سید امیر علی
(قسط ۱۱)
پہلا باب پیغمبر اسلام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور رسالت
اپنے عمر کے پچیسویں سال میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر ایک بار شام کا سفرکیا۔ اس دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خاندان کی ایک معزز قریشی خاتون خدیجہ کے مہتمم اور کارندہ کی حیثیت سے ان کامال تجارت لے کر گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس قابلیت اور دیانت داری سے اپنے فرائض کو انجام دیا اس سے خدیجہ بہت متاثر ہوئیں اور اس تاثر نے رفتہ رفتہ محبت کی صورت اختیار کرلی۔ جلد ہی شادی کا انتظام ہوگیا اور شادی پر سارے قریش نے خوشیاں منائیں۔ حضرت خدیجہ ؓ حضرت محمدؐ سے عمر میں بہت بڑی تھیں۔ لیکن اس کے باوجود میاں بیوی انتہا درجہ کی محبت تھی۔ اس شادی کی بدولت ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ دلجمعی اور فارغ البالی حاصل ہوگئی جس کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک محبت کرنے والی عورت کی دلی رفاقت نصیب ہوئی، جو سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پرایمان لائی اور جس نے ہر وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈھارس بندھائی اور جس وقت کوئی شخص آپ ؐ پر یقین نہ لاتا تھا بلکہ خو د آپ ؐ کو اپنے پرکامل یقین نہ تھا، اور دنیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تاریک نظر آتی تھی، اس وقت امید کے جھلماتے ہوئے شعلے کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینے کے اندر زندہ رکھا۔“
خدیجہؓ ایک اعلیٰ شخصیت ہیں اور ان کی زندگی مسلمان عورتوں کے لیے ایک قابل تقلید نمونہ تھی۔ اسلامی شریعت پر جو تہمت باندھی جاتی ہے کہ اس نے عورتوں کے درجہ کو پست کردیا اس کی تغلیظ اس بلند درجہ سے ہوتی ہے جو مسلمانوں کے نزدیک حضرت خدیجہؓ اور رسول ؐخدا کی سب سے چھوٹی بیٹی حضرت فاطمۃ الزھرہؓ کو حاصل ہے۔ خدیجہ ؓ کے بطن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تین بیٹے اور چار بیٹیاں ہوئیں، لیکن بیٹے سب کے سب بچپن ہی میں فوت ہوگئے۔ ان سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑی محبت تھی اور ان کی بے وقت وفات سے آپ ؐ کو بہت صدمہ پہنچا۔ قریش نے بعد میں آنحضرت ؐ کے لیے جو ناشائستہ خطاب ۱؎ تراشا اس کی وجہ تسمیہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹوں کی وفات ہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ الابتر لغوی معنی وم کٹا۔ ثانوی معنی بے اولاد۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیٹیاں بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت بعد تک زندہ رہیں۔ آپ ؐ کی ازدواجی زندگی کے آئندہ پندرہ سال مجاہد ہ و مراقبہ، غور و فکر اور توجہ الی اللہ میں گزرے۔ صرف چند موقعے ایسے تھے جب آپ ؐ اپنی نجی ضروریات یا شہر ی زندگی کے تقاضوں کے تحت اپنے گوشہ ئ خلوت سے باہر آئے۔عبدالمطلب کی وفات کے بعد مکّے کی حکومت کے اختیارات کم و بیش تقسیم ہوچکے تھے۔ تمام اعیان حکومت کا حلقہئ اختیار محدود ہوگیا تھا اور بدل کا ایسا کوئی ارادہ نہ تھاجس کے زیر سایہ افراد اپنے حقوق اور املاک سے پرُ امن طور پر متمتع ہوسکتے۔ خونی رشتوں اور خاندانی یگانگی کی بدولت ہر شہری کسی حد تک نا انصافی اور غارت گری سے محفوظ رہتا تھا، لیکن اجنبی ہر قسم کے جو رد تعّدی کا نشانہ بن سکتے تھے۔ نہ صرف ان کا مال و متاع لوٹ لیا جاتا بلکہ ان کی بیویاں اور بیٹیاں بھی اکثر ان سے چھین لی جاتی تھیں۔ قبیلہ بنی قین کا ایک مشہور شاعر حنظلہ اگرچہ ایک ذی رتبہ قریش عبداللہ ابن جدعان کے زیر حمایت مکے میں آیا لیکن اس کے باوجود سر بازار لُٹ گیا۔ بے آئینی کے ایک اور ایسے ہی واقعے نے ایسی نازک صورت اختیار کرلی کہ اس کا تدارک ضروری ہوگیا۔ چنانچہ آنحضرت ؐ کی تحریک پر بنی ہاشم، بنی مطلّب اور خاندان زہرہ و تیم نے متحد ہوکر معاہدہ کیا کہ تمام افراد کو،چاہے وہ مکّی ہوں یا اجنبی،آزاد ہوں یا غلام، مکے کے حدود کے اندر ہر طرح کے ظلم اور ناانصافی سے محفوظ رکھا جائے گا اور ظالموں کے ہاتھوں ان کے نقصانات کی پوری پوری تلافی کرائی جائے گی۔ فداکاروں کی اس انجمن کا نام بنی جُرہم کی ایک پُرانی انجمن کے نام پر انجمن حلف الفضول، رکھا گیا، جس کے چار ارکان،فضل، فضالہ، مفضّل اور فُضیل مجموعی طور پر فضول کہلاتے تھے۔ یہ انجمن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی کیفوراً بعد، 595ء کے لگ بھگ قائم ہوئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رکن اعلیٰ تھے۔ اس کی بدولت کمزور وں اور مظلوموں کو بڑی حد تک امن و امان نصیب ہوگیا۔ اپنے قیام کے پہلے ہی سال میں اسے اتنا رعب و داب نصیب ہوگیاکہ اس کی طرف سے کسی معاملے میں مداخلت کااشارہ ہی زبردستوں کی بے آئینی کو روکنے اور زبردستوں کے نقصانات کی تلافی کرانے کے لیے کافی ہوتا تھا۔ یہ انجمن تاریخ اسلام کی پہلی نصف صدی کے اختتام تک پوری قوت سے قائم رہی۔ انجمن حلف الفضول کے قیام کے چند سال بعد یعنی ساتویں صدی عیسوی کے آغاز میں عثمان حریرث باز نطینی دولت کے بل بوتے پر حجاز کو رومی سلطنت کا ایک صوبہ بنانے کی کوشش کی۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دخل اندازی کی بدولت یہ منصوبہ ناکام رہا او رعثمان نے بھاگ کر شام میں پناہ لی جہاں بعد میں اسے غسّانی شہزادہ عمر و نے زہر دے کر ہلاک کردیا۔ اسی طرح آنحضرت ؐ نے مختلف خاندانوں کے درمیان جو کعبے کی از سر نو تعمیرمیں مصروف تھے ایک ایسے جھگڑے کا فیصلہ کرادیا جو ممکن تھاکہ ایک خوں ریز جنگ کی صورت اختیار کرلیتا۔ ان پندرہ سالوں میں آنحضرت ؐ کی زندگی کے یہی واقعات ہیں جن کاہمیں علم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حلیم طبیعت، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سیدھا سادہ طریق بود وباش، آپ ؐ کی پاکیزہ زندگی، آپ ؐ کی خودداری، آپؐ کی دیانت و امانت،آپؐ کی فرش ثناسی، ان سب چیزوں نے آپ کو اپنے ہم وطنوں سے ’الامین‘ کابلند اور قابل رشک خطاب دلوایا تھا۔
اسی دورِ زندگی میں آنحضرت ؐ نے اپنے چچا ابو طالب کے احسانات کے بدلے میں ان کے بیٹے علی ؓ کو اپنے زیر تربیت لیا۔ ابوطالب اپنے خاندان کی قدیم حیثیت کو برقرار رکھنے کی کوششو ں کی بدولتبڑی حد تک تنگدست ہوچکے تھے۔آنحضرت ؐ،جو حضرت خدیجہؓ سے نکاح کی بدولت خوشحال تھے، اور ابوطالب کے بھائی حضرت عباس ؓ یہ دونوں اس وقت مکے کے سب سے دولت مند لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔ عرب میں ایک سخت قحط پڑا جس کے دوران آنحضرت ؐ نے اپنے چچا حضرت عباس ؓ کو ابوطالب کے ایک بیٹے کی کفالت قبول کرنے پر آمادہ کیا اور دوسرے کفالت خود قبول کی۔ اس طرح حضرت عباس ؓ نے جعفر کو اور خود آنحضرتؐ نے علیؓ کو اپنی کفالت میں لیا اور عقیل ۱؎ اپنے باپ ہی کے پاس رہے۔ جیسا کہ ہم اوپر کہہ آئے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام بیٹے ابتدائے طفولیت ہی میں وفات پا گئے تھے۔حضرت علی ؓ کی محبت نے ان کے داغِ مفارقت کو مٹا دیا۔ بعد میں آنحضرت ؐ کی سب سے چھوٹی بیٹی فاطمہؓ۲؎ کے ساتھ حضرت علیؓ کے نکاح نے اس رشتہ محبت و مودّت پر مہر ثبت کردی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ ابن ہشام، الحلبی ”انسان العیون“۔ ابن الاثیر۔
۲؎ سن ولادت 606ء
حضرت علی ؓ کے نکاح نے اس رشتہ محبت و مودت پر مہر ثبت کردی۔ انہی دنوں میں آنحضرت ؐ نے رحم دلی اور انسان نوازی کی ایک ایسی مثال قائم کی جس نے اہل مکہ پر بہت اچھا اثر ڈالا۔ایک عرب نوجوان زید بن حارث ایک دشمن قبیلے کے ہاتھوں جنگی اسیر بن کر مکے لایا گیا۔ حضرت خدیجہؓ کے ایک بھتیجے نے اسے خرید کر اپنی پھوپھی کو دے دیا۔ آنحضرت ؐ نے زید کو بطور نذر حضرت خدیجہؓ سے قبو ل کرلیا اور فوراً آزاد کردیا۔ اس رحم و کرم کا صلہ زید نے پوری پوری محبت و عقیدت سے دیا۔ وہ اپنے باپ کے کہنے پر بھی آنحضرت ؐ کو چھوڑ کر اپنے قبیلے میں واپس جانے پر راضی نہ ہوا۔ یوں گزرے آزمائش و امتحان کے یہ پندرہ سال جو بہت سے آلام سے داغدار تھے لیکن ساتھ ہی ساتھ انسانی رنج و محن پر دلسوزی سے بھی منور تھے۔
آپ ؐ کی آنکھوں کے سامنے آپ کاملک خون میں نہا رہا تھا۔ خاندانی جنگوں اور قبائلی دشمنیوں نے اس کے ٹکڑے کردیئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم وطن جہالت میں ڈوبے ہوئے۔فحش رسوم اور اوہام پرستی کے عادی اوراپنے تمام صحرائی اوصاف کے باوجود بے آئین اور سفّاک تھے۔ آپ ؐ نے دو دفعہ شام کا سفر کیا تھااس کے دوران آپ ؐ نے اخلاقی او رمعاشرتی زبوں حالی کا ایک ناگفتہ بہ نظارہ دیکھا تھا۔ حریف مذہب اور فرقے ایک دوسرے کے ٹکڑے اُڑارہے تھے، اپنے جذبات نفرت کو حجاز کی وادیوں اور صحراؤں تک پھیلا رہے تھے اور عرب کے شہروں میں نفاق کا فتنہ برپا کررہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں کے سامنے جو نقشہ تھا وہ انتہا درجہ کا یا س انگیز تھا۔ جو معدودے چند لوگ اپنے قدیم عقائد کو ترک کر کے کسی امن کی تلاش کرتے ہوئے تاریکی میں بھٹکتے پھررہے تھے وہ ایک عالمگیر بے اطمینانی کی نمائندگی کررہے تھے۱؎۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ زید، ورقہ بن نوفل، (حضرت خدیجہؓ کے بھتیجے تھے)اور دو اور اشخاص (عبیداللہ اورعثمان) یہ چار شخص اپنے ہم وطنوں کی بُت پرستی کو ترک کر کے دین برحق کی تلاش میں سرگرداں تھے۔ ان میں زید سب سے سربراہ آور تھے۔ اس سے پیشتر کہ آنحضرت ؐ خدا سے رابطہ قائم کرنے کی (باقی حاشیہ صفحہ 90پر ملاحظہ فرمائیں)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کے ذہنوں میں کوئی ایسی چیز نہ تھی جو ان کے محدود حلقے کے باہر نوع انسانی کے لیے کوئی معنیٰ یا اہمیت رکھتی۔ لیکن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی روح آسمانوں کی رفعتوں کی سیر کررہی تھی اور اس کوشش میں مصروف تھی کہ کائنات، حیات وموت اور خیرو شر کے اسرار کا پردہ فاش کرے اور اپنے ارد گرد کی پراگندگی کے درمیان کوئی نظام دریافت کرے۔خدا نے اپنا جو کلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا اوردنیا کے لیے ایک زندگی بخش قوت بن کر جلوہ گر ہوا۔ نکاح کے بعد کئی سال تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول رہا تھا کہ کبھی تو اہل و عیال کے ساتھ او رکبھی تنہا، کوہِ حرا۱؎ کے ایک غار میں جاکر عبادت و مراقبہ میں منہمک رہتے۔”
کوہِ حرا ایک بہت بڑا بنجر ٹیلہ ہے جس میں بہت سی گھاٹیوں نے شگاف ڈال رکھے ہیں اور جو صحرا ء کی چلچلاتی دھوپ میں اکیلا کھڑا ہے۔ اس میں نہ کہیں کوئی سایہ دار جگہ ہے، نہ کوئی پھول ہیں، نہ کوئی کنوآں ہے نہ کوئی چشمہ“عزت نشینی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت مرغوب ہوگئی تھی۔ غارحرا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر ساری ساری رات عمیق ترین فکر میں ڈوبے کائنات کے ان دیکھے لیکن محیط کل خدا کے حضور میں حاضر رہتے ۲؎۔آہستہ آہستہ زمین و آسمان جلال و جمال الہٰی کے اس الہامی مکاشغے سے لبریز ہوگئے جو روز از ل سے مقدر تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا معلوم ہونے لگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد کی بے جان چیزوں، پتھروں، چٹانوں اور درختوں سے ایک آواز آرہی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کام کی انجام دہی کا تقاضا کررہی ہے جو ایک قدرتِ مطلقہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تفویض کرنا چاہتی ہے۱؎۔
کیا روح کی شعریت اس سے آگے بڑھ سکتی ہے؟ فرشتوں کی جو شکلیں ان لمحات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھائی دیں وہ ان عقائد کو تجریدی جلوہ گریاں تھیں جن کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کو نئی زندگی بخشنے والے تھے۔ مادی زندگی کے تاریک وشب گرفتہ راستوں میں بسااوقات ہر بڑے آدمی کو ایسے غیر مادّی لیکن مرئی اثرات کاروحانی شعور ہواہے جن کی بدولت نوع انسانی کے چند عظیم ترین کارنامے انجام پائے۔ اس قدیم صاحب بصیرت سموئیل سے لے کر، جس کی پرُ جلال شکل ماضی کے دھندلے افق کی دوریوں میں دکھائی دیتی ہے، مسیح علیہ السلام تک جو ویرانہ میں اپنی قوم کی تیوہ بختی او راپنے کام کی عظمت پر فکر و تامّل میں ڈوبا ہوا خدا ئے برحق کے شیریں الفاظ کو سنتا تھا، پھر مسیح سے لے کر غار حرا کے معتکف محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک ان اثرات کی فرمائیوں کا سلسلہ لگار تار چلا آتا ہے۲؎۔
رات کی پرُسکون گھڑیوں میں، صبح کی خاموشیوں میں، تنہا ئی کی گہرائیوں میں جب کوئی ہمدرد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہ ہوتاتھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کونسیم صبح کی دھیمی دھیمی سرگوشیوں کی طرح آسمان سے ایک آواز آتی۔ ”تو ہی وہ انسان ہے، تو ہی خدا کا پیغمبر ہے“۔ یا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خیالات میں ڈوبے ہوئے ہوتے تو آواز گرج کر کہتی: ”بول اپنے رب کے نام پر۳؎۔“ ان ہیجانی لمحوں میں نفس ایک رویائی تصویر آنکھوں کے سامنے کردیتا ہے۔‘ ان کارکنان سمادی کی تصویر جو ربّ السمّوات کے پیغام لاکر اس کے بندگان خاص کو دیتے ہیں ”حق تعالیٰ اپنے پیغمبروں کو منتخب کر لیتا ہے اور ان سے رعد کی کڑک سے بھی بلند آواز میں خطاب کرتا ہے۔“ یہ وہی اندونی آواز ہے جس کے ذریعہ خدا ہم سب سے مخاطب ہوتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ آواز رفتہ رفتہ اتنی دھیمی پڑجائے کہ ہمیں بمشکل سنائی دے۔، ہوسکتا ہے کہ اس کا الہامی لہجہ زائل ہوجائے اور وہ دنیوی زیر کی کی زبان میں گم ہوکر رہ جائے۔ لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ یہ آواز اپنی اصلی صورت میں خدا کے چیدہ وبرگزیدہ بندو ں کے کانوں تک پہنچے او رانہیں آسمانی آواز معلوم ہو۱؎۔“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ ابن ہشام
۲؎ قرآن مجید سورہ فلق۔ابن ہشام صفحہ 153۔ انسان العیون، ازالحلبی۔ جلد اوَل صفحہ 249 ابن الاثیر، جلد دوم صفحہ 34۔
۳؎ مقابلے کے لیے دیکھئے عہد نامہ قدیم لیسعیاہ ب640۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(بقیہ حاشیہ صفحہ 89) غرض سے غار حرا میں معتکف ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات زید سے ہوچکی تھی او رزیدکو بت پرستی سے جو نفرت تھی اس کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں بڑی قدر تھی۔ بعد میں زید کے رشتہ کے ایک بھائی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زید کے حق میں شفاعت کی درخواست کی تو، اگر چہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنے داداعبدالمطلب کے لئے دعائے مغفرت مانگنے پر راضی نہ تھے کیونکہ انہوں نے موت سے پہلے شرک سے توبہ نہیں کی تھی پھر بھی آپ نے زید کے لئے دعائے مغفرت فرمائی (ابن ہشام)
۱؎ کوہِ حرا کو آج کل ”جبل نور“ کہتے ہیں۔ابن ہشام اور ابن الاثیر کا کہنا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عموماً رمضان کامہینہ غار ِ حرا میں جاکر عبادت، غریبوں کی امداد اور بھوکے پیاسے صحرانوردوں کی دستگیری میں صرف کیا کرتے تھے۔لیکن طبری ماہ رجب کا ذکر کرتا ہے۔
۲؎ صحیح بخاری میں اس کے لیے ”تحنّث“ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔(مترجم)
Related Article:
URL: https://www.newageislam.com/books-documents/urdu-ameer-ali-spirit-part-12/d/123011
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism