سید امیر علی
(قسط ۱۱)
پہلا باب پیغمبر اسلام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور رسالت
بلغ العلیٰ بکمالہٖ کشف الدّجیٰ بجمالہ
حسنت جمیع خصالہ سلّواعلیہ والہٖ
یہ چار مصرعے، جن کا حسن بیان ترجمے کا متحمل نہیں ہوسکتا، اس انسان کی سیرت عالیہ کی توصیف میں کسی مبالغے سے کام نہیں لیتے جس کی زندگی، کارگزاریوں اور تعلیمات کا ذیل کے صفحات میں بیان کرنا ہمیں منظور ہے۔ ساتویں صدی کی ابتدا ہے۔ ایک خاموش اور غور وفکرمیں منہمک شخص، جس کی عمر کا آفتاب نصف النہار سے قدرے تجاوز کرچکا ہے، عربی لبادہ کندھوں پر ڈالے اور طلسیان کو چہرے پر جھکائے اکثر مکّے کے بازار میں سے گزرتا ہوادکھائی دیتا ہے۔ کبھی تو وہ آہستہ آہستہ قد م اٹھا تا ہے اور کبھی تیزتیز،لیکن دونوں صورتوں میں وہ نہ تو آنے جانے والوں کی طرف آنکھ ا ٹھاکر دیکھتا ہے اور نہ اپنے ارد گرد کے لہوولعب کے مناظر کی طرف متوجہ ہوتاہے کیونکہ وہ اپنے ہی خیالات میں مگن رہتاہے۔ اس کے باوجود اگر کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ انسان بھی اسے سلام کرے تو وہ اس کا جواب دینے سے کبھی نہیں چوکتا، او رنہ کبھی وہ ان چھوٹے چھوٹے بچوں سے محبت و شفقت کی دو باتیں کرنے سے دریغ کرتاہے جو بڑے شوق سے آکر اس کے گرد جمع ہوجاتے ہیں۔ یہ ”الامین“ ہے اس نے اپنی زندگی ایسی خود داری اور محنت وریاضت سے گزاری ہے کہ اس کی قوم نے اسے یہ باعزت خطاب دے کررکھا ہے،لیکن اب اس کی عجیب وغریب تعلیم کے باعث اس کے شہر کے لوگ اسے بدگمانی کی نظروں سے دیکھنے لگے ہیں۔ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ ایک دور از کار باتیں سوچنے والا خطبی ہے، ایک انقلاب پسند دیوانہ ہے، جو معاشرے کی قدیم امتیازی حدود فاصل کو ہموار کردینا چاہتا ہے، ان کی پشتینی مراعات ان سے چھین لینا چاہتا ہے اور ان کے قدیم دین ومذہب او ررسم و رواج کوان سے چھڑا دینا چاہتا ہے۔
جس زمانے کایہ ذکر ہے اس زمانے میں مکّہ اپنے تاریخی پس منظر اور اپنی جائے وقوع دونوں کے اعتبار سے عرب کے شہروں میں بڑی اہمیت رکھتا تھا۔ مکہّ ایک نشینی بستی میں واقع تھا، جو شمال سے جنوب کی طرف پھیلتی ہوئی چلی جاتی تھی۔ اس کے مغرب کی جانب پہاڑیوں کا ایک سلسلہ تھا او رمشرق کی جانب سنگ خارا کی اونچی اونچی چٹانیں۔اپنی مرکزی عمارت یعنی کعبہ، اپنے باترتیب اور پتھر کے فرش والے گلی کوچوں،اپنے قلعہ بند مکانوں او راپنے دارالندوہ کی بدولت شہر خوشحالی اور مضبوطی کا ایک غیر معمولی منظر پیش کرتا تھا۔ خانہ کعبہ کی تولیت، جو دراصل اولاد اسماعیل کاموروثی حق تھی، ایل بابل کے حملے کے بعد جرہمیوں کے ہاتھوں میں چلی گئی تھی۔ دینی اور دنیوی اقتدار کے اجتماع نے بنی جرہم کے سرداروں کو یہ درجہ بخش دیا تھا کہ انہوں نے ملک کا لقب اختیار کرلیا تھا۔ تیسری صدی عیسوی کے اوائل میں ایک قحطانی قبیلے نے جس کانام بنی خُزاعہ تھا، یمن سے اٹھ کر مکہ اور حجاز کے جنوبی علاقے پر قبضہ کرلیا تھا او ر بنی جُرہم کے اقتدار کو ختم کردیا تھا۔ اسی مدت میں بنی اسماعیل،جنہوں نے شاہ بابل کے ہاتھوں بے انتہا اذیتیں سہی تھیں، آہستہ آہستہ اپنی سابقہ قوت از سرنو حاصل کررہے تھے۔ خاندان اسمٰعیل کے ایک فرد عدنان نے جن کا زمانہ پہلی صدی قبل مسیح کے لگ بھگ ہے، اپنے جدِّامجد کی طرح جرُہمی سردار کی لڑکی سے شادی کی تھی او رمکّے ہی میں اقامت اختیار کرلی تھی۔ عدنان کے بیٹے معذ حجاز و نجد میں آباد ہونے والے بنی اسماعیل کے مورث اعلیٰ بنے۔ معذ کے ایک جانشین فہر، جن کالقب قریش اور جن کا زمانہ تیسری صدی عیسوی تھا، اس قبیلے کے بانی تھے جس میں عرب کا پیغمبر اور شارع پیدا ہوا۔
بنو خزاعہ دو صدیوں سے کچھ زیادہ مدت تک خانہ کعبہ کے متولی اور اس منصب سے جو بزرگی اور فضیلت کے متعلق تھی اس کے مالک رہے۔بنو خزاعہ کے آخری سردار حلیل کی وفات پر فہر کے ایک جانشین قصی۱؎۔ نے جو حُلیل کے داماد تھے، بنو خزاعہ کو مکّے سے نکال دیا او رشہر کے سارے دینی اوردنیوی اقتدار پر قابض ہوگئے،بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ وہ حقیقی معنو ں میں حجاز۲؎۔ کے حکمران بن گئے۔ اب ہم مصّدقہ تاریخی واقعات کی اقلیم میں داخل ہوتے ہیں۔
معلوم ہوتا ہے کہ قصی پانچویں صدی عیسوی کے لگ بھگ مکّے پر قابض ہوئے۔ انہوں نے فوراً شہر کے نظم و نسق میں باقاعدگی پیداکرنے کی طرف توجہ دی۔ قصی مکی زمانے تک قریش کے مختلف خاندان شہر کے مختلف حصوں میں متفرق طور پر رہا کرتے تھے۔ ان کی آبادیاں کعبہ سے کافی فاصلے پر تھیں، او ران کے دلوں میں کعبہ کاجو انتہائی احترام تھا اس کے باعث و ہ اس کے قرب وجوار میں رہنے سہنے کے مکانات بنانے سے احتراز کرتے تھے۔ اس غیر محفوظ حالت میں ہونے کی وجہ سے قومی معبد جن خطرا ت سے دوچار تھا انہیں محسوس کرکے قصی نے قریش کو اس پر آمادہ کیا کہ وہ کعبے کے آس پاس مقیم ہوجائیں، لیکن اس کے چاروں طرف طواف کے کیلئے کافی جگہ چھوڑدیں۔ جن خاندانوں کو کعبے کے قرب وجوار میں سکونت کے لیے زمین دی گئی انہوں نے اپنے لیے مستحکم قلعہ بندیاں تعمیر کیں۔
قصی نے اپنے لیے ایک محل تعمیر کیا، جس کا دروازہ صحن کعبہ کی طرف کھلتا تھا۔ اس محل کا نام تھا دارالندوہ ۳؎ اور اس میں قصی کے زیر صدارت امور عامہ پر بحث کی جاتی تھی اور ان کے متعلق احکام جاری کئے جاتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ قصی فہر کی پانچویں پشت میں تھے، ان کی پیدائش 398ء کے لگ بھگ ہوئی۔ لفظِ قریش ”قرش“ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں تجارت کرنا۔ فہر اور ان کی اولاد کا پیشہ تجارت تھا۔
۲؎ نبو خزاعہ کاذکر اس کے بعد ہم اس وقت سنتے ہیں جب قریش نے رسول خدا کے خلاف ان سے امداد طلب کی۔
۳؎ یہ عمارت جس کی تعمیر متعدد مرتبہ از سرِ نو ہوئی بالآخر اموی خلیفہ عبدالملک ثانی کے عہد میں ایک مسجد کی شکل میں تبدیل کر دی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس میں چالیس سال سے کم عمر کا کوئی شخص داخل ہونے کا مجاز نہ تھا، البتہ قصی کے جانشین اس شرط سے مستثنیٰ تھے۔ تمام ملکی معاملات کاانصرام اسی دارالندوہ میں کیا جاتا تھا۔ چنانچہ جب قریش کسی جنگی مہم پر روانہ ہونے لگتے تھے تو یہیں انہیں قصی کے ہاتھ سے پرچم جنگ ملتا تھا۔ قصی اپنے ہاتھوں سے ایک نیزے کے سر پرسفید کپڑا باندھ دیتے تھے او رپھر نیزہ یا تو خود قریش سرداروں کے حوالے کردیتے تھے یا اپنے کسی بیٹے کے ہاتھ بھیج دیتے تھے۔ یہ رسم جو منقداللّوا کہلاتی تھی اس وقت سے لے کر جب قصی نے اس کی ابتداء کی عرب سلطنت کے اختتا م تک جاری رہی۔ قصی کا جاری کیا ہوا ایک اور دستور اس سے بھی زیادہ مدت تک قائم رہا۔ انہوں نے قریش پر ان غریب حاجیوں کے لیے جو ہر سال زیارت کعبہ کے لیے آتے تھے کھانے پینے کا انتظام کرنے کی ضرورت واضح کی اور انہیں ان کے فرائض میزبانی جتا کر ایک سالانہ ٹیکس یا چندہ ادا کرنے پر آمادہ کیا، جس کا نام، رفادہ، رکھا گیا اور جو ایام المنی ۱؎ میں غریب زائرین کعبہ کو کھانا کھلانے پر صرف کیا جاتا تھا۔ ایام المنیٰ سے مراد تھی قربانی کا دن اور اس کے بعد کے بعد دودن جو مقام منیٰ پر گزارے جاتے تھے۔ یہ دستور اسلام کی آمد کے بعد بھی جاری رہا۔ خلفا ء اور ان کے بعد سلاطین کے نام پر جوکھانا ہرسال دوران حج مقام مِنیٰ پر تقسیم کیا جاتا تھا اس کی ابتدا اسی سے ہوئی۔ ندوہ، لوااور رفادہ کے الفاظ ان وظائف منصبی پر دلالت کرتے ہیں جو قصی ادا کیا کرتے تھے یعنی قومی مجلس کا انعقاد، اور اس کی صدارت، جھنڈا عطا کرنا جو فوج کی سرداری کا نشان ہوتا تھا اور زائرین حرم کو خوراک مہیا کرنے کے لئے ٹیکس وصول کرنا۔ ان مناصب کے علاوہ چند اور فرائض بھی قصی کے سپرد تھے۔ مثلاً مکے اور اس کے گروہ نواح میں جو کنوئیں تھے ان کے پانی کی تقسیم (سقایہ)، خانہ کعبہ کی کلیدبرداری (حجابہ) اور بتان کعبہ سے استخار ے کی خدمت۔(سنادہ۔ مترجم)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ منِیٰ مکے کی نواح میں ایک مقام کانا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یوں قصی نے تمام بڑے بڑے دینی، ملکی اور سیاسی مناصب اپنی ذات میں مجتمع کر رکھے تھے۔ وہی بادشاہ تھے، وہی منصف اعلیٰ تھے او روہی سے سب سے بڑے مذہبی پیشوا تھے۔ ان کے اقتدار نے، جو تقریباً شاہانہ تھا، قریش کے نام کو جن کے وہ مسلّمہ طور پر سردار تھے، چار چاند لگا دیئے اور انہیں کے زمانے سے قریش نے بنی اسمٰعیل کے دوسرے قبائل پر ایک نمایاں تفوق حاصل کیا۔
قصی نے طویل عمر پائی اور 480ء کے قریب فوت ہوئے۔
انہوں نے اپنی زندگی ہی میں اپنے بڑے بیٹے عبدالّدار کو اپنا جانشین نامزد کردیا تھا۔ چنانچہ ان کی وفات پر عبدالّدار پرُامن طریقے سے او رکسی مزاحمت کے بغیر اپنے باپ کے منصب اعلیٰ پرفائز ہوگئے۔ لیکن عبدالّدار کی وفات پر ان کے پوتوں اور ان کے بھائی عبدمناف کے بیٹوں کے درمیان سخت تنازعات برپا ہوگئے۔مختلف قبیلے اور ان کے حلیف او رہمسائے دو مخالف گروہوں میں تقسیم ہوگئے۔بہر حال ان تنازعات کا عارضی طور پر صحیح صفائی سے فیصلہ ہوگیا۔ مفاہمت اس بنیاد پر ہوئی کہ ”سقایہ“اور رقادہ، کے مناصب عبد مناف کے بیٹے عبدالشمس کو سونپ دیئے جائیں اور حجابہ، ندوہ، اور ”لِوا“عبدالدار کے خاندان ہی میں رہیں۔ عبدالشمس نے جو نسبتاً غریب آدمی تھے وہ مناصب جو ان کے حصے میں آئے تھے اپنے بھائی ہاشم کے حوالے کر دیئے جو عزت وجاہ اور مال و دولت کے لحاظ سے قریش میں بڑی اہمیت رکھتے تھے۔
قصی نے حاجیوں کی مالی اعانت کے لیے قریش پر جو ٹیکس عائد کیا تھا اب اسے ہاشم وصول کرنے لگے۔ اس ذریعے سے جو آمدنی ہوتی تھی اس میں اپنے مال و جنس کو شامل کر کے وہ ان غریب الّدیار لوگوں کے لیے جو ہر سال حج کے موسم میں مکّے میں جمع ہوتے تھے خورد ونوش کا انتظام کرتے تھے۔
اکثر اہل مکّہ کی طرح ہاشم بھی تجارت کرتے تھے۔قریش میں اس دستور کی بنا انہوں نے رکھی تھی کہ مکے سے باقاعدہ طور پر کاروان روانہ کئے جائیں، ایک سرد یوں میں یمن کی طرف اور دوسرا گرمیوں میں شام
کی طرف۔ ہاشم نے شہر غزہ میں 510ء کے قریب وفات پائی، اور اپنی اولاد میں ایک اکلوتا بیٹا چھوڑا، جس کا نام شبیہ تھا اور جو ایک ثیربی خاتون سلمیٰ کے بطن سے تھا۔ ان کے انتقال کے بعد ’رفادہ‘ اور ’سقایہ‘ کے انتظامات ان کے چھوٹے بھائی مطلّب کے ہاتھ آئے جنہوں نے اپنے ہم وطنوں کی نظروں میں بڑی قدر و منزلت حاصل کر رکھی تھی اور جو اپنی بزرگی اور فیاضی کے باعث ’الفیض‘ کے خطاب سے سرفراز تھے۔ مطلّب شیبہ ۱؎ کو یثرب سے مکے لے آئے۔اہل مکہ نے شیبیہ کو غلطی سے مطلب کا غلام سمجھ لیا او رانہیں عبدالمطلب (مطلب کاغلام) کہنے لگا۔ چنانچہ تاریخ پیغمبر اسلام کے دادا عبدالمطلب کے سوا کسی دوسرے نام سے نہیں جانتی ۲؎
مطلّب نے 520ء کے آخر میں یمن کے شہر غزوان میں وفات پائی اور ان کے بعد ان کے بھتیجے عبدالمطلب مکے کی جمہوری ریاست کے سربراہ بنے۔ مکّے کی حکومت اس وقت ارباب اقتدار کی ایک جماعت خواصِ (Oligarchy) کے ہاتھوں میں تھی جو خاندانِ قصی کے سربرآوردہ افراد پر مشتمل تھی۔ جب عبدالمطلب نے چاہِ زمزم کو ازسر نو دریافت کیا اور اس کی نگرانی کے بارے میں جوتنازعات تھے ان کا تصفیہ ہوگیا تو اس وقت جو جماعت برسراقتدار آئی وہ دس افراد پر مشتمل تھی جو ”شریف“ کے لقب سے ملقب تھے، جن کا حق خاندان کے سب سے بڑے رکن یا سربراہ کو پہنچتا تھا۔ یہ عہدے حسب ذیل تھے۔
1۔ حجابہ (سدانہ) خانہ کعبہ کی چابیوں کی نگہداشت، ایک متبرک عہدہ جو اونچا درجہ رکھتا تھا۔ یہ عہدہ خاندان عبدالّدار کے حصہ میں آیا تھا، اور جب اہل مکہ نے اسلام قبول کیا تو اس عہدے پر عثمان بن طلحہ فائز تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ سفید بالوں والا نوجوان۔
۲؎ عبد مناف کے بیٹوں میں سے سب سے پہلے ہاشم نے غزہ میں وفات پائی، اس کے بعد عبدالشمس نے مکے میں، اس کے بعد مطلّب نے غزدان میں اور سب سے اخیر میں نوفل نے مطلّب کے کچھ مدت بعد عراق کے شہر سلمان میں وفات پائی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
2۔ سقایہ:یعنی زمزم کے مقدس کنوؤں کا اور اس تمام پانی کا اجارہ جو حجاج کے استعمال کے لیے مخصوص تھا۔ یہ عہد ہ بنو ہاشم کے خاندان میں تھا اور فتح مکہ کے وقت رسول ؐخدا کے چچا حضرت عباس ؓ اس پر مامور تھے۔
3۔دیات: یعنی دیوانی او رفوجداری عدالت، جو مدّت دراز تک تیم ابن مرّہ کے خاندان میں رہی تھی او رپیغمبر خدا کی بعثت کے وقت عبداللہ ابن قحافہ یعنی حضرت ابوبکر ؓ اس منصب پر فائز تھے۔
4۔سفارۃ یا حکومت کی نمائندگی: جس شخص کے ہاتھوں میں یہ عہدہ ہوتا تھا وہ ریاست کا وکیل مطلق سمجھا جاتا تھا او راسے اس کا پورااختیار حاصل ہوتا تھا کہ قریش اور دوسرے عرب قبائل غیر ملکی لوگوں کے درمیان جو احتلاف رونما ہوجاتے تھے ان کے بارے میں مذاکرے اور تصفیے کرے۔ اس عہد ے پر حضرت عمر ؓ متعین تھے۔
5۔ لِواء۔ یعنی جس جھنڈے کے نیچے جمع ہوکر قوم دشمن سے جنگ کرنے جاتی تھی اس کی محافظت۔ قومی جھنڈے کامحافظ تمام افواج کا سپہ سالار ہوتاتھا۔ یہ فوجی عہدہ خاندان بنو امّیہ میں تھا او راس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بدترین دشمن ابوسفیان حرب قابض تھا۔
6۔ رفادۃ: یعنی اس رقم کا انتظام جو خیرات سے جمع کی جاتی تھی اور جو غریب حجاج کے لیے، عام اس سے کہ وہ مسافرہوں یا مقامی لوگ جنہیں حکومت خدا کے مہمان سمجھتی تھی، کھانے پینے کا انتظام کرنے پر خرچ کی جاتی تھی۔ یہ خدمت، جو ابوطالب کو مطلّب سے ملی، ان کی وفات کے بعد، نوفل بن عبدمناف کے خاندان میں منتقل ہو گئی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں حارث بن عمر اس پر مامور تھے۔
7۔ ندوۃ: یعنی قومی مجلس کی صدارت۔ جو شخص اس عہدے پر مامور ہوتا تھا وہ حکومت کا مشیر اعلیٰ تصور کیاجاتاتھا او رتمام امور سلطنت اسی کے مشورہ سے انجام پاتے تھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہ عہدہ عبدالعزّیٰ بن قصی کے خاندان کے ایک فرد اسود کے قبضے میں تھا۔
8۔خائمہ:۔ یا قبّہ یعنی قومی جلسہ گاہ کی قولیت۔ یہ منصب، جس کے مالک کو یہ حق ہوتا تھا کہ مجلس کو اکٹھا کرے، بلکہ یہ حق بھی ہوتاتھا کہ فوجوں کو جنگ کے لیے جمع کرے، خالد بن ولید کے سپرد تھا جو مخزوم بن مّرہ کے خاندان میں سے تھے۔
9۔ خازنتہ: یعنی بیت المال کا انتظام حسن بن کعب کے خاندان میں تھا اور حارث بن قیس اس پر قابض تھے۔
10۔ ازلام: یعنی ان تیروں کی نگہبانی جو بتو ں سے استخارہ کرنے کے لیے چلائے جاتے تھے۔ یہ عہد ہ ابوسفیان کے بھائی صفوان کے ہاتھوں میں تھا۔
یہ سب عہدے اپنی اپنی جگہ تھے، لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ ایک مسلمہ دستور تھا کہ اشراف میں جو شخص عمر میں سب سے بڑا ہوتا تھا اسے سب سے زیادہ اثر و رسوخ حاصل ہوتا تھا اور اسے رئیس یا سیّد کے خطاب سے پکارا جاتاتھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو یہ مرتبہ حاصل تھا۔
اختیار و اقتدار کی اس تقسیم کے باوجود عبدالمطلب کی ذاتی سیرت او راثر ونفوذ نے انہیں اپنے چشموں میں ایک امتیازی درجہ دے رکھاتھا۔ اس محترم سردار کو جس نے اپنی قوم کے دستور کے مطابق اپنے بیٹے کو اصنامِ کعبہ کے سامنے قربان کرنے کی منّت مانی تھی، خدانے کثیر ۱؎ اولاد بخشی تھی۔ وہ یہ منّت پوری کرنے کے ارادے سے اپنے سب سے پیارے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎۔ عبدالمطلب کے بارہ بیٹے اور چھ بیٹیاں تھیں۔ بیٹوں میں سب سے بڑے حارث تھے، جو 538ء کے قریب پیدا ہوئے۔ دوسرے بیٹے حسب،ذیل تھے۔ عبدالعزّی یا ابولہب،جس نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو ستاحج، عبدمناف جوابوطالب کے نام سے زیادہ مشہور ہیں اور 540ء میں پیدا ہوئے اور 620ء میں انتقال کیا۔زبیر اور عبداللہ جو 545ء میں، فاطمہ بنت عمر و مخزومی کے بطن سے پیدا ہوئے۔ ضرار اور عیاس (566ء تا 652ء) جو نتیبہ کے بطن سے پیدا ہوئے۔ مقّوم،جہم (معروف بہ الغیداق) اور حمزہ جو ہالہ کے بطن سے پیدا ہوئے۔ بیٹیوں میں عاتکہ، اُمیمہ، ارویٰ، برّہ اور اُمّ حکیم (البیفاء) فاطمہ کے بطن سے تھیں۔ سفیہ ہالہ کے بطن سے پیدا ہوئیں اور انہوں نے عوام سے شادی کی جو تاریخ اسلام کے مشہور سپہ سالار عبداللہ ابن زبیر کے دادا تھے۔ عبدالمطلب کہ باقی دو لڑکوں کے نام (باقی حاشیہ صفحہ 80پر دیکھیں)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیٹے عبداللہ کو کعبہ کے سنگدل بتوں کی بھینٹ چرھانے کے لیے لے گئے، لیکن تقدیر کو کچھ اور منظور تھا۔کعبہ کی کاہنہ۱؎ نے انسانی قربانی کو ایک سو اونٹوں کی قربانی میں تبدیل کردیا۔ اس وقت سے قریش میں سو اونٹ ایک آدمی کا خوں بہا مقرر ہوئے۔
عبداللہ کی شادی قبیلہ زہرہ کے سردار وہب کی بیٹی آمنہ سے ہوئی۔ عبداللہ کی شادی سے ایک ایسے سال کاآغاز ہوا جو نہایت اہم واقعات سے مملو تھا۔ سال کے شروع ہی میں ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جس نے ساری قوم میں سنسنی پیداکردی۔یمن کے حبشی نژاد نائب السلطنت ابرہنہ الاشرم نے صنعا میں ایک گرجا تعمیر کیا تھا اور اس کی یہ تمنا تھی کہ اس مال و دولت کو جو کعبے کی حرمت وعظمت مکّے میں کھینچ لائی تھی اپنے شہر میں لے جائے۔اہل مکہ میں سے ایک شخص نے اس کے گرجا کی بے حرمتی کی تھی۔ اس واقعے نے اسے ایک عذر مہیا کردیا۔ چنانچہ وہ ایک زبردست فوج لے کر خانہ کعبہ کو گرانے کے لیے روانہ ہوا۔ وہ خود ایک آراستہ و پیراستہ ہاتھ پر سوار ہوکر فوج کے آگے آگے تھا۔ اس عظیم الج ثہ جانور کو دیکھ کر، جو ایک لشکر جرّارکے درمیان بڑے باوقار انداز سے چل رہا تھا، عرب کے قبائل سے مرعوب ہوئے کہ انہوں نے عام الفیل کے نام سے ایک نئے سن کا آغاز کیا(یہ 570ء کا واقعہ ہے) جب افواج حبشہ قریب آپہنچیں تو قریش اپنے بیوی بچوں کو لے کر قریب کے پہاڑوں میں چلے گئے او روہاں سے واقعات کا مشاہدہ کرتے رہے۔ ان کے دل میں یہ امید تھی کہ خدایان کعبہ خود اپنے مسکن کی حفاظت کریں گے۔ صبح ہوئی تو اہل حبشہ مکّے کی طرف بڑھے۔ روایات کہتی ہیں کہ اس وقت ایک عجیب و غریب واقعہ رونما ہوا۔ یکایک آسمان کی وسعتوں پر چھوٹے چھوٹے پرندوں کا ایک دل بادل چھا گیا۔ یہ ابابیلیں تھیں جنہوں نے اس بدنصیب فوج پرچھوٹی چھوٹی کنکریوں کی بے پناہ بارش شروع کردی۔ ان کنکریوں نے جو آدمیوں کو زر ہوں کو چھیدتی ہوئی ان کے اندر گھس گئیں حملہ آور وں میں ایک دہشتناک تہلکہ مچادیا۔ اس پر طّرہ یہ ہوا کہ آسمان کے روز ن کھل گئے اور بارش کا ایک سیلاب اتر آیا جو مردوں او رنیم جان زخمیوں کوبہا کر سمندر میں لے گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(بقیہ ہاشیہ صفحہ 79) نا معلوم میں غالباً اس لیے کہ انہوں نے کوئی اولاد نہیں چھوڑی (بعض تاریخوں کے مطابق ان کے نام قشم اور حجل تھے۔ مترجم)
۱؎ کاہنہ کا نام سجاع بتایا جاتاہے (مترجم)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابرہنہ زخموں سے چور، صنعا کی طرف بھاگ نکلا اور وہاں پہنچنے کے تھوڑی مدت بعد مرگیا۔ابن ہشام اس خارق عادت واقعے کو بیان کرنے کے بعد لکھتاہے کہ ”یہی وہ سال ہے جب چیچک پہلی دفعہ ملک عرب میں رونما ہوئی۔“ کوسیس واپر سیول (Caussin) (De perceval) لکھتا ہے: ”اس سے معجزہ کی توجیہ ہوجاتی ہے یہ بات آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے کہ ابرہہ کی فوج کی تباہی کسی ایسی ہی خوفناک وبا کا نتیجہ تھی، جیسی سخریب ۱؎ (Sennacherib) کی فوجوں کی ہلاکت کاسبب بنی۔ اس پر مستنراد غالباً بارش کے ان بے پناہ طوفانوں میں سے ایک طوفان تھا جو اکثر وادی مکہ کو خوفناک سیلابوں میں غرق کردیا کرتے تھے۔
اس واقعے کے کچھ مدت بعد عبداللہ نے 25برس کی عمر میں یثرب کے ایک سفرکے دوران وفات پائی۲؎۔ ان کی وفات کے چند روز بعد ان کی غمزدہ بیوی کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام محمد ؐ رکھا گیا۔ حضرت حموؐبارہویں ربیع الاوّل کے دن عام الفیل میں پیدا ہوئے۔ اس وقت انواج حبشہ کی تباہی کو پچاس سے کچھ زیادہ دن گزرچکے تھے۔سن عیسوی کے حساب سے اگست 570ء کی انتیسویں تاریخ تھی ۳؎۔ روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت پر چند ایسی نشانیاں ظاہر ہوئیں جس سے اقوام عالم کو معلوم ہوگیا کہ جس نجات دہندہ کا انہیں انتظار تھا اس کا ظہور ہوگیا ہے۔ عقیدت پرست مورخ لوگوں کے ان نشانیوں پر ایمان لانے کا حال سن کر مسکراتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ اشوریا کا بادشاہ (705سے 681 قبل مسیح (مترجم)
۲؎ وہ عدی کے بیٹوں کے مکان میں دفن کئے گئے جو ان کے ماموں تھے۔
۳؎ کسِریٰ انوشیروان کی حکومت کے چالیسویں سال کے اواخر میں اور سن سلوقسی کے 880ء کے اختتام پر (تاریخ اسلام مصنفہ اکبر شاہ خان نجیب آبادی کے مطابق 22اپریل 571ء۔مترجم)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ عیسائی مناظر جو محض قیاسی استدلال کی بنا ء پر کسی حیل وحجت کے بغیر ان تین سیانوں کی روداد کو قبول کرلیتا ہے جس ایک طلوع ستارے کو دیکھ دیکھ کر حضرت عیسیٰ کی جائے پیدائش تک جا پہنچے تھے، ان خارق غادت نشانیوں کاتذکرہ پڑھ کر ان کا تمسخر اُڑاتا ہے۔ لیکن ایک ایسے شخص کے لیے جو تاریخ پر ناقدانہ نظر ڈالتا ہے، جو اگلے لوگوں کے انداز فکر کو ہمدردانہ طور پر سمجھنے کی کوشش کرتا ہے اور جس کا دل تعصب سے پاک ہے، یہ نشانیاں، جو مسلمانوں کی روایت اور عقیدہ کے مطابق ولادت نبویؐ او رنمودار ہوئیں ایسے امورِ واقعہ کا درجہ رکھتی ہیں جو تاریخی تجزیہ کے مستحق ہیں۔ ہم لوگوں کو، جو جدید زمانے میں پیدا ہوئے اقوام اور افراد کی زندگیوں کے معمول واقعات میں ایک اٹل قانون جاری و ساری دکھائی دیتا ہے پھر اس پر تعجب کیسا کہ آج سے چودہ سو سال پہلے کے لوگوں کو ایک قوم کی یادگار عمارت کے گرنے میں خدا کا ہاتھ اس کے ظلموں اور بدکاریوں کے ناگریزانجام کی طرف اشارہ کرتا ہوا دکھائی دیا۱؎۔ عربوں کے دستور کے مطابق بچے کو شیر خوار گی کے زمانے میں ایک بدوی خاتون (حلیمہ سعدیہ) کے سپرد کر دیا گیا جو ہوازن کی ایک شاخ یعنی بنی سعد کے قبیلے سے تھیں ۲؎۔ جب حلیمہ بچے کو واپس لائیں تو اس کی ماں آمنہ نے بڑی محبت سے اسے پالا پوسا۔لیکن تھوڑی ہی مدت بعد آمنہ وفات پاگئیں اور یتیم کی نگرانی کا ذمہ اس کے دادا عبدالمطلب نے لے لیا۔ عبدالمطلب نے بڑی شفقت سے اپنے پوتے کی دیکھ بھال کی لیکن دادا کی شفقت والدین کی اس محبت کابدل نہ ہوسکتی تھیں جو بچپن کی ایک نعمت غیرمترقبہ ہے۔ والد کاانتقال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے پہلے ہی ہوچکا تھا۔ والدہ بھی چھ سال کی عمر میں داغ مفارقت دے گئیں او ر اس ناقابل تلافی نقصان سے حسّاس بچے کی طبیعت پر بہت گہرا اثر کیا۔ تین چار سال نہ گزرنے پائے تھے کہ دادا کا سایہ عاطفت بھی سر سے اٹھ گیا۔عبدالمطّلب کا انتقال 579ء میں صنعا سے ایک سفر سے واپسی پر ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ غالباً کسریٰ انوشیروان کے محل کے کنگروں کے گرجانے کی طرف اشارہ ہے۔
۲؎ چند سال بعد حلیمہ قریش کے ہاتھوں گرفتار ہوکر مکّے لائی گئیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھتے ہی پہچان لیا۔اور ان کی عمر بھر کی کفالت کا انتظار کردیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہاں وہ قریش کی طرف سے ذوالیزن کے بیٹے سیف کو ایرانیوں کی مدد سے تبابعہ کے تخت پر بیٹھنے کی مبارک باد دینے گئے تھے ۱؎۔
عبدالمطلّب کی وفات کے بعد اس طفلِ یتیم کی زندگی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ عبدالمطلب نے بستر مرگ پر اپنے پوتے کو اس ے چچا ابو طالب کی کفالت میں دیا جن کے گھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کے ابتدائی ایام گزارے۔ ہم چشم تصور سے اس نو عمر بچے کو جس کی گہرے غور و فکر میں ڈوبی ہوئی آنکھیں گویا مستقبل کی گہرائیوں سے اندر جھانک رہی تھیں، اپنے چچا کے غریبانہ اور سیدھے سادے گھر میں چلتا پھرتا یا صحرا میں جاکر حسن فطرت کا مشاہدہ کرتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔یہ پاک طینت طفل صحرا، طبیعت کا شریف، مزاج کاحلیم،دوسروں کے دکھ درد سے متاثر ہونے والا، اس چھوٹے سے گھرانے میں ہرکسی کو عزیز تھا۔ بالخصوص چچا اور بھتیجے میں دلی محبت کا رشتہ تھا۔خدا کے فرشتوں نے اس کا سینہ چاک کر کے نور سے بھردیا۲؎۔“ رسول خدا کی ابتدائی زندگی محنت و مشقّت کے بوجھ سے آزاد نہ تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اکثر اپنے چچا کے گلّوں کی رکھوالی کے لیے صحرا میں جانا پرتا تھا۔ ہاشم اور عبدالمطلب کی شاہانہ صیافتوں کے باعث ان کے ورثا کو بہت کم ترکہ ملا۔ چنانچہ ہاشمی اپنی ناداری کی وجہ سے وہ اختیار و اقتدار جو انہیں کبھی حاصل تھا بڑی تیزی سے کھورہے تھے۔ زائرین حرم کو کھانا کھلانے کا منصب ان کے حریف بنو اُمیہ کے ہاتھوں میں آچکا تھا، جنہوں نے آل ہاشم کو ہمیشہ رشک وحسد کی نگاہوں سے دیکھا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ سقایہ اور رفادہ کے جو دومناصب عبدالمطلب کے پاس تھے ان میں سے سقایہ (زمزم کی نگہبانی کے ساتھ) ان کے بیٹے عباس کے حصہ میں آیا۔ رفادہ کا منصب ابوطالب کو ملاجو مکّے میں بڑے صاحب اختیار و اعتبار تھے۔ لیکن ابو طالب نے رفادہ کامنصب اپنی اولاد کو منتقل نہ کیا۔ ان کی وفات پر یہ نوفل بن عبد مناف کے ہاتھوں میں آیا۔ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کیا تو اس وقت جیساکہ ہم اوپر کہہ آئے ہیں، رفادہ کے فرائض عمر و کے بیٹے اور نوفل کے پوتے حارث کے سپردتھے۔ زینی۔ جلد اوّل صفحہ 14۔
۲؎ سیرت ابن ہشام (مترجم)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت محمد ؐ ابھی کم سن ہی تھے کہ حربِ فجار کی ابتداء ہوئی۔ یہ لڑائی،جس میں قریش اور بنی کنانہ ایک طرف تھے اور قیس عیلان دوسری طرف دوسری طرف، عکاظ کے مقام پرچھڑی اورکئی سالوں تک جاری رہی۔ اس میں جان و مال کا بہت نقصان ہوا۔عکاظ مکے سے تین چھوٹی چھوٹی منزلوں پر طائف اور نخلہ کے درمیان واقع ہے۔ اس مقام پر جو تاریخ عرب میں مشہور ہے، ذوالقعدہ کے مقد س مہینے میں ایک بہت بڑا میلہ لگتا ہے۔ اس موقع پرجنگ کرنا یا غضب میں آکر انسانی خون بہانا ممنوع سمجھاجاتا تھا،گویا یہ ایک قسم کی مذہبی متارکہ جنگ تھا۔ دو اور میلے بھی لگتے تھے، ایک تو مجنہ کے مقام پرجو مکّے سے تھوڑے سے فاصلے پر مّرا نطہران کے قریب واقع ہے۔ اور دوسرا عرفات کے دامن میں ذوالمجاز کے مقام پر۔ لیکن عکاظ کا میلہ ایک بہت بڑی قومی تقریب سمجھاجاتاتھا۔ یہاں اس مقدس مہینے میں، جب تمام قبائلی دشمنیاں اور خانہ جنگیاں عارضی طور پر فراموش کردی جاتی تھیں، عرب کے تمام حصوں سے بلکہ دور دراز ملکوں سے عالمی تجارت کا ایک دریا بہتا ہوا چلا آتا تھا۔ یہاں حجاز اور نجد کے تاجر آتے تھے، صحرا ء کے مبار ز شاعر آتے تھے اور خطیب آتے تھے ء جو اپنے آپ کو خون کا انتقام لینے والوں سے چھپانے کے لیے چہرے پر نقابیں ڈالے ہوتے تھے اور جو ان قوموں سے جو میلوں میں جمع ہوتی تھیں داد وصول کرنے کی خاطر اپنی نظمیں پڑھ کر سناتے تھے۔ عکاظ عرب کا اولمپیا۱؎ تھا۔ یہاں لوگ محض تجارت کی غرض سے نہ آتے تھے بلکہ اپنی قوت وشہامت اور اپنی شان و شوکت کے نغمے گانے اور اپنی شاعرانہ اور ادیبانہ کمالات کے جو ہر دکھانے کے لیے بھی۔ ان کے قصیدے، جو سامعین کے عظیم مجمعوں سے خراج تحسین وصول کرتے تھے، سنہری حرفوں میں قلمبند کئے جاتے او رآنے والی نسلوں کے لیے یادگار کے طور پر قوی صنم کدے یعنی کعبے میں لٹکا دیئے جاتے تھے ۲؎۔ میلے کے ایّام میں عکاظ خوشی او رچہل پہل کا ایک عجیب منظر پیش کرتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ یونان قدیم کا ایک شہر جہاں کھیلوں کے مقابلے ہوا کرتے تھے اور اسی سلسلہ میں ایک بہت بڑا جشن منعقد ہوتا تھا۔(مترجم)
۲؎ اسی مناسبت سے انہیں معلّقات، کانام دیا جاتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی تھا۔ ناچنے والی عورتیں جو اپنے نشاط آدرگیتوں اور قہقہوں اور چہچہوں سے صحراء کے شعلہ مزاج فرزندوں کے جذبات کو بر انگخیتہ کرتی ہوئی خیمہ بہ خیمہ پھرتی تھیں، ادباشوں کے جمگھٹ، جو فنِ موسیقی کی ابجد سے بھی واقف ہوئے بغیر گانے بجانے کے اوٹ پٹانگ مظاہرے کرتے پھرتے، سرِبازار مے نوشیاں جواکثر دنگوں اور خونریزیوں پر ختم ہوتی تھیں جو ُا کھیلنے کے اڈے، جہاں اہل مکہ رات رات بھر جُوا کھیلتے رہتے تھے، شاعروں کی ذاتی چشمکوں کی پیدا کی ہوئی نفرتیں اور دشمنیاں، جوکبھی ہنگامی چپقلشوں اور کبھی مستقل اور تباہ کن لڑائیوں کی صورت اختیار کرلیتیں۔ ان سب باتوں نے تصویر کے دوسرے رخ کو تاریک بنادیا تھا اور انہوں نے آمنہ کے یتیم بچے کے دل پر ایک گہرا نقش ثبت کیا۔
وہ دو قبائلی لڑائیاں جنہیں اس لیے ’حرب الفجار‘ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اس مہینے کی حُرمت شکنی کی جس میں تمام لڑائی جھگڑے ممنوع تھے، ان دو لڑائیوں کے درمیانی وقفے میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچا اور سرپرست کے ہمراہ شام کے تجارتی سفر پر گئے۱؎۔شام میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں نے معاشرتی خستہ حالی اور مذہبی پستی کا ایک ایسا منظر دیکھا جس کی یاد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل و دماغ سے کبھی نہ محو ہوئی۔ اسی طرح خاموشی اور مسکینی کے عالم میں، طرح طرح کے خیالات کی اُدھیڑبن میں مصروف، یہ درّ یتیم بچے سے جو ان اور جوان سے مرد ہوا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ملک کی روایتی معلومات پر تو پورا پورا عبور رکھتے تھے، لیکن جن معنوں میں تعلیم کی اصطلاح جدید زمانے میں استعمال ہوتی ہے، ان معنوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تعلیم یافتہ نہ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی قوم سے محبت تھی،لیکن عادات و خصائل اور انداز فکر اور آپ ؐاپنے ہم قوموں سے بالکل مختلف تھے۔ ایک درہم برہم معاشرے کے درمیاتن تنہا کھڑے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ازکار افتادہ اور زوال یافتہ دور کا متحرک نظارہ غائر نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ ابوطالب اپنے باپ اور دادا کی طرح شام اور یمن کے ساتھ خاصے بڑے پیمانے پر تجارت کرتے تھے۔ وہ دمشق، بصرہ اور شام کے دوسرے شہروں میں حجاز اور ہجری کی کھجوریں اور یمن کے عطرلے جاتے تھے او ران کے بدلے میں باز نطینی اشیاء لاتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اہل مکّہ کی عام بے آئینی عکاظ کے میلے میں آنے والے قبیلوں کے بے وجہ اور خون ریز جھگڑے، قریش کا فسق و فجور اور بے دینی، یہ سب چیزیں قدرتی طور پر اس حساس نوجوان کے دل میں انتہائی نفرت اور کراہت کے جذبات پیدا کرتی تھیں۔
Related Article:
URL: https://www.newageislam.com/books-documents/urdu-ameer-ali-spirit-part-11/d/123000
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism