سیّد امیر علی
مقدمہ (قسط 8)
شہنشاہ قسطنطین کے بظاہر
عیسائیت قبول کرتے ہی رومی سلطنت میں عیسائیت برسر اقتدار آگئی۔غیر اہل کتاب مذہب
کاوقت آخر قریب آپہنچا تھا۔ اگر چہ قیصران روم میں سب سے جلیل القدر اور سب سے
مخلص قیصر کی چارہ گری کی بدولت اس نے کچھ مدّت کے لیے سنبھالالیا۔ لیکن اس کاخاتمہ
ناگزیر ہوچکا تھا۔گبّن کہتا ہے، ”غیر اہل کتاب مذہب کے ناپید ہوجانے کے بعد توقع
ہوسکتی تھی کہ عیسائی امن و امان او ر پرہیزگاری کی زندگی بسر کرکے اپنی فتح یابی
سے تمتّع اندور ہوں گے۔ لیکن تفرقے کا جو بیج ان کے سینے میں بویا گیا تھا وہ پنپ
رہا تھا۔ چنانچہ انہیں اپنے بانی مذہب کے قوانین پر عمل کرنے کی بہ نسبت اس کی
فطرت کی چھان بین کرنے کی زیادہ فکر تھی۔۱؎ سارا عیسائی یورپ تاریکی میں ڈوباہوا تھا
اور کلیسا تفرقوں اور بدعتوں کے ہاتھوں پارہ پارہ ہو رہا تھا۔عوام الناس کے مذہبی
تصورات قبل عیسائیت جاہلیت کے مرحلے سے ایک قدم آگے نہ بڑھے تھے۔مردوں کی رُوحوں
اور زندہ لوگوں کے بتوں کی پوجا کی جاتی تھی۔تبّرکوں اور ولیوں کی پرستش عام تھی۔
مختصر یہ کہ عیسائیت کفر و الحاد کی طرف مراجعت کر گئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ شہنشاہ جسٹینین (Justinian) معروف بہ مرتد اسے
نقل ہے کوئی درندہ بھی انسان کا اتنا دشمن نہ ہوگا جتنا عیسائیوں کا ایک فرقہ
دوسرے فرقوں کا دشمن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو قومیں عیسائیت کے زیر
نگیں تھیں ان کی معاشرتی اور سیاسی حالت بھی ناگفتہ بہ تھی۔ آزادی فکر و رائے کچل
دی گئی تھی اور مسیح کی سلطنت کے جشن ایسے بدعتیوں کی قربانی سے منائے جاتے تھے جو
کسی رائج الوقت خیال سے اختلاف کی جسارت کرتے۔
اسکندریہ کے بازار میں
مہذب دنیا کی نگاہوں کے سامنے ازمنہ قدیم کی برگزیدہ ترین عورت انتہائی سفا کی کے
ساتھ ایک ایسے عیسائی کے ہاتھوں قتل ہوئی جس کا نام عیسائی اولیا کی فہرست میں درج
ہے اور جس کی حمایت زمانہ جدید کے ایک مصنف نے کی ہے۔ اس ہولناک اور نفرت انگیز
جرم کو، جو عیسائیت کے دامن پر ایک بدنماترین داغ ہے ڈریپر (Draper) نے بڑی فصاحت و
بلاغت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ایک حسین، دانش مند اور نیکو کار عورت، جس کے درس میں
اسکندریہ کے دولت مند اور شائستہ لوگ اتنی بڑی تعداد میں جمع ہوتے تھے کہ تل دھرنے
کی جگہ نہ رہتی تھی، اپنی درسگاہ سے باہر آرہی تھی جوشیلے عیسائیوں کے ایک ہجوم نے
اس پر حملہ کردیا۔ ان حامیان دین نے نعرے لگاتے ہوئے اسے گھسیٹ کر پالکی سے
اتارلیا اور بھرے بازاروں میں سرتا پا عریاں کردیا۔ اس کے بعد وہ اسے گھسیٹ کر
قریب کے ایک گرجا میں لے گئے، جہاں ایک نام نہاد ”ولی“ نے ایک ڈنڈے سے اس کا کام
تمام کر دیا۔ بیچاری کی برہنہ لاش کی بے حرمتی کی گئی اور اس کا عضو عضو کاٹ کر
الگ کردیا گیا۔ لیکن اس شیطانی جرم کی تکمیل اس وقت تک نہ ہوئی جب کہ اس کا گوشت و پوس کھُرچ کر ہڈیو ں سے جدا نہ کردیا گیا اور بچے
کچھے ڈھانچے کو جلانہ دیا گیا۔ اس بھیانک اور گھناؤنے جرم کے ارتکاب میں جس شیطان
صفت انسان نے سرغنے کاکردار ادا کیا دنیائے عیسائیت نے اسے ”ولی“ کا لقب دے کر
سرفرازی بخشی۔بالآخر ہائی پیشیا (Hypatia) کی شہادت کا انتقام
عمر وبن العاص کی تلوار نے لیا۔
جسٹینین (Justinian) کے عہد میں جس کی
عیسائیت نوازی اورقانون سازی بہترین آئینہ میں جو اس وقت ساری دنیا میں عام
تھی۔خلوت میں ہو کہ جلوت میں، پاکبازی ایک جنس مفقود تھی۔ معاشرے میں اس کا کوئی
وجود تھا، نہ کوئی تصور۔قیصر وں کے تخت پر ایک فاحشہ عورت براجمان تھی اور وہ قیصر
کے اعزاز واقتدار میں برابر کی شریک تھی۔تھیو ڈ ورا (Theodora) قسطنطنیہ میں پیشہ
کرچکی تھی اور شہر کے ادباشوں میں اس کا نام ضرب المثل تھا۔ اب اسی شہر میں ”ثقہ
حکام، راسخ العقیدہ بشب، فاتح جرنیل اور قیدی بادشاہ“ اسے خراج عبودیت پیش کرتے
تھے۔ اس کی ستم طرازیو ں نے، جو مذہبی، نہ اخلاقی قوانین کی پابند تھیں، ساری
سلطنت میں کہرام مچا دیا۔ آئے دن شورشیں، بلوے او ر خونریز ہنگامے ہوتے تھے، جن
میں پادری لوگ ہمیشہ نمایاں کردار ادا کرتے تھے۔ ایسے موقعوں پر ہر خدائی اور
انسانی قانون پاؤں تلے روند دیا جاتا تھا۔ عبادت گاہیں قربان گاہیں بن جاتی تھیں،
کسی جگہ کی حرمت ملحوظ نہ رکھی جاتی تھی، معاشرے کے تمام رابطے کٹ جاتے تھے اور
روز روشن میں سباہ ترین جرام کا ارتکاب کیا جاتا تھا۔ جٹینین کی حکومت کے پانچویں
سال میں جو بلوے ہوئے ان میں یہ ناپاک شہر جن ہولناک کارروائیوں کا معرکہ زار بنا
ان کی مثال تاریخ کے صفحات میں مشکل سے ملے گی۔
اس وقت قسطنطنیہ کے
مقابلے میں ایران ایک دار الامان تھا
عیسوی قسطنطنیہ کی تاریخ
جن جرائم سے داغدار ہے ان کی روداد پڑھ کر انسان کے دل میں انتہائی کراہت پیدا
ہوتی ہے۔ ابھی پیغمبر اسلام اپنے عہد شیر
خواری ہی میں تھے کہ ایک عیسائی بادشاہ کے ایما ء پر ایک بازنطینی شہنشاہ کو جس کا
شمار اس سلطنت کے نیک ترین فرمانرواؤں میں
ہوتا ہے، بیوی بچوں سمیت انتہائی بیدردی سے قتل کردیا گیا۔ قاتلوں نے اسے ایک مقدس
مقام سے جہاں اس نے پناہ لی تھی، گھسیٹ کر باہر نکالا اور اس کے پانچ بیٹوں کویکے
بعد دیگرے اس کی آنکھو ں کے سامنے قتل کیا۔ سب سے اخیر میں شہنشاہ کی باری آئی۔
ملکہ اور اس کی بیٹیوں کو پہلے تو اذیتیں پہنچائی گئیں اس کے بعد اسی جگہ لے جاکر
جہاں شہنشاہ موریس (Mauruce)کو قتل کیا گیا تھا ان کے سر قلم کردیئے گئے شہنشاہ کے دوستوں،
رفیقوں اور طرفداروں پر جو مظالم ڈھائے گئے وہ باز نطینی عیسائیوں کی اخلاقی ز بوں
حالی کے شاہد ہیں۔ ان لوگو ں کی آنکھوں میں سلائیاں
پھیردی گئیں، ان کی زبانیں گُدّی سے کھینچ لی گئیں، ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے گئے۔
بعضے تازیا نے کی ضربوں سے مر گئے۔بعضے جلادیئے گئے اور بعضوں کو نیزوں سے چھلنی
کردیا گیا۔ گبّن کہتاہے:”عاجل موت ایک ایسی رحمت تھی جو ان میں سے بہت کم لوگوں کو
نصیب ہوئی۔“
باز نطینی سلطنت، جس کا
خون زندگی قطرہ قطرہ رس رہا تھا، جسے سیاسی اور مذہبی تفرقوں نے پارہ پارہ کردیا
تھا، مذہبی مباحثوں نے پریشان کر رکھا تھا اور مذہبی نفرتوں نے پارہ پارہ کردیا
تھا، مذہبی مباحثوں نے پریشان کر رکھا تھا اور ”وحدت اعتقاد کوبزور عائد کرنے کی
خواہش نے دیوانہ بنا دیا تھا“ کشت و خون، فسق وفجور اور ظلم و ستم کا ایک ڈراؤنا
اور گھناؤنا نظارہ پیش کررہی تھی ۱؎۔
وہ ملک جو فرات کے مغرب کی طرف ایشیائی ترکی میں شامل تھے، پہلے تو کبھی پارتھیوں
اور کبھی آریوں کے ہاتھوں تاراج ہوئے اور پھر کبھی ایرانیوں او رکبھی نازنطینیوں
کے ہاتھوں۔چنانچہ وہ انتہائی مایوسی کا مرقع پیش کرتے تھے۔ ان کی مادی خستہ حالی
ان کی اخلاقی ذلّت سے بھی بڑھی ہوئی تھی۔ حضرت عیسیٰ کے پیرو ؤں نے ان خرابیوں کو
رفع کرنے کی بجائے انہیں او ربھی شدید بنادیا۔ بین النّہر ین میں مجوسی زر تشتیث
زوال یافتہ عیسائیت سے الگ برسر جنگ تھی، نسطورح راسخ العقیدہ عیسائیوں سے الگ
جدال آزماتھے، موتینس (Motanus) اور داعی نبوت عورتوں میں الگ چپقلشیں جاری تھیں۔ ان سب فتنوں کا
نتیجہ یہ تھا کہ مغربی ایشیا ایک دشت مایوسی بنا ہوا تھا۔
فتوحات کے جو جھگڑا
افریقہ میں چلے تھے اور دین عیسوی کے پیروؤں او رمبلّغوں نے کُشت و خون اور تاخت و
تاراج کے جو طوفان برپا کئے تھے انہوں نے مصر میں اور روبہ زوال عیسوی سلطنت کے
افریقی صوبوں میں اخلاقی زندگی کے تمام شعلے افسردہ کردیئے تھے۔ یورپ میں لوگوں کا
حال اس سے بھی بدتر تھا۔ روز روشن میں اور نہ صرف عوام بلکہ پیشوا یان دین کی
آنکھوں کے سامنے اپنے ملک کا محسن نارسز (Narses) قسطنطنیہ کے
بازارمیں زندہ جلادیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ مل مین (Milman) اس زمانے کی
عیسائیت کی ہئیت کذائی کانقشہ یوں پیش کرتا ہے وہ قسطنطنیہ کا بشپ یا تو بازار
نطینی شہنشاہ کا سیدِبے چارہ یا غلام زر خرید یا حریف تفرقہ پرواز تھا وہ شہنشاہ
کی آمریت پر کوئی اعلیٰ اخلاقی اثر نہ ڈال سکتا تھا۔ ادنیٰ طبقے کے پادری چاہے
معاشرے کو کتنے ہی مخفی فائدے پہنچاتے ہوں، ان کے قبضے میں اتنی طاقت، دولت اور
مرتبت تھی کہ ان کے دلوں میں بڑائی کی آرزوئیں پیدا ہونا یا ان کا سازشوں کے جالف
بچھا نا ایک قدرتی امرتھا، لیکن اتنی نہ تھی کہ وہ عوام کے ذہنوں پر کوئی صحت بخش
اثر مرتب کرسکتے، ایک زوال پذیر عہد کی اخلاقی خرابیوں کو روک سکتے، مخالف مفادات
میں ہم آہنگی پیدا کرسکتے، ایک دوسری کی دشمن قوموں کو شیر وشکو کرسکتے۔ ان کا حکم
اگر کبھی چلتا بھی تھا تو صرف اس لیے کہ لوگ ہمّات کی بنا ء پر ان سے ڈرتے تھے۔ اس
لیے نہیں کہ لوگ ان کی عزت کرتے تھے یا ان کے گرویدہ تھے۔ وہ عوام کی عملی سطح کو
توکیا بلند کرتے، خو د ان کی (باقی حاشیہ صفحہ 51پر دیکھیں)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روم کے گلی کوچوں میں
اکسا رک (Exarch) کی نگاہوں کے سامنے مخالف بشپوں کے طرف داروں نے کھّلم کھّلا
لڑائی کی اور گرجو ں کو سیسائیو ں کے خون سے رنگ دیا۔ ہسپانیہ نراج اور خستہ حالی
کا ایک جگر خراش منظر پیش کررہا تھا۔ دولت مند اور خصوصی مراعات کے مالک معدودے
چند لوگ، جو شہنشاہوں کے ماتحت صوبوں کی بڑی بڑی مجسٹریٹیو پر فائز تھے یا صرف
مجسٹریٹ کے خطاب سے عزت یافتہ تھے، ہر طرح کے ٹیکسوں سے سبکدوش تھے۔ وہ خوبصورت
بنگلوں میں رہ کر عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتے تھے،غلام و لونڈیاں ان کی خدمت پر
مامور تھیں اور ان کا زیادہ تر وقت حماموں میں گزرتا تھا، جو بدترین قسم کے قحبہ
خانے تھے یا جوا کھیلنے میں یا شراب و کباب کی محفلوں میں۔ ایک طرف تو یہ عیش و
عشرت اور دولت و ثروت تھی، اور دوسری طرف عوام میں انتہا درجے کی عسرت و خستہ حالی
تھی۔ متوسط طبقے کے لوگ، جو مملکت کے آزاد شہری تھے، رومیوں کی ستم شعاریوں کے
تختہ مشق تھے۔زرعی غلام تو اب ختم ہوچکے تھے، لیکن ان کی جگہ ایسے نوآبادوں نے لے
لی تھی جو نہ غلام تھے نہ پوری طرح آزاد۔ غلاموں سے ان کی حالت بعض باتوں کے
اعتبار سے بہتر تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(بقیہ حاشیہ 50) جہالت کی دلدل میں ڈوب گئے اور بدترین قسم کی وحشت
و بربریت یعنی ایک ازکار رفتہ تہذیب کے شکار ہوگئے۔ رہبانیت بہت سے ایسے لوگوں کو
جو مستعد اور مفید شہری بن سکتے تھے عملی زندگی کے رستے سے ہٹا کر گوشہئ عزلت میں
لے گئی، جہاں وہ ایک کاہلانہ مذہبی زندگی بسرکرتے تھے لیکن سوائے ایسے موقعوں کے
کہ جب راہب لوگ سیاسی ریشہ دوانیوں یا مذہبی مناقشوں کی خاطر دھڑے باندھتے تھے،
معاشرے سے ان کاکوئی سرکوکار نہ ہوتا تھا،اور وہ اس پر کوئی اثر نہ ڈال سکتے تھے۔
وہ دنیا سے الگ تھلگ رہتے تھے۔ تاکین دنیا جنگلوں میں اور راہب اپنے بسم اللہ کے
گنبدوں یعنی راہب خانوں میں۔ انہیں اپنی نجات کا یقین تو ہوتا ہی تھا، اس لیے وہ
باقی انسانوں کو اپنے حال پر چھوڑ دیتے تھے کہ جہنم و اصل ہوتے ہیں تو ہوا کریں۔“
Milman, Latin
Christianity, vol. i, Introduction
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انہیں قانوناً شادی کرنے
کی اجازت تھی۔ جن زمینوں کی وہ کاشت کرتے ان کی پیداوار کا کچھ حصہ انہیں ملتا تھا
اور ان کے آقاؤں کو یہ اختیار نہ تھا کہ ان کے مال و اسباب پر قبضہ کرلیں۔ لیکن
باقی ہر لحاظ سے وہ زمین کے غلام تھے۔ حکومت کو ان سے ہر طرح کا کام لینے کا اختیار
تھا۔ گھریلوں غلاموں کی طرح انہیں جسمانی سزائیں دی جاتی تھیں۔۱؎ وہ افراد کے غلام تو نہ تھے لیکن زمین کے غلام
تھے۔ ان معنو ں میں کہ جن زمینوں کی وہ کاشت کرتے تھے،ان کے ساتھ نہ صرف عمربھی کے
لیے بلکہ پشت ہا پشت تک موروثی طور پر
بندھے رہتے تھے۔ ان نام نہاد آزاد لوگوں سے قطع نظر، آبادی کابیشتر حصہ غلاموں پر
مشتمل تھا، اور ان غلامو ں کی حالت اتنی برُی تھی کہ بیان سے باہر ہے۔ ان کے ساتھ
جانوروں جیسا،بلکہ اس سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا تھا۔ وحشیوں کے حملے نے ہسپانیہ
پر ایک نئی قیامت ڈھادی۔ وہ اپنے جلو میں ہولناک تباہی کو لے کر آئے۔ وہ جدھر گئے
انہوں نے کشت وخون لوٹ مار سے کہرام مچا دیا اور عورتوں اور بچو ں اور پادریوں کو
غلام بنا لیا۔
جزیرہ نمائے ہسپانیہ میں یہودیوں
کی ایک بڑی تعداد صدیوں سے آباد تھی۔ سسّی بت وزیگوتھ the
vlsigoth Sisebut
کے عہد حکومت میں 616ء کے لگ بھگ ان لوگوں پر پادریوں کے ہاتھوں جو دہشت ناک مظالم
شروع ہوئے وہ اس وقت ختم ہوئے جب اسلام نے آکر جہالت و تعصّب کے ان ستم رسیدوں کو
چھٹکارا دلایا۔ یہ اسلام ہی کی برکت تھی جس نے یہودیوں کو ابن میمون (Maimonides) او رابن جبرول(Ibn
Gebrol) جیسے
آدمی پیداکرنے کی توفیق بخشی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ چھوٹی چھوٹی خطاؤں پر عموماً تین سو کوڑے لگائے
جاتے تھے۔
Dozy Hist. des Musulmans
d, Espagne, vol, ii, p. 87
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Related
Article:
URL: https://www.newageislam.com/books-documents/urdu-ameer-ali-spirit-part-8/d/122839
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism