New Age Islam
Thu Dec 12 2024, 11:53 PM

Books and Documents ( 23 Oct 2020, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 3- The Prophet’s Life in Madina Part 17 روح اسلام : تیسرا باب: رسول اللہ کی زندگی مدینہ میں



سید امیر علی

(قسط17 )

تیسرا باب

رسول اللہ مدینہ میں

پیش از ہمہ ہان غیور آمدہ ای               ہر چند کہ آخر بہ ظہور آمدہ ای

اے ختم رُسُل قرب تو معلومم شد دیر آمدہ ای زِداہِ دور آمدہ ای

جو متّصوفانہ اشعار اس باب کا زیب عنوان ہیں موجودہ زمانہ کے بہت کم مسلمان پورے معانی کو سمجھ سکتے ہیں، لیکن اس عظیم صاحب بصیرت سے جو گہری عقیدت ان میں مضمر ہے اسے سب مسلمان پوری طرح محسوس کرتے ہیں۔ یہ عقیدت ایسی عقیدت نہیں جو قصے کہانیوں کے کسی فرضی کردار سے وابستہ یا محض امتدادِ زمانہ کی وجہ سے پیدا ہوگئی ہے۔ جس دن آپؐ نے مدینہ میں دورہ کیا اسی دن سے آپؐ کی زندگی روز ِ روشن کی طرح عیاں ہے۔تاریخ کی روشنی جن عظیم الشان ہستیوں پر پڑی ہے آپؐ ان میں سے عظیم الشان ہیں۔ آپؐ کی زندگی کی چھوٹی سے چھوٹی جزئیات بھی نہایت احتیاط سے قلم بند ہوکر نسلاً بعد نسل ہم تک پہنچی ہیں۔ لیکن ”ان کی ظاہر ی صورت ایسی سختی سے متعین ہوگئی ہے جو آپؐ کی حقیقی تعلیمات کی روح کے منافی ہے۱؎“۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎  احادیث کے بارے  میں مصنف کی رائے میں کھلا ہوا تضاد پایا جاتا ہے، ایک طرف تو ”ان کا کہنا ہے کہ آپؐ کی زندگی کی چھوٹی چھوٹی جزئیات بھی نہایت احتیاط سے قلم بند ہوکر نسلاً بعد نسل ہم تک پہنچی ہیں“دوسری طرف یہ شکایت ہے کہ جو جزئیات نہایت احتیاط کے ساتھ قلم بندہوئی ہیں ان کی ظاہری صورت اس سختی سے متعین ہوگئی ہے جو آپؐ کی حقیقی تعلیمات کی روح کے منافی ہے۔ (باقی حاشیہ صفحہ 138پر ملاحظہ فرمائیں)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیونکہ ان تعلیمات کامنشا ء نوع انسانی کی دائمی نشوو نما تھا۔ ہم نے اس حیرت انگیز انسان کو ایک یتیم بچے کی صورت میں دیکھا ہے جسے کبھی شفقت پدر ی نصیب نہ ہوئی، جوشیر خوار ی کے زمانے ہی میں الفت آوری سے بھی محرو م ہوگیا اور جس کی ابتدا ئی زندگی مصائب سے پرُ تھی۔ وہ ایک پرُ فکر بچپن سے گذرکر ایک اس سے بھی زیادہ پرُ فکر جوانی میں داخل ہوتاہے۔ اس کی جوانی اس کے بچپن سی پاکیزہ اور معصوم ہے۔ وہ بڑاہوکر بھی اتناہی متقی پرہیزگار رہتاہے جتنانوجوانی میں تھا۔ اس کے کان کمزوروں اور غریبو ں کے رنج و مصیبت کی کہانی سننے کو ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ اس کا دل ہمیشہ خدا کی مخلوق کے لیے ہمدردی و صلہ رحمی سے لبریز رہتا ہے۔ وہ اس فروتنی اور پاکیزگی سے چلتا ہے کہ لوگ ایک دوسرے کو اشاروں سے بتاتے ہیں۔”دیکھو، وہ الامین جارہا ہے، جو راست باز، نیکو کار اور دیانت دار ہے“۔ وہ ایک مخلص دوست ہے، ایک وفاشعار اور فرض شناس خاوند ہے، وہ ایک مفکر ہے جو حیات وموت کے اسرار پر، انسانی اعمال کی ذمہ داریوں پر اور انسانی زندگی کے مقصد و مدعا پر غور کرتا ہے۔وہ ایک قوم ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کی اصلاح کا کام ایسے وقت میں سنبھالتا ہے جب اس کو تسلی دینے والا اور اس کی ہمت بندھانے والا ساری دنیا میں صرف ایک محبت کرنے والا دل ہے۔ اُسے ناکامیاں ہوتی ہیں، لیکن اس کے پائے استقلال میں لغزش نہیں آتی۔ اسے شکست کا منہ دیکھنا پڑتا ہے، لیکن وہ کبھی مایوس نہیں ہوتا۔ اسے جو کام تفویض کیا گیا ہے اسے کی انجام دہی کے لئے وہ ایک غیر متزلزل ہمت کے ساتھ جدّوجہد کئے جاتا ہے۔ اس کی سیرت کی پاکیزگی اور شرافت،خدا کے رحم و کرم پر اس کا واثق اور اٹل ایمان آخر کار جاں نثاروں کی ایک روز افزوں تعداد اس کے گرد جمع کردیتا ہے۔ جب اس کے امتحا ن کا سخت ترین لمحہ آتا ہے تو ایک فرض شناس ناخدا کی طرح وہ ثابت قدمی سے اپنے منصبی مقام پر کھڑا رہتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(بقیہ حاشیہ 137) ظاہر ہے کہ جب زندگی کی جزئیات مرتب ہوں گے تو اس سے ایک متعین نقشہ ضروربنے گا۔ غالباً مصنّف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ احادیث نے زندگی کے جن تعینات کی نشاندہی کی ہے۔ ان سے اسلام کی آفاقی وعالمگیر روح مجروح ہوئی ہے لیکن اس کا تعلق تو نقطہ نگاہ اور تعبیر سے ہے۔ احادیث کی روایت وتحریر سے نہیں (ادارہ)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہاں تک کہ اس کے تمام مسافر خطرے سے محفوظ ہوجاتے ہیں، اور اس وقت وہ خود ساحل عافیت پر قدم رکھتا ہے۔ یہ ہے اس کا وہ نقشہ جو ہم نے اب تک دیکھا ہے۔ اب ہم اسے ایک بادشاہ، انسانی دلوں کے حکمران،سردار، قانون دان اور منصب اعلیٰ کے لباس میں دیکھیں گے، لیکن ان حیثیتوں میں بھی اسے تکبّر سے پاک اور تواضع و انکسار کا مجسمہ پائیں گے۔ اب اس کی داستان حیات اس دولت عامہ کی تاریخ میں مدغم ہوجاتی ہے جس کا وہ مرکز تھا۔ اب وہی معلّم جو اپنے ہاتھوں سے اپنے کپڑوں کو پیوند لگایا کرتا تھا اور اکثر فاقے ہی سے بسرکرتا تھا دنیا کے قوی ترین فرمانرواؤں سے بھی قوہی تر ہوجاتا ہے۔

”محمدؐ نے لوگوں سے اپنا لوہا منوالیاتھا۔ اس کی سیرت کی شرافت، اس دوست نوازی، اس کا استقلال، اس کی جرأت اور ان سب سے بڑھ چڑھ کر اس کی اولوالعزمی اور اشاعت حق میں اس کاجوش و خروش، ان سب باتوں نے ایک ہیرو کا نقشہ لوگوں کی نظروں کے سامنے بے نقاب کیا تھا، یعنی ایک ایسے آقا کانقشہ جس کی نافرمانی بھی ناممکن تھی اور جس سے محبت نہ کرنا بھی نا ممکن تھا۔ مزید کام کے لیے صرف وقت درکار تھا۔جب مدینے کے لوگ محمدؐ سے واقف ہوجائیں گے تو وہ بھی دل وجان سے اس کے والہ وشیدا ہوجائیں گے اور اس کا جوش ایمان ملتہب ہوکر قبیلوں میں پھیل جائے گا، یہاں تک کہ سارا عرب خدا ئے واحد کے رسولؐ کے قدموں پرجھک جائے گا۔ جس محبت و عقیدت سے لوگ اپنے ہاتھ کی بنی ہوئی کملی اوڑھنے والے انسان کو دیکھتے تھے۔ اس محبت وعقیدت سے کبھی کوئی تاج پوش شہنشاہ بھی نہیں دیکھا گیا۔ اس میں انسانوں کو متاثر کرنے کا ملکہ تھااور اس میں اتنی شرافت تھی کہ اس نے ہمیشہ لوگوں کو نیکی کی طرف راغب کرنے کی خاطر متاثر کیا۱؎“۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎  میر علی نے اس اقتباس کا حوالہ نہیں دیا (مترجم)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مدینہ منورہ جس کے کئی نام ہیں، مکّہ کے شمال میں اور وہاں سے گیارہ دن کی مسافت پرواقع ہے۔ آج کل اس شہر کے گرد ایک مضبوط فصیل ہے، لیکن ان دنوں یہ بیرونی حملوں سے بالکل محفوظ تھا۔ آنحضرت ؐ نے اسے قریش کے حملوں سے محفوظ رکھنے کی خاطر اس کے گرد ایک خندق کھُدوائی۔ کہا جاتاہے کہ یہ شہر ایک عمالقی سردار نے آباد کیا تھااور آنحضرت ؐ کی تشریف آوری سے قبل اسی کے نام سے موسو م تھا۔ پُرانے زمانے میں یثرب اور اس کے قرب وجوار میں عمالقہ ہی آباد تھے۔ ان لوگوں کو یہودی نو آباد کاروں نے تباہ کردیا جو یکے بعد دیگرے بابلی،یونانی اور رومی ظلم وستم یا انتقام سے پناہ لینے کی خاطر عرب میں داخل ہوئے اور حجاز کے شمالی حصے آباد ہوگئے۔ ان میں اہم ترین نو آبادیاں تین تھیں۔خیبر میں بنی نضیر، فدک میں بنی قریظ اور مدینہ کے قریب بنی قینقاع۔ یہ لوگ آطام یعنی قلعہ بندیوں میں رہتے تھے اور جب تک دو قحطائی قبائل یعنی اوس اور خزرج یثرب میں آباد ہوئے اس وقت تک ہمسایہ عربی قبائل پر غالب تھے۔ اوس و خزرج نے شروع شروع میں تو یہودیوں کی محکوی قبول کرلی، لیکن بعد میں یہودیوں کو اپنے باجگذار و مولی بنا لیا۔ زیادہ مدت نہ گذری تھی کہ ان کے آپس میں جھگڑے شروع ہوگئے اور جس زمانے میں آنحضرت ؐ نے مکّے میں اپنی بعثت کا اعلان کیا، اسی زمانہ کے قریب طول طویل اور تباہ کن لڑائیوں کے بعد ان کی باہمی صلح ہوئی۔

یہ تھی یثر ب کی سیاسی حالت جب رسولؐاللہ نے وہاں درود فرمایا۔آپؐ کے درود سے شہر میں ایک نیا دورطلوع ہوا۔

اوس و خزرج کے پرانے اور تباہ کن جھگڑے اخّوت اسلامی نے بھلا دیئے اور وہ اسلام کے عَلُم کے گرد جمع ہوکر اسلامی دولت عامہ کا قلب بن گئے۔پُرانے امتیازات مٹ گئے اور انصار کا معزّر لقب ان سب لوگوں کا مشترک لقب بن گیا جنہوں نے اسلام کے نازک وقت میں اس کی مدد کی تھی۔ جاں نثاروں کا وہ گروہ جس نے اپنے محبوب وطن کو چھوڑا اور سارے رشتے منقطع کر دیئے مہاجرین کے لقب سے سرفراز ہوا۔

انصار اور مہاجرین کے تعلقات کو زیادہ استوار بنانے کی غرض سے آنحضرت ؐ نے انہیں ایک ایسے رشتہ اخوت میں مربوط کردیا جس نے انہیں شادی وغم میں ایک دوسرے کا رفیق بنادیا۔

یثرب کا قدیم نام بدل گیا اور اب وہ مدینۃ النبی یا مختصراً مدینہ کہلانے لگا۔

جلد ہی ایک مسجد بنائی گئی، جس کی تعمیر میں آنحضرتؐ خود شریک ہوئے او راپنے ہاتھوں سے کام کیا۔ مہاجرین کے لیے بھی مکانات بن گئے۔ جس قطعہئ زمین پر مسجد بنائی گئی اس کے دو بھائی تھے۔ انہوں نے زمین کربلا معاوضہ نذر کرناچاہا لیکن چونکہ وہ یتیم تھے اس لیے آنحضرتؐ نے انہیں اس کی قیمت ادا کردی۔ مسجد کی وضع قطع اور بناوٹ ہر قسم کے تکلّفات سے بری اور مذہب اسلام کی سادگی کی تصویر تھی۔ دیواریں کچی اینٹوں کی تھیں، اور ان پربرگ خرماکا چھپّر تھا۔ مسجد کا ایک حصہ ان لوگوں کے رہنے سہنے کے لیے مخصوص کردیا گیا جن کا اپنا کوئی گھر بار نہ تھا۔

اس غربیانہ عبادت گاہ میں ہر کام نہایت سادگی سے کیا جاتا تھا۔ آنحضرتؐ زمین پر کوئی فرش بچھائے بغیر نماز ادار کرتے اور کھجور کے ایک ستون کے سہارے کھڑے ہوکر وعظ فرماتے اور جوجاں نثار آپؐ کے ارد گرد جمع تھے ان کے دل آپؐ کے روح کی گہرائیوں میں تلاطم پیداکردینے والے الفاظ کے ساتھ ہم آہنگ ہوکر دھڑکنے لگتے۔

آپؐ فرماتے ”جو شخص خدا کی مخلوق اور اپنی اولاد پر شفقت نہیں کرتا خدا اس پر شفقت نہیں کرتا۔ جو مسلمان ننگوں کو کپڑے پہنائے گا اسے خدا جنت میں سبز خلعت بخشے گا ۱؎۔“

ایک وعظ میں آپؐ نے مسئلہ خیرات پر ذیل کے الفاظ ارشاد فرمائے۔”جب اللہ تعالیٰ نے زمین بنائی تو وہ لرزتی اور کانپتی تھی۔ اسے پختہ کرنے کے لیے خدا نے پہاڑ بنا کر اس پرکھڑے کئے۔ فرشتوں نے پوچھا ”یا اللہ تیری مخلوق میں کیا پہاڑ وں سے زبردست کوئی چیز ہے۔؟“ خدا نے جواب دیا ”لوہا پہاڑوں سے بھی زبردست ہے،کیونکہ وہ انہیں توڑ دیتا ہے۔“

”کیا تیری مخلوق میں لوہے سے بڑھ کرکوئی زبردست چیز ہے؟“

”ہاں!آگ لوہے سے زیادہ زبردست ہے۔کیونکہ وہ اسے پگھلا دیتی ہے“۔

”کیا تیری مخلوقات میں کوئی چیز آگ سے بھی زیادہ زبردست ہے۔؟“

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎  روایت ازابوہریرہؓ۔مشکوٰۃ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

”ہاں! پانی، کیونکہ وہ آگ کو بجھا دیتا ہے“۔

”یا مولا! کیاتیری مخلوقات میں کوئی ایسی چیز ہے جو پانی سے بھی زبردست ہے؟“

”ہاں! ہوا، کیونکہ وہ پانی پر غالب آتی ہے اور اسے حرکت میں لاتی ہے۔“

”اے پروردگار! کیا تیری مخلوقات میں ہوا سے بھی بڑھ کر کوئی چیززبردست ہے؟“

”ہاں،ایک خیرات دینے والانیک آدمی۔اگر وہ دائیں ہاتھ سے خیرات دے اور بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہوتو وہ ہر چیز پر غالب آسکتا ہے“۔

آپؐ نے خیرات کی جو تعریف کی وہ ہر قسم کے احسان او رلطف و کرم پر حاوی ہے۔ آپؐ فرمایا کرتے تھے۔”ہر نیک کام خیرات ہے، تمہارا اپنے بھائی کے ساتھ خندہ جبینی سے پیش آنا خیرات ہے۔ اگر تم اپنے ہم جنسوں کونیک کاموں کی تلقین کرو تووہ بھی خیرات ہے۔ مسافروں کو راستہ دکھانابھی خیرات ہے۔ اندھوں کی دستگیری کرنا، راستے پر سے کنکر، پتھر اور کانٹے ہٹانابھی خیرات ہے۔ پیاسوں کو پانی پلانابھی خیرات ہے۱؎۔“

”آخرت میں انسان کی حقیقی دولت وہ نیکیاں ہیں جو وہ اس دنیا میں اپنے ہم جنسوں سے کرتاہے۔ جب کوئی مرتا ہے تو لوگ پوچھتے ہیں کہ وہ کیا جائیداد چھوڑ گیا ہے؟ لیکن وہ فرشتے جو اس سے قبرمیں حساب لیں گے اس سے پوچھیں گے کہ ”تم نے کون سے نیک اعمال اپنے آگے بھیجے ہیں۔؟“

ایک صحابی نے پوچھا،”یا نبی، میری ماں اُمّ سعد فوت ہوگئی ہے۔ وہ بہترین خیرات کون سی ہے جو میں اس کی روح کو ثواب پہنچانے کے لے دے سکتا ہوں؟“ آپؐ نے صحرا کی تپش کو ملحوظ رکھتے ہوئے جواب دیا:  ”پانی۔ اس کی روح کے ثواب کی خاطر ایک کنواں کھدواؤ اور پیاسوں کو پانی پلاؤ۔“ صحابی نے ماں کے نام پر کنواں کھدوایا اور کہا‘ ”میں نے یہ اپنی ماں کے لئے کھدوایا ہے تاکہ اس کا ثواب اس کی روح کو پہنچے۔“

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎  مروی ازابو سعید خدری

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ارونگ Irving لکھتا ہے: ”زبان کی خیرات جو اہم ترین خیرات ہے، لیکن جس مشق سب سے کم کی جاتی ہے، اس کی تلقین بھی حضرت محمدؐ نے بڑی تاکید سے کی۔ ابوجاریہؓ جو بصرہ کے باشندے تھے، مدینہ میں آئے اور آنحضرتؐ کے منصب رسالتؐ پر ایمان لاکر آپؐ سے کسی عملی نصیحت کے ملتجی ہوئے۔آنحضرتؐ نے ارشاد فرمایا،”کبھی کسی کی برُائی نہ کرو“۔ابو جاریہؓ کہتے ہیں ”اس وقت سے میں نے کبھی کسی شخص کی چاہے وہ آزاد ہو یا غلام،بدگوئی نہیں کی۔“

اسلام کی تعلیمات زندگی کی عام تواضعات کو محیط ہیں۔”کسی گھر میں داخل ہوتے وقت اور اس سے رخصت ہوتے وقت گھروالوں کو سلام کرو۱؎“۔ دوستوں ں، آشناؤں اور راہگیروں کے سلام کا جواب دو۔ سوار، پیادہ یا چلنے والے کو، چلنے والا بیٹھے ہوئے کو، چھوٹا گروہ بڑے گروہ کو اور چھوٹا بزرگ کوسلام کرنے میں سبقت کرے۲؎۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎  مقابلے کے لیے دیکھئے سورہ النّور آیا ت 61,28,27اور 62

۲؎  مروی ازابوہریرہؓ۔مشکوٰۃ۔ان حوالوں کے علاوہ کتاب المستطرف بھی ملاحظہ فرمائیے۔ مستطرف میں ترمذی، مسلم اور بخاری کے پورے پورے حوالے دیئے گئے ہیں۔ ’مجالس الاحرار، (مجلس 84)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Related Article:

Part: 1- The Spirit of Islam Authored by Sayed Ameer Ali: An Introduction- Part 1 سید امیر علی کی تصنیف ،روح اسلام: ایک تعارف

Part: 2 - The Spirit Of Islam Authored By Sayed Ameer Ali: Preface – Pre Islamic Social And Religious Conditions Of The World- Part 2 سید امیر علی کی تصنیف ،روح اسلام: مقدمہ ، اسلام سے پہلے اقوام عالم کے مذہبی اور معاشرتی حالات

Part: 3- The Spirit Of Islam: Preface- Social And Religious Conditions Of the Aryans- Part 3 روح اسلام: بعثت اسلام کے وقت آریہ قوم کے مذہبی ومعاشرتی حالات

Part: 4- Sayed Ammer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Preface- Social And Religious Conditions Of Iran Before Islam- Part 4 روح اسلام: اسلام سے قبل ایران کے مذہبی ومعاشرتی حالات

Part: 5- Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Preface- Social And Religious Conditions of the World Before Islam- Part 5 روح اسلام: اسلام سے قبل دنیا کے مذہبی ومعاشرتی حالات

Part: 6 - Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Preface- Social And Religious Conditions of the World Before Islam- Part 6 روح اسلام: اسلام سے قبل دنیا کے مذہبی ومعاشرتی حالات

 Part: 7- Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Preface- Pre-Islamic Conditions of the Christian World روح اسلام: اسلام سے قبل عیسائی دنیا کی مذہبی حالت

 Part: 8- Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit of Islam’: Preface- Pre-Islamic Conditions of the Christian World-Part 8 روح اسلام: اسلام سے قبل عیسائی دنیا کی مذہبی اور سماجی حالت

Part: 9-  Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Preface- Pre-Islamic Conditions of the Arabs-Part 9 روح اسلام: اسلام سے قبل عیسائی دنیا کی مذہبی اور سماجی حالت

Part: 10- Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit of Islam’: Preface- Pre-Islamic Conditions of the Arabs-Part 10 روح اسلام: ماقبل اسلام عرب کی مذہبی اور سماجی حالت 

Part: 11- Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 1- The Messenger of Allah -Part 11 روح اسلام: پہلا باب پیغمبر اسلام کی ابتدائی زندگی

Part: 12- Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 1- The Prophet’s Life and Prophet-hood -Part 12 روح اسلام: رسول اللہ کی زندگی اور رسالت

Part:-13 - Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit of Islam’: Chapter 1- The Revelation of the Quran and Declaration of Prophethood -Part 13 روح اسلام:نزول وحی کی ابتدا اور اعلان نبوت

Part: 14- Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 1- The Life of The Prophet and His Companions In Early Days of Islam -Part 14 روح اسلام: مکی دور میں رسول اللہ اور صحابہ کی زندگی

Part: 15- Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 1- The Life of The Prophet and His Companions In Early Days of Islam -Part 15 روح اسلام: مکی دور میں رسول اللہ اور صحابہ کی زندگی

Part: 16- Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 2- The Prophet’s Migration Towards Madina Part 16 روح اسلام : دوسرا باب: مدینہ کی طرف رسول اللہ کی ہجرت

URL:  https://www.newageislam.com/books-documents/urdu-ameer-ali-spirit-part-17/d/123233


New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..