے سزا پائی ۲؎۔
ظہور محمدی صلی اللہ علیہ
وسلم سے پہلے یہ روایات، جو واقعات پر مبنی تھیں لیکن خیالی رنگوں میں رنگی گئی تھیں،
لوگو ں کے عقائد میں مضبوطی سے گھر کر چکی ہوں گی اور ملک کی لوک کہانیوں کا ایک
لازمی حصہ بن چکی ہوں گی۔ جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ اسلام شروع کی
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان روایات کو عرب کے لوگوں میں متدادل پایا۔ آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے انہیں لے کر عربوں اور قرب و جوار کی قوم کو معاشرتی اور اخلاقی
پستی کے اس گڑھے سے نکالنے کی خاطر جس میں وہ گرے ہوئے تھے ایک بیرم کے طور پر
استعمال کیا۔ وہ نور حو طور سینا میں چمکا تھا، وہ نور جس نے گلیلی کے کسانوں اور
ماہی گیروں کیا زندگیوں کو روشن کر دیا تھا، اب فاران کی چوٹیوں پر جلوہ نما ہوا ۳؎۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ Miiman, Hist, of
Christianity voii.pp. 398-362
۲؎
اگر اس عجیب وغریب عقیدے کوکوئی چیز اس سے بھی زیادہ قرین صحت بنا سکتی ہے تو وہ
کتاب لوقس کا یہ بیان ہے کہ حضرت عیسیٰ نے قبر سے اٹھنے کے بعد اپنے شاگردوں کو اس
کی اجازت دی کہ وہ ان کے جسم کو چھوکر اپنی تسلی کرلیں کہ و فی الواقعہ زندہ ہیں
اور جیسا کہ وہ خیال کئے ہوئے تھے، محض ایک روح نہیں ہیں اور پھر انہوں نے کچھ
کھانے کومانگا اور ایک ابلی ہوئی مچھلی اور شہد کھایا۔
۳؎
”جاء اللہ من سیناء اشرق من ساعسیر ا وا ستعلیٰ من فاران“
یا قوت ”معجم البدان“ میں
لکھتا ہے،”ساعیر فلسطین کی اور فاران مکّے کی ایک پہاڑی ہے“۔
Related
Article:
URL: https://www.newageislam.com/books-documents/urdu-ameer-ali-spirit-part-10/d/122870
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism