سید امیر علی
(قسط ۱۴ )
پہلا باب پیغمبر اسلام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور رسالت
اب قریش کے دل میں بہت اندیشہ پیدا ہواکیونکہ آنحضرت ؐ کی تبلیغ ایک خطرناک انقلابی تحریک کا پیش خیمہ معلوم ہوتی تھی۔ ان کا اقتدار و قار خطرہ میں پڑ گیا تھا۔ وہ لوگ ان بتوں کے محافظ تھے جنہیں آپؐ تباہ کردینا چاہتے تھے۔ وہ اس عبادت کے کفیل تھے جسے آنحضرت ؐ بُرا کہتے تھے۔ ان کی ہستی پُرانے اداروں کے قائم رہنے پر منحصر تھی۔ انہیں خوف ہواکہ اگر مبلّغ اسلام کی پیشگوئیاں پوری ہوگئیں تو قبائل عرب میں ان کو جو تفّوق حاصل تھا وہ ختم ہوجائے گا۔ اس نے نئے مبلّغ کا انداز کلام انتہا درجہ کا جمہوری تھا۔ اس کا کہنایہ تھا کہ اس کے خدا کی نگاہوں میں سب انسان برابر ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ سورہ بقرہ 17تا20
۲؎ سورہ نور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پُرانے امتیازات کا ہموار ہوجانا ان کی تمام روایات کے منافی تھا۔ انہیں یہ مساوات قبول نہ تھی کیونکہ یہ ان کی خصوصی مراعات کے حق میں مضر تھی۔ انہوں نے فیصلہ کر لیاکہ اس تحریک کے مزید قوت حاصل کرنے سے پہلے فوری اقدامات کئے جائیں۔
چنانچہ انہوں نے ایذا رسانی ایک منظّم طریقہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن چونکہ وہ انتقام کے قوانین کی خلاف ورزی نہ کرناچاہتے تھے، اس لیے ہر خاندان نے اپنے اپنے حلقہ اثر کے اندر نئے مذہب کو کچلنے کا ذمہ لے لیا۔ ہر خاندان اپنے ان افراد و متعلقین اور غلاموں کو اذیت دیتا جن کے بارے میں یہ شک ہوتا کہ وہ مسلمان ہوگئے ہیں۔ آنحضرت ؐ جنہیں ابوطالب اور ان کے قرابت داروں کی حمایت حاصل تھی، حضرت ابوبکرؓ اور چند دوسرے لوگ جو یا تو خود صاحب مرتبہ تھے یا قریش میں کوئی با رسوخ دوست یا حامی رکھتے تھے کچھ مدت تک فوری جبر وتشدد سے محفوظ رہے، لیکن دوسرے لوگوں کو قید میں ڈال دیا گیا،بھوکا رکھا گیا، اور جسمانی سزائیں دی گئیں۔ رمضا کی پہاڑی اور بطحا یہ دونوں مقام ان بے رحمانہ ایذارسانیوں کامعمل بن گئے ۱؎۔ جو مرد اور عورتیں بُت پرستی کو ترک کر دیتے انہیں صحرا کی جلادینے والی دھوپ میں تپتی ہوئی ریت پر لٹادیا جاتا۔ جب وہ پیاس کی شدت سے جاں بلب ہوجاتے تو انہیں موت سے بچنے کی صرف ایک ہی صورت بتائی جاتی، یعنی بُت پرستی۔بعض لوگ اس کااقرار کرلیتے اور اذیتوں سے چھٹکارا پاتے ہی پھر سے دائرہ اسلام میں داخل ہوجاتے، لیکن اکثر و بیشتر لوگ نہایت، استقلال سے اپنے ایمان پر قائم رہے۔ انہی لوگو ں میں اسلام کے پہلے مؤذن بلالؓ تھے۔ ان کا آقا اُمیہ بن خلف ہنو روز انہیں ٹھیک دو پہر کے وقت بطحا لے جاتا۔ وہاں ان کی پیٹھ ننگے کر کے اور ان کا منہ سورج کی طرف کر کے لٹا دیتا اور ان کے سینے پر پتھر کی چٹان رکھ کر کہتا ”تو اسی حال میں رہے گا جب تک یا تو تیری جان نہ نکل جائے یا تو اسلام سے توبہ نہ کرے،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ ابن الاثیر جلد دوم۔ابن ہشام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”لیکن بلال ؓ اس بھاری بوجھ کے نیچے پیاس سے جاں بلب لیٹے ہوئے بھی”اَحد،اَحد“ کے سوا کوئی جواب نہ دیتے۔ یہ سزا کئی دنوں تک جاری رہی اور بے چارے بلالؓ موت کے کنارے تک پہنچ چکے تھے کہ حضرت ابوبکر ؓ نے انہیں خرید کر ان کی جان بچائی (حضرت ابوبکرؓ اس سے پہلے بھی ایسے ہی چھ غلام آزاد کراچکے تھے) یا سرؓ او اس کی بیوی سمّیہ ؓ کو ایسے ہی درناک عذابوں کے ساتھ ہلاک کردیا گیا، اور ان کے بیٹے عمارؓ کوخوفناک اذیتیں پہنچائی گئیں۔آنحضرتؐ نے کئی مرتبہ اپنی آنکھوں سے اپنے متبعین کی اذیتیوں کو دیکھا، جو ایسے صبر و تحمل سے برداشت کی گئیں جو راہِ حق میں شہید ہونے والوں کو زیب دیتا تھا۔ اسلام کی ابتدائی تاریخ اسی طرح کے لاتعداد شہیدوں کی داستانوں سے رنگین ہے۱؎۔
جس طرح فریسیوں نے حضرت عیسیٰؑ کو تحریصوں سے آزما یا تھا اسی طرح قریش آنحضرتؐ کو جاوہئ فرض سے منحرف کرنے کی خاطر دنیوی جاہ وحشم کی ترغیبیں دلاتے۔ مورخ لکھتا ہے کہ ایک دن آپؐ کعبہ میں مخالف سرداروں کے مجمع سے الگ بیٹھے تھے کہ ان میں سے ایک یعنی عتبہ بن ربیعہ، جو دوسروں کی بہ نسبت متعدل مزاج تھا، آپ ؐکے پاس آیا اور بولا ”اے میرے بھائی کے بیٹے تو اپنے اوصاف اورحسب و نسب کی بدولت ہم سب میں ممتاز ہے، لیکن تو نے ہمارے درمیان افتراق کا بیج بودیا ہے، اور خاندانوں میں پھوٹ ڈال دی ہے۔ تو ہمارے دیوتاؤں اور دیویوں کوبُرا کہتا ہے اور ہمارے آباؤ اجداد پر ناپاکی تہمت دھرتا ہے۔ ہم تیرے پاس ایک تجویز لے کر آئے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ مثلاً خبیب ؓ بن عدی جنہیں دغا باز انہ طور پر قریش کے ہاتھ بیچ دیا گیا۔ قریش نے جیتے جی ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے اور ان کے گوشت کو بوٹی بوٹی کر ڈالا۔ جب انہیں یہ عذاب دیا جارہا تھا تو کسی نے ان سے پوچھا۔”خبیب ؓ کیا تم نہیں چاہتے کہ محمدؐ تمہاری بجائے اس حالت میں ہوتا؟ انہوں نے جواب دیا۔”واللہ! میں اپنی بیوی بچوں اورمال و دولت کی اتنی قیمت بھی ادا کرنے کو تیار نہیں کہ رسولؐاللہ کے ایک کانٹابھی چبھ جائے“۔
نوٹ، بعض مورخین اس گفتگو کو زیدؓ ابن الدّثنہ سے منسوب کرتے ہیں۔ شبلی سیرۃ النبی جلد اوّل 393۔مترجم)اس میں تیرے لیے بھلائی ہے یا نہیں“۔ آنحضرت ؐ نے فرمایا۔”بولو ابوولید، میں سن رہاہوں۔“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اچھی طرح سوچ کر دیکھ لے کہ عتبہ نے کہا،”تو جو کچھ کررہا ہے اگر اس سے تیرا مقصد دولت پیداکرنا ہے تو ہم تیرے لیے اتنی دولت جمع کردیں گے کہ تو ہم میں سب سے امیر ہوجائے گا۔ اگرتجھے عزت و حشمت کی خواہش ہے تو ہم تجھے اپنا سردار بتالیں گے اور تیرے حکم کے بغیر کوئی کام نہیں کریں گے، اگرتجھے مملکت کی خواہش ہے تو ہم تجھے بادشاہ بنالیں گے اور اگر تو آسیب میں مبتلا ہے تو ہم طبیبوں کو بلائیں گے اور وہ تیرے علاج کیلئے جتنی دولت چاہیں اتنی دولت انہیں دیں گے“۔ جب عتبہ اپنی بات ختم کر چکا تو رسول ؐخدا نے پوچھا ”ابوولید! تمہیں جو کچھ کہنا تھا کہہ چکے؟“ عتبہ نے جواب دیا ”ہاں“ آنحضرت ؐ نے کہا ”تو اب میری بات سنو۔ میں شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو رحمٰن و رحیم ہے۔ یہ کلام اس رحمٰن ورحیم کی طرف سے نازل کیا جاتا ہے۔ یہ ایک کتاب ہے جس کی آیتیں صاف صاف بیان کی گئی ہیں۔ یعنی ایسا قرآن ہے جوعربی زبان میں ہے اور ایسے لوگوں کی ہدایت کے لیے ہے جو دانشمند ہیں۔ اس میں سمجھنے والوں کے لیے بشار تیں ہیں اور نہ سمجھنے والوں کے لیے تنبیہیں۔لیکن اکثر لوگ اس سے منہ پھیر لیتے ہیں اور اس پر کان نہیں دھرتے او رکہتے ہیں۔”جس بات کی طرف تو ہمیں بلاتا ہے وہ ہماے دل کو نہیں لگتی“ ہمارے کانوں میں ڈاٹ لگی ہوئی ہے اور تیرے اور ہمارے درمیان ایک پردہ ہے، اس لیے تو اپنی سی کئے جائیں کہ دے ان سے کہ میں تمہیں جیسا آدمی ہوں، مگر مجھ پر وحی آئی ہے کہ تمہارا خدا بس ایک خدا کے ہے اور اس لیے سیدھے اس کی طرف جاؤ اور اسی سے معافی مانگو۔ بد بخت ہیں وہ مشترک جو زکوٰۃ نہیں دیتے اور آخرت میں ایسا اجر ہے جو کبھی ختم نہ ہوگا“۔ (رحمٰ السجدہ 1تا8) جب آنحضرتؐ ان آیات کی تلاوت ختم کرچکے تو آپؐ نے عتبہ سے کہا ”تم نے سن لیا؟ اب جو راستہ تم بہتر سمجھو وہ اختیار کرو۱؎“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ ابن ہشام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے متبعین کی تکلیفیں دیکھ کر جن کی حالت روز بروز بد سے بدتر ہوتی چلی جارہی تھی،آپؐ کو بے حد رنج ہوتا۔ اس لیے آپؐ نے انہیں ہدایت کی کہ وہ قریب کی عیسائی سلطنت حبشہ میں، جہاں ایک خدا ترس بادشاہ حکومت کرتاتھا، جاکر اس وقت تک پناہ لیں جب تک کہ خدا ئے تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے قریش کے جذبات کو تبدیل نہ کردے۔آپؐ نے اس عیسائی بادشاہ کی نیکو کار ی، رواداری اور مہمان نوازی کے تذکرے سن رکھے تھے اور آپ ؐ کو یقین تھا کہ وہ ان کے ساتھ مدارات سے پیش آئے گا۔
پندرہ لوگوں نے اس ہدایت پر فوراً عمل کیااور نجاشی کے ملک کو ہجرت کر گئے۔تاریخ اسلام میں یہ پہلی ہجرت کہلاتی ہے اور وہ بعثت نبویؐ کے پانچویں سال (615ء) میں واقع ہوئی،راہ حق کے بہت سے دوسرے جاں باز بہت جلد ان لوگوں سے جا ملے، یہاں تک کہ مردوں کی تعداد 83تک اور عورتوں کی 18تک پہنچ گئی۲؎۔ لیکن قریش کی اَنتھک مخالف نے وہاں بھی ان کا پیچھانہ چھوڑا۔ وہ اپنے شکار کے ہاتھ سے نکل جانے پر جھنجھلااُٹھے چنانچہ انہوں نے نجاشی کے دربار میں جاکر یہ مطالبہ کیا کہ مہاجرین کو ان کے حوالے کر دیاجائے تاکہ وہ انہیں موت کے گھات اتار دیں۔ انہوں نے مہاجرین پر جو الزام لگائے ان میں سب سے بڑاالزام یہ تھا کہ انہوں نے اپنے آبائی مذہب کو ترک اور نئے مذہب کو اختیار کیا تھا۔ نجاشی نے مہاجرین کو بلایا اور ان سے پوچھا کہ آیاان کے دشمنوں کاکہنادرست ہے، اس نے دریافت کیا ”وہ کون سامذہب ہے جس کی خاطر تم لوگوں نے اپنا پُرانامذہب ترک کردیا اور اس کی بجائے نہ میرامذہب اورنہ کسی اور قوم کامذہب اختیار کیاہے؟“ حضرت علیؓ کے بھائی جعفر ابوطالب نے جو مہاجر ین کی نمائندگی کررہے تھے،ذیل کے الفاظ میں جواب دیا،”اے بادشاہ ہم لوگ جہالت اور بربریت میں ڈوبے ہوئے تھے، ہم بتو ں کو پوجتے تھے،ناپاکی کی زندگی بسر کرتے تھے، مرُدار کھاتے تھے اور فحش باتیں کرتے تھے۔ انسانیت کے تمام احساسات ہم میں مفقود ہوچکے تھے او رہم مہمان نوازی کے فرائض اور حقوق ہمسائیگی کو فراموش کرچکے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ ابن ہشام۔ابن الاثیر۔ابوالغداء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم طاقت کے سوا کسی قانون کو نہ مانتے تھے۔ ایسے میں خدائے تعالیٰ نے ہم میں سے ایک ایساانسان پیدا کیا جس کی شرافت نسب، راست بازی، امانت داری اور پاکیزگی سے ہم سب واقف تھے۔ اس نے ہمیں خدا کی وحدانیت کی طرف دعوت دی اور ہمیں یہ سکھایا کہ کسی کو اس کا شریک نہ بنائیں ۱؎،اس نے ہمیں بت پرستی سے منع کیا اور ہمیں یہ ہدایت کی کہ سچ بولیں، اپنے وعدوں کو پورا کریں، صلہئ رحمی کا طریقہ اختیارکریں اور اپنے ہمسایو ں کے حقوق کا احترام کریں۔ اس نے ہمیں عورتوں کے بارے میں بُری بُری باتیں کرنے اور یتیموں کامال کھانے سے باز رکھا۔ اس نے ہمیں بُرائیو ں سے دور رہنے، خرابیوں سے بچنے، نمازادا کرنے، زکوٰۃ دینے اور روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ ہم اس پر ایمان لائے ہیں او رہم نے اس کی اس ہدایت و تعلیم کو قبول کیا ہے کہ ہم صرف خدا کی عبادت کریں اور کسی دوسری ہستی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں۔ ان وجود کی بناء پر ہماری قوم کے لوگ ہمارے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اورانہوں نے ہمیں اس پر مجبور کرنے کے لیے کہ ہم خدائے واحد کی عبادت سے رو گرواں ہوکر لکڑی اور پتھر کے بنے ہوئے بتوں کی پوجا اور اس طرح کی دوسری مکروہات کی طرف لوٹ جائیں۔ انہوں نے ہمیں اس حد تک دکھ پہنچائے ہیں اور اذیتیں دی ہیں کہ ہم ان سے تنگ آکر تیرے ملک میں پناہ گزین ہوئے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ تو ہمیں ان کے ظلم و ستم سے محفوظ رکھے گا۲؎۔“
نجاشی نے قریش کے مطالبات رد کردیئے اور ان کے ایلچی ناکام و نامراد مکّے کو واپس چلے گئے۔
جس زمانے میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین دوسرے ممالک میں دشمنوں کے ظلم و ستم سے پناہ ڈھونڈرہے تھے۔آپؐ خود ہر طرح کی توہین و تحقیر کے باوجود نہایت ہمت واستقلال سے سرگرم تبلیغ تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ بت پرستو ں کو قرآن میں تقریباً ہرجگہ مشرکین کے لقب سے پکارا گیا ہے کیونکہ وہ دوسری ہستیوں کو خدا کا شریک گردانتے تھے۔
۲؎ پیغمبر اسلامؐ کے کارناموں اور تعلیمات کاکیا اس سے بہتر کوئی خلاصہ ہوسکتا ہے؟ابن الاثیر، ابن ہشام۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قریش پھر ایک بار جاہ ودولت کی پیشکش لے کر آپؐ کو جادہ فرض سے منحرف کرنے کی خاطر آپؐ کے پاس آئے۔ آپؐ نے پھر ویسا ہی جوش ایمان سے پرُ جواب دے کر انہیں لوٹا دیا،”مجھے نہ مال و دولت کی خواہش ہے، نہ شوکت و مملکت کی ہوس۔ مجھے خدا نے بھیجا ہے تاکہ تمہیں بشارت دوں۔ میں تمہیں خداکا کلام سناتا ہوں اور تمہیں نصیحت کرتا ہوں۔ اگر تم وہ پیغام قبول کرو جو میں لایا ہوں گو خدا تم پراس دنیا میں اور دوسری دنیا میں مہربان ہوگا۔ اگر تم میری نصیحتو ں کو رَد کردو و میں صبر سے کام لوں گا اور اس کو خدا پر چھوڑ دوں گا کہ میرے اور تمہارے درمیان فیصلہ کرے۔“ قریش نے آنحضرتؐ کی باتوں کو تمسخر میں اُڑا دیا اور ٹیڑھے میڑھے سوالوں سے آپؐ کی تعلیمات کو باطل ثابت کرنے کی کوشش کی۱؎۔ لیکن آپؐ کا سیدھا سادا اور اٹل ایمان باللہ قریش کے مادہئ پرستانہ تشکّک پر غالب رہا۔ انہوں نے آپؐ سے مطالبہ کیا کہ آپؐ زمین پھاڑ کر چشمے اور دریا جاری کردیں،آسمان کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے ان کے اوپر گرادیں،اپنے لیے سونے کاایک گھر بنا کر کھڑا کردیں یا سیڑھی لگا کر آسمان پر چڑھ جائیں۔ (بنی اسرائیل 90تا 93) یہ وہی حضرت عیسیٰ والے پُرانے قصّے کا احادہ تھا، فرق صرف اتنا تھا کہ حضرت عیسیٰؑ سے خود ان کے پیرو تقاضا کرتے تھے کہ وہ اپنی رسالتؐ کی سچائی ثابت کرنے کے لیے معجزے دکھائیں۔پروفیسر مومری (Momerie) کاکہناہے: ”حضرت عیسیٰؑ کے حواریوں نے ان کو اور ان کے کام کو کبھی نہ سمجھا۔ وہ ان سے یہی مطالبے کرتے رہے کہ وہ آسمان سے آگ برسائیں، یہودیوں کا بادشاہ ہونے کا اعلان کریں اور ان لوگوں کو اپنے تخت کے دائیں بائیں بٹھائیں۔ وہ ان کے آسمانی باپ کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ آپؐ سے ایسے ایسے کام کرانا اور خود ایسے کام کرناچاہتے تھے جو ان کے عظیم الشان منصوبے سے کوئی مطابقت نہ رکھتے تھے۔ یہ لوگ حضرت عیسیٰؑ سے اخیر تک ایسا ہی سلوک کرتے رہے اور جب ان کا انجام آپہنچا تو انہیں اکیلا چھوڑ کر بھاگ گئے“۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ ابن ہشام۔ایک عیسائی مورخ بُت پرستو ں کی موشگافیوں کا تذکرہ بڑا لطف لے لے کر کرتا ہے۔
ملاحظہ کیجئے:Osborn, Islam Under the Arab
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان غیر مطمئن اور ڈھلمل یقین لوگو ں کو جو خارق عادت کرشموں کی خواہش میں قریش سے کسی طرح کم نہ تھے اور جنہوں نے حضرت عیسیٰؑ کی قابل احترام ہستی کو ایک ایسی دھند میں مستور کردیا جس کا پردہ جدید عینیت پرست عیسائیت بھی ان کے چہرے سے نہیں ہٹا سکی حضرت عیسیٰؑ کبھی نرمی سے اور کبھی غصہ سے یہ جواب دیا کرتے تھے کہ صرف بدکار اور شہوت پرست لوگ نشانیاں طلب کرتے ہیں،اور وہ انہیں نشانیاں دکھانے سے انکار کردیا کرتے تھے، کیونکہ جولوگ حضرت موسیٰؑ اور دوسرے پیغمبر وں پر ایمان نہیں لائے وہ اس صورت میں بھی توبہ نہیں کریں گے کہ کوئی پیغمبر مُردوں میں سے اٹھ کر ان کے سامنے آجائے ۱؎۔
رسول عربیؐ کے متبعین اس بارے میں لائق تحسین ہیں کہ انہوں نے کبھی اپنے آقا سے معجزوں کی فرمائش نہیں کی۔ وہ سب سے سب، عالم ہوں کہ تاجریا سپاہی، صرف آپؐ کی تعلیمات کی اخلاقی شہادتوں پر نظر رکھتے تھے۔ وہ اپنے تمام دنیاوی مفادات اور اپنی تمام دنیاوی امیدوں کو قربان کرکے، اپنے بے یارو مددگار معلّم کے گرد جمع ہوگئے اور زندگی اور موت میں آپؐ کی انسانی شخصیت کے ساتھ ایسی وفاداری و جاں نثاری سے وابستہ رہے جس کی مثال دنیا کی تاریخ میں ڈھونڈھنے سے نہیں ملتی۔
ایک ایسے زمانہ میں جب معجزے آئے دن کے واقعات سمجھے جاتے تھے جنہیں کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ بزرگ بھی ایک اشارہ سے رونما کرسکتا تھا او رجب صرف عرب ہی میں نہیں بلکہ ان ہمسایہ ممالک میں بھی جہاں تہذیب زیادہ ترقی کر چکی تھی، ساری فضا مافوق العادات سے معمور تھی، عقلیت کا یہ عظیم علمبر دار معجزوں کامطالبہ کرنے والے کفّار کو بلا تامل جواب دیتاہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ قدامت پرست عیسائیت کا یہ عقیدہ تھا اور اب بھی ہے کہ حضرت عیسیٰؑ کے معجزے ان کی الوہیت کی دلیل تھے۔ جدید عیسائیت معجزوں کے لیے Aberglaube کا لفظ استعمال کرتی۔ جیسا کہ Literature and Dogma کا مصنّف کہتا ہے، ایک نہ ایک دن معجزوں پر یقین اُٹھ جائے گا اور دین میں معجزوں کی جو روایات ہیں وہ مشرقی اور مغربی قصے کہانیوں میں شامل ہوکر رہ جائیں گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”خدانے مجھے کرشمے دکھانے کے لئے نہیں بھیجا، اس نے مجھے تمہاری ہدایت کے لیے بھیجا ہے۔ قابل تعریف ہے میرا پروردگار! کیا میں ایک پیغام لانے والے انسان کے سوا اور بھی کچھ ہوں؟۔۔۔۔۔ فرشتے زمین پرآباد نہیں، ورنہ خدا کسی فرشتے کو تمہارے پاس پیغمبر بناکر بھیجتا (بنی اسرائیل 95-94-93)۔۔۔ میں نے کبھی دعویٰ نہیں کیاکہ خدا کے خزانے میرے قبضے میں ہیں یا مجھے غیب کا علم ہے یا میں کوئی فرشتہ ہوں۔“
”میں خود اپنی ذات کے لیے کسی نفع و منرر کا اختیار نہیں رکھتا، مگر اسی حد تک کہ اللہ تعالیٰ چاہئے۔”(الاعراف 188)ان باتوں میں نہ کوئی غیر معمولی دعا ہے، نہ کوئی منالغہ آمیزی ہے، نہ اپنی سیرت یا شخصیت کر ساحرانہ کشش سے آراستہ کرنے کی کوشش ہے۔“ میں صرف خدا کے کلام کا مبلّغ اور بنی نوع انسان کو خدا کا پیغام دینے والا ہوں۔“ بار بار آپؐ اسی کا اعادہ کرتے ہیں۔اوّل سے آخر تک آپؐ کے منہ سے کوئی ایسا کلمہ نہیں نکلتا جس کو ”اس پر محمول کیا جاسکے کہ آپؐ انسانو ں سے اپنی پرستش کامطالبہ کرتے ہیں ۱؎“ اوّل سے آخر تک آپؐ کے کلام میں ایک غیر مبدّل متانت ہے جو زمانے او رماحول کو ملحوظ رکھتے ہوئے او ربھی حیرت انگیز معلوم ہوتی ہے۔اوّل سے آخر تک آپؐ کاکلام اپنے خالق کے حضور میں ایک سیدھے سادے اور عمیق عجزوانکسار سے پُرہے۔ آپؐ کے جذبات اپنے عروج کے لمحوں میں بھی عاجزانہ شکر گزاری کے جذبات ہیں:۔
”میں شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو رحمٰن و رحیم ہے۔ جو چیزیں بھی آسمانوں اور زمین میں ہیں سب اللہ کی تسبیح کرتی ہیں، جو بادشاہ ہے، عیبوں سے پاک ہے، زبردست ہے، حکمت والا ہے۔ وہی ہے جس نے عرب کے ناخواندہ لوگوں میں سے ایک پیغمبر بھیجا جو ان کو اللہ کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو (عقائد باطلہ اور اخلاق ذمیمہ سے) پاک کرتا ہے،اور انہیں کتاب الہٰی اور دانشمندی سکھاتا ہے، ورنہ اس سے پہلے یہ صریح گمراہی میں مبتلا تھے۔۔ یہ خدا کافضل ہے، وہ فضل جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے“۔ (الجمعۃ 1تا4)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ پروفیسر مومری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Related Article:
URL: https://www.newageislam.com/books-documents/urdu-ameer-ali-spirit-part-14/d/123073
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism